- شمولیت
- ستمبر 26، 2011
- پیغامات
- 2,767
- ری ایکشن اسکور
- 5,410
- پوائنٹ
- 562
تبلیغی جماعت میں تبدیلی کے آثار نظر آرہے ہیں ؟
------------------------------------------------------
آج کافی عرصے بعد ایک بار پھر کراچی میں مولانا طارق جمیل صاحب کا بیان سننے کا موقع ملا, اگرچہ کئی سال پہلے ہی جم غفیر, پارکنگ کےمسائل اور دھکم پیل کی وجہ سے میں نے توبہ ہی کررکھی تھی کہ آئندہ مولانا صاحب سے استفادے کےلئیے براہ راست اجتماع گاہ پنہنچنے کےبجائے ریکارڈڈ بیانات ہی سننے پر اکتفاء کیاجائے,
تاھم ایک بہت ہی اہم چیز جس کا شاید صرف مجھے ہی نہیں اور بھی دوستوں کو تجربہ ہوا ہو, وہ یہ کہ کسی بھی دینی شخصیت یا صاحب علم سے براہ راست سامنے بیٹھ کر سننے اور سمجھنے سے جو روحانی کیف حاصل ہوتا ھے اس کا کوئی موازنہ کسی ریکارڈڈ بیان سے کبھی کیا ہی نہیں جاسکتا,
اگرچہ آج بھی انہوں نے اسی روائتی انداز میں اللہ کی عظمت و بڑائی کو عربی و اردو کے حسین امتزاج کے ساتھ بیان کیا, اور پھر بیان کا بہت سا حصہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سےمحبت اور حسن اخلاق کےاپنانے پر زور دیا,
تاھم دو بڑی اھم باتیں جس کی جانب عام طور سے تبلیغی جماعت میں توجہ نہیں دی جاتی اور بہت سے معترضین بالکل بجا طور پر اس حوالےسے اعتراض بھی کرتےہیں اور درست کرتےہیں,
ان میں سےایک یہ کہ وہاں تبلیغ و دعوت کی تمام تر بنیاد بجائے قرآن کے فضائل اعمال ھے, آج اسی طرف مولانا صاحب نے بڑے ہی درد بھرے انداز میں جیسا کہ وہ دیگر اور امور کی طرف متوجہ کرنےکےلئیے کرتے ہیں,
تبلیغ والوں کو براہ راست مخاطب کرکے کہا کہ خدارا زندگی فضائل اعمال سےنہیں بدلتی, فضائل کی کتاب تو (عارضی طور پر) لوگوں کو جماعت میں سنائی جاتی ھے, اس کا یہ مقصد نہیں کہ ساری زندگی فضائل اعمال ہی پڑھتےرہو,
زندگی بدلنا چاہتے ہو تو قرآن سمجھ کر پڑھو, قرآن سے رشتہ قائم کرو, صرف پانچ سو آیات ایسی ہیں جن میں علماء کی رہنمائی کی ضرورت ھے باقی پورا قرآن تم سے مخاطب ہے,
مزید ایک ایسی بات جو کم از کم تبلیغ کے پلیٹ فارم سے پہلی بار سننے کو ملی وہ مولانا صاحب کے یہ الفاظ تھے,
(کسی قدر معمولی لفظی تصرف کےساتھ,)
"ایک اور نادانی کی بات تبلیغی بھائیوں نے پھیلا رکھی ھے , وہ ھے یقین , اللہ سے براہ راست پلنے کا یقین, ہاتھ اٹھاو اللہ سے براہ راست لےلو, یہ بات پتہ نہیں کہاں سے آگئی,
حضرت عمر کے دور میں کچھ لوگ مسجد نبوی آئے, (ٹوٹے پھوٹےحال) آپ نے پوچھا کون ہو؟
عرض کیا "یقین والے" , آپ نے دو لتر لگائے, او اللہ تمہیں آسمان سے براہ راست دے گا, چلو جاکے رزق تلاش کرو, محنت کرو,
ارے بھائیو, غلط یقین بددیانتی ھے, جھوٹ بول کر سودا بیچنا ھے, بےایمانی کرنےوالا غلط یقین والا ھے,
سچ بولنا, دیانتداری سے کام کرنا, جھوٹ نا بولنا , ایماندری سے اپنا کام کرنا , یہ ھے صحیح یقین والا,
یہ تم سے کس نے کہہ دیا کہ کام ہی نا کرو اور اللہ سے براہ راست مانگ لو؟؟؟'"
...................
اول اول مجھے خاصی حیرانگی بھی ہوئی بالخصوص یقین کےحوالے سے تبلیغ میں یہ بات گویا سب سے اولین ستون کی حیثیت رکھتی ھے, تاھم بہت سے ناسمجھ دوست چونکہ اس سے غلط فہمی کا شکار بھی ہوجاتےہیں غالبا" اسی کا احساس کرتےہوئے مولانا صاحب نے اس بنیادی Dogma کی تصحیح کی کوشش فرمائی,
جو احباب تبلیغی جماعت کے اسٹرکچر کو قریب سے جانتےہیں ان کےلئیے یہ دونوں ہی باتیں بڑی حدتک حیران کن ہیں,
اور یقینا" بہت سوں کےلئیے خوشگوار حیرت کا باعث بھی,
باقی کا پورا بیان جو تقریبا" دو ڈھائی گھنٹے پر مشتمل تھا اس میں کم و بیش انہی روائتی تبلیغی باتوں کا تذکرہ تھا جو ہم عموما" ان کے بیانات میں سنتے آئے ہیں, تاھم یہ دو باتیں مجھے خصوصیت سے بہت اہم اور کسی حد تک ایک مثبت تبدیلی کا اشارہ معلوم ہوئیں.
اگرچہ بعض احباب اسے میری خوش فہمی ہی سمجھیں تاھم الفاظ ہی سہی امید ھے عملا" بھی کوئی تبدیلی کی امید کی جاسکتی ھے.
فیس بک :
Syed Asrar Ahmed------------------------------------------------------
آج کافی عرصے بعد ایک بار پھر کراچی میں مولانا طارق جمیل صاحب کا بیان سننے کا موقع ملا, اگرچہ کئی سال پہلے ہی جم غفیر, پارکنگ کےمسائل اور دھکم پیل کی وجہ سے میں نے توبہ ہی کررکھی تھی کہ آئندہ مولانا صاحب سے استفادے کےلئیے براہ راست اجتماع گاہ پنہنچنے کےبجائے ریکارڈڈ بیانات ہی سننے پر اکتفاء کیاجائے,
تاھم ایک بہت ہی اہم چیز جس کا شاید صرف مجھے ہی نہیں اور بھی دوستوں کو تجربہ ہوا ہو, وہ یہ کہ کسی بھی دینی شخصیت یا صاحب علم سے براہ راست سامنے بیٹھ کر سننے اور سمجھنے سے جو روحانی کیف حاصل ہوتا ھے اس کا کوئی موازنہ کسی ریکارڈڈ بیان سے کبھی کیا ہی نہیں جاسکتا,
اگرچہ آج بھی انہوں نے اسی روائتی انداز میں اللہ کی عظمت و بڑائی کو عربی و اردو کے حسین امتزاج کے ساتھ بیان کیا, اور پھر بیان کا بہت سا حصہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سےمحبت اور حسن اخلاق کےاپنانے پر زور دیا,
تاھم دو بڑی اھم باتیں جس کی جانب عام طور سے تبلیغی جماعت میں توجہ نہیں دی جاتی اور بہت سے معترضین بالکل بجا طور پر اس حوالےسے اعتراض بھی کرتےہیں اور درست کرتےہیں,
ان میں سےایک یہ کہ وہاں تبلیغ و دعوت کی تمام تر بنیاد بجائے قرآن کے فضائل اعمال ھے, آج اسی طرف مولانا صاحب نے بڑے ہی درد بھرے انداز میں جیسا کہ وہ دیگر اور امور کی طرف متوجہ کرنےکےلئیے کرتے ہیں,
تبلیغ والوں کو براہ راست مخاطب کرکے کہا کہ خدارا زندگی فضائل اعمال سےنہیں بدلتی, فضائل کی کتاب تو (عارضی طور پر) لوگوں کو جماعت میں سنائی جاتی ھے, اس کا یہ مقصد نہیں کہ ساری زندگی فضائل اعمال ہی پڑھتےرہو,
زندگی بدلنا چاہتے ہو تو قرآن سمجھ کر پڑھو, قرآن سے رشتہ قائم کرو, صرف پانچ سو آیات ایسی ہیں جن میں علماء کی رہنمائی کی ضرورت ھے باقی پورا قرآن تم سے مخاطب ہے,
مزید ایک ایسی بات جو کم از کم تبلیغ کے پلیٹ فارم سے پہلی بار سننے کو ملی وہ مولانا صاحب کے یہ الفاظ تھے,
(کسی قدر معمولی لفظی تصرف کےساتھ,)
"ایک اور نادانی کی بات تبلیغی بھائیوں نے پھیلا رکھی ھے , وہ ھے یقین , اللہ سے براہ راست پلنے کا یقین, ہاتھ اٹھاو اللہ سے براہ راست لےلو, یہ بات پتہ نہیں کہاں سے آگئی,
حضرت عمر کے دور میں کچھ لوگ مسجد نبوی آئے, (ٹوٹے پھوٹےحال) آپ نے پوچھا کون ہو؟
عرض کیا "یقین والے" , آپ نے دو لتر لگائے, او اللہ تمہیں آسمان سے براہ راست دے گا, چلو جاکے رزق تلاش کرو, محنت کرو,
ارے بھائیو, غلط یقین بددیانتی ھے, جھوٹ بول کر سودا بیچنا ھے, بےایمانی کرنےوالا غلط یقین والا ھے,
سچ بولنا, دیانتداری سے کام کرنا, جھوٹ نا بولنا , ایماندری سے اپنا کام کرنا , یہ ھے صحیح یقین والا,
یہ تم سے کس نے کہہ دیا کہ کام ہی نا کرو اور اللہ سے براہ راست مانگ لو؟؟؟'"
...................
اول اول مجھے خاصی حیرانگی بھی ہوئی بالخصوص یقین کےحوالے سے تبلیغ میں یہ بات گویا سب سے اولین ستون کی حیثیت رکھتی ھے, تاھم بہت سے ناسمجھ دوست چونکہ اس سے غلط فہمی کا شکار بھی ہوجاتےہیں غالبا" اسی کا احساس کرتےہوئے مولانا صاحب نے اس بنیادی Dogma کی تصحیح کی کوشش فرمائی,
جو احباب تبلیغی جماعت کے اسٹرکچر کو قریب سے جانتےہیں ان کےلئیے یہ دونوں ہی باتیں بڑی حدتک حیران کن ہیں,
اور یقینا" بہت سوں کےلئیے خوشگوار حیرت کا باعث بھی,
باقی کا پورا بیان جو تقریبا" دو ڈھائی گھنٹے پر مشتمل تھا اس میں کم و بیش انہی روائتی تبلیغی باتوں کا تذکرہ تھا جو ہم عموما" ان کے بیانات میں سنتے آئے ہیں, تاھم یہ دو باتیں مجھے خصوصیت سے بہت اہم اور کسی حد تک ایک مثبت تبدیلی کا اشارہ معلوم ہوئیں.
اگرچہ بعض احباب اسے میری خوش فہمی ہی سمجھیں تاھم الفاظ ہی سہی امید ھے عملا" بھی کوئی تبدیلی کی امید کی جاسکتی ھے.
فیس بک :
کی وال سے