محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَقَالُوْا لِاِخْوَانِھِمْ اِذَا ضَرَبُوْا فِي الْاَرْضِ اَوْ كَانُوْا غُزًّى لَّوْ كَانُوْا عِنْدَنَا مَا مَاتُوْا وَمَا قُتِلُوْا۰ۚ لِيَجْعَلَ اللہُ ذٰلِكَ حَسْرَۃً فِيْ قُلُوْبِھِمْ۰ۭ وَاللہُ يُحْيٖ وَيُمِيْتُ۰ۭ وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ۱۵۶ وَلَىِٕنْ قُتِلْتُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ اَوْ مُتُّمْ لَمَغْفِرَۃٌ مِّنَ اللہِ وَرَحْمَۃٌ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُوْنَ۱۵۷ وَلَىِٕنْ مُّتُّمْ اَوْ قُتِلْتُمْ لَاِالَى اللہِ تُحْشَرُوْنَ۱۵۸ فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللہِ لِنْتَ لَھُمْ۰ۚ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ۰۠ فَاعْفُ عَنْھُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَھُمْ وَشَاوِرْھُمْ فِي الْاَمْرِ۰ۚ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَي اللہِ۰ۭ اِنَّ اللہَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِيْنَ۱۵۹
۱؎ خدا کی راہ میں مرجانا اور جان سے کھیل جانا بہترین زادِ راہ ہے جو آخرت کی کٹھن منزل میں ہمارے کام آئے گا۔ وہ لوگ جو دنیا کی لذات میں ''خود فراموشی'' کا درجہ حاصل کرلیتے ہیں اور اپنے نصب العین کو بھول جاتے ہیں، ایسے بے وقوف مسافر کی طرح ہیں جو راہ کی دلچسپیوں میں پڑکر مقصود سفر کو کھودیتے ہیں اورجو شاہد مقصود تک پہنچنے کے لیے اپنی پوری قوتوں کے ساتھ کوشاں ہوتے ہیں، وہ قطعی ساحل مراد پر پہنچ کر رہتے ہیں۔ ان دوآیتوں میں شہادت کے اسی متاعِ ثمین کو حاصل کرنے کی ترغیب دی ہے ۔
۲؎ عسکری قانون یہ ہے کہ جو لوگ میدان چھوڑ کر بھاگ جائیں، انھیں جان سے ماردیاجائے مگر پیکر اخلاق ﷺ چونکہ صرف سالار عسکر ہی نہیں تھے،طبیب امراض قلوب بھی تھے، اس لیے لوگوں کو معاف کردیا اور خندہ پیشانی سے پیش آئے۔اس آیت میں اسی خلق عظیم کی تشریح ہے کہ آپ رحمت خدا وندی کے مظہر اتم ہیں اور بالخصوص خدا ئے رحیم نے آپﷺ کو لوائے عفو واخلاص دے کر بھیجا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہزاروں پروانے آپﷺکے گرداگرد جمع ہیں اور اکتساب ضومیں مصروف ہیں۔ پس آپﷺ ان سے عفو واستغفار کا سلوک روا رکھیں اور ہربات میں ان سے مشورہ کرلیں تاکہ ایک طرف ان کی دلجوئی ہوجائے اور دوسری طرف یہ لوگ اپنی ذمہ داری محسوس کریں۔
۳؎ باوجود اس کے کہ حضورﷺ صاحب الہام ووحی ہیں۔ ہرآن مظہر مہبط انوار وتجلیات ہیں۔ مجبور ہیں کہ نظام حکومت شورائی رکھیں۔ آپ ﷺ کا نطق نطق خدا ہے۔پھربھی خطاکاروں سے مشورہ طلبی کا حکم ہے ۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ اسلام بہرحال ایک ایسے نظام حکومت کا موید ہے جس میں تمام قوم کے جذبات وخیالات کی صحیح صحیح ترجمانی ہو۔ یورپ آج جمہوریت کے تخیل کو وضع کرسکا ہے اور اس میں بھی صدہا نقائص ہیں مگراسلام آج سے تیرہ صدیاں پہلے اس حقیقت کو بیا ن کرچکا ہے۔
۴؎ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ۔ میں رسول خدا ﷺ کو مخاطب فرمایا ہے ۔ یعنی مشورہ طلبی کا مطلب صرف یہ ہے کہ قوم کے خیالات معلوم کیے جائیں مگر آخری اختیارات آپﷺ کو حاصل ہیں۔اس سے موجودہ نظام جمہوریت کا بنیادی نقص واضح ہے ۔ یعنی امیر جماعت یا خلیفہ صرف نمائندہ ہی نہیں ہوتا بلکہ قائد بھی ہوتا ہے، اس لیے صرف آراء کا شمار کافی نہیں ،صدر کو اپنے اختیارات سے کام لینا چاہیے۔ موجودہ نظام میں سب سے بڑا عیب یہ ہے کہ صدر محض نمائندہ ہوتا ہے اور اس طرح وو ٹ دیانتداری پر مبنی نہیں ہوتے۔ محض پارٹی بازی کے لیے ووٹ بڑھائے جاتے ہیں۔صدر کو آخری اختیارات تفویض کردینے کے معنی یہ ہیں کہ پارٹی بازی ختم ہوجائے گی۔
مومنو! تم ان کافروں کی مانند نہ بنو جو اپنے بھائیوں کے حق میں جب وہ سفر کو نکلیں ،ملک میں یا جہاد میں ہوں، کہتے ہیں کہ اگر ہمارے ساتھ رہتے تو نہ مرتے اور نہ قتل ہوتے، تاکہ ان کے دلوں میں اس بات سے حسرت پیدا کرے ، حالانکہ اللہ ہی جلاتا اور مارتا ہے اورخدا تمہارے کام دیکھتا ہے۔(۱۵۶) اوراگرخدا کی راہ میں تم مارے جاؤ یا مرجاؤ۔ تو خدا کی رحمت اورمغفرت اس سے بہتر ہے جو تم دنیا میں جمع کرتے ہو۔(۱۵۷) اوراگرتم مرگئے یا قتل ہوئے تو اللہ ہی کی طرف جمع ہوگے۔۱؎(۱۵۸) سوخدا کی مہربانی ہے کہ تو (اے محمدصلی اللہ علیہ وسلم) ان کے لیے نرم دل ہوگیا اوراگر توسخت گو اور سخت دل ہوتا تو وہ تیرے گرد سے بھاگ جاتے۔ سو تو ان کو معاف۲؎ کر اور ان کے لیے مغفرت مانگ اور کام میں ان سے مشورہ لے۳؎۔ پھرجب تو اس بات کا قصد کرچکے تو خدا پر بھروسہ کر۔ بے شک خدا توکل کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔۴؎ (۱۵۹)
بہترین پونجی
۱؎ خدا کی راہ میں مرجانا اور جان سے کھیل جانا بہترین زادِ راہ ہے جو آخرت کی کٹھن منزل میں ہمارے کام آئے گا۔ وہ لوگ جو دنیا کی لذات میں ''خود فراموشی'' کا درجہ حاصل کرلیتے ہیں اور اپنے نصب العین کو بھول جاتے ہیں، ایسے بے وقوف مسافر کی طرح ہیں جو راہ کی دلچسپیوں میں پڑکر مقصود سفر کو کھودیتے ہیں اورجو شاہد مقصود تک پہنچنے کے لیے اپنی پوری قوتوں کے ساتھ کوشاں ہوتے ہیں، وہ قطعی ساحل مراد پر پہنچ کر رہتے ہیں۔ ان دوآیتوں میں شہادت کے اسی متاعِ ثمین کو حاصل کرنے کی ترغیب دی ہے ۔
بادشاہ اقلیم وعفو
۲؎ عسکری قانون یہ ہے کہ جو لوگ میدان چھوڑ کر بھاگ جائیں، انھیں جان سے ماردیاجائے مگر پیکر اخلاق ﷺ چونکہ صرف سالار عسکر ہی نہیں تھے،طبیب امراض قلوب بھی تھے، اس لیے لوگوں کو معاف کردیا اور خندہ پیشانی سے پیش آئے۔اس آیت میں اسی خلق عظیم کی تشریح ہے کہ آپ رحمت خدا وندی کے مظہر اتم ہیں اور بالخصوص خدا ئے رحیم نے آپﷺ کو لوائے عفو واخلاص دے کر بھیجا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہزاروں پروانے آپﷺکے گرداگرد جمع ہیں اور اکتساب ضومیں مصروف ہیں۔ پس آپﷺ ان سے عفو واستغفار کا سلوک روا رکھیں اور ہربات میں ان سے مشورہ کرلیں تاکہ ایک طرف ان کی دلجوئی ہوجائے اور دوسری طرف یہ لوگ اپنی ذمہ داری محسوس کریں۔
شورائی نظام حکومت
۳؎ باوجود اس کے کہ حضورﷺ صاحب الہام ووحی ہیں۔ ہرآن مظہر مہبط انوار وتجلیات ہیں۔ مجبور ہیں کہ نظام حکومت شورائی رکھیں۔ آپ ﷺ کا نطق نطق خدا ہے۔پھربھی خطاکاروں سے مشورہ طلبی کا حکم ہے ۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ اسلام بہرحال ایک ایسے نظام حکومت کا موید ہے جس میں تمام قوم کے جذبات وخیالات کی صحیح صحیح ترجمانی ہو۔ یورپ آج جمہوریت کے تخیل کو وضع کرسکا ہے اور اس میں بھی صدہا نقائص ہیں مگراسلام آج سے تیرہ صدیاں پہلے اس حقیقت کو بیا ن کرچکا ہے۔
امیر شورائیہ کے اختیارات
۴؎ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ۔ میں رسول خدا ﷺ کو مخاطب فرمایا ہے ۔ یعنی مشورہ طلبی کا مطلب صرف یہ ہے کہ قوم کے خیالات معلوم کیے جائیں مگر آخری اختیارات آپﷺ کو حاصل ہیں۔اس سے موجودہ نظام جمہوریت کا بنیادی نقص واضح ہے ۔ یعنی امیر جماعت یا خلیفہ صرف نمائندہ ہی نہیں ہوتا بلکہ قائد بھی ہوتا ہے، اس لیے صرف آراء کا شمار کافی نہیں ،صدر کو اپنے اختیارات سے کام لینا چاہیے۔ موجودہ نظام میں سب سے بڑا عیب یہ ہے کہ صدر محض نمائندہ ہوتا ہے اور اس طرح وو ٹ دیانتداری پر مبنی نہیں ہوتے۔ محض پارٹی بازی کے لیے ووٹ بڑھائے جاتے ہیں۔صدر کو آخری اختیارات تفویض کردینے کے معنی یہ ہیں کہ پارٹی بازی ختم ہوجائے گی۔