عبد الرشید
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 5,402
- ری ایکشن اسکور
- 9,991
- پوائنٹ
- 667
کتاب کا نام
مصنف
ناشر
ہر قوم اپنے وجود کے مٹنے کے خدشہ پر دشمن کے وجود کو مٹانے پرتل آتی ہے یا کم از کم اپنا دفاع کرتی ہے۔ اسلام نے نظریہ اسلام اور دین کی پاسداری کے لیے دشمن اسلام سے لڑنے کے اصول و ضوابط مقرر کردیے ہیں اور یہ اصول دین اسلام کو تمام ادیان پر فائق کرتا ہے کہ جس کے جنگی اصولوں میں یہ بات ہو کہ بچوں، بوڑھوں، عورتوں اور جو ہتھیار نہ اٹھائے ان کو قتل نہیں کرنا۔ دشمن کو جلانا نہیں، دشمن کا مثلہ کرنا حرام ہو، دشمن کو جلانا ممنوع ہو، قیدیوں سے اچھے سلوک کی ترغیب دلائی گئی ہو اور قیدی عورتوں کی عصمت دری سے روکا گیا ہو۔ یہ وہ تمام اوصاف ہیں کہ جنہیں اپناکرایک مسلمان اپنے دشمنوں کے دل بھی جیت لیتا ہے۔دوران جنگ ایسے مواقع پیش آتے ہیں کہ مجاہد کے دل میں جذبہ شہادت کی لہر اس قدر موجزن ہوتی ہے کہ وہ اللہ کے دشمنوں میں موت کی پرواہ کئے بغیر گھس جاتا ہے اور دشمن اسلام کا نقصان کرتے ہوئے اللہ کی راہ میں شہادت کے مرتبہ پر فائز ہوجاتا ہے۔تاریخ اسلام میں ایسی بہت سی مثالیں ہیں کہ جن میں غازیان اسلام نے ایسی کاروائیاں سرانجام دیں کہ اپنے وجود کو انتہائی خطرے میں ڈال کر دشمن کو نقصان پہنچایا۔ فدائی اور خود کش حملہ میں یہ فرق ہے کہ فدائی حملہ میں جان کے بچ جانے کا کم از کم ایک فیصد امکان ہوتا ہے جبکہ خود کش حملے میں 100 فیصد جان جانے کا خطرہ ہوتا ہے۔جہاد کشمیر کی جنگ کے تناظر میں جب مجاہدین نے فدائی کاروائیاں شروع کیں تو ان کاروائیوں پر خودکشی کے اعتراضات وارد ہوئے جن کے جواب میں جماعت الدعوۃ کے مرکزی رہنما مولانا عبدالرحمٰن مکی نے فدائی حملوں کے دفاع میں ماہنامہ مجلۃ الدعوۃ میں ایک طویل مضمون لکھا جس میں صحابہ کرامؓ کے فدائی حملوں کی امثال سے ثابت کیا گیا تھا کہ ایسی کاروائیاں شریعت کے مطابق ہیں ناکہ خودکشی کے زمرے میں آتی ہیں اور بعدازاں اس مضمون کو اضافوں کے ساتھ کتابچے کی شکل دے دی گئی ۔ کتابچہ فدائی حملوں کے جواز میں دلائل سے مزیں ہے اور لائق مطالعہ ہے۔(ک۔ط)
اس کتاب تاریخ اسلام کے فدائی دستے کو آن لائن پڑھنے یا ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں
تاریخ اسلام کے فدائی دستے
مصنف
پروفیسر حافظ عبدالرحمن مکی
ناشر
دار الاندلس،لاہور
تبصرہ
ہر قوم اپنے وجود کے مٹنے کے خدشہ پر دشمن کے وجود کو مٹانے پرتل آتی ہے یا کم از کم اپنا دفاع کرتی ہے۔ اسلام نے نظریہ اسلام اور دین کی پاسداری کے لیے دشمن اسلام سے لڑنے کے اصول و ضوابط مقرر کردیے ہیں اور یہ اصول دین اسلام کو تمام ادیان پر فائق کرتا ہے کہ جس کے جنگی اصولوں میں یہ بات ہو کہ بچوں، بوڑھوں، عورتوں اور جو ہتھیار نہ اٹھائے ان کو قتل نہیں کرنا۔ دشمن کو جلانا نہیں، دشمن کا مثلہ کرنا حرام ہو، دشمن کو جلانا ممنوع ہو، قیدیوں سے اچھے سلوک کی ترغیب دلائی گئی ہو اور قیدی عورتوں کی عصمت دری سے روکا گیا ہو۔ یہ وہ تمام اوصاف ہیں کہ جنہیں اپناکرایک مسلمان اپنے دشمنوں کے دل بھی جیت لیتا ہے۔دوران جنگ ایسے مواقع پیش آتے ہیں کہ مجاہد کے دل میں جذبہ شہادت کی لہر اس قدر موجزن ہوتی ہے کہ وہ اللہ کے دشمنوں میں موت کی پرواہ کئے بغیر گھس جاتا ہے اور دشمن اسلام کا نقصان کرتے ہوئے اللہ کی راہ میں شہادت کے مرتبہ پر فائز ہوجاتا ہے۔تاریخ اسلام میں ایسی بہت سی مثالیں ہیں کہ جن میں غازیان اسلام نے ایسی کاروائیاں سرانجام دیں کہ اپنے وجود کو انتہائی خطرے میں ڈال کر دشمن کو نقصان پہنچایا۔ فدائی اور خود کش حملہ میں یہ فرق ہے کہ فدائی حملہ میں جان کے بچ جانے کا کم از کم ایک فیصد امکان ہوتا ہے جبکہ خود کش حملے میں 100 فیصد جان جانے کا خطرہ ہوتا ہے۔جہاد کشمیر کی جنگ کے تناظر میں جب مجاہدین نے فدائی کاروائیاں شروع کیں تو ان کاروائیوں پر خودکشی کے اعتراضات وارد ہوئے جن کے جواب میں جماعت الدعوۃ کے مرکزی رہنما مولانا عبدالرحمٰن مکی نے فدائی حملوں کے دفاع میں ماہنامہ مجلۃ الدعوۃ میں ایک طویل مضمون لکھا جس میں صحابہ کرامؓ کے فدائی حملوں کی امثال سے ثابت کیا گیا تھا کہ ایسی کاروائیاں شریعت کے مطابق ہیں ناکہ خودکشی کے زمرے میں آتی ہیں اور بعدازاں اس مضمون کو اضافوں کے ساتھ کتابچے کی شکل دے دی گئی ۔ کتابچہ فدائی حملوں کے جواز میں دلائل سے مزیں ہے اور لائق مطالعہ ہے۔(ک۔ط)
اس کتاب تاریخ اسلام کے فدائی دستے کو آن لائن پڑھنے یا ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں
Last edited: