محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
ثُمَّ تَوَلَّيْتُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ۰ۚ فَلَوْ لَا فَضْلُ اللہِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُہٗ لَكُنْتُمْ مِّنَ الْخٰسِرِيْنَ۶۴ وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِيْنَ اعْتَدَوْا مِنْكُمْ فِى السَّبْتِ فَقُلْنَا لَھُمْ كُوْنُوْا قِرَدَۃً خٰسِٕيْنَ۶۵ۚ
{تولیتم} ماضی معروف۔ مصدرتولی۔ ابا و انکار۔ اقرار کرکے پھرجانا۔ {اِعْتَدَوْا} مصدر اعتداء۔ زیادتی کرنا {اَلسَّبْتِ} اصل معنی قطع کرنے کے ہیں۔ رات کے متعلق ارشاد ہے وَجَعَلَ اللَّیْلَ سُبَاتًا۔ یعنی رات افکار سے چھڑادینے والی ہے ۔ سبت کے معنی ہوئے اس دن کے جس میں کام کاج نہ کیاجائے۔ مراد ہفتہ کا دن ہے {نَکَالاً} عبرت انگیز سزا{قِرَدَۃً} بندر{خَاسِئِیْنَ} جمع خَاسِئی بمعنی ذلیل ورسوا۔
۱؎ یہودیوں نے مذہب کے بارے میں سخت ٹھوکریں کھائی ہیں۔ انھوں نے سمجھ لیا کہ خدا کا مقصد صرف الفاظ کے ظاہری مفہوم کو پورا کرنا ہے ۔ چاہے اصل منشاء کی مخالفت ہی ہو۔ چنانچہ جب سبت کے دن کام کاج سے ان کو روکا گیا تو وہ ایک اور حیلہ تراشنے میں کامیاب ہوگیے۔ یعنی دریا کے کنارے کنارے کچھ حوض کھود رکھے تاکہ مچھلیاں سبت کے دن بھی ہاتھ سے نہ جانے پائیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب موزوں دیا۔ ان کو ان کی ظاہری صورت سے محروم کردیا اور ان کو باطنی معنویت سے بالکل الگ شکل میں تبدیل کردیا اور بتایا کہ اللہ تعالیٰ کی آیات کو مسخ کرنے کا یہ نتیجہ ہے ۔ مذہب صرف الفاظ وظاہر کی پابندی کا نام نہیں بلکہ معنویت وبطون کا خیال بھی رکھنا چاہیے۔ وہ جو بے عمل وملحد ہوتے ہیں وہ یا تو اتنے ظاہر پرست ہوجاتے ہیں کہ صرف الفاظ کو سامنے رکھتے ہیں اور یا پھر اس قدر تعمق وتفکر کے عادی کہ ظاہر وباہر مفہوم سے تغافل اختیار کرلیتے ہیں اور انھیں محسوس بھی نہیں ہوتا۔ اسلام کی ہدایت اس باب میں یہ ہے کہ کسی قسم کا حیلہ جو نفس منشائے الٰہی کے خلاف ہو، الحاد ہے اور کفر۔ الفاظ ومعانی میں ایک ربط رہنا چاہیے۔ جہاں یہودی ظاہر پرستی کی وجہ سے خشک اور یابس ہوکر رہ گیے وہاں عیسائیوں نے یہ بڑی غلطی کی کہ روحانیت میں غلو کی وجہ سے بے پروا ہوگے اور شریعت کے احکام کو لعنت سے تعبیر کرنے لگے۔ اسلام نے آکر بتایا کہ ہمیشہ سے مذہب کا مقصد ظاہر وباطن کا تزکیہ رہا ہے۔ جس طرح وہ وکیل جو قانون کے الفاظ سے ناجائز فائدہ اٹھائے اور قانون کے مقصد کی مخالفت کرے، حکومت کا مجرم ہوتا ہے ۔ اسی طرح وہ علمائے دین جو ظاہری الفاظ سے اپنے مفاد کے ماتحت حیلہ تراش لیں، خدا تعالیٰ کے مخالف ہوں گے۔ دین دار اور متورع اشخاص تو کسی طرح بھی اس نوع کے حیل کی اجازت نہیں دے سکتے، البتہ اصحاب حرص وآز اور ارباب عزت وجاہ جن کا مقصد ارذل ترین دنیا کا حصول ہوتا ہے وہ ضرور کوشاں رہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح دین کو جلب زر کا ذریعہ بنایا جائے ۔ جب کسی قوم کی یہ ذہنیت ہوجائے کہ وہ دنیا کو مقدم رکھے اور دین کو محض اپنے سلسلۃ العیش کی ایک کڑی سمجھے توپھرہلاکت قریب ہے ۔ اس وقت دین کا احترام اٹھ جاتا ہے ۔ زیادہ سے زیادہ الفاظ کے ظاہری مفہوم کو ادا کرلینا ہی وہ کافی سمجھتے ہیں۔ طرح طرح کے حیلوں سے اپنے مفاد ووقار کو قائم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بنی اسرائیل کے قصے ہمیں سنائے جارہے ہیں۔ ان کے اقبال وادبار کی پوری داستانیں دہرائی جارہی ہیں، تاکہ ہم ان کے نقش قدم پر نہ چلیں اور آنے والی ہلاکت سے بچیں۔پھر اس کے بعد تم پھرگیے۔ پھراگر خدا کا فضل اور مہر تم پر نہ ہوتا تو تم نقصان اٹھانے والوں میں ہوجاتے۔(۶۴) اور تم ان آدمیوں کو ضرور جان چکے ہو جنھوں نے تم میں سے ہفتے کے دن زیادتی کی تھی۔ پھر ہم نے کہا کہ پھٹکارے ہوئے بندر بن جاؤ۔ ۱؎(۶۵)
حل لغات
{تولیتم} ماضی معروف۔ مصدرتولی۔ ابا و انکار۔ اقرار کرکے پھرجانا۔ {اِعْتَدَوْا} مصدر اعتداء۔ زیادتی کرنا {اَلسَّبْتِ} اصل معنی قطع کرنے کے ہیں۔ رات کے متعلق ارشاد ہے وَجَعَلَ اللَّیْلَ سُبَاتًا۔ یعنی رات افکار سے چھڑادینے والی ہے ۔ سبت کے معنی ہوئے اس دن کے جس میں کام کاج نہ کیاجائے۔ مراد ہفتہ کا دن ہے {نَکَالاً} عبرت انگیز سزا{قِرَدَۃً} بندر{خَاسِئِیْنَ} جمع خَاسِئی بمعنی ذلیل ورسوا۔