• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تبلیغی جماعت علم غیب اور کشف !!!

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
تبلیغی جماعت علم غیب اور کشف !!!

السلام علیکم پیارے مسلمان بھائیو!
آج میرے اس مضمون کا عنوان تبلیغی جماعت کی تحقیق کے اطراف گھومتا ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ جماعت اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے کوشاں ہے مگر اس میں کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کا براہ راست واسطہ عقائد پر ہے اور جیسا کہ آپ جانتے ہین کہ جس کسی مسلمان یا کسی دینی جماعت کے عقائد اصل شریعت کے رو سے صحیح نہیں تو وہ مسلمان یا جماعت کسی طرح بھی حقیقی اسلام کی نمائدگی نہیں کرسکتی۔
جب تک عقیدہ شریعت محمدی ۖ کے مطابق نہیں تب تک اسلام مکمل نہیں ہوتا، دین کے ہر پہلو کا دارومدار عقیدے پر ہوتا ہے جو کہ خلص قرآن اور صحیح احادیث پہ مبنی ہے اور اس میں کسی طرح کی ملاوٹ جیسا کہ بدعت یا شرک نہیں ہے۔
یہی چيز تبلیغی جماعت کے اندر موجود نہیں ہے یعنی عقیدہ خالص نہیں ہے تو ایسے مسلمانوں یا ایسی جماعت کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
یہ جماعت صوفی ازم کی پرچار کرتی ہے اور اس میں علم غیب اور قبروں سے مدد مانگنا اور قبر والوں سے فیض ملنے کے عقیدے پر قائم ہے تو یقینن یہ کسی بھی قیمت پر صحیح اسلام کی تعلیمت پر مبنی ہو نہیں سکتی۔
اس سلسلہ میں ان کی ایک کتاب ہے جس کا نام فضائل اعمال ہے جو وہ قرآن اور حدیث سے بھی زیادہ اس کی تبلیغ کرتے ہین اور اسی ہی کی تلقین بھی کرتے ہیں جو مولانہ ذکریا صاحب نے مرتب کی ہے۔
مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ جب مولانا ذکریا صاحب کی دماغی حالت خراب تھی تب جاکے انہوں نے یہ کتاب تحریر کی تھی، اب آپ بتائيں کہ ایک شخص جس کی دماغی حالت ٹھیک نہیں ہو اس کی لکھی ہوئی تحریر پر بلا شک و شبہ ایمان لانا اور اس کی تبلیغ کرنا کس طرح جائز ہے؟
شاید یہی وجہ ہے کہ اس کتاب میں قرآن و حدیث کے خلاف بےشمار قصے من گھڑت کہانیاں اور مصنف کی اپنے موقف سے بہت زیادہ تضاد پایا جاتا ہے۔
اس کا ثبوت بھی انہی صاحب کی زبانی آپ پڑھ لیں تو بہتر ہوگا۔
" اللہ تعالی کے ایک برگزیدہ بندے اور میرے مربی و محسن کا ارشاد 1353ھ میں ہوا کہ صحابہ کرام رض کے چند قصے بالخصوص کم سن صحابہ اور عورتوں کی دینداری کے کچھ حالات اردو میں لکھی جائے۔۔۔۔۔۔۔۔ اس ارشاد کی تعمیل بہت ضروری تھی کہ احسانات کے ڈوبے ہوئے ہونے کے علاوہ اللہ والوں کی خوشنودی دو جہاں میں فلاح کا سجج ہوتی ہے- مگر اس کے باوجود اپنی کم مائگی سے یہ امید نہ ہوئی کہ میں اس خدمت کو مرضی کے موافق ادا کرسکتا ہوں- اس لیے 4 سال برس تک اس ارشاد کو سنتا رہا اور اپنی نااہلیت سے شرمندہ ہوتا رہا کہ صفر 1357ھ میں ایک مرض کی وجہ سے چند روز کے لیے دماغی کام سے روک دیا گیا- تو مجھے خیال ہوا کہ ان خالی ایام کو بابرکت مشغلہ میں گزاردوں کہ اگر یہ اوراق پسند خاطر نہ ہوئے تب بھی میرے لیے یہ خالی اوقات بہترین اوربابرکت مشغلہ میں گزر ہی جائيں گے۔"
( فضائل اعمال= رحمانہ: 7، فیضی 8، قدیمی 6)
اس کا مطلب کہ صاحب موصوف کو خود بھی اندازہ نہیں تھا کہ میری تحریر کو لوگ جوق در جوق آنکھوں پر لگائيں گے اور اس پر اندھا اعتماد کریں گے ورنہ اس طرح کا شک پیدا نہیں ارتے کیونکہ انہین یقن تھا کہ دماغی مرض سے کون سا علمی خزانہ تحریر ہوگا۔۔۔۔؟؟؟!!!
چلیں یہ تو پتہ چل گیا کہ جس تبلیغی جماعت کی بنیاد ہے " فضائل اعمال" وہ دماغی مرض کے دوراں تخلیق کی گئي اب آگے چل کے دیکھنا ہے کہ اس میں آخر کیا غیر شرعی باتیں ہیں جو ایک دماغی مرض والا انسان ہی ترتیب دے سکتا ہے نہ کہ ایک دینی عالم۔۔۔۔۔۔۔۔ان شاءاللہ
علم غیب
"
علم غیب" یا اللہ تعالی کی ایک صفت ہے اور قران میں اس کی کھلے لفظوں میں وضاحت کی گئی ہے:
"غیب کی چابیاں اللہ تعالی کے پاس ہیں ان کو کوئی نہیں جانتا مگر وہی اور وہی جانتا ہے جو کچھ خشکی میں ہے اور پانی میں ہے اور پتا حرکت نہیں کرتا مگر وہ اس کو جانتا ہے اور کوئی دانہ زمین کی اندھیروں میں یا کسی خشکی یا تری میں ہو تو وہ جانتا ہے۔"
( الانعام: 59)
" اللہ تعالی نے ایک اور جگہ پر نبی پاکۖ کو اپنے متعلق عالم غیب کی نفی کرنے کا حکم فرمایا:
"کہدیجیے! میں نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ تعالی کے خزانے ہیں اور نہ ہی میں غیب جانتا ہوں اور نہ میں کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں اور میں وحی کے سوا کسی چيز کی پیروی نہیں کرتا۔"
(الانعام: 50)
جبکہ تبلیغی جماعت اپنے بزرگوں کی بابت غیب دانی کی دعویدار ہے:
1/ " جو لوگ اہل کشف ہوتے ہیں ان کو گناہوں کا زائل ہوجانا محسوس ہوجاتا ہے جیسے امام اعظم رح کا قصہ مشھور ہے کہ وہ وضو کا پانی گرتے ہوئے یہ محسوس فرمالیتے تھے کہ کون سا گناھ اس میں دھل گیا"۔
(فضائل اعمال= رحمانیہ:330، فیضی:304، قدیمی:208)
2/ " امام ابو حنیفہ کو یہ بھی معلوم ہوجاتا تھا کہ کبیرہ گناھ ہے یہ صغیرہ، مکروہ فعل ہے یا خلاف اولی- ایک دفعہ کوفہ کی جامع مسجد میں وضو خانہ تشریف فرما تھے کہ ایک جوان وضو کررہا تھا اس کے وضو کا پانی گرتے ہوئے آپ نے دیکھا۔۔۔۔اس کو چپکے سے نصیحت فرمائی کہ بیٹا وکلدین کی نافرمانی سے توبہ کرلے اس نے توبہ کرلی"-
3/ " ایک اور شخص کو دیکھا تو اس ک ونصیحت فرمائی کہ بھائی زنا نہ کیا کر بہت برا عیب ہے، اس وقت اس نے بھی توبہ کرلی۔
4/ ایک اور شخص ک ودیکھا کہ شراب خوی اور لہو و لعب کا کا پانی گرہا تھا اس کو بھی نصیحت فرمائی اس نے بھی توبہ کرلی-
الغرض اس کے بعد امام صاحب نے اللہ تعالی سے دعا کی کہ اے اللہ تعالی اس چيز کو مجھ سے دور فرمادے کہ میں ہوگوں کی برائیوں سے مطلع ہونا نہیں چاہتا- اللہ تعالی نے دعا قبول فرمائی اور یہ چيز زائل ہوگئی۔
( فضائل اعمال= رحمانیہ: 648، فیضی: 560، قدیمی: 466)
غور فرمائيے!!!
1/ امام صاحب جھڑتے ہوئے گناہوں کو دیکھ کر لوگوں کو نصیحت فرماتے اور لوگ اپنی اصلاح کرلیتے- یہ ایک نفع بخش کام تھا جسے جاری رہنا چاہیے تھا مگر امام صاحب نے اس کو پسند نہیں فرمایا-
2/ جھڑتے گناھ کو دیکھنا یہ امام صاحب پر اللہ تعالی کی طرف سے انعام بھی تھا۔
3۔ مگر مام صاحب نے کفران نعمت کرتے ہوئے اللہ تعالی سے کہ دیا کہ یہ اپنی نعمت واپس لے لے مجھے اس کی ضرورت نہیں- یہ کتنی بڑی گستاخی ہے خود سوچ لیں؟
4/اب لوگوں کی اصلاح کا یہ سلسلہ نعمت کے واپس ہوتے ہی ختم ہوگیا۔
اللہ تعالی کے انبیاء اور صلحاء کی یہ صفت تھی کہ وہ اللہ تعالی کے انعامات کا شکر ادا کرتے ہیں جس کی وجہ سے اللہ تعالی اور زیادا انعامات عطا فرماتا ہے- اور یہ اللہ تعالی کا واعدہ بھی ہے:
" اگر تم شکر کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ دوں گا اور اگر کفر کرو گے تو میرا عذاب سخت ہے"
( ابراھیم 14/7)
5/ سوچیے! جھڑتے گناھ دیکھ لینا اگر یہ نعمت تھی تو واپس کیوں کی؟؟ او راگر لوگوں کی اصلاح ہو رہی تھی تو چھوڑی کیوں؟؟ اور اگر یہ نعمت نہیں تھی تو پھر اس کو کرامت بنا کر "فضائل اعمال" میں کیوں لکھ دیا گیا- حقیقت یہ ہے کہ یہ بات بلکل غلط ہے اور اس لحاظ سے بھی غلط ہے کہ یہ اعزاز کسی صحابی کونہیں ملا اور نہ کبھی نبی پاک ۖ کو کسی کے جھڑتے گناھ نظر آئے۔
" غزوہ "بنی المصطلق" سے واپسی پر ایک مہاجر اور انصاری میں جھگڑا ہوگیا- رسول اللہۖ نے دونوں میں صلح کرادی- مگر عبداللہ بن ابی منافق نے اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی اور مہاجرین اور انصاری کو بڑھاکر فتنہ پیدا کرنا چاہا اور کہا کہ یہ ذلیل مہاجر اب معززین مدینہ کو تنگ کرنے لگے ہیں ہم مدینہ پہنچ کر ان ذلیلوں کو نکال دیں گے- سیدنا زید رض جو کم عمر مگر بہت غیور تھے- انہوں نے یہ گفتگو رسول اللہۖ تک پہنچائی- عبداللہ بن ابی نے قسمیں کھائيں اور نبی پاکۖ کو یقین دلایا کہ میں نے ایسی کوئی بات نہیں کی- بعض صحابہ رض نے اس کی قسموں کی وجہ سے کہا کہ زید کم عمر ہے ہوسکے بات کوصحیح نمونے سمجھ نہ سکا ہو- رسول اللہۖ خاموش ہوگئے- سیدنا زید بن ارقم رض پریشان تھے کہ سچا ہونے کے باوجود صحابہ کرام رض اور رسول اللہۖ کی نگاھ میں میری حیثیت خراب ہوگئی ہے- اللہ تعالی نے آیات نازل فرما کر سیدنا زید بن اارقم رض کی سچائی اور عبداللہ بن ابی کے جھوٹے ہونے کا اعلان کردیا-
یہ سورۃ منافقون کی آیت نمبر 8 ہے اور اس کی تفصیل کتب احادیث میں بھی موجود ہے- عبد اللہ بن ابی اور سیدنا زید بن ارقم رض بھی نبی پاکۖ کے سامنے وضو کرتے رہے- ان میں سے ایک سچا تھا اور دوسرا جھوٹا منافق تھا مگر رسول اللہۖ کو ان میں سے کسی کے وضو سے کوئی چيز نظر نہیں آئی- مگر فضائل اعمال میں یہ مقام امام ابو حنیفہ رح کو دے دیا گیا-
فضائل اعمال میں ایک اور خلاف حقیقت واقعہ:
صوفیاء کو بھی اکثر یہ چيز مجاہدوں (مشقت کی عبادتوں) کی کثرت سے حاصہ ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے وہ جمادات اورحیوانات کی تسبیح، ان کا کلام اور ان کی گفتگو سمجھ لیتے ہیں-
محققین مشائخ کے نزدیک چونکہ یہ چيز نہ دلیل کمال ہے نہ موجب قرب جو بھی اس قسم کے مجاہدے کرتا ہے وہ حاصہ کرلیتا ہے خواہ اے اللہ تعالی کا قرب حاصل ہو یا نہ ہو۔
(فضائل اعمال= رحمانیہ:648، فیضی: 561، قدیمی: 465)
بھائیو! غور فرمائیں یہ عقیدہ ہے مولانا زکریا صاحب کا اور تبلیغ والے پڑھ پڑھ کر لوگوں کو سناتے ہیں- جو بھی اس قسم کے مجاہدے کرے وہ حیوانات کی بولی سمجھ سکتا ہے- یہ چيز اللہ تعالی کے مقرب بھی حاصل کر سکتے ہیں اور نافرمان بھی- یہ چيز کمال کی دلیل بھی نہیں ہے- مگر فضائل اعمال کی زینت بھی ہے۔۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ کیا خوب فضیلت ہے؟؟؟
جمادات و حیوانات کے متعلق اسلام تعلیمات:
اللہ تعالی اپنے بندوں میں سے جس کو چاہے بطور معجزہ یا کرامت حیوانات و جمادات کی تسبیح بتادے یا سنادے مگر یہ چيز ان کے اختیار میں ہر گز نہیں ہوتی کہ مجاہدے کرنے والے جب چآہیں وہ سن لیں-
رسول اللہ ۖ کے ساتھ پیش آنے والا ایک واقعہ:
غزوہ بنی المصطلق میں دوراں سفر سیدہ عائشہ رض کا ہار گم ہوگیا تلاش میں صحابہ کرام کو رسول اللہ ۖ نے روانہ کیا۔ (قریب ہی گم شدہ ہار اونٹ کے نیچے اللہ تعالی کا ذکر کرتا رہا ہوگا۔ ۔ ۔ ۔۔ نہ صحابہ نے اس کے ذکر کی آواز سنی اور نہ ہی رسول اللہۖ کو اس کا علم ہوسکا) سارا قافلہ پریشان تھا، نماز کا وقت ہوچکا تھا، قریب کہیں پانی کا نام و نشان نہیں تھا، اب لوگ باتیں کرنے لگے کہ عائشہ رض کی غفلت کی وجہ سے سارا قافلہ پریشان ہے ادھر سیدنا ابوبکر رض لوگوں کی باتیں سن سن کر مزید پریشان ہورہے تھے اور غصہ بڑرہا تھا- بیٹی کے پاس اسی عالم میں پہنچے خوب ڈانٹا- اور عائشہ رض کی کوکھ میں مکہ مارا۔ ۔ ۔۔ ۔ اتنے میں جبرائيل علیہ السلام تیمّم ک ےاحکامت لے کر اترے اور اللہ تعالی کا حکم نبی پاک ۖ تک پہنچایا کہ:
" جب تم میں سے کوئی بیمار ہو یا سفر میں اور تم پانی ہ نہ پاؤ تو پاک مٹی پر تیمم کرلو"
(المائدہ 6/6) [ تفصیل کے لیے دیکھیے بخاری کتاب التفسیر]
بھائیو! آپ خود فیصلہ کریں کا کیا صوفیاء۔ ۔ ۔ ۔۔ صحابہ کرام رض اور رسول اللہ ۖ سے زیادہ مجاہدے کرتے ہیں کہ یہ صوفی تو جمادات کی بولی سمجھ لیں اور صحابہ رض جن کی ساری زندگیاں ہی میدان جہاد میں گزر گئيں وہ جمادات کی بولی نہ سمجھ سکے بتائيے تبلیغی بھائیوں کے نزدیک فضیلت کس کی ثابت ہوئی؟ صوفیاء کی یا رسول اللہۖ کی اور صحابہ رض کی؟؟
روٹی کی کہانی فضائل اعمال کی زبانی:
شیخ ابو الخیر اقطع فرماتے ہیں میں مدینہ منورہ میں آیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔5 دن وہاں قیام کیا۔ کچھ مجھ کو ذوق و لطف حاصل نہ ہوا۔ میں قبر شریف کے پاس حاضر ہوا اور جناب رسول اللہۖ اور سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر رض کو سلام کیا اور عرض کیا اے رسول اللہۖ آج میں آپ کا مہمان ہوں پھر وہاں سے ہٹ کر منبر کے پیچھے سوگیا- خواب میں حضور ۖ کو دیکھا- سیدنا ابوبکر رض آپ کے داہنی حانب اور سیدنا عمر رض آپ کے بائيں جانب تھے اور سیدنا علی رض اپ کے آگے تھے۔ سیدنا علی رض نے مجھ کو ہلایا اور فرمایا کہ رسول اللہۖ تشریف لائے ہیں- میں اٹھا اور آپ7 کی دونوں آآنکھوں کے درمیان چوما حضور ۖ نے مجھے ایک روٹی عنایت فرمائی- میں نے آدھی کھالی اور جاگا تو آدھی میرے ہاتھ میں تھی۔
(فضائل اعمال= رحمانیہ: 797، قدیمی:835)
روٹی لے کر نبیۖ کی روح آسمان سے اتری:
1/ شاھ ولی اللہ اپنے یا اپنے والد کے متعلق لکھتے ہیں کہ ایک روز مجھے بہت ہی بھک لگی (نا معلوم کتنے روز کا فاقہ تھا) میں نے اللہ جل شانہ سے دعا کی تو میں دیکھا کا نبی ۖ کی روح آسمان سے اتری اور حضورۖ کے ساتھ ایک روٹی تھی گویا اللہ تعالی نے نبی پاکۖ کو ارشاد فرمایا تھا کہ یہ روٹی مجھے مرحمت فرمائيں۔
(فضائل اعمال= رحمانیہ: 797، قدیمی:835)
2/ ایک بھوکے کو حضور ۖ نے دودھ کا پیالہ بھیجا۔
(فضائل اعمال= رحمانیہ: 797، قدیمی:835)
3/ اور اور قصے مین لکھا ہے کہ شاھ جی کو حضور ۖ نے خواب میں روٹی دی جاگنے پر زعفران کی خوشبو آرہی تھی۔
(فضائل اعمال= رحمانیہ: 799، قدیمی: 836)
4/ ایک قصہ اس طرح لکھا ہوا ہے کہ شاھ جی بیمار ہوگئے خواب میں حضور کریم ۖ کی زیارت ہوئی آپ ۖ نے فرمایا: " بیٹے کیسی طبیعت ہے اس کے بعد شفا کی بشارت فرمائی اور اپنی داڑھی مبارک میں سے دو بال مجھے عطا فرمائے میری اس وقت صحت ٹھیک ہوگئی اور جب میری آنکھ کھلی تو دونوں بال میرے ہاتھ میں تھے۔
(فضائل اعمال= رحمانیہ: 798، قدیمی:835)
5/ ان واقعات کو لکھ کر مولانا ذکریا مزید کہتے ہیں کہ جب اکابر صوفیا کی توجہات معروف و متواتر ہیں تو سید الاولین و الآخرین کی توجہ کا کیا پوچھنا۔
(فضائل اعمال= رحمانیہ: 797، قدیمی: 834)
بھائیو توجہ فرمائيں:
ان واقعات میں قبر والوں سے سوال کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ سماء موتی کے عقیدے کی دعوت پیش کی گئی ہے۔
سماع موتی کا عقیدہ شرک کی طرف کھلنے والا چور دروازہ ہے- جسے تبلیغی بورگوں نے فضائل اعمال کے ذریعے کھولا ہوا ہے- یہ لوگ کہتے ہیں:
" اللہ تعالی سے سب کچھ ہونے کا یقین اور غیروں سے کچھ نہ ہونے کا یقین"-
مگر یہاں اس دعوی کی حقیقت کھل کے سامنے آگئی ہے ان کے عقیدے کے مطابق:
1/ نبی ۖاپنی قبر پر آنے والے ضرورتمندوں کی ضرورت کو جانتے اور ضرورتیں پوری بھی کرتے ہیں۔
2/ (اگر قبر مبارک میں راشن کی کمی ہوجائے تو) روح مبارک آسمان جگر لگا کر سائل کی ضرورت کا سامان خوراک پہنچاتی ہے اور سائل جاگتے جاگتے یہ سب منطر دیکھ رہا ہوتا ہے۔
3/ خواب میں داڑھی مبارک کے بال دیے تو جاگنے پر ہاتھ میں موجود تھے۔
4/خواب میں روٹی دی تو جاگنے پر وہ بھی ہاتھ میں تھی۔
روزی دینے والا صرف اللہ تعالی ہے:
1/ اللہ تعالی کے سوا جن کی تم عبادت کرتے ہو وہ تمہین روزی دینے کا اختیار نہیں رکھتے۔ رزق اللہ تعالی کے پاس تلاش کرو اسی کی عبادت کرو اور اسی کا شکر کرو، کیونکہ پلٹ کر اسی کی طرف جانا ہے۔
(العنکبوت: 29/17)
بھوک میں صرف اللہ تعالی کھلاتا پلاتا ہے:
1/ (ابراھیم علیہ السلام نے کہا) اور وہی اللہ تعالی مجھے کھالاتا اور پلاتا ہے اور جب میں بیمار ہوتا ہوں شفا بھی وہی عطا کرتا ہے۔
(الشعرا= 26/ 79-80)
2/ اگر اللہ تعالی رزق روک لے تو کوئی ہے جو تم کو روزی دے سکے۔
( ملک: 67/21)
بھائیو! یہ ہے اسلامی عقیدہ جس سے صاف پتہ چلتا ہے ہے کہ پکارنے والے کی پکار، ضرورتمندوں کی ضرورتیں، بھوکوں کو رزق، بیماروں کو شفاء صرف اللہ تعالی عطا کرتا ہے اس کے علاوہ کوئی نبی، ولی، قبر والے کی پکار نہیں سن سکتے- اگر بالفرض سن بھی لیں تو مدد نہیں کرسکتے۔ لہذا اپنی ضرورتین لے کر اللہ تعالی کے سامنے پیش کرنا چاہیے نہ کہ بے اختیار قبر والوں کے پاس۔ (قبر کسی نبی کی ہو یا کسی ولی کی)
بھائیو! فضائل اعمال میں اس قسم کے بہت سے واقعات ہیں۔ یہاں میں نے صرف چند کو مثال کے طور پر بیان کیا ہے اللہ ایسے مشرکانہ عقیدے سے بچائے اور ہمیں اللہ تعالی کے حکموں اور نبی ۖ کے طریقوں پر عمل کرنے کی توفیق دے۔ آمین
والسلام علیکم

http://www.urduvb.com/forum/showthread.php?t=3624


 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
شمولیت
جون 01، 2014
پیغامات
297
ری ایکشن اسکور
49
پوائنٹ
41
کیا ایک غیر اہل حدیث "جماعت اہل حدیث کا امیر رہا؟
یہ بتائیں کہ گھڑیالوی صاحب مشرک تھے یا گمراہ؟
 
Top