سوال یہ ہے کہ کیا شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کی کے نزدیک بقیہ کی روایت سماع پر محمول ہے؟؟ اس متعلق شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کی مکمل تحقیق کیا ہے؟
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
" بقیہ بن ولید " کے متعلق علامہ زبیر علی زئیؒ کی تحقیق کا علم نہیں ،
تاہم شیخ غلام مصطفیٰ ظہیر حفظہ اللہ کا کلام بقیہ بن ولید کے متعلق پیش ہے ؛
ـــــــــــــــــــــــــــــ
شیخ غلام مصطفی ظہیر لکھتے ہیں :
بقیہ بن ولید راوی اگرچہ جمہور کے نزدیک ”ثقہ“ ہیں۔
[ديكهيں : الترغيب و الترهيب للمنذري : 568/4، الكاشف للذهبي : 106/1- 107]
لیکن ”تدلیسِ تسویہ“ کے مرتکب تھے، لہٰذا سند مسلسل بالسماع ہونی چاہیے۔
◈ حافظ ابن حجر ایک دوسری روایت کے بارے میں لکھتے ہیں :
بقية صدوق، لكنه يدلس و يسوي، قد عنعنه عن شيخه و شيخ شيخه .
”بقیہ صدوق راوی ہے، لیکن تدلیس تسویہ کرتا تھا، اس نے اپنے استاذ اور استاذ کے استاذ سے بصیغہ عن روایت کی ہے۔ “ [موافقه الخبر الخبر لابن حجر : 276/1 ]
◈ حافظ ابن ملقن لکھتے ہیں :
لكن بقية رمي بتدليس التسوية، فلا ينفعه تصريحه بالتحديث .
”بقیہ پر تدلیس تسویہ کا الزام ہے، لہٰذا صرف اپنے شیخ سے سماع کی تصریح چنداں مفید نہیں۔ “ [ البدر المنير : 509/4 ]
ــــــــــــــــــــــــــــــــــ
http://mazameen.ahlesunnatpk.com/kia-qahqaha-lagany-sy-wozoo-toot-jata-hy/
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور (توحیڈ ڈاٹ کام ) پر "بقیہ بن ولید کے متعلق جرح و تعدیل حسب ذیل درج ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقیہ کے بارے میں مروی جرح درج ذیل ہے۔
۱: سفیان بن عیینہ [لا تسمعو امن بقیۃ۔۔۔إلخ]
۲: العقیلی [ذکرہ فی الضعفاء]
۳: ابو حاتم الرازی [لایحتج بہ]
۴: ابو مسہر الغسانی [بقیۃ، أحادیثہ لیست نقیۃ فکن منھا علی تقیۃ]
۵: ابن خزیمہ [لا أحتج ببقیۃ]
۶: الجوز جانی [و بقیۃ ضعیف الحدیث، لایحتج بحدیثہ]
۷: عبدالحق الاشبیلی [لا یحتج بہ]
۸: ابن القطان الفاسی ۔۔۔۔۔۔۔۔
۹: الذہبی ۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۰: ابن حزم [ضعیف]
۱۱: البیہقی [أجمعوا علی أن بقیۃ لیس بحجۃ]
۔: الساجی [فیہ اختلاف]
۔: الخلیلی [اختلفوا فیہ]
ملخصاً من تہذیب التہذیب (۱/۴۷۴ ۔ ۴۷۸)وغیرہ
الساجی اور الخلیلی کا کلام تو جرح ہی نہیں ہے۔ بعض دوسرے علماء سے بھی بقیہ کی مُدلَّس (عن والی) روایات اور مجہولین و ضعفاء سے روایات پر جرح منقول ہے، اس جرح کا کوئی تعلق بقیہ کی عدالت اور ضبط (حافظے ) سے نہیں ہے۔
بقیہ کی توثیق درج ذیل ہے۔
۱: ابو اسحاق الفزاری [خذوا عن بقیۃ ماحدثکم عن الثقات] (الترمذی:۲۸۵۹)
۲: عبداللہ بن مبارک [صدوق اللسان] (صحیح مسلم:۴۳دارالسلام)
۳: ابوزرعہ الرازی [وأذا حدث عن الثقات فھو ثقۃ](الجرح و التعدیل:۲ ؍۴۳۵)
۴: یحییٰ بن معین [ثقۃ] (تاریخ عثمان الدارمی: ۱۹۰)
۵: العجلی [ثقۃ ماروی عن المعروفین] (تاریخ العجلی:۱۶۰)
۶: مسلم [أخرج لہ فی صحیحہ] (صحیح مسلم:۱۰۱ ؍۱۴۲۹فواد عبدالباقی)
۷: یعقوب بن شیبہ [تاریخ بغداد:۷؍۱۲۶]
۸: الخطیب البغدادی [وکان صدوقاً](تاریخ بغداد:۷ ؍۱۲۳)
۹: محمد بن سعد [وکان ثقۃ فی روایتۃ عن الثقات](الطبقات:۷ ؍۴۶۹)
۱۰: الترمذی [صحح لہ فی سننہ] (الترمذی:۱۲۳۵ ، ۱۶۶۳)
۱۱: ابن عدی [إذا روی عن الشامین فھو ثبت](الکامل:۲ ؍۲۷۶)
۱۲: ابن شاہین [ذکرہ فی الثقات](الثقات:۱۳۹)
۱۳: احمد بن حنبل [وإذا حدث بقیۃ عن المعروفین مثل بحیربن سعد قبل](الضعفاء للعقیلی:۱ ؍۱۶۲)
۱۴: ابن حبان [فرأیتہ ثقۃ مأموناً ولکنہ کان مدلساً](المجروحین:۱ ؍۲۰۰)
۱۵: ابن حجر [صدوق کثیر التدلیس عن الضعفاء](التقریب:۷۳۴)
۱۶: الھیثمی [وھو ثقۃ مدلس] (مجمع الزوائد:۱ ؍۱۹۰)
۱۷: العراقی [قال فی حدیث و إسنادہ جید](تخریج الاحیاء : ۲؍۱۵۴، الصحیحہ : ۱۶۹۱)
۱۸: المنذری [وثقۃ] (الترغیب و الترھیب:۳ ؍۲۵و الصحیحہ:۳۵۳)
۱۹: الحاکم [مامون مقبول] (المستدرک ۱؍۲۷۳ح۱۰۰۸نیز دیکھئے ۱؍۲۸۹ح۱۰۶۴)
۲۰: الذھبی [وقال فی حدیثہ: علی شرط مسلم]( تلخیص المستدرک:۲ ؍۶۱۶)
۲۱: البخاری [استشھد بہ فی صحیحہ] (صحیح بخاری:۷۰۷)
۲۲: ابو احمد الحاکم [ثقۃ فی حدیثہ إذا حدث عن الثقات بما یعرف] (تہذیب:۱ ؍۴۷۷مصححاً)
۲۳: شعبہ [روی عنہ] (شعبۃ لایروی إلا عن ثقہ عندہ: تہذیب ۱؍۴ ، ۵)
۲۴: ابن خلفون [ذکرہ فی الثقات] (حاشیہ تہذیب الکمال:۱ ؍۳۶۹)
۲۵: الزیلعی [وکان صدوقاً] (نصب الرایہ:۱ ؍۴۸)
۲۶: الدار قطنی [ثقۃ] (کتاب الضعفاء و المتروکین: ۲۳۰)
۲۷: الجوز جانی [فإذا أخذت حدیثہ عن الثقات فھو ثقۃ] (احوال الرجا:۳۱۲)
۲۸: یعقوب بن سفیان [فھو ثقۃ إلخ](المعرفۃ و التاریخ ۲؍۴۶۴و تاریخ دمشق: ۱۰؍۲۷۰)
۔: علی بن المدینی [صالح فیما روی عن أھل الشام](تاریخ بغداد۷؍۱۲۵و سندہ ضعیف)
۔: النسائی [إذا قال حدثنا و أخبر نا فھو ثقۃ](تہذیب التہذیب: ۱؍۴۷۵ و سندہ ضعیف)
۔: بن الترکمانی!! [ھو صدوق و قد صرح بالتحدیث] (الجوہر النقی:۱ ؍۱۴۷)
نیز دیکھئے توضیح الکلام(۱؍۳۱۷ ۔ ۳۲۱)
اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ جمہور محدثین کے نزدیک بقیہ بن الولید ثقہ و صدوق ہے۔ جب و ثقہ راویوں سے سماع کی تصریح کے ساتھ روایت بیان کرےت تو اس کی روایت صحیح یا حسن ہوتی ہے۔ حاف المنذری فرماتے ہیں۔
‘‘ثقۃ عند الجمھور لکنہ مدلس’’ وہ جمہور کے نزدیک ثقہ ہے لیکن مدلس ہے۔ (الترغیب و الترھیب ج ۴ص ۵۶۸)
حافظ زہبی لکھتے ہیں کہ:
‘‘وثقہ الجمھور فیما سمعہ من الثقات’’ جمہور نے اسے ان روایات میں ثقہ قرار دیا ہے جو اس نے ثقہ راویوں سے سنی ہیں( الکاشف:۱ ؍۱۰۶ ، ۱۰۷، ت ۶۲۶)
جن علماء نے بقیہ پر جرح کی ہے وہ صرف اور صرف دوہی باتوں پر مبنی ہے
۱: تدلیس(یعنی بقیہ کی عن والی اور غیر مصرح بالسماع روایات ضعیف ہیں)
۲: مجہولین و ضعفاء سے روایت (یعنی بقیہ کی وہ تمام روایتیں ضعیف و مردود ہیں جو اس نے مجہول اور ضعیف راویوں سے بیان کی ہیں)
میرے علم کے مطابق کسی جلیل القدر امام نے بقیہ کی مصرع بالسماع روایت پر کوئی جرح نہیں کی، بقیہ پر تمام جروح کا تعلق اس کی غیر مصرح بالسماع یا اہل حمص وغیرہ کی اوہام والی روایتوں اور ضعیف و مجہول راویوں کی روایات پر ہے۔
خلاصۃ التحقیق: بقیہ بن الولید صدوق مدلس ، صحیح الحدیث یا حسن الحدیث راوی ہے بشرطیکہ سماع کی تصریح کرے۔
تنبیہ۱:بقیہ اگر بحیر بن سعد سے روایت کرے تو یہ روایت سماع پر محمول ہوتی ہے چاہے بقیہ سماع کی تصریح کرے یا نہ کرے، دیکھئے تعلیقۃ علی العلل لا بن ابی حاتم؍تصنیف ابن عبدالھادی(ص۱۲۴ح۳۵؍۱۲۳)
تنبیہ۲: بقیہ کی محمد بن الولی) الزبیدی سے روایت صحیح مسلم میں موجود ہے۔(۱۰۱؍۱۴۲۹)
تنبیہ۳: امام ابو احمد الحاکم (صاحب الکنیٰ) بقیہ کے بارے میں فرماتے ہیں:
‘‘ثقۃ فی حدیثۃ إذا حدث عن الثقات بما یعرف لکنہ ربماروی عن أقوام مثل الأوزاعي و الزبیدي و عبید اللہ العمري أحادیث شبیھۃ بالموضوعۃ أخذھا عن محمد بن عبدالرحمن و یوسف بن السفر و غیر ھما من الضعفاء و یسقطھم من الوسط و یرویھا عن من حدثوہ بھا عنھم’’
جب وہ ثقہ راویوں سے معروف(یعنی مصرح بالسماع) روایتیں بیان کرے تو ثقہ ہے کیونکہ بعض اوقات وہ لوگوں مثلاً اوزاعی، زبیدی اور عبید اللہ العمری سے موضوعات کے مشابہ وہ احادیث بیان کرتا ہے جو اس نے محمد بن عبدالرحمن اور یوسف بن السفر و غیر ھما ضعیف راویوں سے حاصل کی تھیں۔ وہ انہیں درمیان سے گرا کر ان سے حدیثیں بیان کرتا ہے۔ جن سے انہوں نے اسے احادیث سنائی تھیں(تہذیب التہزیب ج۱ص۴۷۷)
اس قول کا خلاصہ یہ ہے کہ بقیہ مدلس راوی ہے لہذا اگر وہ سماع کی تصریح کر کے ثقہ راویوں سے حدیث بیان کرے تو اس میں وہ ثقہ ہے اور اگر اوزاعی، زبیدی اور عبید اللہ بن عمر العمری سے بغیر تصریح سماع کے ، تدلیس کرتے ہوئے عن والی روایات بیان کرے تو یہ روایتیں ضعیف ، مردود اور موضوع ہوتی ہیں۔ اس جرح کا تعلق صرف تدلیس سے ہے جیسا کہ سیاق کلام سے ظاہر ہے۔ بعض الناس نے پندرہویں صدی ہجری میں اس جرح کو مطلق قرار دینے کی کوشش کی ہے جس کا باطل ہونا واضح ہے۔
تنبیہ۴: بقیہ تدلیس التسویہ کے الزام سے بری ہے۔ بقیہ سے تدلیس التسویہ کرنا ثابت نہیں ہے دیکھئے الفتح المبین فی تحقیق طبقات المدلسین(۱۱۷؍۴) والضعیفۃ للشیخ الألبانی رحمہ اللہ(۱۲؍۱۰۵ ۔ ۱۱۲ح ۵۵۵۷) و عجالۃ الراغب المتمنی للشیخ سلیم الھلالی(۲؍۸۷۶ح۷۶۳)
جدید محققین مثلاً شیخ محمد ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ نے بقیہ کی مصرح بالسماع والی روایتوں کو حسن قرار دیا ہے۔ جناب عبدالرؤف بن عبدالمنان بن حکیم محمد اشرف سندھو صاحب ایک روایت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ : ‘‘ اس کی سند بقیہ بن الولید کی وجہ سے حسن درجے کی ہے۔ حاکم، زہبی اور بوصیری نے مصباح الزجاجہ(۴۶۶) میں اس کو صحیح کہا ہے’’ (القول المقبول ص۶۲۰ح ۵۶۸)نیز دیکھئے القول المقبول(ص۱۹۴ح ۱۰۸)
اگر کوئی کہے کہ محدث عبدالرحمن مبارک پوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :‘‘مگر یہ حدیث بھی ضعیف ہے کیونکہ اس کی سند میں بقیہ واقع ہیں اور یہ مدلس و ضعیف ہیں اور باوجود ضعیف ہونے کے اس جملہ کے ساتھ یہ متفرد ہیں ان کے سوا کوئی اور اس جملہ کو روایت نہیں کرتا ہے۔۔۔’’ (القول السدید فیما یتعلق بتکبیرات العیدص۷۱)
تو عرض ہے کہ یہ کلام تین وجہ سے مردود ہے۔
اول:یہ جمہور محدچین کی تحقیق کے خلاف ہے۔
دوم: خود محدث مبارکپوری رحمہ اللہ نے بقیہ کا ذکر کیا ہے یا سنن الترمذی میں بقیہ کا ذکر آیا ہے مگر انہوں نے بذات خود اس پر کوئی جرح نہیں کی۔ دیکھئے تخفۃ الاحوذی(ج۱ص۹۷ح۹۴، ج۳ص۵ح۱۶۳۵ ، ۳؍۱۷ح ۱۶۶۳ ، ۳؍۳۷۷، ۳۷۸ح۲۶۷۶، ۴؍۳۶ح۲۸۵۹، ۴؍۵۶ح۲۹۲۱)لہذا معلوم ہوا کہ مبارکپوری رحمہ اللہ کی جرح ان کی کتاب تحفۃ الاحوذی کی رُو سے منسوخ ہے۔
سوم: مبارکپوری رحمہ اللہ کا قول‘‘اس جملے کے ساتھ یہ متفرد ہیں’’ قطعاً غلط ہے کیونکہ ابن اخی الزھری نے بھی یہی جملہ بیان کر رکھا ہے۔
پاکستان کے مشہور محقق اور اہل حدیث کے نامور عالم مولانا ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ نے بقیہ بن الولید کا زبردست دفاع کرتے ہوئے لکھا ہے کہ :‘‘یہ اس بات کا قوی چبوت ہے کہ جمہور کے نزدیک و ثقہ ہے جب سماع کی صراحت کرے تو قابل حجت ہے۔ بالخصوص جب کہ شامی شیوخ سے روایت کرے’’ (توضیح الکلام ج ۱ص۳۱۹باب: بقیہ بن الولید پر جرح کا جواب)