ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
رشد کے بارے میں تاثرات اور گزارشات
رب کائنات نے قرآن مجید کو انسان کی عملی زندگی کو عروجِ کمال سے ہمکنار کرنے کے لئے ہی نازل نہیں کیابلکہ اس کے نزول کا مقصد یہ بھی ہے کہ مسلمان اس کی تلاوت سے دل کا قرار اور طبیعت میں ٹھہراؤ حاصل کریں۔
دل میں قرار اور طبیعت میں ٹھہراؤ اس وقت پیدا ہوگا جب قرآن مجید کو کتاب اللہ سمجھ کر اس کے آداب کے مطابق پڑھا جائے ۔جس کے بارے میں ارشاد خداوندی ہے:
’’اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰہُمُ الْکِتٰبَ یَتْلُوْنَہٗ حَقَّ تِلَاوَتِہِ اُوْلٰئِکَ یُؤمِنُوْنَ بِہٖ وَمَنْ یَّکْفُرْ بِہٖ فَاُوْلٰئِکَ ہُمُ الْخٰسِرُوْنَ‘‘(البقرۃ:۱۲۱)
تلاوت جب اس کے حقوق اور آداب کے مطابق ہو تو آدمی اپنے رب سے ہم کلامی کی لذت محسوس کرتا ہے، جس سے اس کی طبیعت میں قرار اور دل میں نور پیدا ہوتا ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ قرآن مجید کے حروف کی صفات اور مخارج کا خیال رکھے۔ حروف مخارج کے خیال رکھنے کا یہ معنی ہرگز نہیں کہ آدمی اسے ایک فن کے طور پرتکلف کے ساتھ پڑھے ۔ رگوں کے پھولنے، کانوں پر ہاتھ رکھ کر پڑھنے، آنکھوں کو بار بار جھپکنے اور چہرے کا رنگ غیر معمولی طور پر تبدیل ہونے کو اہل تجوید نے تکلف قرار دیا ہے۔ یہی وجہ ہے قراء ت سے متعلقہ تمام اہل علم کا اتفاق ہے کہ تلاوت کے دوران قاری قرآن کو تکلف سے ہر ممکن طور پر گریز کرناچاہیے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ابتداء میں تکلف کیے بغیر قرآن مجید کی تلاوت درست نہیں ہو سکتی، لیکن زندگی بھر بالخصوص نماز کی حالت میں تکلف کرنا کسی صورت جائز نہیں ہو سکتا ۔
الحمد للہ ہمارے کہنہ مشق اساتذہ کی غالب اکثریت تکلف سے پرہیز کرتی ہے ۔جہاں تک مسلک اہل حدیث کے حاملین میں تجوید کے فروغ پانے کا تعلق ہے اس کے بانی حضرت مولانا سیدداؤد غزنویاور مولانا محمد اسماعیل سلفی تھے۔ جنہوں نے جماعت کے امیر اور ناظم اعلی ہونے کی حیثیت سے اہل حدیث حضرات بالخصوص علماء کرام میں تجوید کے ساتھ قرآن مجیدپڑھنے کا شعور پیدا کیا۔ حالانکہ اس زمانے میں کچھ سلفی علماء تجوید کو خلافِ شرع اور تکلف قرار دیتے تھے، لیکن حضرت سید داؤد غزنوی اور حضرت مولانامحمد اسماعیل سلفی نے نہ صرف فن تجوید کی سرپرستی فرمائی بلکہ دونوں بزرگوں نے اپنے ہاں تجوید کے شعبے قائم کیے۔
رب کائنات نے قرآن مجید کو انسان کی عملی زندگی کو عروجِ کمال سے ہمکنار کرنے کے لئے ہی نازل نہیں کیابلکہ اس کے نزول کا مقصد یہ بھی ہے کہ مسلمان اس کی تلاوت سے دل کا قرار اور طبیعت میں ٹھہراؤ حاصل کریں۔
دل میں قرار اور طبیعت میں ٹھہراؤ اس وقت پیدا ہوگا جب قرآن مجید کو کتاب اللہ سمجھ کر اس کے آداب کے مطابق پڑھا جائے ۔جس کے بارے میں ارشاد خداوندی ہے:
’’اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰہُمُ الْکِتٰبَ یَتْلُوْنَہٗ حَقَّ تِلَاوَتِہِ اُوْلٰئِکَ یُؤمِنُوْنَ بِہٖ وَمَنْ یَّکْفُرْ بِہٖ فَاُوْلٰئِکَ ہُمُ الْخٰسِرُوْنَ‘‘(البقرۃ:۱۲۱)
تلاوت جب اس کے حقوق اور آداب کے مطابق ہو تو آدمی اپنے رب سے ہم کلامی کی لذت محسوس کرتا ہے، جس سے اس کی طبیعت میں قرار اور دل میں نور پیدا ہوتا ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ قرآن مجید کے حروف کی صفات اور مخارج کا خیال رکھے۔ حروف مخارج کے خیال رکھنے کا یہ معنی ہرگز نہیں کہ آدمی اسے ایک فن کے طور پرتکلف کے ساتھ پڑھے ۔ رگوں کے پھولنے، کانوں پر ہاتھ رکھ کر پڑھنے، آنکھوں کو بار بار جھپکنے اور چہرے کا رنگ غیر معمولی طور پر تبدیل ہونے کو اہل تجوید نے تکلف قرار دیا ہے۔ یہی وجہ ہے قراء ت سے متعلقہ تمام اہل علم کا اتفاق ہے کہ تلاوت کے دوران قاری قرآن کو تکلف سے ہر ممکن طور پر گریز کرناچاہیے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ابتداء میں تکلف کیے بغیر قرآن مجید کی تلاوت درست نہیں ہو سکتی، لیکن زندگی بھر بالخصوص نماز کی حالت میں تکلف کرنا کسی صورت جائز نہیں ہو سکتا ۔
الحمد للہ ہمارے کہنہ مشق اساتذہ کی غالب اکثریت تکلف سے پرہیز کرتی ہے ۔جہاں تک مسلک اہل حدیث کے حاملین میں تجوید کے فروغ پانے کا تعلق ہے اس کے بانی حضرت مولانا سیدداؤد غزنویاور مولانا محمد اسماعیل سلفی تھے۔ جنہوں نے جماعت کے امیر اور ناظم اعلی ہونے کی حیثیت سے اہل حدیث حضرات بالخصوص علماء کرام میں تجوید کے ساتھ قرآن مجیدپڑھنے کا شعور پیدا کیا۔ حالانکہ اس زمانے میں کچھ سلفی علماء تجوید کو خلافِ شرع اور تکلف قرار دیتے تھے، لیکن حضرت سید داؤد غزنوی اور حضرت مولانامحمد اسماعیل سلفی نے نہ صرف فن تجوید کی سرپرستی فرمائی بلکہ دونوں بزرگوں نے اپنے ہاں تجوید کے شعبے قائم کیے۔