• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بڑوں کی عزت کہاں تک جائز ہے ۔

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
السلام علیکم



آپ کے سوال سے لگتا ھے زید کے والدین نہیں اور وہ ان رشتہ دار پر ڈپینڈ کرتا ھے، یعنی زید اکیلا ھے اور رشتہ دار اس کی پرورش کر رہے ہیں۔ ورنہ زید کے بیمار ہونے پر رشتہ داروں کا کیا پڑی ھے کہ اس کے والدین کے ہوتے ہوئے وہ اسے کوئی کام کہیں۔ اگر تو یہ معاملہ ھے تو پھر زید ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے اور بیماری کا بہانہ بنا کر جان چھڑانے کی کوشش نہ کرے۔

اگر زید کے والدین ہیں اور اس کے رشتہ دار اسے کوئی کام کرنے کو کہتے ہیں تو زید کو اپنے والدین کو بتانا چاہئے تاکہ وہ رشتہ داروں سے اس پر بہتر طریقہ سے بات کریں۔

والسلام
زید کے والدین نہیں ہیں۔جو رشتہ دار پرورش کررہیں۔ وہ علیحدہ
ہیں ۔ لیکن اس گھر میں دوسرے لوگ بھی ہیں ۔ جو پتھر دل قسم کے ہیں ۔ سرپرست کی غیر موجودگی میں وہ اس کو تنگ کانے کا کوئی موکا ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ اور جہاں تعلق ہے ،سرپرست سے شکایت کا تو اس سے بھی مسئلہ حل نہیں ہوتا
 
Last edited:

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
السلام علیکم

زید اب اس قابل ہو چکا ھے کہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہو سکے جس پر اسے آگے بڑھنے کے لئے مزید محنت کی ضرورت ھے، اور یہ اس کی مجبوری بھی اس لئے زید کو صبر اور تحمل سے کام لینا چاہئے اور جہاں زید نے ان کی پرورش میں اتنی عمر گزار لی ھے تو خود مختار ہونے تک مزید احتیاط سے کام لے، جنہوں نے زید کی پرورش کی ھے وہ والدین کا درجہ ہی رکھتے ہیں، زید کو یہ سوچنا چاہئے کہ زید کو اگر وہ اس عمر میں چھوڑ دیتے تو زید کا کیا بنتا، اچھی تعلیم تو درکنار اسے شائد بھیک مانگنی بھی نصیب نہ ہوتی۔ رہی بات باقی رشتہ داروں کی تو رشتہ داروں میں ایسا ہوتا ھے اسے اگنور کرتے ہیں نہ کہ اپنے دماغ پر ہاوی ہونے دیتے، اپنا کردار بہتر بنائیں۔ ہمارے بڑے بزورگ کہتے ہیں کہ "اک چپ تو سو سکھ، گل کیندی اے توں مینوں منؤں کڈ میں تینوں شہروں کڈاں گی، ترجمہ: خاموشی اختیار کرنا ہی بہتر ہوتا ھے ورنہ منہ سے نکلی بات گھر سے ہی نکلوا دے" زید کو سمجھداری سے کام لینے کی اشد ضرورت ھے۔

والسلام
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
السلام علیکم

زید اب اس قابل ہو چکا ھے کہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہو سکے جس پر اسے آگے بڑھنے کے لئے مزید محنت کی ضرورت ھے، اور یہ اس کی مجبوری بھی اس لئے زید کو صبر اور تحمل سے کام لینا چاہئے اور جہاں زید نے ان کی پرورش میں اتنی عمر گزار لی ھے تو خود مختار ہونے تک مزید احتیاط سے کام لے، جنہوں نے زید کی پرورش کی ھے وہ والدین کا درجہ ہی رکھتے ہیں، زید کو یہ سوچنا چاہئے کہ زید کو اگر وہ اس عمر میں چھوڑ دیتے تو زید کا کیا بنتا، اچھی تعلیم تو درکنار اسے شائد بھیک مانگنی بھی نصیب نہ ہوتی۔ رہی بات باقی رشتہ داروں کی تو رشتہ داروں میں ایسا ہوتا ھے اسے اگنور کرتے ہیں نہ کہ اپنے دماغ پر ہاوی ہونے دیتے، اپنا کردار بہتر بنائیں۔ ہمارے بڑے بزورگ کہتے ہیں کہ "اک چپ تو سو سکھ، گل کیندی اے توں مینوں منؤں کڈ میں تینوں شہروں کڈاں گی، ترجمہ: خاموشی اختیار کرنا ہی بہتر ہوتا ھے ورنہ منہ سے نکلی بات گھر سے ہی نکلوا دے" زید کو سمجھداری سے کام لینے کی اشد ضرورت ھے۔

والسلام
بھائی آپ کی باتیں کافی مفید ہیں ۔لیکن مجھے اس بارے میں قران و حدیث کی روشنی معلومات درکار تھیں۔کہ باوقت ضرورت بولنا جائز ہے ۔یا نہیں
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
جہاں اللہ کی نافرمانی ہورہی ہو وہاں مخلوق کی بات کو حیثیت نہیں دی جائے گی ۔
وہ زید سے روزانہ میت کے لیے قران پڑھوتے ہیں ۔جوکہ بدعت ہے ۔ کسی کے فوت ہو کی صورت میں جمرات جی روٹی بھی دینے جانی پڑھتی ہے ۔
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
وہ زید سے روزانہ میت کے لیے قران پڑھوتے ہیں ۔جوکہ بدعت ہے ۔ کسی کے فوت ہو کی صورت میں جمرات جی روٹی بھی دینے جانی پڑھتی ہے ۔
محترم بھائی پہلی بات یہ ہے کہ کسی کی بات ماننا اور کسی کی عزت کرنا یہ دو علیحدہ چیزیں ہیں

1-کسی کی بات ماننے کے لئے تو سب سے پہلے تو یہ دیکھنا ہے کہ وہ بات اللہ اور رسول کی بات کے خلاف نہ ہو ورنہ جو کوئی بھی ہو اکراہ کے علاوہ اسکی بات ماننا جائز نہیں
البتہ اگر اسکی بات اللہ اور رسول کی بات کے خلاف نہ ہو بلکہ دنیاوی طرح کی ہو تو اس وقت دو صورتیں ہیں
ایک تو یہ کہ انکے آپ کے اوپر کم یا زیادہ احسانات ہیں تو ایسی صورت میں تو آپ کو لازمی احسان کا بدلہ احسان سے ہی دینا چاہئے لا يشكر الله من لا يشكر الناس اور اگر زیادہ احسانات کے ساتھ کچھ الفاظ کی تلخیاں بھی ہوں تو وہ وقعت نہیں رکھتیں
دوسری صورت اگر احسانات نہ ہوں تو پھر بھی سنت تو یہ ہے کہ کافر کے ساتھ بھی احسان سے پیش آنا چاہیے یہ ایک داعی کی صفات میں سے ہے ولو کنت فظا غلیظ القلب والی آیت سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں
لیکن اگر آپ کسی خلش کی وجہ سے احسان نہ کریں تو میرے خیال میں گناہ گار نہیں ہوں گے جیسا کہ بعض دفعہ سیرت سے نقوش ملتے ہیں

2-عزت کرنے کے لئے تو اوپر احادیث بھائیوں نے بتا دی ہیں کہ بڑوں کی عزت کرنی چاہئے البتہ بعض دفعہ عزت کا تعلق عقیدہ اور ایمان اور بدعت سے بھی جوڑا گیا ہے مثلا بدعتی کی عزت نہ کرنا جیسا بعض سلف کا قول آتا ہے کہ من وقر صاحب بدعۃ فقد اعان علی ھدم الاسلام یعنی جس نے کسی بدعتی کی توقیر کی تو اس نے اسلام کو ڈھانے میں مدد کی تو اس میں حالات کو دیکھا جائے گا کہ اسکی عزت کرنے میں دعوت کی مصلحت کتنی ہے اور اسلام کا نقصان کتنا ہے
پس زید کو ایک بدعتی کی عزت کرتے وقت پہلے تو بدعت کے لیول کو دیکھنا پڑے گا کہ بدعت مکفرہ ہے یا غیر مکفرہ دوسرا پھر یہ بھی دیکھنا پڑے گا کہ اس عزت نہ کرنے میں دعوت کے لحاظ سے اسلام کا کتنا فائدہ ہے اور عزت کرنے میں میرا ذاتی یا اسلام کا کتنا فائدہ ہے
مگر یہاں تو معاملہ ہی الٹا ہے کہ زید چاہتا ہے کہ وہ کسی بدعتی کی عزت نہ کرے یعنی اسکو عزت کرنے میں دنیاوی فائدہ کوئی نہیں پس یہاں صرف دعوت کے لحاظ سے موازنہ کرنا پڑے گا کہ عزت نہ کرنے سے اسکی بدعت کو کتنا نقصان ہو گا اور اور عزت کرنے سے اسکو دعوت دینے میں کتنی آسانی ہو گی
جہاں تک زید کی دلی ان سے نفرت کی بات ہے تو میرے خیال میں زید کو اسکو مقدم نہیں رکھنا چاہئے بلکہ اسلام کی بہتری کو ہی مقدم رکھنا چاہئے اسکی وجہ یہ ہے کہ اگر زید اپنی دلی نفرت کی وجہ سے انکی عزت نہیں بھی کرے گا تو کیا انکے تلخ جملوں سے بچ تو نہیں جائے گا
یعنی وہ تکلیفیں تو اسی طرح موجود ہی رہیں گی پس فائدہ تو نہیں حاصل ہو گا مگر اگر وہ یہاں اسلام کے مفاد کو مقدم رکھے گا تو اس سے اپنی آخرت تو بہتر بنا سکے گا واللہ اعلم
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
محترم بھائی پہلی بات یہ ہے کہ کسی کی بات ماننا اور کسی کی عزت کرنا یہ دو علیحدہ چیزیں ہیں

1-کسی کی بات ماننے کے لئے تو سب سے پہلے تو یہ دیکھنا ہے کہ وہ بات اللہ اور رسول کی بات کے خلاف نہ ہو ورنہ جو کوئی بھی ہو اکراہ کے علاوہ اسکی بات ماننا جائز نہیں
البتہ اگر اسکی بات اللہ اور رسول کی بات کے خلاف نہ ہو بلکہ دنیاوی طرح کی ہو تو اس وقت دو صورتیں ہیں
ایک تو یہ کہ انکے آپ کے اوپر کم یا زیادہ احسانات ہیں تو ایسی صورت میں تو آپ کو لازمی احسان کا بدلہ احسان سے ہی دینا چاہئے لا يشكر الله من لا يشكر الناس اور اگر زیادہ احسانات کے ساتھ کچھ الفاظ کی تلخیاں بھی ہوں تو وہ وقعت نہیں رکھتیں
دوسری صورت اگر احسانات نہ ہوں تو پھر بھی سنت تو یہ ہے کہ کافر کے ساتھ بھی احسان سے پیش آنا چاہیے یہ ایک داعی کی صفات میں سے ہے ولو کنت فظا غلیظ القلب والی آیت سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں
لیکن اگر آپ کسی خلش کی وجہ سے احسان نہ کریں تو میرے خیال میں گناہ گار نہیں ہوں گے جیسا کہ بعض دفعہ سیرت سے نقوش ملتے ہیں

2-عزت کرنے کے لئے تو اوپر احادیث بھائیوں نے بتا دی ہیں کہ بڑوں کی عزت کرنی چاہئے البتہ بعض دفعہ عزت کا تعلق عقیدہ اور ایمان اور بدعت سے بھی جوڑا گیا ہے مثلا بدعتی کی عزت نہ کرنا جیسا بعض سلف کا قول آتا ہے کہ من وقر صاحب بدعۃ فقد اعان علی ھدم الاسلام یعنی جس نے کسی بدعتی کی توقیر کی تو اس نے اسلام کو ڈھانے میں مدد کی تو اس میں حالات کو دیکھا جائے گا کہ اسکی عزت کرنے میں دعوت کی مصلحت کتنی ہے اور اسلام کا نقصان کتنا ہے
پس زید کو ایک بدعتی کی عزت کرتے وقت پہلے تو بدعت کے لیول کو دیکھنا پڑے گا کہ بدعت مکفرہ ہے یا غیر مکفرہ دوسرا پھر یہ بھی دیکھنا پڑے گا کہ اس عزت نہ کرنے میں دعوت کے لحاظ سے اسلام کا کتنا فائدہ ہے اور عزت کرنے میں میرا ذاتی یا اسلام کا کتنا فائدہ ہے
مگر یہاں تو معاملہ ہی الٹا ہے کہ زید چاہتا ہے کہ وہ کسی بدعتی کی عزت نہ کرے یعنی اسکو عزت کرنے میں دنیاوی فائدہ کوئی نہیں پس یہاں صرف دعوت کے لحاظ سے موازنہ کرنا پڑے گا کہ عزت نہ کرنے سے اسکی بدعت کو کتنا نقصان ہو گا اور اور عزت کرنے سے اسکو دعوت دینے میں کتنی آسانی ہو گی
جہاں تک زید کی دلی ان سے نفرت کی بات ہے تو میرے خیال میں زید کو اسکو مقدم نہیں رکھنا چاہئے بلکہ اسلام کی بہتری کو ہی مقدم رکھنا چاہئے اسکی وجہ یہ ہے کہ اگر زید اپنی دلی نفرت کی وجہ سے انکی عزت نہیں بھی کرے گا تو کیا انکے تلخ جملوں سے بچ تو نہیں جائے گا
یعنی وہ تکلیفیں تو اسی طرح موجود ہی رہیں گی پس فائدہ تو نہیں حاصل ہو گا مگر اگر وہ یہاں اسلام کے مفاد کو مقدم رکھے گا تو اس سے اپنی آخرت تو بہتر بنا سکے گا واللہ اعلم
زید ان کو دعوت نہیں دیتا اور نہ دے سکتا ہے۔وہ اس حد تک مجبور ہے ۔ کہ ان سامنے اسے بدعت کو حلال کہنا پڑتا ہے۔اور یہ ظاہر کرنا پڑھتا ہے کہ وہ یہ کام ثواب سمج کرتا ہے۔
 
شمولیت
مئی 01، 2011
پیغامات
47
ری ایکشن اسکور
151
پوائنٹ
58
زید ان کو دعوت نہیں دیتا اور نہ دے سکتا ہے۔وہ اس حد تک مجبور ہے ۔ کہ ان سامنے اسے بدعت کو حلال کہنا پڑتا ہے۔اور یہ ظاہر کرنا پڑھتا ہے کہ وہ یہ کام ثواب سمج کرتا ہے۔
بھائی ! آپ کے سوال سے ایک واقعہ ذہن میں آ رہا ہے کہ ایک صحابیء رسول نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ کفارِ مکہ ان پر بہت ظلم وستم کرتے ہیں اور اس وقت تک نہیں چھوڑتے جب تک میں اسلام کے خلاف لب کشائی نہ کروں تو میرے لئیے کیا حکم ہے تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تمارا دل کیا کہتا ہے توصحابیءرسول نے کہا کہ میرا دل اسلام پر مطمئن ہے تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اجازت عطا فرمائی کہ وہ کفارِ مکہ کی ایذاؤں سے بچنے کے لئیے ایسے کلمات کہہ لیا کریں۔
فورم پر موجود اہل علم سے گزارش ہے کہ واضح فرمائیں کہ مندرجہ بالا واقعہ درست ہے اور کیا اس سے بھائی کے سوال پر قیاس کیا جا سکتا ہے۔
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
بھائی ! آپ کے سوال سے ایک واقعہ ذہن میں آ رہا ہے کہ ایک صحابیء رسول نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ کفارِ مکہ ان پر بہت ظلم وستم کرتے ہیں اور اس وقت تک نہیں چھوڑتے جب تک میں اسلام کے خلاف لب کشائی نہ کروں تو میرے لئیے کیا حکم ہے تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تمارا دل کیا کہتا ہے توصحابیءرسول نے کہا کہ میرا دل اسلام پر مطمئن ہے تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اجازت عطا فرمائی کہ وہ کفارِ مکہ کی ایذاؤں سے بچنے کے لئیے ایسے کلمات کہہ لیا کریں۔
فورم پر موجود اہل علم سے گزارش ہے کہ واضح فرمائیں کہ مندرجہ بالا واقعہ درست ہے اور کیا اس سے بھائی کے سوال پر قیاس کیا جا سکتا ہے۔
محترم بھائی غالبا آپ عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کی بات کر رہے ہیں جو اللہ نے قرآن میں کہا کہ الا من اکرہ و قلبہ مطمئن بالایمان تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ ایک تو اکراہ کے درست ہونے کے لئے کچھ شرائط ہیں اور دوسرا اکراہ میں اس گناہ کو بھی دیکھا جاتا ہے جس کو اکراہ کی حالت میں کیا جا رہا ہے یعنی وہ گناہ ہلکا ہے یا اسلام سے ہی خارج کر دینے والا ہے اگر بغیر اکراہ کے ہو

میرے خیال میں تو اکراہ سے مراد یہ نہیں ہوتا کہ کوئی آپ سے ناراض ہو جائے گا یا پھر آپ کی روزی بند کر دے گا بلکہ کم از کم جب گناہ اسلام سے خارج کرنے والا کرنا پڑ رہا ہو تو اکراہ کوئی بہت ہی بڑی مجبوری ہونی چاہئے نہ کہ کسی کی پسند اور نا پسند ہو
دوسری طرف یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ کچھ لوگ اسی اکراہ کا سہارا لے کر کہتے ہیں کہ مجھے امریکہ نے مجبور کر دیا تھا کہ میں فلاں مجاہد کو قتل کروں تو یہ اکراہ نہیں بلکہ اکراہ میں یہ جائز نہیں ہوتا کہ اپنی جان بچانے کے لئے کسی اور کی جان لے لی جائے یا اپنا مال بچانے کے لئے کسی اور مومن کی جان لے لی جائے یا اپنی معیشت بچانے کے لئے ایسا کیا جائے
پس اوپر والے معاملے میں میرے خیال میں پہلے یہ دیکھنا پڑے گا کہ اگر موصوف انکا بدعت میں ساتھ نہیں دیتے تو وہ انکے ساتھ کیا کرتے ہیں واللہ اعلم
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
زیدکہ ملحد ہونے یا خودکشی کرنے کا امکان ہے۔کیونکہ زید کافی اسلام پسند ہے۔لیکن سلام کی رو سے بڑے اس کی جتنی مرضی اذیت دیں وہ جواب میں کچھ نہیں کرسکتا۔بتائیں میں اس کو کیسے سمجھاوں؟ اس نے مجھے کہہ ہے کہ مجھے مسلسل ملحد ہونے اور خودکشی کرنے کے خیالات آرہے ہیں۔۔یارد رہے اس کو خوکشی کے بارے میں جو احادیث ہیں اس کا علم ہے۔
کچھ دن پہلےاس نے تار سے اپنا گلہ بھی دبایا لیکن ناکام رہا
@اسحاق سلفی
@خضر حیات
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
زیدکہ ملحد ہونے یا خودکشی کرنے کا امکان ہے۔کیونکہ زید کافی اسلام پسند ہے۔
نعوذ باللہ من کل سوء ومن کل شر
زید کو چاہیئے کہ سچے دل سے اللہ کی پناہ طلب کرے ، اور کثرت سے قرآن مجید کی تلاوت کرے ،
اور اگر ماحول میں کوئی مخلص ساتھی نہ ملے ، اور اپنا ایمان غیر محفوظ ہو تو ہجرت و نقل مکانی کا راستہ بھی موجود ہے
يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ أَرْضِي وَاسِعَةٌ فَإِيَّايَ فَاعْبُدُونِ (العنکبوت 56)
اور :
إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ ظَالِمِي أَنْفُسِهِمْ قَالُوا فِيمَ كُنْتُمْ قَالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْضِ قَالُوا أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوا فِيهَا فَأُولَئِكَ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَسَاءَتْ مَصِيرًا (النساء 97)
 
Top