عمر السلفی۔
مشہور رکن
- شمولیت
- ستمبر 22، 2020
- پیغامات
- 1,608
- ری ایکشن اسکور
- 41
- پوائنٹ
- 110
بچوں کو جگانا
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
بچوں کو جگانے کے لیے یہ طریقہ غلط ہے:
1۔ اُن کے اوپر سے کمبل، رضائی، لحاف کھینچ لینا۔
2- اُن پر پانی چھڑکنا۔
2۔ درشت لب و لہجہ میں غرّاتے ہوئے بار بار کہنا "اُٹھو، اُٹھو"۔
3۔ اُنہیں کوسنے دینا۔ طنز وتشنیع بھرے جملے یوں ادا کرنا جیسے پتھر مار رہے ہوں۔
4- دھمکیاں دینا ۔۔۔ "دو منٹ میں باہر نہ آئے تو یہ کر دوں گی، وہ کر دوں گی۔"
یہ سب بدتمیزی کرنے کے زمرے میں آتا ہے۔
ایسا کرنے میں نقصان کیا ہے؟
بچے قطرہ قطرہ یہ کلچر جذب کر رہے ہیں۔
اِس صورتحال کے لیے اُنہیں بس یہ تربیت ملی کہ کسی خلافِ توقع اور خلافِ مزاج وقوعے پر "اِس" مزاج اور طرزِ عمل کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے۔
وہ اپنے بچوں کو اسی طور جگائیں گے، اور یوں یہ "تہذیبی ورثہ" نسل در نسل منتقل ہو گا۔
درست طریقہ کیا ہے؟
اوّل، بچوں کو اِس طور ڈسپلن کرنے کی خواہش و عادت ترک کرتے ہوئے خود اپنے آپ پر نظم و ضبط لاگو کریں۔ دیکھیں کہ فالٹ کہاں ہے؟
کہیں خود آپ سے کوئی غلطی تو نہیں ہو رہی؟
کیا آپ اور بچے رات درست وقت پر سو جایا کرتے ہیں؟ یا گھر کا نظام قطعی ڈھیلا ڈھالا، بےاصول قسم کا ہے جس میں کسی بھی معاملہ میں کوئی ترتیب، کوئی نظم و ضبط نہیں پایا جاتا؟
ضروری نہیں آپ گھر کو کیڈٹ کالج بنا ڈالیں مگر چند ایک اصول و ضوابط ۔۔۔ ؟
کیا آپ نے 'بتدریج' والے اصول پر عمل کرتے ہوئے بچوں کو آواز دینے پر 'اٹھ جانے' کی ترتیب و تہذیب سکھائی/بتائی ہے۔ کسی ڈسپلن کے لیے ذہناً تیار کیا ہے؟ کیا آپ خود اس معاملے میں درست طرزِ عمل اپنائے ہوئے ہیں؟
دوم، بچوں میں یہ پرابلم ہے تو اس معاملے میں 'پہلے سے' کہہ رکھنے والی نفسیاتی ترکیب پر عمل کریں۔ ایک ترتیب بتائیں۔ مکالمہ کریں۔ بچوں کے ساتھ مل کر ایک 'رائزنگ کوڈ' طے کریں کہ صبح کیسے اٹھنا ہے۔ جوش و خروش والے انداز میں!
اب عملی طور پر کیسے؟
رات سونے سے پہلے:
خوب سنجیدہ لب و لہجے میں:
"9 بج کر پچاس منٹ ہو گئے۔ صرف دس منٹ باقی ہیں۔ لیٹ جائیں، اور دعا پڑھنے سے پہلے بتائیں کہ ماما جب صبح آواز دیں گی تو کیا کرنا ہے؟ رِپیٹ کریں شابش۔"
بچے (ہنستے مسکراتے ہوئے): پہلی آواز پر نہیں اٹھنا۔ صرف نیند سے واپس آنا ہے real world میں۔
آپ: اور دوسری آواز پر؟
بچے: دوسری آواز پر بھی نہیں اٹھنا۔ بلکہ کروٹ بدلنی ہے، اپنا مائنڈ ریڈی کرنا ہے، اور تیسری آواز کا انتظار کرنا ہے۔
آپ: گڈ۔ پھر؟
بچے: تیسری آواز پر اپنا ہاتھ کمبل میں سے نکال کر ماما یا بابا کی طرف بلند کرنا ہے، یعنی جو بھی جگانے آئے گا۔ اور پھر اُٹھ کر بیٹھ جانا ہے۔
آپ: پھر؟
بچے: سب سے پہلے دُعا پڑھنی ہے اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَحْیَانَا بَعْدَ مَا اَمَاتَنَا وَاِلَیْہِ النُّشُوْ رُ۔ پھر پورا ایک منٹ بیٹھے رہنا ہے، ایک دم سے کھڑے نہیں ہو جانا، یہ میڈیکلی نقصان دہ ہے۔ اس دوران جو بھی سامنے ہو اُسے سلام اور گڈ مارننگ کہنا ہے۔
آپ: پھر؟
بچے: تب اٹھ کر کھڑے ہو جانا ہے۔
صبح آپ خود اسی ترتیب کا مظاہرہ کریں:
1- پاس آ کر نرم آواز میں پکاریں۔
2- آپ کی آواز زیادہ پچکارنے اور لاڈ کرنے والی نہ ہو، اور نہ زیادہ سنجیدہ و سپاٹ یا غصیلی۔
3- بچے کے سر پر اور گالوں پر ہلکا سا تھپتھپا دیں تا کہ وہ نیند سے واپس آ جائے۔
4- منہ سے بول کر کہیں "اٹھ جائیں بیٹا ۔۔۔" ساتھ میں وقت بتا دیں۔ پھر ہٹ جائیں۔
5- دوسری آواز تین سے پانچ، سات منٹ کے بعد، دور سے: "فرحان، اٹھ جائیں بیٹا ۔۔۔ دِس از سیکنڈ ٹائم۔" لب و لہجہ خوشگوار یا نارمل۔
6- تیسری دفعہ پاس آ کر، وقت بتاتے ہوئے:
"فرحان، آ جائیں بیٹا۔ آپ نے عائشہ سے پہلے واش رُوم جانا ہے۔ یہ تیسری دفعہ ہے۔ لائیں جی، اپنا ہاتھ باہر نکالیں۔۔۔"
بچے ابتدا میں چوں چرا کریں گے۔ رفتہ رفتہ ترتیب بن جائے گی۔
7- بچے جب سکول سے واپس آ جائیں، یا شام کے کھانے پر، یا رات سونے سے پہلے آپ مثبت لب و لہجہ میں سوال کریں، "آج کس کس نے کوڈ آف رائزنگ کو فالو کیا تھا؟" ۔۔۔
یہ سوال بذات خود تنقید ہے۔ اس طرح نرمی اور سنجیدگی سے مکالمہ کریں۔ بتدریج بچے ٹیون ہو جائیں گے۔ ہر روز تھوڑی سے اِمپروومنٹ آنی چاہیے ۔۔۔ اور بالآخر یہ سب اِس گھر کا کلچر بن جائے گا۔ نسلوں تک جائے گا۔
خلاصہ کیا ہے؟
عین موقع پر نہیں! ۔۔۔ پہلے سے، پیچھے سے۔
ذہنی تیاری، ترتیب، تدریج، خود عمل، صبر و استقامت ۔۔۔ دعائیں
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ہمایوں تارڑ کی فیسبک وال سے
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
بچوں کو جگانے کے لیے یہ طریقہ غلط ہے:
1۔ اُن کے اوپر سے کمبل، رضائی، لحاف کھینچ لینا۔
2- اُن پر پانی چھڑکنا۔
2۔ درشت لب و لہجہ میں غرّاتے ہوئے بار بار کہنا "اُٹھو، اُٹھو"۔
3۔ اُنہیں کوسنے دینا۔ طنز وتشنیع بھرے جملے یوں ادا کرنا جیسے پتھر مار رہے ہوں۔
4- دھمکیاں دینا ۔۔۔ "دو منٹ میں باہر نہ آئے تو یہ کر دوں گی، وہ کر دوں گی۔"
یہ سب بدتمیزی کرنے کے زمرے میں آتا ہے۔
ایسا کرنے میں نقصان کیا ہے؟
بچے قطرہ قطرہ یہ کلچر جذب کر رہے ہیں۔
اِس صورتحال کے لیے اُنہیں بس یہ تربیت ملی کہ کسی خلافِ توقع اور خلافِ مزاج وقوعے پر "اِس" مزاج اور طرزِ عمل کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے۔
وہ اپنے بچوں کو اسی طور جگائیں گے، اور یوں یہ "تہذیبی ورثہ" نسل در نسل منتقل ہو گا۔
درست طریقہ کیا ہے؟
اوّل، بچوں کو اِس طور ڈسپلن کرنے کی خواہش و عادت ترک کرتے ہوئے خود اپنے آپ پر نظم و ضبط لاگو کریں۔ دیکھیں کہ فالٹ کہاں ہے؟
کہیں خود آپ سے کوئی غلطی تو نہیں ہو رہی؟
کیا آپ اور بچے رات درست وقت پر سو جایا کرتے ہیں؟ یا گھر کا نظام قطعی ڈھیلا ڈھالا، بےاصول قسم کا ہے جس میں کسی بھی معاملہ میں کوئی ترتیب، کوئی نظم و ضبط نہیں پایا جاتا؟
ضروری نہیں آپ گھر کو کیڈٹ کالج بنا ڈالیں مگر چند ایک اصول و ضوابط ۔۔۔ ؟
کیا آپ نے 'بتدریج' والے اصول پر عمل کرتے ہوئے بچوں کو آواز دینے پر 'اٹھ جانے' کی ترتیب و تہذیب سکھائی/بتائی ہے۔ کسی ڈسپلن کے لیے ذہناً تیار کیا ہے؟ کیا آپ خود اس معاملے میں درست طرزِ عمل اپنائے ہوئے ہیں؟
دوم، بچوں میں یہ پرابلم ہے تو اس معاملے میں 'پہلے سے' کہہ رکھنے والی نفسیاتی ترکیب پر عمل کریں۔ ایک ترتیب بتائیں۔ مکالمہ کریں۔ بچوں کے ساتھ مل کر ایک 'رائزنگ کوڈ' طے کریں کہ صبح کیسے اٹھنا ہے۔ جوش و خروش والے انداز میں!
اب عملی طور پر کیسے؟
رات سونے سے پہلے:
خوب سنجیدہ لب و لہجے میں:
"9 بج کر پچاس منٹ ہو گئے۔ صرف دس منٹ باقی ہیں۔ لیٹ جائیں، اور دعا پڑھنے سے پہلے بتائیں کہ ماما جب صبح آواز دیں گی تو کیا کرنا ہے؟ رِپیٹ کریں شابش۔"
بچے (ہنستے مسکراتے ہوئے): پہلی آواز پر نہیں اٹھنا۔ صرف نیند سے واپس آنا ہے real world میں۔
آپ: اور دوسری آواز پر؟
بچے: دوسری آواز پر بھی نہیں اٹھنا۔ بلکہ کروٹ بدلنی ہے، اپنا مائنڈ ریڈی کرنا ہے، اور تیسری آواز کا انتظار کرنا ہے۔
آپ: گڈ۔ پھر؟
بچے: تیسری آواز پر اپنا ہاتھ کمبل میں سے نکال کر ماما یا بابا کی طرف بلند کرنا ہے، یعنی جو بھی جگانے آئے گا۔ اور پھر اُٹھ کر بیٹھ جانا ہے۔
آپ: پھر؟
بچے: سب سے پہلے دُعا پڑھنی ہے اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَحْیَانَا بَعْدَ مَا اَمَاتَنَا وَاِلَیْہِ النُّشُوْ رُ۔ پھر پورا ایک منٹ بیٹھے رہنا ہے، ایک دم سے کھڑے نہیں ہو جانا، یہ میڈیکلی نقصان دہ ہے۔ اس دوران جو بھی سامنے ہو اُسے سلام اور گڈ مارننگ کہنا ہے۔
آپ: پھر؟
بچے: تب اٹھ کر کھڑے ہو جانا ہے۔
صبح آپ خود اسی ترتیب کا مظاہرہ کریں:
1- پاس آ کر نرم آواز میں پکاریں۔
2- آپ کی آواز زیادہ پچکارنے اور لاڈ کرنے والی نہ ہو، اور نہ زیادہ سنجیدہ و سپاٹ یا غصیلی۔
3- بچے کے سر پر اور گالوں پر ہلکا سا تھپتھپا دیں تا کہ وہ نیند سے واپس آ جائے۔
4- منہ سے بول کر کہیں "اٹھ جائیں بیٹا ۔۔۔" ساتھ میں وقت بتا دیں۔ پھر ہٹ جائیں۔
5- دوسری آواز تین سے پانچ، سات منٹ کے بعد، دور سے: "فرحان، اٹھ جائیں بیٹا ۔۔۔ دِس از سیکنڈ ٹائم۔" لب و لہجہ خوشگوار یا نارمل۔
6- تیسری دفعہ پاس آ کر، وقت بتاتے ہوئے:
"فرحان، آ جائیں بیٹا۔ آپ نے عائشہ سے پہلے واش رُوم جانا ہے۔ یہ تیسری دفعہ ہے۔ لائیں جی، اپنا ہاتھ باہر نکالیں۔۔۔"
بچے ابتدا میں چوں چرا کریں گے۔ رفتہ رفتہ ترتیب بن جائے گی۔
7- بچے جب سکول سے واپس آ جائیں، یا شام کے کھانے پر، یا رات سونے سے پہلے آپ مثبت لب و لہجہ میں سوال کریں، "آج کس کس نے کوڈ آف رائزنگ کو فالو کیا تھا؟" ۔۔۔
یہ سوال بذات خود تنقید ہے۔ اس طرح نرمی اور سنجیدگی سے مکالمہ کریں۔ بتدریج بچے ٹیون ہو جائیں گے۔ ہر روز تھوڑی سے اِمپروومنٹ آنی چاہیے ۔۔۔ اور بالآخر یہ سب اِس گھر کا کلچر بن جائے گا۔ نسلوں تک جائے گا۔
خلاصہ کیا ہے؟
عین موقع پر نہیں! ۔۔۔ پہلے سے، پیچھے سے۔
ذہنی تیاری، ترتیب، تدریج، خود عمل، صبر و استقامت ۔۔۔ دعائیں
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ہمایوں تارڑ کی فیسبک وال سے