• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تاریخ تدوین فقہ اور اس کے مراحل

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
دوسرا باب:
تاریخ تدوین فقہ اور اس کے مراحل

اسلام بلاشبہ ایک ترقی پذیر دین ہے زندہ مسائل کا حل پیش کرنا اس کی خصوصیات میں سے ہے۔ اس کے مآخذ میں جتنی تیسیر(facilitation) اوریّسر flexibility ہے وہ شاید انسان کی محدود سوچ میں نہیں سما سکتی۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ضرورت کے مطابق نزول وحی اس طرح ہوئی کہ وقتی مسئلے حل ہوتے گئے۔ یہی دین کا مزاج ہے کہ وہ اپنا تعارف ایک ثابت، ٹھوس مگر ترقی پذیر دین کی حیثیت سے کراتا گیا اور اسی پر صحابہ وتابعین وغیرہ کی اٹھان ہوئی۔ اس لئے تاریخی اعتبار سے فقہ اسلامی کے عموما ًدو ادوار نظر آتے ہیں۔ ترقی پذیر دور اور جمود کا دور۔ ترقی پذیر دور کے تین مراحل ہیں جن میں زمانہ رسالت، دور صحابہ اور دور تابعین وتبع تابعین شامل ہیں۔ جمود کا دور ایک طویل دور انئے کا ہے جو ان ازمنہ ثلاثہ کے بعد سے تاحال جاری وساری ہے جو عہد تقلید کہلاتا ہے۔ ذیل کی مختصر تاریخ کو بہ اختصار سمجھئے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
تاریخ:
عربی زبان میں وقت اور اس کے حالات کا تعارف اور اس سے تفصیلی آگاہی کو تاریخ کہتے ہیں۔جیسے عرب کہتے ہیں:
أَرَّخْتُ الکِتَابَ: میں نے کتاب کو ایک تاریخ بنایا یعنی اس میں تاریخ کو اس طرح بیان کیا کہ اس میں اس کے اختتام کا وقت تک بیان کردیا۔ اصطلاح میں ایسے علم کو کہتے ہیں جو واقعات وحوادث پر مشتمل ہو۔ ان کے اوقات وزمانہ کا ذکر کرے اور یہ بتائے کہ اس نے حیات انسانی پر کیا اثرات ڈالے ہیں۔

ہر علم کی ایک تاریخ ہوتی ہے جس میں اس علم کی نشوونما، اس کے ترقیاتی مراحل، اس کے بانی ومددگار اور ان کے افکار وغیرہ کا تفصیلی ذکر ہوتا ہے۔اسی طرح فقہ اسلامی کی بھی اپنی تاریخ ہے۔

پہلا دور:
زمانہ رسالت میں فقہ:
رسول اکرمﷺ کا زمانہ، زمانہ وحی تھا۔ شرعی احکام آپ پر نازل ہوتے۔ جنہیں آپ ﷺ صحابہ کرامؓ تک پہنچا دیتے۔ صحابہء کرامؓ کیلئے بھی شریعت کا مصدر Sourceیہی قرآن و سنت تھے۔اللہ تعالیٰ نے انہیں فہم دین کے ساتھ اطاعت کا بھرپور جذبہ عطا کیا تھا۔ یہی کچھ انہوں نے آپ ﷺ کی صحبت میں رہ کر سیکھا تھا وہ (receptive)تھے ۔اس احسان عظیم کو ان ان پڑھ لوگوں نے قدر کی نگاہ سے دیکھا جو اللہ تعالیٰ نے ان پر کیا تھا:
{ہوالذی بعث فی الأمیین رسولا منہم یتلو علیہم آیتہ ویزکیہم ویعلمہم الکتب والحکمۃ وإن کانوا من قبل لفی ضلل مبین}
وہی تو ہے جس نے ان پڑھ لوگوں میں انہیں میں سے ایک رسول کو اٹھایا جو ان پر تلاوت آیات کرتا ہے ان کا تزکیہ بھی کرتا ہے اور انہیں تعلیم کتاب وحکمت بھی دیتا ہے۔

ایمان کے بعد انہوں نے ذہنی ارتقاء کا جو سفر شروع کیا وہ حالات ، واقعات اور مسائل کو سمجھاتا گیا۔ انہیں فقہی مسائل کی تمام باریکیوں کا علم بار گاہ رسالت سے معلوم ہو جایا کرتا تھا۔ کیونکہ وہ بیشتر معمول بہا مسائل کو جاننے کیلئے جہاں آپﷺ کی خدمت اقدس میں سوال کرتے،وہاں بغور سنتے اوربہت باریک بینی سے اسے ملاحظہ بھی کرتے تھے۔ سوال کرنے اور مین میکھ نکالنے کی بجائے وہ آپ ﷺ سے جو سنتے ، بس اس پر عمل کرلیا کرتے تھے۔اس لئے کہ قرآنی آیات اور تعلیمات نبوی سے وہ جان چکے تھے کہ اللہ تعالیٰ ہم سے کیا چاہتے ہیں اور اس کی رضا حاصل کرنے کے لئے ہمیں کس کی اطاعت ومحبت کرنی چاہئے۔

آپﷺکے زمانہ میں یہی فقہ تھی جو صرف اور صرف وحی پر مبنی تھی۔یہ فقہ صحابہ کرام کو اہل علم میں شامل کرگئی۔ مگر ظاہر ہے مدوّن نہ تھی۔ ان دنوں شرعی احکام میں صحابہ وتابعین میں وہ بحث و تمحیص نہیں تھی جو بعد کے ادوار میں فقہاء کرام کی امکانی جدوجہد کا نتیجہ بنی۔ جن میں ارکان اسلام اور اس کی فروعات کو چند شروط و قواعد کے ساتھ اصطلاحی نام دئیے گئے۔ تاکہ ان کی اہمیت واضح ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
صحابہ کرامؓ نے نبی کریمﷺ کو وضوء کرتے، نماز پڑھتے، حج کرتے ، روزہ رکھتے اور معاملہ کرتے دیکھا۔ اور آپ ﷺ سے ہر ایک کے بارے میں اہمیت بھی سنی۔ اور اسے وہ حیثیت دی جو ایک باعمل ، خدا ترس اور حب رسول سے سرشار کوئی بھی مومن دے سکتا ہے۔ اور اس کے بہتر نتائج بالحاح رب کریم سے چاہتا ہے۔

آپؐ سے انہوں نے سنا:
وَیْلٌ لِلأعْقَابِ مِنَ النَّارِ
(م) خشک ایڑیوں کیلئے آگ کا عذاب ہے۔
یہ بھی آپؐ نے فرمایا:
اِرْجِعْ فَأَحْسِنْ وُضُوئَ کَ۔
واپس جاؤ اچھی طرح وضوء کرو۔ (أبوداؤد)
نماز کے بارے میں آپ ﷺسے یہ سنا:
صَلُّوا کَمَا رَایْٔتُمُونِیْ أُصَلِّیْ۔
نماز اس طرح پڑھو جیسے مجھے پڑھتا دیکھو۔
حج کے بارے میں آپ ﷺنے فرمایا:
خُذُوا عَنِّیْ مَنَاسِکَکُمْ۔
مجھ سے اپنے لئے مناسک حج سیکھ لو۔

یہ سب ارشادات وآثار اپنی جگہ بلاشبہ اہم ہیں۔ مگر صحابہ کرامؓ نے ان تمام عبادات وغیرہ کو بغیر یہ سوچے اور بغیر یہ سنے کہ یہ رکن ہے۔ یہ فرض ہے۔ یہ مستحب ہے یا یہ ادب ہے۔ آپﷺ کو بغور دیکھتے گئے۔ اور دل وجان سے ان پر عمل کرتے گئے۔ ان کے بارے میں سوال شاذو نادرہی کیا کرتے۔ آپﷺ نے نہ تو صحابہ کو بتایا کہ وضوء کے چار فرض ہیں یا چھ۔ اور نہ ہی یہ کہ جہری نمازمیں سورہء فاتحہ سے قبل بسم اللہ اونچی آواز سے پڑھنافرض ہے یا سنت۔ مگر بلاشبہ آپ ﷺ کے ادا شدہ الفاظ او رکیفیت سے صحابہء کرامؓ اس مسئلہ کی اہمیت کو بآسانی سمجھ جاتے تھے۔ آپ ﷺ کے دور میں سنت کا علم نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے احکام میں صحابہ کرام نے اجتہادات بھی کئے۔ مگر آپ ﷺ نے نہ انہیں ڈانٹا ڈپٹا اور نہ ہی ایسا کرنے کو غلط کہا۔ اس لئے اچانک ایسا معاملہ پیش آنے پر جبکہ وہ آپ سے دور ہوں یا آپ کہیں ہوں تو انہیں اس کے سوا کوئی چارہ نظر نہ آتا تھا کہ وہ سوچیں اور مسئلے کا حل نکالیں۔

٭…نماز عصر بنو قریظہ میں جا کر پڑھنے کامعاملہ ہو یا یمن میں تین شخصوں کا ایک لڑکے کے بارے میں دعوے دار ہونے کا مقدمہ اور قرعہ سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا فیصلہ دینا اور باقیوں کو تہائی تہائی دیت ادا کرنے کا کہنا۔ آپ کو جب اس فیصلے کا علم ہوا تو آپ خوب ہنسے یہاں تک کہ مسوڑھے تک نظر آنے لگے۔

٭…سعدؓ بن معاذ نے بنوقریظہ کے بارے میں اپنے اجتہاد سے فیصلہ کیا جسے آپ نے پسند فرماکے کہا: تو نے ان کے بارے میں ٹھیک وہی حکم کیا ہے جو اللہ نے ساتوں آسمانوں کے اوپر فرمایا تھا۔

٭…مجزر مدلجی نے قیاس و قیافہ کرکے جب زید و اسامہ کے قدم دیکھ کر کہا کہ آپس میں ایک ہیں یہ دونوں باپ بیٹا ہیں۔تو حضور اکرمﷺ اس قدر خوش ہوئے کہ چہرہ مبارک کی رگیں چمکنے لگیں۔ جو اس قیاس کی صحت اور صحیح مطابقت کی وجہ سے تھی۔ بظاہر حضرت زید سفید رنگ کے تھے اور اسامہ سیاہ رنگ کے۔ لیکن قیافہ شناس نے فرع کو اصل سے اور نظیر کو نظیر سے ملا دیا۔ اس لئے فیصلوں میں سیاہی اور سفیدی کا فرق غیر مؤثر ہوتا ہے۔ آپ کی یہ رضا مندی تب ہی ہوتی تھی جب لوگ واپس آکر معاملے کی وضاحت کر دیتے۔ غلط ہوتا تو اسے درست فرما دیتے ورنہ رضامندی ظاہر فرماتے۔یہ زمانہ نبوت کے سال اول سے لے کر آپ ﷺ کی وفات یعنی سن ۱۱ہجری تک محیط ہے
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
زمانہ صحابہ میں:
انہوں نے دین کے اصل جلال اور جمال کو دیکھا بھی اور پایا بھی۔ صحابہ کرام نے اللہ تعالیٰ کی اس امانت کو نور نبوت سے حاصل کیا اور اپنا عہد ختم ہونے سے پہلے پہلے بلا کم وکاست پورے کا پورا اگلی نسل کو منتقل کردیا۔ سیرت طیبہ کا علم ہو یا حدیث رسول کا، اگر کسی صحابی کو نہیں تھا تو اس کا علم دوسرے صحابہ کو ہوتا تھا اور یہی حال بعد کی نسلوں کا تھا، ہے اور رہے گا۔ صحابہ قرآن وسنت ہی کے پابند تھے۔ یہی دونوں چیزیں ان کے عہد میں فقہ وشریعت کا کورس اورSourceتھیں۔ کسی بھی فقہی مسئلہ کا علم نہ ہوتا تو قرآن سے تلاش کرتے ورنہ حدیث رسول سے ۔ بصورت دیگروہ اجتہاد کرتے۔ یہی ان کے اصول تھے اور اس پر سختی سے عامل تھے۔ کوئی غلط فہمی کا شکار ہوتا تو اس کی اصلاح کے لئے فورًا حدیث رسول پیش کردیا کرتے۔ جدہ کی میراث کا مسئلہ ہو یا استئذان کا، طاعون زدہ علاقہ میں جانا ہو یا نکلنا، یہ سب فقہی مسائل تھے اور دیکھا دلیل کی طرف جاتا تھا۔ حضرت عمر ؓ نے حیات رسول ﷺ میں:
ہٰذَا قَضَائیْ مَنْ لَمْ یَرْضَ بِقَضَائِ رَسُولِ اللّٰہِ۔
جو رسول اللہ ﷺ کے فیصلے سے خوش نہیں تو پھر عمر کا فیصلہ یہی ہے۔
کہا اور اللہ نے اس کی تائید ساتویں آسمان سے کردی اور منافق کا خون ضائع قرار دیا اور یوں :
{وإذا قیل لہم تعالوا إلی ما أنزل اللہ وإلی الرسول رأیت المنافقین یصدون عنک صدودا}
اور جب انہیں کہا جاتا ہے کہ آؤ اس چیز کی طرف جو اللہ نے اتاری ہے اور اس کے رسول کی طرف، تو تم دیکھتے ہو کہ منافق آپ سے پرے بھاگتے ہیں۔

سیدنا عمرؓ کے اجتہاد کو درست قرار دیا کہ رسول کے فیصلے یا اس کی نص(Text) کے ہوتے ہوئے کسی اور کی بات ، فیصلہ یا مسئلہ نہیں مانا جا سکتا۔ ابن عمرؓ نے :
أأمرأبي یتبع أم أمر رسول ﷺ۔
کیا میرے باپ کی بات مانی جائے گی یا جناب رسالت مآبﷺ کی۔

کہہ کر باور کرادیا کہ فقہ میں اصل مقام قرآن کے بعد رسول اکرم ﷺ کا ہے نہ کہ رجال کا۔ اور جب لوگوں نے انہیں یہ کہا کہ وہ نہ صرف امیر المومنین ہیں بلکہ آپ کے والدبھی ہیں تو یہاں تک کہہ دیا: مَنْ أَبِیْ؟ میرے والد کون ہوتے ہیں؟ (مسند احمد)۔

حالات جیسے بھی بنتے گئے صحابہ کرام اسی اصول کے مطابق فقہ اسلامی کو آگے بڑھاتے گئے کہ مسائل کے حل کے لئے سب سے مقدم قرآن مجید، پھر احادیث رسول ہوا کرتی تھیں۔ مثلاً:

…آپ ﷺ کی وفات پر یہ مسئلہ کھڑا ہوا کہ آپ کو کہاں دفنایا جائے؟
…آپ ﷺفوت بھی ہوئے ہیں یا نہیں؟
…آپﷺ کے بعد خلیفہ کون ہو؟
…لشکر اسامہ کو روانہ کیا جائے یا نہیں؟
…رسول اللہﷺ کی میراث اور اس کی تقسیم کا معاملہ۔
…منکرین زکوٰۃ کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے؟
…جمع قرآن۔

اس ضمن میں صحابہء کرامؓ کی مختلف آراء نے فہم کے اختلاف کو ظاہر کیا۔ چنانچہ مسائل کے حل کیلئے انہوں نے ایسے اصولوں پر اتفاق کیا۔ جن کی مستقبل میں زمانہ اور حالات کی تبدیلی کے باوجود اساسی و ابدی حیثیت برقرار رہے۔ مثلاً یہ اصول:

… جو مسائل قرآن و سنت میں واضح ہیں انہیں من وعن لیا جائے اور اپنی رائے کا دخل نہ دیا جائے۔

… کسی بھی پیش آمدہ مسئلہ کے حل کیلئے اولاً قرآن مجید کو دیکھا جائے اگر اس میں مل جائے تو خیر ورنہ

… حدیث رسول میں اسے تلاش کیا جائے۔ اگر حدیث میں وضاحت ہوتو درست بصورت دیگر

… صحابہ کرامؓ کی متفقہ رائے و اجتہاد پر نظر کی جائے ورنہ

… اجتہاد کیا جائے۔

یہ اصول بھی دیکھنے میں آیا کہ اگر صحابہ کرام میں سے کسی کا اجتہاد و رائے بعد میں معلوم ہونے والی حدیث ِ رسول کے خلاف ہوتا تو وہ بخوشی اپنے اجتہاد یا رائے واپس لے لیتا۔ جیسے حج تمتع کی ممانعت کا آرڈیننس یا بیک وقت دی گئی طلاق ثلاثہ کے بارے میں ارڈیننس۔ فقہ اسلامی کی یہی وہ اساس تھی جو صحابہ کرام کے دور میں فراہم کر دی گئی تھی۔بعد میں فقہاء وعلماء امت نے بھی اسی کی بنیاد پر فقہ کی عمارت کھڑی کی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
فواتح الرحموت شرح مسلم الثبوت ص ۶۳۰میں ہے:
أَجْمَعَ الصَّحَابَۃُ عَلَی أَنَّ مَنِ اسْتَفْتَی أَبَابَکْرٍ وَعُمَرَ أَمِیْرَیِ الْمُؤمِنِینَ، فَلَہُ أَنْ یَسْتَفْتِیَ أَبَاہُرَیْرَۃَ وَمُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ وَغَیرَہُمَا وَیَعْمَلُ بِقَوْلِہِمْ بِغَیرِ نَکِیْرٍ۔
یعنی صحابہ کرام کا اس بات پر اجماع ہے کہ جو شخص ابوبکرؓ اور عمر ؓ سے فتوی پوچھے وہ ابوہریرہؓ اور معاذ بن جبلؓ اور ان کے سوا دیگرحضرات سے بھی بغیر کسی ہچکچاہٹ کے فتوے پوچھ کر عمل کرسکتا ہے کسی کو اس سے انکار نہیں۔

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ الإنصافص ۵۹میں فرماتے ہیں:
قَالَ ابْنُ الْہَمَامِ فِی آخِرِ التَّحْرِیْرِ: کَانُوا یَسْتَفْتُونَ مَرَّۃً وَاحِدًا، وَمَرَّۃً غَیرَہُ، غَیرَمُلْتَزِمِینَ مُفْتِیًّا وَاحِدًا۔
ابن الہمام نے التحریر کے آخیر میں لکھا ہے: کہ اسلاف کبھی کسی سے فتوے پوچھتے اور کبھی کسی سے۔ ایک مفتی کو انہوں نے لازمی نہیں پکڑا ہوا تھا۔

جن مسائل میں احادیث صحیحہ موجود تھیں اور ان میں بظاہرباہم کوئی تعارض نہیں تھا ان کے مطابق فتوی دینا صحابہ کے لئے آسان کام تھا۔ مشکل وہاں تھی جہاں سرے سے حدیث ہی موجود نہ تھی۔ ایسے مسائل کی تدوین کا پہلا طریقہ استنباط اور اجتہاد تھا۔ اس میدان میں صرف سیدنا عمر، سیدنا علی، سیدنا ابن عباس اور سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہم ہی خاص طور پر ممتاز تھے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ فرماتے ہیں:
وأَمَّا غَیْرُ ہٰؤلاَئِ الأرْبَعَۃِ فَکَانُوا یَرَوْنَ دِلاَلَۃً، وَلٰکِنْ مَا کَانُوا یُمَیِّزُونَ الرُّکْنَ وَالشَّرْطَ مِنَ الآدَابِ وَالسُّنَنِ، وَلَمْ یَکُنْ لَہُمْ قَولٌ عِنْدَ تَعَارُضِ الأخْبَارِ وَتَقَابُلِ الدَّلائِلِ إِلاَّ قَلِیلاً کَابْنِ عُمَرَ وَعَائِشَۃَ وَزَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ۔
ان چار کے علاوہ دیگر صحابہ بھی حدیث کے مطلب کو ضرور سمجھتے تھے لیکن وہ ارکان، شروط، آداب اور سنن میں امتیاز نہیں کرسکتے تھے۔ جن روایا ت میں تعارض ہوتا یا متضاد دلائل پائے جاتے ان میں بہت کم گفتگو فرماتے تھے۔ جیسے ابن عمرؓ، عائشہؓ، زید بن ثابتؓ رضی اللہ عنہم۔

دوسرا طریقہ یہ تھا کہ جو مسائل پیش آتے ان کے متعلق غور وفکر کئی کئی دن کرتے رہتے تاآنکہ وہ حل ہو جاتے۔ بہت سے مسائل باہمی مشورہ سے حل کر لیتے اس طریقہ کی ابتداء سیدنا ابوبکرؓ نے کی اور جناب فاروق اعظم نے اسے پروان چڑھایا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
دوسرا دور:
زمانہ تابعین ومابعد میں: اسلامی سلطنت کا پھیلاؤ جب ہوا تو درس وتدریس کی صورت میں علمی حلقے، جابجا قائم ہوگئے۔صغار صحابہ ہوں یا کبار تابعین انہیں میں علماء کی ایک بڑی کھیپ تیار ہوگئی جن کی حیثیت علم و مرتبے اور تقوی واجتہاد میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر تھی۔ امڈتے مسائل کے حل کے لئے علمی مکالمات ہوئے، تحریریں سامنے آئیں اور یوں ہر عالم کا اپنا اپنا علم واجتہاد ظاہر ہوا مگریہ سب کچھ وسعت دینی کے لئے ہوا۔ شاہ ولی اللہ محدثؒ دہلوی فرماتے ہیں:
وَکَذَلِکَ تَابِعُوہُمْ أَیْضًا یَرْجِعُونَ إِلَی الْکِتَابِ وَالسُّنَّۃِ، فَإِنْ لَمْ یَجِدُوا نَظَرُوا مَا أَجْمَعَ عَلَیہِ الصَّحَابَۃُ، فَإِنْ لَمْ یَجِدُوا اجْتَہَدُوا، وَاخْتَارَ بَعْضُہُمْ قَولَ صَحَابِیٍ فَرَآہُ الأَقْوَی فِی دِیْنِ اللّٰہِ تَعَالٰی۔
یہی تابعین کی حالت تھی وہ بھی فقہی مسائل میں کتاب وسنت کی طرف رجوع کیا کرتے تھے۔ اگر وہ کوئی مسئلہ کتاب وسنت میں نہ پاتے تو اس بات کو دیکھتے جس پر صحابہ کا اجماع ہے۔ اگر اجماع بھی نہ پاتے تو اپنے طورپر اجتہاد کرتے۔ بعض تابعین تو صحابی کے اس قول کو لے لیتے جسے وہ اللہ کے دین کے لئے قوی تر سمجھتے۔

ان کے بعد تیسری صدی ہجری کے آغاز سے اس کی انتہاء تک کچھ عالی مقام فقہاء امت کو نصیب ہوئے جنہوں نے اپنی فقہی بصیرت اور فہم کی بنیاد پر اسلامی فقہ کو ایک مستقل فن کی شکل دی اور علم مدون کیا جس کے لئے درج ذیل کوششیں ہوئیں:
 اصول بنے۔

--- قرآن و سنت کی نصوص کو اصطلاحات کی شکل دی۔

--- اقوالِ صحابہ اور ان کے فتاوٰی سے مدد لی۔

---جدید اصطلاحات کو متعارف کرایا۔

--- فروعات پر کام ہوا۔تاکہ نئے مسائل پروقت اجتہاد کار آمد فروعات سے مدد لی جاسکے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ان فقہاء کی فقہی حیثیت مسلمہ تھی۔ مگر مسائل کی جدّت، تنوع اور حالات کی تبدیلی کے پیش نظر ان فقہاء کے تلامذہ نے بھی اپنے اپنے دور میں اپنے پیش رو فقہاء کی اجتہادی آراء کے مقابلے میں اپنے اختلافی نوٹ لکھے۔ اور بیان کئے۔ اس فقہی توسع نے مسائل کی سبیل نکالی۔ اور بے جا سختی و تنگ نظری کو خیر باد کہا۔ جن فقہاء کا مزاج حدیث و سنت کی طرف زیادہ مائل رہا ان کا دیگر فقہاء کے نکتہء نظر سے اختلاف باقی رہا۔

قرون اولیٰ میں علماء و فقہاء کا رجحان زیادہ تر نصوص ہی کی طرف رہا۔عام مجتہدانہ کوششیں بھی براہ راست کتاب وسنت سے ماخوذ ہوتیں۔ اور عدالتی، معاشرتی، معاشی، خانگی معاملات کے فیصلہ جات انہی مذکورہ بالا اصولوں کے مطابق ہی ہوتے رہے۔ ان تمام مسائل پر شرعی دلائل کی روشنی میں غور ہوتااو رباہم اختلاف و غلطی کے امکان کے باوجود تمام اساتذہ، شاگرد، جج حضرات خوب غور وخوض کے بعد ایک دوسرے کی رائے کو قبول فرماتے اور یوں وقت کے مسائل کو حل کرلیا جاتا۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ وہ اپنی رائے پر قائم رہتے لیکن حسن ظن اور دینی محبت کے تعلقات بدستور قائم رہتے۔ اور یوں قرآن و سنت کی فقہی بصیرت اس دور کے فقہاء کی کثیر تعداد کو حاصل رہی۔ یہ مجتہدانہ فکر ان نیک، پاک باز ائمہ اجتہاد کے بعد مختصر عرصہ رہی جس کا اندازہ حضرت شاہ ولی اللہؒ نے چوتھی صدی ہجری کے آخر تک کا لگایا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
خیر القرون کے آخری دور میں غیر مسلموں کی فلسفیانہ کتب مسلم علماء کے ہاتھ لگیں۔ تو ان کے تراجم ظاہر ہونے کے بعد مسلم معاشرہ میں بہت سا فکری اختلاف در آیا۔ اجنبی نظریات اور غیروں سے اختلاط نے مسلم علماء کے رجحانات کو عقلی وفکری طور پر تقسیم کردیا۔ اس طرح علماء وفقہاء کے درمیان شریعت سے مستفید ہونے کے دو نظریات دیکھنے میں آئے۔

 پہلانظریہ یہ بنا کہ قرآن وسنت کے بیشتر مسائل عقل سے قریب تر ہیں۔ مزید استدلال کی گنجائش ان میں ہے۔ مگر اس گنجائش میں نصوص کو بدلا یا چھوڑا نہیں جاسکتا۔نصوص کو بہر حال عقل پر ترجیح ہوگی۔ دوسرے معنوں میں استدلال کو نصوص کے تابع رکھا جائے گا۔یہ لوگ اہل حدیث یا مدنی کہلائے جن کی کوشش یہ رہی کہ قرآن کریم کے ساتھ ساتھ صرف صحیح احادیث کوہی فقہی مسائل کے استنباط کے لئے چنا جائے اور عمل کے لئے بھی انہی کا انتخاب کیا جائے تاکہ لوگوں کا جناب رسالت مآب ﷺ سے تعلق… ایمان، محبت اور اطاعت میں صحیح انتخاب پر مبنی ہو۔اور یوں مستقبل میں بھی درآمد فتنوں سے محفوظ رہیں۔ اس سلسلے میں ان کے ہاں یہ لچک بھی دیکھنے میں آئی کہ صحیح احادیث کی عدم موجودگی میں ضعیف حدیث پر عمل کرنا اور اس سے استدلال کرنا قیاس یا ذاتی رائے کی نسبت احسن ہے۔

-- جب کہ دوسرے نظریے کے قائل یہ کہتے کہ عقلی استدلال کی بہت گنجائش تو ہے مگر ایک صاحب رائے کی فہم و بصیرت کو نصوص کے فہم پر چھوڑا جا سکتا ہے وہ جو سمجھے اس کی اقتداء کی جا سکتی ہے۔ اس لئے کہ اس کی رائے ایک وقیع رائے بھی ہو سکتی ہے۔اس ضمن میں کوئی فقیہ یا عالم، قرآن وسنت سے بھی استدلال لینا از بس ضروری سمجھتا تھا مگر قرآنی آیات سے استدلال کی صورت میں جو شواہد پیش کرتا یا تو وہ زیادہ تر عقلی ہوتے یا پھر ضعیف احادیث ہوا کرتی تھیں۔ یہ گروہ اہل الرائے یا کوفی کہلایا۔

یہ دور سوچ وفکر میں وسعت لئے ہوئے آیا تھا جس نے مجتہدین کے اجتہاد اور ان کے مستنبط مسائل واصول پر نقدو نظر بھی کی اور مزید تحقیق بھی۔جس نے معاشرہ کو سجھایا کہ فقہ اسلامی اب بھی اس کے ہمراہ ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
تیسرا دور:
دورِ جمود:
اس دوسرے نظریہ کو اتفاق کی بات ہے قبولیت عام ہوئی اور یوں جمود کے ایک ایسے دور کا آغاز ہوا جس کی وجہ سے امت اسلامیہ آج تک سنبھل نہ سکی۔اور پستی وپسماندگی اس کا مقدر بن گئی۔ تحقیق کو بتدریج معیوب سمجھا جانے لگا۔ احساس کمتری ایسا سمودیا گیا کہ اجتہاد کا ملکہ پانا آسان نہیں بلکہ اس کے لئے جو کڑی شرائط رکھی گئیں وہ کوئی غیر انسانی مخلوق کی صفات تو قرار دی جاسکتی ہیں انسانی نہیں۔ سبق دیا گیا کہ موجودہ حالات میں اجتہاد کرنا ایک دشوار گزار کام ہے اس لئے اس کے دروازے اب بند ہیں۔

یہ ایک المیہ ہے کہ تحقیق کے دروازے بند کرکے مسلمانوں نے اپنے بہترین دماغ دوسروں کو دے دیئے۔ وہ دینی علوم کی طرف رخ نہ کرسکے۔ حتی کہ علماء دین کی اپنی اولاد بھی اس علم میں اپنے لئے کوئی کشش نہ پا سکی۔ یوں ہماری اچھی نسل، خوبصورت دماغ دوسروں کے دست نگر ہوگئے۔ترقی وپستی صدیوں سے واضح نظرآنے کے باوجود ابھی تک ہما رامعیار یہ ہے کہ کیا نماز کے لئے لاؤڈ سپیکر کا استعمال جائز ہے؟ ٹی۔وی یا اس کے لئے تصاویر وفلم بنانا جائز ہے؟ کنویں میں اگر چوہا گرجائے تو کتنے ڈول نکالنا ہوں گے، تالاب میں اگر ناپاکی گرجائے تو اس کے پانی کونجس قرار دینے کے لئے تالاب کا سائز اور تالاب کے پانی کی مقداراتنی اتنی ہونی چاہئے وغیرہ۔ بس یہی ہماری علمی وفقہی آماجگاہیں ہیں۔ وہ فقہ جس پر ہمارے اسلاف نازاں تھے اسی کے بہی خواہوں نے چوتھی صدی ہجری میں دلائل تفصیلیہ سے استدلال لینابتدریج روک دیا ۔اپنی کم ہمتی، سستی ، لاعلمی، کند ذہنی،اور علمی بے ذوقی کا ثبوت پیش کردیا۔ روشن دماغ جب دوسروں کے دست نگر ہوں تو ان کی دینی علوم سے نفرت اور دنیاوی علوم سے رغبت لازمی ہے۔ اجتہاد کے دروازے بند ہونے کے درج ذیل عوامل تھے:

٭ … وہ کتب جنہیں متون (Texts)وشروح (Exegies)کا درجہ دیا گیا انہی پر ہی اکتفاء کرتے ہوئے انہیں قبول کرلیا گیا۔

٭ … اصل دلائل(قرآن وسنت) کی طرف توجہ بہت کم دی گئی۔

٭ … جو اپنے اکابرین سے منقول تھا اسی پر اکتفاء کیاگیا۔

٭ … ا ستدلال واستنباط کی راہ ترک کردی گئی۔ اس کی بجائے اسلاف کی مستنبط فروع کو کافی سمجھا گیا۔

٭… کسی امام یا فقیہ نے کسی آیت یا حدیث کی جزوی تعبیر پیش کی تو اسے ہی شریعت سمجھ لیا گیا۔اور اسے ہی فقہ اسلامی کہا گیا۔ جب کہ یہ شخصی فقہ ہے۔

٭ … دلائل اصلیہ یعنی قرآن وسنت اور اجماع وقیاس سے مستفید ہوناصرف مجتہد کا وظیفہ قرار دیا گیا۔

٭ … چند فقہاء کی رائے کو اجماع کا نام دے دیا گیا۔

یہ دور فقہ التقلید کا نام پا گیا۔ اس لئے کہ فقاہت اب فروع کو سمجھنے، پڑھنے اور پڑھانے تک محدود ہوگئی۔

فقہ اسلامی ۔ایک تعارف ، ایک تجزیہ
 
Top