کلیم حیدر
ناظم خاص
- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,747
- ری ایکشن اسکور
- 26,381
- پوائنٹ
- 995
اب میں ایک اور خاص پہلو کی طرف رجوع کرتا ہوں۔ وہ یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے جب حدیثوں کو اس طرح لکھ کر مدون کرنا شروع کیا اور اس کی تعلیم اپنے زمانے کے نوجوان مسلمانوں کو دینے لگے تو ابتداءً صحابہ کے ناموں کے تحت حدیثیں مدون ہوئیں۔ مثلاً میں اپنے شہر میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی کے پاس جا کر سبق لیتا ہوں اور ان سے سنی ہوئ حدیثوں کو جمع کرتا ہوں۔ دوسرے شہر میں رہنے والے صحابہ سے مجھے استفادہ کا موقع نہیں ملتا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ابتداءً صحابہ وار حدیثیں جمع ہوتی رہیں۔ صحابہ کے بعد کے دور میں ایک شخص کئ استادوں سے سے درس لیتا ہے۔ مثلاً وہ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شاگرد سے درس لینے اور ان کی روایت کردہ ساری حدیثوں کو قلم بند کرنے کے بعد ایک دوسرے صحابی کے شاگرد کے پاس جاتا ہے اور ان سے ان کی حدیثیں سنتا ہے۔ اس طرح رفتہ رفتہ دو تین نسلوں کے بعد ساری حدیثیں علماء کے علم میں آ گئیں۔ ایک اور چیز کا ذکر کرتا چلوں جو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق ہے اور ان کا قصہ بہت دلچسپ ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایسے صحابی ہیں جو دیر سے مسلمان ہوئے یعنی سنہ ٧ ہجری میں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات سے تین چار سال پہلے اسلام لائے۔ اس کے باوجود ان سے بے شمار حدیثیں مروی ہیں۔ اس کی وجہ وہ خود بیان کرتے ہیں کہ "دیگر صحابہ مثلاً ابوبکر، عمر، عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہم اور فلاں فلاں صحابی سارا دن اپنے کاروبار میں لگے رہتے، اپنی تجارت اور اپنی دکان میں مصروف رہتے۔ میں پیٹ بھرا بن کر مسجد نبوی کے اندر پڑا رہتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی باتوں کو سننے کا جتنا موقع مجھے ملتا، اتنا بڑے بڑے صحابہ کو بھی نہ ملتا، ان کا حافظہ بھی بڑا اچھا تھا، علمی ذوق بھی تھا، لکھنا بھی آتا تھا۔ انہوں نے بہت سی حدیثیں لکھیں۔ چنانچہ ان کے ایک شاگرد حسن بن عمرو بن امیہ ضمری نے ایک دن غالباً حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پیرانہ سالی کے زمانے میں، اپنے استاد سے کہا کہ "استاد، آپ نے فلاں چیز بیان کی تھی" انہیں یاد نہیں تھا مکر گئے۔ نہیں صاحب میں نے کبھی یہ نہیں کہا ایسی کوئی حدیث مجھے بالکل یاد نہیں۔ نہیں استاد، آپ نے ہی ہم سے یہ چیز بیان کی ہے۔ اس پر ان کا بیان ہے کہ استاد نے میرا ہاتھ پکڑا، اپنے گھر کی طرف چل دیے اور راستے میں یہ کہتے چلے کہ اگر واقعی میں نے وہ حدیث تم سے بیان کی ہے تو وہ میرے پاس تحریری صورت میں موجود ہونی چاہیے۔ چنانچہ گھر لائے، اپنی الماری سے ایک جلد نکالی ورق گردانی کی مگر نہیں ملی پھر دوسری جلد اور پھر تیسری جلد میں نظر دوڑائی۔ پھر اس کے بعد یک بہ یک خوشی کی حالت میں پکار اٹھے کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ اگر میں نے بیان کیا ہے تو وہ میرے ہاں تحریری صورت میں موجود ہونا چاہیے۔ دیکھو یہ موجود ہے۔ ٹھیک ہے۔ ابن حجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کے مزید برآں الفاظ یہ ہیں: "ارانا کتبا کثیرۃ من الحدیث" (ہمیں ابو ہریرہ نے حدیث کی بہت سی کتابیں دکھائیں) یعنی میں نے ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بہت سے کتابیں ان کے گھر کے کتب خانے میں دیکھیں۔ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا طرز عمل عالمانہ اور بہت دلچسپ تھا۔ ان کے پاس جو شاگرد آتے، سارے شاگردوں کو وہ ایک ہی چیز نہیں پڑھاتے تھے۔ ہر شاگرد کو الگ الگ حدیثیں پڑھاتے تھے۔ چنانچہ جب ہمام بن منبہ ان کے پاس آتے ہیں تو ان کو ایک خصوصی رسالہ سو ڈیڑھ سو حدیثوں کا مرتب کر کے دیتے ہیں۔ جو "صحیفہ ہمام بن منبہ" کہلاتا ہے۔ ایک دوسرا شاگرد آتا ہے، اس کے لیے ایک نیا مجموعہ تیار کرتے ہیں جو اس شاگرد کے نام سے منسوب ہوا۔ غرض حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ ہزاروں حدیثیں انہیں حفظ تھیں اور اپنے متعدد شاگردوں کو انہوں نے جو رسالے لکھ دیے تھے وہ آج تک محفوظ چلے آ رہے ہیں۔