صوفیاء کے خواب فضائل اعمال میں!
صوفياہ کے خواب بھی دین طریقت میں بڑا اہم مقام رکھتے ہیں، ان خوابوں کو تبلیغی نصاب "فضائل اعمال" میں کس انداز میں پیش کیا اور ان کے ذریعے اسلام کا حلیہ کس طرح بگاڑا جارہا ہے اس کی تفصیلات ہم یہاں بیان کریں گے لیکن اس سے پہلے قرآن وسنت کی روشنی میں خواب کی شرعی حقیقیت بالاختصار سمجھ لیجیے:
خواب کی شرعی حقیقیت و اہمیت:
جناب رسول اللہ ۖ کو نبوت سے پہلے 6 ماہ تک سچے خواب آتے رہے جو کچھ رات کو دیکھتے وہ دن کے اجالے میں واقع ہوجاتا- آپ ۖ نے فرمایا کہ مومن کا خواب نبوت کا چھیالیس واں حصہ ہے اور فرمایا کہ مومنوں کو سچو خواب دکھائے جائيں گے اور ان کے ذریعے بشارتیں دی جائيں گی- حضرت محمد بن سیرین رح بڑے درجے کے تابعی ہیں اور خواب کی تعبیر کے امام ہیں- انہوں نے فرمایا:" الرؤ یاتسرو لاتغر" یعنی (اچھا) خواب ایک ایسی چيز ہے جس سے انسان خوش ہوجاتا ہے لیکن خواب کسی کو دھوکے میں نہ ڈالے اور وہ یہ نہ سمجھے کہ میں بہت بڑا بزرگ ہوگیا ہوں اور اس کے نتیجے میں بیداری کے اعمال سے غافل نہ ہوجائے مثلا کوئی شخص دیکھتا ہے کہ وہ جنت کی سیر کررہا ہے تو یہ اچھی بشارت ہے اور حالت بیداری میں اگر وہ اور زیادہ سنت کا اتباع کرنے والا بن جاتا ہے تو اس کی علامت ہےکہ وہ خواب سچا تھا لیکن حالت بیداری میں اس کو اس کے اعمال شریعت کی خلاف معلوم ہوں تو وہ خواب دھوکا تھا- مختصر یہ کہ خواب شرعی حجت نہیں اور نہ ہی خواب کی وجہ سے شریعت کا کوئی حکم تبدیل یا معطل ہوسکتا ہے-
(معارف القرآن ج 5، ص:18- اصلاحی خطبات ج5، ص:89)
شیخ عبد الواحد اور حسین لڑکی:
مولانا زکریا صاحب لکھتے ہیں کہ:
" شیخ عبد الواحد رح مشھور صوفیاء میں ہے- فرماتے ہیں کہ ایک روز ننید کا اتنا غلبہ ہوا کہ رات کو اورادووظائف بھی چھوٹ گئے- خواب میں یدکھا کہ ایک نہایت حسین خوبصورت لڑکی سبز ریشمی لباس پہنے ہوئے ہے جس کے پاؤں کی جوتیاں تک تسبیح میں مشغول ہیں- کہتی ہے کہ میری طلب میں کوشش کر میں تیری طلب ہوں- اس کے بعد اس نے چند شوقیہ شعر پڑھے- یہ خواب سے اٹھے اور قسم کھالی کہ رات کو نہیں سوؤں گا کہتے ہین کہ 40 برس تک صبح کی نماز عشاء کے وضو سے پڑھی-"
(فضائل نماز، ص:60، باب سوم)
دیکھ لیا! شیخ عبدالواحد نے لڑکی کے حصول کے لیے شریعت کے خلاف وروی کی قسم کھالی جو 40 سال تک چلتی رہی-
حالانکہ حضرت عبداللہ بن عمرو بر عاص رض والی حدیث میں نبی ۖ نے فرمایا: روزہ رکھ اور افتار بھی کر، قیام بھی کر اور سو بھی، کیونکہ تیری آنکھ کا بھی تجھ پر حق ہے، تیری جان کا بھی تجھ پر حق ہے اور تیری بیوی بچوں کا بھی تجھ پر حق ہے-
(بخاری)
نوجوان صوفی اور حسین لڑکیاں:
مولانا زکریا صاحب نے ایک اور واقعہ لکھا ہے:
' ابوبکر ضریر رح کہتے ہیں کہ میرے پاس ایک نوجوان غلام رہتا تھا- دن بھر روزہ رکھتا تھا اور رات بھر تہجد پڑھتا- ایک دن وہ میرے پاس آیا اور بیان کیا کہ میں اتفاق سے آج رات سوگیا تھا- خواب میں دیاھ یہ محراب کی دیوار پھٹی- اس میں سے چند لڑکیاں حسین اور خوبصورت ظاہر ہوئيں مگر ایک ان میں نہایت بدصورت بھی ہے- میں نے ان سے پوچھا تم کون ہو اور یہ بدصورت کون ہے وہ کہنے لگئيں ہم تیری گذشتہ راتیں ہیں اور یہ تیری آج کی رات ہے-"
(فضائل نماز، ص:61، باب سوم)
جناب رسول اللہ ۖ نے روزانہ روزہ رکھنے سے بھی منع فرمایا ہے اور مسلسل قیام اللیل سے بھی- آپ ۖ بلا ناغہ تہجد ادا کیا کرتے تھے لیکن اس کے باوجود آپ ۖ رات کو سوتے بھی تھے- ایک حدیث میں آپ ۖ نے فرمایا:
" میں تم سب سے زیادہ اللہ تعالی سے درنے والا ہوں اور پرہیزگار بھی ہوں اور اس باوجود میں روزہ بھی رکھتا ہوں اور چھوڑتا بھی ہوں، رات کو نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں، اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں اور جو کوئی میری سنت سے منہ موڑے گا اس کا مجھ سے کوئی واسطہ نہین-"
(صحیح بخاری)
لیکن یہاں حسین لڑکیوں نے نوجوان کو بتایا کہ اگر سوگئے تو تمہارے نصیب میں بدصورت لڑکیاں ہی آئيں گی- ان دونوں خوابوں میں شیاطین ہی صوفیاء کو شریعت کی خلاف ورزی پر اکسا رہے ہین اور یہ فورا تیار ہوجاتے ہیں- یہ نوجوان تو پہلے ہی دو کام خلاف شریعت کررہا تھا یعنی ہر روز روزہ رکھنا اور ہر رات قیام اللیل-
ایک بزرگ اور حسینہ عالم:
مولانا زکریا صاحب ایک اور واقعہ لکھا ہے:
" " ایک بزرگ رح کہتے ہیں کہ مجھے ایک رات ایسی گہری ننید آئی کہ آنکہ نہ کھلی- میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک ایسی نہایت حسین لڑکی ہے اس جیسی میں نے زندگی بھر نہیں دیکھی- اس میں سے ایسی تیز خوشبو مہک رہی تھی کہ میں نے ویسی خوشبو بھی کبھی نہیں سونگھی- اس نے مجھے ایک کاغذ کا پرچہ دیا جس میں تین شعر لکھ ہوئے تھے- ان کا مطلب یہ تھا کہ تو ننید کی لذت میں مشغول ہوکر جنت کے بالاخانوں سے غافل ہوگیا جہاں ہمیشہ تجھے رہنا ہے اور موت بھی وہاں نہ آئے گی- اپنی نیند سے اٹھ، سونے سے تہجد میں قرآن پڑھنا بہتر ہے- کہتے ہیں اس کے بعد سے جب مجھے نیند آتی ہے اور یہ اشعار یاد آتے ہیں تو نیند اڑجاتی ہے-"
(فضائل نماز، ص:61، تیسرا باب)
شیخ مظہر سعدی اور نو عمر لڑکیاں:
اسی طرح مولانا زکریا لکھتے ہیں کہ:
" شیخ مظہر سعدی رح ایک بزرگ ہیں اللہ تعالی کے عشق و شوق میں 60 برس تک روتے رہے- ایک شب خواب میں دیکھا گویا ایک نہر ہے جس میں خالص مشک بھرا ہوا ہے اور اس کے کناروں پر موتیوں کے درخت سونے کے شاخوں والے لہلہارے ہیں- وہاں چند نو عمر لڑکیاں پکار پکار کر اللہ کی تسبیح میں مشغول ہیں انہوں نے پوچھا تم کون ہو- تو انہوں نے دو شعر پڑھے جن کا مطلب یہ تھا کہ ہم کو لوگوں کے معبود اور محمد ۖ کے پروردگار نے نے ان لوگوں کے واسطے پیدا فرمایا ہے جو رات کو اپنے پروردگار کے سامنے مناجات کرتے رہتے ہیں-"
(فضائل نماز، ص:6-، تیسرا باب)
یہاں یہ چيز واضح نہیں کہ مطہر سعدی 24 گھنٹے روتے رہتے تھے یا کبھی کبھی روتے تھے کیونکہ 60 برس سال مسلسل رونا بڑے جان جوکھوں کا کام ہے- اب دوسری طرف سنت رسول ۖ دیکھیے-
"حضرت عبداللہ بن حارث رض فرماتے ہیں کہ میں نے آنحضرت ۖ سے زیادہ تبسم کرنے والا نہیں دیکھا"
(شمائل ترمذی، ص:140)
معلوم ہوا کہ آپ ۖ جائز دل لگی اور مزاح بھی فرمالیا کرتے تھے-
ان خوابوں کے فضائل؟
اب ہم ان چاروں واقعات اور خوابوں کو دیکھتے ہیں کہ ان کے فضائل کیا ہیں:
1/ یہ حکایت صوفیہ ہیں-
2/یہ سب خوابوں کی باتیں ہیں- (شریعت کا اس سے کوئی تعلق نہیں)
3/ سارے صوفیوں کو نہایت حسین اور خوبصورت (اور نو عمر لڑکیاں) نظر آتی ہیں-
4/ ان میں اکٹر شاعر تھیں جو شوقیہ شعر پڑھتی تھیں- حسینہ عالم نے تو شعر لکھ کردیے!
5/ ان میں سے 2 صوفی خلاف شرع کام باقاعدگی سے کرتے تھے – تیسرے نے لڑکی کے حصول کے لیے رسول اللہ ۖ کی سنت کی خلاف ورزی کی قسم کھالی اور یہ خلاف ورزی 40 سال جاری رہی!
6/ ان چاروں واقعات اور خوابوں کا تعلق فضائل نماز سے ہے! اب آپ خود ہی اندازہ کرلیں کہاں نماز جیسی عبادت اور کہاں یہ صوفیاء کے شیطانی خواب؟!۔۔۔۔۔۔۔