چند سال پہلے ہمارے قصبہ کی ایک دیوبندی مسجد میں ایک دفعہ شام کے بیان میں تبلیغی مقرر نے جماعت کے ساتھ نکلنے کی ترغیب دیتے ہوئے کہا کہ :(( اللہ کا ارشاد ہے کہ ہلکے ہو یا بوجھل اللہ کی راہ میں نکلو ))
تو اس مسجد کے دیوبندی امام نے پوچھا کہ اللہ نے یہ کہاں فرمایا ہے تو مقرر نے کسی آیت کا حوالہ دیا جس پر مسجد کے امام نے کہا کہ یہ حکم تو جہاد کیلئے ہے
اس سے یہ تو معلوم ہوا کہ تبلیغی پہ اعتراض دیوبندی نے کیاتھا ۔
بہرحال یہ اعتراض واقعی علمی ہے ۔وہ واقعی کئی لوگ ایسی آیات پڑھتے ہیں ۔ اگر کوئی قطعی قتال والی آیت دعوت کے لئے پڑھتا ہے تو صحیح نہیں ۔ اس میں تفصیل ہے ۔
لیکن کیا اس میں علمی دو رائے نہیں ہوسکتی ۔ مثلاََ یہ جو سورۃ التوبہ کی آیت کا حوالہ دیا گیا ہے ۔
انفِرُوا خِفَافًا وَثِقَالًا وَجَاهِدُوا بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ (41)
قرآن کریم کی آیات کا حکم صرف شان نزول میں ہی بند نہیں ہوتا ۔
اور قرآن و حدیث میں دو مختلف اصطلاحیں استعمال کی گئی ہیں ۔
قتال فی سبیل اللہ ۔یہ خاص ہے
اور جہاد فی سبیل اللہ یہ عام ہے ۔
یہ تو کسی سے بھی مخفی نہیں ہے ۔
اس آیت میں جان و مال سے اللہ کے راستے میں جہاد کا حکم ہے ۔ اس معاملے میں سورۃ التوبہ کی ہی دوسری آیت سے مزید اس کی وضاحت بھی ہوتی ہے ۔
وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنفِرُوا كَافَّةً ۚ فَلَوْلَا نَفَرَ مِن كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَائِفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ (122)
یہ آیت بھی ہر علم دین و دعوت کو عام ہے ۔ اور اس پر سب متفق بھی ہیں ۔
تفسیر ابن کثیرؒ میں ان دو آیات کی تفسیر ان شاء الله فائدہ مند ہوگی ۔ اس میں ان دونوں کا تعلق بھی بتایا گیا ہے ۔
اس میں یہاں تک نقل کیا گیا ہے کہ بعض سلف کے نزدیک تو دوسری آیت نے پہلی آیت کو منسوخ کر دیا (یعنی تخصیص کردی کے سب کا نکلنا ضروری نہیں ، ناقل)
تو پھر اس سے اگر کوئی پہلی آیت کو بھی عام لیتا ہے تو اس کی رائے کچھ غلط تو نہیں ۔ مسئلہ تو علمی ہے ۔