• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تبلیغی جماعت ،،،خوبیاں اور خامیاں

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,799
پوائنٹ
1,069
بسم اللہ الرحمن الرحیم

تبلیغی جماعت ،،،خوبیاں اور خامیاں

ان جماعتوں کا کیا حکم ہے جو مسلمانوں کو ان کے دینی واجبات کی طرف دعوت دینے کے لئے چار مہینے اور چالیس دن دنیا کے مختلف علاقوں میں گزارتے ہیں ؟

Published Date: 2016-04-09

الحمد للہ:

"تبلیغی جماعت "اسلام کے لئے کام کرنے والی جماعتوں میں سے ایک ہے، اور دعوت الی اللہ کے لئے ان کی جدوجہد سے انکار نہیں کیا جا سکتا، لیکن یہ بھی ان جماعتوں میں سے ایک ہے جن سے غلطیاں سر زد ہوئی ہیں ،اور ان پر اعتراضات کیے گئے ہیں ۔

درج ذیل میں ہم ان اعتراضات کو بالاختصار بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، اس کے ساتھ یہ بھی ملحوظ رہے کہ ان خامیوں کی تعداد میں اس بات کا بڑا عمل دخل ہے کہ جس علاقے کی یہ جماعت ہے اس کے ماحول اور معاشرے کے اعتبار سے یہ خامیاں مختلف ہوتی ہیں، چنانچہ جس معاشرے میں علم اور علماء موجود ہوں اور اہل سنت و الجماعت کے نظریات معروف ہوں تو ان کی غلطیاں کافی حد تک کم ہوتی ہیں، جبکہ اس کے علاوہ دیگر معاشروں میں کبھی ان غلطیوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے ۔

چنانچہ ان کی چند ایک غلطیاں یہ ہیں:

1- ان کی بنیاد اہل سنت و الجماعت کے عقیدے پر نہیں ہے، یہ بات ان کے عام افراد بلکہ ان کے قائدین کے عقائد کے مختلف اور متعدد ہونے سے واضح ہے ۔

2- ان کے ہاں علم شرعی کا اہتمام نہیں ہے ۔

3- قرآنی آیات کی تاویل کرنا اور ان کے معانی مرادِ الہی سے ہٹ کر بیان کرنا، چنانچہ ان تاویلات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ جہاد والی آیات سے "دعوت کے لئے نکلنا" مراد لیتے ہیں۔

اسی طرح جن آیات میں لفظ "خروج" یا اس سے مشتق الفاظ[یعنی جن آیات میں اللہ کے راستے میں نکلنے کا حکم ہے ] وارد ہوئے ہیں، تو ان سے مراد وہ اللہ کے لئے دعوت دینے کے لئے نکلنا مراد لیتے ہیں[نہ کہ جہاد کے لئے نکلنا]

4- دعوت دینے کے لئے نکلنے کی جو[دنوں وغیرہ کی]ترتیب ان کے ہاں مقرر ہے یہ اس ترتیب کو عبادت سمجھتے ہیں، اور اس کے لئے وہ قرآنی آیات سے دلیل اخذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان آیات سے مقصود ان کے ہاں وہ دن اور مہینے ہیں، جوان کے ہاں مقرر ہیں ۔

بات صرف ترتیب مقرر کرنے کی ہی نہیں ہے بلکہ یہ ترتیب ان کے ہاں اس قدر مشہور اور معروف ہے کہ ماحول ،ملک اور لوگوں کے مختلف ہونے سے بھی یہ مقررہ تعداد مختلف نہیں ہوتی ۔

5- ان کی طرف سے بعض شرعی مخالفتوں کا سر زد ہونا مثلاً: جب جماعت دعوت کے لئے نکلے تو یہ ایک آدمی کو دعوت دینے کے لئے متکلم مقرر کرتے ہیں اور پھر اس داعی کی سچائی اور مقبولیت کو اپنی کامیابی اور ناکامی کا معیار ٹھہراتے ہیں ۔

6- ان کے ہاں ضعیف اور موضوع احادیث کا معروف ہیں ،اللہ کی طرف دعوت دینے کی ذمہ داری کا بیڑا اٹھانے والے کے لئے یہ قطعاً لائق نہیں ہے ۔

7- یہ لوگوں برائی کے بارے میں گفتگو نہیں کرتے ، ان کا خیال ہے کہ نیکی کی دعوت ہی کافی ہے ،یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ یہ لوگ عوام الناس میں پھیلی برائیوں پر گفتگو نہیں کرتے، حالانکہ اس امت کا شعار-جیسا کہ یہ لوگ بھی اس کو دہراتے رہتے ہیں -[یہ ہے جو کہ اس آیت میں بیان کیا گیا ہے]

{وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ}

ترجمہ: تم سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہئے جو خیر و بھلائی کے کاموں کی طرف بلائے اور نیکی کی دعوت دے اور برائی سے روکے ، حقیقت میں یہی لوگ فلاح پائیں گے۔[آل عمران : 104]

چنانچہ کامیاب وہ ہیں جو نیکی کا حکم دیں اور برائی سے منع کریں ،نہ کہ وہ جو صرف ایک کام کریں [یعنی صرف نیکی کی دعوت دیں، اور برائی سے مت روکیں]

8- ان میں سے بعض لوگ غرور و تکبر میں مبتلا ہوتے ہیں، جو دوسرے لوگوں کو ان کی نظر میں حقیر اور گھٹیا بنا دیتا ہے ، بلکہ یہ عمل بسا اوقات اہل علم کے بارے میں زبان درازی اور ان کو سوئے ہوئے اور [دعوت سے غافل ہوکر گھروں میں] بیٹھے ہوئے جیسے الزامات دینے کی طرف لے جاتا ہے ۔

اور اس طرح یہ لوگ کا ریا کاری میں مبتلا ہو جاتے ہیں ،چنانچہ آپ دیکھیں گے کہ وہ یہی بیان کرتے رہتے ہیں کہ وہ [تبلیغ کے لئے] گھر سے نکلا، اور سفر کیا، فلاں جگہ منتقل ہوا، اس نے فلاں چیز دیکھی اور اس کا مشاہدہ کیا، اور ان کی یہ عجب پسندی ایسے ہی دیگر کئی مذموم کاموں کی طرف لے جاتی ہے ۔

9- ان کے نزدیک دعوت کے لئے نکلنا بہت سی عبادات ، مثلاً: جہاد اور علم کے حصول سے بھی افضل ہے، حالانکہ جسے وہ ان عبادات پر فوقیت دیتے ہیں وہ ایسے واجبات میں سے ہے، یا ایسا فعل ہے جو کبھی صرف چند لوگوں پر واجب ہوتا ہے تمام لوگوں پر نہیں۔

10- ان میں سے بعض لوگ فتوی دینے یا تفسیر و حدیث بیان کرنے کی جرأت کرتے ہیں، چنانچہ یہ بات واضح ہے کہ وہ لوگوں سے مخاطب ہونے اور وعظ و نصیحت کرنے کے لئے ایک آدمی مقرر کرتے ہیں، جوان لوگوں کو شرعی [احکام کے بارے میں ]جسارت کی طرف لے جاتا ہے، کیونکہ ان کی گفتگو احکام، حدیث اور آیات کی تشریح پر مشتمل ہوتی ہے، حالانکہ انہوں نے ان چیزوں کو نہ ہی پڑھا ہوتا ہے اور نہ ہی علماء سے سنا ہوتا ہے کہ اہل علم کے اقوال ہی ذکر کر سکیں۔

اور ان میں سے بعض تو نو مسلم ہوتے ہیں، یا پھر عہدِ قریب میں دین کی جانب راغب ہونے والوں میں سے ہوتے ہیں۔

11- ان میں سے بعض لوگ کا اپنے بیوی بچوں کی حق تلفی کرتے ہیں، اور اس معاملے کی سنگینی کا ذکر ہم نے سوال نمبر (3043) کے جواب میں کر دیا ہے ۔

انہی وجوہات کی بنا پر علماء ان کے ساتھ جانے سے منع کرتے ہیں، ہاں وہ لوگ جوان سے واقع ہونے والی غلطیوں کی اصلاح اور ان کو[علمی ] فائدہ پہنچانے کی غرض سے ان کے ساتھ جائیں تو یہ جائز ہے ۔

تاہم یہ مناسب نہیں ہے کہ ہم ان کی حیثیت کو کم کرتے ہوئے لوگوں کو ان کے ساتھ جانے سے بالکل ہی منع کر دیں، بلکہ ہمیں چاہیے کہ انکی اصلاح کی کوشش کرتے رہیں اور ان کو نصیحت کرتے رہیں تاکہ ان کی جد و جہد جاری رہے اور قرآن و حدیث کے مطابق درست ہو جائے ۔

یہاں تبلیغی جماعت کے بارے میں چند علماء کے فتاوی جات دیے جاتے ہیں ۔

1- شیخ عبد العزیزبن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"تبلیغی جماعت کے ہاں عقیدے سے متعلقہ مسائل میں درست فہم و بصیرت نہیں ہے، لہذا ان کے ساتھ جانا جائز نہیں ہے ،البتہ ایسا صاحب علم جو اہل سنت و الجماعت کے صحیح عقیدے سے مکمل واقفیت رکھتا ہے اور ان کی رہنمائی کرنے اور خیر کے کام میں تعاون کرنے کے لئے ان کے ساتھ جائے تو اس کے لئے ان کے ساتھ جانا جائز ہے ؛کیونکہ وہ اپنے کام میں بڑے سرگرم ہیں، لیکن انہیں مزید علم اور ایسے علمائے توحید و سنت کی ضرورت ہے جو ان کی صحیح رہنمائی کریں۔ اللہ سب کو دین کی صحیح سمجھ بوجھ اور اس پر ثابت قدمی عطا فرمائے ۔

"مجموع الفتاوی " از ابن باز(8/331)

2- شیخ صالح الفوزان کہتے ہیں :

"اللہ کے رستے میں نکلنے کا مطلب وہ نہیں جو یہ لوگ آج کل بیان کرتے ہیں، بلکہ اس کا مطلب جہاد کے لئے نکلنا ہے، جس [مخصوص فعل کو ]یہ لوگ اب "خروج فی سبیل اللہ" کہتے ہیں، یہ بدعت ہے اور سلف سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے ۔

انسان اگر اللہ کی طرف دعوت دینے کے لئے نکلے تو معین ایام کی تخصیص نہ کرے بلکہ بقدر وسعت و طاقت، اللہ کی طرف دعوت دے، کسی جماعت یا دنوں کو مثلاً: چالیس دن یا اس سے کم یا اس سے زیادہ کی تخصیص نہ کرے۔

اسی طرح داعی کی ذمہ داری ہے کہ وہ صاحب علم ہو، کوئی جاہل شخص اللہ کی طرف دعوت نہ دے [کیونکہ اسے خود دین کی صحیح معرفت نہیں ہے البتہ جس مسئلہ کے بارے میں صحیح طور پر علم ہو اسے دوسروں کو بتایا جا سکتا ہے]

فرمانِ باری تعالی ہے:

{قُلْ هَذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللَّهِ عَلَى بَصِيرَةٍ }

ترجمہ: کہ دیجئے کہ یہ میرا راستہ ہے، میں بصیرت کے ساتھ اللہ کی طرف بلاتا ہوں " [يوسف : 108]

"بصیرت" یعنی علم کے ساتھ، کیونکہ داعی جس واجب، مستحب کی دعوت دے، یا بصورتِ دیگر حرام و مکروہ سے روکے ، تو اسے اس کے بارے میں علم ہونا چاہیے اسی طرح اسے معلوم ہونا چاہیے کہ شرک، معصیت ،کفر اور فسق کیا چیزیں ہیں، اور انکار کے درجات اور اس کی کیفیت کے بارے میں معرفت ہونی چاہیے ۔

اور اگر تبلیغ کیلئے جانے سے علم کے حصول میں رکاوٹ پیدا ہو تو تبلیغ کیلئے جانا ہی درست نہیں ہے ؛کیونکہ علم کا حصول فرض ہے جو سیکھنے سے حاصل ہوتا ہے نہ کہ الہام سے، [حصولِ علم کیلئے یہ تصور قائم کرنا کہ یہ الہام سے بھی آتا ہے ]یہ گمراہ صوفیوں کی خرافات میں سے ہے، [تبلیغ حصولِ علم کیلئے رکاوٹ بنے، تو تبلیغ ناجائز اس لیے ہے کہ ]علم کے بغیر عمل گمراہی ہے، اور سیکھنے کے بغیر علم کی توقع کرنا ، بالکل غلط اور باطل خیال ہے ۔

یہ عبارت کتاب "ثلاث محاضرات فی العلم و الدعوۃ " سے لی گئی ہے ۔

واللہ اعلم.

اسلام سوال و جواب

https://islamqa.info/ur/8674
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
ان کی بنیاد اہل سنت و الجماعت کے عقیدے پر نہیں ہے، یہ بات ان کے عام افراد بلکہ ان کے قائدین کے عقائد کے مختلف اور متعدد ہونے سے واضح ہے ۔

2- ان کے ہاں علم شرعی کا اہتمام نہیں ہے ۔

3- قرآنی آیات کی تاویل کرنا اور ان کے معانی مرادِ الہی سے ہٹ کر بیان کرنا، چنانچہ ان تاویلات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ جہاد والی آیات سے "دعوت کے لئے نکلنا" مراد لیتے ہیں۔

اسی طرح جن آیات میں لفظ "خروج" یا اس سے مشتق الفاظ[یعنی جن آیات میں اللہ کے راستے میں نکلنے کا حکم ہے ] وارد ہوئے ہیں، تو ان سے مراد وہ اللہ کے لئے دعوت دینے کے لئے نکلنا مراد لیتے ہیں[نہ کہ جہاد کے لئے نکلنا]
تبلیغی جماعت بچ کر رہنے کیلئے یہی تین اسباب کافی ہیں،
(1) ٭ ان کا عقیدہ درست نہیں ۔
(2) ٭ان کے پاس اصلاح و تبلیغ کیلئے شرعی علم نہیں۔
(3) ٭قرآن وحدیث کے نصوص کی من مانی تاویل کرنا۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
یہ ایک فکر ہے ، جس میں خوبیاں ہیں جن کا اثر ہوتا ہے ۔
مثلا یہ نصاب پر سختی سے عمل کرتے ہیں ، فقہی اختلاف سے بچتے ہیں ۔
عقیدہ کو درمیان میں ہرگز نہیں لاتے۔ اس لئیے انکی صفوف میں احناف و شافعیہ متحد ہیں بلا مبالغہ یہ صرف انکا وصف ہے دو انتہائی عکس خیالات کے حاملوں کو ایک فکر اور ایک نصاب اور ایک کتاب پر جمع کردیا ۔ فرق بهی کیسا ملاحظہ فرمائیں کہ آمین بالجہر ، رفع الیدین ، نماز فجر با جماعت کا فرق (قنوت والا) ، نماز کی صفوں میں کہڑے ہونیکا طریقہ سے لیکر اختتام نماز تک ادائیگی کا ہر طریقہ ۔ وہ امور جن پر اس قدر شدت تہی کے قتل ناحق تک ہو گئے ۔
ایک منظم جماعت ہے ۔
عقیدہ پر یہ بات ہرگز نہیں کرتے اس لئیے بهی وہ تمام عام مسلمان بهی انکے بیانات سننے جاتے ہیں جو احتراز کرتے ہیں ہر شدت سے ۔ سوچنے کا مقام ہے ۔
ان کا فارمولا سیدہا ہے ۔ اپنی فکر کی ترویج ۔ انہوں نے اس مخصوص فکر کو عوام میں قابل قبول بنا دیا فقہی مسائل میں کشادہ دلی دکہا کر۔
اب جو اعتراض ہے وہ فکر پر ہے اور جنہیں ہے وہ اس کی نشاندہی کرتے ہیں ۔ تو سمجہئیے کہ وہ تعریف کے قابل کہاں ہیں اور قابل تعزیر کہاں ہیں ۔
فکر سے میری مراد یہاں یہ ہیکہ اسلام کے اندر رہتے ہوئے بهی مختلف اور منفرد ہونا مثلا : فکر بریلوی ، فکر شیعہ اور اسی طرح کہ دیگر افکار کے حامل جنکی تمییز کی جاسکے انکے علاحدہ ہونے میں ۔
آپ کو اس کے لئیے ان کتب کا تفصیلی مطالعہ کرنا چاہیئے ، جیسے تبلیغی نصاب اور فضائل اعمال اور فضائل حج وغیرہ ۔ ان میں درج احادیث کی تحقیقات کرنی چاہیئے اور ان میں بیان کردہ واقعات اور اقوال سلف کی بهی کہ آیا وہ ان اصحاب سے ثابت بهی ہیں یا نہیں ۔
نتیجہ کے لیئے جلدی نا کریں لیکن جو بہت آسانی سے سمجہا جا سکتا ہے وہ یہ کہ میزان الشریعہ ، کلام اللہ ، احادیث ثابتہ اور السلف الصالحین کے منہج کی ترجمانی یہ کتب نہیں کر سکتی ہیں نا ہی ان کتب کو بطور دلیل شرعی پیش کیا جا سکتا ہے ۔
ہر صحیح العقیدہ ، خواہ وہ کسی بهی مذہب سے ہو چاروں مذاہب سے یا وہ منہج سلف پر ہو یا اہل حدیث ہو تلملا اٹہتا ہے ان کتب کو پڑهکر ۔
اس میں کیا شک کے یہ ہی وہ کتب ہیں جنکے پڑہا جاتا ہے ، پڑہایا بهی جاتا ہے ، سنایا بهی جاتا ہے اور ان پر عمل بهی کروایا جاتا ہے ۔
اصل اختلاف یہاں ہے ۔
ان کتب پر اعتراض ہے اس لئیے کہ وہی کتب نصاب ہیں ۔
میں تمام مکاتب فکر سے کہتا ہوں کہ ہر وہ فکر جو میزان الشریعہ پر کہری نا اتر سکے ، خواہ وہ کوئی بهی فکر ہو ، اس فکر کو فکر اسلامی کہا جا سکتا ہے ؟
جن کتب کے حوالے ہیں ان کو پڑہے بغیر کوئی بهی رائے منصفانہ نہیں ہو سکتی ۔
ایسی کسی بهی فکر کا چاروں امام سے بهی کوئی تعلق نہیں ہو سکتا ۔
شاید اسی لئیے بر صغیر صرف فقہ میں امام اعظم کے اصحاب کے اقوال پر عمل کرتے ہیں لیکن انکی فکر کا تعلق امام جلیل ، فقیہ اعظم سے کوئی تعلق نہیں ۔
جس نے یہ کہا ، ایسا سوچا وہ وہابی ہے ، اہل حدیث ہے ، غلط در غلط ۔ وہ صحیح العقیدہ ہے خواہ وہ جو بهہ ہو ۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
تبلیغی جماعت ،،،خوبیاں اور خامیاں
"تبلیغی جماعت "اسلام کے لئے کام کرنے والی جماعتوں میں سے ایک ہے، اور دعوت الی اللہ کے لئے ان کی جدوجہد سے انکار نہیں کیا جا سکتا، لیکن یہ بھی ان جماعتوں میں سے ایک ہے جن سے غلطیاں سر زد ہوئی ہیں ،اور ان پر اعتراضات کیے گئے ہیں ۔
چنانچہ ان کی چند ایک غلطیاں یہ ہیں:
محترم! آپ کی پیش کردہ پوری پوسٹ میں تبلیغی جماعت کی نمبر لگا کر پوری گیارہ (11) خامیاں تو بیان ہوئی ہیں مگر عنوا ن کے پہلے جز ”خوبیاں“ بیان نہیں ہوئیں۔ شائد کسی اگلی پوسٹ میں بیان ہوں۔
محترم! کسی کی خامی کو عیاں کردینا کوئی اتنا مشکل کام نہیں اصل یہ ہے کہ اس کی اصلاح کیسے ہو؟ اس کے لئے کوشش کریں اور لکھیں تعصب کو بالائے طاق رکھ کر تاکہ امتِ مسلمہ کو فائدہ ۔ مخالفت برائے مخالفت کوئی اچھا کام نہیں۔
جہاں تک ان کی خامیوں کا تعلق ہے وہ شائد میں آپ سے کہیں زیادہ بتا سکوں مگر سوچ کو مثبت رکھنا چاہئے۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
محترم بهٹی صاحب

مجہے پہر خوشی ہوئی آپ کی پوسٹ سے ۔ آپ نے کہا :

" ۔۔۔ ﺟﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺧﺎﻣﯿﻮﮞ ﮐﺎ ﺗﻌﻠﻖ ﮨﮯ ﻭﮦ ﺷﺎﺋﺪ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﺳﮯ ﮐﮩﯿﮟ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺑﺘﺎ ﺳﮑﻮﮞ ﻣﮕﺮ ﺳﻮﭺ ﮐﻮ ﻣﺜﺒﺖ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﭼﺎﮨﺌﮯ- "

کیا ہی بهتر ہو اگر آپ مثبت انداز میں زیر تحریر لائیں تاکہ اصلاح ہو سکے ۔
جزاک اللہ خیرا
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
کیا ہی بهتر ہو اگر آپ مثبت انداز میں زیر تحریر لائیں تاکہ اصلاح ہو سکے ۔
محترم! اصلاح کا احسن طریقہ یہ ہوتا ہے کہ مبتلا فریق کو سمجھایا جائے نہ کہ سرِ عام اس کی خامیوں کو بیان کرنا شروع کر دیا جائے۔ الحمد للہ متعلقہ خاطی افراد کو متنبہ کرتا رہتا ہوں۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
محترم! اصلاح کا احسن طریقہ یہ ہوتا ہے کہ مبتلا فریق کو سمجھایا جائے نہ کہ سرِ عام اس کی خامیوں کو بیان کرنا شروع کر دیا جائے۔ الحمد للہ متعلقہ خاطی افراد کو متنبہ کرتا رہتا ہوں۔
عمدہ جواب ۔ آپ کے اخلاق عالی ہیں
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
بہت عرصہ ہوا، کہیں ایک پوسٹ پڑھاتھاجس میں کسی غیرمقلد نے ہی بڑے دکھ بھرے انداز میں سلفیوں کے آپسی مناظرہ پر لکھاتھاکہ جب لڑنے کیلئے کوئی دوسرانہیں ملتاتو ہم آپس میں ہی لڑناشروع کردیتے ہیں، مجھے پہلے پہل اس بات پر تعجب ہوا،لیکن جب دیکھاکہ اہل حدیث یاغیرمقلدین حضرات تبلیغی جماعت کو بھی رگیدنے سے باز نہیں آتے ،حالانکہ تبلیغی جماعت نہ ان سے مناظرہ کرتی ہے،نہ مباحثہ کرتی ہے، نہ ان پر کسی قسم کی تنقید وتعریض کرتی ہے، پھر بھی اس جانب سے لگاتار اورمسلسل گولہ برس رہاہے۔
1- ان کی بنیاد اہل سنت و الجماعت کے عقیدے پر نہیں ہے، یہ بات ان کے عام افراد بلکہ ان کے قائدین کے عقائد کے مختلف اور متعدد ہونے سے واضح ہے ۔
تبلیغی جماعت کوئی لمٹیڈ قسم کی کمپنی یامسلک نہیں ہے، اس میں ہرشخص اورہرمسلک کا فرد داخل ہوسکتاہے،عقیدہ کا فیصلہ ہرایک کے اپنے اعتبار سے ہوگا، تبلیغی جماعت کا اپناکوئی عقیدہ نہیں ہے، پتہ نہیں اس بزرگ مضمون نگار کو کہاں سے تبلیغی جماعت کا عقیدہ مل گیا،مولانا الیاس صاحب کا اپنا ایک عقیدہ ہوسکتاہے اورتھالیکن اگرکوئی شافعی اس جماعت سے جڑرہاہے تواس کا اپناعقیدہ ہوگا، اس کو مولانا الیاس صاحب کے عقیدہ سے کیاواسطہ،اب پھر غورکیجئے مضمون نگار کی بلند پروازی پر کہ تبلیغی جماعت کی بنیاد اہل سنت والجماعت کے عقیدے پر نہیں ہے۔

قرآنی آیات کی تاویل کرنا اور ان کے معانی مرادِ الہی سے ہٹ کر بیان کرنا، چنانچہ ان تاویلات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ جہاد والی آیات سے "دعوت کے لئے نکلنا" مراد لیتے ہیں۔
یہ پہلے سے بھی زیادہ طرفہ تماشاہے،پتہ پتہ کیسے کیسے ناکارہ اورنااہل لوگوں کو جواب دینے کیلئے بٹھایاگیاہے،تبلیغی جماعت نہ تفسیر قرآن بیان کرتی ہے اور نہ قرآن کی تاویل کرتی ہے۔
دعوت دینے کے لئے نکلنے کی جو[دنوں وغیرہ کی]ترتیب ان کے ہاں مقرر ہے یہ اس ترتیب کو عبادت سمجھتے ہیں، اور اس کے لئے وہ قرآنی آیات سے دلیل اخذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان آیات سے مقصود ان کے ہاں وہ دن اور مہینے ہیں، جوان کے ہاں مقرر ہیں ۔
شاید یہ فتوی دینے والے بزرگ خوف خدا سے اس قدربری ہوگئے ہیں کہ انہیں یہ بھی احساس نہیں کہ بہتان اورتہمت تراشی بھی گناہ ہے اوراس کی بھی خداکے یہاں جواب دہی کرنی ہے، کسی چیز کی تنظیمی طورپر پابندی اوراس کو عبادت سمجھنا دوالگ الگ باتیں ہیں،
ان کی طرف سے بعض شرعی مخالفتوں کا سر زد ہونا مثلاً: جب جماعت دعوت کے لئے نکلے تو یہ ایک آدمی کو دعوت دینے کے لئے متکلم مقرر کرتے ہیں اور پھر اس داعی کی سچائی اور مقبولیت کو اپنی کامیابی اور ناکامی کا معیار ٹھہراتے ہیں ۔
اس پیراگراف میں جوکچھ کہاگیاہے وہ کچھ نہ سمجھے خداکرے کوئی ،کیاکسی کو متکلم مقرر کرنا گناہ ہے، شریعت کے خلاف ہے، اس کے بعد والا جملہ تو واقعی مضحکہ خیز ہے اور غیرمقلدین کے مبلغ علم کا پتہ دیتاہے کہ انہیں تبلیغی جماعت سے کیسی اورکس قدر معلومات ہیں لیکن اس کے باوجود شوق جواب انہیں خاموش نہیں رہنے دیتا۔
ان میں سے بعض لوگ غرور و تکبر میں مبتلا ہوتے ہیں، جو دوسرے لوگوں کو ان کی نظر میں حقیر اور گھٹیا بنا دیتا ہے ، بلکہ یہ عمل بسا اوقات اہل علم کے بارے میں زبان درازی اور ان کو سوئے ہوئے اور [دعوت سے غافل ہوکر گھروں میں] بیٹھے ہوئے جیسے الزامات دینے کی طرف لے جاتا ہے ۔
یہ شق سب سے مزیدار ہے ،بعض لوگ کس جماعت کے غروراورتکبر سے بری ہیں؟کیاان مفتی صاحب کے نزدیک سارے غیرمقلدین تواضع اورللہیت کی اعلیٰ منزل پر قیام پذیر ہیں، یابعض کے دل حرص وہوس اورتکبر سے بھی آلودہ ہیں،اورزبان درازی سے کس مسلک کے ماننے والے بچے ہوئے ہیں جو یہ الزام لگارہاہے اس کی جماعت نے تواس میدان میں سب پر بازی مارلی ہے۔
ان کے نزدیک دعوت کے لئے نکلنا بہت سی عبادات ، مثلاً: جہاد اور علم کے حصول سے بھی افضل ہے، حالانکہ جسے وہ ان عبادات پر فوقیت دیتے ہیں وہ ایسے واجبات میں سے ہے، یا ایسا فعل ہے جو کبھی صرف چند لوگوں پر واجب ہوتا ہے تمام لوگوں پر نہیں۔
تبلیغی جماعت میں دوسروں کی اصلاح کیلئے نہیں، اپنی اصلاح کیلئے نکلاجاتاہے اوراسی دوران بنیادی تعلیم بھی حاصل کی جاتی ہے،جماعت کی چلت پھرت کوجہاد سے افضل کوئی نہیں سمجھتا،تبلیغی جماعت کی جوکتابیں ہیں اس میں یہ باتیں مذکور نہیں ہیں۔ اگرکوئی اپنے طورپر کہتاہے تویہ اس کی ذمہ داری ہے۔
ان میں سے بعض لوگ فتوی دینے یا تفسیر و حدیث بیان کرنے کی جرأت کرتے ہیں، چنانچہ یہ بات واضح ہے کہ وہ لوگوں سے مخاطب ہونے اور وعظ و نصیحت کرنے کے لئے ایک آدمی مقرر کرتے ہیں، جوان لوگوں کو شرعی [احکام کے بارے میں ]جسارت کی طرف لے جاتا ہے، کیونکہ ان کی گفتگو احکام، حدیث اور آیات کی تشریح پر مشتمل ہوتی ہے، حالانکہ انہوں نے ان چیزوں کو نہ ہی پڑھا ہوتا ہے اور نہ ہی علماء سے سنا ہوتا ہے کہ اہل علم کے اقوال ہی ذکر کر سکیں۔
تبلیغی جماعت کو تاکید ہی کی جاتی ہے کہ وہ چھ نمبر کے دائرہ میں گفتگو کریں، وہ بے چارے نہ فتوی دیتے ہین نہ کسی کو شرعی مسائل بتاتے ہیں،کیالوگوں سے مخاطب ہونے اوروعظ ونصیحت کیلئے کسی ایک کو مقرر کرنا گناہ ہے، پتہ نہیں اس جاہل مفتی نے کہاں سے علم سیکھاہے؟اورپتہ نہیں تبلیغی جماعت پر فرد جرم عائد کرنے کا کیساشوق ہے کہ جومن چاہے سوالزامات لگاتاجارہاہے۔
ان میں سے بعض لوگ کا اپنے بیوی بچوں کی حق تلفی کرتے ہیں، اور اس معاملے کی سنگینی کا ذکر ہم نے سوال نمبر (3043) کے جواب میں کر دیا ہے ۔
کیاغیرمقلدین کی جماعت سے تعلق رکھنے والے سبھی لوگ بیوی بچوں کا حق اداکرتے ہیں ،کچھ لوگ حق تلفی نہیں کرتے؟اگرکسی کا یہ دعویٰ ہو تو اس کی دلیل پیش کرے اوراگرغیرمقلدین میں بھی وہی صورت حال ہے توپھرتبلیغی جماعت پر الزام کیسا؟
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
ان میں سے بعض لوگ کا اپنے بیوی بچوں کی حق تلفی کرتے ہیں
جو لوگ اپنی نو بیاہتا بیویوں کو پیچھے چھوڑ کر بیرون ملک چلے جاتے ہیں اور بعض تین تین چار چار سال تک واپس نہیں آتے ان کے متعلق کسی ”مفتی“کو فکر کبھی نہیں ہوئی۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
تبلیغی جماعت کا اپناکوئی عقیدہ نہیں ہے،
یہ بے خبری ۔۔یا ۔۔مغالطہ ہے ،تبلیغی جماعت کا عقیدہ خالص دیوبندی عقیدہ ہے وہ بھی حیاتی ،اور تصوف زدہ ،
جماعت کا " نصاب " لکھنے والے بزرگ کی کتب اس پر واضح ثبوت ہیں ؛
 
Top