خواجہ خرم
رکن
- شمولیت
- دسمبر 02، 2012
- پیغامات
- 477
- ری ایکشن اسکور
- 46
- پوائنٹ
- 86
@اسحاق سلفی محترم
یہ واقعہ نظر سے گزرا تھا
حضورِ انور صلی اللہ علیہ وسلم کی خوش طبعی کی وضاحت کرتے ہوئے ام نبیط رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:’’ایک دفعہ ہم اپنی ایک نوجوان بچی کو اس کے خاوند ،جو قبیلۂ بنی نجار کا فرد تھا،کے پاس لے جارہی تھیں۔میرے ساتھ بنی نجار کی عورتیں بھی تھیں۔میرے پاس دف تھی جو میں بجارہی تھی اور میں کہہ رہی تھی۔
اتیناکم اتیناکم فحیونا نحییکم
’’ہم تمہیں سلام کہتی ہیں تم ہمیں سلام کہو۔‘‘
ولولا الذہب الاحمر ماحلّت بوادیکم
’’اور اگر تمہارے پاس سرخ سونا نہ ہوتا تو یہ عروسہ تمہاری وادی میں نہ اترتی۔‘‘
ہم اس طرح گز ر رہی تھیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور ہمارے پاس کھڑے ہوگئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا اے ام نبیط یہ کیا کررہی ہو؟میں نے عرض کی میرا باپ اور میری ماں حضور(ﷺ) پر قربان، یارسول اللہ !یہ قبیلۂ بنی نجار کی دلہن ہے جسے ہم اس کے خاوند کے پاس لے جارہے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :تم کیا کہہ رہی تھیں؟ میں نے اپنے وہ گیت سنائے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ولولا الحنطۃ السمرآء ُ ما سمنت عذاریکم۔
’’اگر یہ گندم نہ ہوتی تو تمہاری یہ کنواریاں اتنی موٹی نہ ہوتیں۔‘‘
اس کو تلاش کیا تو اس کا کچھ حصہ سنن ابن ماجہ وغیرہ میں ملتا ہے جبکہ باقی روایت معجم الاوسط طبرانی میں موجود ہے
حَدَّثَنَا بَكْرٌ قَالَ: نا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي السَّرِيِّ الْعَسْقَلَانِيُّ قَالَ: نا أَبُو عِصَامٍ رَوَّادُ بْنُ الْجَرَّاحِ، عَنْ شَرِيكِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَا فَعَلَتْ فُلَانَةُ؟» ، لِيَتِيمَةٍ كَانَتْ عِنْدَهَا، فَقُلْتُ: أَهْدَيْنَاهَا إِلَى زَوْجِهَا قَالَ: «فَهَلْ بَعَثْتُمْ مَعَهَا بِجَارِيَةٍ تَضْرِبُ بِالدُّفِّ، وَتُغَنِّي؟» قَالَتْ: تَقُولُ مَاذَا؟ قَالَ: «تَقُولُ:
[البحر الرجز]
أَتَيْنَاكُمْ، أَتَيْنَاكُمْ ... فَحَيُّونَا، نُحَيِّيكُمْ
لَوْلَا الذَّهَبُ الْأَحْمَرُ ... مَا حَلَّتْ بِوَادِيكُمْ
وَلَوْلَا الْحَبَّةُ السَّمْرَاءُ ... مَا سَمِنَتْ عَذَارِيكُمْ»
لَمْ يَرْوِ هَذَا الْحَدِيثَ عَنِ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ إِلَّا شَرِيكٌ، وَلَا عَنْ شَرِيكٍ إِلَّا رَوَّادٌ، تَفَرَّدَ بِهِ مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي السَّرِيِّ
[الطبراني ,المعجم الأوسط ,3/315]
اس بارے میں شیخ البانی رحمہ اللہ
إرواء الغلیل میں فرماتے ہیں:
حديث: " أنه صلى الله عليه وسلم قال للأنصار (1) :
أتيناكم أتيناكم فحيونا نحييكم
ولولا الذهب الأحمر لما حلت بواديكم
ولولا الحبة السوداء ما سرت عذاريكم ".
* حسن.
أخرجه الطبرانى فى " الأوسط " (1/167/1) من طريق محمد بن أبى السرى العسقلانى أخبرنا أبو عاصم رواد بن الجراح عن شريك بن عبد الله عن هشام بن عروة عن أبيه أن النبى صلى الله عليه وسلم قال: " ما فعلت فلانة؟ ليتيمة كانت عندها , فقلت: أهديناها إلى زوجها , قال: فهل بعثتم معها بجارية تضرب بالدف وتغنى؟ قالت: تقول ماذا؟ قال: تقول.... " فذكره.
وقال: " لم يروه عن هشام إلا شريك , ولا عنه إلا رواد , تفرد به محمد بن أبى السرى ".
قلت: وهذا إسناد مسلسل بالضعفاء: شريك فمن دونه.
قلت: وقد بين ضعفه الحافظ فى " التقريب " فقال: " صدوق , اختلط بآخره فترك , وفى حديثه عن الثورى ضعف شديد ".
وللحديث طريق أخرى , يرويه الأجلح عن أبى الزبير عن جابر عنها به نحوه , دون البيتين الأخيرين.
أخرجه ابن ماجه (1900) والبيهقى (7/289) وأحمد (3/391) .
قلت: وهذا إسناد حسن لولا عنعنة أبى الزبير , لكنه حسن بالذى قبله.
والله سبحانه وتعالى أعلم.
وأصل الحديث عند البخارى (3/435) من طريق إسرائيل عن هشام بن عروة مختصرا بلفظ: " أنها زفت امرأة إلى رجل من الأنصار , فقال نبى الله صلى الله عليه وسلم: يا عائشة ما كان معكم لهو , فإن الأنصار يعجبهم اللهو ".
ومن هذا الوجه أخرجه الحاكم (2/183 ـ 184) وعنه البيهقى (7/288) وقال الحاكم: " صحيح على شرط الشيخين "!
ووافقه الذهبى.
فوهما فى استدراكه على البخارى!
وللحديث شاهد من حديث أبى حسن المازنى , ولكنه ضعيف جدا , وهو المذكور فى الكتاب بعده.
[ناصر الدين الألباني ,إرواء الغليل في تخريج أحاديث منار السبيل ,7/52]
اس بارے میں آپ کی تحقیق کیا کہتی ہے؟
دراصل اس روایت کا آخری حصہ کھٹکتا ہے. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمومی کلام سے مطابقت رکھتا دکھائی نہیں دیتا. ازراہ کرم توجہ فرما کر الجھن دور کردیجیے.
یہ واقعہ نظر سے گزرا تھا
حضورِ انور صلی اللہ علیہ وسلم کی خوش طبعی کی وضاحت کرتے ہوئے ام نبیط رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:’’ایک دفعہ ہم اپنی ایک نوجوان بچی کو اس کے خاوند ،جو قبیلۂ بنی نجار کا فرد تھا،کے پاس لے جارہی تھیں۔میرے ساتھ بنی نجار کی عورتیں بھی تھیں۔میرے پاس دف تھی جو میں بجارہی تھی اور میں کہہ رہی تھی۔
اتیناکم اتیناکم فحیونا نحییکم
’’ہم تمہیں سلام کہتی ہیں تم ہمیں سلام کہو۔‘‘
ولولا الذہب الاحمر ماحلّت بوادیکم
’’اور اگر تمہارے پاس سرخ سونا نہ ہوتا تو یہ عروسہ تمہاری وادی میں نہ اترتی۔‘‘
ہم اس طرح گز ر رہی تھیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور ہمارے پاس کھڑے ہوگئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا اے ام نبیط یہ کیا کررہی ہو؟میں نے عرض کی میرا باپ اور میری ماں حضور(ﷺ) پر قربان، یارسول اللہ !یہ قبیلۂ بنی نجار کی دلہن ہے جسے ہم اس کے خاوند کے پاس لے جارہے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :تم کیا کہہ رہی تھیں؟ میں نے اپنے وہ گیت سنائے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ولولا الحنطۃ السمرآء ُ ما سمنت عذاریکم۔
’’اگر یہ گندم نہ ہوتی تو تمہاری یہ کنواریاں اتنی موٹی نہ ہوتیں۔‘‘
اس کو تلاش کیا تو اس کا کچھ حصہ سنن ابن ماجہ وغیرہ میں ملتا ہے جبکہ باقی روایت معجم الاوسط طبرانی میں موجود ہے
حَدَّثَنَا بَكْرٌ قَالَ: نا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي السَّرِيِّ الْعَسْقَلَانِيُّ قَالَ: نا أَبُو عِصَامٍ رَوَّادُ بْنُ الْجَرَّاحِ، عَنْ شَرِيكِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَا فَعَلَتْ فُلَانَةُ؟» ، لِيَتِيمَةٍ كَانَتْ عِنْدَهَا، فَقُلْتُ: أَهْدَيْنَاهَا إِلَى زَوْجِهَا قَالَ: «فَهَلْ بَعَثْتُمْ مَعَهَا بِجَارِيَةٍ تَضْرِبُ بِالدُّفِّ، وَتُغَنِّي؟» قَالَتْ: تَقُولُ مَاذَا؟ قَالَ: «تَقُولُ:
[البحر الرجز]
أَتَيْنَاكُمْ، أَتَيْنَاكُمْ ... فَحَيُّونَا، نُحَيِّيكُمْ
لَوْلَا الذَّهَبُ الْأَحْمَرُ ... مَا حَلَّتْ بِوَادِيكُمْ
وَلَوْلَا الْحَبَّةُ السَّمْرَاءُ ... مَا سَمِنَتْ عَذَارِيكُمْ»
لَمْ يَرْوِ هَذَا الْحَدِيثَ عَنِ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ إِلَّا شَرِيكٌ، وَلَا عَنْ شَرِيكٍ إِلَّا رَوَّادٌ، تَفَرَّدَ بِهِ مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي السَّرِيِّ
[الطبراني ,المعجم الأوسط ,3/315]
اس بارے میں شیخ البانی رحمہ اللہ
إرواء الغلیل میں فرماتے ہیں:
حديث: " أنه صلى الله عليه وسلم قال للأنصار (1) :
أتيناكم أتيناكم فحيونا نحييكم
ولولا الذهب الأحمر لما حلت بواديكم
ولولا الحبة السوداء ما سرت عذاريكم ".
* حسن.
أخرجه الطبرانى فى " الأوسط " (1/167/1) من طريق محمد بن أبى السرى العسقلانى أخبرنا أبو عاصم رواد بن الجراح عن شريك بن عبد الله عن هشام بن عروة عن أبيه أن النبى صلى الله عليه وسلم قال: " ما فعلت فلانة؟ ليتيمة كانت عندها , فقلت: أهديناها إلى زوجها , قال: فهل بعثتم معها بجارية تضرب بالدف وتغنى؟ قالت: تقول ماذا؟ قال: تقول.... " فذكره.
وقال: " لم يروه عن هشام إلا شريك , ولا عنه إلا رواد , تفرد به محمد بن أبى السرى ".
قلت: وهذا إسناد مسلسل بالضعفاء: شريك فمن دونه.
قلت: وقد بين ضعفه الحافظ فى " التقريب " فقال: " صدوق , اختلط بآخره فترك , وفى حديثه عن الثورى ضعف شديد ".
وللحديث طريق أخرى , يرويه الأجلح عن أبى الزبير عن جابر عنها به نحوه , دون البيتين الأخيرين.
أخرجه ابن ماجه (1900) والبيهقى (7/289) وأحمد (3/391) .
قلت: وهذا إسناد حسن لولا عنعنة أبى الزبير , لكنه حسن بالذى قبله.
والله سبحانه وتعالى أعلم.
وأصل الحديث عند البخارى (3/435) من طريق إسرائيل عن هشام بن عروة مختصرا بلفظ: " أنها زفت امرأة إلى رجل من الأنصار , فقال نبى الله صلى الله عليه وسلم: يا عائشة ما كان معكم لهو , فإن الأنصار يعجبهم اللهو ".
ومن هذا الوجه أخرجه الحاكم (2/183 ـ 184) وعنه البيهقى (7/288) وقال الحاكم: " صحيح على شرط الشيخين "!
ووافقه الذهبى.
فوهما فى استدراكه على البخارى!
وللحديث شاهد من حديث أبى حسن المازنى , ولكنه ضعيف جدا , وهو المذكور فى الكتاب بعده.
[ناصر الدين الألباني ,إرواء الغليل في تخريج أحاديث منار السبيل ,7/52]
اس بارے میں آپ کی تحقیق کیا کہتی ہے؟
دراصل اس روایت کا آخری حصہ کھٹکتا ہے. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمومی کلام سے مطابقت رکھتا دکھائی نہیں دیتا. ازراہ کرم توجہ فرما کر الجھن دور کردیجیے.