ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
اس سلسلہ میں علامہ سلیمان الجمزوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’جس طرح امام بزی رحمہ اللہ کوحدیث میں ضعیف کہا گیا ہے،اسی طرح امام حفص رحمہ اللہ، امام دوری رحمہ اللہ اور امام حمزہ رحمہ اللہ پربھی ضعف کااطلاق کیاگیاہے۔ ان کا یہ ضعف حفظ وضبط کے قبیل سے تھا،نہ کہ ثقاہت و عدالت کا، لیکن علم ِحدیث میں ان کا ضعیف ہونا علم قراء ات میں قابل طعن نہیں،کیونکہ انہوں نے اپنی زندگی کو قرآن کریم کے ساتھ مشغول کردیاتھااورباقی علوم سے اپنی توجہ کو سمیٹ لیا تھا، جیسا کہ بعض محدثین علم حدیث میں تو ماہرین تھے، جبکہ علم قراء ات کے حوالے سے ان کے پاس کچھ نہ تھا۔یہی حالت ہر اس شخص کی ہوتی ہے جواپنے آپ کو کسی ایک فن کے ساتھ وابستہ کرلیتا ہے۔‘‘(الفتح الرحمانی:۲۲۳)
اس سلسلہ میں امام ذہبی رحمہ اللہ کا قول بھی قابل توجہ ہے، فرماتے ہیں:
’’ قراء کرام کی ایک جماعت علم تجوید وقراء ات میں پختہ اور ثقاہت کے معیار پر ہے، لیکن علم حدیث میں وہ ثابت شدہ نہیں، جیساکہ امام نافع رحمہ اللہ، امام کسائی رحمہ اللہ اور امام حفص رحمہ اللہ وغیرہ کا معاملہ ہے۔یہ لوگ علم قراء ات کی تحقیق میں کمال پر فائز رہے، لیکن یہ کمال علم حدیث میں انہیں حاصل نہیں تھا اور عین یہی معاملہ بعض اہل الحدیث کا ہے کہ وہ علم حدیث میں متقن ہیں، لیکن علم تجوید وقراء ات میں ضعیف ہیں اور تمام علوم کے ماہرین میں یہ امر بالکل فطری ہے کہ جو ایک فن میں مضبوط ہو،بسااَوقات دوسرے فن میں ایسا نہیں ہوتا۔‘‘ (سیر أعلام النبلاء: ۱۱؍۵۴۳)
’’جس طرح امام بزی رحمہ اللہ کوحدیث میں ضعیف کہا گیا ہے،اسی طرح امام حفص رحمہ اللہ، امام دوری رحمہ اللہ اور امام حمزہ رحمہ اللہ پربھی ضعف کااطلاق کیاگیاہے۔ ان کا یہ ضعف حفظ وضبط کے قبیل سے تھا،نہ کہ ثقاہت و عدالت کا، لیکن علم ِحدیث میں ان کا ضعیف ہونا علم قراء ات میں قابل طعن نہیں،کیونکہ انہوں نے اپنی زندگی کو قرآن کریم کے ساتھ مشغول کردیاتھااورباقی علوم سے اپنی توجہ کو سمیٹ لیا تھا، جیسا کہ بعض محدثین علم حدیث میں تو ماہرین تھے، جبکہ علم قراء ات کے حوالے سے ان کے پاس کچھ نہ تھا۔یہی حالت ہر اس شخص کی ہوتی ہے جواپنے آپ کو کسی ایک فن کے ساتھ وابستہ کرلیتا ہے۔‘‘(الفتح الرحمانی:۲۲۳)
اس سلسلہ میں امام ذہبی رحمہ اللہ کا قول بھی قابل توجہ ہے، فرماتے ہیں:
’’ قراء کرام کی ایک جماعت علم تجوید وقراء ات میں پختہ اور ثقاہت کے معیار پر ہے، لیکن علم حدیث میں وہ ثابت شدہ نہیں، جیساکہ امام نافع رحمہ اللہ، امام کسائی رحمہ اللہ اور امام حفص رحمہ اللہ وغیرہ کا معاملہ ہے۔یہ لوگ علم قراء ات کی تحقیق میں کمال پر فائز رہے، لیکن یہ کمال علم حدیث میں انہیں حاصل نہیں تھا اور عین یہی معاملہ بعض اہل الحدیث کا ہے کہ وہ علم حدیث میں متقن ہیں، لیکن علم تجوید وقراء ات میں ضعیف ہیں اور تمام علوم کے ماہرین میں یہ امر بالکل فطری ہے کہ جو ایک فن میں مضبوط ہو،بسااَوقات دوسرے فن میں ایسا نہیں ہوتا۔‘‘ (سیر أعلام النبلاء: ۱۱؍۵۴۳)