Dua
سینئر رکن
- شمولیت
- مارچ 30، 2013
- پیغامات
- 2,579
- ری ایکشن اسکور
- 4,440
- پوائنٹ
- 463
بسم اللہ الرحمن الرحیم
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا ﴿٧٠﴾ يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَمَن يُطِعِ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا ﴿٧١﴾ سورہ احزاب
"اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور سیدھی سیدھی (سچی) باتیں کیا کرو ۔
تاکہ اللہ تعالیٰ تمہارے کام سنوار دے اور تمہارے گناہ معاف فرما دے اور جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی تابعداری کرے گا اس نے بڑی مراد پالی۔"
اللھم اصلح احوال المسلمین فی کل مکان۔۔۔آمین
تبلیغی جماعت کا ہر کسی کو اس کے حال پر چھوڑنے اور منع نہ کرنے کی دلیل ایک واقعہ!
"کہ جس روز موسی علیہ السلام کوہ طور کی طرف روانہ ہوئے تو راستے میں انھوں نے ایک گڈریا دیکھا جو کہ اللہ سے کلام کر رہا تھا ، وہ کہتا تھا کہ اے اللہ تو کہتا ہے کہ تو اکیلا ہے، تو اے میرے رب میں تیرے پاس آتا ہوں تا کہ تیرے بال سنواروں اور تجھے کھانا کھلاؤ غرض تیری خدمت کروں، یہ سننے پر حضرت موسی علیہ السلام کو شدید غصہ آیا اور فرمایا کہ اللہ تعالی تو بے نیاز ہے اور اسے ان سب چیزوں کی ضرورت نہیں ،اور وہ کسی کا محتاج نہیں۔۔۔تو وہ شخص خاموش ہو گیا مگر اللہ تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام سے فرمایا ، کہ وہ میرا بندہ جیسے بھی سہی میری عبادت کر رہا تھا اور مجھے یاد کر رہا تھا ،مگر تیرے منع کرنے سے وہ رک گیا۔"
نتیجہ
کسی کو بھی روکو نہیں۔۔۔کیا پتا اللہ کو کونسا عمل اور کون پسند آ جائے!
اس واقعہ کی سند مطلوب ہے!
دلائل سے وضاحت ہو جائے تو بہترین ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا ﴿٧٠﴾ يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَمَن يُطِعِ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا ﴿٧١﴾ سورہ احزاب
"اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور سیدھی سیدھی (سچی) باتیں کیا کرو ۔
تاکہ اللہ تعالیٰ تمہارے کام سنوار دے اور تمہارے گناہ معاف فرما دے اور جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی تابعداری کرے گا اس نے بڑی مراد پالی۔"
اللھم اصلح احوال المسلمین فی کل مکان۔۔۔آمین
تبلیغی جماعت کا ہر کسی کو اس کے حال پر چھوڑنے اور منع نہ کرنے کی دلیل ایک واقعہ!
"کہ جس روز موسی علیہ السلام کوہ طور کی طرف روانہ ہوئے تو راستے میں انھوں نے ایک گڈریا دیکھا جو کہ اللہ سے کلام کر رہا تھا ، وہ کہتا تھا کہ اے اللہ تو کہتا ہے کہ تو اکیلا ہے، تو اے میرے رب میں تیرے پاس آتا ہوں تا کہ تیرے بال سنواروں اور تجھے کھانا کھلاؤ غرض تیری خدمت کروں، یہ سننے پر حضرت موسی علیہ السلام کو شدید غصہ آیا اور فرمایا کہ اللہ تعالی تو بے نیاز ہے اور اسے ان سب چیزوں کی ضرورت نہیں ،اور وہ کسی کا محتاج نہیں۔۔۔تو وہ شخص خاموش ہو گیا مگر اللہ تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام سے فرمایا ، کہ وہ میرا بندہ جیسے بھی سہی میری عبادت کر رہا تھا اور مجھے یاد کر رہا تھا ،مگر تیرے منع کرنے سے وہ رک گیا۔"
نتیجہ
کسی کو بھی روکو نہیں۔۔۔کیا پتا اللہ کو کونسا عمل اور کون پسند آ جائے!
اس واقعہ کی سند مطلوب ہے!
دلائل سے وضاحت ہو جائے تو بہترین ہے۔