• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بنی نجار کی دلہن کا واقعہ

شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
@اسحاق سلفی محترم

یہ واقعہ نظر سے گزرا تھا

حضورِ انور صلی اللہ علیہ وسلم کی خوش طبعی کی وضاحت کرتے ہوئے ام نبیط رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:’’ایک دفعہ ہم اپنی ایک نوجوان بچی کو اس کے خاوند ،جو قبیلۂ بنی نجار کا فرد تھا،کے پاس لے جارہی تھیں۔میرے ساتھ بنی نجار کی عورتیں بھی تھیں۔میرے پاس دف تھی جو میں بجارہی تھی اور میں کہہ رہی تھی۔
اتیناکم اتیناکم فحیونا نحییکم
’’ہم تمہیں سلام کہتی ہیں تم ہمیں سلام کہو۔‘‘
ولولا الذہب الاحمر ماحلّت بوادیکم
’’اور اگر تمہارے پاس سرخ سونا نہ ہوتا تو یہ عروسہ تمہاری وادی میں نہ اترتی۔‘‘
ہم اس طرح گز ر رہی تھیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور ہمارے پاس کھڑے ہوگئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا اے ام نبیط یہ کیا کررہی ہو؟میں نے عرض کی میرا باپ اور میری ماں حضور(ﷺ) پر قربان، یارسول اللہ !یہ قبیلۂ بنی نجار کی دلہن ہے جسے ہم اس کے خاوند کے پاس لے جارہے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :تم کیا کہہ رہی تھیں؟ میں نے اپنے وہ گیت سنائے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ولولا الحنطۃ السمرآء ُ ما سمنت عذاریکم۔
’’اگر یہ گندم نہ ہوتی تو تمہاری یہ کنواریاں اتنی موٹی نہ ہوتیں۔‘‘


اس کو تلاش کیا تو اس کا کچھ حصہ سنن ابن ماجہ وغیرہ میں ملتا ہے جبکہ باقی روایت معجم الاوسط طبرانی میں موجود ہے

حَدَّثَنَا بَكْرٌ قَالَ: نا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي السَّرِيِّ الْعَسْقَلَانِيُّ قَالَ: نا أَبُو عِصَامٍ رَوَّادُ بْنُ الْجَرَّاحِ، عَنْ شَرِيكِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَا فَعَلَتْ فُلَانَةُ؟» ، لِيَتِيمَةٍ كَانَتْ عِنْدَهَا، فَقُلْتُ: أَهْدَيْنَاهَا إِلَى زَوْجِهَا قَالَ: «فَهَلْ بَعَثْتُمْ مَعَهَا بِجَارِيَةٍ تَضْرِبُ بِالدُّفِّ، وَتُغَنِّي؟» قَالَتْ: تَقُولُ مَاذَا؟ قَالَ: «تَقُولُ:

[البحر الرجز]

أَتَيْنَاكُمْ، أَتَيْنَاكُمْ ... فَحَيُّونَا، نُحَيِّيكُمْ

لَوْلَا الذَّهَبُ الْأَحْمَرُ ... مَا حَلَّتْ بِوَادِيكُمْ

وَلَوْلَا الْحَبَّةُ السَّمْرَاءُ ... مَا سَمِنَتْ عَذَارِيكُمْ»

لَمْ يَرْوِ هَذَا الْحَدِيثَ عَنِ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ إِلَّا شَرِيكٌ، وَلَا عَنْ شَرِيكٍ إِلَّا رَوَّادٌ، تَفَرَّدَ بِهِ مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي السَّرِيِّ

[الطبراني ,المعجم الأوسط ,3/315]


اس بارے میں شیخ البانی رحمہ اللہ
إرواء الغلیل میں فرماتے ہیں:
حديث: " أنه صلى الله عليه وسلم قال للأنصار (1) :
أتيناكم أتيناكم فحيونا نحييكم
ولولا الذهب الأحمر لما حلت بواديكم
ولولا الحبة السوداء ما سرت عذاريكم ".
* حسن.
أخرجه الطبرانى فى " الأوسط " (1/167/1) من طريق محمد بن أبى السرى العسقلانى أخبرنا أبو عاصم رواد بن الجراح عن شريك بن عبد الله عن هشام بن عروة عن أبيه أن النبى صلى الله عليه وسلم قال: " ما فعلت فلانة؟ ليتيمة كانت عندها , فقلت: أهديناها إلى زوجها , قال: فهل بعثتم معها بجارية تضرب بالدف وتغنى؟ قالت: تقول ماذا؟ قال: تقول.... " فذكره.
وقال: " لم يروه عن هشام إلا شريك , ولا عنه إلا رواد , تفرد به محمد بن أبى السرى ".
قلت: وهذا إسناد مسلسل بالضعفاء: شريك فمن دونه.
قلت: وقد بين ضعفه الحافظ فى " التقريب " فقال: " صدوق , اختلط بآخره فترك , وفى حديثه عن الثورى ضعف شديد ".
وللحديث طريق أخرى , يرويه الأجلح عن أبى الزبير عن جابر عنها به نحوه , دون البيتين الأخيرين.
أخرجه ابن ماجه (1900) والبيهقى (7/289) وأحمد (3/391) .
قلت: وهذا إسناد حسن لولا عنعنة أبى الزبير , لكنه حسن بالذى قبله.
والله سبحانه وتعالى أعلم.
وأصل الحديث عند البخارى (3/435) من طريق إسرائيل عن هشام بن عروة مختصرا بلفظ: " أنها زفت امرأة إلى رجل من الأنصار , فقال نبى الله صلى الله عليه وسلم: يا عائشة ما كان معكم لهو , فإن الأنصار يعجبهم اللهو ".
ومن هذا الوجه أخرجه الحاكم (2/183 ـ 184) وعنه البيهقى (7/288) وقال الحاكم: " صحيح على شرط الشيخين "!
ووافقه الذهبى.
فوهما فى استدراكه على البخارى!
وللحديث شاهد من حديث أبى حسن المازنى , ولكنه ضعيف جدا , وهو المذكور فى الكتاب بعده.
[ناصر الدين الألباني ,إرواء الغليل في تخريج أحاديث منار السبيل ,7/52]


اس بارے میں آپ کی تحقیق کیا کہتی ہے؟
دراصل اس روایت کا آخری حصہ کھٹکتا ہے. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمومی کلام سے مطابقت رکھتا دکھائی نہیں دیتا. ازراہ کرم توجہ فرما کر الجھن دور کردیجیے.
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
@اسحاق سلفی محترم

یہ واقعہ نظر سے گزرا تھا

حضورِ انور صلی اللہ علیہ وسلم کی خوش طبعی کی وضاحت کرتے ہوئے ام نبیط رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:’’ایک دفعہ ہم اپنی ایک نوجوان بچی کو اس کے خاوند ،جو قبیلۂ بنی نجار کا فرد تھا،کے پاس لے جارہی تھیں۔میرے ساتھ بنی نجار کی عورتیں بھی تھیں۔میرے پاس دف تھی جو میں بجارہی تھی اور میں کہہ رہی تھی۔
اتیناکم اتیناکم فحیونا نحییکم
’’ہم تمہیں سلام کہتی ہیں تم ہمیں سلام کہو۔‘‘
ولولا الذہب الاحمر ماحلّت بوادیکم
’’اور اگر تمہارے پاس سرخ سونا نہ ہوتا تو یہ عروسہ تمہاری وادی میں نہ اترتی۔‘‘
ہم اس طرح گز ر رہی تھیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور ہمارے پاس کھڑے ہوگئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا اے ام نبیط یہ کیا کررہی ہو؟میں نے عرض کی میرا باپ اور میری ماں حضور(ﷺ) پر قربان، یارسول اللہ !یہ قبیلۂ بنی نجار کی دلہن ہے جسے ہم اس کے خاوند کے پاس لے جارہے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :تم کیا کہہ رہی تھیں؟ میں نے اپنے وہ گیت سنائے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ولولا الحنطۃ السمرآء ُ ما سمنت عذاریکم۔
’’اگر یہ گندم نہ ہوتی تو تمہاری یہ کنواریاں اتنی موٹی نہ ہوتیں۔‘‘

اس کو تلاش کیا تو اس کا کچھ حصہ سنن ابن ماجہ وغیرہ میں ملتا ہے جبکہ باقی روایت معجم الاوسط طبرانی میں موجود ہے
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
ام نبیط کے حوالہ سےبنو نجار کی لڑکی کی شادی کا قصہ مذکورہ متن اور تفصیل کے ساتھ ’’ اسد الغابہ لابن اثیر جزری ‘ُ‘ اور حافظ اابن حجر کی کتاب ’’ الاصابہ فی تمییز الصحابہ ‘‘ میں مروی ہے :
عن نبيط بن جابر عن جدته أم نبيط قالت: أهدينا جارية لنا من بني النجار إلي
زوجها، فكنت مع نسوة من بني النجار ومعي دُف أضربه وأنا أقول:
أتيناكم أتيناكم فحيونا نُحَيِّيكُم
ولولا الذهبُ الأحم لما حَلَّتْ بِواديكُم
قالت: فوقف علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: «ما هذا يا أم نبيط؟»
فقلت: بأبي أنت وأمي يا نبي الله، جارية منا من بني النجار نهديها إلى زوجها.
قال: «فتقولين ماذا؟» قالت: فأعدت عليه قولي، فقال رسول الله صلى الله عليه
وسلم: «قولي:
ولولا الحِنْطَةُ السمرَا لَمَا سمَنَتْ عَذَاربكُم

ترجمہ :
ام نبیطؓ بیان کرتی ہیں:’’ایک دفعہ ہم اپنی ایک نوجوان لڑکی جو قبیلۂ بنی نجار سے تھی
اس کو شادی کے موقع پر اسکے خاوند کےپاس لے جارہی تھیں۔میرے ساتھ بنی نجار کی عورتیں بھی تھیں۔میرے پاس دف تھی جو میں بجارہی تھی اور میں کہہ رہی تھی۔
اتیناکم اتیناکم فحیونا نحییکم
’’ہم تمہاری طرف آئے تم ہمیں سلام کہو،ہم تمہیں سلام کہتی ہیں ۔‘‘
ولولا الذہب الاحمر ماحلّت بوادیکم
’’اور اگر تمہارے پاس سرخ سونا نہ ہوتا تو یہ عروسہ تمہاری وادی میں نہ اترتی۔‘‘
ہم اس طرح گز ر رہی تھیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور ہمارے پاس کھڑے ہوگئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا اے ام نبیط یہ کیا کررہی ہو؟میں نے عرض کی میرا باپ اور میری ماں حضور(ﷺ) پر قربان، یارسول اللہ !یہ قبیلۂ بنی نجار کی دلہن ہے جسے ہم اس کے خاوند کے پاس لے جارہے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :تم کیا کہہ رہی تھیں؟ میں نے اپنے وہ گیت سنائے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ولولا الحنطۃ السمرآء ُ ما سمنت عذاریکم۔
’’اگر یہ گندم نہ ہوتی تو تمہاری یہ کنواریاں اتنی موٹی نہ ہوتیں۔‘‘
[الإصابة في تمييز الصحابة لابن حجرؒعسقلانی(ج8، ص315]
اور
أسد الغابة في معرفة الصحابة ، عز الدين ابن الأثير (المتوفى: 630هـ)
https://archive.org/stream/AssadGhaba/asdghsh7#page/n390/mode/2up

اس کی اسناد کے کئی رواۃ کا ترجمہ مجھے نہ مل سکا ،لیکن چونکہ اس لڑکی کی شادی کی یہی تفصیل امام ابوالقاسم الطبرانیؒ کی ’’ المعجم الاوسط ‘‘ میں ام المومنین سیدہ عائشہ ؓ کی روایت سے بھی منقول ہے:
حَدَّثَنَا بَكْرٌ قَالَ: نا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي السَّرِيِّ الْعَسْقَلَانِيُّ قَالَ: نا أَبُو عِصَامٍ رَوَّادُ بْنُ الْجَرَّاحِ، عَنْ شَرِيكِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَا فَعَلَتْ فُلَانَةُ؟» ، لِيَتِيمَةٍ كَانَتْ عِنْدَهَا، فَقُلْتُ: أَهْدَيْنَاهَا إِلَى زَوْجِهَا قَالَ: «فَهَلْ بَعَثْتُمْ مَعَهَا بِجَارِيَةٍ تَضْرِبُ بِالدُّفِّ، وَتُغَنِّي؟» قَالَتْ: تَقُولُ مَاذَا؟ قَالَ: «تَقُولُ:
[البحر الرجز]
أَتَيْنَاكُمْ، أَتَيْنَاكُمْ ... فَحَيُّونَا، نُحَيِّيكُمْ
لَوْلَا الذَّهَبُ الْأَحْمَرُ ... مَا حَلَّتْ بِوَادِيكُمْ
وَلَوْلَا الْحَبَّةُ السَّمْرَاءُ ... مَا سَمِنَتْ عَذَارِيكُمْ»
لَمْ يَرْوِ هَذَا الْحَدِيثَ عَنِ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ إِلَّا شَرِيكٌ، وَلَا عَنْ شَرِيكٍ إِلَّا رَوَّادٌ، تَفَرَّدَ بِهِ مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي السَّرِيِّ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس روایت کو علامہ البانی ؒ نے اپنی کتاب ’’ إرواء الغليل في تخريج أحاديث منار السبيل‘‘ میں حسن کہا ہے ،اس کیلئے دیکھئے کتاب ْ’’الإختيارات الفقهية للإمام الألباني ‘‘ص۴۴۳
https://archive.org/details/waq76960/page/n443

لیکن ان کا اس روایت کو حسن کہنا محل نظر ہے ،کیونکہ وہ خود اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
قلت: وهذا إسناد مسلسل بالضعفاء: شريك فمن دونه.
وقال الهيثمى (4/289) : " رواه الطبرانى فى " الأوسط " وفيه رواد بن الجراح , وثقه أحمد وابن معين وابن حبان , وفيه ضعف

".
یعنی امام طبرانیؒ کی روایت کردہ اس حدیث کی اسناد میں یکے بعد دیگرے مسلسل ضعیف رواۃ ہیں ، اور علامہ نورالدین ہیثمی فرماتے ہیں کہ :اس طبرانی نے ’’ المعجم الاوسط ‘‘ میں روایت کیا ہے ،اور اس کی اسناد میں رواد بن جراح واقع ہے ، جسے گو کہ امام احمد ؒ اور امام ابن معینؒ ثقہ کہتے ہیں ،تاہم یہ ضعیف راوی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس لڑکی کی شادی اور رخصتی کے موقع پر نبی مکرم ﷺ کا ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے کلام جتنا صحیح حدیث میں منقول ہے وہ پیش خدمت ہے :
صحیح بخاری (۵۱۶۲) میں حدیث شریف اس طرح منقول ہے :
عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها أَنَّهَا زَفَّتْ امْرَأَةً إِلَى رَجُلٍ مِنْ الْأَنْصَارِ ، فَقَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ( يَا عَائِشَةُ ، مَا كَانَ مَعَكُمْ لَهْوٌ ؟ فَإِنَّ الْأَنْصَارَ يُعْجِبُهُمْ اللَّهْوُ ).
ام المومنین سیدہ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے روايت ہے كہ:
ايك عورت كى ايك انصارى آدمى سے شادى ہوئى، اور سیدہ عائشہ ؓ نےاس لڑکی كى رخصتى کا انتظام کیا ، تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس موقع پر فرمايا:" اے عائشہ تمہارے پاس ’’لھو ‘‘ والى كيا چيز ہے ؟ كيونكہ انصار كو (شادی کے موقع پر ) لھو پسند کرتے ہیں "

اور یہی واقعہ امام ابن ماجہ ؒنے اپنی سنن میں اس طرح نقل فرمایا ہے :
حدثنا إسحاق بن منصور ، ‏‏‏‏‏‏انبانا جعفر بن عون ، ‏‏‏‏‏‏انبانا الاجلح ، ‏‏‏‏‏‏عن ابي الزبير ، ‏‏‏‏‏‏عن ابن عباس ، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ انكحت عائشة ذات قرابة لها من الانصار، ‏‏‏‏‏‏فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم، ‏‏‏‏‏‏فقال:‏‏‏‏ "اهديتم الفتاة"، ‏‏‏‏‏‏قالوا:‏‏‏‏ نعم، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ "ارسلتم معها من يغني"، ‏‏‏‏‏‏قالت:‏‏‏‏ لا، ‏‏‏‏‏‏فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏ "إن الانصار قوم فيهم غزل، ‏‏‏‏‏‏فلو بعثتم معها من يقول اتيناكم، ‏‏‏‏‏‏اتيناكم، ‏‏‏‏‏‏فحيانا، ‏‏‏‏‏‏وحياكم".
جناب عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے انصار میں سے اپنی ایک قرابت دار لڑکی کی شادی کرائی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں تشریف لائے، اور فرمایا: ”تم لوگوں نے دلہن کو رخصت کر دیا“؟ لوگوں نے کہا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کے ساتھ کوئی گانے والی بھی بھیجی“؟ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: نہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انصار کے لوگ غزل پسند کرتے ہیں، کاش تم لوگ دلہن کے ساتھ کسی کو بھیجتے جو یہ گاتا: «أتيناكم أتيناكم فحيانا وحياكم» ”ہم تمہارے پاس آئے، ہم تمہارے پاس آئے، اللہ تمہیں اور ہمیں سلامت رکھے“
(سنن ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۶۴۵۳، ومصباح الزجاجة: ۶۷۷)

پہلی بات تو یہ ملحوظ رہے کہ اس روایت میں «غزل» کا جملہ منکر ہے،
تراجع الألبانی: رقم: ۴۶۵)
https://archive.org/stream/tarajoat/02#page/n281/mode/2up
دوسری بات یہ کہ یہ روایت بھی اس سند کے ساتھ ضعیف ہے ، کیونکہ:
قال الشيخ زبیر علی زئی في انوار الصحیفة فی احادیث ضعیفة من السنن الاربعة:
إسناده ضعيف ¤ أبو الزبير عنعن (92) وأصل الحديث في صحيح البخاري(5162)


اور علامہ بوصیریؒ زوائد ابن ماجہ میں فرماتے ہیں : في الزوائد إسناده مختلف فيه من أجل الأجلح وأبي الزبير يقولون إنه لم يسمع من ابن عباس. وأثبت أبو حاتم أنه رأى ابن عباس
یعنی اس کی اسناد کی صحت و ضعف میں اختلاف ہے ،کیونکہ اس کی سند میں ’’ اجلج ‘‘ نامی (ضعیف ) راوی ہے ،اور دوسرا راوی ابوالزبیر ؒہے جس کے متعلق محدثین کا کہنا ہے کہ ا سے سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ سے سماع نہیں،گو کہ مشہور محدث امام ابو حاتمؒ کہتے ہیں کہ ابوزبیر ؒنے سیدناعبداللہ بن عباسؓ کو دیکھا ہے۔

اور علامہ شعيب الأرنؤوط ، اور عادل مرشد سنن ابن ماجہ کی تخریج میں اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں :

حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف الأجلح -وهو ابن عبد الله بن حُجية الكندي-، وقد اختلف فيه على الأجلح كما سيأتي.
فأخرجه الطحاوي في "شرح مشكل الآثار" (3321) من طريق جعفر بن عون، بهذا الإسناد.
وأخرجه أحمد (15209)، والبزار (1432 - كشف الأستار) والنسائي في "الكبرى" (5540) من طريق الأجلح، عن أبي الزبير، عن جابر بن عبد الله، بدل عبد الله بن عباس.
وأخرجه البيهقي 7/ 289 من طريق أبي عوانة الوضاح اليشكري، عن الأجلح، عن أبي الزبير، عن جابر، عن عائشة ‘‘ انتہی

https://archive.org/stream/waq98841/03_98843#page/n92/mode/2up
-----------------------
مسند احمد (۱۵۲۰۹)میں یہ روایت یوں ہے :
حدثنا أسود بن عامر، حدثنا أبو بكر، عن أجلح، عن أبي الزبير عن جابر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لعائشة: " أهديتم الجارية إلى بيتها؟ " قالت: نعم. قال: " فهلا بعثتم معهم من يغنيهم يقول: أتيناكم أتيناكم فحيونا نحياكم فإن الأنصار قوم فيهم غزل "
ترجمہ : جابر فرماتے ہیں کہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا (نے جب ایک لڑکی کی شادی کرائی، تو اس کی رخصتی کے وقت ) جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ عائشہ ؓ سے فرمایا: ” کیا تم لوگوں نے دلہن کو رخصت کر دیا“؟ لوگوں نے کہا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کے ساتھ کوئی گانے واس (یا گانے والی ) بھی بھیجی“؟ جو اس موقع پر یہ گاتی : «أتيناكم أتيناكم فحيانا وحياكم» ”ہم تمہارے پاس آئے، ہم تمہارے پاس آئے، اللہ تمہیں اور ہمیں سلامت رکھے“ کیونکہ انصار کے ہاں (ایسے موقع پر ) غنا ہوتا ہے ۔
اس کی سند میں بھی’’ اجلج ‘‘ نامی (ضعیف ) راوی ہے ،اور دوسرا راوی ابوالزبیر ؒہے جسے سیدنا ابن عباس ؓ سے شرف سماع نہیں ‘‘

اور شرح مشکل الآثار میں بھی یہ حدیث اسی سند کے ساتھ مروی ہے جس میں’’ اجلج ‘‘ اور ابوالزبیر ؒہے :
حدثنا أبو أمية قال: حدثنا جعفر بن عون المخزومي قال: حدثنا الأجلح، عن أبي الزبير، عن ابن عباس قال: أنكحت عائشة ذات قرابة لها رجلا من الأنصار، فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: " أهديتم الفتاة؟ "، قالوا نعم، قال: " أرسلتم معها من يغني؟ ". قالت: لا، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن الأنصار قوم فيهم غزل، فهلا بعثتم معها من يقول: أتيناكم أتيناكم، وحيونا نحييكم "

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ۔
ہاں البتہ شادی کے موقع ساز کے بغیرچھوٹی بچیوں کے گانے کی اجازت ہے :
عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ دَخَلْتُ عَلَى قُرَظَةَ بْنِ كَعْبٍ وَأَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ فِي عُرْسٍ وَإِذَا جَوَارٍ يُغَنِّينَ فَقُلْتُ أَنْتُمَا صَاحِبَا رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمِنْ أَهْلِ بَدْرٍ يُفْعَلُ هَذَا عِنْدَكُمْ فَقَالَ اجْلِسْ إِنْ شِئْتَ فَاسْمَعْ مَعَنَا وَإِنْ شِئْتَ اذْهَبْ قَدْ رُخِّصَ لَنَا فِي اللَّهْوِ عِنْدَ الْعُرْسِ
سنن النسائی ۳۳۸۳
ترجمہ : حضرت عامر بن سعد سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ میں قرظہؓ بن کعب اور ابو مسعودؓ انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس ایک شادی میں گیا تو وہاں بچیاں گا رہی تھیں۔ میں نے کہا: آپ دونوں رسول اللہﷺ کے بدری صحابی ہیں۔ آپ کی موجودگی میں یہ کچھ ہورہا ہے؟ وہ کہنے لگے: جی چاہتا ہے تو ہمارے ساتھ بیٹھ جا اور سن‘ نہیں تو جا۔ شادی کے موقع پر ہمیں ’’لھو ‘‘ ( گانے ) کی رخصت دی گئی ہے۔

اس حدیث کی شرح میں ایک جید عرب عالم لکھتے ہیں :
كان الصَّحابةُ رضِيَ اللهُ عَنهم أعلَمَ النَّاسِ بسُنَّةِ رَسولِ اللهِ صلَّى اللهُ علَيه وسلَّم، ولَم يُكْن لِيُنكِرَ عليهم أحَدٌ إلَّا طَلًبا لِمزيدِ فَهمٍ، أو لقِلَّةِ عِلمٍ. ... وفي هذا الحديثِ يقولُ عامِرُ بنُ سَعدٍ البَجَلِيُّ: "دَخلتُ على قُرَظَةَ بنِ كَعبٍ، وأبي مَسعودٍ الأنصاريِّ في عُرسٍ"، أي: كانت تُزَفُّ عَروسٌ إلى زَوجِها، أو في وَليمةِ عُرسٍ وزَواجٍ، "وإذا جَوارٍ"، جَمعُ جارِيةٍ، وهنَّ الإماءُ، أو البِناتُ الصِّغارُ "يُغنِّين"، أي: يُطرِبنَ بأصواتِهنَّ احتِفاءً بهذا العُرسِ، فقال عامِرٌ: "أنتُما صاحِبا رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ علَيه وسلَّم، ومِن أهلِ بَدرٍ، يُفعلُ هذا عِندكم! " وهذا إنكارٌ عليهما سَماعَهما، وأنَّ مُقامَهما يدُلُّ على إقرارِ مِثلِ ذلك، خاصَّةً وأنَّهما مِن السَّابقِينَ الأوَّلِينَ، فقال أحَدُ الصَّحابيَّينِ، وفي نُسَخٍ: "فقالَا": "اجلِسْ إنْ شِئتَ فاسمَعْ معنا، وإنْ شِئتَ اذهَبْ"، أي: اترُكِ المجلِسَ دون إنكارٍ؛ "قد رُخِّص لنا في اللَّهوِ عند العُرسِ"
https://www.dorar.net/hadith/sharh/35105

اورسنن النسائی میں ایک حدیث ہے :
عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ حَاطِبٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصْلُ مَا بَيْنَ الْحَلَالِ وَالْحَرَامِ الدُّفُّ وَالصَّوْتُ فِي النِّكَاحِ
ترجمہ : حضرت محمد بن حاطب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’حلال اور حرام نکاح کے درمیان فرق دف بجانے اور ا علان نکاح کرنے کا ہے۔‘‘
تشریح: سنن النسائی کے مترجم و شارح شیخ الحدیث حافظ محمد امین صاحب اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
اس حدیث کا مقصد یہ ہے کہ نکاح خفیہ نہ کیا جائے بلکہ اعلانیہ ہو۔ نکاح کے موقع پر بارات کا آنا‘ نکاح کا اجتماع میں ہونا اور نکاح کے گواہوں کا موجود ہونا بھی نکاح کو اعلانیہ بنادیتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ نکاح خوشی کا موقع بھی ہے اور خوشی کے وقت بچے اس موقع کی مناسبت سے بچوں کو ایسے موقع پر اس کی اجازت دی جائے کہ وہ دف بجائیں اور قومی گانے ،ترانے گائیں تاکہ نکاح کا اچھی طرح چرچا ہوجائے‘ البتہ یہ ضروری ہے کہ گانے والے بچے بچیاں ہوں نہ کہ پیشہ ورگانے بجانے والے مدعو کیے جائیں۔ بالغ افراد (مرد ہوں یاعورت) کے لیے گانا بجانا منع ہے۔ دف کے علاوہ دیگر آلات موسیقی کا استعمال حرام ہے۔ دف انتہائی سادہ آلہ ہے۔ آواز بھی ہلکی اور سادہ ہوتی ہے‘ لہٰذا اس کی اجازت ہے۔ ڈھول وغیرہ حرام ہے۔ واللہ اعلم۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
آپ سے دعاء کی درخواست ہے ،گذشتہ کچھ دنوں سے ایک مرض میں مبتلا ہوں ،
دعاء کریں مہربان رب مجھے جلد صحت عطا فرمائے ۔
بارک اللہ لکم
 
Top