• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بڑوں کی عزت کہاں تک جائز ہے ۔

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
بڑوں کی عزت کہاں تک جائز ہے ۔

اگر بڑےزید کے خلاف سازشیں کریں۔یا بیمار ہو تو کام کرنے کا کہہ کر تنگ کریں جبکہ زیدکو کام کرتے وقت شدید تکلیف ہو ۔یا بیماری کو ڈرمہ صاحب کرنے کی کوشش کریں ۔ اور وہ اہل حدیث بھی نہ ہوں
نوٹ :یہاں زید کے ماں باپ مراد نہیں ہیں ۔بلکہ دوسرے رشتہ دار ہیں۔
 
Last edited by a moderator:

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
بڑوں کی عزت کہا تک جائز ہے ۔

اگر بڑےزید خلاف سازشیں کریں۔یا بیمار ہو تو کام کرنے کے تنگ کریں جبکہ زید کام کرتے وقت شدید تکلیف ہو ۔یا بیماری کو ڈرمہ صاحب کرنے کی کوشش کریں ۔ اور وہ اہل حدیث بھی نہ ہوں
ٹوٹ :یہاں زید کے ماں باپ مراد نہیں ہیں ۔بلکہ دوسرے رشتہ دار ہیں۔
@عبدہ
@خضر حیات
@اسحاق سلفی
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
بسم اللہ الرحمن الرحیم

وَقَضَى رَبُّكَ أَلاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلاَهُمَا فَلاَ تَقُل لَّهُمَآ أُفٍّ وَلاَ تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلاً كَرِيمًا
اور آپ کے رب نے حکم فرما دیا ہے کہ تم ﷲ کے سوا کسی کی عبادت مت کرو اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرو، اگر تمہارے سامنے دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اُف بھی نہ کہنا اور انہیں جھڑکنا بھی نہیں اور ان دونوں کے ساتھ بڑے ادب سے بات کیا کرو
17:23
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
بسم اللہ الرحمن الرحیم

وَقَضَى رَبُّكَ أَلاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلاَهُمَا فَلاَ تَقُل لَّهُمَآ أُفٍّ وَلاَ تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلاً كَرِيمًا
اور آپ کے رب نے حکم فرما دیا ہے کہ تم ﷲ کے سوا کسی کی عبادت مت کرو اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرو، اگر تمہارے سامنے دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اُف بھی نہ کہنا اور انہیں جھڑکنا بھی نہیں اور ان دونوں کے ساتھ بڑے ادب سے بات کیا کرو
17:23
ٹوٹ :یہاں زید کے ماں باپ مراد نہیں ہیں ۔بلکہ دوسرے رشتہ دار ہیں۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
بڑوں کی عزت کہاں تک جائز ہے ۔

اگر بڑےزید کے خلاف سازشیں کریں۔یا بیمار ہو تو کام کرنے کا کہہ کر تنگ کریں جبکہ زیدکو کام کرتے وقت شدید تکلیف ہو ۔یا بیماری کو ڈرمہ صاحب کرنے کی کوشش کریں ۔ اور وہ اہل حدیث بھی نہ ہوں
نوٹ :یہاں زید کے ماں باپ مراد نہیں ہیں ۔بلکہ دوسرے رشتہ دار ہیں۔
میں نے حک و اضافہ کرکے سوال کو ذرا واضح کرنے کی کوشش کی ہے ، لیکن پھر بھی آپ دوبارہ اپنے الفاظ میں لکھیں ، البتہ ایک عمومی قاعدہ ہے :
جہاں اللہ کی نافرمانی ہورہی ہو وہاں مخلوق کی بات کو حیثیت نہیں دی جائے گی ۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
بھائی! کچھ عرض کرتا ہوں ، شاید مفید ثابت ہو!
جب انسان کسی بزرگ شخص سے مخاطب ہو، اور اس کے ساتھ معاملات کرے، تو اسے اس بات کو مد نظر رکھنا چاہئے کہ اسی طرح کا معاملہ اگر کوئی شخص اس کے والد کے ساتھ کرے، یا اسی طرح اس کے والد کے ساتھ کوئی غیر شخص پیش آئے تو وہ کیا محسوس کرے گا!
عمر زیادہ ہونے سے انسان کی طبیعت میں کچھ تبدیلی آجاتی ہے، بعض عمر رسیدہ لوگ بہت ضدی بھی ہو جاتے ہیں، اور چھوٹی چھوٹی بات کو ایک مسئلہ بھی بنا لیتے ہیں، اور پھر اپنے ہی پرانے دوستوں سے چھوٹی چھوٹی بات پر جھگڑ بھی پڑتے ہیں! یہ سب انسان کی زندگی کے ساتھ ہوتا ہے!
ہمارا طریقہ احسان کا ہونا چاہئے!
اب اگر ہم خود ، جو ابھی نوجوانی میں یا جوانی میں یا جو عمر کے درمیانی حصے میں ہیں، وہ خود اپنے بزرگوں کی باتوں پر ''چڑچڑے'' ہو جائیں، تو بات بنتی نظر نہیں آتی!
ایسا نہیں ہے کہ انسان پر صرف اس کے والدین کا ہی حق ہے، بلکہ اس کے علاوہ اپنے رشتہ داروں کا بھی، اور محلہ والوں کا بھی!
اور اس حق میں سبھی کچھ شامل ہے!
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
السلام علیکم

بڑوں کی عزت کہاں تک جائز ہے ۔
اگر بڑے زید کے خلاف سازشیں کریں۔
یا بیمار ہو تو کام کرنے کا کہہ کر تنگ کریں جبکہ زید کو کام کرتے وقت شدید تکلیف ہو ۔
یا بیماری کو ڈرمہ صاحب کرنے کی کوشش کریں ۔ اور وہ اہل حدیث بھی نہ ہوں

نوٹ :یہاں زید کے ماں باپ مراد نہیں ہیں ۔بلکہ دوسرے رشتہ دار ہیں۔
آپ کے سوال سے لگتا ھے زید کے والدین نہیں اور وہ ان رشتہ دار پر ڈپینڈ کرتا ھے، یعنی زید اکیلا ھے اور رشتہ دار اس کی پرورش کر رہے ہیں۔ ورنہ زید کے بیمار ہونے پر رشتہ داروں کا کیا پڑی ھے کہ اس کے والدین کے ہوتے ہوئے وہ اسے کوئی کام کہیں۔ اگر تو یہ معاملہ ھے تو پھر زید ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے اور بیماری کا بہانہ بنا کر جان چھڑانے کی کوشش نہ کرے۔

اگر زید کے والدین ہیں اور اس کے رشتہ دار اسے کوئی کام کرنے کو کہتے ہیں تو زید کو اپنے والدین کو بتانا چاہئے تاکہ وہ رشتہ داروں سے اس پر بہتر طریقہ سے بات کریں۔

والسلام
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
بڑوں کی عزت کہاں تک جائز ہے ۔
آپ یہ حدیث بغور پڑھیں :
عن عمرو بن شعيب عن ابيه عن جده قال:‏‏‏‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏ " ليس منا من لم يرحم صغيرنا ويعرف شرف كبيرنا ".
(سنن الترمذی ، حدیث نمبر: 1920 )
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو ہمارے چھوٹوں پر مہربانی نہ کرے اور ہمارے بڑوں کا مقام نہ پہچانے“۔
(اسے ترمذی نے بسندصحیح روایت کیا )
رواہ الترمذی فی السنن،و سنن ابی داود/ الأدب ۶۶ (۴۹۴۳) (تحفة الأشراف : ۸۷۸۹)، و مسند احمد (۲/۱۸۵، ۲۰۷)
قال الشيخ الألباني: صحيح، التعليق الرغيب (1 / 16)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسکی شرح میں علامہ عبد الرحمن مبارکپوری ؒ فرماتے ہیں :
’’ قوله ( ليس منا ) قيل أي ليس على طريقتنا وهو كناية عن التبرئة ويأتي تفسيره من الترمذي في آخر الباب ( من لم يرحم صغيرنا ) أي من لا يكون من أهل الرحمة لأطفالنا ( ولم يوقر ) من التوقير أي لم يعظم ( كبيرنا ) هو شامل للشاب والشيخ. انتهى.
اس حدیث میں نبی مکرم ﷺ کا فرمان ’’وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے ‘‘ کا مطلب ہے وہ شخص ہمارے طریقہ ع راستہ پر نہیں ۔
یعنی کنایۃً ایسے شخص سے براءت کا اظہار فرمایا ؛
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالی سورۃ الحج آیت نمبر ۵۔۔میں ارشاد فرماتا ہے :
يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِنَ الْبَعْثِ فَإِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِنْ مُضْغَةٍ مُخَلَّقَةٍ وَغَيْرِ مُخَلَّقَةٍ لِنُبَيِّنَ لَكُمْ وَنُقِرُّ فِي الْأَرْحَامِ مَا نَشَاءُ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى ثُمَّ نُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوا أَشُدَّكُمْ وَمِنْكُمْ مَنْ يُتَوَفَّى وَمِنْكُمْ مَنْ يُرَدُّ إِلَى أَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَيْلَا يَعْلَمَ مِنْ بَعْدِ عِلْمٍ شَيْئًا۔۔الخ
ترجمہ :
لوگو! اگر تمیں موت کے بعد دوبارہ زندہ ہونے میں کوئی شک ہے تو (تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ) ہم نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا ، پھر نطفہ سے، پھر خون کے لوتھڑے سے، پھر گوشت کی بوٹی سے جو منفش بھی ہوتی ہے اور نقش کے بغیر بھی، تاکہ ہم تم پر (اپنی قدرت کو) واضح کردیں ۔
پھر ہم جس نطفہ کے متعلق چاہتے ہیں اسے رحموں میں ایک خاص مدت تک جمائے رکھتے ہیں، پھر تمہیں بچہ بناکر نکالتے ہیں، پھر (تمہاری پرورش کرتے ہیں) تاکہ تم اپنی بھرپور جوانی کو پہنچو ۔
پھر تم میں سے کسی کی تو روح قبض کرلی جاتی ہے اور کسی کو بدترین عمر (انتہائی بڑھاپے) تک زندہ رکھا جاتا ہے تاکہ وہ سب کچھ جانے کے بعد پھر کچھ نہ جانے۔ ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علامہ عبد الرحمن کیلانی رحمہ اللہ تعالیٰ اس کی تفسیرمیں لکھتے ہیں :
’’ یہ بات کیا کم حیرت انگیز ہے کہ جب انسان کا بچہ پیدا ہوتا ہے تو جوانی تک اس کے جسم، اس کی عقل اور اس کی قوت ہر چیز میں اضافہ ہوتا جاتا ہے لیکن جوانی کے بعد انسان وہی پہلی سی غذائیں بلکہ پہلے سے اچھی غذائیں کھاتا ہے۔ لیکن اس کی عقل اور قوت میں کمی واقع ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ اس کا۔۔ ایک مقررہ حد تک جاکر رک جاتا ہے پھر اس میں انحطاط رونما ہونے لگتا ہے۔
حتیٰ کہ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ اعضاء کے اضمحلال کے علاوہ اس کی عقل بھی ماؤف ہوجاتی ہے، سیکھی ہوئی باتیں بھول جاتا ہے اور بہکی بہکی بچوں کی سی باتیں کرنے لگتا ہے کیا یہ شواہد ایسے نہیں ہیں کہ جو کچھ اللہ چاہتا ہے وہی کچھ ہوتا ہے نیز یہ کہ جو کچھ اللہ چاہتا ہے وہ اس کے کرنے کی پوری قدرت رکھتا ہے؟ پھر آخر بعث بعدالموت سے انکار کی کیا وجہ ہوسکتی ہے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس آیت سے واضح ہے کہ کچھ لوگ زیادہ عمر کے بڑھاپے میں ۔۔بچوں کی سی حرکتیں ۔۔کرنے لگتے ہیں
ایسے بزرگ ہماری خصوصی توجہ اور توقیر کے لائق ہونے چاہئیں۔۔
اسی وجہ بوڑھے والدین کی خدمت کی زیادہ تاکید کی گئی ہے کہ وہ اکثر اس سٹیج پر ایسی حالت میں ہو جاتے ہیں کہ انکی خدمت ۔۔مشکل، اور بھاری
ہوتی ہے ۔۔اس لئے اجر و ثواب بھی مزید ہے
 
Last edited:

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
آپ یہ حدیث بغور پڑھیں :
عن عمرو بن شعيب عن ابيه عن جده قال:‏‏‏‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏ " ليس منا من لم يرحم صغيرنا ويعرف شرف كبيرنا ".
(سنن الترمذی ، حدیث نمبر: 1920 )
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو ہمارے چھوٹوں پر مہربانی نہ کرے اور ہمارے بڑوں کا مقام نہ پہچانے“۔
(اسے ترمذی نے بسندصحیح روایت کیا )
رواہ الترمذی فی السنن،و سنن ابی داود/ الأدب ۶۶ (۴۹۴۳) (تحفة الأشراف : ۸۷۸۹)، و مسند احمد (۲/۱۸۵، ۲۰۷)
قال الشيخ الألباني: صحيح، التعليق الرغيب (1 / 16)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسکی شرح میں علامہ عبد الرحمن مبارکپوری ؒ فرماتے ہیں :
’’ قوله ( ليس منا ) قيل أي ليس على طريقتنا وهو كناية عن التبرئة ويأتي تفسيره من الترمذي في آخر الباب ( من لم يرحم صغيرنا ) أي من لا يكون من أهل الرحمة لأطفالنا ( ولم يوقر ) من التوقير أي لم يعظم ( كبيرنا ) هو شامل للشاب والشيخ. انتهى.
اس حدیث میں نبی مکرم ﷺ کا فرمان ’’وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے ‘‘ کا مطلب ہے وہ شخص ہمارے طریقہ ع راستہ پر نہیں ۔
یعنی کنایۃً ایسے شخص سے براءت کا اظہار فرمایا ؛
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالی سورۃ الحج آیت نمبر ۵۔۔میں ارشاد فرماتا ہے :
يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِنَ الْبَعْثِ فَإِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِنْ مُضْغَةٍ مُخَلَّقَةٍ وَغَيْرِ مُخَلَّقَةٍ لِنُبَيِّنَ لَكُمْ وَنُقِرُّ فِي الْأَرْحَامِ مَا نَشَاءُ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى ثُمَّ نُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوا أَشُدَّكُمْ وَمِنْكُمْ مَنْ يُتَوَفَّى وَمِنْكُمْ مَنْ يُرَدُّ إِلَى أَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَيْلَا يَعْلَمَ مِنْ بَعْدِ عِلْمٍ شَيْئًا۔۔الخ
ترجمہ :
لوگو! اگر تمیں موت کے بعد دوبارہ زندہ ہونے میں کوئی شک ہے تو (تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ) ہم نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا ، پھر نطفہ سے، پھر خون کے لوتھڑے سے، پھر گوشت کی بوٹی سے جو منفش بھی ہوتی ہے اور نقش کے بغیر بھی، تاکہ ہم تم پر (اپنی قدرت کو) واضح کردیں ۔
پھر ہم جس نطفہ کے متعلق چاہتے ہیں اسے رحموں میں ایک خاص مدت تک جمائے رکھتے ہیں، پھر تمہیں بچہ بناکر نکالتے ہیں، پھر (تمہاری پرورش کرتے ہیں) تاکہ تم اپنی بھرپور جوانی کو پہنچو ۔
پھر تم میں سے کسی کی تو روح قبض کرلی جاتی ہے اور کسی کو بدترین عمر (انتہائی بڑھاپے) تک زندہ رکھا جاتا ہے تاکہ وہ سب کچھ جانے کے بعد پھر کچھ نہ جانے۔ ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علامہ عبد الرحمن کیلانی رحمہ اللہ تعالیٰ اس کی تفسیرمیں لکھتے ہیں :
’’ یہ بات کیا کم حیرت انگیز ہے کہ جب انسان کا بچہ پیدا ہوتا ہے تو جوانی تک اس کے جسم، اس کی عقل اور اس کی قوت ہر چیز میں اضافہ ہوتا جاتا ہے لیکن جوانی کے بعد انسان وہی پہلی سی غذائیں بلکہ پہلے سے اچھی غذائیں کھاتا ہے۔ لیکن اس کی عقل اور قوت میں کمی واقع ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ اس کا۔۔ ایک مقررہ حد تک جاکر رک جاتا ہے پھر اس میں انحطاط رونما ہونے لگتا ہے۔
حتیٰ کہ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ اعضاء کے اضمحلال کے علاوہ اس کی عقل بھی ماؤف ہوجاتی ہے، سیکھی ہوئی باتیں بھول جاتا ہے اور بہکی بہکی بچوں کی سی باتیں کرنے لگتا ہے کیا یہ شواہد ایسے نہیں ہیں کہ جو کچھ اللہ چاہتا ہے وہی کچھ ہوتا ہے نیز یہ کہ جو کچھ اللہ چاہتا ہے وہ اس کے کرنے کی پوری قدرت رکھتا ہے؟ پھر آخر بعث بعدالموت سے انکار کی کیا وجہ ہوسکتی ہے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس آیت سے واضح ہے کہ کچھ لوگ زیادہ عمر کے بڑھاپے میں ۔۔بچوں کی سی حرکتیں ۔۔کرنے لگتے ہیں
ایسے بزرگ ہماری خصوصی توجہ اور توقیر کے لائق ہونے چاہئیں۔۔
اسی وجہ بوڑھے والدین کی خدمت کی زیادہ تاکید کی گئی ہے کہ وہ اکثر اس سٹیج پر ایسی حالت میں ہو جاتے ہیں کہ انکی خدمت ۔۔مشکل، اور بھاری
ہوتی ہے ۔۔اس لئے اجر و ثواب بھی مزید ہے
بھائی میر مراد اس عمر کے لوگ نہیں ہیں ۔ صرف عمر میں بڑھیں دنیاوی معاملات میں زید کو پریشان کرتے ہیں کچھ ان میں ایسے ہیں اس پر چھوٹی تہمتیں لگاتے ۔ان کے بارے میں چھوٹی آفاہیں بھلاتے ہیں ۔
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
میں نے حک و اضافہ کرکے سوال کو ذرا واضح کرنے کی کوشش کی ہے ، لیکن پھر بھی آپ دوبارہ اپنے الفاظ میں لکھیں ، البتہ ایک عمومی قاعدہ ہے :
جہاں اللہ کی نافرمانی ہورہی ہو وہاں مخلوق کی بات کو حیثیت نہیں دی جائے گی ۔
بھائی میر مراد اس عمر کے لوگ نہیں ہیں ۔ صرف عمر میں بڑھیں دنیاوی معاملات میں زید کو پریشان کرتے ہیں کچھ ان میں ایسے ہیں اس پر چھوٹی تہمتیں لگاتے ۔ان کے بارے میں چھوٹی آفاہیں پھلاتے ہیں ۔
 
Top