• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بی بی سی ڈاکومینٹری - الطاف حسین اور منی لانڈرنگ

شمولیت
مئی 08، 2011
پیغامات
25
ری ایکشن اسکور
156
پوائنٹ
31
بی بی سی ڈاکومینٹری - الطاف حسین اور منی لانڈرنگ
نور ڈاہری
16 ستمبر 2010 کو ایم کیو ایم کے رہنما عمران فاروق کو لندن میں ان کے گھر کے باہر قتل کر دیا گیا تھا۔ قتل کی تحقیقات کا معاملہ شروعات میں آہستہ آہستہ آگے بڑھتا رہا لیکن اب کچھ عرصے سے نت نئے انکشافات سامنے آ رہے ہیں- ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کے سلسلے میں کی گئی پوچھ تاچھ کے دوران آٹھ افراد ایسے بھی ہیں جن کے نام سامنے نہیں آ سکے (بتایا جاتا ہے کہ ان میں سے ایک ایم کیو ایم ہی کے 70 سالہ ایم انور ہیں جنہیں الطاف حسین کا دایاں ہاتھ سمجھا جاتا ہے)۔ لیکن لندن پولیس کا کہنا ہے کہ ان سے استفسارات اندڑ کوئسچین رکھ کر کی گئی۔ یہ تفتیش الطاف حسین سے وابستہ ان آٹھ افراد سے کی گئی جو ان کے زیادہ قریب مانے جاتے تھے مگر اب براہ راست الطاف حسین سے تفتیش شروع ہو چکی ہے۔
واضح رہے کہ 2005 میں لندن پولیس میں دھمکی پر مبنی ایک شکایت درج کروائی گئی تھی کہ عمران فاروق کے ساتھ الطاف حسین کا رویہ اب ٹھیک نہیں رہا۔ گو کہ شکایت درج کروانے والے کا نام ظاہر نہیں کیا گیا تھا مگر بعد ازاں پتا چلا کہ شکایت کنندہ خود عمران فاروق تھے جنہیں اپنی جان کے خطرہ کا خدشہ پیدا ہو گیا تھا اور اسی پانچ سالہ پرانی شکایت کے مطابق لندن پولیس نے 2010 میں عمران فاروق کے قتل کی تحقیقات ایم کیو ایم سے شروع کر کے اب اپنی تفتیش کے دائرے میں الطاف حسین کو بھی شامل کر لیا ہے۔
نجم سیٹھی کے بقول اسی قتل کے سلسلے میں ایم کیو ایم کے لندن میں واقع دفتر پر بھی چھاپا مارا گیا۔ لندن پولیس کا کہنا ہے کہ تحقیقات میں اس امکان کو بھی مد نظر رکھا جا رہا ہے کہ شاید عمران فاروق ایم کیو ایم سے الگ ہو کر کوئی علیحدہ سیاسی پارٹی بنانے جا رہے تھے۔
گذشتہ دنوں لندن پولیس نے دو مکانات پر چھاپہ مارا اور وہاں سے بڑی تعداد میں رقومات برآمد کرتے ہوئے منی لانڈرنگ کی تحقیقات شرو ع کر دی ہے ۔ ان دونوں رہائش گاہوں میں سے ایک کا تعلق ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین اور دوسرے کا تعلق الطاف حسین کے کزن افتخار حسین سے ہے جس کو پولیس نے باقاعدہ گرفتار کرتے ہوئے ستمبر تک ضمانت پر رہا کیا ہے۔
اسی چھاپہ کی تحقیقات کے ضمن میں لندن پولیس نے الطاف حسین سے تقریبا سات گھنٹے تک منی لانڈرنگ کے بارے میں تفشیش کی۔ واضح رہے کہ لندن پولیس کا کاؤنٹر ٹیررازم شعبہ اس کیس کی تفتیش کر رہا ہے کیونکہ منی لانڈرنگ ٹیررازم ایکٹ کے زمرے میں آتا ہے ۔
لندن پولیس نے الطاف حسین کے جن دو اکاؤنٹس کی تفصیلات حاصل کی ہیں ان میں سے ایک اکاؤنٹ میں تین سال کے اندر 4 ملین پاؤنڈز (تقریبا 60 کروڑ پاکستانی روپے) کی رقم منتقل ہوئی ہے۔ اور جب الطاف حسین کے جائیداد کی معلومات حاصل کی گئی تو انکشاف ہوا کہ لندن میں 30 ملین پاؤنڈز (تقریبا 4 ارب روپے) کی جائیداد ان کی ملکیت میں شامل ہے۔ یہ جائیداد 10 سال پہلے خریدی گئی تھیں اور اب ان کی قیمت تقریباً 4 گنا زیادہ ہے۔

واضح رہے کہ منی لانڈرنگ دو قسم کی ہوتی ہے۔
نمبر ایک - ٹیکس چوری: کسی کاروبار میں اگر حکومتی ٹیکس ادا نہیں کیا گیا اور اس کاروبار کے منافع کی رقم سے دیگر پراپرٹیز یا کاروبار خرید لیا جائے تو یہ بلیک منی کو وہائٹ منی میں تبدیل کرنے کے مترادف ہے۔
نمبر دو - کرمنل پروسیجر: اگر کسی بڑے جرم (مثلاً : بنک ڈاکہ، قتل ، اغوا وغیرہ) کے ارتکاب کے ذریعے معاوضہ حاصل کیا جائے اور اس رقم سے کوئی جائیداد یا کاروبار خرید لیا جائے ، پھر اسے دوبارہ سہ بارہ فروخت کر کے یہ ظاہر کیا جائے کہ جائیدادوں کی خرید و فروخت کے ذریعے دولت جمع کی گئی ہے تو یہ درحقیقت "کریمنل منی لانڈرنگ" ہے جو ایک معنوں میں منی لانڈرنگ کا سب سے بڑا جرم باور کیا جاتا ہے۔
لندن میٹروپولیٹن پولیس، سکارٹ لینڈ یارڈ اور کاؤنٹر ٹیررازم یونٹ الطاف حسین سے اسی کرمنل منی لانڈرنگ کی تفتیش کر رہی ہیں۔
اس تفتیش کے دوران جب الطاف حسین سے اس دولت کے منبع سے متعلق سوالات کیے گئے تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ پیسہ کارکنان نے چندہ جمع کر کے پارٹی امور چلانے کے لیے بھیجا ہے اور اس کا اعتراف الطاف حسین نے خود میڈیا میں تقریر کے ذریعے کیا ہے۔
برطانوی قانون کے مطابق چیرٹی کا جتنا بھی پیسہ ہوتا ہے وہ ظاہر کیا جاتا ہے اور اس کے باقاعدہ اکاؤنٹس ہوتے ہیں کہ کتنا پیسہ کہاں سے آیا ہے اور جن لوگوں نے ڈونیشن دیا ان لوگوں کی تفصیلات بمع رسیدوں کے ظاہر کرنا ہوتی ہیں۔ جبکہ الطاف حسین نے ان رقومات کو نہ صرف چھپایا بلکہ ان کے ذریعے ذاتی جائیدادیں بھی خریدی ہیں۔
ہر چند کہ عمران فاروق قتل کیس میں الطاف حسین کے بالواسطہ ملوث ہونے کی تحقیقات ہو رہی ہیں مگر منی لانڈرنگ کیس میں ان کے براہ راست ملوث ہونے کی تفشیش جاری ہے اور منی لانڈرنگ کا معاملہ عمران فاروق قتل کیس کے ذریعے ہی منظر عام پر آیا ہے۔
واضح رہے کہ الطاف حسین اور ان کے کزن افتخار حسین کے گھروں پر جب پولیس نے چھاپہ مارا تو پولیس کے پاس باقاعدہ سرچ وارنٹ تھے جو انہوں نے عدالت سے حاصل کیے تھے اور عدالت صرف اسی وقت سرچ وارنٹ جاری کرتی ہے جب اس کے سامنے ان افراد سے متعلق کچھ واضح ثبوت پیش کیے جائيں جن کے گھروں پر پولیس کو ریڈ کرنے کی اجازت درکار ہو۔ اس سلسلے میں پولیس کے پاس ٹھوس ثبوت ہوتے ہیں کہ چھاپہ کے ذریعے انہیں مطلوبہ چيز دستیاب ہو جائے گی۔
چھاپہ کے بعد الطاف حسین کے گھر سے پولیس کو ایک ملین پاؤنڈز (تقریبا 16 کروڑ روپے) نقد حاصل ہوئے جن کے جائز حصول کا کوئی بھی ثبوت الطاف حسین کے پاس موجود نہیں تھا۔ لندن پولیس نے پہلے بنک اکاؤنٹس کی معلومات حاصل کی تھیں اور اس کے بعد چھاپہ مار کر متذکرہ رقم کو بھی برآمد کر لیا جو کہ الطاف حسین کے خلاف منی لانڈرنگ کیس شروع کرنے میں ایک بڑا ثبوت مانا جا رہا ہے۔
اسی تفتیش کے بعد الطاف حسین نے بوکھلاہٹ میں نائن زیرو میں اپنے کارکنوں کو بلا کر پارٹی سے استعفی پیش کر دیا اور یوں پارٹی پر اپنا اخلاقی دباؤ ڈالنے کی کوشش کی کہ پارٹی اور کارکنان اس کٹھن وقت میں ان کا بھرپور ساتھ دیں۔
اب اگر الطاف حسین کے بقول پاکستانی اسٹیبلشمنٹ سے لےکر برطانوی اسٹیبلیشمنٹ تک ان کے خلاف سینہ سپر ہو چکی ہے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ کون سی طاقت ہے جس کے سہارے ایم کیو ایم اپنے لیڈر الطاف حسین کو اس طاقتور (برطانوی) اسٹیبلشمینٹ سے بچالے گی اور جس کی امید پر الطاف حسین نے برطانوی اداروں کو دھمکی تک دے ڈالی ہے؟
کہا جا رہا ہے کہ اس ساری تفتیش میں ایک اور مہرے نے بھی لندن پولیس کا بھرپور ساتھ دیا ہے اور وہ مہرہ ہے برٹش میڈیا۔ برٹش میڈیا کو عرصہ قبل سے ایم کیو ایم اور الطاف حسین کی بھتہ پایسی، کراچی میں قتل عام اور اغوا برائے تاوان جیسی حرکتوں کا بخوبی علم تھا مگر وہ مناسب وقت کا انتظار کر رہی تھی اور جب انہیں پولیس کی طرف سے منی لانڈرنگ کیس کی کاروائی کا علم ہوا تو انہوں نے اس کیس کے بارے میں مضامین لکھنا شرو ع کر دیے جو انڈپینڈنٹ ، گارجین جیسے مقبول اخبارات اور بی بی سی میں شائع ہوئے۔ حتیٰ کہ چینل 4 نے اس کیس سے متعلق 10 تا 15 منٹ کی ڈاکومینٹری فلم بھی بنائی۔ یوں برٹش میڈیا نے اپنی حکومت پر اس سلسلے میں دباؤ ڈالا ہوا ہے اور وہ دباؤ دن بدن بڑھ رہا ہے۔ برٹش پارلیمنٹ کے کچھ ممبران بھی الطاف حسین کے خلاف انکؤاری کرانے کا مطالبہ تک کرچکے ہیں۔
یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ برٹش میڈیا نےاچانک الطاف حسین میں دلچسپی لینا کیسے شروع کیا جبکہ بیشمار پاکستانی سیاستدانوں کی جائیدادیں برطانیہ میں موجود ہیں بشمول بے نظیر، زرداری اور شریف برادران۔۔۔ تو پھر برٹش میڈیا پر وہ کون سا دباؤ ہے جس نے الطاف حسین کے کیس میں دلچسپی لینے پر مجبور کیا اور نہ صرف دلچسپی بلکہ اس کے خلاف تحقیقات کے لیے بھی دباؤ ڈالا ہے۔ ذرائع کے مطابق اس دباؤ کے تانے بانے عمران خان اور ان کی پارٹی پی ٹی آئی کی طرف جاتے ہیں۔
تین تلوار پر پی ٹی آئی کے دھرنے کے خلاف الطاف حسین جو نے تقریر کی تھی اس تقریر نے پاکستان اور برطانیہ میں موجود پی ٹی آئی کے حامیوں کو مشتعل کیا اور اسی تقریر کے خلاف لندن پولیس کو تقریباً 15 ہزار سے زائد درخواستیں الطاف حسین کے خلاف موصول ہوئیں اور لندن پولیس کو لوگوں کو مزید درخواستیں دائر کرنے سے روکنے کی آفیشیلی اپیل کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ لہذا الطاف حسین کے خلاف انکواری شروع کردی گئی۔ آخر کار برطانیہ ایک طاقتور جمہوری ملک ہے اور اس کی حکومتیں اور ادارے عوام کے سامنے جوابدہ ہیں۔
چند اراکین برٹش پارلیمنٹ بھی عمران خان کے حامیوں میں شامل ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ حمایت کرنے والوں میں میں سب سے مضبوط شخصیت عمران خان کے سابقہ برادر نسبتی یعنی جما‏ئما خان کے بھائی زیگ گولڈ سمتھ ہیں جو کہ برسر اقتدار کنزرویٹو پارٹی میں کافی اثر ورسوخ رکھتے ہیں۔ ان کی الیکش مہم خود عمران خان نے لندن میں ان کے جلسوں میں تقاریر کر کے چلائی تھی اور انہی جلسوں کی بنیاد پر برطانیہ کے امیر ترین خاندان سے تعلق رکھنے والے زیک گولڈ سمتھ پارلیمنٹ تک پہنچے تھے۔
کراچی میں پی ٹی آئی کی رہمنا کو قتل کیا گیا اور اس قتل سے عمران خان اور ان کے برطانوی حامیوں میں اشتعال پھیل گیا اور انہوں نے برٹش میڈیا پر اپنا بھرپور اثر و رسوخ استعمال کر کے دباؤ ڈالا اور اسی برٹش میڈیا کے دباؤ اور پولیس کی انکؤاری کے مدنظر الطاف حسین کے گرد گھیرا تنگ ہو گیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ الطاف حسین نے جو سب سے بڑی غلطی کی وہ دراصل عمران خان کی مخالفت ہے ، ان کے خلاف بیانات اور بقول عمران خان کے، ان کی رہنما کا قتل۔ شاید الطاف حسین یہ حقیقت فراموش کر گئے تھے کہ عمران خان برطانیہ میں ہاٹ فیوریٹ ہیں اور برطانیہ میں کوئی بھی عمران خان کے خلاف لن ترانی نہیں کر سکتا۔ ریاست ہائے متحدہ برطانیہ کا سارا میڈیا ، عوام اور پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے اراکین عمران خان کو پسند کرتے ہیں۔
طلعت حسین کے بقول ۔۔۔ پتہ نہیں آپ میں سے کتنوں نے حال ہی میں بی بی سی پر چلنے والی ڈاکیومینٹری دیکھی ہو؟ ڈاکومینٹری 2 حصوں پر مبنی ہے – ایک حصہ فاروق ستار کا انٹرویو اور دوسرا وہ تحقیقات جن کے گھیرے میں اس وقت الطاف حسین پھنسے ہوئے ہیں- پاکستان میں اس ڈاکومینٹری کی کوئی خاص تشہیر نہیں ہوئی- اس کی بنیادی وجہ تو یہ ہے کہ اس کا مرکزی کردار الطاف حسین کی ذات ہے۔ ہاں اگر یہ ڈاکومینٹری عمران خان، نواز شریف، آصف علی زرداری یا جنرل پرویز مشرف کے بارے میں ہوتی تو شاید سینکڑوں ٹی۔وی چینل اسے "ہاٹ بریکنگ نیوز" جتانے میں رطب اللسان بنے ہوئے ہوتے۔
مگر اس عدم تشہیر کے باوجود بی بی سی پر پیش کی جانے والی فلم کی سیاسی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ کالا دھن سفید کرنے کا مقدمہ اور ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس اب اخباروں کی رپورٹوں سے پھلانگ کر تصاویر کے ذریعے جستیں لگاتے ہوئے دنیا بھر میں پھیل گیا ہے۔ لاکھوں پاؤنڈز، غیر معمولی اختیارات، دھمکی آمیز تقاریر اور برطانوی اداروں کے ساتھ مل کر پاکستان کے ریاستی اداروں کو نتھ ڈالنے کے تمام قصے اب بی بی سی نے ریکارڈز کے حصے بنا دیے ہیں-
یہ ڈاکومینٹری ان معاملات میں ہونے والی تقتیش کی رفتار کے پیش نظر بنائی گئی ہے- ایم کیو ایم کی قیادت اپنے تمام تر اثر رسوخ کے باوجود برطانیہ کے فرنٹ میں ہونے والی جنگ میں بری طرح پھنس چکی ہے- خدشہ ہے کہ اس جنگ کے نتائج کہیں کراچی میں نہ نکلیں، جس کے امکانات بہت قوی ہیں۔ شاید اسی سبب پہلی مرتبہ اسلام آباد ، راولپنڈی اور لندن الطاف حسین کے بارے میں ہم خیال ہو گئے ہیں۔
لندن میٹروپولٹن پولیس اس وقت الطاف حسین کے خلاف تین الزامات پر انویسٹی گیشن کر رہی ہے۔ ایک عمران فاروق قتل کیس، دوسرا منی لانڈرنگ اور تیسرا وہ تقریر جو الطاف حسین نے الیکشن کے بعد تین تلوار پر کی تھی۔
بی بی سی جیسے معتبر ادارہ نے بھی الطاف حسین کے خلاف محاذ سنبھالا ہے اور اس موضوع پر ڈاکومینٹری فلم بنانا بھی شروع کر دیا ہے۔
ذرائع کے مطابق آدھے گھنٹے دورانیہ کی ایک اور فلم الطاف حسین کے خلاف بن رہی ہے اور بہت جلد منظر عام پر آنے والی ہے۔ امکان ہے کہ وہ فلم الطاف حسین کے لیے آخری کیل ثابت ہوگی۔

بی بی سی ڈاکومینٹری - الطاف حسین اور منی لانڈرنگ

بی بی سی ڈاکومینٹری - الطاف حسین اور منی لانڈرنگ (منہج سلف بلاگ)
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,395
پوائنٹ
891
یہ ڈاکومینٹری ان معاملات میں ہونے والی تقتیش کی رفتار کے پیش نظر بنائی گئی ہے- ایم کیو ایم کی قیادت اپنے تمام تر اثر رسوخ کے باوجود برطانیہ کے فرنٹ میں ہونے والی جنگ میں بری طرح پھنس چکی ہے- خدشہ ہے کہ اس جنگ کے نتائج کہیں کراچی میں نہ نکلیں، جس کے امکانات بہت قوی ہیں۔ شاید اسی سبب پہلی مرتبہ اسلام آباد ، راولپنڈی اور لندن الطاف حسین کے بارے میں ہم خیال ہو گئے ہیں۔
یہ بات کافی حد تک درست ثابت ہو چکی ہے۔
ایم کیو ایم نے کراچی میں اپنی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں۔ لیاری آپریشن کو طول دے کر نیٹو سپلائی میں رکاوٹیں کھڑی کرنا عالمی برادری پر بھائی کے حق میں پریشر ڈالنے کا مقصد ہی معلوم ہوتا ہے۔
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
السلام علیکم

الطاف پر کاروائی پر کیا پتہ یہ بھی بیرونی قوتوں کی خود پر کوئی فائدہ مند چال ہو جیسے اسے پہلے استعمال میں لایا جاتا ھے جب اس سے ضرورتیں پوری ہو جائیں تو پھر اسے راستہ سے ہٹا دیا جاتا ھے اس کے بعد کسی اور کا انتخاب ۔۔۔۔۔۔۔؟

سٹیٹ کی ویب سائٹس پر جتنے بھی موسٹ وانٹنڈ کی تصاویر کے ساتھ ریوارڈ کی رقم بھی ساتھ لکھی ہوتی ھے اس پر وہاں سے جتنی تصاویر ہٹا دی گئی ہیں کیا امریکہ نے ان کی مخبری کرنے والوں کو وہ رقوم ادا کی ہیں کبھی، ایسا کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔

اسی لئے سیانے کہتے ہیں اپنی بساط کے مطابق محنت کی روٹی کما کے کھاؤ اسی میں سکون ھے ورنہ شارٹ کٹ پر چار دن ہی گزرتے ہیں اور پھر ایک نہ ختم ہونے والی مشکلیں یا موت۔

پروگرام کے مطابق شکیل آفریدی نے اسامہ تک پہنچنے میں مدد کی، مگر اس کا انعام اسے پاکستان میں ہی پھنسوا دیا گیا۔

یہ مسئلے ہائی پروفائل ہوتے ہیں انہیں سمجھنا اتنا آسان نہیں۔

والسلام
 

اسحاق

مشہور رکن
شمولیت
جون 25، 2013
پیغامات
894
ری ایکشن اسکور
2,131
پوائنٹ
196
السلام علیکم

الطاف پر کاروائی پر کیا پتہ یہ بھی بیرونی قوتوں کی خود پر کوئی فائدہ مند چال ہو جیسے اسے پہلے استعمال میں لایا جاتا ھے جب اس سے ضرورتیں پوری ہو جائیں تو پھر اسے راستہ سے ہٹا دیا جاتا ھے اس کے بعد کسی اور کا انتخاب ۔۔۔۔۔۔۔؟

سٹیٹ کی ویب سائٹس پر جتنے بھی موسٹ وانٹنڈ کی تصاویر کے ساتھ ریوارڈ کی رقم بھی ساتھ لکھی ہوتی ھے اس پر وہاں سے جتنی تصاویر ہٹا دی گئی ہیں کیا امریکہ نے ان کی مخبری کرنے والوں کو وہ رقوم ادا کی ہیں کبھی، ایسا کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔

اسی لئے سیانے کہتے ہیں اپنی بساط کے مطابق محنت کی روٹی کما کے کھاؤ اسی میں سکون ھے ورنہ شارٹ کٹ پر چار دن ہی گزرتے ہیں اور پھر ایک نہ ختم ہونے والی مشکلیں یا موت۔

پروگرام کے مطابق شکیل آفریدی نے اسامہ تک پہنچنے میں مدد کی، مگر اس کا انعام اسے پاکستان میں ہی پھنسوا دیا گیا۔

یہ مسئلے ہائی پروفائل ہوتے ہیں انہیں سمجھنا اتنا آسان نہیں۔

والسلام
بالکل صحیح ، کنعان بهایی
 
Top