دمشق میں بم دھماکا، اسد نواز سرکردہ عالم دین جاں بحق
دمشق میں بم دھماکا، اسد نواز سرکردہ عالم دین جاں بحق - سرورق
شام کے دارالحکومت دمشق میں ایک مسجد میں خودکش بم دھماکے کے نتیجے میں صدر بشارالاسد کے حامی ایک سرکردہ عالم دین مارے گئے ہیں۔
شام کے سرکاری ٹیلی ویژن نے اطلاع دی ہے کہ بزرگ عالم دین ڈاکٹر محمد سعید رمضان البوطی دمشق کے علاقے المزرہ میں واقع مسجد الایمان میں دہشت گردوں کے خودکش بم حملے میں شہید ہوگئے ہیں۔شام کی وزارت صحت نے اس خودکش حملے میں بیالیس افراد کی ہلاکت اور چوراسی کے زخمی ہونے کی تصدیق کی ہے۔
چوراسی سالہ شیخ رمضان البوطی ایک سنی عالم دین تھے اور تاریخی مسجد جامعہ امویہ کے امام تھے لیکن وہ صدر بشارالاسد کے حامی تھے اور ان کے حق میں تقریریں کرتے رہتے تھے۔باغی جنگجوؤں کے ایک ترجمان لوئے مقداد نے ایک بیان میں کہا ہے کہ جیش الحر ان پر حملے میں ملوث نہیں ہے۔
انھوں نے العربیہ ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ''ہم جیش الحر کی جانب سے اس کارروائی کی کسی بھی طرح ذمے داری قبول نہیں کرتے۔ ہم اس طرح کے خودکش بم دھماکے نہیں کرتے اور نہ مساجد کو نشانہ بناتے ہیں''۔
العربیہ نے شامی صدر کے مخالف کارکنان کے حوالے سے بتایا ہے کہ مقتول شیخ البوطی شامی حکومت کے پرجوش حامی تھے اور وہ شام میں سب سے بزرگ اسد نوازعالم دین تھے۔ان کے جمعہ کے خطبات سرکاری ٹیلی ویژن سے براہ راست نشر کیے جاتے تھے۔
ان پر دمشق کی مسجد میں خودکش بم حملے کی خبر جونہی منظرعام پر آئی تو ایک سرکاری ٹیلی ویژن اسٹیشن نے اپنی معمول کی نشریات روک کر قرآن مجید کی آیات نشر کرنا شروع کردیں۔
سرکاری ٹیلی ویژن چینل اخباریہ نے مسجد میں بم دھماکے کے بعد دلدوز مناظر کی فوٹیج نشر کی ہے۔اس میں مسجد کے فرش پر متعدد لاشیں اور انسانی اعضاء جسموں سے کٹ کر ادھر ادھر بکھرے پڑے ہیں۔
فوٹیج میں ایمرجنسی ورکرز لاشیں اور انسانی اعضاء اکٹھے کر رہے ہیں اور انھیں سبز رنگ کے تھیلوں میں ڈال رہے ہیں۔ چینل کی اطلاع کے مطابق ایک خودکش بمبار مسجد میں داخل ہوا اور اس نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا جس کے بعد ہر طرف انسانی اعضاء بکھر گئے۔عینی شاہدین کے مطابق دھماکے کی آواز دور دور تک سنی گئی۔
مقتول الشیخ البوطی 1929ء میں پیدا ہوئے تھے۔انھوں نے ابتدائی تعلیم دمشق کے دینی مدارس سے حاصل کی تھی اور پھر جامعہ الازہر قاہرہ کے کلیہ الشریعہ سے اسلامی علوم میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی تھی ۔وہ مختلف اسلامی موضوعات پر تئیس کتب کے مصنف تھے۔ وہ شامی صدر کی ان کے خلاف مارچ 2011ء سے جاری مسلح عوامی تحریک کے بعد سے حمایت کر رہے تھے اور وہ اپنے جمعہ کے خطبات میں شامی صدر کی حمایت پر زور دیتے رہتے تھے ۔واضح رہے کہ شیخ البوطی ہی نے اہل تشیع کے علوی فرقے سے تعلق رکھنے والے بشارالاسد کے والد حافظ الاسد کے جنازے کی امامت کی تھی۔
دمشق میں بم دھماکا، اسد نواز سرکردہ عالم دین جاں بحق - سرورق
شام کے دارالحکومت دمشق میں ایک مسجد میں خودکش بم دھماکے کے نتیجے میں صدر بشارالاسد کے حامی ایک سرکردہ عالم دین مارے گئے ہیں۔
شام کے سرکاری ٹیلی ویژن نے اطلاع دی ہے کہ بزرگ عالم دین ڈاکٹر محمد سعید رمضان البوطی دمشق کے علاقے المزرہ میں واقع مسجد الایمان میں دہشت گردوں کے خودکش بم حملے میں شہید ہوگئے ہیں۔شام کی وزارت صحت نے اس خودکش حملے میں بیالیس افراد کی ہلاکت اور چوراسی کے زخمی ہونے کی تصدیق کی ہے۔
چوراسی سالہ شیخ رمضان البوطی ایک سنی عالم دین تھے اور تاریخی مسجد جامعہ امویہ کے امام تھے لیکن وہ صدر بشارالاسد کے حامی تھے اور ان کے حق میں تقریریں کرتے رہتے تھے۔باغی جنگجوؤں کے ایک ترجمان لوئے مقداد نے ایک بیان میں کہا ہے کہ جیش الحر ان پر حملے میں ملوث نہیں ہے۔
انھوں نے العربیہ ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ''ہم جیش الحر کی جانب سے اس کارروائی کی کسی بھی طرح ذمے داری قبول نہیں کرتے۔ ہم اس طرح کے خودکش بم دھماکے نہیں کرتے اور نہ مساجد کو نشانہ بناتے ہیں''۔
العربیہ نے شامی صدر کے مخالف کارکنان کے حوالے سے بتایا ہے کہ مقتول شیخ البوطی شامی حکومت کے پرجوش حامی تھے اور وہ شام میں سب سے بزرگ اسد نوازعالم دین تھے۔ان کے جمعہ کے خطبات سرکاری ٹیلی ویژن سے براہ راست نشر کیے جاتے تھے۔
ان پر دمشق کی مسجد میں خودکش بم حملے کی خبر جونہی منظرعام پر آئی تو ایک سرکاری ٹیلی ویژن اسٹیشن نے اپنی معمول کی نشریات روک کر قرآن مجید کی آیات نشر کرنا شروع کردیں۔
سرکاری ٹیلی ویژن چینل اخباریہ نے مسجد میں بم دھماکے کے بعد دلدوز مناظر کی فوٹیج نشر کی ہے۔اس میں مسجد کے فرش پر متعدد لاشیں اور انسانی اعضاء جسموں سے کٹ کر ادھر ادھر بکھرے پڑے ہیں۔
فوٹیج میں ایمرجنسی ورکرز لاشیں اور انسانی اعضاء اکٹھے کر رہے ہیں اور انھیں سبز رنگ کے تھیلوں میں ڈال رہے ہیں۔ چینل کی اطلاع کے مطابق ایک خودکش بمبار مسجد میں داخل ہوا اور اس نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا جس کے بعد ہر طرف انسانی اعضاء بکھر گئے۔عینی شاہدین کے مطابق دھماکے کی آواز دور دور تک سنی گئی۔
مقتول الشیخ البوطی 1929ء میں پیدا ہوئے تھے۔انھوں نے ابتدائی تعلیم دمشق کے دینی مدارس سے حاصل کی تھی اور پھر جامعہ الازہر قاہرہ کے کلیہ الشریعہ سے اسلامی علوم میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی تھی ۔وہ مختلف اسلامی موضوعات پر تئیس کتب کے مصنف تھے۔ وہ شامی صدر کی ان کے خلاف مارچ 2011ء سے جاری مسلح عوامی تحریک کے بعد سے حمایت کر رہے تھے اور وہ اپنے جمعہ کے خطبات میں شامی صدر کی حمایت پر زور دیتے رہتے تھے ۔واضح رہے کہ شیخ البوطی ہی نے اہل تشیع کے علوی فرقے سے تعلق رکھنے والے بشارالاسد کے والد حافظ الاسد کے جنازے کی امامت کی تھی۔