• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بھینس کی قربانی خلاف سنت ہے

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
514
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
بھینس کی قربانی خلاف سنت ہے
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے :

وَ لِكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا لِّیَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلٰى مَا رَزَقَهُمْ مِّنْۢ بَهِیْمَةِ الْاَنْعَامِ١ؕ فَاِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ فَلَهٗۤ اَسْلِمُوْا١ؕ وَ بَشِّرِ الْمُخْبِتِیْنَۙ
اور ہر امت کے لئے ہم نے قربانی کے طریقے مقرر فرمائے ہیں تاکہ وہ اِن چوپائے جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں دے رکھے ہیں سمجھ لو کہ تم سب کا معبود برحق صرف ایک ہی ہے تم اسی کے تابع فرمان ہو جاؤ عاجزی کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیجئے!


[سورۃ الحج:۳۴]

حافظ صلاح الدین یوسف اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :

منسک۔ نسک ینسک کا مصدر ہے معنی ہیں اللہ کے تقرب کے لیے قربانی کرنا ذبیحۃ (ذبح شدہ جانور) کو بھی نسیکۃ کہا جاتا ہے جس کی جمع نسک ہے اس کے معنی اطاعت و عبادت کے بھی ہیں کیونکہ رضائے الٰہی کے لئے جانور کی قربانی کرنا عبادت ہے۔ اسی لئے غیر اللہ کے نام پر یا ان کی خوشنودی کے لئے جانور ذبح کرنا غیر اللہ کی عبادت ہے۔

[تفسیر احسن البیان، الحج:۳۴]

معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے جانور کی قربانی کرنا عبادت ہے۔ اور عبادت کی قبولیت کی ایک شرط یہ ہے کہ وہ سنت رسول کے مطابق ہو۔ اب جو لوگ بھینس کی قربانی کرتے ہیں انہیں چاہیے کہ سنت رسول ﷺ سے بھینس کی قربانی ثابت کرے! اگر نبی ﷺ کی سنت سے نہیں کر سکتے تو صحابہ کے عمل سے ثابت کرے! اگر ان کے عمل سے بھی نہیں ثابت کر سکتے تو اس بات کو تسلیم کرے کہ بھینس کی قربانی کا یہ عمل خلاف سنت ہے اور قابل قبول نہیں۔

قرآن مجید میں اللہ نے بهيمة الأنعام کی قربانی کا حکم دیا ہے تو بهيمة الأنعام سے مراد کیا ہے؟ اس تعلق سے امام طبری رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں ایک روایت نقل کی ہے :

١٠٩١٥- حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ , قَالَ: ثنا عَبْدُ الْأَعْلَى , عَنْ عَوْفٍ , عَنِ الْحَسَنِ , قَالَ: بَهِيمَةُ الْأَنْعَامِ: هِيَ الْإِبِلُ وَالْبَقَرُ وَالْغَنَمُ
حسن فرماتے ہیں بهيمة الأنعام سے مراد اونٹ، گائے اور بھیڑ بکری ہے۔

[تفسير الطبري جامع البيان – ط دار التربية والتراث، ج:٩، ص: ٤٥٥]

حافظ عبد الستار حماد فرماتے ہیں :

اور الانعام میں چار قسم کے نر اور مادہ جانور شامل ہیں۔
1)اونٹ، 2)گائے،3)بھیڑ (دنبہ) 4)بکری۔
قرآن کریم نے صراحت کی ہے کہ یہ چوپائے آٹھ قسم کے ہیں یعنی دو، دو بھیڑوں میں سے اور دو، دو بکریوں میں سے (نر اور مادہ)… اور دو، دو، اونٹوں دو گائیوں میں سے (نر اور مادہ)

ہمارے رجحان کے مطابق قربانی کے سلسلہ میں صرف انہی جانوروں پر اکتفاء کیا جائے جن پر بہیمۃ الانعام کا لفظ بولا جا سکتا ہے اور وہ صرف اونٹ، گائے، بھیڑ (دنبہ) اور بکری ہیں۔ چونکہ بھینس ان جانوروں میں شامل نہیں ہے لہٰذا اس سے اجتناب بہتر ہے۔ اس لیے بھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بھینس کی قربانی ثابت نہیں ہے۔

[فتاویٰ اصحاب الحدیث جلد ۳، صفحہ : ٤٠٤]

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بھینس کی قربانی ثابت نہیں تو فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم مَن عَمِلَ عَمَلًا ليسَ عليه أمْرُنا فَهو رَدٌّ (صحيح مسلم) کے سبب بھینس کی قربانی کا عمل بھی مردود ہوگا۔
 
Last edited:
شمولیت
مارچ 02، 2023
پیغامات
684
ری ایکشن اسکور
26
پوائنٹ
53
بھینس کی قربانی خلاف سنت ہے
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے :

وَ لِكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا لِّیَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلٰى مَا رَزَقَهُمْ مِّنْۢ بَهِیْمَةِ الْاَنْعَامِ١ؕ فَاِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ فَلَهٗۤ اَسْلِمُوْا١ؕ وَ بَشِّرِ الْمُخْبِتِیْنَۙ
اور ہر امت کے لئے ہم نے قربانی کے طریقے مقرر فرمائے ہیں تاکہ وہ اِن چوپائے جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں دے رکھے ہیں سمجھ لو کہ تم سب کا معبود برحق صرف ایک ہی ہے تم اسی کے تابع فرمان ہو جاؤ عاجزی کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیجئے!


[سورۃ الحج:۳۴]

حافظ صلاح الدین یوسف اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :

منسک۔ نسک ینسک کا مصدر ہے معنی ہیں اللہ کے تقرب کے لیے قربانی کرنا ذبیحۃ (ذبح شدہ جانور) کو بھی نسیکۃ کہا جاتا ہے جس کی جمع نسک ہے اس کے معنی اطاعت و عبادت کے بھی ہیں کیونکہ رضائے الٰہی کے لئے جانور کی قربانی کرنا عبادت ہے۔ اسی لئے غیر اللہ کے نام پر یا ان کی خوشنودی کے لئے جانور ذبح کرنا غیر اللہ کی عبادت ہے۔

[تفسیر احسن البیان، الحج:۳۴]

معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے جانور کی قربانی کرنا عبادت ہے۔ اور عبادت کی قبولیت کی ایک شرط یہ ہے کہ وہ سنت رسول کے مطابق ہو۔ اب جو لوگ بھینس کی قربانی کرتے ہیں انہیں چاہیے کہ سنت رسول ﷺ سے بھینس کی قربانی ثابت کرے! اگر نبی ﷺ کی سنت سے نہیں کر سکتے تو صحابہ کے عمل سے ثابت کرے! اگر ان کے عمل سے بھی نہیں ثابت کر سکتے تو اس بات کو تسلیم کرے کہ بھینس کی قربانی کا یہ عمل خلاف سنت ہے اور قابل قبول نہیں۔

قرآن مجید میں اللہ نے بهيمة الأنعام کی قربانی کا حکم دیا ہے تو بهيمة الأنعام سے مراد کیا ہے؟ اس تعلق سے امام طبری رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں ایک روایت نقل کی ہے :

١٠٩١٥- حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ , قَالَ: ثنا عَبْدُ الْأَعْلَى , عَنْ عَوْفٍ , عَنِ الْحَسَنِ , قَالَ: بَهِيمَةُ الْأَنْعَامِ: هِيَ الْإِبِلُ وَالْبَقَرُ وَالْغَنَمُ
حسن فرماتے ہیں بهيمة الأنعام سے مراد اونٹ، گائے اور بھیڑ بکری ہے۔

[تفسير الطبري جامع البيان – ط دار التربية والتراث، ج:٩، ص: ٤٥٥]

حافظ عبد الستار حماد فرماتے ہیں :

اور الانعام میں چار قسم کے نر اور مادہ جانور شامل ہیں۔
1)اونٹ، 2)گائے،3)بھیڑ (دنبہ) 4)بکری۔
قرآن کریم نے صراحت کی ہے کہ یہ چوپائے آٹھ قسم کے ہیں یعنی دو، دو بھیڑوں میں سے اور دو، دو بکریوں میں سے (نر اور مادہ)… اور دو، دو، اونٹوں دو گائیوں میں سے (نر اور مادہ)

ہمارے رجحان کے مطابق قربانی کے سلسلہ میں صرف انہی جانوروں پر اکتفاء کیا جائے جن پر بہیمۃ الانعام کا لفظ بولا جا سکتا ہے اور وہ صرف اونٹ، گائے، بھیڑ (دنبہ) اور بکری ہیں۔ چونکہ بھینس ان جانوروں میں شامل نہیں ہے لہٰذا اس سے اجتناب بہتر ہے۔ اس لیے بھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بھینس کی قربانی ثابت نہیں ہے۔

[فتاویٰ اصحاب الحدیث جلد ۳، صفحہ : ٤٠٤]

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بھینس کی قربانی ثابت نہیں تو فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم مَن عَمِلَ عَمَلًا ليسَ عليه أمْرُنا فَهو رَدٌّ (صحيح مسلم) کے سبب بھینس کی قربانی کا عمل بھی مردود ہوگا۔
بہت سارے اہل لغت کے ہاں بھینس گائے کی ہی نسل ہے جیسا کہ المصباح المنیر ، تاج العروس، الزاہر فی غریب الالفاظ، المحکم والمحیط الاعظم، المغرب، لسان العرب، المعجم الوسیط، معجم اللغۃ العربیۃ المعاصرۃ وغیرہ کو اس حوالہ سے دیکھا جا سکتا ہے
ابن قدامۃ مقدسی ، ابن تیمیہ ، موسی حجاوی اور بہت سے کبار علماء کرام نے بھینس کو گائے کی نسل شمار کیا ہے
ابن المنذر نے تو اجماع بھی نقل کیا ہے
سعودی عرب کے جید عالم دین علامہ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے جب بھینس کی قربانی کرنے کے حوالے سے سوال پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ بھینس گائے کی ہی نسل ہے لیکن چونکہ نزول قرآن کے وقت بھینس عربوں کے ہاں مشہور نہیں تھی اس لیے اس کا تذکرہ قرآن مجید میں نہیں کیا گیا
مجموع فتاوى ورسائل العثيمين 25/34
اسی طرح اسٹریلین گائے ہالینڈ کی گائے کیا اسی نسل کی گائے ہیں جو رسول اللہ کے زمانے میں تھیں
اگر اسٹریلین گائے کی قربانی کی جا سکتی ہے تو جواز کے قائلین علماء کے ہاں بھینس بھی گائے کی ہی نسل ہے

محترم ابو دادد حفظکم اللہ
مندرجہ بالا دلائل کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے
 
شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
514
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
بہت سارے اہل لغت کے ہاں بھینس گائے کی ہی نسل ہے
اہل لغۃ نے ہرن اور جنگلی گدھے کو بھی بھیڑ بکریوں کی نسل میں سے شمار کیا ہے اور ہرن و حمار الوحشی حلال جانور بھی ہیں تو کیا ہرن و حمار الوحشی کی قربانی کا بھی جواز نکالا جا سکتا ہے؟ اگر نہیں تو پھر بھینس کی قربانی کا جواز کیوں؟

بہت سے کبار علماء کرام نے بھینس کو گائے کی نسل شمار کیا ہے
ابن المنذر نے تو اجماع بھی نقل کیا ہے
ابن المنذر رحمہ اللہ جیسے علماء نے زکاة کے مسئلے میں بھینس کو گائے کے حکم میں کہا یے قربانی کے مسئلہ میں نہیں۔ لہذا ابن المنذر رحمہ اللہ کے حوالہ سے اجماع نقل کر اسے بھینس کی قربانی پر چسپاں کرنا درست نہیں۔

سعودی عرب کے جید عالم دین علامہ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے جب بھینس کی قربانی کرنے کے حوالے سے سوال پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ بھینس گائے کی ہی نسل ہے لیکن چونکہ نزول قرآن کے وقت بھینس عربوں کے ہاں مشہور نہیں تھی اس لیے اس کا تذکرہ قرآن مجید میں نہیں کیا گیا
مجموع فتاوى ورسائل العثيمين 25/34
حافظ عبدالمنان نورپوری فرماتے ہیں:

جو لوگ بھینس کی قربانی کے جواز کے قائل ہیں ان کے ہاں دلیل بس یہی ہے کہ لفظ بقر اس کو بھی شامل ہے یا پھر اس کو بقر پر قیاس کرتے ہیں اور معلوم ہے کہ گائے کی قربانی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول، عمل اور تقریر سے ثابت ہے لہٰذا گائے کی قربانی کی جائے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تینوں طریقوں سے ثابت ہے۔

[ احکام و مسائل، جلد اول صفحہ ٤٣٤]

جیسا کہ شیخ عبدالمنان نورپوری نے فرمایا کہ بھینس کی قربانی کے جواز کے قائل لوگوں کے ہاں دلیل بس یہی ہے کہ لفظ بقر اس کو بھی شامل ہے یا پھر اس کو بقر پر قیاس کرتے ہیں بالکل اسی طرح شیخ ابن عثیمین کی دلیل صرف بھینس کو گائی پر قیاس کرنا ہی تھی۔ اور عبادت میں نص کے مقابلے قیاس مقبول نہیں ہوگا۔

اسٹریلین گائے ہالینڈ کی گائے کیا اسی نسل کی گائے ہیں جو رسول اللہ کے زمانے میں تھیں
اگر اسٹریلین گائے کی قربانی کی جا سکتی ہے تو جواز کے قائلین علماء کے ہاں بھینس بھی گائے کی ہی نسل ہے
آسٹریلین گائے ہو یا جرسی گائے یا ہالسٹین یہ سب تقسیم دودھ کی اعلی پیداوار، وزن اور ملکوں کے اعتبار سے کی گئی گائیوں کی تقسیم ہیں چاہے جرسی ہو یا براون سویس ان کا اطلاق گائے پر ہی ہوتا ہے جبکہ بھینس پر کبھی گائے کا اطلاق نہیں ہوتا بھینس ایک الگ جانور ہے جو دریائی گھوڑے کہ طرح پانی میں رہنا پسند کرتا ہے۔ اس کے علاوہ آپ ہندوستان کے مشرک ہندؤں کو دیکھیں وہ گائے کی پوجا کرتے ہیں لیکن بھینس کی نہیں! وہ گائے کو اپنی ماتا کہتے ہیں لیکن بھینس کو نہیں! کیونکہ بھینس اور گائے دونوں الگ مختلف جانور ہیں۔
 
شمولیت
مارچ 02، 2023
پیغامات
684
ری ایکشن اسکور
26
پوائنٹ
53
اہل لغۃ نے ہرن اور جنگلی گدھے کو بھی بھیڑ بکریوں کی نسل میں سے شمار کیا ہے اور ہرن و حمار الوحشی حلال جانور بھی ہیں تو کیا ہرن و حمار الوحشی کی قربانی کا بھی جواز نکالا جا سکتا ہے؟ اگر نہیں تو پھر بھینس کی قربانی کا جواز کیوں
محترم اس بات پر علماء کا اتفاق ہے کہ قربانی ہوتی ہی بھیمة الانعام کی ہے مذکورہ جانور ان میں سے نہیں ہیں
 
شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
514
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
محترم اس بات پر علماء کا اتفاق ہے کہ قربانی ہوتی ہی بھیمة الانعام کی ہے مذکورہ جانور ان میں سے نہیں ہیں
جی میں بھی یہی کہہ رہا ہوں کہ قربانی صرف بهيمة الأنعام کی ہے اور بھینس ان میں سے نہیں لیکن جو لوگ اہل لغۃ کے حوالے سے الجاموس نوع من البقر والی بات کو دلیل بنا کر جاموس کو بقر پر قیاس کر بهيمة الأنعام میں شامل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو اسی طرح اہل لغۃ نے الشاۃ کی نوع میں حمار الوحشی کو بھی شامل کیا ہے تو کیا اب جاموس کے لیے جو قیاس لگایا اسی طرح الحمار الوحشی کے لیے بھی قیاس کر اسے بھی بهيمة الأنعام میں شامل کر لیا جائے۔ لیکن اگر حمار وحشی کو اس میں شامل کرنا درست نہیں تو جاموس کو اس میں شامل کرنا کیسے درست ہو گیا!

بھائی جان اگر مسئلہ میں نص ہوتی تو اہل علم کا اختلاف ہی نہ ہوتا
قربانی کے جانور کے تعلق سے نص موجود ہے:
حدثنا إسحاق بن منصور، اخبرنا النضر، اخبرنا شعبة، حدثنا ابو جمرة، قال:" سالت ابن عباس رضي الله عنهما عن المتعة، فامرني بها، وسالته عن الهدي، فقال: فيها جزور او بقرة او شاة او شرك في دم، قال: وكان ناسا كرهوها فنمت، فرايت في المنام كان إنسانا ينادي حج مبرور ومتعة متقبلة، فاتيت ابن عباس رضي الله عنهما فحدثته، فقال: الله اكبر، سنة ابي القاسم صلى الله عليه وسلم"، قال: وقال آدم ووهب بن جرير وغندر: عن شعبة، عمرة متقبلة وحج مبرور".[صحيح البخاري رقم الحدیث: ۱۶۸۸]

اور گائے ذبح کرنا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل بھی رہا ہے : «ذَبَحَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ عَائِشَةَ بَقَرَةً يَوْمَ النَّحْرِ» [صحیح مسلم رقم الحدیث ۳۱۹۱] اب بقر کی قربانی پر قطعی نص موجود ہوتے ہوئے بھی لوگ جاموس کی قربانی کے لیے قیاس کرتے ہیں جب گائے کی قربانی میں کسی قسم کا کوئی اختلاف ہی نہیں تو گائے چھوڑ کر بھینس کو گائے پر قیاس کر اس اختلاف میں پڑنے کی ضرورت ہی کیا!

یہ آپ کی رائے ہے دوسروں کی رائے آپ کے بالکل برعکس ہے
یہ میری رائے نہیں بلکہ ایک بدیہی بات ہے۔
 
شمولیت
جون 05، 2018
پیغامات
277
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
79
Top