• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تبرکات کی شرعی حیثیت !!!

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
تبرکات کی شرعی حیثیت !!!

تبرکات کی شرعی حیثیت: یہ نہایت اہم مسئلہ ہے، کیونکہ بسا اوقات اس کی وجہ سے توحید کے منافی اقوال و افعال سرزد ہو جاتے ہیں ، اولیاء و صلحاء کی عبادت کا بنیادی سبب ان کی ذات ، آثار اور قبور کو متبرک سمجھنا تھا ، شروع میں انہوں نے ان کے جسموں کوتبرک کی نیت سے چھوا، پھر ان کو پکارنے لگے ، ان سے مدد مانگنے لگے ، پھر ان اولیاء سے کام آگے بڑھا تو مختلف جگہیں ، جمادات اور اوقات کو متبرک سمجھنے جانے لگے۔دراصل تبرک کا معنٰی یہ ہے کہ اجرو ثواب اور دین و دنیا میں اضافے کے لیے کسی مبارک ذات یا وقت سے برکت حاصل کرنا ۔

محققین علماء کے نزدیک تبرک کی دو قسمیں ہیں :

1... ممنوع تبرک: :
جو جائز تبرک میں شامل نہ ہویا شارع نے اس سے منع فرما دیاہو

۔2 ... مشروع تبرک :
جسے اللہ ورسول نے جائز قرار دیا ہو ۔

ممنوع تبرک:ممنوع تبرک شرک میں داخل ہے، اس کی دلیل یہ ہے:
سیدنا ابو واقد اللیثی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حنین کی طرف نکلے ، اس وقت ہم نئے نئے مسلمان ہوئے تھے ، ایک بیری تھی ، جس کے پاس مشرکین ٹھہرتے اور (تبرک کی غرض سے)اپنااسلحہ اس کے ساتھ لٹکاتے ، اسے ذات ِ انواط کہا جاتا تھا ، ہم نے عرض کی ، اے اللہ کے رسول !جس طرح مشرکین کا ذات ِ انواط ہے ، ہمارے لیے بھی کوئی ذات ِ انواط مقرر کر دیجیے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : الله اکبر ، انها السنن ، قلتم ، والذی نفسی بیده ، کما قالت بنو اسرائیل لموسی {اجْعَلْ لَّنَآ اِلٰهًا کَمَا لَهُمْ اٰلِهَةٌ}(الاعراف ؛ ۱۳۸)
لترکبن سنن من کان قبلکم ۔''اللہ اکبر ! اللہ کی قسم ، یہ پرانا طریقہ ہے، تم نے اسی طرح کہا ہے، جس طرح بنی اسرائیل نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا تھا
{اجْعَلْ لَّنَآ اِلٰهًا کَمَا لَهُمْ اٰلِهَةٌ} (الاعراف ؛ 138)"
ہمارے لیے بھی کوئی معبود بنا دیجیے ، جس طرح ان (کافروں کے معبود ہیں )ضرور تم اپنے سے پہلے لوگوں کے نقش قدم پر چلو گے۔''
(مسند الامام احمد : 218/25، جامع الترمذی : 2180،مسند الحمیدی ؛ 868، المعجم الکبیر للطبرانی 274/3، صحیح)
امام ِ ترمذی نے اس حدیث کو ''حسن صحیح'' اور امام ابن حبان (4702)نے ''صحیح'' کہاہے۔

مشروع تبرک:
آئیے اب مشروع تبرک کے بارے میں جانتے ہیں : عیسیٰ بن طہمان کہتے ہیں :
اخرج الینا انس رضی الله عنه نعلین جرداوین ، لهما قبالان ، فحدثنی ثابت البنانی بعد عن انس انهما نعلا النبی صلی الله علیه وسلم۔''سیدناانس رضی اللہ عنہ ہمارے پاس بغیر بالوں کے چمڑے کے دو جوتے لائے ، ان کے دو تسمے تھے ، اس کے بعدمجھے ثابت بنانی نے سیدنا انس کے واسطے سے بتایا کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جوتے تھے۔''(صحیح بخاری : 438/1،ح؛3107)ا

یک دفعہ سیدہ اسماء بنت ِ ابی بکر رضی اللہ عنہا نے ایک سبز جبّہ نکالا اور فرمایا: هذه
کانت عند عائشة حتی قبضت ، فلما قبضت قبضتها ، وکان النبی صلی الله علیه وسلم یلبسها ، فنحن نغسلها للمرضیٰ یستشفیٰ بها ۔''یہ سیدہ عائشہ کے پاس تھا ، آپ فوت ہوئیں تو میں نے اپنے پاس رکھ لیا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے زیب ِ تن فرمایا کرتے تھے ، ہم اسے بیماروں کے لیے شفا کی امید سے پانی میں ڈالتے ہیں ۔''
(صحیح مسلم :2/ 190، ح: 2049)

سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے ایک پیالہ اپنے پاس رکھا ہوا تھا ، جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے پانی پیا تھا ، ابو حازم کہتے ہیں کہ سہل نے اسے نکالااور ہم نے اس میں پانی پیا، اس کے بعد امام عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے ان سے مانگا ، انہوں نے ان کو تحفہ میں دے دیا۔
(صحیح بخاری 842/2 ح: 5437)

عبیدہ رحمہ اللہ کہتے ہیں ، ہمارے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مبارک تھے ، جنہیں ہم نے سیدناانس یا ان کے گھر والوں سے لیا تھا ، کہتے ہیں ، اگر میرے پاس آپ کا ایک بال ہو تو مجھے دنیا و مافیہا سے زیادہ پیارا ہے۔
(صحیح بخاری : 29/1،ح:0 17 )
یاد رہے کہ یہ تبرک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص تھا ، اب کسی اور کو قیاس نہیں کیا جاسکتا ۔

حافظ شاطبی فرماتے ہیں :ان الصحابة بعد موته لم یقع من أحد منهم شیء من ذلک بالنسبة الی من خلفه ، اذ لم یترک النبی صلی الله علیه وسلم بعدہ فی الأمة أفضل من أبی بکر الصدیق رضی الله عنه ، فهو کان خلیفته ، ولم یفعل به شیء من ذلک ، ولا عمر رضی الله عنه ، وهو کان أفضل الأمة بعدہ ، ثم کذلک عثمان ، ثم علی ، ثم سائر الصحابة الذین لا أحد أفضل منهم فی الأمة ، ثم لم یثبت لوأحد منهم من طریق صحیح معروف أنّ متبرکا تبرک به علی أحد تلک الوجوه أو نحوها ، بل اقتصروا فیهم علی الاقتداء بالٔافعال والٔاقوال والسیر التی اتبعوا فیها النبی صلی الله علیه وسلم ، فهو اذا اجماع منهم علی ترک تلک الأشیائ۔''
صحابہ کرام نے آپ کی وفات کے بعد آپ کے علاوہ کسی کے لیے یہ(تبرک)مقرر نہ کیا ، کیونکہ آپ کے بعد امت میں سب سے افضل سیدناابو بکر صدیق تھے ، آپ کے بعد خلیفہ بھی تھے ، ان کے ساتھ اس طرح کا کوئی معاملہ نہیں کیا گیا ، نہ سیدنا عمر نے ہی ایسا کیا، وہ سیدنا ابو بکر کے بعد امت میں سب سے افضل تھے ، پھر اسی طرح سیدنا عثمان و علی رضی اللہ عنہما اور دوسرے صحابہ کرام تھے ، کسی سے بھی باسند ِ صحیح ثابت نہیں کہ کسی نے ان کے بارے میں اس طرح سے کوئی تبرک والا سلسلہ جاری کیا ہو، بلکہ ان (صحابہ )کے بارے میں انہوں (دیگر صحابہ و تابعین ) نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع پر مبنی اقوال و افعال اورطریقہ کا ر پر اکتفاکیا ہے، لہٰذا یہ ان کی طرف سے ترک ِ تبرکات پر اجماع ہے ۔
''(الاعتصام ؛9-2/8)

سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لا تشد الرحل الا الی ثلاثة مساجد ، المسجد الحرام ، ومسجدی هذا، والمسجد الأقصیٰ۔''(تبرک کی نیت سے)سامان صرف ان تین مسجدوں کی طرف باندھا جائے گا، مسجد ِ حرام ، میری مسجد(مسجد ِ نبوی)اور مسجد ِ اقصیٰ ۔'
'(صحیح بخاری : 1/159، ح؛ 1189، صحیح مسلم ؛ 1/247،ح؛ 1397)

حافظ ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ اگرکوئی ان تین مسجدوں کے علاوہ کسی اور جگہ کی طرف سامان باندھ کر جانے کی نذر مان لے تو اس پر نذر کا پور ا کرنا ضروری نہ ہوگا ، اس بات پر ائمہ دین کا اتفاق ہے۔
(مجموع الفتاوٰی :184/27 مختصرا)

حصولِ برکت کی خاطر انبیا ء و صلحاء کی قبرو ں کی زیارت کے لیے سفر بدعت ہے، صحابہ کرام و تابعین عظام نے ایسا نہیں کیا ، نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم دیا۔امام ابراہیم نخعی تابعی فرماتے ہیں :
لا تشد الرحال الا الی ثلاثة مساجد ؛ المسجد الحرام ، مسجد الرسول ، وبیت المقدس۔''(برکت حاصل کرنے کی نیت سے)رخت ِ سفر صرف تین مسجدوں کی طرف باندھا جائے گا، مسجد ِ حرام ، مسجد ِ نبوی اور بیت المقدس۔'
'(مصنف ابن ابی شیبة ؛ 2/45، وسنده صحیح)
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
10390156_574054739377109_4544798642066788993_n.png
حافظ شاطبی فرماتے ہیں:

"صحابہ کرام نے آپ کی وفات کے بعد آپ کے علاوہ کسی کےلیے یہ (تبرک) مقرر نہ کیا، کیونکہ آپ کے بعد امت میں سب سے افضل سیدنا ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ)تھے، آپ (ﷺ) کے بعد خلیفہ بھی تھے، ان کے ساتھ اس طرح کا کوئی معاملہ نہیں کیا گیا، نہ سیدنا عمر(رضی اللہ عنہ) نے ہی ایسا کیا، وہ سیدنا ابوبکر کے بعد امت میں سب سے افضل تھے، پھر اسی طرح سیدنا عثمان و علی رضی اللہ عنہما اور دوسرے صحابہ کرام تھے، کسی سے بھی باسندِ صحیح ثابت نہیں کہ کسی نے ان کے بارے میں اس طرح سے کوئی تبرک والا سلسلہ جاری کیا ہو، بلکہ ان (صحابہ) کے بارے میں انہوں (دیگر صحابہ و تابعین) نے نبی اکرم ﷺ کے اتباع پر مبنی اقوال و افعال اور طریقہ کار پر اکتفا کیا ہے، لہٰذا یہ ان کی طرف سے ترکِ تبرکات پر اجماع ہے۔"

(الاعتصام:8/2-9)
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,123
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
جب لوگ ایسے ” تبرکات “ کے پیچھے ہو لیتے ہیں تو اصل ” تبرک ( قرآن ) “ میں کہاں دلچسپی لیں گے ؟ انہیں تو صرف ” سستی محبت “ درکار ہے بھلا ” کتاب مبارک “ کا کہاں دھیان ؟ یہی وجہ ہے کہ ” قرآن “ بھی انکو اپنے ” حقیقی تبرک “ سے محروم رکھتا ہے اور انکو ” خبر “ تک نہیں ہوتی۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
جب لوگ ایسے ” تبرکات “ کے پیچھے ہو لیتے ہیں تو اصل ” تبرک ( قرآن ) “ میں کہاں دلچسپی لیں گے ؟ انہیں تو صرف ” سستی محبت “ درکار ہے بھلا ” کتاب مبارک “ کا کہاں دھیان ؟ یہی وجہ ہے کہ ” قرآن “ بھی انکو اپنے ” حقیقی تبرک “ سے محروم رکھتا ہے اور انکو ” خبر “ تک نہیں ہوتی۔
کیا ھمارے لئے قران کافی ہے ؟؟؟؟؟

الحمد للہ

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ سنت نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم شریعت کا مصدرنہیں ہے ، اوروہ اپنے آپ کو اھل قرآن کا نام دیتے ہیں ، اور کہتے ہیں کہ قرآن ہمارا امام ہے اس میں جو کچھ حلال ہے ہم اسے حلال اور جو حرام کیا گيا ہے اسے حرام جانتے ہیں ۔

اور ان کے خیال میں سنت نبویہ میں ایسی احادیث داخل کر دی گئيں ہیں جو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نہیں بلکہ ان کے ذمہ جھوٹ ہے ، تو یہ لوگ ایسی قوم میں سے تعلق رکھتے ہیں جن کے متعلق نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا ہے :

( قریب ہے کہ ایک شخص تکیہ لگا کر بیٹھا ہو گا تو اسے میری احادیث میں سے کو‏‏ئ حديث بیان کی جاۓ گی اور وہ جواب میں کہے گا کہ اللہ تعالی کی کتاب کا فی ہے اس میں ہم جو اشیاء حلال پائيں گے اسے حلال جانے اور جو کچھ حرام پائيں گے اسے حرا م جانیں گے ، خبردار ! اور بیشک اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جو حرام کیا ہے وہ بھی اللہ تعالی کے حرام کردہ کی طرح ہے )

الفتح الکبیر ( 3 / 438 ) اور امام ترمذی نے اسے الفاظ کے کچھ اختلاف کے ساتھ روایت کیا اور اسے حسن صحیح کہا ہے ( سنن ترمذی بشرح ابن العربی ، ط ، الصاوی 10 / 132 )
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,123
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
کیا ھمارے لئے قران کافی ہے ؟؟؟؟؟

الحمد للہ

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ سنت نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم شریعت کا مصدرنہیں ہے ، اوروہ اپنے آپ کو اھل قرآن کا نام دیتے ہیں ، اور کہتے ہیں کہ قرآن ہمارا امام ہے اس میں جو کچھ حلال ہے ہم اسے حلال اور جو حرام کیا گيا ہے اسے حرام جانتے ہیں ۔

اور ان کے خیال میں سنت نبویہ میں ایسی احادیث داخل کر دی گئيں ہیں جو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نہیں بلکہ ان کے ذمہ جھوٹ ہے ، تو یہ لوگ ایسی قوم میں سے تعلق رکھتے ہیں جن کے متعلق نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا ہے :

( قریب ہے کہ ایک شخص تکیہ لگا کر بیٹھا ہو گا تو اسے میری احادیث میں سے کو‏‏ئ حديث بیان کی جاۓ گی اور وہ جواب میں کہے گا کہ اللہ تعالی کی کتاب کا فی ہے اس میں ہم جو اشیاء حلال پائيں گے اسے حلال جانے اور جو کچھ حرام پائيں گے اسے حرا م جانیں گے ، خبردار ! اور بیشک اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جو حرام کیا ہے وہ بھی اللہ تعالی کے حرام کردہ کی طرح ہے )

الفتح الکبیر ( 3 / 438 ) اور امام ترمذی نے اسے الفاظ کے کچھ اختلاف کے ساتھ روایت کیا اور اسے حسن صحیح کہا ہے ( سنن ترمذی بشرح ابن العربی ، ط ، الصاوی 10 / 132 )
یہ ”سبق“آپ ”اہلِ قرآن“کو دیں۔
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,123
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
کیا آپ صحیح حدیث کو مانتے ہے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟
میں اپنی بات کو بار بار ”دھرانا“ پسند نہیں کرتالہذا آپ اس ”مضمون“کو پڑھ لیں آپ کو پتہ چل جائےگا کہ میرا ”مؤقف“کیا ہے ؟ اور ”منکرینِ حدیث“کون ہیں ؟
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
کیا ھمارے لئے قران کافی ہے ؟؟؟؟؟

الحمد للہ

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ سنت نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم شریعت کا مصدرنہیں ہے ، اوروہ اپنے آپ کو اھل قرآن کا نام دیتے ہیں ، اور کہتے ہیں کہ قرآن ہمارا امام ہے اس میں جو کچھ حلال ہے ہم اسے حلال اور جو حرام کیا گيا ہے اسے حرام جانتے ہیں ۔

اور ان کے خیال میں سنت نبویہ میں ایسی احادیث داخل کر دی گئيں ہیں جو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نہیں بلکہ ان کے ذمہ جھوٹ ہے ، تو یہ لوگ ایسی قوم میں سے تعلق رکھتے ہیں جن کے متعلق نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا ہے :

( قریب ہے کہ ایک شخص تکیہ لگا کر بیٹھا ہو گا تو اسے میری احادیث میں سے کو‏‏ئ حديث بیان کی جاۓ گی اور وہ جواب میں کہے گا کہ اللہ تعالی کی کتاب کا فی ہے اس میں ہم جو اشیاء حلال پائيں گے اسے حلال جانے اور جو کچھ حرام پائيں گے اسے حرا م جانیں گے ، خبردار ! اور بیشک اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جو حرام کیا ہے وہ بھی اللہ تعالی کے حرام کردہ کی طرح ہے )

الفتح الکبیر ( 3 / 438 ) اور امام ترمذی نے اسے الفاظ کے کچھ اختلاف کے ساتھ روایت کیا اور اسے حسن صحیح کہا ہے ( سنن ترمذی بشرح ابن العربی ، ط ، الصاوی 10 / 132 )
محترم عامر بھائی-

قرآن ہی تو اس بات کی دعوت دے رہا ہے کہ الله اور اس کے رسول کی اطاعت کرو -

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَرَسُولَهُ وَلاَ تَوَلَّوْا عَنْهُ وَأَنتُمْ تَسْمَعُونَ سوره الانفال ٢٠
اے ایمان والو! تم اللہ کی اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرو اور اس سے روگردانی مت کرو حالانکہ تم سن رہے ہو-

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اسْتَجِيبُواْ لِلّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُم لِمَا يُحْيِيكُمْ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ وَأَنَّهُ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ سوره الانفال ٢٤
اے ایمان والو الله اور رسول کا حکم مانو جس وقت تمہیں اس کام کی طرف بلائے جس میں تمہاری زندگی ہے اور جان لو کہ الله آدمی اور اس کے دل کے درمیان آڑ بن جاتا ہے اور بے شک اسی کی طرف جمع کیے جاؤ گے-

ظاہر ہے ایک سچا مسلمان قرآن پڑھ کر ہی احادیث نبوی پر عمل کرے گا - T H K بھائی کا یہی مطلب ہے - کہ اگر کوئی ان تبرکات کے چکر میں پڑ گیا تو قرآن و احادیث نبوی کے جو اصلی احکامات ہیں ان پر عمل سے محروم ہو جائے گا اور پھر دنیا و آخرت میں ذلت و عذاب کا موجب ہو گا -جیسے آج کل مسلمانوں کی اکثریت اس کا مونھ بولتا ثبوت ہے - انہی خرافاتی عقیدوں کی وجہ سے گمراہی کے دہانے پرکھڑی ہے-

جب کہ قرآن تو کہتا ہے کہ:

وَمَا عَلَّمْنَاهُ الشِّعْرَ وَمَا يَنْبَغِي لَهُ ۚ إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ وَقُرْآنٌ مُبِينٌ -لِيُنْذِرَ مَنْ كَانَ حَيًّا وَيَحِقَّ الْقَوْلُ عَلَى الْكَافِرِينَ سوره یٰسین ٣٩-٧٠
اور ہم نے اس نبی کو شعر نہیں سکھایا اور نہ یہ اس کے شایان شان تھا- یہ قرآن تو صرف ایک واضح نصیحت ہے- [/HL]تاکہ جو زندہ ہے اسے کے ذریے انھیں ڈرائے اور کافروں پر الزام ثابت ہو جائے -
 
Top