جب کسی مسئلے میں صحیح، صریح اور غیر معارض حدیث میسر نہ ہو تو پھر اس میں آئمہ مجتھدین کی رائے مقدم ہے۔ کیونکہ وہ خیرالقرون کے لوگ ہیں اور انہیں تلقی بالقبول حاصل ہوا اور انہوں نے ایسے غیر منصوص مسائل پر پوری جامعیت سے کام کیا ہے۔
یہ اور دیگر آئمہ اسلام ہمارے لیے سرمایہ علم ہیں لیکن اگر ان کی کوئی رائے قرآن و سنت کے معیار پر پورا نہیں اترتی تو پھر کیا کیا جائے ؟ کیا ان آئمہ نے اپنی تقلید کرنے کا حکم دیا تھا یا بعد کے کچھ علماء نے اجتہاد کا دروازہ خود بند کر کے اور اپنی عقل کو تالا لگا کر صرف انہی خصوصاً امام ابو حنیفہ ؒ کی تقلید کو قبول کر لیا تھا؟ تو جب حقیقت یہی ہے تو اہلِ حدیث حضرات کو
” غیر مقلد“ کا طعنہ کیوں دیا جاتا ہے ؟ ان کو تحقیق کا حق کیوں نہیں دیا جاتا ؟
یا آپ اس بات کو تسلیم کر لیں کہ ان آئمہ ِ دین نے ہر ہر مسئلہ کی آخری اور حتمی درجہ میں تحقیق کر لی ہے اور اب مزید کسی تحقیق و تنقید کی گنجائش نہیں ہے ؟