منہج ( تصوف)کے لوگ مجبور ہیں کہ اپنے بزرگوں کے توسط سے قبور سے روحانی فیض، تصورِ شیخ اور چلہ کشی جیسی خرافات
تصوف میں دو احتمالات ہیں۔ مردہ بزرگ کا مزار بنا کر اس سے حاجت روائی اور مشکل کشائی کرنا۔ یہ بلاشبہ ھرام اور شرکیہ فعل ہے۔ اور دوسرا زندہ متبع سنت عارف باللہ کی صحبت میں رہ کر تزکیہ نفس کرنا یعنی اپنے دل کو حرص، ہوس، طمع، لالچ، بغض، کینہ، تکبر، ریاکاری ، ناشکری، بے صبری جیسی مذموم صفات سے پاک کرنا تو یہ عین مقاصد نبوت میں سے ہے۔ (ویزکیھم)
قبور کا روحانی فیض یہ ہے کہ وہاں جا کر فکر آخرت اور موت کی یاد کو پیدا کیا جائے۔ اگر کوئی خاص صلاحیت و استعداد والے متبع سنت عالم جو حدود کا خیال رکھنا جانتے ہیں ان کی روح سے ئمکلام ہونے کا دعوی کرتے ہیں یا ان سے بعض معاملات میں علمی و روحانی راہنمائی لیتے ہیں تو اس کا ایسے ہی پورا امکان موجود ہے جیسے بعض عاملین کا جنات سے ہمکلام ہونے گا دعوی۔ شرک تب لازم آئیگا جب ان سے حاجت روائی اور مشکل کشائی کرائی جائیگی اور انہیں ہر وقت ہر جگہ سے سننے و جاننے کی صلاحیت کا حامل سمجھ کر مدد کے لئے غائبانہ پکارا جائیگا۔
تصور شیخ اس آیت کا مصداق ہے واتبع سبیل من اناب الی۔ جیسے علما سے علم اخذ کیا جاتا ہے ایسے ہی اہل اللہ سے روحانیت۔ علم ظاہری اعمال کا ہوتا ہے اور روحانیت باطنی اعمال کی۔ اگر اسے فقط حصول روحانیت تک محدود رکھا جائے تو شرک لازم نہیں آتا۔
چلہ کشی سے مراد چالیس دن تک کوئی خاص عمل کرنا یا ایک ماحول میں رہنا ہے۔ جیسے مدارس میں آٹھ سال لگانا کہیں نہیں آیا لیکن عالم بننے کی ایک ترتیب ہے ایسے ہی چالیس دن عامیوں کی ایک ترتیب ہے۔ کیونکہ چالیس دن میں انسانی مزاج کے اندر تغیر آتا ہے۔
ان سب باتوں کو مثبت طریقے سے بھی لیا جا سکتا ہے اور منفی بھی۔ لوگوں کے عمل اور نتیجے پر منحصر ہے اگر شریعت مدگی میں آئی تو محمود ورنہ مزموم۔ واللہ اعلم