ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
٭ امام شافعی فرماتے ہیں:
’’خداتعالیٰ نے قرآن، توریت اور انجیل میں صحابہ کرام کی تعریف کی ہے اور ان کے لیے وعدہ کیا ہے جو اُن کے بعد کسی اور کے لیے نہیں۔ اُن حضرات نے سنت رسولﷺ ہم تک پہنچائی۔ نزول وحی کا مشاہدہ کیا اور حضورﷺ کی مراد عموم، مخصص اور عزم و ارشاد اور سنت میں سے جو کچھ ہمیں معلوم نہیں وہ اُس سب کو جانتے تھے اور ہم سے ہر طرح کے علم، اجتہاد، ورع، عقل اور استنباط میں افضل تھے۔ اُن کی رائے ہمارے لیے ہماری رائے سے بدرجہا محمود اولیٰ ہے۔‘‘
٭ محقق کہتے ہیں:
’’صحابہ کرام نے الصراط، المصیطرون اور یبصط کو اصل کے خلاف جو بالسین تھی صاد سے اسی واسطے لکھا ہے کہ حامل قراتین ہوسکے اور یہی رعایت حذف و اثبات میں ہر جگہ رکھی ہے۔) اور سند صحیحہ متصلہ سے ثابت اور ائمہ فن کے یہاں مشہور ہو ( مقصد یہ ہے کہ اس قراء ۃ کو عادل ضبط نبیﷺ تک اپنے مثل سے روایت کرتے ہوں اور ائمہ ضابطین کے نزدیک مشہور بھی ہو، یعنی غلط اور شاذ نہ سمجھی جاتی ہو۔) وہ قراء ۃ صحیحہ اور ان اَحرف سبعہ میں سے ہے جن پر قرآن نازل ہوا۔‘‘
٭ محقق کہتے ہیں:
’’جو قراء ۃ اس طرح ثابت ہو اُس کا ردو انکار جائز نہیں بلکہ مسلمانوں پر اس کا قبول کرنا واجب ہے خواہ اَئمہ سبعہ کی قراء ات میں ہو یا عشرۃ کی یا مافوق عشرہ کی اور اگر اَرکان ثلٰثہ میں سے کوئی رکن مختل ہوجائے تو وہ ضعیف شاذ اور فاسد و باطل ہے خواہ سبعہ سے ہو یا مافوق سبعہ سے۔ تمام محققین اَئمہ سلف و خلف اس تعریف کو صحیح کہتے ہیں۔‘‘
حافظ ابوعمرو دانی،اور مہدوی نے یہی تصریح کی ہے باقی تمام متقدمین کابھی یہی مذہب ہے اور اُن میں سے کوئی اس کے خلاف نہیں۔
’’خداتعالیٰ نے قرآن، توریت اور انجیل میں صحابہ کرام کی تعریف کی ہے اور ان کے لیے وعدہ کیا ہے جو اُن کے بعد کسی اور کے لیے نہیں۔ اُن حضرات نے سنت رسولﷺ ہم تک پہنچائی۔ نزول وحی کا مشاہدہ کیا اور حضورﷺ کی مراد عموم، مخصص اور عزم و ارشاد اور سنت میں سے جو کچھ ہمیں معلوم نہیں وہ اُس سب کو جانتے تھے اور ہم سے ہر طرح کے علم، اجتہاد، ورع، عقل اور استنباط میں افضل تھے۔ اُن کی رائے ہمارے لیے ہماری رائے سے بدرجہا محمود اولیٰ ہے۔‘‘
٭ محقق کہتے ہیں:
’’صحابہ کرام نے الصراط، المصیطرون اور یبصط کو اصل کے خلاف جو بالسین تھی صاد سے اسی واسطے لکھا ہے کہ حامل قراتین ہوسکے اور یہی رعایت حذف و اثبات میں ہر جگہ رکھی ہے۔) اور سند صحیحہ متصلہ سے ثابت اور ائمہ فن کے یہاں مشہور ہو ( مقصد یہ ہے کہ اس قراء ۃ کو عادل ضبط نبیﷺ تک اپنے مثل سے روایت کرتے ہوں اور ائمہ ضابطین کے نزدیک مشہور بھی ہو، یعنی غلط اور شاذ نہ سمجھی جاتی ہو۔) وہ قراء ۃ صحیحہ اور ان اَحرف سبعہ میں سے ہے جن پر قرآن نازل ہوا۔‘‘
٭ محقق کہتے ہیں:
’’جو قراء ۃ اس طرح ثابت ہو اُس کا ردو انکار جائز نہیں بلکہ مسلمانوں پر اس کا قبول کرنا واجب ہے خواہ اَئمہ سبعہ کی قراء ات میں ہو یا عشرۃ کی یا مافوق عشرہ کی اور اگر اَرکان ثلٰثہ میں سے کوئی رکن مختل ہوجائے تو وہ ضعیف شاذ اور فاسد و باطل ہے خواہ سبعہ سے ہو یا مافوق سبعہ سے۔ تمام محققین اَئمہ سلف و خلف اس تعریف کو صحیح کہتے ہیں۔‘‘
حافظ ابوعمرو دانی،اور مہدوی نے یہی تصریح کی ہے باقی تمام متقدمین کابھی یہی مذہب ہے اور اُن میں سے کوئی اس کے خلاف نہیں۔