• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بندہ موحد کس طرح بنتا ہے ؟

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
514
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
بندہ موحد کس طرح بنتا ہے ؟
بسم اللہ الرحمن الرحیم

کوئی بھی شخص موحد نہیں بن سکتا جب تک کہ دو خوبیاں اسمیں نہ پائی جائیں :

(۱) اﷲ کا حق پہچانے اور وہ حق صرف اسی اﷲ کے لئے ثابت مانے اس میں کسی اور کو شریک نہ کرے ۔

اﷲ کے حقوق تین ہیں :

پہلا حق: وہ افعال جو اسکی ربوبیت کے ساتھ خاص ہیں صرف اس کے لئے ہیں اس میں کسی اور کو شریک کرنا کسی انسان کے لئے جائز نہیں ہے نہ کسی نبی کے لئے نہ فرشتے کے لئے ۔

وہ افعال یہ ہیں کہ اﷲ نے مخلوق کو انصاف سے پیدا کیا ہے انصاف سے رزق دے رہا ہے زندگی دیتا ہے موت اس کے اختیار میں ہے نفع، نقصان کا مالک ہے تمام امور کائنات کی تدبیر کرتا ہے احکام جاری کرتا ہے قوانین دیتا ہے ہر چیز کا اختیار اس کے ہاتھ میں ہے ۔

دوسرا حق: وہ اسماء و صفات جو اﷲ کے لئے خاص ہیں ان میں کسی اور کو شریک نہ کیا جائے کسی انسان کے لئے جائز نہیں کہ یہ صفات کسی اور کے لئے ثابت مانے چاہے کوئی فرشتہ ہو یا کوئی نبی کسی میں اﷲ کی صفات نہیں پائی جاسکتیں اﷲ کے خاص اسماء یہ ہیں اﷲ ، الاحد، الصمد، الرحمن، القدوس وغیرہ البتہ اﷲ کے دیگر نام جیسے الکریم الرحیم الملک تو وہ اﷲ اور بندوں میں مشترک مستعمل ہیں ۔

اسی طرح جو صفات صرف اﷲ کے ساتھ خاص ہیں وہ یہ ہیں کہ اﷲ کی قدرت کاملہ کہ ہر چیز پر قادر ہے۔ کمال العلم کہ ہر چیز تک اسکا علم محیط ہے علم غیب بھی اسکی خاص صفت ہے کمال السمع یعنی قریب و بعید سب سنتا ہے اسی طرح کی وہ صفات کمال جو اﷲ کے علاوہ کسی اور کے لئے ثابت کرنا منع ہے ۔

تیسرا حق: عبادات صرف اﷲ کے لئے خاص ہیں یہ اﷲ کا بندوں پر حق ہے کہ وہ عبادات صرف اﷲ کے لئے کریں اور ان عبادات میں اسے اکیلا سمجھیں اس لئے کہ اسی اﷲ نے انہیں پیدا کیا ہے انہیں رزق دیا ہے وہی ان کو موت اور مرنے کے بعد زندگی عطا کرے گا ۔

اَﷲُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ ثُمَّ رَزَقَکُمَ ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیْکُمْ ھَلْ مِنْ شُرَکَاءِ کُمْ مَّنْ یَّفْعَلُ مِنْ ذٰلِکُمْ مِّنْ شَئْیٍ سُبْحٰنَہُ وَ تَعٰلٰی عَمَّا یُشْرِکُوْنَ۔ [الروم : ۴۰]

اﷲ وہ ذات ہے جس نے تمہیں پیدا کیا پھر تمہیں رزق دیا پھر تمہیں موت اور اس کے بعد زندگی دے گا کیا تمہارے شریکوں میں کوئی ایسا ہے جو ان میں سے کوئی کام کر سکے وہ اﷲ پاک ہے اس سے جسے یہ لوگ شریک بناتے ہیں ۔

سیدنا معاذ بن جبل رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں :

میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ سواری پر آپ کے پیچھے بیٹھا تھا آپ ﷺ نے مجھ سے پوچھا معاذ تم جانتے ہو کہ بندوں پر اﷲ کا کیا حق ہے؟ اور بندوں کا اﷲ پر کیاحق ہے؟ میں نے کہا اﷲ اور اسکا رسول بہتر جانتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا بندوں پر اﷲ کا حق یہ ہے کہ وہ اس کی عبادت کریں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں اور بندوں کا اﷲ پر حق یہ ہے کہ وہ انہیں عذاب نہ دے جنہوں نے شرک نہیں کیا ۔ میں نے کہا اﷲ کے رسول میں لوگوں کو یہ خوشخبری نہ دوں؟ آپ نے فرمایا نہیں ورنہ وہ اس پر بھروسہ کرکے بیٹھ رہیں گے۔
[بخاری و مسلم]


جو عبادات اﷲ کے لئے خاص ہیں وہ یہ ہیں دعاء، رکوع، سجدہ، محبت ، تعظیم، خوف، امید، رجوع، (اﷲ کی طرف) رغبت، ڈرنا، عاجزی، خشیت، بھروسہ، فریاد کرنا، مدد مانگنا، پناہ مانگنا، نذر، ذبح، طواف، فیصلے، احکام ماننا، ان کے علاوہ بھی عبادات کی جو اقسام ہیں وہ سب صرف اﷲ کے لئے ہیں ان میں سے کوئی بھی عبادت کسی اور کے لئے جائز نہیں جو ایسا کرے گا وہ مشرک شمار ہوگا چاہے وہ نماز پڑھے روزے رکھے حج کرے اور خود کومسلمان سمجھتا رہے ۔

(۲) دوسری خوبی جو موحد بننے کے لئے لازمی ہے : کہ اپنے عقیدے ، قول و فعل سے اﷲ کو ایک مانے اس لئے کہ اﷲ کی عبادت اور توحید کی بنیاد دو ارکان پر ہے ۔

پہلا رکن: کفر بالطاغوت اور دوسرا رکن ہے ایک اﷲ پر ایمان۔

کفر بالطاغوت ارکان توحید میں سے پہلا رکن ہے اور یہ رکن تب ہی صحیح ہوگا جب بندہ اپنے عقیدے، عمل اور عبادت سے ثابت کر دیگا اس وقت طاغوت کا منکر شمار ہوگا اگر ان تینوں سے (عقیدہ ، عبادت ، عمل) میں سے کسی ایک میں بھی کمی کردی تو طاغوت کا منکر نہیں کہلائے گا۔ اس بات کی دلیل اﷲ کا یہ فرمان ہے۔

وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوْا اﷲَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ [النحل: ۳۶]

ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ اﷲ کی عبادت کرو طاغوت سے اجتناب کرو۔


اور سابقہ سطور میں ہم بیان کر چکے ہیں کہ طاغوت کا انکار عقیدہ ، عبادت، اور عمل سے ہوتا ہے ۔ اسکی مثال یہ ہے کہ اگر ایک انسان یہ عقیدہ رکھتا ہو کہ صرف اﷲ ہی قانون ساز ہے اور اس عقیدے کا زبان سے اقرار بھی کرتا ہو مگر عملی طور پر وہ کوئی کفریہ کام کرے یعنی ایسا عمل کرے جس سے ثابت ہوتا ہو کہ اس نے کسی اور کو قانون ساز تسلیم کر لیا اور اسے بنانے کا اتنا اختیار دیدیا جتنا کہ صرف اﷲ کا حق ہے تو ایسا شخص اس وقت مشرک شمار ہوگا یعنی اﷲ کی ربوبیت میں شرک کر رہا ہے ۔

امام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اﷲ فرماتے ہیں :

یہ بات یاد رکھو کہ اﷲ کے دین کا مطلب ہے دل سے اعتقاد محبت بغض اور زبان سے اقرار اور زبان کو کفریہ کلمات سے محفوظ رکھنا۔ اعضاء سے ارکان اسلام کو بجالانا اور ان افعال کو نہ کرنا جن سے کفر لازم آتا ہے اگر ان تینوں میں سے کسی ایک میں کمی ہوگئی تو انسان کافر اور مرتد ہوجاتا ہے صرف ایک اﷲ پر ایمان لانا ارکان توحید میں سے دوسرا رکن ہے مگر یہ رکن اس وقت تک مکمل نہیں ہوگا جب تک بندہ اپنے رب پر اعتقادی ، قولی اور فعلی ایمان نہ لائے جب یہ سب کرے گا تو تب مومن شمار ہوگا اگر ان تینوں لازمی امور میں سے کوئی ایک بھی کم ہو تو بندہ مومن شمار نہیں ہوگا۔

[الدرر السنیۃ کتاب الحکم المرتد ۸/۸۷]


اس بارے میں امام آجری نے اپنی کتاب :الشریعہ میں باب باندھ کر لکھا ہے ۔باب القول ........کہ ایمان دل کی تصدیق زبان سے اقرار اور اعضاء سے عمل کرنے کا نام ہے اور انسان اس وقت مومن کہلا سکتا ہے جب اس میں یہ تینوں خوبیاں جمع ہوجائیں لہٰذا کوئی بھی انسان دو امور کی وجہ سے موحد کہلا سکتا ہے ۔


۱- اﷲ کا حق پہچان لے (یہ حقوق ہم پہلے بیان کر چکے ہیں

۲- عقیدہ ، قول اور عمل سے اﷲ کو ایک مانے ہم یہ بھی واضح کر چکے ہیں کہ اعتقاد ، قول اور عمل سے اﷲ کی عبادت کی کیفیت کیا ہے؟ یعنی یہ کہ انسان میں کفر بالطاغوت اور ایمان باﷲ کی تمام شرائط مکمل طور پر پائی جائیں۔


امام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ اپنے رسالہ کشف الشبھات میں فرماتے ہیں اس بارے میں کسی کا اختلاف نہیں ہے کہ توحید اعتقاد ، قول اور عمل کا نام ہے اگر ان میں سے ایک بھی کم ہو تو انسان مسلمان نہیں کہلائے گا۔

نیز فرماتے ہیں کہ امت میں اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ توحید کے لئے ضروری ہے کہ وہ دل سے ہو یعنی اس سے مراد علم ہے زبان سے یعنی اقرار اور عمل سے یعنی اوامر و نواہی کا نفاذ اعضاء سے اگر ان تینوں میں سے کسی ایک میں کمی آگئی تو آدمی مسلمان نہیں کہلائے گا اگر توحید کا اقرار کرتا ہے مگر اس پر عمل نہیں کرتا تو وہ کافر ہے فرعون و ابلیس کی طرح۔ اور اگر ظاہری طور پر توحید پر عمل کرتا ہے اور دل میں اسکا اعتقاد نہیں رکھتا تو وہ پکا منافق ہے اور کافر سے بھی بدتر ہے۔

[الدرر السنیۃ ۲/۱۲۴]

شیخ عبداﷲ بن عبدالرحمن ابابطین رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

جب مسلمان اس کلمہ کی عظمت کو پہچان لے اور اس کے اقرار سے جو پابندیاں اس پر عائد ہوتی ہیں انہیں بھی جان لے تو اس پر لازم ہوجاتا ہے کہ دل میں اس پر عقیدہ رکھے، زبان سے اقرار کرے اعضاء سے عمل کرے اگر ان تینوں میں سے کوئی بھی کم ہو تو آدمی مسلمان نہیں کہلائے گا اگر آدمی مسلمان بن جائے اور ارکان پر عمل بھی کرے مگر پھر اس سے کوئی عمل قول یا اعتقاد اس طرح کا سرزد ہوجائے جو ان کے منافی ہو تو یہ سب کچھ اسے فائدہ نہیں دے گا ۔جیسا کہ اﷲ تعالی نے ان لوگوں کے بارے میں ارشاد فرمایا جنھوں نے غزوہ نبوت کے بارے میں نازیبا کلمات منہ سے نکالے تھے۔

لَا تَعْتَذِرُوْا قَدْ کَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِکُمْ [توبہ: ۶۶]
بہانے مت بناؤ تم ایمان لانے کے بعد کافر ہوچکے ہو۔

دوسروں کے بارے میں فرمایا:

وَلَقَدْ قَالُوْا کَلِمَةَ الْکُفْرِ وَ کَفَرُوْا بَعْدَ اِسْلَامِہِمْ [توبہ: ۷۳]
انہوں نے کفریہ بات کی ہے اور اسلام لانے کے بعد کفر کیا ہے۔

[مجموعۃ التوحید الرسالۃ الثامنۃ]

سلیمان بن سحمان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

لا الہ الا اﷲ کی گواہی میں ضروری ہے کہ دل سے اعتقاد زبان سے اقرار اور اعضاء سے عمل ہو اگر ان میں سے کسی ایک کی بھی کمی ہوئی تو آدمی مسلمان نہیں رہے گا جب آدمی مسلمان ہو ارکان پر عمل پیرا ہو اور پھر اس سے کوئی ایسا عمل، قول، یا اعتقادی کام سرزد ہوجائے جو اس اقرار کے منافی ہوتو صرف لا الہ الا اﷲ کا اقرار کوئی فائدہ نہیں دے گا قرآن و سنت اور ائمہ کے اقوال میں اس بات پر بے شمار دلائل ہیں۔

[الدرر السنیۃ ۲/۳۵۰]

علامہ عبدالرحمن بن حسن رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں :

فقہاء نے مرتد کے حکم کے بارے کہا ہے کہ آدمی اگرچہ لا الہ الا اﷲ محمد الرسول اﷲ کا اقرار کر رہا ہو روزے رکھتا ہو نماز پڑھتا ہو صدقات دیتا ہو مگر کوئی ایک قول یا عمل اسکو مرتد (کافر) بنا دیتا ہے اور اس کے تمام اعمال باطل ہوجاتے ہیں خاص کر اس صورت میں کہ اگر وہ اس حالت پر مرگیا البتہ اگر مرنے سے پہلے کسی نے توبہ کر لی تو اس کے بارے میں فقہاء کا اختلاف ہے۔

[الدررالسنیۃ :۱۱/۵۸۳]
 
Top