• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بچے کی تربیت اسلامی تعلیمات کی روشنی میں

عمر السلفی۔

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 22، 2020
پیغامات
1,608
ری ایکشن اسکور
41
پوائنٹ
110
بچوں کو جگانا
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
بچوں کو جگانے کے لیے یہ طریقہ غلط ہے:
1۔ اُن کے اوپر سے کمبل، رضائی، لحاف کھینچ لینا۔
2- اُن پر پانی چھڑکنا۔
2۔ درشت لب و لہجہ میں غرّاتے ہوئے بار بار کہنا "اُٹھو، اُٹھو"۔
3۔ اُنہیں کوسنے دینا۔ طنز وتشنیع بھرے جملے یوں ادا کرنا جیسے پتھر مار رہے ہوں۔
4- دھمکیاں دینا ۔۔۔ "دو منٹ میں باہر نہ آئے تو یہ کر دوں گی، وہ کر دوں گی۔"

یہ سب بدتمیزی کرنے کے زمرے میں آتا ہے۔

ایسا کرنے میں نقصان کیا ہے؟
بچے قطرہ قطرہ یہ کلچر جذب کر رہے ہیں۔
اِس صورتحال کے لیے اُنہیں بس یہ تربیت ملی کہ کسی خلافِ توقع اور خلافِ مزاج وقوعے پر "اِس" مزاج اور طرزِ عمل کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے۔
وہ اپنے بچوں کو اسی طور جگائیں گے، اور یوں یہ "تہذیبی ورثہ" نسل در نسل منتقل ہو گا۔

درست طریقہ کیا ہے؟
اوّل، بچوں کو اِس طور ڈسپلن کرنے کی خواہش و عادت ترک کرتے ہوئے خود اپنے آپ پر نظم و ضبط لاگو کریں۔ دیکھیں کہ فالٹ کہاں ہے؟

کہیں خود آپ سے کوئی غلطی تو نہیں ہو رہی؟
کیا آپ اور بچے رات درست وقت پر سو جایا کرتے ہیں؟ یا گھر کا نظام قطعی ڈھیلا ڈھالا، بےاصول قسم کا ہے جس میں کسی بھی معاملہ میں کوئی ترتیب، کوئی نظم و ضبط نہیں پایا جاتا؟

ضروری نہیں آپ گھر کو کیڈٹ کالج بنا ڈالیں مگر چند ایک اصول و ضوابط ۔۔۔ ؟

کیا آپ نے 'بتدریج' والے اصول پر عمل کرتے ہوئے بچوں کو آواز دینے پر 'اٹھ جانے' کی ترتیب و تہذیب سکھائی/بتائی ہے۔ کسی ڈسپلن کے لیے ذہناً تیار کیا ہے؟ کیا آپ خود اس معاملے میں درست طرزِ عمل اپنائے ہوئے ہیں؟

دوم، بچوں میں یہ پرابلم ہے تو اس معاملے میں 'پہلے سے' کہہ رکھنے والی نفسیاتی ترکیب پر عمل کریں۔ ایک ترتیب بتائیں۔ مکالمہ کریں۔ بچوں کے ساتھ مل کر ایک 'رائزنگ کوڈ' طے کریں کہ صبح کیسے اٹھنا ہے۔ جوش و خروش والے انداز میں!

اب عملی طور پر کیسے؟
رات سونے سے پہلے:
خوب سنجیدہ لب و لہجے میں:
"9 بج کر پچاس منٹ ہو گئے۔ صرف دس منٹ باقی ہیں۔ لیٹ جائیں، اور دعا پڑھنے سے پہلے بتائیں کہ ماما جب صبح آواز دیں گی تو کیا کرنا ہے؟ رِپیٹ کریں شابش۔"

بچے (ہنستے مسکراتے ہوئے): پہلی آواز پر نہیں اٹھنا۔ صرف نیند سے واپس آنا ہے real world میں۔

آپ: اور دوسری آواز پر؟

بچے: دوسری آواز پر بھی نہیں اٹھنا۔ بلکہ کروٹ بدلنی ہے، اپنا مائنڈ ریڈی کرنا ہے، اور تیسری آواز کا انتظار کرنا ہے۔

آپ: گڈ۔ پھر؟

بچے: تیسری آواز پر اپنا ہاتھ کمبل میں سے نکال کر ماما یا بابا کی طرف بلند کرنا ہے، یعنی جو بھی جگانے آئے گا۔ اور پھر اُٹھ کر بیٹھ جانا ہے۔

آپ: پھر؟

بچے: سب سے پہلے دُعا پڑھنی ہے اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَحْیَانَا بَعْدَ مَا اَمَاتَنَا وَاِلَیْہِ النُّشُوْ رُ۔ پھر پورا ایک منٹ بیٹھے رہنا ہے، ایک دم سے کھڑے نہیں ہو جانا، یہ میڈیکلی نقصان دہ ہے۔ اس دوران جو بھی سامنے ہو اُسے سلام اور گڈ مارننگ کہنا ہے۔

آپ: پھر؟
بچے: تب اٹھ کر کھڑے ہو جانا ہے۔

صبح آپ خود اسی ترتیب کا مظاہرہ کریں:
1- پاس آ کر نرم آواز میں پکاریں۔
2- آپ کی آواز زیادہ پچکارنے اور لاڈ کرنے والی نہ ہو، اور نہ زیادہ سنجیدہ و سپاٹ یا غصیلی۔
3- بچے کے سر پر اور گالوں پر ہلکا سا تھپتھپا دیں تا کہ وہ نیند سے واپس آ جائے۔
4- منہ سے بول کر کہیں "اٹھ جائیں بیٹا ۔۔۔" ساتھ میں وقت بتا دیں۔ پھر ہٹ جائیں۔
5- دوسری آواز تین سے پانچ، سات منٹ کے بعد، دور سے: "فرحان، اٹھ جائیں بیٹا ۔۔۔ دِس از سیکنڈ ٹائم۔" لب و لہجہ خوشگوار یا نارمل۔
6- تیسری دفعہ پاس آ کر، وقت بتاتے ہوئے:
"فرحان، آ جائیں بیٹا۔ آپ نے عائشہ سے پہلے واش رُوم جانا ہے۔ یہ تیسری دفعہ ہے۔ لائیں جی، اپنا ہاتھ باہر نکالیں۔۔۔"

بچے ابتدا میں چوں چرا کریں گے۔ رفتہ رفتہ ترتیب بن جائے گی۔

7- بچے جب سکول سے واپس آ جائیں، یا شام کے کھانے پر، یا رات سونے سے پہلے آپ مثبت لب و لہجہ میں سوال کریں، "آج کس کس نے کوڈ آف رائزنگ کو فالو کیا تھا؟" ۔۔۔

یہ سوال بذات خود تنقید ہے۔ اس طرح نرمی اور سنجیدگی سے مکالمہ کریں۔ بتدریج بچے ٹیون ہو جائیں گے۔ ہر روز تھوڑی سے اِمپروومنٹ آنی چاہیے ۔۔۔ اور بالآخر یہ سب اِس گھر کا کلچر بن جائے گا۔ نسلوں تک جائے گا۔

خلاصہ کیا ہے؟
عین موقع پر نہیں! ۔۔۔ پہلے سے، پیچھے سے۔
ذہنی تیاری، ترتیب، تدریج، خود عمل، صبر و استقامت ۔۔۔ دعائیں ☘❤
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ہمایوں تارڑ کی فیسبک وال سے
 

عمر السلفی۔

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 22، 2020
پیغامات
1,608
ری ایکشن اسکور
41
پوائنٹ
110
‏زندگی میں بچوں کو دیکھ کر سیکھیئے کہ کیا کرنا چاہیئے اور بڑوں کو دیکھ کر سیکھیئے کہ کیا نہیں کرنا چاہیئے -
 

عمر السلفی۔

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 22، 2020
پیغامات
1,608
ری ایکشن اسکور
41
پوائنٹ
110
بچہ پر مسلط ہونے والے بڑے, اسے دوسروں پر مسلط ہونے والی شخصیت دیتے ہیں یا پھر دبا ہوا انسان !
اسی طرح بچے کی شخصیت کو ڈگریوں سے مشروط کرنے والے آخرت بلکہ دنیا سے بھی غافل انسان کو وجود دیتے ہیں !
 

عمر السلفی۔

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 22، 2020
پیغامات
1,608
ری ایکشن اسکور
41
پوائنٹ
110
"سچ پوچھیں تو تمام قومی عروج کی جڑ بچوں کی تعلیم ہے۔ اگر طریق تعلیم علمی اصولوں پر مبنی ہو تو تھوڑے ہی عرصہ میں تمام تمدنی شکایات کافور ہو جائیں اور دنیوی زندگی ایک ایسا دلفریب نظارہ معلوم ہو کے اس کے ظاہری حُسن کو مطعون کرنے والے فلسفی بھی اُس کی خوبیوں کے ثنا خواں بن جائیں۔" (علامہ محمد اقبال رحمہ اللہ)
 

عمر السلفی۔

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 22، 2020
پیغامات
1,608
ری ایکشن اسکور
41
پوائنٹ
110
اولاد کو وقت دیے بغیر ان سے امید رکھنا
کہ وہ اک اچھے انسان بن رہے ہیں
خود کو دھوکہ دینے والی بات ہے
FB_IMG_1615888655397.jpg
 

عمر السلفی۔

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 22، 2020
پیغامات
1,608
ری ایکشن اسکور
41
پوائنٹ
110
✍ *بچوں کی اخلاقیات
بہتر کرنے اور ان کو ڈیل کرنےکا مؤثر طریقہ*

یوں تو بچے عموماً شرارتی ہوتے ہیں لیکن بعض بچے بے حد ضدی بھی ہوتے ہیں جن سے کوئی کام کرانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہوتا ہے تاہم امریکی نیورولینگویسٹک اور ہپناٹزم کی ماہر خاتون کا کہنا ہےکہ اگر بچے کہنا نہ مانتے ہوں تو ان سے الفاظ تبدیل کرکے اپنی مرضی سے کام لیا جاسکتا ہے۔

ہارلے کے مطابق الفاظ کا انداز بچوں کو فرمانبردار بناسکتا ہے اور اس کے ذریعے وہ کوئی بھی کام کرسکتے ہیں۔ انہوں نے اپنی نئی کتاب ’’ورڈز دیٹ ورکس‘‘ میں اس کا تفصیلی جائزہ پیش کیا ہے اور وہ بچوں کے رویوں سے پریشان والدین کے لیے یہ تجاویز پیش کرتی ہیں جنہیں آزمانے میں کوئی ہرج نہیں۔ سائنسی پیمانے پر ثابت یہ الفاظ بچوں پر اثر کرتے ہیں مثلاً ’ مت کرو‘ کی جگہ ’ شکریہ‘ کہہ کر بچوں کو کوئی حکم دیا جائے تو اس کا فوری اثر ہوگا۔

*’’ناں‘‘ کی جگہ ’’ہاں‘‘ منفی کی جگہ مثبت:*

’’ اپنا کمرہ گندا مت کرو‘‘ اور یہ ’’نہ کرو اور وہ نہ کرو‘‘ کی بجائے مثبت جملے استعمال کیے جائیں جو بچوں پر جادو کی طرح اثر کرتے ہیں کیونکہ انکاری جملے بچوں پر منفی اثر ڈالتے ہیں اس لیے اس کی بجائے بچوں سے کہیں کہ ،چلو کمرہ صاف کرتے ہیں، جوتے اسٹینڈ پر رکھتے ہیں اور کھلونے الماری میں۔‘ یہ جملے بچے پر مثبت اثر ڈالیں گے اور وہ عمل کرنے لگیں گے۔

*بچوں کے بہت سے انتخابات پیش کیجئے:*

روزانہ مائیں بچوں کو یہ کہتی ہیں، ’ جلدی کرو اسکول یونیفارم پہنو،‘ اور یہ جملہ بچوں پر اثر نہیں کرتا اس کی جگہ بچوں کے سامنے بہت سے انتخاب پیش کریں، مثلاً آج اسکول میں کھانے کے لیے کیا لے جاؤ گے یا نیا یونیفارم پہنوگے یا پرانا والا۔ اور بچوں سے اس کو سوالیہ انداز میں پیش کریں اس طرح کے جملے بچوں پر بہت اچھا اثر ڈالتے ہیں۔

اسی طرح بچوں کو ہوم ورک کرانے کے لیے بھی چوائس پیش کریں، مثلاً کیا تم پہلے اردو کا کام کروگے یا اپنے ہفتہ وار پروجیکٹ کرنا چاہوگے۔ ان الفاظ سے بچے ذہنی طور پر کام کے لیے تیار ہوجاتے ہیں اسی طرح کھانا کھلانے کے لیے بچوں سے معلوم کرنے کی بجائے ان کے سامنے بہت سے کھانوں کے آپشن رکھیں۔

*’’ کب‘‘ کا استعمال:*

ماہرین کے مطابق ’’کب‘‘ کا لفظ اگر درست طور پر استعمال کیا جائے تو وہ ایک اہم قوت رکھتا ہے۔ والدین بچوں کے لیے اس لفظ کو درست جگہ استعمال کرکے اہم کام لے سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر ،تم اپنا ہوم ورک کب ختم کروگے، ہمیں کھانا کھانا ہے یا ، یا جب تم یہ کام کرلوگے تو ہم باہر چکر لگانے چلیں گے۔ اس جملے میں بچے کے لیے ایک کام ہے اور ایک پرکشش تفریح۔ اچھے سیلزمین بھی ان ہی جملوں کو استعمال کرتے ہیں۔ اسی طرح بچوں کو اسکول کا کام کرواتے وقت یہ کہیں کہ ’ جب تم سبق یاد کرلوگے تو تمہیں خود ہی احساس ہوجائے گا کہ یہ کتنا آسان کام تھا۔‘

*والدین اور بچوں کے درمیان زبان کا رشتہ:*

درست زبان استعمال کرکے اپنے اور بچے کے درمیان سمجھ بوجھ کا ایک مضبوط رشتہ بنائیں۔ بچوں سے اس طرح کے جادوئی جملے کہیں کہ’’ میں تمہاری طرح یہ سمجھ سکتا یا سکتی ہوں کہ کتنے سارے کام ہیں‘‘ یا ’’ تم میرے جیسے ہواور یہ جان سکتے ہوکہ ہوم ورک کرنا کتنا آسان ہے۔‘‘ میرے جیسا یا تمہارے جیسا لفظ بچے کا حوصلہ بڑھاتے ہیں اور وہ کام پر آمادہ ہوتا ہے۔

*’شکریہ کا لفظ پہلے ادا کریں نہ کہ بعد میں

بچے اپنے والدین کو خوش کرنا چاہتے ہیں اور وہ اس کی پذیرائی بھی چاہتے ہیں۔ اس لیے اگلی مرتبہ بچوں کو ہاتھ دھونے، ٹی وی بند کرنے یا پانی دینے سے قبل ’شکریہ‘ کا لفظ کہیں جس سے وہ عمل کی جانب راغب ہوتے ہیں اور کام کرتے ہیں۔

*ہر کام کی وجہ بیان کریں:*

بچے تجسس رکھتے ہیں اور ہرکام کی وضاحت چاہتے ہیں اس لیے ان میں ایک حد تک کاموں کی سمجھ پیدا کرنا ضروری ہے۔ اسی لیے کوئی بھی کام کروانے سے قبل بچوں کو اس کی مختصر وجہ بیان کرنا ضروری ہوتا ہے۔ مثلاً اس ماہ کپڑے نہیں خرید سکتے کیونکہ ایک بڑا خرچ سامنے آگیا ہے۔ اس سے بچہ مطمئن ہوجاتا ہے۔

*’سنو‘ اور ’اگرسوچو‘ جیسے جملے:*

بچوں کو کام کی تحریک دینے والے طاقتور الفاظ میں سے 2 تو الفاظ ہیں ’سنو‘ اور ’ ذرا سوچو تو‘۔ مثلاً سنو ہمیں یہ کام کرنا ہے کیونکہ نہ ہونے کی صورت میں یہ نقصان ہوسکتا ہے یا ’ اگر سوچو توکہ ہوم ورک کرلوگے تو کتنا اچھا ہوگا۔‘ ایسے جملے بچوں پر اثر انداز ہوتے ہیں اور اس طرح آپ ان سے کوئی بھی کام کرواسکتےہیں۔

*بچوں کا شکایتی لہجہ:*

بہت سے بچے والدین سے ہر معاملے کی شکایت کرتے ہیں اس کا ایک حل یہ ہے کہ آپ ان کی وہی شکایت ان پر دوبارہ لوٹا دیں لیکن اس میں اس کا حل ہو اور وہ بھی بہت مؤثر انداز میں پیش کیا جائے۔ اگر بچہ کہے کہ گرمی لگ رہی ہے تو آپ کہیے، ’ اوہ! تو آپ کو قدرے ٹھنڈ چاہیے تو اس کے لیے کھڑکی کھول دیتے ہیں یا اپنی جیکٹ اتار دو۔ ‘ آپ دیکھیں کہ اس طرح بار بار شکایت کرنے والا بچہ مطمئن ہوکر خاموش ہوجائے گا ۔

(منقول)
 
Top