محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,800
- پوائنٹ
- 1,069
بیوی کے حقوق !!!
بھائی! حدیث کی سند معلوم کریں۔
بھائی! حدیث کی سند معلوم کریں۔
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
﴿ اور اس كى نشانيوں ميں سے ہے كہ اس نے تمہارى ہى جنس سے بيوياں پيدا كيں تا كہ تم ان سے آرام و سكون پاؤ اس نے تمہارے درميان محبت اور ہمدردى قائم كر دى، يقيناً اس ميں غور و فكر كرنے والوں كے ليے بہت سى نشانياں پائى جاتى ہيں ﴾الروم ( 21 ).
اور يہ اس ليے كہ نكاح پر بہت عظيم مصلحت مرتب ہوتى ہے، مثلا امت ميں كثرت، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا باقى نبيوں كے ساتھ اپنى امت كى وجہ سے فخر كرنا، اور مرد و عورت كو ايك طرح كے حرام كام ميں پڑنے سے محفوظ كرنا ہے.. اس كے علاوہ اور بھى بہت عظيم مصلحتيں پائى جاتى ہيں.اور پھر اللہ عزوجل نے لڑكيوں كے اولياء كو حكم ديا ہے كہ وہ اپنے ماتحت اور ولايت ميں موجود عورتوں كى شادى كر دينے كا حكم ديتے ہوئے فرمايا:
﴿ تم ميں سے جو مرد اور عورت بے نكاح كے ہوں ان كا نكاح كر دو، اور اپنے نيك بخت غلام اور لونڈيوں كا بھى، اگر وہ مفلس اور تنگ دست بھى ہوں گےتو اللہ تعالى انہيں اپنے فضل سے غنى بنا دے گا، اور اللہ تعالى كشادگى والا اور علم والا ہے ﴾النور ( 32 ).
اس كا يہ معنى نہيں كہ عورت كو ايك سامان تجارت شمار كر ليا جائے كہ وہ فروخت ہونے لگے، بلكہ يہ مہر تو عزت اعزاز كا نشان ہے، اور شادى كے عزم اور حقوق كى ادائيگى اور مشقت برداشت كرنے كى دليل ہے.اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
﴿ اور عورتوں كو ان كے مہر راضى و خوشى دے دو ﴾النساء ( 4 ).
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" سب سے بہتر نكاح وہ ہے جو آسان ہو "
اسے ابن حبان نے روايت كيا اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 3300 ) ميں صحيح قرار ديا ہے.
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ بھى فرمان ہے:
" سب سے اچھا اور بہتر مہر وہ ہے جو آسان ہو "
اسے حاكم اور بيہقى نےروايت كيا اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 3279 ) ميں صحيح قرار ديا ہے.
اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنى امت كے ليے اس ميں ايك اعلى مثال قائم كى حتى كہ معاشرے ميں امور كے حقائق كا رسوخ پيدا ہو جائے، اور لوگوں ميں معاملات ميں آسانى و سہولت عام ہو جائے.اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے شادى كا ارادہ ركھنے والے شخص سے يہ فرمايا تھا:
" جاؤ جا كر كچھ تلاش كرو چاہے لوہے كى انگوٹھى ہى ہو "
متفق عليہ.
ديكھيں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى بيٹى اور اہل جنت كى عورتوں كى سردار كا مہرتو يہ تھا.ابو داود اور نسائى ميں ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے كہ على رضى اللہ تعالى عنہ نے بيان كيا:
" ميں نے فاطمہ رضى اللہ تعالى عنہا سے شادى كى تو ميں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عرض كيا: مجھے رخصتى دے ديں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
اسے كچھ دو، ميں نے عرض كيا: ميرے پاس تو كچھ بھى نہيں ہے.
چنانچہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
وہ تيرى حطمى درع كہاں ہے ؟
ميں نے عرض كيا: وہ ميرے پاس ہى ہے، آپ نے فرمايا: اسے وہى درع ہى دے دو "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2125 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 3375 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح نسائى حديث نمبر ( 3160 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
ابن ماجہ ميں ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے انہوں نے فرمايا:
" تم عورتوں كے مہر ميں غلو اور زيادتى مت كرو، كيونكہ اگر يہ كوئى دنيا كى عزت و اچھائى ہوتى يا پھر اللہ كے ہاں تقوى ہوتا تو تم ميں سے اس كے سب سے زيادہ اولى اور حقدار محمد صلى اللہ عليہ وسلم ہوتے، آپ نے اپنى كسى بھى بيوى كو بارہ اوقيہ سے زيادہ مہر نہيں ديا، اور نہ ہى آپ كى بيٹيوں ميں سے كسى كو اس سے زيادہ ديا گيا، اور مرد اپنى بيوى كا بہت زيادہ مہر ادا كرتا ہے حتى كہ وہ اس عورت كے ليے مرد كے دل ميں عداوت بن جاتا ہے، اور وہ كہتا ہے مجھ پر تو تيرى وجہ سے بہت بوجھ ڈالا گيا "
سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1887 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابن ماجہ ( 1532 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
بھائی! حدیث کی سند معلوم کریں۔
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ بھى فرمان ہے:
" سب سے اچھا اور بہتر مہر وہ ہے جو آسان ہو "
اسے حاكم اور بيہقى نےروايت كيا اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 3279 ) ميں صحيح قرار ديا ہے.