بڑوں کی عزت کہاں تک جائز ہے ۔
آپ یہ حدیث بغور پڑھیں :
عن عمرو بن شعيب عن ابيه عن جده قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ليس منا من لم يرحم صغيرنا ويعرف شرف كبيرنا ".
(سنن الترمذی ، حدیث نمبر: 1920 )
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو ہمارے چھوٹوں پر مہربانی نہ کرے اور ہمارے بڑوں کا مقام نہ پہچانے“۔
(اسے ترمذی نے بسندصحیح روایت کیا )
رواہ الترمذی فی السنن،و سنن ابی داود/ الأدب ۶۶ (۴۹۴۳) (تحفة الأشراف : ۸۷۸۹)، و مسند احمد (۲/۱۸۵، ۲۰۷)
قال الشيخ الألباني: صحيح، التعليق الرغيب (1 / 16)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسکی شرح میں علامہ عبد الرحمن مبارکپوری ؒ فرماتے ہیں :
’’ قوله ( ليس منا ) قيل أي ليس على طريقتنا وهو كناية عن التبرئة ويأتي تفسيره من الترمذي في آخر الباب ( من لم يرحم صغيرنا ) أي من لا يكون من أهل الرحمة لأطفالنا ( ولم يوقر ) من التوقير أي لم يعظم ( كبيرنا ) هو شامل للشاب والشيخ. انتهى.
اس حدیث میں نبی مکرم ﷺ کا فرمان ’’وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے ‘‘ کا مطلب ہے وہ شخص ہمارے طریقہ ع راستہ پر نہیں ۔
یعنی کنایۃً ایسے شخص سے براءت کا اظہار فرمایا ؛
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالی سورۃ الحج آیت نمبر ۵۔۔میں ارشاد فرماتا ہے :
يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِنَ الْبَعْثِ فَإِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِنْ مُضْغَةٍ مُخَلَّقَةٍ وَغَيْرِ مُخَلَّقَةٍ لِنُبَيِّنَ لَكُمْ وَنُقِرُّ فِي الْأَرْحَامِ مَا نَشَاءُ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى ثُمَّ نُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوا أَشُدَّكُمْ وَمِنْكُمْ مَنْ يُتَوَفَّى وَمِنْكُمْ مَنْ يُرَدُّ إِلَى أَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَيْلَا يَعْلَمَ مِنْ بَعْدِ عِلْمٍ شَيْئًا۔۔الخ
ترجمہ :
لوگو! اگر تمیں موت کے بعد دوبارہ زندہ ہونے میں کوئی شک ہے تو (تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ) ہم نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا ، پھر نطفہ سے، پھر خون کے لوتھڑے سے، پھر گوشت کی بوٹی سے جو منفش بھی ہوتی ہے اور نقش کے بغیر بھی، تاکہ ہم تم پر (اپنی قدرت کو) واضح کردیں ۔
پھر ہم جس نطفہ کے متعلق چاہتے ہیں اسے رحموں میں ایک خاص مدت تک جمائے رکھتے ہیں، پھر تمہیں بچہ بناکر نکالتے ہیں، پھر (تمہاری پرورش کرتے ہیں) تاکہ تم اپنی بھرپور جوانی کو پہنچو ۔
پھر تم میں سے کسی کی تو روح قبض کرلی جاتی ہے اور کسی کو بدترین عمر (انتہائی بڑھاپے) تک زندہ رکھا جاتا ہے تاکہ وہ سب کچھ جانے کے بعد پھر کچھ نہ جانے۔ ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علامہ عبد الرحمن کیلانی رحمہ اللہ تعالیٰ اس کی تفسیرمیں لکھتے ہیں :
’’ یہ بات کیا کم حیرت انگیز ہے کہ جب انسان کا بچہ پیدا ہوتا ہے تو جوانی تک اس کے جسم، اس کی عقل اور اس کی قوت ہر چیز میں اضافہ ہوتا جاتا ہے لیکن جوانی کے بعد انسان وہی پہلی سی غذائیں بلکہ پہلے سے اچھی غذائیں کھاتا ہے۔ لیکن اس کی عقل اور قوت میں کمی واقع ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ اس کا۔۔ ایک مقررہ حد تک جاکر رک جاتا ہے پھر اس میں انحطاط رونما ہونے لگتا ہے۔
حتیٰ کہ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ اعضاء کے اضمحلال کے علاوہ اس کی عقل بھی ماؤف ہوجاتی ہے، سیکھی ہوئی باتیں بھول جاتا ہے اور بہکی بہکی بچوں کی سی باتیں کرنے لگتا ہے کیا یہ شواہد ایسے نہیں ہیں کہ جو کچھ اللہ چاہتا ہے وہی کچھ ہوتا ہے نیز یہ کہ جو کچھ اللہ چاہتا ہے وہ اس کے کرنے کی پوری قدرت رکھتا ہے؟ پھر آخر بعث بعدالموت سے انکار کی کیا وجہ ہوسکتی ہے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس آیت سے واضح ہے کہ کچھ لوگ زیادہ عمر کے بڑھاپے میں ۔۔بچوں کی سی حرکتیں ۔۔کرنے لگتے ہیں
ایسے بزرگ ہماری خصوصی توجہ اور توقیر کے لائق ہونے چاہئیں۔۔
اسی وجہ بوڑھے والدین کی خدمت کی زیادہ تاکید کی گئی ہے کہ وہ اکثر اس سٹیج پر ایسی حالت میں ہو جاتے ہیں کہ انکی خدمت ۔۔مشکل، اور بھاری
ہوتی ہے ۔۔اس لئے اجر و ثواب بھی مزید ہے