• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بری موت کے اَسباب اور اس سے بچاؤ

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
مسلمان بھائیو!
یہ برے خاتمہ کے چند موٹے موٹے اسباب ہیں اور میں اپنے آپ کو اور آپ سب کو اس بارے میں توجہ دلاتا ہوں کہ یہ اسباب کہیں ہم میں نہ ہوں۔ ہر ایک کو ا س چیز کی تیاری کر نی چاہئے جو اس کے لئے بہتر ہے اور ’’عنقریب کروں گا ‘‘ کہنے سے بچنے کی ضرورت ہے ۔عمر تھوڑی ہے، تیرا ہر سانس تجھے تیرے خاتمہ کی طرف بلا رہا ہے ، ممکن ہے کہ تیری روح اسی حالت میں قبض کر لی جائے کہ تجھے اپنی زندگی سنوارنے کاموقع نہ ملے ۔ یاد رہے کہ جس حالت میںانسان مرے گا، اسی پر اٹھایا جائے گا اور انجام کا وقت آنے والا ہے ۔بعض لوگوں کے برے انجام کو یاد کرکے عبرت پکڑنی چاہئے شاید کہ گزرے واقعات سے سبق حاصل ہوجائے کیونکہ ان میں کان لگاکر اللہ کی باتیں سننے اور دل والے کے لئے عبرت اور نصیحت ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
برے انجام کی چند مثالیں
برے انجام کا پتہ دینے والی علامتیں تو بہت زیادہ ہیں جن میں بعض بیماری یا تکلیف کے دوران ظاہر ہوجاتی ہیں اور آدمی اللہ کی تقدیر پر ناراض ہوتا یا اعتراض کرنے لگتا ہے۔ بعض اوقات آدمی قریب المرگ ہوکر ایسی گفتگو کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب بن جاتی ہے یا اسے کلمہ شہادت پڑھنے میں مشکل پیش آتی ہے ۔بعض دفعہ میت کو غسل دیتے وقت اس پر برے خاتمے کی علامت ظاہر ہوتی ہے ۔رنگت وغیرہ تبدیل ہو جاتی ہے ۔ بعض دفعہ قبر میں اتارتے وقت اور بعض دفعہ دفن کرنے کے بعد انسان پر برے خاتمہ کی علامتیں نظر آجاتی ہیں۔ ہم نصیحت اور عبرت کے لئے چند ایسے واقعات کا ذکر کریں گے جن میں برے خاتمہ کی کوئی علامت پائی جاتی ہو:
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
٭ ٭​
حافظ ابن رجب حنبلی بیان کرتے ہیں کہ عبدالعزیز بن روّاد نے کہا کہ
میں ایک قریب المرگ آدمی کے پاس گیا کہ اسے کلمہ شہادت پڑھنے کی تلقین کروں۔ اس قریب المرگ آدمی نے کہا کہ جو کچھ تو کہہ رہا ہے، میں اس کا انکار کرتا ہوں اوراسی حالت میں وہ مر گیا۔ عبدالعزیز بن رواد کہتے ہیں کہ میں نے اس کے متعلق لوگوں سے سوال کیا تو مجھے بتایا گیا کہ یہ آدمی شراب پیتا تھا ۔ عبدالعزیز کہا کرتے تھے کہ گناہوں سے بچو۔ کیونکہ گناہوں کے سبب ہی اس آدمی نے کلمہ شہادت پڑھنے سے انکا رکیا ـ۔
٭ ٭​
کئی سال پہلے سعودی عرب کے صوبہ قَصِیم میں ایک واقعہ پیش آیا تھا۔ جس کی بازگشت اخبارات میں بھی سنی گئی۔
اس خبر کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک آدمی نے قریب المرگ حالت میں اپنے اللہ تعالیٰ پر اپنی بیماری کی وجہ سے اعتراض کیا۔ ا س کے ساتھ مسجد میں نماز پڑھنے والے اس کے بعض دوست آئے ،انہوں نے اس سے کہا: یہ وہ قرآن ہے جسے تو پڑھتا تھا، اپنے اللہ سے ڈر اور اسے کلمہ شہادت پڑھنے کی تلقین کرنے لگے۔ وہ قریب المرگ آدمی کہنے لگا: نہ میں قرآن کو مانتا ہوں اور نہ کلمہ شہادت کو جانتا ہوں اور وہ اسی حالت میں فوت ہوگیا ۔
ہم اللہ سے اس ذلت و رسوائی کی پناہ مانگتے ہیں۔
٭ ٭​
ابن ابی الدنیا کہتے ہیں کہ مجھے ابوالحسن بن احمد فقیہ نے بیان کیا کہ
ہمارے پاس ایک آدمی تھا جب اسے موت آنے لگی تو اس سے کہا گیا کہ تم اللہ تعالیٰ سے استغفار کرو۔ وہ کہنے لگا مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔ پھراس سے کہا گیاکہ تم لا الہ الا اللہ پڑھ لو، وہ کہنے لگا کہ مجھے ا س کی بھی ضرورت نہیں ہے۔
میں نے لوگوں سے سنا کہ وہ آدمی بہت بڑا عبادت گزار اور روزے رکھنے والا تھا۔ ا س پر بڑی تکلیف آئی اور وہ فتنے میں مبتلاہوگیا۔ میں نے اس سے سنا: وہ کہہ رہا تھا کہ مجھے جن آزمائشوں میں مبتلا کیا گیا ہے ،ان کے بدلے اگر اللہ مجھے جنت دے دے تو ان کا بدلہ وہ جنت بھی نہیں ہے اور پھر وہ کہنے لگا: اس تکلیف سے بڑی تکلیف اور کیا ہوسکتی ہے اور اگر یہ عذاب نہیں تو پھر عذاب سے کیا مراد ہے؟…
یہ واقعہ بھی برے خاتمہ پر دلالت کرتا ہے ۔
٭ ٭​
اسی طرح میت کو غسل دیتے وقت ظاہر ہونے والی بری علامات بھی بے شمار ہیں جن میں سے ایک کو شیخ قحطانی نے اپنے خطاب میں بیان کیا کہ میں فوت شدگان کو غسل دیا کرتا تھا۔ ا ن میں سے بعض افراد کا رنگ نہایت سیاہ ہوجاتا ہے اور بعض کا دایاں ہاتھ قبض ہوجاتا اور بعض کا ہاتھ اس کی دُبر میں داخل ہوجاتا اور بعض کی دبر سے نہایت گندی بدبو آنے لگتی اور بعض سے ایسی آواز سنائی دیتی کہ گویا اس کی دبر میں آگ کے انگارے داخل کئے جارہے ہیں۔ شیخ قحطانی کہتے ہیں
کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک میت کو ہمارے پاس غسل دینے کے لئے لایا گیا۔ جب ہم اسے غسل دینے لگے تو اس کا رنگ نہایت سیاہ ہوگیا حالانکہ پہلے اس کا رنگ سفید تھا۔میں غسل دینے والی جگہ سے باہر نکلا اور مجھے خوف محسوس ہو رہا تھا۔ میں نے باہر کھڑے ایک آدمی کو دیکھا اور اس سے دریافت کیا کہ یہ میت تمہاری ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں،میں اس کا والد ہوں۔میں نے کہا: یہ آدمی کیا کرتا تھا؟اس نے کہا: یہ نماز نہیں پڑھتا تھا، تو میں نے کہا ،اپنی اس میت کو لے جائو اور خود غسل دے لو۔ (تذکرۃ الاخوان بخاتمۃ الانسان)
٭ ٭​
قبر میں اتارتے وقت پیش آنے والا ایک واقعہ یوں ہے ۔شیخ قحطانی بیان کرتے ہیں کہ
ایک دن میں نمازِ عصر کے بعد قبرستان کی طرف گیا اور ایک فوت ہونے والے آدمی کی قبر بنائی۔ میرے ہاتھوں پر مٹی لگی تھی اور میں اپنے ہاتھوں کو دھونے کا ارادہ کر رہا تھا کہ ایک جنازہ آگیا اور تقریباً پچاس آدمی اس جنازے کے ساتھ تھے۔ ان میں سے ایک آدمی نے مجھے آواز دی کہ خدا کے لئے ہمارے ساتھ قبر بنانے میں مدد کرو کیونکہ ہم اچھی قبر نہیں بنا سکتے۔ بہرحال میں نے ان کے ساتھ قبر بنانی شروع کردی، قبر بنا کر ہم اس میت کو دفن کرنے لگے۔ وہ میت کافی فربہ تھی۔ دو آدمیوں نے میرے ساتھ اسے قبر میں اتار دیا۔ میں نے اس میت کے سرکے نیچے رکھنے کے لئے اینٹ طلب کی او ر میں نے بندکھول دیئے۔ تو اس میت کا سر قبلہ سے پھر گیا۔ شیخ قحطانی کہتے ہیں کہ میں نے دوبارہ اس کے سر کو پھیر کر قبلہ کی طرف کردیا اور میں میت کے دوسری طرف ہوگیا اور دوسری اینٹ پکڑی۔ اس وقت میں نے دیکھا کہ اس کی آنکھیں کھلی ہیں اور اس کے منہ اور ناک سے نہایت سیاہ خون بہہ رہا تھا۔ یہ دیکھ کر مجھ پر اس قدرڈر اور خوف طاری ہوگیا کہ میری ٹانگوں نے مجھے اٹھانے سے جواب دے دیا۔
میرے ساتھ دو تین اور آدمیوں نے بھی یہ عجیب و غریب منظر دیکھا۔پھر انہوں نے مجھے تیسری اینٹ دی اور میں نے دیکھا کہ تیسری مرتبہ بھی اس کا سر قبلہ سے پھر گیا۔ چنانچہ میں نے تو اسے چھوڑ دیا اور فوراً ا س قبر کے پاس سے بھاگ گیا اور جو لوگ میرے ساتھ تھے انہوں نے بھی ڈر کی وجہ سے دفن کرنے کا باقی کام ویسے ہی چھوڑ دیا اور لحد کو بند کئے بغیر ہی اس پر مٹی ڈال دی۔ ا س کے بعد میں نے اس میت کے ساتھ پیش آنے والا منظر سات ؍ آٹھ مرتبہ خواب کی حالت میں دیکھا۔ چنانچہ جب میں عمرہ کرنے کے لئے مکہ مکرمہ میں گیا او رپندرہ دن وہاں قیام کیا تو اللہ نے میرے دل کو سکون عطا فرمایا۔ (تذکرۃ الاخوان بخاتمۃ الانسان)
٭ ٭​
امام قرطبی ؒبیان کرتے ہیں کہ
ہمارے ساتھی ابوعبداللہ محمد بن احمد قصیری نے مجھے خبر دی کہ قسطنطنیہ کے حکمرانوں میں کوئی آدمی فوت ہوگیا، چنانچہ اس کے لئے قبر بنائی گئی او رجب لوگوں نے اس میت کو دفن کرنے کا ارادہ کیا تو اچانک ایک بہت بڑا سیاہ رنگ کا سانپ آکر اس قبر میں بیٹھ گیا۔ لوگ اس میت کو اس قبر میں دفنانے سے ڈر گئے اور انہوں نے ایک اور جگہ قبر بنائی۔ وہ سانپ جاکر اس قبر میں بیٹھ گیا۔ قصہ مختصر تیس قبریں بنائی گئیں اوروہ سانپ ہر اس قبر میں جاکر بیٹھ جاتا جس میں اس میت کو دفن کرنے لگتے۔ جب لوگ قبریں بنا بنا کر تھک ہار گئے تو انہوں نے اہل علم سے سوال کیا کہ اب ہم کیا کریں تو انہیں جواب دیا گیا کہ اس میت کو اسی سانپ کے ساتھ ہی دفن کردو۔نسأل اللّٰہ العافیۃ
٭ ٭​
تدفین کے بعد برے خاتمہ کی علامت ظاہر ہونے والا ایک واقعہ یوں ہے جسے حافظ ابن قیم نے الرّوحنامی اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ
ہمارے ساتھی ابوعبداللہ محمد بن الرزیزالحرانی نے مجھے خبر دی کہ میں ایک دن نمازِ عصر کے بعد قبرستان کی طرف گیا۔ جب سورج غروب ہونے کے قریب تھا تو میں قبرستان پہنچ گیا۔وہاں میں نے دیکھا کہ ان قبروں میں سے ایک قبر ایسی تھی جس سے آگ بلند ہورہی تھی (جیسے چراغ سے آگ نکلتی ہے) ا س قبر میں ایک میت بھی تھی۔ میں اسے دیکھ کر اپنی آنکھوں کو ملنے لگا اور دل میں خیال کرنے لگا کہ میں نیند کی حالت میں ہوں یا جاگ رہا ہوں۔پھر میں شہر کی طرف واپس آگیا اور میں نے کہا:اللہ کی قسم میں تو جاگ رہا ہوں۔ چنانچہ میں اپنے گھر گیا اور میں مدہوش تھا، میرے گھر والوں نے میرے سامنے کھانا لاکر رکھ دیا لیکن مجھ میں کھانا تناول کرنے کی ہمت ہی نہیں تھی۔ چنانچہ میں شہر کی طرف گیا اور جاکر اس قبر والے آدمی کے متعلق لوگوں سے دریافت کرنے لگا کہ وہ آدمی کیا تھا تو مجھے بتایا گیا کہ وہ آدمی جعلی کرنسی کا کاروبار کرتا تھا۔
ہم برے خاتمہ سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں اور اللہ سے سوال کرتے ہیں کہ وہ ہمارے دلوں کو ہدایت دینے کے بعد ٹیڑھا نہ کرے اور ہمیں اپنی خاص رحمت عطا فرمائے، بے شک وہی دینے والا ہے۔
٭ ٭​
اپنے رشتہ داروں سے حسن سلوک اور صلہ رحمی بھی اچھے خاتمہ کا سبب ہے۔ نبی کریمﷺنے فرمایا
’’من أحب أن یمدّ لہ فی عمرہ و یوسع لہ فی رزقہ ویدفع عنہ میتۃ السوء فلیتقِّ اللّٰہ ولیصل الرحم‘‘ کہ جو چاہتا ہے کہ اس کی عمر اور رزق میں اضافہ ہو جائے اور بری موت سے محفوظ و مامون رہے تو اسے اللہ سے ڈرنا چاہئے اور رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرنا چاہئے‘‘ (مسند احمدعن علی)
٭ ٭​
قریب ُالمرگ آدمی کی پیشانی پر اگر پسینہ آجائے تو یہ بھی اس کے اچھے خاتمہ کا سبب ہے ۔ امّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت نبی کریم ﷺ کے انتقال کے وقت آپؐ پر جو موت کی شدت دیکھی تھی، اس کے بعد مجھے کسی پر رَشک نہیں آتا کہ اس کی موت آسانی سے آئے۔
حضرت بریدہؓ خراسان میں اپنے بھائی سے ملنے اور ا س کی تیمار داری کے لئے گئے۔ جب حضرت بریدہؓ اپنے بھائی کے پاس پہنچے تو دیکھتے ہیں کہ ان کا بھائی قریب المرگ ہے اور موت کی شدت کی وجہ سے اس کی پیشانی پر پسینہ اتر آیا ہے۔ حضرت بریدہؓ اسے اس حالت میں دیکھ کر فرمانے لگے:
’’اللہ اکبر … سمعت رسول اللہﷺ یقول یموت المؤمن بعرق جبینہ‘‘
’’اللہ بہت بڑا ہے، میں نے نبی کریم ﷺ کو فرماتے سنا تھا کہ مؤمن اپنی پیشانی کے پسینہ کے ساتھ فوت ہوتا ہے (یعنی مؤمن کی موت کے وقت پیشانی پر پسینہ آجاتا ہے)‘‘
٭ ٭​
اچھے خاتمہ کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ جمعہ المبارک کے دن یا جمعہ والی رات موت آجائے، نبی اکرم ا نے فرمایا :
’’مامن مسلم یموت یوم الجمعۃ أو لیلۃ الجمعۃ إلا وقاہ اللہ من فتنۃ القبریٰ‘‘ کہ’’ جس مؤمن کو جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات موت آجائے ، اللہ تعالیٰ اسے عذابِ قبر سے محفوظ رکھیں گے‘‘
اور یہ بھی ممکن ہے کہ کافر اور مشرک کو جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات موت آجائے، لیکن وہ کافر یامشرک عذاب قبر سے ہرگز نہیں بچ سکے گا کیونکہ مندرجہ بالا حدیث کی رو سے مؤمن ہونا شرط ہے۔
٭ ٭​
قریب المرگ حالت میں اللہ تعالیٰ سے رحمت کی امید رکھنا اور اس کے عذاب سے ڈرنا بھی اچھے خاتمہ کا سبب ہے۔ حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک نوجوان آدمی قریب المرگ تھا۔ حضرت رسولِ مقبول ﷺ ا س کے پاس تشریف لے گئے اور اس نوجوان سے دریافت فرمایا: ’’کیف تجدک‘‘ کہ ’’تیرے دل میں کیا ہے‘‘ تو وہ نوجوان کہنے لگا : ’’یارسول اللہؐ! واللہ إنی لأرجو من اللہ وأخاف من ذنوبہ‘‘ ’’کہ اللہ کی قسم مجھے اللہ سے رحمت کی امید بھی ہے اور اپنے گناہوں کا ڈر بھی ہے۔‘‘ حضرت نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’لا یجتمعان فی قلب عبد مسلم فی ھذا الموت الا أعطاہ اللہ مایرجو وآمن مما یخاف‘‘ کہ’’ قریب المرگ حالت میں جس مؤمن کے دل میں یہ دو چیزیں جمع ہوجائیں گی، اللہ تعالیٰ اسے وہ چیز عطا فرمائیں گے جس کی وہ امید رکھتا ہے اور جس سے ڈر اور خوف محسوس کرتا ہے، اس سے اللہ تعالیٰ اس کو بچا لیں گے‘‘
٭ ٭​
قریب المرگ آدمی کے پاس بیٹھ کر اس کے لئے نیک دعا کرنا بھی اس کے اچھے خاتمہ کا سبب ہے کیونکہ اس وقت جو بات بھی کہی جائے اس پر فرشتے آمین کہتے ہیں۔ حدیث میں ہے:
’’قولوا خیراً فان الملائکۃ یأمنون علی ماتقولون‘‘ (صحیح مسلم عن اُمّ سلمہ)
’’کہ قریب المرگ کے پاس بھلائی کی بات کرو کیونکہ جو کچھ تم اس وقت کہتے ہو فرشتے اس پر آمین کہتے ہیں‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
خاتمہ:
آخرمیں ، میں حسن خاتمہ کے اسباب ذکر کرتا ہوں کہ انسان کا انجام بالخیر کیسے ہوسکتا ہے:
نمبر1:
ظاہر و باطن اور ہر حالت میں تقویٰ کو لازمی اختیار کرنا چاہئے اور کتاب و سنت کو مضبوطی سے تھامنا چاہئے۔ یہ نجات کا واحد راستہ ہے اور آدمی کو گناہوں سے بہت زیادہ ڈرنا چاہئے۔ یقینا کبیرہ گناہ آدمی کو ہلاک کردیتے ہیں اور صغیرہ گناہوں کی وجہ سے دلوں پر زنگ لگ جاتا ہے۔
رسولِ مقبولﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اپنے آپ کو چھوٹے چھوٹے گناہوں سے بھی بچائو۔ اس قوم کی طرح جو ایک وادی میں اترے۔ کوئی ادھر سے ایک لکڑی لے آیا کوئی ادھر سے ایک لکڑی لے آیا۔ یہاں تک کہ انہوں نے اپنا کھانا تیار کرلیا اور چھوٹے چھوٹے گناہ پتہ نہیں کب آدمی کو ہلاک کردیں۔
نمبر2:
ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا ذکر اور شکر کرنا چاہئے اور جو کوئی ہمیشہ اللہ کا ذکر کرتا رہتا ہے اس کے تمام اعمال کا خاتمہ اسی پر ہوتا ہے اور دنیا سے جاتے وقت اسے کلمہ شہادت پڑھنے کی وجہ سے جنت کی بشارت مل جاتی ہے۔ کیونکہ حضرت رسول ﷺ نے فرمایا کہ
’’جس کی آخری کلام لا الہ الا اللہ ہوگی وہ جنت میں جائے گا‘‘
اس کے ساتھ ساتھ ہر مسلمان کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ دنیا ختم ہونے والا گھر ہے اور یہ ہمیشہ نہیں رہے گی جب آدمی اس بات کو سمجھ لیتاہے تو پھر وہ دنیا کو اپنے دل میں نہیں بلکہ ہاتھ پر رکھتا ہے یعنی اللہ کی راہ میں مال خرچ کرتا اور کثرت سے یہ دعا کرتا ہے :
یامقلّب القلوب ثبّت قلبی علیٰ دینک
’’اے دلوں کو پھیرنے والے ! میرے دل کو اپنے دین پر ثابت رکھ‘‘
رسولِ اکرم ﷺ بھی اس دعا کو کثرت سے پڑھا کرتے تھے۔ آپؐ سے کہا گیا کہ اے اللہ کے پیارے رسولؐ! ہم آپؐ پر بھی ایمان لائے اور اس چیز پر بھی جو آپ اللہ کی طرف سے لے کر آئے۔کیا پھر بھی آپؐ ہمارے متعلق ڈرتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: ’’ہاں! کیونکہ دل اللہ کی دو انگلیوں کے درمیان ہے، اللہ جیسے چاہتا ہے، اسے پھیر دیتا ہے۔‘‘
الٰہی !ہم آپ کے اسمائِ حسنیٰ اور صفات ِعلیا کے ساتھ سوال کرتے ہیں کہ ہمیں اس حالت میں فوت کرنا کہ تو ہم سے راضی ہو ۔ الٰہی ہمارے آخری اعمال کو بہترین بنا دے اور اپنی ملاقات کے وقت تو ہم سے خوش اور راضی ہوجا۔ الٰہی! دنیا و آخرت میں ہمیں سچی بات پر ثابت اور قائم رکھنا اور ہدایت دینے کے بعد ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ کرنا او رہمیں اپنی رحمت عطا فرما۔ بیشک توہی سب کچھ دینے والے ہے۔ الٰہی !ہمارے پوشیدہ کو ظاہرسے بہتر بنا اور ظاہرکو بھی درست فرما دے، بیشک تو قدرتِ کاملہ رکھنے والا ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
قصیدہ مھلا یا طالب الدنیا اے دنیا کے طلبگار ذرا ٹھہر جا!
یاطالب الدنیا یثقل نفسہ
ان المخف غدا لا حسن حالا
’’اے اپنے آپ کو گناہوں سے بوجھل کرنے والے کل ہلکے وزن والا اچھے حال میں ہوگا‘‘

انالغی دار تری الاکثار لا
یبقی لصاحبہ ولا لإ قلالا
’’ہم ایسے گھر میں رہتے ہیں جہاں نہ زیادہ دولت کسی کے لئے باقی رہے گی اور نہ تھوڑی دولت باقی رہے گی‘‘

أخی إن المال أن قدمتہ
لیسَ لک أن خلفتہ لک مالا
’’اے میرے بھائی! اگر تو اپنا مال آگے بھیجے گا تو وہ تجھے مل جائے گا۔ اور اگرتو اپنے مال کو پیچھے چھوڑے گا تو وہ تجھے نہیں ملے گا‘‘

أخی کل لامحالۃ زائل
فلمن نراک تثمر الاموالا
’’اے میرے بھائی ہر چیز ختم ہونے والا ہے، ہم دیکھتے ہیں کہ تو کس لئے مال جمع کر رہا ہے‘‘

أخی شأنک بالکفاف وخل من
اثر ی و نافس فی الحعلام و غالیٰ
’’میرے بھائی تجھے کفایت شعاری کرنا اختیار چاہئے اور دنیا کا ایندھن جمع کرنا چھوڑ دے جس میں تو غلو کرتا ہے‘‘

کم من ملوک زال عنھم ملکھم
فکان ذاک الملک کان خیالا
’’ کتنے بادشاہوں کی بادشاہیاں ختم ہوگئیں گویا کہ وہ بادشاہی محض خواب و خیال تھا‘‘

حتی متی تمسی و تعب لاعبا
تبغی البقاء و تأمل لا مالا
’’تو کب تک صبح و شام کھیل کود میں مصروف رہے گا تو بقا بھی چاہتا ہے اور خواہشات کی پیروی بھی کرتا ہے‘‘

ولقد رایت الحاد ثات ملحۃ
تنغی المنی و تقرب لا جالا
’’تو نے دایکھا ہے کہ حادثات اچانک آجاتے ہیں اور خواہشات کو ختم کرکے موت کے ریب کردیتے ہیں‘‘

ولقد رایت مساکنا ملوبۃ
سکا نھا و مصانعا و ظلالا
’’تو نے کتنے مکینوں کو مکان چھوڑتے دیکھا ہے وہ خود اٹھا لئے گئے اور ان کے کارخانے ختم ہوگئے اور سائے ڈھل گئے‘‘

ولقد رایت مسلطنا و مملکا
و مفوھاقد قیل قال وقالا
’’تو نے کتنے متکبر بادشاہوں کو اور ان کی سلطنتوں کو دیکھا ہے اور کہا گیا جو کچھ کہا گیا‘‘

ولقد رایت من استطاع بجمعۃ
وبنیٰ فشید قصرہ و اطا لا
’’تو نے بہت کچھ جمع کرنے والوں کو دیکھا ہے جنہوں نے بڑے لمبے چوڑے اور مضبوط مکان بنائے تھے‘‘

ولقد رایت الدھر کیف یبیدھم
شیاً وکیف یبیدھم اطفالا
’’تو نے دیکھا کہ زمانہ اسے کیسے ہلاک کردیتا ہے بڑھاپے میں بھی اور بچپن میں بھی‘‘

ولقد رایت الموت یسرع فیھم
حقا ً یمینا ً مرۃ و شمالا
’’تو نے یہ بھی دیکھا ہے کہ موت حق ہے اور جلدی آتی ہے کبھی دائیں طرف سے اور کبھی بائیں طرف سے‘‘

فسل لحوادث لا ابالک عنھم
وسل القبورو احفھن سؤالا
’’تیرا باپ نہ ہو گردش ایام سے پوچھ اور قبروں سے بھی اصرار کرکے سوال کر‘‘

فلتخبر نک انھم خلقو لما
خلقو فمعنولہ ارسالا
’’وہ تجھے بتائیں گی کہ وہ جس کے لئے پیدا کئے گئے اس کے لئے وہ پہنچ گئے ہیں‘‘

ولقل ما تصفو الحیاۃ لا ھلھا
حتی تبدل عنھم ابدالا
’’اور بہت تھوڑے لوگوں کی زندگی صاف و شفاف رہتی ہے یہاں تک کہ انہیں تبدیل کردیتی ہے‘‘

ولقل مادام السرور لمعشر
ولطالما صال الزمان و غالا
’’اور معاشرے میں کسی خاندان کے لئے خوشی ہمیشہ نہیں رہتی اور کتنی دفعہ زمانہ اکثر طور پر حملہ کرتا ہے اور غلو کرتا ہے‘‘

ولقل ما ترضیٰ خصالا من اخ
اخیتہ الاسخطت خصالہ
’’اور یہ بہت کم ہے کہ تو کسی بھائی کی کسی ایک بات سے راضی ہو مگر تو اکثر باتوں میں اس سے ناراض ہوگا‘‘

ولقل ما تسخو بخیر نفسہ
حتی یقاتلھا علیہ قتالا
’’اور بہت کم ہے کہ تو کسی پر سخاوت کرتا ہو ، یہاں تک کہ وہ تیرے ساتھ اس بات پر جھگڑا کر دیتا ہے‘‘

فاذا اردت الناس ان یتحملو
للعار انت فکن لھا حمالا
’’جب تو لوگوں کو عار دلانا چاہے تو پہلے خود اسے اٹھانے کے لئے تیار ہوجا‘‘

أ خی ان المرحیث فعالہ
فانظر لا حسن مایکون فعالا
’’میرے بھائی آدمی ایسے ہے جیسے اس کے کام ہیں تو دیکھ کون سے اچھے عمل کرتا ہے‘‘

اقصر خطاک عن المطامع عفۃ
عنھا فان لھا صفا زلالا
’’اپنے پائوں طمع اور خواہشات سے روک لے اس سے بچتے ہوئے کیونکہ خواہشات کی صفیں آدمی کو پھسلا دیتی ہیں‘‘

والمال اولیٰ باکتسابک منفقا
او ممسکا ً ان کان ذاک حلالا
’’اگر تیرا مال حلال کمائی سے ہے تو اسے تیرے لئے رکھنا بھی اچھا ہے اور خرچ کرنا بھی اچھا ہے‘‘

واذ الحتوف ثو اثرت فاصبر لھا
ابداً وان کانت علیک ثقالا
’’اور جب تجھ پر مسلسل مصیتیں نازل ہوں تو ان پر صبر کر اگرچہ وہ بھاری ہی کیوں نہ ہوں‘‘

فکفی بملتمس التواضع دفعۃ
وکفی بملتمس العلو سفالا
’’تواضع کے متلاشی کے لئے بلندی مبارک ہو اور تکبر کے متلاشی کے لئے ذلت مبارک ہو‘‘

أ خی من عشق الر ئاسۃ خفت ان
یطفیٰ ویحدث بدعۃ و ضلالہ
’’میرے بھائی جو دنیا اور ملک سے محبت کرتا ہے میں ڈرتا ہوں کہ وہ سرکش ہو کر بدعت اور گمراہی شروع کردے‘‘

أ خی ان احامنا کر بالھا
شعب وان امامنا اھوالا
’’میرے بھائی ہمارے سامنے بہت شاخوں والی معیتیں ہیں اور ہمارے آگے بہت ہولناکیاں ہیں‘‘

أ خی ان الدار مدبرۃ وان
کنا نری ادبار ھا اقبالا
’’ میرے بھائی یہ گھر ہم سے جارہا ہے اگرچہ ہم اس کے جانے کو آنا سمجھتے ہیں‘‘

أ خی لا تجعل علیک لطالب
یتتبع العشرات منک مقالا
’’میرے بھائی جو تیری غلطیاں تلاش کرکے تیری عزت کے درپے ہے اسے بات کرنے کاموقع نہ دے‘‘

فالمرٔ مطلوب بمھجۃ نفسہ
طلبا یصرف حالہ احوالا
’’آدمی اپنے کئے پر ایسا پکڑا جائے گا جو اس کے حال کو تبدیل کردے گا‘‘

والمر ٔ لا یرضیٰ بشفل واحد
حتی یولد شغلہ اشفالا
’’آدمی کسی ایک کام پرراضی نہیں ہوتا یہاں تک کہ کام سے کام نکلتے آتے ہیں‘‘

ولرب ذی لفولھن حلاوہ
سیعدن یوما ً ما علیہ وبالا
’’کتنی لغو اور بے ہودہ باتیں میٹھی معلوم ہوتی ہیں لیکن ایک دن وہ تیرے لئے وبال جان بن جائیں گے‘‘

واری ا لتواصل فی الحیاۃ فلا تدع
لاخیک جھدک ما حییت وصالا
’’زندگی میں سب کچھ صلہ رحمی ہے تو جب تک زندہ ہے اپنے بھائی کے لئے صلہ رحمی کا دامن نہ چھوڑ‘‘

أخی ان الخلق فی طبقاتہ
یمسی و یصبح للا لہ عیالا
’’میرے بھائی مخلوق مختلف طبقوں میں تقسیم ہے صبح شام کو اللہ کے عیال بن جاتے ہیں‘‘

واللہ اکرم من رجوت نوالہ
واللہ اعظم من ینیل نوالا
’’اللہ عزت دینے والا ہے اگر تو اس کے انعامات کی خواہش کرے اور بہت بڑا ہے جو تیری ضروریات پوری کرتا ہے‘‘

ملک تواضعت الملوک لصرہ
وجلالہ سبحانہ و تعالیٰ
’’وہ ایسا عظیم بادشاہ ہے کہ ساری کائنات کے بادشاہ اس کے سامنے ہیچ اور غلام ہیں اور وہ پاک ہے اور بلند ہے‘‘

لاشی ٔ منہ ادق لطف احاطۃ
بالعالمین ولا اجل جلالا
’’کوئی معمولی سے معمولی چیز بھی اس کے علم سے باہر نہیں ہے اور نہ کوئی بہت بڑی چیز اس کے علم سے باہر ہے‘‘
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
السلام علیکم
کلیم حیدر بھائی جان اس بات کا کیا مطلب ہے؟
’’میرے بھائی مخلوق مختلف طبقوں میں تقسیم ہے صبح شام کو اللہ کے عیال بن جاتے ہیں‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
السلام علیکم
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کلیم حیدر بھائی جان اس بات کا کیا مطلب ہے؟ ’’میرے بھائی مخلوق مختلف طبقوں میں تقسیم ہے صبح شام کو اللہ کے عیال بن جاتے ہیں‘‘
’’میرے بھائی مخلوق مختلف طبقوں میں تقسیم ہے‘‘
عربی زبان سے ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں ہی بطور اسم مستعمل ہے۔ انس و جن کے علاوہ ہزاروں مخلوقات اور بھی ہیں۔جس کی طرف اشارہ ہے کہ مخلوق مختلف طبقوں میں تقسیم ہے۔طبقہ کےمعانی جب بیان کیے جاتے ہیں تو
1۔انسانوں یا حیوانوں کا چھوٹا گروہ جو کچھ خصوصیات کے باعث دوسرے گروہ سے ممتاز اور الگ ہو۔مثلا "وہ طبقہ .... بیورو کریٹس یا نوکر شاہی کے نام سے بد نام ہے۔"
2. درجہ، منزل۔"اس محل کے بارہ طبقے تھے۔"
اب جملے کا مفہوم یہ ہوا کہ ہر مخلوق دوسری مخلوق سے ہیئت، درجہ، منزل اور خصوصیت کے اعتبار سے مختلف ہے۔اور رہا دوسرا جملہ
صبح شام کو اللہ کے عیال بن جاتے ہیں
عیال عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں بھی بطور اسم استعمال ہوتا ہے
معانی
1. اہلِ خانہ، بیوی بچے، کنبہ جس کا کوئی شخص کفیل ہو۔مثلا
محمد ارسلان بھی ہے رکھتا عیال
ہر اک عقل والا کرے یہ خیال
2. انحصار کرنے والے۔ مثلا " محمد ارسلان بھائی شیخ کفایت اللہ بھائی کے علم کے عیال ہیں۔"
3. بندہ، مخلوق۔مثلان "بہلول نے آسماں کی طرف نظر اٹھا کے کہا تو اور میں دونوں اللہ کے عیال (بندے) ہیں محال ہے کہ وہ تجھے تو یاد رکھے اور مجھے بھول جائے۔"
تو اب ان تمام معانی کو بیان کرنے سے جو بات واضح ہوئی وہ یہ کہ عیال انحصار کرنے، بندہ اور اہل کے معانی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔
اب یہ جملہ
’’میرے بھائی مخلوق مختلف طبقوں میں تقسیم ہے صبح شام کو اللہ کے عیال بن جاتے ہیں‘‘
کا مطلب سیاق و سباق سے یہ ہے
مخلوق کا ہر طبقہ صبح اور شام اللہ پر انحصار کرنے والا ہے۔
نوٹ
ناقص معلومات پر سمجھانے کی کوشش کی ہے باقی اگر غلط مطلب بیان کیا تو بھائی درست کردیں گے۔ان شاءاللہ
 
Top