باب اوّل: جمع القرآن بین الدفتین
قرآن کا مدار ہمیشہ سے ضبط و حفظ پر ہے۔مگر صحابہ کرام کی ایک جماعت حضور نبی کریمﷺ کے عہد میں حضورﷺ کے حکم اور ہدایت کے مطابق اس کو لکھتی رہتی تھی۔ چونکہ قرآن ۲۳؍ سال کے عرصہ میں تدریجاً نازل ہوا تھا اس لیے نزول اُن میں سے جو لوگ حاضر ہوتے تھے وہ لکھ لیتے تھے،کیونکہ قرآن۲۳؍ سال کے عرصہ میں تدریجاً نازل ہواتھا۔ اس طرح قرآن کریم حضورﷺ کی حیاتِ مبارک میں لکھا جاچکا تھا مگرایک جگہ جمع نہ تھا۔ صحابہ کرام کا اصل اِعتماد حضورﷺ کی تعلیم اور ضبط پرتھا۔ اُن میں سے بعض کوتمام، بعض کو نصف،بعض کو ربع اور بعض کو اس سے کم یا زیادہ یا دتھا اور ایسا کوئی نہ تھا جس کو چند سورتیں یاد نہ ہوں۔
حضرت ابوبکر صدیق (۱۱ھ) میں یمامہ کی لڑائی ہوئی اس میں پانچ سو سے زیادہ قراء قرآن شہید ہوگئے۔ اس سے حضرت عمر کو اَندیشہ ہوا کہ کہیں صحابہ کرام کی وفات سے قرآن معدوم نہ ہوجائے۔ انہوں نے حضرت ابوبکر سے درخواست کی کہ قرآن کو ایک جگہ جمع کرائیں۔ حضرت ابوبکر نے پہلے اِنکار کیا اور کہا کہ جو کام حضورﷺنے نہیں کیا میں اُس کو کیسے کروں؟مگر پھر پے در پے توجہ دلانے سے آمادہ ہوگئے اور حضرت زید بن ثابت انصاری کو اس خدمت پر مامور کیا۔ حضرت زید کہتے ہیں: ’’اگر مجھے پہاڑ کے اٹھانے کا حکم دیا جاتا تو اس سے آسان ہوتا‘‘ حضرت زیدنے باوجود حافظ ہونے کے ایک ایک آیت صحابہ کرام کی گواہی سے لکھی اور تمام قرآن کو جمع کردیا، مگر وہ متفرق صحیفے تھے جو تاحیات حضرت ابوبکر کے اور پھر حضرت عمر کے پاس رہے اور آپ کی شہادت کے بعد اُم المؤمنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے قبضہ میں آئے۔