قرآن میں جس فرقہ کا ذکر ہے اس سے مراد؟
شروع از عبد الوحید ساجد بتاریخ : 23 June 2014 12:01 PM
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے کس فرقہ پر کاربند رہنے کا حکم دیا ہے،جبکہ قرآن کریم میں تو فرقہ بندی سےمنع کیا گیا ہے ،نیز یہ بھی آگاہ فرمائیں کہ کس حدیث میں رسول اللہﷺ نے 73 فرقوں کا ذکر کیا ہے؟
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے ہمارانام مسلمان رکھا ہے اور ہمیں فرقہ بندی سے بھی سختی کے ساتھ منع کیا ہے۔ تو پھر کیا وجہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو اہل حدیث کہلاتے ہیں۔ کیا اہل حدیث ایک فرقہ نہیں ہے؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قرآن پاک میں ہے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے کسی خاص فرقہ پر کاربند رہنے کا حکم نہیں دیا، بلکہ اس سلسلہ میں ہدایت جاری کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لواور تفرقہ نہ پڑو۔ (۳/آل عمران:۱۰۳)
حبل اللہ ،یعنی اللہ کی رسی سے مراد اللہ کی کتاب اور رسول اللہﷺ کے فرمودات و معمولات ہیں۔ جب تک امت ان دونوں کو مضبوطی سے تھامے رکھے گی،کبھی گمراہی سے دوچار نہیں ہوگی۔ چنانچہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:‘‘میں تمہارے اندردو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں،اگر تم نے انہیں مضبوطی سے تھامے رکھا تو دنیا کی کوئی طاقت تمہیں گمراہ نہیں کرسکےگی۔ وہ اللہ تعالیٰ کی کتاب اور میرا طریقہ ہے۔’’ (مستدرک حاکم ،العلم:۳۱۹)
فرقہ سازی ، فرقہ پروری اور فرقہ پرستی سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں منع فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :‘‘تم ان لوگوں کی طرح مت ہوجانا جو فرقوں میں بٹ گئے اور روشن دلائل آنے کے بعد آپس میں اختلاف کرنے لگے۔’’ (۳/آل عمران:۱۰۵)
نیز فرمایا کہ ‘‘ جن لوگوں نے اپنے دین میں تفرقہ ڈالا اور کئی فرقوں میں تقسیم ہوگئے ،ان سے آپ کو کوئی سروکار نہیں ،ان کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔’’ (۶/الانعام:۱۶۰)
آیت کریمہ میں ‘‘لوگوں سے مراد یہودو نصاریٰ ہیں جو نفسانی خواہشات اور حصول اقتدار کی بنا پر مختلف گروہوں میں بٹ گئے اور ایک دوسرے کو کافر کہنے لگے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
‘‘یہودی اکہتر(71)فرقوںمیں اور نصاریٰ بہتر (72)گروہوں میں بٹ گئے ۔ آخرکار میری امت تہتر(73)فرقوں میں تقسیم ہوجائے گی جن میں ایک فرقہ کے علاوہ سب دوزخی ہوں گے۔’’
عرض کیا گیا کہ وہ نجات یافتہ کون لوگ ہوں گے؟آپ نے فرمایا کہ ‘‘جو اس راستہ پر چلیں گے جس پر میں اور میرے صحابہ ؓ گامزن ہیں۔’’ (ترمذی ،الایمان:۲۶۴۱)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ہر گمراہ فرقے کی بنیاد کوئی اختر اعی عقیدہ یا خود ساختہ عمل ہوتا ہے۔ لہٰذا مسلمان کو اس بات کی تحقیق کرلینی چاہیے کہ اس کا کوئی عقیدہ یا عمل ایسا تو نہیں ہے جو عہد رسالت اور صحابہ کرام ؓ میں پایاجاتا ہو۔ اگر کسی عقیدہ یا عمل کا ثبوت کتاب وسنت سے نہیں ملتا تو اسے سمجھ لینا چاہیے کہ وہ گمراہی میں مبتلا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ‘‘دین کو قائم رکھو اور اس میں تفرقہ نہ ڈالو۔’’ (۴۲/الشوریٰ:۱۳)
واضح رہے کہ لوگوں میں اختلاف اور تفرقہ ،اس لئے نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب میں کوئی ابہام یا سنت رسول اللہﷺ میں کوئی الجھن ہے۔ جس کی لوگوں کو پوری طرح سمجھ نہیں آتی بلکہ اس کی اصل وجہ اپنا اپنا جھنڈا اونچا کرنے کی خواہش یامال و جاہ کی طلب ہوتی ہے، پھر اس کے بعد باہمی ضد اور ایک دوسرے کو زک کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ وہ اسباب ہیں جو لوگوں کو دین کی کشادہ راہ اور سیدھے راستہ سے ہٹاکر مختلف پگڈنڈیوں پر ڈال دینے کا باعث ہوئے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ‘‘ان لوگوں میں فرقہ بندی اس وقت پیداہوئی جب وہ ضد بازی پر اتر آئے ، حالانکہ اس سے پہلے ان کے پاس علم وحی آچکا تھا۔ ’’ (۴۲/الشوریٰ:۱۴)
الحمدللہ!جماعت اہل حدیث کے منہج اور طرزعمل میں فکر و عقیدہ اور عمل و کردار کے اعتبار سے کوئی کجی نہیں ہے ،کیونکہ یہ لوگ اس دین کو تھامے ہوتے ہیں ، جن پر صحابہ کرام ؓ عمل پیرا تھے ان کی شناختی علامت یہ ہے۔
اصل دین آمد کلام اللہ معظم داشتن پس حدیث مصطفیٰ برجان مسلم داشتن
جماعت اہل حدیث کے عقیدہ و عمل کو درج ذیل حدیث کی روشنی میں دیکھا جاسکتا ہے کہ رسول اللہﷺؑ نے فرمایا :
‘‘میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ اللہ کے احکام کو قائم رکھے گا۔ان کی تکذیب کرنے والے یا انہیں رسواکرنے والے ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے حتیٰ کہ جب قیامت آئے گی تو یہ لوگ احکام الہٰی پر کاربند ہوں گے۔ ’’ (صحیح بخاری:۷۴۶۰)
یہی وہ اجنبی لوگ ہیں جنہیں رسول اللہﷺ نے مبارک باد دی ہے:
‘‘کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جو میرے اس طریقہ کی اصلاح کرتے ہیں جسے مختلف لوگوں نے خراب کردیا ہوگا۔’’ (ترمذی ،الایمان:۲۶۳۰)
جماعت اہل حدیث کے افراد عملی کوتاہی کا شکار توہوسکتے ہیں لیکن من حیث الجماعت فکروعمل کی کوتاہی سے محفوظ ہیں، باقی رہا اہل حدیث نام کا مسئلہ تو یہ کوئی بڑی بات نہیں کیونکہ یہ ایک لقب ہے جو اصحاب الرائے اور روافض سے ممتاز ہونے کے لئے اختیار کیا گیا ہے ۔ا گرچہ فرمان باری تعالیٰ ہے کہ ‘‘اس سے قبل ازیں بھی تمہارا نام مسلم رکھاتھا اور اس (قرآن کریم )میں بھی مسلم ہی رکھا ہے۔’’(۲۲/الحج:۷۸)
تاہم اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مسلمانوں کو‘‘مہاجرین اور انصار’’کے لقب سے بھی یاد فرمایا ہے۔(۹/التوبہ:۱۰۰)
متعدد آیات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ان کی صفات کی وجہ سے مہاجرو انصار میں تقسیم فرما کر ان کی طرف منسوب کردیا اس سے معلوم ہو اکہ جس فرد یا جماعت میں کوئی خاص امتیازی وصف ہوتو مسلمین میں شمولیت کے باوجود ان صفات کی طرف ان کا انتساب کوئی معیوب چیز نہیں ہے اور نہ ہی اسے بدعت کہا جاسکتا ہے۔ اہل حدیث لقب کے جائز ہونے پر محدثین کرام اور تمام سلف صالحین کا اجماع یہی ہے کہ اسلام کےابتدائی دور سے لے کر چودھویں صدی ہجری کے نصف تک کسی نے بھی اس لقب کو بدعت نہیں کہا، پھر حدیث میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
‘‘تم مسلمین کو ان کے ناموں کے ساتھ پکارا کرو۔اللہ تعالیٰ نےان کے نام مسلمین ،مؤمنین اور عباد اللہ رکھے ہیں۔’’(مسند امام احمد،ص:۱۳۰،ج ۴)
اللہ تعالیٰ کے احکام کے سامنے سر تسلیم خم کردینے والے کو ‘‘مسلم ’’کہاجاتا ہے۔ اس لحاظ سے ہر نبی پر ایمان لانے والی قوم مسلم ہی تھی۔اس اعتبار سے ہم بھی مسلم ہیں لیکن جب اس مسلم قوم میں بدعات کا رواج ہوتو امتیازی طورپر انہیں اہل حدیث یا اصحاب الحدیث کہاجانے لگا۔ گویا مسلم ذاتی اور اہل حدیث ایک صفاتی نام ہے۔ اہل رائے اور اہل بدعت کے مقابلہ میں اہل حدیث کالقب اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ آخر ہم لوگ اپنی پہچان کےلئے اپنے نام الگ رکھ لیتے ہیں تو بحیثیت جماعت اہل حدیث صفاتی نام رکھنے میں کیا قباحت ہے ۔ اس حدیث کی مخالفت کرنے والوں کو چاہیے کہ وہ کم ازکم اپنے پیر حضرت عبدالقادرجیلانیؒکی بات ہی مان لیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ اہل السنہ کانام اہل حدیث ہے۔ (غنیۃ الطالبین مترجم فارسی،ص:۲۱۲)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
ج2ص489
محدث فتویٰ