مقبول احمد سلفی
سینئر رکن
- شمولیت
- نومبر 30، 2013
- پیغامات
- 1,400
- ری ایکشن اسکور
- 463
- پوائنٹ
- 209
یہ سوال بہٹ اٹھایا جاتا ہے کہ بنک سے ملنے والے سود کو ہم کہاں صرف کریں ؟
قبل اس کے کہ میں اصل سوال کا جواب دوں پہلے یہ بات جان لیں کہ سود کا لین دین محرمات میں سے ہے نبی ﷺ نے لعنت فرمائی سود کھانے والے پر ، سود دینے والے پر، سود لکھنے والے پر اور سودی لین دین کے گواہوں پر اور آپﷺ نے فرمایا: ’’وہ سب (گناہ میں) برابر ہیں‘‘۔(مسلم:1598)
اس لئے ہر اس کام سے بچا جائے جس میں سود کا عنصر ملا ہوا ہے ۔
برصغیر میں بنک کا نظام سودی کاروبار پہ چلتا اور ہم ان بنکون کا استعمال مجبوری میں کرتے ہیں ۔ تو ان سے حاصل شدہ سودی رقم کہاں صرف کی جائے ؟
اس میں علماء کے متعدد اقوال ہیں ، ان اقوال کی روشنی میں جو مناسب آراء سامنے آتے ہیں میں صرف انہیں ہی ذکر کرنے پہ اکتفا کرتا ہوں ۔
(1) ایسے بھوکے غریب و نادار پہ خرچ کیا جائے جو نان شبینہ کے محتاج ہوں ۔
(2) ایسے غریب مریض کا علاج کرایا جائے جس کا کوئی پرسان حال نہ ہو۔
(3)وہ مقروض جس کے لئے قرض کی ادائیگی بہت دشوار ہو اس کے قرض میں استعمال کیا جائے۔
(4) غیرمسلم تعلیمی ادارے پہ خرچ کیا جائے جس میں مسلم بچے زیرتعلیم نہ ہوں اور وہ ادارہ اسلام کے خلاف تعلیم نہ دیتا ہو۔
(5) ایسے غریب غیرمسلم کو دیا جائے جو مسلمانوں کا دشمن نہ ہو۔
(6) حکومت کی طرف سے عائد شرعا ظالمانہ ٹیکس بھی ادا کرسکتے ہیں جیسے انکم ٹیکس,سیل ٹیکس ویٹ ٹیکس,کسٹم ڈیوٹی ٹیکس وغیرہ لیکن نجی مفاد والے ٹیکس ادا نہیں کرسکتے جیسے ہاؤس ٹیکس, واٹر ٹیکس,سیور ٹیکس وغیرہ
(7) رفاہی کاموں میں صرف کیا جائے مثلا سڑک ، کنواں، مسافرخانہ ، نل ، نہر وغیرہ
علماء نے ان سب کاموں میں سود کی رقم استعال کرنے کو جائز قرار دیا ہے ، جس کے پاس سود کی رقم ہو اور ان مصارف میں سے جو مصرف آپ کے سامنے ہو اس میں سودی رقم لگا سکتے ہیں ۔ میں ان تمام مصارف میں سب سے بہتر مصرف آخر الذکر کو سمجھتا ہوں ۔ کیونکہ میری نظر میں سود کو اپنے نجی مفاد سے بچانا ہے اوراسلام یا مسلمان کے کسی کام میں صرف کرنے سے بھی بچانا ہے اور ایسا کام کرنا ہے جس سے سب کا بھلا ہو اس میں ہندو مسلم کا کوئی امتیاز باقی نہ رہے ۔
واللہ اعلم
قبل اس کے کہ میں اصل سوال کا جواب دوں پہلے یہ بات جان لیں کہ سود کا لین دین محرمات میں سے ہے نبی ﷺ نے لعنت فرمائی سود کھانے والے پر ، سود دینے والے پر، سود لکھنے والے پر اور سودی لین دین کے گواہوں پر اور آپﷺ نے فرمایا: ’’وہ سب (گناہ میں) برابر ہیں‘‘۔(مسلم:1598)
اس لئے ہر اس کام سے بچا جائے جس میں سود کا عنصر ملا ہوا ہے ۔
برصغیر میں بنک کا نظام سودی کاروبار پہ چلتا اور ہم ان بنکون کا استعمال مجبوری میں کرتے ہیں ۔ تو ان سے حاصل شدہ سودی رقم کہاں صرف کی جائے ؟
اس میں علماء کے متعدد اقوال ہیں ، ان اقوال کی روشنی میں جو مناسب آراء سامنے آتے ہیں میں صرف انہیں ہی ذکر کرنے پہ اکتفا کرتا ہوں ۔
(1) ایسے بھوکے غریب و نادار پہ خرچ کیا جائے جو نان شبینہ کے محتاج ہوں ۔
(2) ایسے غریب مریض کا علاج کرایا جائے جس کا کوئی پرسان حال نہ ہو۔
(3)وہ مقروض جس کے لئے قرض کی ادائیگی بہت دشوار ہو اس کے قرض میں استعمال کیا جائے۔
(4) غیرمسلم تعلیمی ادارے پہ خرچ کیا جائے جس میں مسلم بچے زیرتعلیم نہ ہوں اور وہ ادارہ اسلام کے خلاف تعلیم نہ دیتا ہو۔
(5) ایسے غریب غیرمسلم کو دیا جائے جو مسلمانوں کا دشمن نہ ہو۔
(6) حکومت کی طرف سے عائد شرعا ظالمانہ ٹیکس بھی ادا کرسکتے ہیں جیسے انکم ٹیکس,سیل ٹیکس ویٹ ٹیکس,کسٹم ڈیوٹی ٹیکس وغیرہ لیکن نجی مفاد والے ٹیکس ادا نہیں کرسکتے جیسے ہاؤس ٹیکس, واٹر ٹیکس,سیور ٹیکس وغیرہ
(7) رفاہی کاموں میں صرف کیا جائے مثلا سڑک ، کنواں، مسافرخانہ ، نل ، نہر وغیرہ
علماء نے ان سب کاموں میں سود کی رقم استعال کرنے کو جائز قرار دیا ہے ، جس کے پاس سود کی رقم ہو اور ان مصارف میں سے جو مصرف آپ کے سامنے ہو اس میں سودی رقم لگا سکتے ہیں ۔ میں ان تمام مصارف میں سب سے بہتر مصرف آخر الذکر کو سمجھتا ہوں ۔ کیونکہ میری نظر میں سود کو اپنے نجی مفاد سے بچانا ہے اوراسلام یا مسلمان کے کسی کام میں صرف کرنے سے بھی بچانا ہے اور ایسا کام کرنا ہے جس سے سب کا بھلا ہو اس میں ہندو مسلم کا کوئی امتیاز باقی نہ رہے ۔
واللہ اعلم