• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بچے کی تربیت اسلامی تعلیمات کی روشنی میں

جنید رضا

مبتدی
شمولیت
نومبر 20، 2018
پیغامات
6
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
3
بچے کی تربیت اسلامی تعلیمات کی روشنی میں


بلا شبہ اسلام ہمیں بچوں کی تربیت سے متعلق تمام تر معلومات فراہم کرتا ہے۔ المیہ یہ یے کہ ہم (کثیر تعداد) نے اسے بہت بڑی آزمائش سے منہ موڑ لیا ہے۔ حالانکہ ہم پر جو ذمہ داری عائد ہے اس کے ہم آخرت میں بھی جواب دہ ہیں۔ تربیت نہ کرنے والوں کے لیھ سخت وعیدیں ہیں۔ میں بچوں کی تربیت سے متعلق ادنی سی کوشش تحریروں کی صورت میں کر رہا ہوں۔ دعا کریں اللہ قبول فرمائیں۔
 

عمر السلفی۔

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 22، 2020
پیغامات
1,608
ری ایکشن اسکور
41
پوائنٹ
110
ہمارے ہاں ذاتی نقصانات پر مارنے کی مثالیں اور واقعات زیادہ نظر آتے ہیں ۔۔۔ یاد رکھیں مارنے پیٹنے سے کبھی تربیت یا اصلاح نہیں ہوتی ۔۔۔ آپ خود بھی آج اگر کسی مقام پر ہیں تو وہ مار پیٹ کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ محبت اور صبر ہی اسکے متبادل ذرائع ہیں۔۔۔

اصلاح و تربیت کے حوالے سے ڈانٹ کی زیادہ اہمیت ہے۔۔۔ الفاظ کے اثرات زیادہ ہوتے ہیں بہ نسبت مار کے۔۔۔۔
لفظوں کی گونج تا عمر ذہن میں نقش ہو جاتی ہے۔۔۔۔
 

عمر السلفی۔

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 22، 2020
پیغامات
1,608
ری ایکشن اسکور
41
پوائنٹ
110
- *"جب بچے آپ سے محبت کریں گے تو خود آپ کی بات مانیں گے!"*

✍ - شیخ *محمد بشیر ابراہیمی* الجزائری رحمه الله فرماتے ہیں :

بچوں کی لازمی صفات میں سے ہے کہ جو ان سے محبت کا اظہار کرے وہ اسے پسند کرتے ہیں، جو ان سے اچھا سلوک کرے وہ اس کی طرف مائل ہوتے ہیں. جو ان کے ساتھ نرمی کا معاملہ کرے، انہیں بشاشت اور خندہ پیشانی سے ملے؛ اس سے مانوس ہوتے ہیں.

ایک ماہر اور مخلص مربی پر واجب ہے کہ اگر وہ ان کے دلوں میں مختصر ترین راستے سے جگہ بنانا چاہتا ہے، ان کے جھگڑوں کے آسان ترین حل نکالنا چاہتا ہے، اور سہل ترین طریقے سے ان سے اپنی بات منوانا چاہتا ہے؛ تو ان سے محبت کا اظہار کرے، انہیں روشن چہرے سے ملے، انہیں بہتر طریقے سے ویلکم کرے، اہتمام سے ان کے حال احوال دریافت کرے، ان کے ساتھ ہنسی مزاح کرے، نرمی و بشاشت کے ساتھ گپ شپ کرے، ان کی تمناؤں کو پورا کرے، ان سے پیار اور محبت کا سلوک کرے جو انہیں بھی محبت پر آمادہ کرے۔

تو جب وہ اس مربی سے محبت کرنے لگیں گے تو اس کی اطاعت کریں گے اور اس کا حکم بجا لائیں گے۔ اور جب وہ اطاعت پر آمادہ ہوں گے تو ان کو نیکیوں کی جانب لے جانا، انہیں دین پر قائم رکھنا اور خیر و فضیلت کے امور پر ان کی تربیت کرنا ممکن ہو جائے گا.

- *(آثار البشير الإبراهيمى : ١١٣/٣)*
 

عمر السلفی۔

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 22، 2020
پیغامات
1,608
ری ایکشن اسکور
41
پوائنٹ
110
بچوں کی اسلامی تربیت ، کب اور کیسے ؟!

1۔ جب بچے کو کنگھی کریں تو بتائیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ اگر کسی کے بال ہوں تو ان کا خیال رکھا کرے ۔
2۔ جب بچے کو خوشبو لگائیں تو بتائیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خوشبو بہت پسند تھی ۔
3۔ جب بچے کے دانت صاف کروائیں تو بتائیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم باقاعدگی سے مسواک کیا کرتے تھے ۔
4۔ جب بچے کو صاف ستھرا رہنے کی تلقین کریں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بھی بتائیں کہ ’’ پاکیزگی نصف ایمان ہے ’’
5۔ جب بچے کو سلانے کی کوشش کریں تو بتائیں کہ حضور سوتے وقت یہ دعا پڑھا کرتے تھے ۔
و علی ہذا القیاس ، تمام امور میں جب ہم بچوں کی صحت و عافیت کے فکرمند ہوتے ہیں تو ان کی دینی تربیت کو بھی ساتھ شامل کرلینا چاہیے .
 

عمر السلفی۔

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 22، 2020
پیغامات
1,608
ری ایکشن اسکور
41
پوائنٹ
110
‏اپنے بچوں کو کم عمری میں تعزیت، تیمارداری، احساس، برداشت، انکساری، تواضع اور تحمل سکھائیں.
کھانا تو حیوان بھی اپنی اولاد کو کھلا لیتے ہیں.
 

عمر السلفی۔

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 22، 2020
پیغامات
1,608
ری ایکشن اسکور
41
پوائنٹ
110
اچھی ماں بننے کی بجاۓ آپ اچھی بیوی بن جائیے گا !
اچھی ماں آپ automatically بن جائیں گی

خلیل الرحمان قمر
 

عمر السلفی۔

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 22، 2020
پیغامات
1,608
ری ایکشن اسکور
41
پوائنٹ
110
*محبت و شفقت کے ذریعے بچوں کی تربیت*

ایک مرتبہ میرے بیٹے نے گھر میں شرارت کی۔ چنانچہ اس نے اپنی بہن کو مارا، اپنے بھائی کو گالی دی اور اپنی ماں کو تنگ کیا۔ جب میں ڈیوٹی سے گھر آیا تو سب لوگوں نے مجھ سے اس کی شکایت کی۔ بیٹا بےچارا اسی انتظار میں تھا کہ اب اس کی پٹائی ہونے والی ہے اور سچ مچ میں نے اس کی پٹائی کرنے کا ارادہ بنا لیا تھا۔ لیکن میں نے دیکھا کہ اس کی آنکھوں میں حزن و ملال اور بے چارگی صاف ظاہر ہو رہی ہے۔ اس بے چارے کو یہ یقین ہوگیا تھا کہ پورا گھر اس کے خلاف ہے اور سب اس سے نفرت کر نے لگے ہیں۔ تاہم میں نے یہاں افسوس بھری خاموشی اختیار کی اور گھر والوں سے کہا: میں اسے دیکھتا ہوں۔ اس کے چند منٹ بعد میں اسے لے کر مسجد کی طرف چل دیا۔ راستے میں جب میں نے اس کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا تو وہ سہم سا گیا۔ اس نے سمجھا میں اب اس کی پٹائی کرنے والا ہوں۔ مگر میں نے اسے اطمینان دلاتے ہوئے کہا: بیٹے! ڈرو نہیں، آپ تو ایک اچھے لڑکے ہو۔ اب دوبارہ یہ شرارت نہیں کرنا۔

میرے اس تعامل سے وہ حیرت زدہ تھا کیونکہ اسے بالکل گمان نہیں تھا کہ میں اسے معاف کر دوں گا۔ یہاں معاف کرنے کا اپنا الگ ہی مزہ تھا۔ یہ دیکھ کر میرا بیٹا مجھ سے لپٹ گیا اور اور بوسہ دیتے ہوئے کہا: ابو جان! میں آپ سے محبت کرتا ہوں۔
پھر ہم نے مل کر یہ طے کیا کہ کیسے اس کی والدہ اور بہن بھائیوں کی شکایات کا جواب دینا ہے۔ اور ہم نے یہ بھی سوچا کہ کیسے اس کی غلطی کی اصلاح کی جائے۔
اس واقعہ کے کچھ دنوں کے بعد میں سوچنے لگا کہ کیسے وہ بے چارہ اپنی ماں اور بہن بھائیوں کا دل جیت سکتا ہے؟
اس تعامل سے اسے بے انتہا خوشی ہوئی اور اس کے حالات بہتر ہو گئے۔
اس واقعے سے مجھے ایک نیا تجربہ ہوا کہ ہم اپنے بچوں کو غلطی اور شرارت کرنے پر محض سزا دیتے ہیں مگر انہیں یہ نہیں بتاتے کہ کس طرح وہ اپنی غلطی کی اصلاح کر سکتے ہیں۔

ماخوذ از کتاب (بالحب نربي أبناءنا )
 

عمر السلفی۔

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 22، 2020
پیغامات
1,608
ری ایکشن اسکور
41
پوائنٹ
110
"ادب" کیلئے "تربیت" اور "علم" کیلئے "تعلیم" هے اور تربیت تعلیم پر مقدم هے، جو والدین تعلیم کو مقدم رکھتے هیں انکے بچے ادب سے محروم رهتے هیں ﮨﺮ ﺑﺎﺕ ﮨﺮ ﺭﻭﯾﮧ ﺍﻭﺭ ﮨﺮ ﻋﻤﻞ ﭘﺮ ﺭﺩ ﻋﻤﻞ ﺩﯾﻨﺎ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﺮﻋﮑﺲ ﺑﮯ ﭘﺮﻭﺍﮨﯽ ﺑﺮﺗﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﺮﻧﺎ ﺑﮩﺘﺮﯾﻦ ﺟﻮﺍﺏ ﮐﮩﻼﺗﺎ ﮨﮯ....!!!!
FB_IMG_1613582959482.jpg
 

عمر السلفی۔

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 22، 2020
پیغامات
1,608
ری ایکشن اسکور
41
پوائنٹ
110
*اپنی اولاد کی بہترین تعلیم اور تربیت کی فکر کرو سہولتوں کی نہیں۔۔۔۔!!*

*پرندے اپنے بچوں کو پرواز کا فن سکھاتے ہیں گھونسلے بناکر نہیں دیتے۔۔۔۔
 

عمر السلفی۔

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 22، 2020
پیغامات
1,608
ری ایکشن اسکور
41
پوائنٹ
110
ہم فطری طور پر بھیڑ چال لوگ ہیں۔ خاندان میں کسی ڈاکٹر، انجینئر یا اکاؤنٹنٹ کو اچھا کماتے دیکھ لیں تو پورا خاندان اپنے بچوں کو اسی فیلڈ میں ڈال دے گا۔ بچوں کا aptitude سمجھے یا جانے بناء

کاروبار کا بھی یہی حال ہے۔ کسی جاننے والے کو کسی کام میں ترقی کی سیڑھیاں چڑھتے سن یا دیکھ لیا تو آدھی دنیا وہی کام کرنے چل پڑتی ہے

مزے کی بات یہ ہے کہ success stories کے حامل افراد بھی بڑے ہوشیار ہوتے ہیں۔ وہ آپ کو اپنی آمدنی بتا کر آپ کو اپنے رعب میں بھی لے لیں گے اور آپ کے دماغ کی چرخی بھی گھمادیں گے پر کام میں کیا کیا مشکلات درپیش آتی ہیں، انھیں کیسے ہینڈل کرنا ہوتا ہے، ان معاملات کی گہرائی سے آپ کو آگاہ نہیں کریں گے

ظاہر ہے، یہاں کون اس بات کو گوارہ کرے گا کہ آپ ترقی کرتے ہوئے اس کے برابر پہنچیں؟

نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سننے والا کام کو حلوہ سمجھ کر کود پڑتا ہے اور کچھ ماہ بعد ساری رقم کا بیڑہ غرق کروا کر کہانی کی گہرائی کو سمجھ پاتا ہے کہ اسے "سب اچھا ہے" کی غلط تصویر دکھا کر جان بوجھ کر ڈبویا گیا ہے

اگر آپ ایسے نقصان سے بچنا چاہتے ہیں تو صرف آمدنی کا سن کر کسی کاروبار کی شروعات کبھی نہ کیجیے

جب بھی کسی کاروبار کا ارادہ کریں تو اس کے تمام چیلنجز، مشکلات کو گہرائی سے سمجھنے کی کوشش کیجیے

بہتر یہ ہے کہ جو کام کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں اس کے تمام pros and cons، خاص کر cons ایک کاغذ پر لکھ لیں

(نوٹ: pros and cons کا مطلب، فائدے اور نقصانات۔

یعنی pros مطلب فوائد/مواقع، cons مطلب نقصانات/چیلنجز)

جب کسی انسان کو کسی نئے کام یا کاروبار کی آس لگتی ہے تو وہ جوش میں تمام cons کو نظر انداز کردیتا ہے

لہذا،

آپ جس کام کا ارادہ کریں تو اسکے تمام cons ایک کاغذ، ڈائری یا کسی موبائل ایپ پر لکھ کر محفوظ کرلیں اور کم سے کم کچھ ہفتے یا ماہ اس لسٹ پر صرف نظر دوڑاتے اور ریویو کرتے رہا کیجیے۔ خود سے سوال کرتے رہئیے کہ کیا میں ان چیلنجز سے نبٹنے کا حوصلہ اور وسائل رکھتا ہوں؟

مثال کے طور پر، آپ نے فاسٹ فوڈ سیٹ اپ کرنے کا ارادہ کیا ہے۔ یہ کام اگر چل جائے تو آرام سے 6 حتیٰ کہ 7 فگر ماہانہ آمدنی کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ یہ آمدنی تو اس کام کے pros میں شمار ہوگی۔

پر،

اس کام کو جمتے جمتے مہینوں لگتے ہیں اور بے شمار cons سے نبٹنا پڑتا ہے۔ اس بے شمار cons میں سے ایک کاریگر/شیف کی روز مرہ دیہاڑی بھی ہے۔ سستے سے سستا کاریگر بھی ڈیلی کے 1500 روپے لیتا ہے جو کہ ماہانہ 45 ہزار روپے کی رقم بنتی ہے چاہے آپ کی ایک پیسے کی سیل نہ ہو

اسی طرح کے cons ہر طرح کے کام میں موجود ہوتے ہیں جنھیں ہم خیالی آمدنی کے خوش کن خیالات کے زیر اثر شروع میں مکمل اگنور کردیتے ہیں اور آگے جاکر پھنستے ہیں

تو جیسا کہ میں نے کہا کہ کسی بھی کام سے متعلقہ تمام ممکنہ چیلنجز اور cons اپنے پاس کہیں درج کرلیں اور انھیں کچھ ہفتوں یا دو تین ماہ بار بار ریویو کرتے رہیں

اگر آپ کا جوش وقتی ہے تو یہ پریکٹس آپ کی باآسانی آنکھیں کھول دے گی۔

چیک کیجیے کہ آپ کا جوش وقتی تو نہیں؟

پر اگر آپ اس پریکٹس کے باوجود determine رہیں تو آپ کو پھر آگے کا سفر جاری رکھنا چاہیے

پوسٹ کا نچوڑ یہ ہے کہ جب تک آپ کسی بھی کام کے cons اچھی طرح سمجھ نہ لیں تب تک اس کام میں ہرگز ہاتھ نہ ڈالیں۔۔۔۔۔!!!!
.
 
Top