• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تبلیغی جماعت

شمولیت
نومبر 21، 2013
پیغامات
105
ری ایکشن اسکور
35
پوائنٹ
56
تبلیغی جماعت کردار کے آئینے میں
محمد عامر رانا
یوں تو تبلیغی جماعت کو پاکستان اور پاکستان سے باہر تبلیغ دین کے حوالے سے ایک بڑی جماعت کے طور پر دیکھا جاتا ہے، مگر اس جماعت کی تاریخ، مسائل اور کردار کے حوالے سے بہت کم لوگ آگاہ ہیں اور اس سلسلے میں تحقیقی کام بھی بہت کم ہوا ہے۔ محمد عامر رانا نے قائین تجزیات کے لیے اس اچھوتے موضوع پر قلم اٹھایا ہے اور اس بات کا جائزہ لیا ہے کہ مختلف ادوار سے گذرتے ہوئے تبلیغی جماعت آج کس مقام پر کھڑی ہے اور مغرب بالخصوص دہشت گردی کے تناظر میں تبلیغی جماعت کی سرگرمیوں کو کس نظر سے دیکھ رہا ہے، یہ مضمون دلچسپ بھی ہے، معلومات افزا بھی اور اس موضوع پر کام کرنے والوں کے لیے ابتدائی حوالہ بھی،چنانچہ امید ہے کہ قارئین اس سے پوری طرح حظ اٹھائیں گے۔(مدیر)
موضوع کا تعارف
تبلیغی جماعت کا کردار اور اس کے اثرات پر بحث عرصہ سے جاری ہے جو تاحال کسی منطقی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی۔ تبلیغی جماعت پر تنقید اور تحسین کرنے والوں کا دائرہ کار بہت وسیع ہے نہ صرف عالمِ اسلام بالخصوص جنوبی ایشیاء کے مذہبی حلقے اس تحریک کے تمام پہلوئوں کی کڑی جانچ پڑتال کرتے رہے ہیں بلکہ مغرب کے مفکروں کے لیے بھی تبلیغی جماعت ایک اہم مطالعہ رہا ہے۔ اس کے ناقدین میں حنفی/دیوبندی مسلک جس سے اس کا تعلق ہے بھی شامل رہے ہیں۔ سب کا اسے دیکھنے کا زاویہ نگاہ مختلف رہا ہے۔ سلفی(غیر مقلد) اور سعودی حنبلی(معروف معنوں میں وھابی) نہ صرف اس کے طریقہ کار پر اعتراض کرتے ہیں بلکہ اسے اسلام میں اختراع (بدعت)کا لیبل لگا کر ردبھی کرتے ہیں مثلاً معروف سعودی عالم شیخ ابنِ باز کا موقف کہ ''جو تبلیغی جماعت ہندوستان میں معروف ہے ان میں بہت خرافات و بدعات پائی جاتی ہیںتواور ان کے ساتھ تبلیغ کرنا جائز نہیں۔1'' اسی نوعیت کا اعتراض بعض حنفی/دیوبندی علماء بھی کرتے ہیں اور جماعت میں پائی جانے والے صوفیانہ مزاج کو بھی ہدف بناتے ہیں جیسا کہ ایک سابق تبلیغی رکن ڈاکٹر محمد سلیم نے لکھا ہے کہ''چاہیے تو یہ تھا کہ تبلیغی جماعت خالص اسلام کی نشرواشاعت کرتی مگر انہوں نے صوفیاء کی اہمیت پر اتنا زور دیا کہ اسلام کی اصل تعلیم اور اسلام کا اصل چہرہ پس منظر میں چلا گیا ''(2)
مغربی محققین جن سے بعض پاکستانی اور جنوبی ایشیا کے دانشور بھی اتفاق کرتے ہیں ، تبلیغی جماعت کے بارے میں دو بڑے تحفظات کا شکار ہیں ایک یہ کہ جماعت نوجوان نسل کو روایتی مذہبی کے تصورات کے ساتھ باندھ رہی ہے ۔جو ایک پس ماندہ طرزِ معاشرت کو فروغ دیتا ہے اور دوسرا یہ کہ تبلیغی جماعت کا ڈھیلا ڈھالا ڈھانچہ دہشت گردوں کو چُھپنے میں معاون ہوتا ہے۔۔امریکی تحقیقی ادارے"Center for policing Terorism"نے مئی2005 میں تبلیغی جماعت سے امریکہ کی سیکیورٹی کو لاحق خطرات کا تجزیہ کرتے ہوئے نتیجہ اخذ کیا کہ تبلیغی جماعت سے براہِ راست آئندہ پانچ سال امریکہ کی سیکیورٹی کو لاحق خطرات کا امکان بہت کم ہے لیکن تبلیغی جماعت کی آڑ میں دہشت گردوں کی بھرتی کا امکان بہت واضح ہے۔3
مذہبی اور مغربی تحفظات کے باوجود تبلیغی جماعت کا دائرہ کار وسیع ہوتا جارہا ہے۔ پاکستان بنگلہ دیش اور بھارت میں گذشتہ سالوں میں ہونے والے تبلیغی اجتماعات میں دنیا بھر سے لاکھوں افراد نے شرکت کی اور اس تعداد میں سال بہ سال اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ اس تناظر میں تبلیغی جماعت کے نظم طریقہ کار اس کے اثرات اور سب سے بڑھ کر اس امر کا جائزہ لینا اہم ہے کہ لوگ اس جماعت کی طرف کیوں راغب ہو رہے ہیں؟
پاکستان میں تبلیغی جماعت کے کردار اور اثرات کے حوالے سے اُس نہج پر تحقیقی اور علمی کام نہیں ہو سکا جس کی یہ متقاضی تھی۔ سوائے اس پر مذہبی آئمہ کی تنقید یا تحسین کے سوا کچھ قابلِ قدر مواد نہیں ملتا۔ البتہ بھارت میں اس موضوع پر چند تحقیقی مقالات لکھے گئے ہیں جن میں سر فہرست یوگندر سکند کا مقالہ ہے جس پر انہیں ڈاکٹر آف فلاسفی(Ph-D) کی ڈگری بھی ملی۔ مغرب میں فرانسیسی نژاد مفکرین مریم ابوذھب اور اولیور روئے(Opivier Roy)کا نام اس حوالے سے مستند تصور کیا جاتا ہے۔ سپین کی محققہ ڈاکٹر ایوأ بویگریو(Dr. Eva Borreguero) کاپی ایچ ڈی کا مقالبہ بھی ایک قابلِ قدر کاوش ہے۔ ان کے علاوہ بھی مغربی اور مشرقی ایشیائی محققین نے بھی اس موضوع پر صرئیر خامائی کی ہے، جن میں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے شعبۂ تاریخ سے وابستہ امریکی محققہ باربراڈی میٹ کلاف (Barldiara D .Metcolf) کا کام اہم ہے۔ لیکن بیشتر مغربی مفکرین نے تبلیغی جماعت کو ایک مخصوص نکتہ نظر سے دیکھا ہے اور تبلیغی جماعت سے مغرب کی معاشرت ، تہذیب ، ثقافت اور سیکورٹی کو درپیش چیلنجز ان کی تحقیق کا محور رہے ہیں۔ زیر نظر مضمون میں تبلیغی جماعت کو جنوبی ایشیاء جہاں اس تحریک کی پرداخت ہوئی اور خصوصاً پاکستانی تناظر میں اس کے دائرہ کار کا جائزہ لینے کی کاوش کی گئی ہے۔ یہاں اس امر کا اعتراف ضروری ہے کہ مغربی مفکرین کسی آرا اور خصوصاً بھارتی محقق یوگندر سکند نے موضوع کے ان اہم گوشوں کو آشکار کیا جو پہلے نظروں سے اوجھل تھے تبلیغی جماعت کے تین سالانہ اجتماعات میں شرکت جماعت کے ساتھ پانچ سہ روزہ دوروں اور تبلیغی اکابرین کے ساتھ گفتگو نے تبلیغی جماعت کو سمجھنے میں جو معاونت کی وہ شاید ثانوی ذرائع کے وسیع مطالعے سے بھی حاصل نہ ہوتی۔ مصنف اس نتیجے پر پہنچا کہ تبلیغی اکابرین دانستہ یا نادانستہ اس تحریک کو روایتی صوفی تحریک کے طرز اور بعض کے خیال میں صوفی تحریک کے متبادل کے طور پر آگے بڑھا رہے ہیں اور جماعت کے بارے میں جن مذہبی اور مغربی تحفظات کا اظہار کیا جاتا ہے انہیں اس سے زیادہ سروکار نہیں۔تبلیغی جماعت کی اساس:
یوگندر سکند نے تبلیغی جماعت کو 1867ء میں سہارن پور انڈیا میں قائم ہونے والے مدرسے دارالعلوم دیوبند کے ''صوفی اصلاحاتی پروگرام''(Sufi Reformist Project) کا حصہ قرار دیا ہے4۔ حقیقت حال یہی ہے کہ تبلیغی جماعت دارالعلوم دیوبند کے عناصر اربعہ 1۔ توحید و سنت2۔فقہ حنفی کا التزام و تائید3۔ تصوف و احسان4۔ جہاد میں سے تیسری ترجیح کا حصہ ہے۔5
دیوبند مکتبہ فکر کے حوالے سے یہ غلط تصور عام ہے کہ یہ تصوف سے تہی دامن یا تصوف مخالف ہے۔ اس تصور کے برعکس دیوبند نہ صرف تصوف کے قائل ہیں بلکہ پاکستان میں نقشبندیہ سلسلہ طریقت سے وابستہ زیادہ تر تعداد دیوبندی علماکی ہے۔ تصوف کی عوام میں اثر پذیری کی ہی وجہ ہے کہ بعض دیوبندی جہادی تنظیمیں بھی اپنا تعلق تصوف سے جوڑتی ہیں۔ جیسا کہ کالعدم جیشِ محمدۖ کے سربراہ مولانا مسعود اظہر اپنی تحریروں میں تصوف کی اہمیت پر زور دیتے ہیں بلکہ''امیر جماعتِ اہل سنت'' کے تحت بیعت بھی لیتے ہیں۔ بیشتر دیوبند علما ،تصوف کو روح شریعت قرا دیتے ہیں لیکن مز ارات ہونے والے غیر اسلامی شعائر کے مخالف ہیں۔ دیوبند کے عناصر اربعہ میں پہلے اور تیسرے نمبر کا باہمی ربط گہرا ہے اور اس کے مطابق بر صغیر کے مسلم معاشرے کے تناظر میں توحید اُسی وقت راسخ ہو سکتی ہے جب فرد اور قبر (مزار) کا تعلق متعین اسلامی حدود میں رہے۔ مفتی ابوالعطاء کے مطابق''ہندوستان میں غیر اسلامی اور نامرضی شریعت ریاضتیں اور وظیفے و اوراد کو تصوف کا جزو اعظم بنا دیا تھا، بلکہ بعض جاہلوں کے خیال میں طریقت ، شریعت کی پابند نہ تھی۔ علمائے دیوبند نے صحیح احسانی تصوف کی ترغیب کے ساتھ تصوف کے نام پر شروع کیے گئے شرک و بدعت کے مکروہ دہندے پر کاری ضرب لگائی۔''6
تبلیغی جماعت کی تخم ریزی اسی تصور کی اساس پر ہوئی۔ اگرچہ مولانا محمد الیاس نے 1927 میں میوات میں جب اس تحریک کی بنیاد رکھی تب قدیم نو مسلموں کو دوبارہ آبائی مذہب کی طرف لانے کے لیے شدھی و شنگٹھن کی ہندو تحریکیں عروج پر تھیں اور یو گندر سکند اسے تبلیغی جماعت کی اساس میں کلیدی اہمیت دیتا ہے، لیکن دارلعلوم دیوبند نے ان انتہا پسندانہ ہندو تحریکوں کے جواب میں شعبہ تبلیغ و حفاظت اسلام قائم کیا تھا اور جمعیت علماء اسلام کے مورخ سید محمد میاں نے لکھا ہے کہ اس کے نتیجے میں گیارہ ہزار سے زائد مرتدین نے توبہ کر کے دوبارہ اسلام قبول کیا۔7مولانا محمد الیاس کی تحریک کا محور عام مسلمانوں کے مذہبی افعال کی درستی اور اصلاح ہی رہا ۔
ایک تبلیغی رہنما کے مطابق مولانا محمد الیاس چاہتے تھے کہ عوام الناس میں پھر سے دین دار ی پیدا ہو اور یہ سب کچھ صرف مدارس و مکاتب اور خانقاہی نظام سے نہیں ہوگا کیوں کہ ان سے وہی لوگ فیض یاب ہوں گے جن میں پہلے سے دین کی طلب ہو اور وہ اس کے طالب بن کر خود مدارس اور خانقاہوں میں آئیں اس لیے مولانا ضروری سمجھتے تھے کہ دعوت و تبلیغ کے ذریعے ایک ایک دروازے پر جاکر اخلاص کے ساتھ منت و سماجت کر کے ان میں دین سیکھنے کی تڑپ پیدا کی جائے۔ چونکہ ان کی تحریک کا مطمع نظر عام مسلمان تھا انہوں نے اسی طرز پر جماعت کا طریقہ کار وضع کیا اور عمومی خانقاہی طریقہ کار کو اپنایا تاکہ لوگوں کو جماعت کی طرف راغب کرنے میں آسانی ہو۔ روز مرہ وضائف کے لیے چھ اصول وضع کیے۔ جو کہ اُسی طرز پر تھے جیسا کہ ایک مرشد اپنے مرید کو وظائف کے ذریعے ایک نظام سے جوڑ کر رکھتا ہے اور جیسے مرشد یا خانقاہ سے وابستگی کے اظہار کے لیے ہفتہ وار ، ماہ وار اور سالانہ محافل میںشریک ہونا مرید کے لیے ضروری سمجھا جاتا ہے (صوفی سلسلوں میں بعض صورتوں میں ترتیب ضروری نہیں ہوتی)اسی طرح تبلیغی جماعت کی مجلسوں کی ترتیب رکھی گئی۔ مولانا نے اس نظام کو خانقاہی طرز پر عام سادہ اور آسان رکھنے کے لیے کوئی کڑی شرائط اور قواعد وضع نہیں کیے۔ اور جو تبلیغی نصاب مرتب کیا گیا اُس میں بھی عام آدمی کے فہم کو مد نظر رکھا گیا اور صحابہ و صوفیا کی حکایات کے ذریعے تفہیم کی کوشش کی گئی۔ یہی وجہ تھی کہ تبلیغی جماعت کے اثرات تیزی سے پھیلے دلچسپ امر یہ ہے کہ مولانا الیاس نے آغاز میں تبلیغی دوروں کے بجائے خانقاہی طرز پر سوات میں ایسے تعلیمی مراکز قائم کیے جہاں عام افراد محدود وقت اور دنوں کے لیے آتے تھے اور وہاں انہیں اسلام اور عبادات کی بنیادی معلومات فراہم کی جاتی تھیں لیکن جیسے جیسے تحریک کے اثرات پھیلنے لگے ویسے ویسے طریقہ کار میں تبدیلی لائی گئی کیونکہ بڑی تعداد میں تعلیمی مراکز قائم کرنا ممکن نہیں تھا اس لیے مساجد کو مقامی مراکز کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا اور انہیں ایک مرکزی تعلیمی مرکز کے ساتھ منسلک کر دیا گیا یہاں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ طریقہ تبلیغ بھی صوفیا کی طرز پر اختیار کیا گیا اور خطبوں اور مذہب کی طرف رغبت دلانے کے لیے دلائل اور بحث کے لیے علما کے روایتی رویوں سے احتراز برتا گیا۔ جس کو جتنا معلوم ہے وہ دوسرے کو بتائے اور اسی اصول پر خود سیکھے اورکہیں مزید جاننے کی ضرورت ہو ۔ اُن سے جانے جنہیں زیادہ معلوم ہے۔''8 اور اس مشق کو''تعلیم'' کا عنوان دیا گیا جوآج تک مستعمل ہے۔ یہ ترتیب مسجد نبوی میں اصحابِ صفہ کے طرزِعمل سے اختیار کی گئی۔9
مزید برآں ''برداشت'' تبلیغی جماعت کا ایک خاص وصف ہے جس کی پرداخت خصوصی طور پر کی جاتی ہے اور تبلیغی دوروں کے دوران لوگوں کی تلخ کلامی ، طنز و استراع پر رد عمل ظاہر کرنے کی سخت ممانعت ہے۔ تبلیغی جماعت بلا تخصیص مسلک(ماسوائے شیعہ) تمام مساجد کواپنی تحریک میں آگے بڑھانے کی کوشش کرتی ہے اور اکثر ایسا ہوتا ہے کہ دیوبند کے ساتھ وابستگی کے باعث دیگر مسالک کی مساجد سے انہیں نکال دیا جاتا ہے او ر اس پربھی انہیں حسن سلوک کی تلقین کی جاتی ہے۔ حتیٰ کہ دیوبند مسالک کی مساجد میں بھی بسا اوقات ایسی صورت حال یا طعن و تشنیع کا سامنا رہتا ہے۔
اگرچہ تبلیغی جماعت کرشماتی رہنمائوں پر یقین نہیں رکھتی لیکن تبلیغی اکابرین کے ادب اور احترام کو ملحوظ رکھا جاتا ہے جو کہ صوفی روایت کا اہم حصہ ہے۔ سارا زور ایک فرد کو اعمال حُسنہ کا نمونہ بنانا ہے اور اسی غایت سے غیر مسلموں کی براہِ راست تبلیغ سے ممانعت ہے کہ تبلیغی جماعت کے رکن کا اخلاص اِفعال اور شخصیت اتنی پرکش ہونی چاہیے کہ غیر مسلم انہیں دیکھ کر اسلام کی طرف راغب ہوں ۔ اور اسے غیر مسلموں کو تبلیغ کرنے کا طریقہ کار قرار دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے غیر مسلم ممالک میں جانے والی تبلیغی جماعتیں براہِ راست اسلام کی دعوت دینے سے گریز کرتی ہیں اور جو غیر مسلم خود دلچسپی لے اُسے تبدیلی مذہب کی دعوت دینے کی بجائے اسلام کے سنہری اصولوں اور پہلوئوں سے آگاہ کیا جاتا ہے۔10
تبلیغی جماعت نے بلاشبہ تیزی سے مسلم جنوبی ایشیائی معاشرے میں سرایت کی ہے اور ہر طبقہ فکر کے لوگوں کو متاثر کیا ہے جن میں حکمران، سول، ملٹری بیوروکریسی، کاروباری حضرات، کھلاڑی حتیٰ کہ شوبز سے وابستہ افراد کی بھی شامل ہیں۔ سابق فوجی جرنیلوں کی تبلیغ میں شمولیت اور حکمرانوں اور سیاسی رہنمائوں کی تبلیغی اجتماعات میں شرکت کو اچنبھے اور اکثر تنقیدی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ جنوبی ایشیا میں حکمرانوں اور رہنمائوں کی عوام میں مقبول خانقاہوں اور مزارات پر حاضری کی روایت بہت پرانی ہے جسے وہ اکثر اپنے سیاسی مفادات کے حصول اور عوام میں اثر پذیری کے طور پر استعمال کرتے ہیں جنوبی ایشیا میں تبلیغی جماعت کے متعلق اس رجحان کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے یہ عمل دو طرفہ ہے بہر طور تبلیغی جماعت کو بھی اس سے مزید پذیرائی اور عوام میں (Legitimacy ) حاصل ہوتی ہے۔
اسی اثر پذیری کے باعث دیگر مسالک اور خود دیوبند مکتبۂ فکر کی بھی کئی تبلیغی تحریکیں وجود میں آئیں جنہوں نے تبلیغی طرز پر ہی یا اس کے طریقِ کار میں معمولی تبدیلی کے ساتھ تبلیغ کے اس رجحان کو تقویت دی اور ایسی تمام تحریکیں بنیادی طور پر لوگوں کو روایتی مذہب کی طرف راغب کرتی ہیں جیسے بریلوی مسلک کی دعوتِ اسلامی ، اہل حدیث مسلک کی تبلیغی جماعت اہل حدیث اور دیوبند مسلک کی مجلس صیانتہ المسلمین ۔تبلیغی جماعت پر اعتراضات کا ایک جائزہ
مذہبی حلقوں کی طرف سے تنقید
جیسا کہ ابتدائیے میں ذکر کیا گیا کہ تبلغی جماعت کو تمام مسالک بشمول دیوبند جس سے اس کی وابستگی ہے کی طرف سے تنقید کا سامنا رہا ہے اور یہ تنقید دو سطحوں پر ہے:
1۔ عقائد
2۔ طریقہ کار
عقائد کی سطح پر سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ تبلیغی جماعت اعمال حسنہ کی طرف خصوصی توجہ دیتی ہے لیکن عقائد کی سطح پر اصلاح نہیں کرتی اور اس حوالے سے استدلال یہ ہے کہ اگر''عقائدصحیح نہ ہوں تو انسان کے دیگر تمام اعمال صالحہ بھی بے کار اور اللہ کی بارگاہ میں ضائع ہو جاتے ہیں''۔ عقائد کی سطح پر اس''خرابی'' کی بنیادی وجہ تبلیغی جماعت پر تصوف کے غلبے کوقرار دیا جاتا ہے۔ جیسا کہ سلفی علما کا استدلال ہے کہ
''اہلِ توحید اور تبلیغی جماعت کے درمیان عقیدے اور منہج میں گہرا اور شدید اختلاف پایا جاتا ہے کیونکہ تبلیغی جماعت والے ماتریدیہ ہیں اور اللہ تعالیٰ کی صفات کی نفی کرتے ہیں اور عبادات اور اخلاقیات میں صوفی ہیں۔ وہ صوفیوں کے ان چار طریقوں کے مطابق بیعت کرتے ہیں اور جو انسان کو گمراہیوں کی اندھیری وادی میں دھکیل دیتے ہیں۔''11
اسی بنا پر سلفی اور سلفی اور حنبلی علماء شیخ ابن باز، شیخ عبد لرزاق عفیفی ، شیخ ناصر الدین البانی اور صالح بن فوزاں نے تبلیغی جماعت کے خلاف فتوے جاری کیے۔12 بعض سخت گیر دیوبند علما بھی تبلیغی جماعت پر اسی نوع کے اعتراضات اُٹھاتے ہیں ۔ خصوصاً تبلیغی نصاب جو اب''فضائل اعمال'' کے نام سے معروف ہے کے آخری حصے میں جو صوفیا کی حکایات پر مبنی ہے خاص ہدف رہتا ہے ۔ ڈاکٹر محمد سلیم جنہوں نے طویل عرصہ تبلیغی جماعت سے وابستگی کے بعد اس سے علیحدگی اختیار کی اپنی کتاب''تبلیغی جماعت کی علمی و عملی کمزوریاں'' میں لکھتے ہیں کہ''کاش! تبلیغی جماعت کے اکابرین تبلیغی نصاب سے شرک و بدعت کی باتیں نکال دیںاور اس نصاف کو اس طرح از سر نو مرتب کریں کہ اس میں شرک کی آمیزش نہ ہو۔ جو روایات ضعیف اور موزوں ہوں انہیں نکال دیں جھوٹی اور ضعیف روایتوں کی بنیاد پر لوگوں کے عقائد کو خراب ہونے سے بچائیں۔''13
تبلیغی زعما عموماً اس تنقید کا جواب دینے سے اعترض برتتے ہیں لیکن اپنی جماعت کے اندر ان پر اعتراض اُٹھنے پر جواب دیتے ہیں کہ کم از کم تبلیغی نصاب کے ان حصوں پر عمل جاری رکھیں جن پر انہیں اعتراض نہیں ہے۔14چونکہ تبلیغی جماعت کا مطمع نظر کوئی بڑی علمی یا مسلکی تحریک برپا کرنا نہیں تھا بلکہ عام مسلمانوں کے اعمال کی اصلاح تھی اس لیے بھی اس نوع کے اعتراضات ان کے لیے خاص دلچسپی نہیں رکھتے۔ خصوصاً جب دیوبند مسلک میں ہی رہتے ہوئے صوفی سلسلوں کا ابتاع جاری ہے، جیسا کہ سلسلہ نقشبندیہ اور اویسیہ کم و بیش صوفی روایات کا اسی طرح اتباع کرتے ہیں جیسا کہ بریلوی یا دیگر صوفی سلسلوں پر اعتقاد رکھنے والے مسالک۔
دوسرا بڑا اعتراض تبلیغی جماعت کے طریقہ کار پر ہے کہ جس کاتعلق بھی صوفی طرز کے طویل تبلیغی دورے ہیں اور اسے رہبانیت کا طریقِ کار سمجھ کر رد کیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر محمد سلیم کے مطابق صوفیوں کا فیملیوں سے کٹے رہنے کوعمل رہبانیت کا درس قراردیا ہے جو دینِ طریقت اور تصوف کا خاصہ ہے۔ یہی رنگ تبلیغی جماعت میں ہے سال ڈیڑھ سال کے لیے جماعت میں نکل جانے سے یہ لوگ بیوی بچوں سے کٹ جاتے ہیں خود تو گھر خط لکھ سکتے ہیں اور فون کر سکتے ہیں ۔ مگر گھر والوں کو اپنا پتہ نہیں بتاتے کہ کہیںگھر والے پیچھے نہ پہنچ جائیں۔''(15) علاوہ ازیں تبلیغی جماعت میں اوقات کار کی تقسیم، چھ نمبروں پر زور، تبلیغی دوروں کے دورانیے اور بیعت لینے کے طریقہ کار پر بھی بے شمار اعتراضات کیے جاتے ہیں اور ان افعال کو دین میں اختراع (بدعت) کا الزام بھی عائد کیا جاتا ہے۔
تبلیغی جماعت کے بارے میں مغرب میں جہاد دہشت گردی اور سیاسی اسلام کے حوالے سے جن شبہات اور تحفظات کا اظہار کیا جاتا ہے پاکستان کی مذہبی حلقے خصوصاً سیاست سے وابستہ علماء تبلیغی جماعت پر سب سے بڑا اعتراض یہ کرتے ہیں کہ یہ لوگوں کو جہاد اور سیاست سے دور کر رہی ہے۔ ''اللہ کے واسطے ذرا ان تین چلوں، چھ نمبروں ، گشت و بیاں سے بھی باہر جھانک کر دیکھیں کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ خانقاہوں اور تبلیغی مراکز کے اندر کوئی اخبار ہی پڑھ لیا کریں یا ریڈیو ہی رکھ لیں اور جان لیں کہ مسلمانوں کا کتنا خون بہہ رہا ہے۔ کبھی آپ کے مراکز میں جہاد کے بارے میں بھی مشورہ ہوا ہے؟ تیسری عالمی جنگ کے منصوبہ بندی کے لیے بھی کوئی حکمتِ عملی وضع ہو رہی ہے اگر یہ سب باتیں نفی میں ہیں تو پھر یہ جاگنے اور سوچنے کا وقت ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ تبلیغی اور صوفیا روزقیامت اپنے آپ کو گدھے پر سوارپائےں''16
معروف دیوبندی عالم مولانا زاہد الراشدی نے تبلیغی جماعت کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار تبلیغی اکابرین سے کیا اور اس کا احوال اپنے کالم''نوائے حق'' میں کیا:
''بھارت سے تشریف لانے والے حضرات میں مولانا سعد، مولانا زبیر اور مولانا ابراہیم سے علیحدگی میں گفتگو ہوئی اور مذکورہ بالا بزرگوں کی طرف سے ان حضرات کی خدمت میں جو شکایات پیش کی گئیں ان میں یہ شکایت بھی شامل تھی کہ تبلیغی جماعت میں ہونے والے بعض بیانات میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ اب صر ف دعوت و تبلیغ کا یہ کام ہی دین کا کام رہ گیا ہے اور دیگر دینی امور بالخصوص جہاد کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہی، بلکہ دیگر شکایات میں یہ باتیں تھیں کہ اب فیصلوں میں مشاورت کا عنصرکم ہوتا جارہاہے اور کشف و الہام کو زیادہ تر فیصلوں کی بنیاد بنایا جاتا ہے۔ تبلیغی جماعت کے اہتمام میں چلنے والے دینی مدارس میں نصاب کی تعلیم کی طرف زیادہ توجہ نہیں ہوتی اور عام بیانات میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول اور حضرت امام مہدی علیہ اسلام کے ظہورکا اس انداز سے تذکرہ کیا جانے لگا ہے کہ بس اب ان کا ظہور ہونے ہی والا ہے اور ہمارا کام صرف ان کا انتظام کرنا رہ گیا ہے۔ پاکستان کے ان ذمہ دار ترین علما ئے کرام نے ان امور کے بارے میں اپنا موقف یہ بیان کیا کہ یہ باتیں شرعاً درست نہیں ہیں، اس لیے ان کا سد باب کیا جانا چاہیے۔انڈیا کے تبلیغی بزرگوں کی طرف سے مولانا سعد نے ان حضرات کا شکریہ ادا کیا اور وعدہ کیا کہ وہ اصلاحِ احوال کی طرف پوری توجہ دیں گے ۔ اس واقعہ کو کئی سال گزر چکے ہیں اور میں نے ایک بار اشارتاً اس کالم میں اس ملاقات کے بارے میں تذکرہ کرنے کے باجود،اب تک خاموشی ہی کو بہتر سمجھاہے،لیکن حالیہ اجتماع میں مولانا محمد احمد بہاولپوری کا بیان سامنے بیٹھ کر سننے والے علما کرام نے مجھے جو کچھ بتایا ہے، اس کے بعد اس بات کو حیطۂ خاموشی میں رکھنے کو نامناسب سمجھتے ہوئے پہلی بار اس ملاقات کی کچھ تفصیل عرض کرنے کی میں نے جسارت کی ہے۔ میں ابھی چند روز قبل اسی کالم میں دعوت و تبلیغ کے اس اہم ترین دینی فریضہ کی ضرورت و اہمیت اور اس سلسلے میں تبلیغی جماعت کی عالمگیر خدمات اور اس کے بڑھتے ہوئے عالمی اثرات کے بارے میں عرض کر چکا ہوں اور بحمد اللہ پورے شعور و ادراک کے ساتھ اس کام کی اہمیت کو سمجھتا ہوں، لیکن اس حوالے سے دین کے دیگر شعبوں میں سے کسی کام کی نفی یا کسی کو بے اہمیت ظاہر کرنے کی بات کسی سطح پر بھی قابل قبول نہیں ہے، اس لیے مجبوراً ایک بار یہ گزارش کر رہا ہوں کہ جماعتیں، دینی مدارس، مساجد کا نظام، خانقاہیں،مجاہدین، نفاذ اسلام کے لیے جدوجہد کرنے والی تحفظ ختم نبوت اور تحفظ ناموس صحابہ کے لیے کام کرنے والے حلقے اور گروہ، مسائل و احکام میں عام مسلمانوں کی رہنمائی کرنے والے علمی مراکز اوار دارالافتاء مغرب کی فکری اور ثقافتی یلغار کو بے نقا ب کرنے اور ان کا تعاقب کرنے والے ادارے اور شخصیات، تجدد پسند حلقوں کی فکری کج روی اور نظریاتی بے راہ روی کی نشان دہی کرنے والے افراد اور ادارے اس کے ساتھ ساتھ دعوت و تبلیغ اور اصلاحِ امت کا یہ عالمی نظام،یہ سب دین کے شعبے ہیں اور ان میں سب کام کرنے والے دین ہی کا کام کر رہے ہیں، جن میں ہر شخص کو اس کی نیت اور محنت کے مطابق اللہ تعالیٰ کے ہاں اجر ملے گا، البتہ ان میں سے کوئی بھی شعبہ اگردوسرں کی نفی کرتے ہوئے خود کو دین کا واحد معیار قرار دے گا تو اس کی یہ کوشش دین کے تصور اور کردار کو محدود کرنے کی کوشش متصور ہو گی۔''
تبلیغی جماعت سے وابستہ لاکھوں افراد کے سبب ایک اور مطالبہ سیاسی انقلاب برپا کرنے کا کیا جاتا ہے۔ عموماً یہ تقاضا جماعتِ اسلامی اور اس کی فکر سے وابستہ افراد کی طرف سے کیا جاتا ہے۔ ''کیا یہ ممکن ہے کہ تبلیغی جماعت کے اکابرین حکمرانوں کو یہ بات کہہ سکیں کہ اس مملکت میں فوراً اسلام کا نظام عدل اور نظام معیشت نافذکرو،یہودیوں کا نظام ہمیں قبول نہیں۔اگر ایسا نہیں تو پھر لاکھوں کروڑوں کے اجتماع سے دین اور اسلام کو کیا حاصل؟''19
اس اعتراض کا جواب بھی تبلیغی اکابرین خاموشی سے دیتے ہیں اور سیاست کو جماعت کا منہج نہیں سمجھتے۔ اب ذرا ایک نظر مغربی اعتراضات پر ڈالتے ہیں۔مغرب کے شبہات اور تحفظات:
فرانسیسی محقق اولیور روئے تبلیغی جماعت کو دیگر سیاسی اور پرتشدد اسلامی تحریکوں سے جُدا کرتے ہوئے اسے''تجدیدی بنیاد پرست'' (Neo Fundamentalist)قرار دیتے ہیں۔ جس کا زور اعمال، رویوں اور عادات کی درستگی کی طرف ہے۔جبکہ باربراڈی میٹکاف نے اسے ''روایت پسندی کے زمرے رکھا ہے اور اسے ابتدائی اداروں کے تسلسل کے طور پر دیکھا ہے۔20روئے اور باربرا دونوں اسے اسلام ازم کی سیاسی اور پرتشدد تحریکوں سے ہٹ کر دیکھتے ہیں بلکہ بار برا کا اس تحریک کے اثرات کے حوالے سے تجزیہ ہے کہ دیوبند سے وابستہ اس تحریک کا ہمارے ساتھ اتنا لینا دینا نہ ہوجتنا کہ خیال کیا جاتا ہے۔21لیکن کچھ مفکرین مغرب میں موجود ایشیائی اور مسلم کمیونٹیز میں تبلیغی جماعت کے اثر و رسوخ کے حوالے سے تحفظات کا شکار ہیں کہ مسلمان آبادی خصوصاً نوجوانوں کی مذہبی روایت سے وابستگی مغربی معاشروں میں انہیں تنہائی کا شکار کر رہی ہے اور سماجی اور ثقافتی سطح پر مغربی معاشروں کو متنوع چیلنجز سے دوچار کر سکتی ہیں۔ جیسا کہ حجاب ایک سنجیدہ مسئلہ بن رہا ہے۔ اس سلسلے میں صرف تبلیغی جماعت ہی نہیں بلکہ دیگر روایتی اور جدید مسلم تحریکوں کا کردار بھی اہم ہے۔ سیاسی اور احتجاج کی سطح پر تبلیغی جماعت میں وہ قوت نہ ہو کہ کوئی بڑا چیلنج کھڑا کر سکے۔ لیکن تبلیغی جماعت سے وابستہ افراد انفرادی حیثیت میں کسی اور پلیٹ فارم سے یہ استحقاق استعمال کر سکیں۔ اس تناظر میں چیلنج اور اس کو جواب(Respond ) کرنے کے مغرب کو تنظیمی سطحوں پر نہیں بلکہ ذرا وسیع نظریاتی سطحوں پر زیادہ کام کرنا ہوگا۔
دہشت گردی اور تبلیغی جماعت
مغرب میں ریاستی اورپالیسی سازی کی سطح پر تبلیغی جماعت کے بارے میں جو شبہات پائے جاتے ہیں ان کا تعلق اس کے دہشت گرد تنظیموں سے براہ راست یا بلاواسطہ ربط سے ہے۔ امریکی تحقیقی ادارے سنٹر فار پالیسینگ ٹیررازم کے مطابق امریکہ میں تبلیغی جماعت سے تعلق رکھنے والے افراد کا تخمینہ پچاس ہزار تک لگایا گیا ہے اور''امریکی طالبان'' جان والکر لندھ(John Walker Lindh) اور عمریا ڈیلا(Omer padilla)کے تبلیغی جماعت کے ساتھ تعلق کے بعد سے اس کے متعلق شبہات میں مزید اضافہ ہُوا۔ ''آسٹریلین طالبان'' ڈیوڈہک کی ابتدائی وابستگی بھی تبلیغی جماعت کے ساتھ رہی، اسی طرح برطانیہ میںجولائی سات2005کے دہشت گردوں میں ایک کا تعلق تبلیغی جماعت سے رہا اور اب تک برطانوی پولیس 23ایسے مشتبہ دہشت گردوں کو گرفتار کر چکی ہے جن کاتعلق کسی نہ کسی طریقے سے تبلیغی جماعت سے رہا ہے۔ لیکن کسی مشتبہ دہشت گرد کے تبلیغی جماعت کے ساتھ سابقہ رابطوں کی بنیاد پر پوری جماعت کو موردِالزام ٹھہرایا جاسکتا ہے۔
یہ وہ سوال ہے جس پر جنوبی ایشیا اور مغرب میں کئی سطحوں پر بحث جاری ہے اور اب تک ذیل نکات اٹھائے گئے ہیں۔22
1۔ کیا تبلیغی جماعت براہِ راست دہشت گردی میں ملوث ہو سکتی ہے؟ ابھی تک اس کا جواب نفی میں ہے لیکن تبلیغی جماعت سے وابستہ افراد کی انفرادی حیثیت میں دہشت گردی میں ملوث ہونے کے امکان کو رد نہیں کیا گیا۔
2۔ انفرادی حیثیت میں دہشت گردی کے امکان کو رد نہ کیے جانے کی سب سے بڑی وجہ تبلیغی جماعت سے وابستہ افراد کی ایسی وارداتوں میں ملوث ہونے کے شواہد ہیں ، چند کا ذکر اوپر کیا گیا ان کے علاوہ مراکش میں مئی2004میں کاسابلانکا کے دھماکوں میں جس شخص، اتتکافی (Attakfi) کو سزائے موت سنائی گئی اس کا تعلق تبلیغی جماعت سے رہا تھا۔ اس حوالے سے قازقستان ، بھارت اور امریکہ کی کئی مثالیں دی جاتی ہیں لیکن بیشتر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی معلومات ابتدائی رپورٹوں پر مبنی ہیں۔ اسی بنا پر امریکہ میں تبلیغی جماعت سے وابستہ لوگوں کے دہشت گردی میں ملوث ہونے کے امکان کی سطح کو کم(Low) رکھا گیا ہے لیکن جماعت کے ممبران کی کسی پر تشدد نظریات رکھنے والے گروپ کے زیر اثر آنے کے امکانات کو زیادہ اہمیت دی گئی۔
3۔ تبلیغی جماعت سے کسی گروپ کی علیحدگی اور اس کی دہشت گردی میں ملوث ہونے کے امکانات پر بھی غور کیا جارہا ہے۔ لیکن اس حوالے سے جو تجزیے ابھی تک کیے گئے ہیں وہ محض شبہات پر مبنی ہیں اور ماضی میں اس کے کوئی واضح شواہد نہیں ملتے ماسوائے1995میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے چند فوجی افسران کی طر ف سے سازش، جن کا تعلق تبلیغی جماعت سے تھا۔ اور ابھی تک کے شواہد بتاتے ہیں کہ یہ ان کا انفرادی فعل تھا اور اس میں تبلیغی جماعت کے علاوہ جہادی تنظیموں کے افراد بھی شامل تھے۔
4۔ تبلیغی جماعت سے وابستہ ہونے والے نوجوانوں کی شدت پسندی کی طرف راغب ہونے کے امکان کو ایک بڑا خطرہ سمجھا جاتارہا ہے اور اس حوالے سے کافی شواہد پاکستان اور مغرب میں دستیاب ہیں۔ پاکستان میں جہادی اور پرتشدد فرقہ ورانہ تنظیموں سے وابستہ بیشتر افراد کا تعلق تبلیغی جماعت سے رہا ہے۔ پاکستان میں انسدادِدہشت گردی کے ادارے کے سربراہ طارق پرویز کے مطابق تبلیغی جماعت نوجوانوں کو راغب کرکے مساجد تک تو لاتی ہے لیکن اس کے بعد ان پر کنٹرول نہیں کر پاتی کیوں کہ مسجد میں تبلیغی جماعت کے علاوہ جہادی اور فرقہ ورانہ تنظیموں کے افراد اور بعض صورتوں میں ان کے نیٹ ورک بھی موجود ہوتے ہیں اور''نو تبلیغی'' ان کے لیے خام مال کی طرح دستیاب ہوتے ہیں۔ جو پہلے ہی مذہب کی طرف راغب ہو رہے ہوتے ہیں اور مذہب کے نام پر انہیں دیگر ایجنڈوں کی طرف راغب کرنا آسان ہوتا ہے۔23مغرب میں اپنی شناخت کی تلاش میں سرگرداںنوجوان کے لیے تبلیغی جماعت مذہبی روایت سے جوڑتی ہے اور مساجد و مکاتب میں وہی عمل شروع ہو جاتا ہے جس کا اوپر ذکر کیا گیا ۔اس سلسلے میں مجھے چند ذاتی تجربات بھی ہوئے اور جہادی تنظیموں پر تحقیقی کام 24کے دوران جب ان کے ممبران سے انٹرویوز کیے تو بیشتر کا ابتدائی تعلق تبلیغی جماعت سے رہا تھا اور بعض صورتوں میں وہ جماعت سے اپنا تعلق بھی قائم رکھے ہوئے تھے۔ اس کی وجہ ان کے نزدیک یہ تھی کہ تبلیغی دوروں کے دوران ایک تو انہیں دین کا بنیادی علم حاصل ہوتا ہے اور دوسرا روحانی پاکیزگی حاصل ہوتی ہے۔ یہ امر حیران کن تھا کہ کالعدم جیش محمد اپنے نئے ممبران کو تین سے دس دن کے تبلیغی دوروں پر بھیجتی تھی تاکہ وہ خود کو ایک مذہبی ماحول میں ڈھال سکیں۔
5۔ دہشت گردی اور سیکیورٹی کے حوالے سے سب سے بڑا خطرہ جو تبلیغی جماعت سے وابستہ ہے وہ اس کی ڈھیلی ڈھالی تنظیمی ساخت ہے جس کے باعث دہشت گرد گروپ یا افراد تبلیغی جماعت میں سرایت کر جاتے ہیں اور عموماً ان کے پیشِ نظر دو چیزیں ہوتی ہیں ایک نئے ممبران کی بصری اور دوسرے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نظروں سے بچنے کے لیے تبلیغی جماعت کو ایک پردے(cover) کے طور پر استعمال کرنا۔
امریکہ ، یورپ، انڈونیشیا اور مراکش میں اس حوالے سے شواہد بھی دستیاب ہیں کہ دہشت گرد تنظیموں کے اراکین نے تبلیغی جماعت کے پردے میں تربیت اور آپریشن کی غرض سے سفر کیے۔ پاکستان میں بھی یہ ایک سنگین مسئلے کے طور پر اُبھرا ہے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے دعویٰ کرتے ہیں کہ لشکرِ جھنگوی سمیت کئی دہشت گرد تنظیمیں گرفتاریوں سے بچنے اور بعض صورتوں میں دہشت گردی کی وارداتوں کے لیے تبلیغی جماعت کو استعمال کرتی رہی ہیں۔25
لاہور سے شائع ہونے والے ماہنامہ''ہم شہری'' نے اپنی ایک تحقیقی رپورٹ میں لکھا کہ1990سے لے کر اب تک ہم نے مشاہدہ کیا اور اس بات کے شواہد پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں اور انتظامی اداروں کے پاس موجود ہیں کہ رائے ونڈ کے تبلیغی اجتماعات میں بالخصوص اور پاکستان کے دیگر شہروں میں منعقد ہونے والے اجتماعات میں بالعموم دہشت گردی کرنے والے مختلف گروپوں کے سرکردہ افراد، سالار اور کمانڈر نہ صرف جمع ہورہے ہیں(جیسا کہ اخباری اطلاعات کے مطابق فروری 2009میں بنوں میں ہونے والے اجتماع میں طالبان کمانڈروں نے شرکت کی)بلکہ ان کے باہمی اجلاس بھی منعقد ہوتے رہے ہیں اور ان کی طرف سے اشتعال انگیزاور گمراہ کن لٹریچر بھی علی اعلان اور کبھی خفیہ انداز سے تقسیم کیا جاتا رہا ہے۔ تبلیغی اجتماعات چونکہ پرامن اور محض تبلیغ دین کے نام پر ہوتے ہیں اس لیے یہاں اس انداز سے نگرانی اور چیکنگ نہیں ہوتی جس طرح دیگر اجتماع کے دوران ہوتی ہے۔ ہماری طرف سے ان تبلیغی اجتماعات کا انعقاد کرنے والے حضرات اور تبلیغی جماعت کے اراکین و قائدین پر دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا شک نہیں کیا جارہا لیکن یہ حقیقت ہے کہ ان دہشت گردوں کے آنے جانے اور اجتماع میں شریک ہونے کا علم تبلیغی جماعت کے ذمہ داران کو ضرور ہوتا ہے ۔ کیوں کہ یہ ناممکن ہے کہ تبلیغی اجتماع میں ہونے والی کارروائیوں سے میڈیا تک کے لوگ آگاہ ہوں لیکن تبلیغی جماعت کے ذمہ داران کو علم ہی نہ ہو۔''26
اس کے ایک واضح ثبوت کا اندازہ درہ آدم خیل کے طالبان کے ایک باغی دھڑے کی جانب سے اخبارات کو جاری ہونے والے خط سے لگایا جاسکتا ہے جس میں اقرار کیا گیا ہے کہ''طارق گروپ کے چند باشعور لڑکوں نے طارق کے لیے کام کرنا چھوڑ دیا ہے اور کچھ فرار ہو چکے ہیں اور بعض نے تبلیغ میں روپوشی اختیار کی ہے۔''27
اس نوع کی کئی مثالیں دی جاسکتی ہیں کہ تبلیغی جماعت کے ڈھیلے ڈھالے ڈھانچے کو دہشت گرد کس طرح اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ تنظیمی ڈھانچے کو ڈھیلا رکھنے کا مقصد ایک تو لوگوں کو رضاکارانہ طور پر راغب کرنا تھا اور دوسرے چونکہ خانقاہی نظام میں کوئی ممبر شپ نہیں ہوتی اور معاملہ لوگوں کے اپنے ارادے کا ہوتا ہے تبلیغی جماعت میں بھی اسی روایت کو فروغ دیا گیا ۔ بڑھتے ہوئے خطرات کے باجود تبلیغی جماعت تنظیمی ساخت کو بدلنے پر تیار نہیں ہے اور اکابرین کا خیال ہے کہ سیاسی جماعتوں کا طریقہ کار اختیار کرنے سے تبلیغ کا کام محض مخصوص لوگوں کا کام تصور ہوگا جو ان کے بنیادی اصول کہ''ہر امتی داعی ہے''کے صریحاً خلاف ہے۔28دہشت گردوں کے تبلیغی جماعت میں انسانوں کے درمیان پسندیدہ یا ناپسندیدہ افعال کی بنیاد پر تقسیم نہیں کی جاتی کیوں کہ ہر شخص یکساں طور پر اصلاح کا محتاج ہے اور جماعت میں آنے والے ہر فرد کو ایک ماحول میں لا کر راست رستے کی طرف لانے کی کوشش کی جاتی ہے''29تبلیغی جماعت کا یہ بھی موقف ہے کہ اگر کوئی دہشت گرد یا مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہے تو یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ اُسے سزا دے خواہ اُس کا تعلق تبلیغی جماعت سے ہی کیوں نہ ہو''...یوگندر سکند بھی اسی استدلال کی بنیاد پر تبلیغی جماعت کے دہشت گردی میں ملوث ہونے کے امکان کو رد کرتا ہے30
6۔ تبلیغی جماعت کے مالی وسائل پر بھی تحفظات کا اظہار کیا جاتا ہے۔ تبلیغی جماعت کا موقف ہے کہ اتمام اسباب اللہ مہیا کرتا ہے اور بندوں کو سبب بناتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ جنوبی ایشیا میں تبلیغ سے وابستہ افراد اور بعض صورتوں میں حکومتوں نے بھی ان کے مراکز کی تعمیر میں حصہ ڈالا ہے جب کہ چندہ اور وابستہ افراد کے مالی تعاون سے روز مرہ کے معاملات چلائے جاتے ہیں۔ تبلیغی دوروں کے لیے جماعت فنڈ مہیا نہیں کرتی بلکہ ہر فرد کی انفرادی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے سفر اور قیام و طعام کے لیے وسائل خود مہیا کرے۔ بعض صورتوں میں جماعت کے رکن انفرادی حیثیت میں کم وسائل رکھنے والوں کی مالی معاونت کر دیتے ہیں ورنہ جماعت میں مالی قربانی بھی اتنا ہی اہم جُزو ہے جتنا کہ تبلیغ کے لیے نکلنا۔اختتامیہ
تبلیغی جماعت کے معاشرے پر اثرات اور لوگوں کو روایتی مذہب پسندی کی جانب راغب کرنے پر اختلاف کی گنجائش موجود ہے اور اس کا جواب مختلف طبقات اپنے طور پر دے رہے ہیں لیکن اہم بات یہ ہے کہ اس نے ایک بوسیدہ ہوتے خانقاہی نظام کو ایک نئے انداز سے استعمال کیا۔ لیکن کیا اس میں اب نئی تبدیلیاں نہیں کی جاسکتیں؟78سال پہلے وجود میں آنے والی تحریک کو زمانے کے ساتھ خود کو بدلنا چاہیے تھا۔ لیکن تبلیغی جماعت کے اکابرین جماعت کی ساخت اور طریق کار کو بدلنے پر ذرا رضامند نہیں۔ دہشت گردی اور سیکیورٹی کے حوالے سے تحفظات دور کرنا تبلیغی جماعت کے اکابرین کو سنجیدگی سے لینے چاہئیں اور تبلیغی جماعت کو پلیٹ فارم کوشدت پسند گروہوں کے ہاتھوں استعمال کرنے کی سختی سے ممانعت کرنی چاہیے۔ ممکن ہے کہ تبلیغی اکابرین محض اسے ایک وقتی دبائو یا رجحان سمجھ رہے ہوں۔ لیکن تبلیغی جماعت کے ذریعے دیگر شدت پسند تحریکوں کی طرف راغب ہونے کا رجحان مجموعی طور پر اسی کے بنیادی مقصد پرُامن اصلاحی تحریک کی نفی کو فروغ دے رہا ہے اور کیا اس امکان کو رد کیا جاسکتا ہے کہ آئندہ جرائم پیشہ نیٹ ورک بھی تبلیغی جماعت کو پردے(Cover)کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیں۔
تبلیغی جماعت میں برداشت اور مشورے کی روایت بہت مضبوط ہے۔ لیکن یہ مشاورت تبلیغی دوروں کے شیڈول اور ان کے انتظامات کی حد تک محدود نہیں رہنی چاہیے اسے دیگر حساس معاملات تک توسیع دینی چاہیے۔
تفصیل کے لئے کلک کریں۔
تبلیغی جماعت کا تعارف
حمود بن عبداﷲ بن حمود التویجری رقم طراز ہے
وقد رد کثیر من العلمآء علی التبلیغیین، وبینوا اخطاء ہم وضلالاتھم وخطرہم علی الاسلام والمسلمین، وقد رائیت من الکتب والرسائل المولفۃ فی ذالک عدداً کثیراً، ومن اہمما کتاب الاستاذ سیف الرحمن احمد الذی تقدم ذکرہ والنقل منہ
وبعض الذین ردوا علی التبلیغیین قد صحبوہم سنین کثیرۃ، وخرجوا معہم فی سیاحاتھم ہی من محدثات الامور، ثم لمارؤا ما فی دعوتھم واعمالہم من البدع والضلالات والجہالات، فارقوہم، وحذروہم منہم ومن سیاحتھم واعمالہم المبتدعہ (القول البلیغ ص۔ 22,23)
ترجمہ: کثیر علماء کرام نے تبلیغی جماعت والوں کا رد کیا ہے، اور ان کی خطائوں اور گمراہیوں کو ظاہر کردیا ہے اور اسلام ومسلمین کو ان کے خطرے سے آگاہ کردیا ہے۔ تحقیق میں نے ان کے رد میں لکھی ہوئی کثیر کتابیں اور رسائل دیکھے ہیں، ان میں سے اہم ترین کتاب استاذ سیف الرحمن احمد کی کتاب ہے، جس کا ذکر پہلے ہوچکا ہے اور بعض وہ لوگ بھی ان رد لکھنے والوں میں بدعتوں اور گمراہی و جہالت کو دیکھا تو ان سے جدا ہوگئے اور ان سے بچ نکلے اور ان کے گشتوں اور بدعت بھرے اعمال سے محفوظ رہ گئے۔
تبصرہ قادری: قارئین کرام! اس مذکورہ تبلیغی جماعت کے رد میں اب تک کئی علمائے کرام تصانیف کرچکے اور عرب و عجم کے علماء دین نے ان کی شرارتوں سے آگاہی دلانے کے لئے انتھک محنت کی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس تبلیغی جماعت کے کارندوں نام نہاد مبلغوں نے انہی جہالت وضلالت کے ذریعے ملک و ملت اور دین اسلام کو خاطر خواہ نقصان پہنچایا ہے۔ حمود بن عبداﷲ بن حمود التویجری نے اپنی اس کتاب ''القول البلیغ'' کے حصہ اول میں کہا کہ سائل نے مجھ سے ان کے بارے کیا پوچھا کہ یہ کیسے لوگ ہیں تو میں یہ کہوں گا کہ ان کے معاملات سنت و شریعت سے جدا ہیں اور بدعتوں، گمراہیوں کو انہوں نے اپنالیا ہے اور نئی باتوں، بری باتوں کو گھڑنا شریعت میں ناپسندیدہ ہے۔
امام احمد، امام بخاری، امام مسلم، ابو دائود، ابن ماجہ رحمہم اﷲ حضرات محدثین ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ وہ فرماتی ہیں:
ان رسول اﷲﷺ قال من احدث فی امرنا ہذا امالیس منہ فہو رد''
امام احمد و بخاری و مسلم رحمہم اﷲ کی ایک دوسری روایت میں ہے
من عمل عملا لیس علیہ امرنا فہو رد
یعنی جو ہمارے دین میں نئی بات اپنی طرف سے پیدا کرے وہ بات رد ہے۔
قال النووی فی شرح مسلم، قال اہل العربیہ، الردھنا بمعنی المردود ومضاہ، فہو باطل غیر معتبدیہ بہ
امام نووی شرح مسلم کہتے ہیں ''اہل عربی کہتے ہیں اس حدیث میں رد کا معنی مردود اور باطل اور ایسی چیز ہے جو قابل شمار نہ ہو'' اور فرماتے ہیں یہ حدیث ہر بری چیز اور گھڑی ہوئی باتوں کے رد کے لئے ہے۔
اس حدیث میںتبلیغی جماعت کی نئی من گھڑت باتوں کا رد موجود ہے۔ ان کے اکثر اعمال وہ ہیں جو خلاف سنت نبوی ہیں اور نہ ہی وہ باتیں سنت خلفاء راشدین میں سے ہیں بلکہ ان کے امیر محمد الیاس کاندھلوی دیوبندی کی اپنی گھڑی ہوئی باتیں ہیں جو اس نے اپنے شیوخ اشرف علی تھانوی اور مولوی رشید احمد گنگوہی کے کہنے پر ایجاد کی ہیں اور ان باتوں کو تبلیغی جماعت کے اصول ستہ کہا جاتا ہے۔
استاذ سیف الرحمن بن احمد دہلوی اپنی کتاب کے ص 8,7 پر لکھتے ہیں:
تبلیغی جماعت کی فکر منسوب ہے، شیخ سعید کردی المعروف بدیع الزمان کی طرف، اصل میں یہی شخص اس فکری بدعت کا موجد ہے اس کے بنائے ہوئے چھ اصولوں پر تبلیغی جماعت کاربند ہے اور ظاہر یہی ہے کہ شیخ الیاس ہندی دیوبندی کاندھلوی جب حجاز مقدس میں پہنچا تو اس نے یہاں سے یہ فکر حاصل کی اور پھر ہند میں جاکر تبلیغی جماعت کا سلسلہ اسی اصول ستہ (چھ اصولوں) پر رکھا۔
جبکہ تبلیغی جماعت کے اس طریقے پر تردید خطبہ نبوی میں موجود ہے۔
حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا:
اما بعد فان خیر الحدیث کتاب اﷲ وخیر الہدی ہدی محمد وشر الامور محدثا تھا، وکل بدعۃ ضلالۃ
یعنی بہترین کلام کتاب اﷲ ہے اور بہترین سیرت مصطفی ہے اور برے کام نئی باتیں گھڑلینی ہیں اور ہر بری نئی بات گمراہی ہے۔ بہرحال اب تک کی تقریر سے روز روشن کی طرح یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ تبلیغی جماعت جہالت و ضلالت اور رسوائی و گمراہی کا پلندہ ہے۔ ان کے اپنے من گھڑت چھ اصولوں پر ان کی کہانی کا دارومدار ہے۔ اس کے پیچھے اکابرین دیوبند اشرف علی تھانوی، رشید احمد گنگوہی وغیرہا کا ہاتھ ہے اور اس جماعت کے بانی اول الیاس کاندھلوی نے شیخ کردی کے بناوٹی اصولوں پر اس جماعت کی بنیاد کھڑی کردی اور اس کی نئی من گھڑت فکر کی ترویج کے لئے اس نے اور اس کے ساتھیوں نے دن رات ایک کرکے اولا تو مسلمانان ہند پھر اس کے بعد عرب و عجم کے اہل سنت کو ورغلانے اور ان کو ان کے عقیدہ حقہ سے ہٹانے کے لئے تبلیغی گشتوں، چلوں اور درسوں بیانوں کا سلسلہ زوروشور سے شروع کردیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے حشرات الارض کی طرح تبلیغی جماعت کے مبلغین پھیلتے چلے گئے اور اسلامی کتابوں کے بہانے لوگوں میں اکابرین دیوبند کی لکھی ہوئی وہ کتابیں جن میں اﷲ و رسول کی شان میں کھلم کھلا گستاخیاں قلمبند کی گئی ہیں، ایسی کتابیں تبلیغی جماعت والے تقسیم کرنے لگ گئے اور اس طرح ان تبلیغی لوگوں کے ذریعے وہابیت پھیلنی شروع ہوگئی اور اب تو گھر گھر میں ان کے جراثیم اثر کرتے چلے جارہے ہیں۔ اس لئے ان بدعتوں کے حامیوں اور ان کے شر سے بچنے کے لئے ان تبلیغی وفود اور گشتوں کا اپنے اپنے علاقوں کی مسجدوں میں داخلہ بند کروانے کی ہرممکن کوشش کریں تاکہ آپ کی آنے والی نسلیں ان انسان نما بھیڑیوں کے شکار سے بچ سکیں اور یہ انہیں زہر ملاشربت شہد بنا کر پیش کرنے میں کامیاب نہ ہوسکیں۔
حمود بن عبداﷲ بن حمود التویجری رقم طراز ہے:
واما قول السائل، ہل الصحہ بالخروج مع التبلیغین فی داخل البلاد ای البلاد السعودیۃ او فی خارجھا ام لا؟
فجوابۃ ان اقوال: انی انصح السائل وانصح غیرہ من الذین یحرصون علی سلامۃ دینہم من ادناس اشرک والغو والبدع والخرافات ان لاینضمو الی التبلیغیین، ولایخرجوا معھم ابداً وسواء کان ذالک فی البلاد السعودیۃ اوفی خارجھا، لان اہون مایقال فی التبلیغیین انہم اہل بدعۃ وضلالۃ وجہالۃ فی عقائدہم وفی سلوکھم ومن کانوا بہذہ الصفۃ الذمیمۃ، فلاشک ان السلامۃ فی مجانبتھم والبعدعنھم (ص 30)
ترجمہ: سائل کا یہ پوچھنا کہ یہ کیا میں اسے تبلیغی جماعت والوں کے ساتھ نکلنے کی نصیحت کرتا ہوں بلاد عربیہ میں یا اس کے علاوہ میں یا پھر میں اسے ان کے ساتھ نکلنے سے منع کرتا ہوں۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ میں اس سائل اور اس کے علاوہ جو لوگ بھی اپنے دین کی سلامتی چاہتے ہیں، ان کو تبلیغی جماعت والوں کے ساتھ نکلنے سے منع کروں گا تاکہ ان کا دین بچ جائے وہ شرک و بدعت اور غلوبازی کا شکار نہ ہوں اور کبھی بھی ان کے ساتھ مت نکلیں، خواہ عرب ممالک میں ہوں یا عجم میں، اس لئے کہ سب سے ہلکی بات تبلیغیوں کے بارے میں یہ ہے کہ یہ اہل بدعت و ضلالت وجہالت ہیں۔ ان کے عقیدوں اور طریقوں میں یہ خرافات موجود ہیں، اور جو شخص ان بری خصلتوں (بدعت و جہالت وضلالت) سے متصف ہو، اس سے دور رہنے میں سلامتی ہے۔
تبصرہ قادری: اس آخری قسط میں اسی سائل کا ذکر ہے جس کے بارے میں ابتدا میں ''القول البلیغ'' کے مصنف نے کہا تھا کہ اس نے مجھ سے پوچھا ہے کہ آیا میں تبلیغی جماعت کے ساتھ گشت کرنے کے لئے عرب ممالک یا عجم میں جائوں یا نہ جائوں تو اسکے جواب میں مصنف کا کہنا یہ تھا کہ یہ جماعت بدعت و ضلالت اور رسوائی و گمراہی کا پلندہ ہے۔
اب قارئین کرام! اندازہ کیجئے کہ ایسی جماعت کے ساتھ چلّوں میں گھومنے والے کی کیفیت کیا ہوگی اور اس کی صحبت جب ایسے لوگوں کے ساتھ ہوگی تو وہ خود کیسی جہالت و ضلالت کا شکار ہوگا، اس کا اندازہ ہر عقل سلیم رکھنے والا خود کرسکتا ہے۔
ولقد احسن الشاعر حیث یقول
فلا تصحب اخا الجہل ویاک وایاہ
فکم من جاہل اردی حلیما حین اخاہ
یقاس المرء بالمرئ اذاما ہوشاہ
ترجمہ: کسی جاہل ساتھی کی صحبت اختیار مت کر، خود اس سے دور رہ اور اس کو اپنے سے دور رکھ۔ بہت سارے جاہل جب بھائی بنتے ہیں تو بردبار نظر آتے ہیں اس لئے کہ آدمی آدمی کو اپنے آپ پر قیاس کرتا ہے جس کو وہ اسے چاہے۔
وقال آخر واحسن فیما قال
وما ینفع الجرباء قرب صحیحۃ
الیہا ولکن الصحیحۃ تجرب
خارش زدہ کو صحت مند کا قرب نفع نہیں دیتا
ہاں البتہ صحتمند اس کے قرب سے خارش والا ہوجاتا ہے
تفسیر: اسلامی نظریہ کے مطابق کوئی مرض متعدی نہیں ہوتا کہ ایک سے دوسرے کو لگ جائے، یوں پھر اعتراض ہوگا کہ پہلے کو کہاں سے لگا۔ یہ ایک مثال تھی جو شعر میں بیان ہوئی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اچھے کی صحبت برے کو اچھا کم بناتی ہے مگر برے کی صحبت اچھے کو جلد برا بنادیتی ہے (قادری القول البلیغ کے مولف نے اپنی کتاب کے حصہ اولیٰ کے آخر میں ایک درج ذیل تنبیہ رقم کی ہے۔
جو شخص تبلیغی جماعت والوں کے معاملے میں توقف کرتا ہے اور انہیں اچھا جانتا ہے اسے چاہئے کہ وہ قائد محمد اسلم پاکستانی کی کتاب بنام جماعۃ التبلیغ کا مطالعہ کرے۔ اس کتاب میں ان کے اکابرین کے عقائد باطلہ اور اقوال فاسدہ کا ذکر موجود ہے۔ جن کو پڑھ کر یا سنکر اہل ایمان کے دل ہل جاتے ہیں۔
اس کتاب میں محمد اسلم پاکستانی نے کہا جس جماعت کی بنیادیں غلط اقوال و نظریات پر ہو، اس سے دوسروں کی اصلاح کی توقع کیسے رکھی جاسکتی ہے۔
اسی طرح خود ''القول البلیغ'' عربی زبان میں اس جماعت کی حقیقت کا خوب بیان کرتی ہے اور ان کی نقاب کشائی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
رئیس التحریر علامہ ارشد القادری مرحوم کی کتاب ''تبلیغی جماعت'' اس جماعت کی تخریب کاری کے بیان میں اپنی مثال آپ ہے۔
اس کے علاوہ ابوریب ڈاکٹر عبدالرحمن کی ''جماعۃ التبلیغ'' (عربی) لاجواب کتاب ہے۔
ڈاکٹر محمد سلیم کی کتاب ''تبلیغی جماعت کی علمی و عملی کمزوریاں'' ناشر دارالحکمت لاہور پاکستان یہ کتاب ایک تبلیغی عالم کے قلم سے لکھی ہوئی وہ حقیقت ہے جس کے جھٹلانے کے لئے تبلیغی جماعت کو اپنی جماعت کا پورا نقشہ تبدیل کرنا پڑے گا یا کوئی نئی تبلیغی جماعت بنانا پڑے گی جس میں یہ علمی و عملی کمزوریاں ناپید ہوں جو موجودہ جماعت میں ہیں۔-
خاتمہ
الحمدﷲ علی احسانہ! آج سے تقریبا دو سال قبل فروری2009ء میں ''القول البلیغ فی التحزیر من جماعۃ التبلیغ'' مولفہ شیخ حمود بن عبداﷲ بن حمود التویجری المتوفی 1413ھ سے اقتباسات نقل کرکے ان کے تحت ترجمہ و تبصرہ قادری تحریر کرکے قسط وار ''تبلیغی جماعت کا تعارف'' پیش کرنے کا جو سلسلہ شروع کیا تھا، اس میں تبلیغی جماعت کے کارنامے اور ان کے ساتھ فکری و نظریاتی اتحاد و یگانگت رکھنے والی دو پارٹیوں یعنی قادیانیوں اور شیعوں کا انتہائی مثبت انداز میں دلائل کی روشنی میں بذریعہ حوالہ جات رد پیش کرتے ہوئے یہ سلسلہ 17 قسطوں پر محیط ہوگیا۔ اب اس قسط نمبر 17 پر اس سلسلے کو موقوف کرتے ہیں۔ استدعا ہے کہ تمام قارئین کرام سے بالخصوص حضرات علمائے کرام سے اس سلسلے میں کوئی لغزش و کوتاہی یاشرعی غلطی پائیں تو راقم الحروف کو مطلع فرمائیں تاکہ اس کو کتابی شکل میں چھاپنے سے قبل اس کی تصحیح ہوجائے اور یہ بھی گزارش ہے کہ اس مضمون کے مستقل قاری بالخصوص اور عام مسلمان بالعموم اس سلسلے میں آج تک پیش کردہ کتب کے اصلی حوالہ جات کو ضرور ملاحظہ کیجئے اور ممکن ہو تو ان سب کتابوں کا وسیع النظری سے مطالعہ کیجئے۔
شیخ اکبر اور تبلیغی جماعت
شیخ اکبر۔۔۔۔۔۔؟
اب ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ شیخ اکبر صاحب ہیں کون جن کو مولانا ذکریا نے فضائل اعمال میں بڑی عقیدت سے جگہ دی ہے-
ان کا پورا نام شیخ محی الدین ابن عربی المعروف شیخ اکبر ہے جنہیں مولانا ذکریا نے ایک جگہ شیخ العارفین بھی لکھا ہے- یہ نہ صحابی ہیں، نہ تابعی، نہ تبع تابعی- کیونکہ ان کی تاریخ وفات ہے 637 ھ بمطابق 1240ع- لیکن حیرانی اس بات پر ہے کہ کہ میرے پاس جو ادارہ اشاعت دینیات نظام الدین نیو دہلی والی فظائل اعمال ہے اس کے اندر ان کے نام کے ساتھ صحابہ کرام کی طرح" رضی اللہ عنہ " لکھا ہوا ہے جو بہت بڑی جسارت ہے- البتہ اسے بعد میں "فیضی" (لاھور) والوں نے "رحمۃ اللہ علیہ" لکھ دیا ہے-
پہلی بات تو یہ ہے کہ اذان ہو یا اقامت یا تکبیر تحریمہ سب میں اللہ اکبر استعمال ہوتا ہے یعنی اللہ سب سے بڑا ہے- دوزخ کے عذاب کو بھی عذاب اکبر کہا گیا ہے جس سے بڑا عذاب کوئی نہیں- اس لی ےکسی صوفی کے لیے یہ کہدینا کہ اس سے بڑا شیخ کوئی نہیں تو پھر صحابہ کرام رض اور خود نبی پاک ۖ کا مقام کیسے متعین کیا جائے گا؟ ایسے ہی امام ابو حنیفہ رض کو بھی امام اعطم لکھ گیا ہے- حالانکہ کسی امتی کے لیے اکبر اور اعظم کے الفاظ کی گنجائش نہیں- انسان کے لیے سب سے اعلی مقام "عبد" کا ہے- اللہ تعالی نے رسول اللہ ۖ کے لیے بھی اور دوسرے انبیاء کے لیے بھی عبد کا لفظ استعمال فرمایا جو ان کی اعلی شان ظاہر کرتا ہے- خیر یہ تو ایک اضافی بات ہوگئي ہم اصل بات کی طرف آتے ہیں-
ابن عربی کی شہرت اس کے نظریہ وحدت الوجود اور اس کی کتابوں فتوحات مکیہ اور فصوف الحکم کی وجہ سے ہے-
وحدت الوجود:
اس نظریہ کے مطابق کائنات کی ہر ایک چيز کائنات کے پھیلے ہوئے حصوں میں سے ایک حصہ ہے کسی ایک چيز کی دوسرے سے غیریت نہیں- سب موجودات میں مکمل وحدت پائی جاتی ہے حتی کہ خود خدا اور کائنات میں اس طرح تعلق ہے کہ کہ ایک کو دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا- بالفاظ دیگر مادہ کی محدود دنیا خدا سے الگ اپنا کوئی مستقل وجود نہین رکھتی- (معاذ اللہ و استغفراللہ)
"ھمہ اوست" اسی نظریہ کا دوسرا نام ہے جس کے مطابق خدا ہی سب کچھ ہے اور سب کچھ ذات باری تعالی ہے- یہ کائنات خدا سے الگ کوئی مخلوق نہیں- بلیہ کائنات ہی خدا ہے اور خدا ہی کائنات ہے- (معاذاللہ و استغفراللہ)
نظریہ وحدت الوجود اور ابن عربی:
ابن عربی سے پہلے بھی یہ نظریہ صوفیاء میں موجود تھا مگر ابن عربی نے فتوحات مکیہ اور فصوص الحکم جیسی کتابیں لکھ کر اس نظریہ کو صوفیاء کے عقائد مین داخل کردیا اور پھر اپنی ساری زندگی اسی عقیدہ کی آبیاری میں کھپادی- وہ اپنے اس نظریہ کو عین نظریہ توحید قرار دیتے اور اس کی تفصیل ان الفاظ میں پیش کرتے ہیں:
" ایک توحید عقل والے کی ہے اور ایک توحید عارف صاحب تجلیات کی- ان دونوں میں برا فرق ہے صاحب عقل توحید کا شعر یوں پڑھے گا:
{ اور ہر ایک چيز میں اللہ تعالی کی ذات کے لیے ایک نشانی ہے، جو اس بات کی دلالت کرتی ہے کہ وہ ایک ہے}-
اور صاحب تجلی کا شعر یوں ہوگا:
{ اور ہر ایک چيز میں اللہ تعالی کی ذات کے لیے ایک نشانی ہے، جو اس بات کی دلالت کرتی ہے کہ وہ اسی کا عین ہے}-
ابن عربی نے خدا اور بندے کے تعلق کو کیونکر ختم کیا وہ بھی ملاحظہ فرمائیے- فتوحات مکیہ کے پہلے ہی صفحہ پر فرماتے ہیں:
1۔ "پروردگا بھی حق ہے اور بندہ بھی حق- کاش! میں معلوم کرسکتا کہ ان میں سے مکلّف (مطیع) کون ہے-"
2۔ "اگر تم کہو کہ مکلّف بندہ ہے، تو بندہ تو مردہ میت ہے اور اگر کہو کہ رب ہے تو وہ بھلا مکلپف کیسے ہوسکتا ہے-"
لیجیے تمام احکام شریعہ کی پابندی اور تعمیل سے چھٹی ہوئی- یہ ہیں بندہ اور خدا سب کو عین ذات سمجھنے کے مزے- آپ اسی مضمون کو اپنے رسالہ، رسائل ابن عربی، کتاب الجلالۃ ص:12 پو یوں فرماتے ہیں:
"کاش مجھے معلوم ہوتا کہ مکلّف کون ہے؟ درآنحالیکہ یہاں اللہ کے سوا کسی کا وجود ہی نہیں ہے-"
ابن عربی کی فتوحات مکیہ صرف باطنی علوم پر ہی محتوی نہیں ہے بلکہ اس میں علم جفر اور علم نجوم کے مباحث بھی شامل ہیں جن کی نفس انسانی پر تاثیرات تسلیم کی گئی ہیں-"
[ دکھیے: دائرۃ المعارف الاسلامیہ (اردو) ج (1/14 ص:130) ویر عنوان 'علم تصوف' بحوالہ شریعت و طریقت ص:83-84]-
ابن عربی اور فصوص الحکم:
" اب وصوص الحکم کی داستان بھی سن لیجیے- فصوص، فص بمعنی نگینہ کی جمع ہے اور فصوص الحکم بمعنی دانائی کے نگینے- یہ کل 27 فص یا نگینے ہیں، ہر ایک فص کو قرآن کریم میں مذکورہ 27 انبیاء سے منسوب کیا گیا ہے- ابن عربی کا دعوای ہے کہ "ان فصوص کا علم مجھے مشاہدہ "کشف" سے حاصل ہوا ہے- میں نے اسے لوح محفوظ سے نقل کیا- بعد میں 627ھ کے محرم میں محمّد ۖ کو دمشق کے شہر محروسہ مین دیکھا- آپ ۖ کے ہاتھ میں ایک کتاب تھی- آپ ۖ نے مجھ سے فرمایا" یہ کتاب فصوص الحکم ہے اس کو محفوظ کرو اور لوگوں کے سامنے پیش کرو تاکہ انہین فائدہ حاصل ہو- چنانچہ میں نے آپ ۖ کے حکم کے مطابق اسے لوگوں میں پھیلانے کا پختہ اردہ کرلیا اور اس میں کمی بیشی کرنا میرے لیے ممکن نہ رہا-" (فصوص، ص:47-58)
آپ بھی یقینا ایسی معرکۃ الآرا کتاب کے مندرجات سے مستفید ہونا پسند فرمائيں گے-
اس کتاب میں ابن عربی نے قرآن کی تعلیمات کی تحریف کرکے اس کا حلیہ بگاڑ کے رکھ دیا ہے اور وحدت الوجود کی عینک چڑھا کر ہر واقعہ پر تبصرہ فرماتے ہیں مثلا کہتے ہیں کہ:
"قوم ہود بھی صراۃ مستقیم پر تھی- فرعون کامل ایمان تھا اور قوم نوح بھی- اللہ پاک نے قوم نوح کو اور فرعون کو ان کے نیک اعمال کا بدلہ دیتے ہوئے وحدت الوجود کے سمندر میں غرق کیا- اور قوم ہود کو عشق تعالی کی آگ میں داخل کیا تاکہ عیش و آرام حاصل ہو- حضرت ہارون علیہ السلام سے غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نی بنی اسرائیل کو بچھڑے کی عبادت سے منع کیا- حالانکہ بچھڑا بھی تو حدا تھا یا خدا کا عکس اور حضرت نوح علیہ السلام کی قوم نے بھی بہت اچھا کردار ادا کیا جو بت پرستی سے باز نہ آئے، کیونکہ یہ تمام بت خدا ہی کے مظاہر تھے- جہنم عذاب کی جگہ نہین، بلکہ اس میں حلاوت اور شیرینی موجود ہے- (وہ عذاب کو عذوبۃ سے مشتق قرار دیتا ہے) وغیرہ ذالک من الخرافات" [ امام ابن تیمیہ رح از کوکن عمری، ویر عنوان "صوفیہ پر تنقید" بحوالہ "شریعت و طریقت" ص:85]
یہ ہیں ابن عربی المعروف شیخ اکبر کے خیالات اور اس کی لکھی ہوئی دو کتابوں کے حالات- مولانا عبدالرحمن کیلانی رح شریعت و طریقت کے صفحہ:86 پر مزید لکھتے ہیں:
ابن عربی نے یہ مسئلہ تو حل کردیا کہ تمام بت پرست اقوام حق پر ہی تھیں اور یہ بھی حل فرمادیا کہ انہیں جو اس بت پرستی کے بدلہ میں عذاب ہوگا وہ دراصل عذاب نہیں بلکہ شیرینی اور حلاوت، اور ان کے اعمال کا اچھا بدلہ ہے- اب صرف یہ الچھن باقی رہ جاتی ہے کہ اللہ تعالی نے انبیاء کو پھر کس غرض کے لیے مبعوث فرمایا- کاش! وہ اس بات کا بھی تسلی بخش جواب دے کر دین طریقت کی حقانیت ثابت کردیتے-
ابن عربی اور کعبۃ اللہ:
ابن عربی ایک بہت بڑے عالم، ادیب، شاعر اور صوفی تھے- اپنی کتابوں میں اپنی بے شمار کرامات بھی ارشاد فرمائی ہیں جن کا اندازہ بلکل وہی ہے جو عام پیروں فقیروں کا ہوتا ہے- نمونہ ایک کرامت ملاحظہ فرمائیے- آپ کعبۃ اللہ اور اس کے طواف کے متعلق اپنا ایک واقعہ بیان فرمارہے ہیں:
" ایک مرتبہ کعبۃ اللہ ک ومجھ پر بڑا ہی طیش آگیا وہ اپنی بنیادوں سے بلند ہوکر ابر عربی پر گرجانا چاہتا تھا- ابن عربی نے حجر اسود کو ڈھال بنادیا- کعبۃ اللہ کو یہ کہتے ہوئے صاف سنا کہ ذرا نزدیک تو آؤ- یہ دیکھو میں تمہیں کیا کرتا ہوں- کب تک میری قدر گھٹاتے رہو گے اور عارفین کو مجھ پر فضیلت دیتے رہو گے- قسم ہے اس ذات کی جس کے لی ےعزت و بڑائی ہے، میں ہرگز ہرگز تمہیں اپنا طواف نہیں کرنے دوں گا- ابن عربی کہتے ہیں اس وقت میں نے سوچا کہ اللہ تعالی مجھ کو ادب سکھانا چاہاتا ہے- میں نے خدا کا شکر ادا کیا اور کعبہ کی تعریف شروع کردی- جوں جوں میں اس کی تعریف کرتا جارہا تھا اس کا غصہ بھی ٹھنڈا ہوتا جارہا تھا اور وہ اپنی بنیادوں پر جمتا جارہا تھا- اس نے میری طرف اشارہ کرکے کہا کہ میں طواف شروع کروں- جب میں حجر اسود کے پاس پہنچا تو میری زبان سے کلمہ شہادت نکلا، جو حجر اسود میں متمکن ہوگيا- میں نے کعبہ کی تعریف میں کئی رساائل لکھے ہیں جن کو تاج الرسائل کے نام سے مرتب کردیا ہے"- (فتوحات مکیہ، ج1، ص:700-701)
ابن عربی اور علماء حق:
ہم یہ تو بتلاچکے ہیں کہ یہ عقائد وحدت وحلول، دین طریقت یا تصوف کی جان ہیں، تو جب سے تصوف اسلام میں داخل ہوا یہ عقائد بھی شامل ہوتے گئے- پھر جس طرح حسین بن منصور حلاج نے کھل کر عقیدہ حلول کو پیش کرنے اور اپنے خدا ہونے کا دعوای کیا اور مقتول ہوا- بعینہ یہی صورت شیخ اکبر کی تھی- چونکہ عقیدہ وحدت الوجود قرآن کی تعلیم سے براہ راست متصام تھا اس لیے علماء دین مخالف ہوگئے- چنانچہ جب یہ مصر پہنچے تو علماء کرام نے ان کے کفر کا فتوای دیا اور سلطان مصر نے ان کے قتل کا حکم دے دیا- یہ بات ابن عربی کو بھی معلوم ہوگئی تو چپکے سے مصر سے راہ فرار اختیار کرکے دمشق پہنچ گئے- باقی عمر درس و تدریس میں گذار کر 638ھ کو راہی ملک عدم ہوئے"- (حقیقت وحمد الوجود، ص:9)
ابن عربی اور تبلغی جماعت۔۔۔۔!
اب دیکھیے کیا ابن عربی کے یہ کرتوت اور خیالات مولانا زکریا کی نظروں یا مطالعہ سے اوجھل تھے؟ اور ابن عربی کی تحریر کو پچھلے 60 سال سے کروڑوں تبلیغی جماعت سے وابستہ مسلمانوں اے دلوں میں خنجر کی طرح پیوست کیا جارہا ہے- عجیب بات یہ ہے کہ اکثر تبلیغی اس پھیکی زہر کے اثرات سے واقف ہی نہیں، ہمارے ایک دوست ڈاکٹر محی الدین ایک دفعہ چند ساتھیوں کے ہمراہ میرے گھر تبلیغ کے لیے تشریف لائے میں نے انہیں ابن عربی کی اسی تحریر کی طرف متوجہ کیا جو فضائل اعمال میں لکھی ہے تو کہنے لگے: اجی ڈاکٹر صاحب! چھوڑدیں ان چھوٹی چھوٹی باتوں کو اور بزرگ جو کہتے ہیں ہیں بس ان کو کرتے جائیے!
" ان نظریات نے اسلام کی اخلاق پر گہرا اثر ڈالا- نہ تو خیر و شر کی تمیز باقی رہی اور نہ حرام و حلال کی- اسی طرح شرعی احکام کی پابندی کی ضرورت بھی ختم ہوگئي- جزا و سزا اور جنت و دوزخ بے معنی چيزيں بن کر رہ گئي بھلا وہ کون خدا ہوگا جو اپنے ہی ایک حصے کو جہنم کی آگ میں جھونک دے- ابن عربی کہا کرتا تھا کہ جہنم کی آگ ٹھنڈی ہوکر لطف و لذت کا سامان مہیا کرے گی- کبھی یہ لوگ اپنے مکاشفات میں جہنم کو پھونکوں سے بھجادیتے ہیں تو کبھی جنت کو آگ لگادیتے ہیں- ابن عربی کے اس نظریہ نے اس قدر زور پکڑا کہ ساری دنیا میں اس کےحامی اور علمبردار پیدا ہوگئے۔۔۔۔
یہ عقیدہ عزت و ذلت، عروج و زوال، آزادی و محکومی بھی شان خداوندی کا ایک نشان ہے بھلا جہاں تربیت سے نفس کشی کی جاتی ہو وہاں عزت نفس ایک بے معنی سی چيز رہ جاتی ہے- لہذا جہاد و قتال اور سعی و عمل ان کے نزدیک بیکار چيزيں ہیں اور یہی بات قومی زندگی کے لیے زہر ہلاہل ہے"- (شریعت و طریقت،ص: 112-113)
منازل سلوک، وحدت الشہود اور تبلیغی جماعت:
نظریہ وحدت الوجود میں خود اللہ تعالی انسان کے جسم میں اترتے ہیں مگر نظریہ وحدت الشہود میں انسان روحانی ترقی کرتا ہوا اللہ تعالی کی ذات میں داخل یا مدغم ہوجاتا ہے جیسے سایہ مناسب وقت پر دھوپ یا نور میں گم ہوجاتا ہے- اسی طرح انسان بھی روحانی ترقی کے مدراج طے کرتا ہوا اللہ کی ذات میں گم ہوجاتا ہے-
صوفیاء نے اس روحانی ترقی کے سات مدارج مقرر کیے ہین جن کو منازل سلوک کا نام دیا ہے- یاد رہے کہ تبلیغی جماعت کے بانی مولانا الیاس نے بھی منازل سلوک بڑی تیزی سے طے کی تھیں- مولانا زکریا نے فضائل اعمال میں سلوک کی اصطلاح مندرجا ذیل اشاروں میں استعمال کی ہے:
1۔ ابتدائے سلوک یعنی ایک سانس میں 200 مرتبہ کلمہ طیبہ کا ورد
2۔ مشائخ سلوک- کروڑوں کی تعداد میں
3۔ سلوک الی اللہ یعنی مرتبہ احسان (فضائل ذکر، ص:84- فضائل قرآن ص:34)
مرتبہ احسان تو حدیث جبریل ء میں ماضع ہے مگر یہ سلوک الی اللہ اور منازل سلوک کیا ہیں؟ اس کے بارے میں فرماتے ہیں کہ وہ منازل یہ ہیں-
"1- طلب 2- عشق 3- معرفت 4- استغناء 5- توحید 6- حیرت -7 فقر و فنا یا منائے اتم"-
گویا ساتویں منزل یا سیر الی اللہ کی آخری منزل پر جاکر انسان یا سالک فنا فی اللہ یا واصل باللہ یا واصل بحق ہوجاتا ہے- صوفیاء منازل سلوک یو تین درجے میں تقسیم کرتے ہیں:
"1- فنا فی الشیخ 2- فنا فی الرسول 3- فنا فی اللہ"- (شریعت و طریقت ص:101-225)
فضائل ذکر میں ایک جگہ مولانا وکریا نے ذکر کے 100 فائدے لکھے ہین- فائدہ نمبر 10 میں لکھتے ہیں:
" ذکر سے مراقہ نصیب ہوتا ہے جو مرتبہ احسان تک پہنچادیتا ہے یہی مرتبا ہے جس میں اللہ تعالی کی عبادت ایسی نصیب ہوتی ہے گویا اللہ جل شانہ کو دیکھ رہا ہے- یہی مرتبہ صوفیاء کا منتہائے مقصد ہوتا ہے-"
یہاں کچھ الفاظ سے قطع نظر مذکورہ عبارت کا مفہوم شریعت کے دائرے میں ہی جچ رہا ہے اگر بات یہاں تک ہوتی تو اعتراض والی نہ ہوتی مگر صوفیاء طریقت کا پیوند لگائے بغیر کیسے رہ سکتے ہیں- ملاحظہ ہو ذکر کے فائدہ نمبر 37 کے تحت فرماتے ہیں:
" ذکر، تصوف کا اصل اصول ہے اور صوفیہ کے سب طریقوں میں رائج ہے جس شخص کے لیے ذکر کا دروازہ کھل گیا ہے اس کےلیے اللہ جل شانہ تک پہنچنے کا دروازہ کھل گیا- اور جو اللہ جل شانہ تک پہنچ گیا وہ جو چاہتا ہے پاتا ہےکہ اللہ جل شانہ کے پاس کسی چيز کی بھی کمی نہیں ہے"-
اللہ سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں ان کے صوفیانہ عقائد سے محفوظ رکھے اور انہیں ھدایت نصیب فرمائے۔ آمین
 
شمولیت
جولائی 26، 2013
پیغامات
10
ری ایکشن اسکور
5
پوائنٹ
9
بالکل درست فرما رہے ہیں کہ آ جکل نام تو اسلام کا ہی بدنام ہو رہا ہے، کیا ان سب لوگوں کو پاکستان کا ہی رخ کرنا ہوتا ہے، David Hicks تو اسلام سے بھی دستبردار ہو گیا، اور یہ Omer Padilla نہیں، بلکہ اسکا نام Jose Padilla تھا، اسلام قبول کرنے کہ بعد نام کو بدل کر ابراہیم رکھ لیا، John Walker Lindh نے بھی افغانستان میں اسلام کے نام پر ہی طالبان کے ساتھ شمولیت اختیار کی۔ اب ظاہر ہے کہ مر‏غی پہلے آئی کہ انڈہ والا کیس تو بنے گا ہی۔ اب ان باسٹن کے بچوں کو ہی دیکھ لیجیے، انھوں نے اسلام کے نام پر حملہ کیا، لیکن بھڑاس تو وہ اپنے ہی دلوں کی نکال رہے تھے ۔۔۔ مطلب یہ لڑائی دین ایمان کی نہیں بلکہ سوچ کی ہے، لیکن جب بھی لوگ مسلمانوں کے بارے میں سنتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ سارے لا ابالے، بھڑکیلے اور تشدد سے جواب دینے والے ہیں- اب اس بات کی سچائی کا تو تمام مسلمان ممالک کو معلوم ہے کہ ایک مچھلی پورے تالاب کو کیسے گندہ کرتی ہے ۔۔۔ ایک پھوٹا انڈہ نلکل آئے تو عوام کیا کرے ۔۔۔ لیکن اصل بات زمہ داری کی بھی ہے ۔۔ اپنی عزت بچانے کے لیے ہمیں بھی تھوڑی محنت کرنی ہو گی۔
اب جو لوگ اسلام کی تبلیغ کر رہے ہیں ان پر فر‍ض بنتا ہے کہ یہ بھی کچھ جانچ پڑتال کریں، کہ آخر میں نا صرف تبلیغی جماعت پر ال‍ظام آئے گا، بلکہ اس میں اسلام اور مسلمانوں کی عزت بھی شامل ہو گی۔ اکثر اوقات ہم محدود زہنیت سے نکل ہی نہیں پاتے – مطلب کہ بین الاقوامی معا‎شرے میں ہمارے بارے میں کیا تصور کیا جاتا ہے، اس سے ہمیں کوئی سروکار نہیں اور کوئی احساس زمہ داری بھی نہیں۔ اگر ہم تبلیغی جماعتوں سے جو کہ تشدد پسند انسانوں کو پناہ دینا چاہتی ہیں کہہ دیں کہ جناب یہ صرف آپکی عزت کا معاملہ نہیں ملک اور اسلام کی عزت کا معاملہ بھی ہے، اور اگر جانچ پڑتال نہیں کی جا رہی تو آپکو ہماری حمایت بھی حاصل نہیں تو وہ کیا کر لیں گے۔ ہمارے معاشرے کو بہت ساری بیماریاں چاٹ رہی ہیں اور کچھ باتیں تو صرف اور صرف لا پرواہی کی وجہ سے بگڑ رہی ہیں۔ افغانستان میں طالبان کی حرکت زور پکڑتی گئی اور آ جا کر عوام کو اس وقت اندازہ ہوا کہ پڑوس کے ممالک میں کیا گل کھل رہے ہیں، جب ملک کو ٹی ٹی پی کا سامنا کرنا پڑا۔ حیرت کی بات ہے کہ ہم جو سیاست کی باتوں میں اتنے آگے آگے ہیں، کبھی کبھار اس انتہا کے لا علم ہو جاتے ہیں۔ اب بس تبلیغی جماعتوں پر بھی یہی آن پڑی ہے کہ وہ اس زہنیت سے نکل نہیں پا رہی ہیں۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
افسوس کی بات ہے کہ ہم مسلمانوں کا کردار ہی اتنا بھیانک ہو گیا ہے اور اس سے مستزاد یہ ہے کہ غیر مسلموں کی نظریں بھی ہمارے کردار کی طرف ہی دیکھتی ہیں نا کہ ہماری مذہبی کتابوں کی طرف۔ لڑائی بھڑائی، فرقہ بازی، بم دھماکے، لوٹ مار، چوری ، ڈکیٹی، غرض امن کی جگہ دہشت اور خوف سے اسلام کی صاف و شفاف تعلیم کی طرف دعوت پر بُرا اثر پڑتا ہے۔ غیر مسلم سمجھتے ہیں کہ شاید یہی اسلام ہے۔ حالانکہ یہ اسلام نہیں، اسلام کی تعلیم تو ہے ہی امن، یہ مسلمانوں کا اپنا کردار ہے جو قرآن و سنت کو سلف صالحین کی طرز پر نہیں ہے۔

جہاں تک رہا معاملہ تبلیغی جمات کا تو یہ محض ایک ایسی جماعت ہے جس میں ایک سادہ اور بھولا بھالا انسان محض دروس وغیرہ کے لیے تو شمولیت کر لیتا ہے، لیکن کوئی بھی علمی، فکری اور تحقیقی مزاج رکھنے والے افراد اس میں شمولیت اختیار نہیں کرتے، تبلیغی جماعت باوجود اپنے اس دعویٰ کے کہ وہ کسی مسلک کی طرف دعوت نہیں دیتی، پوری طرح دیوبندیت اور صوفیت میں رنگی ہے۔
 
شمولیت
دسمبر 22، 2013
پیغامات
146
ری ایکشن اسکور
115
پوائنٹ
49
تبلیغی جماعت کردار کے آئینے میں
محمد عامر رانا
یوں تو تبلیغی جماعت کو پاکستان اور پاکستان سے باہر تبلیغ دین کے حوالے سے ایک بڑی جماعت کے طور پر دیکھا جاتا ہے، مگر اس جماعت کی تاریخ، مسائل اور کردار کے حوالے سے بہت کم لوگ آگاہ ہیں اور اس سلسلے میں تحقیقی کام بھی بہت کم ہوا ہے۔ محمد عامر رانا نے قائین تجزیات کے لیے اس اچھوتے موضوع پر قلم اٹھایا ہے اور اس بات کا جائزہ لیا ہے کہ مختلف ادوار سے گذرتے ہوئے تبلیغی جماعت آج کس مقام پر کھڑی ہے اور مغرب بالخصوص دہشت گردی کے تناظر میں تبلیغی جماعت کی سرگرمیوں کو کس نظر سے دیکھ رہا ہے، یہ مضمون دلچسپ بھی ہے، معلومات افزا بھی اور اس موضوع پر کام کرنے والوں کے لیے ابتدائی حوالہ بھی،چنانچہ امید ہے کہ قارئین اس سے پوری طرح حظ اٹھائیں گے۔(مدیر)
موضوع کا تعارف
تبلیغی جماعت کا کردار اور اس کے اثرات پر بحث عرصہ سے جاری ہے جو تاحال کسی منطقی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی۔ تبلیغی جماعت پر تنقید اور تحسین کرنے والوں کا دائرہ کار بہت وسیع ہے نہ صرف عالمِ اسلام بالخصوص جنوبی ایشیاء کے مذہبی حلقے اس تحریک کے تمام پہلوئوں کی کڑی جانچ پڑتال کرتے رہے ہیں بلکہ مغرب کے مفکروں کے لیے بھی تبلیغی جماعت ایک اہم مطالعہ رہا ہے۔ اس کے ناقدین میں حنفی/دیوبندی مسلک جس سے اس کا تعلق ہے بھی شامل رہے ہیں۔ سب کا اسے دیکھنے کا زاویہ نگاہ مختلف رہا ہے۔ سلفی(غیر مقلد) اور سعودی حنبلی(معروف معنوں میں وھابی) نہ صرف اس کے طریقہ کار پر اعتراض کرتے ہیں بلکہ اسے اسلام میں اختراع (بدعت)کا لیبل لگا کر ردبھی کرتے ہیں مثلاً معروف سعودی عالم شیخ ابنِ باز کا موقف کہ ''جو تبلیغی جماعت ہندوستان میں معروف ہے ان میں بہت خرافات و بدعات پائی جاتی ہیںتواور ان کے ساتھ تبلیغ کرنا جائز نہیں۔1'' اسی نوعیت کا اعتراض بعض حنفی/دیوبندی علماء بھی کرتے ہیں اور جماعت میں پائی جانے والے صوفیانہ مزاج کو بھی ہدف بناتے ہیں جیسا کہ ایک سابق تبلیغی رکن ڈاکٹر محمد سلیم نے لکھا ہے کہ''چاہیے تو یہ تھا کہ تبلیغی جماعت خالص اسلام کی نشرواشاعت کرتی مگر انہوں نے صوفیاء کی اہمیت پر اتنا زور دیا کہ اسلام کی اصل تعلیم اور اسلام کا اصل چہرہ پس منظر میں چلا گیا ''(2)
مغربی محققین جن سے بعض پاکستانی اور جنوبی ایشیا کے دانشور بھی اتفاق کرتے ہیں ، تبلیغی جماعت کے بارے میں دو بڑے تحفظات کا شکار ہیں ایک یہ کہ جماعت نوجوان نسل کو روایتی مذہبی کے تصورات کے ساتھ باندھ رہی ہے ۔جو ایک پس ماندہ طرزِ معاشرت کو فروغ دیتا ہے اور دوسرا یہ کہ تبلیغی جماعت کا ڈھیلا ڈھالا ڈھانچہ دہشت گردوں کو چُھپنے میں معاون ہوتا ہے۔۔امریکی تحقیقی ادارے"Center for policing Terorism"نے مئی2005 میں تبلیغی جماعت سے امریکہ کی سیکیورٹی کو لاحق خطرات کا تجزیہ کرتے ہوئے نتیجہ اخذ کیا کہ تبلیغی جماعت سے براہِ راست آئندہ پانچ سال امریکہ کی سیکیورٹی کو لاحق خطرات کا امکان بہت کم ہے لیکن تبلیغی جماعت کی آڑ میں دہشت گردوں کی بھرتی کا امکان بہت واضح ہے۔3
مذہبی اور مغربی تحفظات کے باوجود تبلیغی جماعت کا دائرہ کار وسیع ہوتا جارہا ہے۔ پاکستان بنگلہ دیش اور بھارت میں گذشتہ سالوں میں ہونے والے تبلیغی اجتماعات میں دنیا بھر سے لاکھوں افراد نے شرکت کی اور اس تعداد میں سال بہ سال اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ اس تناظر میں تبلیغی جماعت کے نظم طریقہ کار اس کے اثرات اور سب سے بڑھ کر اس امر کا جائزہ لینا اہم ہے کہ لوگ اس جماعت کی طرف کیوں راغب ہو رہے ہیں؟
پاکستان میں تبلیغی جماعت کے کردار اور اثرات کے حوالے سے اُس نہج پر تحقیقی اور علمی کام نہیں ہو سکا جس کی یہ متقاضی تھی۔ سوائے اس پر مذہبی آئمہ کی تنقید یا تحسین کے سوا کچھ قابلِ قدر مواد نہیں ملتا۔ البتہ بھارت میں اس موضوع پر چند تحقیقی مقالات لکھے گئے ہیں جن میں سر فہرست یوگندر سکند کا مقالہ ہے جس پر انہیں ڈاکٹر آف فلاسفی(Ph-D) کی ڈگری بھی ملی۔ مغرب میں فرانسیسی نژاد مفکرین مریم ابوذھب اور اولیور روئے(Opivier Roy)کا نام اس حوالے سے مستند تصور کیا جاتا ہے۔ سپین کی محققہ ڈاکٹر ایوأ بویگریو(Dr. Eva Borreguero) کاپی ایچ ڈی کا مقالبہ بھی ایک قابلِ قدر کاوش ہے۔ ان کے علاوہ بھی مغربی اور مشرقی ایشیائی محققین نے بھی اس موضوع پر صرئیر خامائی کی ہے، جن میں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے شعبۂ تاریخ سے وابستہ امریکی محققہ باربراڈی میٹ کلاف (Barldiara D .Metcolf) کا کام اہم ہے۔ لیکن بیشتر مغربی مفکرین نے تبلیغی جماعت کو ایک مخصوص نکتہ نظر سے دیکھا ہے اور تبلیغی جماعت سے مغرب کی معاشرت ، تہذیب ، ثقافت اور سیکورٹی کو درپیش چیلنجز ان کی تحقیق کا محور رہے ہیں۔ زیر نظر مضمون میں تبلیغی جماعت کو جنوبی ایشیاء جہاں اس تحریک کی پرداخت ہوئی اور خصوصاً پاکستانی تناظر میں اس کے دائرہ کار کا جائزہ لینے کی کاوش کی گئی ہے۔ یہاں اس امر کا اعتراف ضروری ہے کہ مغربی مفکرین کسی آرا اور خصوصاً بھارتی محقق یوگندر سکند نے موضوع کے ان اہم گوشوں کو آشکار کیا جو پہلے نظروں سے اوجھل تھے تبلیغی جماعت کے تین سالانہ اجتماعات میں شرکت جماعت کے ساتھ پانچ سہ روزہ دوروں اور تبلیغی اکابرین کے ساتھ گفتگو نے تبلیغی جماعت کو سمجھنے میں جو معاونت کی وہ شاید ثانوی ذرائع کے وسیع مطالعے سے بھی حاصل نہ ہوتی۔ مصنف اس نتیجے پر پہنچا کہ تبلیغی اکابرین دانستہ یا نادانستہ اس تحریک کو روایتی صوفی تحریک کے طرز اور بعض کے خیال میں صوفی تحریک کے متبادل کے طور پر آگے بڑھا رہے ہیں اور جماعت کے بارے میں جن مذہبی اور مغربی تحفظات کا اظہار کیا جاتا ہے انہیں اس سے زیادہ سروکار نہیں۔تبلیغی جماعت کی اساس:
یوگندر سکند نے تبلیغی جماعت کو 1867ء میں سہارن پور انڈیا میں قائم ہونے والے مدرسے دارالعلوم دیوبند کے ''صوفی اصلاحاتی پروگرام''(Sufi Reformist Project) کا حصہ قرار دیا ہے4۔ حقیقت حال یہی ہے کہ تبلیغی جماعت دارالعلوم دیوبند کے عناصر اربعہ 1۔ توحید و سنت2۔فقہ حنفی کا التزام و تائید3۔ تصوف و احسان4۔ جہاد میں سے تیسری ترجیح کا حصہ ہے۔5
دیوبند مکتبہ فکر کے حوالے سے یہ غلط تصور عام ہے کہ یہ تصوف سے تہی دامن یا تصوف مخالف ہے۔ اس تصور کے برعکس دیوبند نہ صرف تصوف کے قائل ہیں بلکہ پاکستان میں نقشبندیہ سلسلہ طریقت سے وابستہ زیادہ تر تعداد دیوبندی علماکی ہے۔ تصوف کی عوام میں اثر پذیری کی ہی وجہ ہے کہ بعض دیوبندی جہادی تنظیمیں بھی اپنا تعلق تصوف سے جوڑتی ہیں۔ جیسا کہ کالعدم جیشِ محمدۖ کے سربراہ مولانا مسعود اظہر اپنی تحریروں میں تصوف کی اہمیت پر زور دیتے ہیں بلکہ''امیر جماعتِ اہل سنت'' کے تحت بیعت بھی لیتے ہیں۔ بیشتر دیوبند علما ،تصوف کو روح شریعت قرا دیتے ہیں لیکن مز ارات ہونے والے غیر اسلامی شعائر کے مخالف ہیں۔ دیوبند کے عناصر اربعہ میں پہلے اور تیسرے نمبر کا باہمی ربط گہرا ہے اور اس کے مطابق بر صغیر کے مسلم معاشرے کے تناظر میں توحید اُسی وقت راسخ ہو سکتی ہے جب فرد اور قبر (مزار) کا تعلق متعین اسلامی حدود میں رہے۔ مفتی ابوالعطاء کے مطابق''ہندوستان میں غیر اسلامی اور نامرضی شریعت ریاضتیں اور وظیفے و اوراد کو تصوف کا جزو اعظم بنا دیا تھا، بلکہ بعض جاہلوں کے خیال میں طریقت ، شریعت کی پابند نہ تھی۔ علمائے دیوبند نے صحیح احسانی تصوف کی ترغیب کے ساتھ تصوف کے نام پر شروع کیے گئے شرک و بدعت کے مکروہ دہندے پر کاری ضرب لگائی۔''6
تبلیغی جماعت کی تخم ریزی اسی تصور کی اساس پر ہوئی۔ اگرچہ مولانا محمد الیاس نے 1927 میں میوات میں جب اس تحریک کی بنیاد رکھی تب قدیم نو مسلموں کو دوبارہ آبائی مذہب کی طرف لانے کے لیے شدھی و شنگٹھن کی ہندو تحریکیں عروج پر تھیں اور یو گندر سکند اسے تبلیغی جماعت کی اساس میں کلیدی اہمیت دیتا ہے، لیکن دارلعلوم دیوبند نے ان انتہا پسندانہ ہندو تحریکوں کے جواب میں شعبہ تبلیغ و حفاظت اسلام قائم کیا تھا اور جمعیت علماء اسلام کے مورخ سید محمد میاں نے لکھا ہے کہ اس کے نتیجے میں گیارہ ہزار سے زائد مرتدین نے توبہ کر کے دوبارہ اسلام قبول کیا۔7مولانا محمد الیاس کی تحریک کا محور عام مسلمانوں کے مذہبی افعال کی درستی اور اصلاح ہی رہا ۔
ایک تبلیغی رہنما کے مطابق مولانا محمد الیاس چاہتے تھے کہ عوام الناس میں پھر سے دین دار ی پیدا ہو اور یہ سب کچھ صرف مدارس و مکاتب اور خانقاہی نظام سے نہیں ہوگا کیوں کہ ان سے وہی لوگ فیض یاب ہوں گے جن میں پہلے سے دین کی طلب ہو اور وہ اس کے طالب بن کر خود مدارس اور خانقاہوں میں آئیں اس لیے مولانا ضروری سمجھتے تھے کہ دعوت و تبلیغ کے ذریعے ایک ایک دروازے پر جاکر اخلاص کے ساتھ منت و سماجت کر کے ان میں دین سیکھنے کی تڑپ پیدا کی جائے۔ چونکہ ان کی تحریک کا مطمع نظر عام مسلمان تھا انہوں نے اسی طرز پر جماعت کا طریقہ کار وضع کیا اور عمومی خانقاہی طریقہ کار کو اپنایا تاکہ لوگوں کو جماعت کی طرف راغب کرنے میں آسانی ہو۔ روز مرہ وضائف کے لیے چھ اصول وضع کیے۔ جو کہ اُسی طرز پر تھے جیسا کہ ایک مرشد اپنے مرید کو وظائف کے ذریعے ایک نظام سے جوڑ کر رکھتا ہے اور جیسے مرشد یا خانقاہ سے وابستگی کے اظہار کے لیے ہفتہ وار ، ماہ وار اور سالانہ محافل میںشریک ہونا مرید کے لیے ضروری سمجھا جاتا ہے (صوفی سلسلوں میں بعض صورتوں میں ترتیب ضروری نہیں ہوتی)اسی طرح تبلیغی جماعت کی مجلسوں کی ترتیب رکھی گئی۔ مولانا نے اس نظام کو خانقاہی طرز پر عام سادہ اور آسان رکھنے کے لیے کوئی کڑی شرائط اور قواعد وضع نہیں کیے۔ اور جو تبلیغی نصاب مرتب کیا گیا اُس میں بھی عام آدمی کے فہم کو مد نظر رکھا گیا اور صحابہ و صوفیا کی حکایات کے ذریعے تفہیم کی کوشش کی گئی۔ یہی وجہ تھی کہ تبلیغی جماعت کے اثرات تیزی سے پھیلے دلچسپ امر یہ ہے کہ مولانا الیاس نے آغاز میں تبلیغی دوروں کے بجائے خانقاہی طرز پر سوات میں ایسے تعلیمی مراکز قائم کیے جہاں عام افراد محدود وقت اور دنوں کے لیے آتے تھے اور وہاں انہیں اسلام اور عبادات کی بنیادی معلومات فراہم کی جاتی تھیں لیکن جیسے جیسے تحریک کے اثرات پھیلنے لگے ویسے ویسے طریقہ کار میں تبدیلی لائی گئی کیونکہ بڑی تعداد میں تعلیمی مراکز قائم کرنا ممکن نہیں تھا اس لیے مساجد کو مقامی مراکز کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا اور انہیں ایک مرکزی تعلیمی مرکز کے ساتھ منسلک کر دیا گیا یہاں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ طریقہ تبلیغ بھی صوفیا کی طرز پر اختیار کیا گیا اور خطبوں اور مذہب کی طرف رغبت دلانے کے لیے دلائل اور بحث کے لیے علما کے روایتی رویوں سے احتراز برتا گیا۔ جس کو جتنا معلوم ہے وہ دوسرے کو بتائے اور اسی اصول پر خود سیکھے اورکہیں مزید جاننے کی ضرورت ہو ۔ اُن سے جانے جنہیں زیادہ معلوم ہے۔''8 اور اس مشق کو''تعلیم'' کا عنوان دیا گیا جوآج تک مستعمل ہے۔ یہ ترتیب مسجد نبوی میں اصحابِ صفہ کے طرزِعمل سے اختیار کی گئی۔9
مزید برآں ''برداشت'' تبلیغی جماعت کا ایک خاص وصف ہے جس کی پرداخت خصوصی طور پر کی جاتی ہے اور تبلیغی دوروں کے دوران لوگوں کی تلخ کلامی ، طنز و استراع پر رد عمل ظاہر کرنے کی سخت ممانعت ہے۔ تبلیغی جماعت بلا تخصیص مسلک(ماسوائے شیعہ) تمام مساجد کواپنی تحریک میں آگے بڑھانے کی کوشش کرتی ہے اور اکثر ایسا ہوتا ہے کہ دیوبند کے ساتھ وابستگی کے باعث دیگر مسالک کی مساجد سے انہیں نکال دیا جاتا ہے او ر اس پربھی انہیں حسن سلوک کی تلقین کی جاتی ہے۔ حتیٰ کہ دیوبند مسالک کی مساجد میں بھی بسا اوقات ایسی صورت حال یا طعن و تشنیع کا سامنا رہتا ہے۔
اگرچہ تبلیغی جماعت کرشماتی رہنمائوں پر یقین نہیں رکھتی لیکن تبلیغی اکابرین کے ادب اور احترام کو ملحوظ رکھا جاتا ہے جو کہ صوفی روایت کا اہم حصہ ہے۔ سارا زور ایک فرد کو اعمال حُسنہ کا نمونہ بنانا ہے اور اسی غایت سے غیر مسلموں کی براہِ راست تبلیغ سے ممانعت ہے کہ تبلیغی جماعت کے رکن کا اخلاص اِفعال اور شخصیت اتنی پرکش ہونی چاہیے کہ غیر مسلم انہیں دیکھ کر اسلام کی طرف راغب ہوں ۔ اور اسے غیر مسلموں کو تبلیغ کرنے کا طریقہ کار قرار دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے غیر مسلم ممالک میں جانے والی تبلیغی جماعتیں براہِ راست اسلام کی دعوت دینے سے گریز کرتی ہیں اور جو غیر مسلم خود دلچسپی لے اُسے تبدیلی مذہب کی دعوت دینے کی بجائے اسلام کے سنہری اصولوں اور پہلوئوں سے آگاہ کیا جاتا ہے۔10
تبلیغی جماعت نے بلاشبہ تیزی سے مسلم جنوبی ایشیائی معاشرے میں سرایت کی ہے اور ہر طبقہ فکر کے لوگوں کو متاثر کیا ہے جن میں حکمران، سول، ملٹری بیوروکریسی، کاروباری حضرات، کھلاڑی حتیٰ کہ شوبز سے وابستہ افراد کی بھی شامل ہیں۔ سابق فوجی جرنیلوں کی تبلیغ میں شمولیت اور حکمرانوں اور سیاسی رہنمائوں کی تبلیغی اجتماعات میں شرکت کو اچنبھے اور اکثر تنقیدی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ جنوبی ایشیا میں حکمرانوں اور رہنمائوں کی عوام میں مقبول خانقاہوں اور مزارات پر حاضری کی روایت بہت پرانی ہے جسے وہ اکثر اپنے سیاسی مفادات کے حصول اور عوام میں اثر پذیری کے طور پر استعمال کرتے ہیں جنوبی ایشیا میں تبلیغی جماعت کے متعلق اس رجحان کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے یہ عمل دو طرفہ ہے بہر طور تبلیغی جماعت کو بھی اس سے مزید پذیرائی اور عوام میں (Legitimacy ) حاصل ہوتی ہے۔
اسی اثر پذیری کے باعث دیگر مسالک اور خود دیوبند مکتبۂ فکر کی بھی کئی تبلیغی تحریکیں وجود میں آئیں جنہوں نے تبلیغی طرز پر ہی یا اس کے طریقِ کار میں معمولی تبدیلی کے ساتھ تبلیغ کے اس رجحان کو تقویت دی اور ایسی تمام تحریکیں بنیادی طور پر لوگوں کو روایتی مذہب کی طرف راغب کرتی ہیں جیسے بریلوی مسلک کی دعوتِ اسلامی ، اہل حدیث مسلک کی تبلیغی جماعت اہل حدیث اور دیوبند مسلک کی مجلس صیانتہ المسلمین ۔تبلیغی جماعت پر اعتراضات کا ایک جائزہ
مذہبی حلقوں کی طرف سے تنقید
جیسا کہ ابتدائیے میں ذکر کیا گیا کہ تبلغی جماعت کو تمام مسالک بشمول دیوبند جس سے اس کی وابستگی ہے کی طرف سے تنقید کا سامنا رہا ہے اور یہ تنقید دو سطحوں پر ہے:
1۔ عقائد
2۔ طریقہ کار
عقائد کی سطح پر سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ تبلیغی جماعت اعمال حسنہ کی طرف خصوصی توجہ دیتی ہے لیکن عقائد کی سطح پر اصلاح نہیں کرتی اور اس حوالے سے استدلال یہ ہے کہ اگر''عقائدصحیح نہ ہوں تو انسان کے دیگر تمام اعمال صالحہ بھی بے کار اور اللہ کی بارگاہ میں ضائع ہو جاتے ہیں''۔ عقائد کی سطح پر اس''خرابی'' کی بنیادی وجہ تبلیغی جماعت پر تصوف کے غلبے کوقرار دیا جاتا ہے۔ جیسا کہ سلفی علما کا استدلال ہے کہ
''اہلِ توحید اور تبلیغی جماعت کے درمیان عقیدے اور منہج میں گہرا اور شدید اختلاف پایا جاتا ہے کیونکہ تبلیغی جماعت والے ماتریدیہ ہیں اور اللہ تعالیٰ کی صفات کی نفی کرتے ہیں اور عبادات اور اخلاقیات میں صوفی ہیں۔ وہ صوفیوں کے ان چار طریقوں کے مطابق بیعت کرتے ہیں اور جو انسان کو گمراہیوں کی اندھیری وادی میں دھکیل دیتے ہیں۔''11
اسی بنا پر سلفی اور سلفی اور حنبلی علماء شیخ ابن باز، شیخ عبد لرزاق عفیفی ، شیخ ناصر الدین البانی اور صالح بن فوزاں نے تبلیغی جماعت کے خلاف فتوے جاری کیے۔12 بعض سخت گیر دیوبند علما بھی تبلیغی جماعت پر اسی نوع کے اعتراضات اُٹھاتے ہیں ۔ خصوصاً تبلیغی نصاب جو اب''فضائل اعمال'' کے نام سے معروف ہے کے آخری حصے میں جو صوفیا کی حکایات پر مبنی ہے خاص ہدف رہتا ہے ۔ ڈاکٹر محمد سلیم جنہوں نے طویل عرصہ تبلیغی جماعت سے وابستگی کے بعد اس سے علیحدگی اختیار کی اپنی کتاب''تبلیغی جماعت کی علمی و عملی کمزوریاں'' میں لکھتے ہیں کہ''کاش! تبلیغی جماعت کے اکابرین تبلیغی نصاب سے شرک و بدعت کی باتیں نکال دیںاور اس نصاف کو اس طرح از سر نو مرتب کریں کہ اس میں شرک کی آمیزش نہ ہو۔ جو روایات ضعیف اور موزوں ہوں انہیں نکال دیں جھوٹی اور ضعیف روایتوں کی بنیاد پر لوگوں کے عقائد کو خراب ہونے سے بچائیں۔''13
تبلیغی زعما عموماً اس تنقید کا جواب دینے سے اعترض برتتے ہیں لیکن اپنی جماعت کے اندر ان پر اعتراض اُٹھنے پر جواب دیتے ہیں کہ کم از کم تبلیغی نصاب کے ان حصوں پر عمل جاری رکھیں جن پر انہیں اعتراض نہیں ہے۔14چونکہ تبلیغی جماعت کا مطمع نظر کوئی بڑی علمی یا مسلکی تحریک برپا کرنا نہیں تھا بلکہ عام مسلمانوں کے اعمال کی اصلاح تھی اس لیے بھی اس نوع کے اعتراضات ان کے لیے خاص دلچسپی نہیں رکھتے۔ خصوصاً جب دیوبند مسلک میں ہی رہتے ہوئے صوفی سلسلوں کا ابتاع جاری ہے، جیسا کہ سلسلہ نقشبندیہ اور اویسیہ کم و بیش صوفی روایات کا اسی طرح اتباع کرتے ہیں جیسا کہ بریلوی یا دیگر صوفی سلسلوں پر اعتقاد رکھنے والے مسالک۔
دوسرا بڑا اعتراض تبلیغی جماعت کے طریقہ کار پر ہے کہ جس کاتعلق بھی صوفی طرز کے طویل تبلیغی دورے ہیں اور اسے رہبانیت کا طریقِ کار سمجھ کر رد کیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر محمد سلیم کے مطابق صوفیوں کا فیملیوں سے کٹے رہنے کوعمل رہبانیت کا درس قراردیا ہے جو دینِ طریقت اور تصوف کا خاصہ ہے۔ یہی رنگ تبلیغی جماعت میں ہے سال ڈیڑھ سال کے لیے جماعت میں نکل جانے سے یہ لوگ بیوی بچوں سے کٹ جاتے ہیں خود تو گھر خط لکھ سکتے ہیں اور فون کر سکتے ہیں ۔ مگر گھر والوں کو اپنا پتہ نہیں بتاتے کہ کہیںگھر والے پیچھے نہ پہنچ جائیں۔''(15) علاوہ ازیں تبلیغی جماعت میں اوقات کار کی تقسیم، چھ نمبروں پر زور، تبلیغی دوروں کے دورانیے اور بیعت لینے کے طریقہ کار پر بھی بے شمار اعتراضات کیے جاتے ہیں اور ان افعال کو دین میں اختراع (بدعت) کا الزام بھی عائد کیا جاتا ہے۔
تبلیغی جماعت کے بارے میں مغرب میں جہاد دہشت گردی اور سیاسی اسلام کے حوالے سے جن شبہات اور تحفظات کا اظہار کیا جاتا ہے پاکستان کی مذہبی حلقے خصوصاً سیاست سے وابستہ علماء تبلیغی جماعت پر سب سے بڑا اعتراض یہ کرتے ہیں کہ یہ لوگوں کو جہاد اور سیاست سے دور کر رہی ہے۔ ''اللہ کے واسطے ذرا ان تین چلوں، چھ نمبروں ، گشت و بیاں سے بھی باہر جھانک کر دیکھیں کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ خانقاہوں اور تبلیغی مراکز کے اندر کوئی اخبار ہی پڑھ لیا کریں یا ریڈیو ہی رکھ لیں اور جان لیں کہ مسلمانوں کا کتنا خون بہہ رہا ہے۔ کبھی آپ کے مراکز میں جہاد کے بارے میں بھی مشورہ ہوا ہے؟ تیسری عالمی جنگ کے منصوبہ بندی کے لیے بھی کوئی حکمتِ عملی وضع ہو رہی ہے اگر یہ سب باتیں نفی میں ہیں تو پھر یہ جاگنے اور سوچنے کا وقت ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ تبلیغی اور صوفیا روزقیامت اپنے آپ کو گدھے پر سوارپائےں''16
معروف دیوبندی عالم مولانا زاہد الراشدی نے تبلیغی جماعت کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار تبلیغی اکابرین سے کیا اور اس کا احوال اپنے کالم''نوائے حق'' میں کیا:
''بھارت سے تشریف لانے والے حضرات میں مولانا سعد، مولانا زبیر اور مولانا ابراہیم سے علیحدگی میں گفتگو ہوئی اور مذکورہ بالا بزرگوں کی طرف سے ان حضرات کی خدمت میں جو شکایات پیش کی گئیں ان میں یہ شکایت بھی شامل تھی کہ تبلیغی جماعت میں ہونے والے بعض بیانات میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ اب صر ف دعوت و تبلیغ کا یہ کام ہی دین کا کام رہ گیا ہے اور دیگر دینی امور بالخصوص جہاد کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہی، بلکہ دیگر شکایات میں یہ باتیں تھیں کہ اب فیصلوں میں مشاورت کا عنصرکم ہوتا جارہاہے اور کشف و الہام کو زیادہ تر فیصلوں کی بنیاد بنایا جاتا ہے۔ تبلیغی جماعت کے اہتمام میں چلنے والے دینی مدارس میں نصاب کی تعلیم کی طرف زیادہ توجہ نہیں ہوتی اور عام بیانات میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول اور حضرت امام مہدی علیہ اسلام کے ظہورکا اس انداز سے تذکرہ کیا جانے لگا ہے کہ بس اب ان کا ظہور ہونے ہی والا ہے اور ہمارا کام صرف ان کا انتظام کرنا رہ گیا ہے۔ پاکستان کے ان ذمہ دار ترین علما ئے کرام نے ان امور کے بارے میں اپنا موقف یہ بیان کیا کہ یہ باتیں شرعاً درست نہیں ہیں، اس لیے ان کا سد باب کیا جانا چاہیے۔انڈیا کے تبلیغی بزرگوں کی طرف سے مولانا سعد نے ان حضرات کا شکریہ ادا کیا اور وعدہ کیا کہ وہ اصلاحِ احوال کی طرف پوری توجہ دیں گے ۔ اس واقعہ کو کئی سال گزر چکے ہیں اور میں نے ایک بار اشارتاً اس کالم میں اس ملاقات کے بارے میں تذکرہ کرنے کے باجود،اب تک خاموشی ہی کو بہتر سمجھاہے،لیکن حالیہ اجتماع میں مولانا محمد احمد بہاولپوری کا بیان سامنے بیٹھ کر سننے والے علما کرام نے مجھے جو کچھ بتایا ہے، اس کے بعد اس بات کو حیطۂ خاموشی میں رکھنے کو نامناسب سمجھتے ہوئے پہلی بار اس ملاقات کی کچھ تفصیل عرض کرنے کی میں نے جسارت کی ہے۔ میں ابھی چند روز قبل اسی کالم میں دعوت و تبلیغ کے اس اہم ترین دینی فریضہ کی ضرورت و اہمیت اور اس سلسلے میں تبلیغی جماعت کی عالمگیر خدمات اور اس کے بڑھتے ہوئے عالمی اثرات کے بارے میں عرض کر چکا ہوں اور بحمد اللہ پورے شعور و ادراک کے ساتھ اس کام کی اہمیت کو سمجھتا ہوں، لیکن اس حوالے سے دین کے دیگر شعبوں میں سے کسی کام کی نفی یا کسی کو بے اہمیت ظاہر کرنے کی بات کسی سطح پر بھی قابل قبول نہیں ہے، اس لیے مجبوراً ایک بار یہ گزارش کر رہا ہوں کہ جماعتیں، دینی مدارس، مساجد کا نظام، خانقاہیں،مجاہدین، نفاذ اسلام کے لیے جدوجہد کرنے والی تحفظ ختم نبوت اور تحفظ ناموس صحابہ کے لیے کام کرنے والے حلقے اور گروہ، مسائل و احکام میں عام مسلمانوں کی رہنمائی کرنے والے علمی مراکز اوار دارالافتاء مغرب کی فکری اور ثقافتی یلغار کو بے نقا ب کرنے اور ان کا تعاقب کرنے والے ادارے اور شخصیات، تجدد پسند حلقوں کی فکری کج روی اور نظریاتی بے راہ روی کی نشان دہی کرنے والے افراد اور ادارے اس کے ساتھ ساتھ دعوت و تبلیغ اور اصلاحِ امت کا یہ عالمی نظام،یہ سب دین کے شعبے ہیں اور ان میں سب کام کرنے والے دین ہی کا کام کر رہے ہیں، جن میں ہر شخص کو اس کی نیت اور محنت کے مطابق اللہ تعالیٰ کے ہاں اجر ملے گا، البتہ ان میں سے کوئی بھی شعبہ اگردوسرں کی نفی کرتے ہوئے خود کو دین کا واحد معیار قرار دے گا تو اس کی یہ کوشش دین کے تصور اور کردار کو محدود کرنے کی کوشش متصور ہو گی۔''
تبلیغی جماعت سے وابستہ لاکھوں افراد کے سبب ایک اور مطالبہ سیاسی انقلاب برپا کرنے کا کیا جاتا ہے۔ عموماً یہ تقاضا جماعتِ اسلامی اور اس کی فکر سے وابستہ افراد کی طرف سے کیا جاتا ہے۔ ''کیا یہ ممکن ہے کہ تبلیغی جماعت کے اکابرین حکمرانوں کو یہ بات کہہ سکیں کہ اس مملکت میں فوراً اسلام کا نظام عدل اور نظام معیشت نافذکرو،یہودیوں کا نظام ہمیں قبول نہیں۔اگر ایسا نہیں تو پھر لاکھوں کروڑوں کے اجتماع سے دین اور اسلام کو کیا حاصل؟''19
اس اعتراض کا جواب بھی تبلیغی اکابرین خاموشی سے دیتے ہیں اور سیاست کو جماعت کا منہج نہیں سمجھتے۔ اب ذرا ایک نظر مغربی اعتراضات پر ڈالتے ہیں۔مغرب کے شبہات اور تحفظات:
فرانسیسی محقق اولیور روئے تبلیغی جماعت کو دیگر سیاسی اور پرتشدد اسلامی تحریکوں سے جُدا کرتے ہوئے اسے''تجدیدی بنیاد پرست'' (Neo Fundamentalist)قرار دیتے ہیں۔ جس کا زور اعمال، رویوں اور عادات کی درستگی کی طرف ہے۔جبکہ باربراڈی میٹکاف نے اسے ''روایت پسندی کے زمرے رکھا ہے اور اسے ابتدائی اداروں کے تسلسل کے طور پر دیکھا ہے۔20روئے اور باربرا دونوں اسے اسلام ازم کی سیاسی اور پرتشدد تحریکوں سے ہٹ کر دیکھتے ہیں بلکہ بار برا کا اس تحریک کے اثرات کے حوالے سے تجزیہ ہے کہ دیوبند سے وابستہ اس تحریک کا ہمارے ساتھ اتنا لینا دینا نہ ہوجتنا کہ خیال کیا جاتا ہے۔21لیکن کچھ مفکرین مغرب میں موجود ایشیائی اور مسلم کمیونٹیز میں تبلیغی جماعت کے اثر و رسوخ کے حوالے سے تحفظات کا شکار ہیں کہ مسلمان آبادی خصوصاً نوجوانوں کی مذہبی روایت سے وابستگی مغربی معاشروں میں انہیں تنہائی کا شکار کر رہی ہے اور سماجی اور ثقافتی سطح پر مغربی معاشروں کو متنوع چیلنجز سے دوچار کر سکتی ہیں۔ جیسا کہ حجاب ایک سنجیدہ مسئلہ بن رہا ہے۔ اس سلسلے میں صرف تبلیغی جماعت ہی نہیں بلکہ دیگر روایتی اور جدید مسلم تحریکوں کا کردار بھی اہم ہے۔ سیاسی اور احتجاج کی سطح پر تبلیغی جماعت میں وہ قوت نہ ہو کہ کوئی بڑا چیلنج کھڑا کر سکے۔ لیکن تبلیغی جماعت سے وابستہ افراد انفرادی حیثیت میں کسی اور پلیٹ فارم سے یہ استحقاق استعمال کر سکیں۔ اس تناظر میں چیلنج اور اس کو جواب(Respond ) کرنے کے مغرب کو تنظیمی سطحوں پر نہیں بلکہ ذرا وسیع نظریاتی سطحوں پر زیادہ کام کرنا ہوگا۔
دہشت گردی اور تبلیغی جماعت
مغرب میں ریاستی اورپالیسی سازی کی سطح پر تبلیغی جماعت کے بارے میں جو شبہات پائے جاتے ہیں ان کا تعلق اس کے دہشت گرد تنظیموں سے براہ راست یا بلاواسطہ ربط سے ہے۔ امریکی تحقیقی ادارے سنٹر فار پالیسینگ ٹیررازم کے مطابق امریکہ میں تبلیغی جماعت سے تعلق رکھنے والے افراد کا تخمینہ پچاس ہزار تک لگایا گیا ہے اور''امریکی طالبان'' جان والکر لندھ(John Walker Lindh) اور عمریا ڈیلا(Omer padilla)کے تبلیغی جماعت کے ساتھ تعلق کے بعد سے اس کے متعلق شبہات میں مزید اضافہ ہُوا۔ ''آسٹریلین طالبان'' ڈیوڈہک کی ابتدائی وابستگی بھی تبلیغی جماعت کے ساتھ رہی، اسی طرح برطانیہ میںجولائی سات2005کے دہشت گردوں میں ایک کا تعلق تبلیغی جماعت سے رہا اور اب تک برطانوی پولیس 23ایسے مشتبہ دہشت گردوں کو گرفتار کر چکی ہے جن کاتعلق کسی نہ کسی طریقے سے تبلیغی جماعت سے رہا ہے۔ لیکن کسی مشتبہ دہشت گرد کے تبلیغی جماعت کے ساتھ سابقہ رابطوں کی بنیاد پر پوری جماعت کو موردِالزام ٹھہرایا جاسکتا ہے۔
یہ وہ سوال ہے جس پر جنوبی ایشیا اور مغرب میں کئی سطحوں پر بحث جاری ہے اور اب تک ذیل نکات اٹھائے گئے ہیں۔22
1۔ کیا تبلیغی جماعت براہِ راست دہشت گردی میں ملوث ہو سکتی ہے؟ ابھی تک اس کا جواب نفی میں ہے لیکن تبلیغی جماعت سے وابستہ افراد کی انفرادی حیثیت میں دہشت گردی میں ملوث ہونے کے امکان کو رد نہیں کیا گیا۔
2۔ انفرادی حیثیت میں دہشت گردی کے امکان کو رد نہ کیے جانے کی سب سے بڑی وجہ تبلیغی جماعت سے وابستہ افراد کی ایسی وارداتوں میں ملوث ہونے کے شواہد ہیں ، چند کا ذکر اوپر کیا گیا ان کے علاوہ مراکش میں مئی2004میں کاسابلانکا کے دھماکوں میں جس شخص، اتتکافی (Attakfi) کو سزائے موت سنائی گئی اس کا تعلق تبلیغی جماعت سے رہا تھا۔ اس حوالے سے قازقستان ، بھارت اور امریکہ کی کئی مثالیں دی جاتی ہیں لیکن بیشتر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی معلومات ابتدائی رپورٹوں پر مبنی ہیں۔ اسی بنا پر امریکہ میں تبلیغی جماعت سے وابستہ لوگوں کے دہشت گردی میں ملوث ہونے کے امکان کی سطح کو کم(Low) رکھا گیا ہے لیکن جماعت کے ممبران کی کسی پر تشدد نظریات رکھنے والے گروپ کے زیر اثر آنے کے امکانات کو زیادہ اہمیت دی گئی۔
3۔ تبلیغی جماعت سے کسی گروپ کی علیحدگی اور اس کی دہشت گردی میں ملوث ہونے کے امکانات پر بھی غور کیا جارہا ہے۔ لیکن اس حوالے سے جو تجزیے ابھی تک کیے گئے ہیں وہ محض شبہات پر مبنی ہیں اور ماضی میں اس کے کوئی واضح شواہد نہیں ملتے ماسوائے1995میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے چند فوجی افسران کی طر ف سے سازش، جن کا تعلق تبلیغی جماعت سے تھا۔ اور ابھی تک کے شواہد بتاتے ہیں کہ یہ ان کا انفرادی فعل تھا اور اس میں تبلیغی جماعت کے علاوہ جہادی تنظیموں کے افراد بھی شامل تھے۔
4۔ تبلیغی جماعت سے وابستہ ہونے والے نوجوانوں کی شدت پسندی کی طرف راغب ہونے کے امکان کو ایک بڑا خطرہ سمجھا جاتارہا ہے اور اس حوالے سے کافی شواہد پاکستان اور مغرب میں دستیاب ہیں۔ پاکستان میں جہادی اور پرتشدد فرقہ ورانہ تنظیموں سے وابستہ بیشتر افراد کا تعلق تبلیغی جماعت سے رہا ہے۔ پاکستان میں انسدادِدہشت گردی کے ادارے کے سربراہ طارق پرویز کے مطابق تبلیغی جماعت نوجوانوں کو راغب کرکے مساجد تک تو لاتی ہے لیکن اس کے بعد ان پر کنٹرول نہیں کر پاتی کیوں کہ مسجد میں تبلیغی جماعت کے علاوہ جہادی اور فرقہ ورانہ تنظیموں کے افراد اور بعض صورتوں میں ان کے نیٹ ورک بھی موجود ہوتے ہیں اور''نو تبلیغی'' ان کے لیے خام مال کی طرح دستیاب ہوتے ہیں۔ جو پہلے ہی مذہب کی طرف راغب ہو رہے ہوتے ہیں اور مذہب کے نام پر انہیں دیگر ایجنڈوں کی طرف راغب کرنا آسان ہوتا ہے۔23مغرب میں اپنی شناخت کی تلاش میں سرگرداںنوجوان کے لیے تبلیغی جماعت مذہبی روایت سے جوڑتی ہے اور مساجد و مکاتب میں وہی عمل شروع ہو جاتا ہے جس کا اوپر ذکر کیا گیا ۔اس سلسلے میں مجھے چند ذاتی تجربات بھی ہوئے اور جہادی تنظیموں پر تحقیقی کام 24کے دوران جب ان کے ممبران سے انٹرویوز کیے تو بیشتر کا ابتدائی تعلق تبلیغی جماعت سے رہا تھا اور بعض صورتوں میں وہ جماعت سے اپنا تعلق بھی قائم رکھے ہوئے تھے۔ اس کی وجہ ان کے نزدیک یہ تھی کہ تبلیغی دوروں کے دوران ایک تو انہیں دین کا بنیادی علم حاصل ہوتا ہے اور دوسرا روحانی پاکیزگی حاصل ہوتی ہے۔ یہ امر حیران کن تھا کہ کالعدم جیش محمد اپنے نئے ممبران کو تین سے دس دن کے تبلیغی دوروں پر بھیجتی تھی تاکہ وہ خود کو ایک مذہبی ماحول میں ڈھال سکیں۔
5۔ دہشت گردی اور سیکیورٹی کے حوالے سے سب سے بڑا خطرہ جو تبلیغی جماعت سے وابستہ ہے وہ اس کی ڈھیلی ڈھالی تنظیمی ساخت ہے جس کے باعث دہشت گرد گروپ یا افراد تبلیغی جماعت میں سرایت کر جاتے ہیں اور عموماً ان کے پیشِ نظر دو چیزیں ہوتی ہیں ایک نئے ممبران کی بصری اور دوسرے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نظروں سے بچنے کے لیے تبلیغی جماعت کو ایک پردے(cover) کے طور پر استعمال کرنا۔
امریکہ ، یورپ، انڈونیشیا اور مراکش میں اس حوالے سے شواہد بھی دستیاب ہیں کہ دہشت گرد تنظیموں کے اراکین نے تبلیغی جماعت کے پردے میں تربیت اور آپریشن کی غرض سے سفر کیے۔ پاکستان میں بھی یہ ایک سنگین مسئلے کے طور پر اُبھرا ہے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے دعویٰ کرتے ہیں کہ لشکرِ جھنگوی سمیت کئی دہشت گرد تنظیمیں گرفتاریوں سے بچنے اور بعض صورتوں میں دہشت گردی کی وارداتوں کے لیے تبلیغی جماعت کو استعمال کرتی رہی ہیں۔25
لاہور سے شائع ہونے والے ماہنامہ''ہم شہری'' نے اپنی ایک تحقیقی رپورٹ میں لکھا کہ1990سے لے کر اب تک ہم نے مشاہدہ کیا اور اس بات کے شواہد پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں اور انتظامی اداروں کے پاس موجود ہیں کہ رائے ونڈ کے تبلیغی اجتماعات میں بالخصوص اور پاکستان کے دیگر شہروں میں منعقد ہونے والے اجتماعات میں بالعموم دہشت گردی کرنے والے مختلف گروپوں کے سرکردہ افراد، سالار اور کمانڈر نہ صرف جمع ہورہے ہیں(جیسا کہ اخباری اطلاعات کے مطابق فروری 2009میں بنوں میں ہونے والے اجتماع میں طالبان کمانڈروں نے شرکت کی)بلکہ ان کے باہمی اجلاس بھی منعقد ہوتے رہے ہیں اور ان کی طرف سے اشتعال انگیزاور گمراہ کن لٹریچر بھی علی اعلان اور کبھی خفیہ انداز سے تقسیم کیا جاتا رہا ہے۔ تبلیغی اجتماعات چونکہ پرامن اور محض تبلیغ دین کے نام پر ہوتے ہیں اس لیے یہاں اس انداز سے نگرانی اور چیکنگ نہیں ہوتی جس طرح دیگر اجتماع کے دوران ہوتی ہے۔ ہماری طرف سے ان تبلیغی اجتماعات کا انعقاد کرنے والے حضرات اور تبلیغی جماعت کے اراکین و قائدین پر دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا شک نہیں کیا جارہا لیکن یہ حقیقت ہے کہ ان دہشت گردوں کے آنے جانے اور اجتماع میں شریک ہونے کا علم تبلیغی جماعت کے ذمہ داران کو ضرور ہوتا ہے ۔ کیوں کہ یہ ناممکن ہے کہ تبلیغی اجتماع میں ہونے والی کارروائیوں سے میڈیا تک کے لوگ آگاہ ہوں لیکن تبلیغی جماعت کے ذمہ داران کو علم ہی نہ ہو۔''26
اس کے ایک واضح ثبوت کا اندازہ درہ آدم خیل کے طالبان کے ایک باغی دھڑے کی جانب سے اخبارات کو جاری ہونے والے خط سے لگایا جاسکتا ہے جس میں اقرار کیا گیا ہے کہ''طارق گروپ کے چند باشعور لڑکوں نے طارق کے لیے کام کرنا چھوڑ دیا ہے اور کچھ فرار ہو چکے ہیں اور بعض نے تبلیغ میں روپوشی اختیار کی ہے۔''27
اس نوع کی کئی مثالیں دی جاسکتی ہیں کہ تبلیغی جماعت کے ڈھیلے ڈھالے ڈھانچے کو دہشت گرد کس طرح اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ تنظیمی ڈھانچے کو ڈھیلا رکھنے کا مقصد ایک تو لوگوں کو رضاکارانہ طور پر راغب کرنا تھا اور دوسرے چونکہ خانقاہی نظام میں کوئی ممبر شپ نہیں ہوتی اور معاملہ لوگوں کے اپنے ارادے کا ہوتا ہے تبلیغی جماعت میں بھی اسی روایت کو فروغ دیا گیا ۔ بڑھتے ہوئے خطرات کے باجود تبلیغی جماعت تنظیمی ساخت کو بدلنے پر تیار نہیں ہے اور اکابرین کا خیال ہے کہ سیاسی جماعتوں کا طریقہ کار اختیار کرنے سے تبلیغ کا کام محض مخصوص لوگوں کا کام تصور ہوگا جو ان کے بنیادی اصول کہ''ہر امتی داعی ہے''کے صریحاً خلاف ہے۔28دہشت گردوں کے تبلیغی جماعت میں انسانوں کے درمیان پسندیدہ یا ناپسندیدہ افعال کی بنیاد پر تقسیم نہیں کی جاتی کیوں کہ ہر شخص یکساں طور پر اصلاح کا محتاج ہے اور جماعت میں آنے والے ہر فرد کو ایک ماحول میں لا کر راست رستے کی طرف لانے کی کوشش کی جاتی ہے''29تبلیغی جماعت کا یہ بھی موقف ہے کہ اگر کوئی دہشت گرد یا مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہے تو یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ اُسے سزا دے خواہ اُس کا تعلق تبلیغی جماعت سے ہی کیوں نہ ہو''...یوگندر سکند بھی اسی استدلال کی بنیاد پر تبلیغی جماعت کے دہشت گردی میں ملوث ہونے کے امکان کو رد کرتا ہے30
6۔ تبلیغی جماعت کے مالی وسائل پر بھی تحفظات کا اظہار کیا جاتا ہے۔ تبلیغی جماعت کا موقف ہے کہ اتمام اسباب اللہ مہیا کرتا ہے اور بندوں کو سبب بناتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ جنوبی ایشیا میں تبلیغ سے وابستہ افراد اور بعض صورتوں میں حکومتوں نے بھی ان کے مراکز کی تعمیر میں حصہ ڈالا ہے جب کہ چندہ اور وابستہ افراد کے مالی تعاون سے روز مرہ کے معاملات چلائے جاتے ہیں۔ تبلیغی دوروں کے لیے جماعت فنڈ مہیا نہیں کرتی بلکہ ہر فرد کی انفرادی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے سفر اور قیام و طعام کے لیے وسائل خود مہیا کرے۔ بعض صورتوں میں جماعت کے رکن انفرادی حیثیت میں کم وسائل رکھنے والوں کی مالی معاونت کر دیتے ہیں ورنہ جماعت میں مالی قربانی بھی اتنا ہی اہم جُزو ہے جتنا کہ تبلیغ کے لیے نکلنا۔اختتامیہ
تبلیغی جماعت کے معاشرے پر اثرات اور لوگوں کو روایتی مذہب پسندی کی جانب راغب کرنے پر اختلاف کی گنجائش موجود ہے اور اس کا جواب مختلف طبقات اپنے طور پر دے رہے ہیں لیکن اہم بات یہ ہے کہ اس نے ایک بوسیدہ ہوتے خانقاہی نظام کو ایک نئے انداز سے استعمال کیا۔ لیکن کیا اس میں اب نئی تبدیلیاں نہیں کی جاسکتیں؟78سال پہلے وجود میں آنے والی تحریک کو زمانے کے ساتھ خود کو بدلنا چاہیے تھا۔ لیکن تبلیغی جماعت کے اکابرین جماعت کی ساخت اور طریق کار کو بدلنے پر ذرا رضامند نہیں۔ دہشت گردی اور سیکیورٹی کے حوالے سے تحفظات دور کرنا تبلیغی جماعت کے اکابرین کو سنجیدگی سے لینے چاہئیں اور تبلیغی جماعت کو پلیٹ فارم کوشدت پسند گروہوں کے ہاتھوں استعمال کرنے کی سختی سے ممانعت کرنی چاہیے۔ ممکن ہے کہ تبلیغی اکابرین محض اسے ایک وقتی دبائو یا رجحان سمجھ رہے ہوں۔ لیکن تبلیغی جماعت کے ذریعے دیگر شدت پسند تحریکوں کی طرف راغب ہونے کا رجحان مجموعی طور پر اسی کے بنیادی مقصد پرُامن اصلاحی تحریک کی نفی کو فروغ دے رہا ہے اور کیا اس امکان کو رد کیا جاسکتا ہے کہ آئندہ جرائم پیشہ نیٹ ورک بھی تبلیغی جماعت کو پردے(Cover)کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیں۔
تبلیغی جماعت میں برداشت اور مشورے کی روایت بہت مضبوط ہے۔ لیکن یہ مشاورت تبلیغی دوروں کے شیڈول اور ان کے انتظامات کی حد تک محدود نہیں رہنی چاہیے اسے دیگر حساس معاملات تک توسیع دینی چاہیے۔
تفصیل کے لئے کلک کریں۔
تبلیغی جماعت کا تعارف
حمود بن عبداﷲ بن حمود التویجری رقم طراز ہے
وقد رد کثیر من العلمآء علی التبلیغیین، وبینوا اخطاء ہم وضلالاتھم وخطرہم علی الاسلام والمسلمین، وقد رائیت من الکتب والرسائل المولفۃ فی ذالک عدداً کثیراً، ومن اہمما کتاب الاستاذ سیف الرحمن احمد الذی تقدم ذکرہ والنقل منہ
وبعض الذین ردوا علی التبلیغیین قد صحبوہم سنین کثیرۃ، وخرجوا معہم فی سیاحاتھم ہی من محدثات الامور، ثم لمارؤا ما فی دعوتھم واعمالہم من البدع والضلالات والجہالات، فارقوہم، وحذروہم منہم ومن سیاحتھم واعمالہم المبتدعہ (القول البلیغ ص۔ 22,23)
ترجمہ: کثیر علماء کرام نے تبلیغی جماعت والوں کا رد کیا ہے، اور ان کی خطائوں اور گمراہیوں کو ظاہر کردیا ہے اور اسلام ومسلمین کو ان کے خطرے سے آگاہ کردیا ہے۔ تحقیق میں نے ان کے رد میں لکھی ہوئی کثیر کتابیں اور رسائل دیکھے ہیں، ان میں سے اہم ترین کتاب استاذ سیف الرحمن احمد کی کتاب ہے، جس کا ذکر پہلے ہوچکا ہے اور بعض وہ لوگ بھی ان رد لکھنے والوں میں بدعتوں اور گمراہی و جہالت کو دیکھا تو ان سے جدا ہوگئے اور ان سے بچ نکلے اور ان کے گشتوں اور بدعت بھرے اعمال سے محفوظ رہ گئے۔
تبصرہ قادری: قارئین کرام! اس مذکورہ تبلیغی جماعت کے رد میں اب تک کئی علمائے کرام تصانیف کرچکے اور عرب و عجم کے علماء دین نے ان کی شرارتوں سے آگاہی دلانے کے لئے انتھک محنت کی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس تبلیغی جماعت کے کارندوں نام نہاد مبلغوں نے انہی جہالت وضلالت کے ذریعے ملک و ملت اور دین اسلام کو خاطر خواہ نقصان پہنچایا ہے۔ حمود بن عبداﷲ بن حمود التویجری نے اپنی اس کتاب ''القول البلیغ'' کے حصہ اول میں کہا کہ سائل نے مجھ سے ان کے بارے کیا پوچھا کہ یہ کیسے لوگ ہیں تو میں یہ کہوں گا کہ ان کے معاملات سنت و شریعت سے جدا ہیں اور بدعتوں، گمراہیوں کو انہوں نے اپنالیا ہے اور نئی باتوں، بری باتوں کو گھڑنا شریعت میں ناپسندیدہ ہے۔
امام احمد، امام بخاری، امام مسلم، ابو دائود، ابن ماجہ رحمہم اﷲ حضرات محدثین ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ وہ فرماتی ہیں:
ان رسول اﷲﷺ قال من احدث فی امرنا ہذا امالیس منہ فہو رد''
امام احمد و بخاری و مسلم رحمہم اﷲ کی ایک دوسری روایت میں ہے
من عمل عملا لیس علیہ امرنا فہو رد
یعنی جو ہمارے دین میں نئی بات اپنی طرف سے پیدا کرے وہ بات رد ہے۔
قال النووی فی شرح مسلم، قال اہل العربیہ، الردھنا بمعنی المردود ومضاہ، فہو باطل غیر معتبدیہ بہ
امام نووی شرح مسلم کہتے ہیں ''اہل عربی کہتے ہیں اس حدیث میں رد کا معنی مردود اور باطل اور ایسی چیز ہے جو قابل شمار نہ ہو'' اور فرماتے ہیں یہ حدیث ہر بری چیز اور گھڑی ہوئی باتوں کے رد کے لئے ہے۔
اس حدیث میںتبلیغی جماعت کی نئی من گھڑت باتوں کا رد موجود ہے۔ ان کے اکثر اعمال وہ ہیں جو خلاف سنت نبوی ہیں اور نہ ہی وہ باتیں سنت خلفاء راشدین میں سے ہیں بلکہ ان کے امیر محمد الیاس کاندھلوی دیوبندی کی اپنی گھڑی ہوئی باتیں ہیں جو اس نے اپنے شیوخ اشرف علی تھانوی اور مولوی رشید احمد گنگوہی کے کہنے پر ایجاد کی ہیں اور ان باتوں کو تبلیغی جماعت کے اصول ستہ کہا جاتا ہے۔
استاذ سیف الرحمن بن احمد دہلوی اپنی کتاب کے ص 8,7 پر لکھتے ہیں:
تبلیغی جماعت کی فکر منسوب ہے، شیخ سعید کردی المعروف بدیع الزمان کی طرف، اصل میں یہی شخص اس فکری بدعت کا موجد ہے اس کے بنائے ہوئے چھ اصولوں پر تبلیغی جماعت کاربند ہے اور ظاہر یہی ہے کہ شیخ الیاس ہندی دیوبندی کاندھلوی جب حجاز مقدس میں پہنچا تو اس نے یہاں سے یہ فکر حاصل کی اور پھر ہند میں جاکر تبلیغی جماعت کا سلسلہ اسی اصول ستہ (چھ اصولوں) پر رکھا۔
جبکہ تبلیغی جماعت کے اس طریقے پر تردید خطبہ نبوی میں موجود ہے۔
حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا:
اما بعد فان خیر الحدیث کتاب اﷲ وخیر الہدی ہدی محمد وشر الامور محدثا تھا، وکل بدعۃ ضلالۃ
یعنی بہترین کلام کتاب اﷲ ہے اور بہترین سیرت مصطفی ہے اور برے کام نئی باتیں گھڑلینی ہیں اور ہر بری نئی بات گمراہی ہے۔ بہرحال اب تک کی تقریر سے روز روشن کی طرح یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ تبلیغی جماعت جہالت و ضلالت اور رسوائی و گمراہی کا پلندہ ہے۔ ان کے اپنے من گھڑت چھ اصولوں پر ان کی کہانی کا دارومدار ہے۔ اس کے پیچھے اکابرین دیوبند اشرف علی تھانوی، رشید احمد گنگوہی وغیرہا کا ہاتھ ہے اور اس جماعت کے بانی اول الیاس کاندھلوی نے شیخ کردی کے بناوٹی اصولوں پر اس جماعت کی بنیاد کھڑی کردی اور اس کی نئی من گھڑت فکر کی ترویج کے لئے اس نے اور اس کے ساتھیوں نے دن رات ایک کرکے اولا تو مسلمانان ہند پھر اس کے بعد عرب و عجم کے اہل سنت کو ورغلانے اور ان کو ان کے عقیدہ حقہ سے ہٹانے کے لئے تبلیغی گشتوں، چلوں اور درسوں بیانوں کا سلسلہ زوروشور سے شروع کردیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے حشرات الارض کی طرح تبلیغی جماعت کے مبلغین پھیلتے چلے گئے اور اسلامی کتابوں کے بہانے لوگوں میں اکابرین دیوبند کی لکھی ہوئی وہ کتابیں جن میں اﷲ و رسول کی شان میں کھلم کھلا گستاخیاں قلمبند کی گئی ہیں، ایسی کتابیں تبلیغی جماعت والے تقسیم کرنے لگ گئے اور اس طرح ان تبلیغی لوگوں کے ذریعے وہابیت پھیلنی شروع ہوگئی اور اب تو گھر گھر میں ان کے جراثیم اثر کرتے چلے جارہے ہیں۔ اس لئے ان بدعتوں کے حامیوں اور ان کے شر سے بچنے کے لئے ان تبلیغی وفود اور گشتوں کا اپنے اپنے علاقوں کی مسجدوں میں داخلہ بند کروانے کی ہرممکن کوشش کریں تاکہ آپ کی آنے والی نسلیں ان انسان نما بھیڑیوں کے شکار سے بچ سکیں اور یہ انہیں زہر ملاشربت شہد بنا کر پیش کرنے میں کامیاب نہ ہوسکیں۔
حمود بن عبداﷲ بن حمود التویجری رقم طراز ہے:
واما قول السائل، ہل الصحہ بالخروج مع التبلیغین فی داخل البلاد ای البلاد السعودیۃ او فی خارجھا ام لا؟
فجوابۃ ان اقوال: انی انصح السائل وانصح غیرہ من الذین یحرصون علی سلامۃ دینہم من ادناس اشرک والغو والبدع والخرافات ان لاینضمو الی التبلیغیین، ولایخرجوا معھم ابداً وسواء کان ذالک فی البلاد السعودیۃ اوفی خارجھا، لان اہون مایقال فی التبلیغیین انہم اہل بدعۃ وضلالۃ وجہالۃ فی عقائدہم وفی سلوکھم ومن کانوا بہذہ الصفۃ الذمیمۃ، فلاشک ان السلامۃ فی مجانبتھم والبعدعنھم (ص 30)
ترجمہ: سائل کا یہ پوچھنا کہ یہ کیا میں اسے تبلیغی جماعت والوں کے ساتھ نکلنے کی نصیحت کرتا ہوں بلاد عربیہ میں یا اس کے علاوہ میں یا پھر میں اسے ان کے ساتھ نکلنے سے منع کرتا ہوں۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ میں اس سائل اور اس کے علاوہ جو لوگ بھی اپنے دین کی سلامتی چاہتے ہیں، ان کو تبلیغی جماعت والوں کے ساتھ نکلنے سے منع کروں گا تاکہ ان کا دین بچ جائے وہ شرک و بدعت اور غلوبازی کا شکار نہ ہوں اور کبھی بھی ان کے ساتھ مت نکلیں، خواہ عرب ممالک میں ہوں یا عجم میں، اس لئے کہ سب سے ہلکی بات تبلیغیوں کے بارے میں یہ ہے کہ یہ اہل بدعت و ضلالت وجہالت ہیں۔ ان کے عقیدوں اور طریقوں میں یہ خرافات موجود ہیں، اور جو شخص ان بری خصلتوں (بدعت و جہالت وضلالت) سے متصف ہو، اس سے دور رہنے میں سلامتی ہے۔
تبصرہ قادری: اس آخری قسط میں اسی سائل کا ذکر ہے جس کے بارے میں ابتدا میں ''القول البلیغ'' کے مصنف نے کہا تھا کہ اس نے مجھ سے پوچھا ہے کہ آیا میں تبلیغی جماعت کے ساتھ گشت کرنے کے لئے عرب ممالک یا عجم میں جائوں یا نہ جائوں تو اسکے جواب میں مصنف کا کہنا یہ تھا کہ یہ جماعت بدعت و ضلالت اور رسوائی و گمراہی کا پلندہ ہے۔
اب قارئین کرام! اندازہ کیجئے کہ ایسی جماعت کے ساتھ چلّوں میں گھومنے والے کی کیفیت کیا ہوگی اور اس کی صحبت جب ایسے لوگوں کے ساتھ ہوگی تو وہ خود کیسی جہالت و ضلالت کا شکار ہوگا، اس کا اندازہ ہر عقل سلیم رکھنے والا خود کرسکتا ہے۔
ولقد احسن الشاعر حیث یقول
فلا تصحب اخا الجہل ویاک وایاہ
فکم من جاہل اردی حلیما حین اخاہ
یقاس المرء بالمرئ اذاما ہوشاہ
ترجمہ: کسی جاہل ساتھی کی صحبت اختیار مت کر، خود اس سے دور رہ اور اس کو اپنے سے دور رکھ۔ بہت سارے جاہل جب بھائی بنتے ہیں تو بردبار نظر آتے ہیں اس لئے کہ آدمی آدمی کو اپنے آپ پر قیاس کرتا ہے جس کو وہ اسے چاہے۔
وقال آخر واحسن فیما قال
وما ینفع الجرباء قرب صحیحۃ
الیہا ولکن الصحیحۃ تجرب
خارش زدہ کو صحت مند کا قرب نفع نہیں دیتا
ہاں البتہ صحتمند اس کے قرب سے خارش والا ہوجاتا ہے
تفسیر: اسلامی نظریہ کے مطابق کوئی مرض متعدی نہیں ہوتا کہ ایک سے دوسرے کو لگ جائے، یوں پھر اعتراض ہوگا کہ پہلے کو کہاں سے لگا۔ یہ ایک مثال تھی جو شعر میں بیان ہوئی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اچھے کی صحبت برے کو اچھا کم بناتی ہے مگر برے کی صحبت اچھے کو جلد برا بنادیتی ہے (قادری القول البلیغ کے مولف نے اپنی کتاب کے حصہ اولیٰ کے آخر میں ایک درج ذیل تنبیہ رقم کی ہے۔
جو شخص تبلیغی جماعت والوں کے معاملے میں توقف کرتا ہے اور انہیں اچھا جانتا ہے اسے چاہئے کہ وہ قائد محمد اسلم پاکستانی کی کتاب بنام جماعۃ التبلیغ کا مطالعہ کرے۔ اس کتاب میں ان کے اکابرین کے عقائد باطلہ اور اقوال فاسدہ کا ذکر موجود ہے۔ جن کو پڑھ کر یا سنکر اہل ایمان کے دل ہل جاتے ہیں۔
اس کتاب میں محمد اسلم پاکستانی نے کہا جس جماعت کی بنیادیں غلط اقوال و نظریات پر ہو، اس سے دوسروں کی اصلاح کی توقع کیسے رکھی جاسکتی ہے۔
اسی طرح خود ''القول البلیغ'' عربی زبان میں اس جماعت کی حقیقت کا خوب بیان کرتی ہے اور ان کی نقاب کشائی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
رئیس التحریر علامہ ارشد القادری مرحوم کی کتاب ''تبلیغی جماعت'' اس جماعت کی تخریب کاری کے بیان میں اپنی مثال آپ ہے۔
اس کے علاوہ ابوریب ڈاکٹر عبدالرحمن کی ''جماعۃ التبلیغ'' (عربی) لاجواب کتاب ہے۔
ڈاکٹر محمد سلیم کی کتاب ''تبلیغی جماعت کی علمی و عملی کمزوریاں'' ناشر دارالحکمت لاہور پاکستان یہ کتاب ایک تبلیغی عالم کے قلم سے لکھی ہوئی وہ حقیقت ہے جس کے جھٹلانے کے لئے تبلیغی جماعت کو اپنی جماعت کا پورا نقشہ تبدیل کرنا پڑے گا یا کوئی نئی تبلیغی جماعت بنانا پڑے گی جس میں یہ علمی و عملی کمزوریاں ناپید ہوں جو موجودہ جماعت میں ہیں۔-
خاتمہ
الحمدﷲ علی احسانہ! آج سے تقریبا دو سال قبل فروری2009ء میں ''القول البلیغ فی التحزیر من جماعۃ التبلیغ'' مولفہ شیخ حمود بن عبداﷲ بن حمود التویجری المتوفی 1413ھ سے اقتباسات نقل کرکے ان کے تحت ترجمہ و تبصرہ قادری تحریر کرکے قسط وار ''تبلیغی جماعت کا تعارف'' پیش کرنے کا جو سلسلہ شروع کیا تھا، اس میں تبلیغی جماعت کے کارنامے اور ان کے ساتھ فکری و نظریاتی اتحاد و یگانگت رکھنے والی دو پارٹیوں یعنی قادیانیوں اور شیعوں کا انتہائی مثبت انداز میں دلائل کی روشنی میں بذریعہ حوالہ جات رد پیش کرتے ہوئے یہ سلسلہ 17 قسطوں پر محیط ہوگیا۔ اب اس قسط نمبر 17 پر اس سلسلے کو موقوف کرتے ہیں۔ استدعا ہے کہ تمام قارئین کرام سے بالخصوص حضرات علمائے کرام سے اس سلسلے میں کوئی لغزش و کوتاہی یاشرعی غلطی پائیں تو راقم الحروف کو مطلع فرمائیں تاکہ اس کو کتابی شکل میں چھاپنے سے قبل اس کی تصحیح ہوجائے اور یہ بھی گزارش ہے کہ اس مضمون کے مستقل قاری بالخصوص اور عام مسلمان بالعموم اس سلسلے میں آج تک پیش کردہ کتب کے اصلی حوالہ جات کو ضرور ملاحظہ کیجئے اور ممکن ہو تو ان سب کتابوں کا وسیع النظری سے مطالعہ کیجئے۔
شیخ اکبر اور تبلیغی جماعت
شیخ اکبر۔۔۔۔۔۔؟
اب ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ شیخ اکبر صاحب ہیں کون جن کو مولانا ذکریا نے فضائل اعمال میں بڑی عقیدت سے جگہ دی ہے-
ان کا پورا نام شیخ محی الدین ابن عربی المعروف شیخ اکبر ہے جنہیں مولانا ذکریا نے ایک جگہ شیخ العارفین بھی لکھا ہے- یہ نہ صحابی ہیں، نہ تابعی، نہ تبع تابعی- کیونکہ ان کی تاریخ وفات ہے 637 ھ بمطابق 1240ع- لیکن حیرانی اس بات پر ہے کہ کہ میرے پاس جو ادارہ اشاعت دینیات نظام الدین نیو دہلی والی فظائل اعمال ہے اس کے اندر ان کے نام کے ساتھ صحابہ کرام کی طرح" رضی اللہ عنہ " لکھا ہوا ہے جو بہت بڑی جسارت ہے- البتہ اسے بعد میں "فیضی" (لاھور) والوں نے "رحمۃ اللہ علیہ" لکھ دیا ہے-
پہلی بات تو یہ ہے کہ اذان ہو یا اقامت یا تکبیر تحریمہ سب میں اللہ اکبر استعمال ہوتا ہے یعنی اللہ سب سے بڑا ہے- دوزخ کے عذاب کو بھی عذاب اکبر کہا گیا ہے جس سے بڑا عذاب کوئی نہیں- اس لی ےکسی صوفی کے لیے یہ کہدینا کہ اس سے بڑا شیخ کوئی نہیں تو پھر صحابہ کرام رض اور خود نبی پاک ۖ کا مقام کیسے متعین کیا جائے گا؟ ایسے ہی امام ابو حنیفہ رض کو بھی امام اعطم لکھ گیا ہے- حالانکہ کسی امتی کے لیے اکبر اور اعظم کے الفاظ کی گنجائش نہیں- انسان کے لیے سب سے اعلی مقام "عبد" کا ہے- اللہ تعالی نے رسول اللہ ۖ کے لیے بھی اور دوسرے انبیاء کے لیے بھی عبد کا لفظ استعمال فرمایا جو ان کی اعلی شان ظاہر کرتا ہے- خیر یہ تو ایک اضافی بات ہوگئي ہم اصل بات کی طرف آتے ہیں-
ابن عربی کی شہرت اس کے نظریہ وحدت الوجود اور اس کی کتابوں فتوحات مکیہ اور فصوف الحکم کی وجہ سے ہے-
وحدت الوجود:
اس نظریہ کے مطابق کائنات کی ہر ایک چيز کائنات کے پھیلے ہوئے حصوں میں سے ایک حصہ ہے کسی ایک چيز کی دوسرے سے غیریت نہیں- سب موجودات میں مکمل وحدت پائی جاتی ہے حتی کہ خود خدا اور کائنات میں اس طرح تعلق ہے کہ کہ ایک کو دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا- بالفاظ دیگر مادہ کی محدود دنیا خدا سے الگ اپنا کوئی مستقل وجود نہین رکھتی- (معاذ اللہ و استغفراللہ)
"ھمہ اوست" اسی نظریہ کا دوسرا نام ہے جس کے مطابق خدا ہی سب کچھ ہے اور سب کچھ ذات باری تعالی ہے- یہ کائنات خدا سے الگ کوئی مخلوق نہیں- بلیہ کائنات ہی خدا ہے اور خدا ہی کائنات ہے- (معاذاللہ و استغفراللہ)
نظریہ وحدت الوجود اور ابن عربی:
ابن عربی سے پہلے بھی یہ نظریہ صوفیاء میں موجود تھا مگر ابن عربی نے فتوحات مکیہ اور فصوص الحکم جیسی کتابیں لکھ کر اس نظریہ کو صوفیاء کے عقائد مین داخل کردیا اور پھر اپنی ساری زندگی اسی عقیدہ کی آبیاری میں کھپادی- وہ اپنے اس نظریہ کو عین نظریہ توحید قرار دیتے اور اس کی تفصیل ان الفاظ میں پیش کرتے ہیں:
" ایک توحید عقل والے کی ہے اور ایک توحید عارف صاحب تجلیات کی- ان دونوں میں برا فرق ہے صاحب عقل توحید کا شعر یوں پڑھے گا:
{ اور ہر ایک چيز میں اللہ تعالی کی ذات کے لیے ایک نشانی ہے، جو اس بات کی دلالت کرتی ہے کہ وہ ایک ہے}-
اور صاحب تجلی کا شعر یوں ہوگا:
{ اور ہر ایک چيز میں اللہ تعالی کی ذات کے لیے ایک نشانی ہے، جو اس بات کی دلالت کرتی ہے کہ وہ اسی کا عین ہے}-
ابن عربی نے خدا اور بندے کے تعلق کو کیونکر ختم کیا وہ بھی ملاحظہ فرمائیے- فتوحات مکیہ کے پہلے ہی صفحہ پر فرماتے ہیں:
1۔ "پروردگا بھی حق ہے اور بندہ بھی حق- کاش! میں معلوم کرسکتا کہ ان میں سے مکلّف (مطیع) کون ہے-"
2۔ "اگر تم کہو کہ مکلّف بندہ ہے، تو بندہ تو مردہ میت ہے اور اگر کہو کہ رب ہے تو وہ بھلا مکلپف کیسے ہوسکتا ہے-"
لیجیے تمام احکام شریعہ کی پابندی اور تعمیل سے چھٹی ہوئی- یہ ہیں بندہ اور خدا سب کو عین ذات سمجھنے کے مزے- آپ اسی مضمون کو اپنے رسالہ، رسائل ابن عربی، کتاب الجلالۃ ص:12 پو یوں فرماتے ہیں:
"کاش مجھے معلوم ہوتا کہ مکلّف کون ہے؟ درآنحالیکہ یہاں اللہ کے سوا کسی کا وجود ہی نہیں ہے-"
ابن عربی کی فتوحات مکیہ صرف باطنی علوم پر ہی محتوی نہیں ہے بلکہ اس میں علم جفر اور علم نجوم کے مباحث بھی شامل ہیں جن کی نفس انسانی پر تاثیرات تسلیم کی گئی ہیں-"
[ دکھیے: دائرۃ المعارف الاسلامیہ (اردو) ج (1/14 ص:130) ویر عنوان 'علم تصوف' بحوالہ شریعت و طریقت ص:83-84]-
ابن عربی اور فصوص الحکم:
" اب وصوص الحکم کی داستان بھی سن لیجیے- فصوص، فص بمعنی نگینہ کی جمع ہے اور فصوص الحکم بمعنی دانائی کے نگینے- یہ کل 27 فص یا نگینے ہیں، ہر ایک فص کو قرآن کریم میں مذکورہ 27 انبیاء سے منسوب کیا گیا ہے- ابن عربی کا دعوای ہے کہ "ان فصوص کا علم مجھے مشاہدہ "کشف" سے حاصل ہوا ہے- میں نے اسے لوح محفوظ سے نقل کیا- بعد میں 627ھ کے محرم میں محمّد ۖ کو دمشق کے شہر محروسہ مین دیکھا- آپ ۖ کے ہاتھ میں ایک کتاب تھی- آپ ۖ نے مجھ سے فرمایا" یہ کتاب فصوص الحکم ہے اس کو محفوظ کرو اور لوگوں کے سامنے پیش کرو تاکہ انہین فائدہ حاصل ہو- چنانچہ میں نے آپ ۖ کے حکم کے مطابق اسے لوگوں میں پھیلانے کا پختہ اردہ کرلیا اور اس میں کمی بیشی کرنا میرے لیے ممکن نہ رہا-" (فصوص، ص:47-58)
آپ بھی یقینا ایسی معرکۃ الآرا کتاب کے مندرجات سے مستفید ہونا پسند فرمائيں گے-
اس کتاب میں ابن عربی نے قرآن کی تعلیمات کی تحریف کرکے اس کا حلیہ بگاڑ کے رکھ دیا ہے اور وحدت الوجود کی عینک چڑھا کر ہر واقعہ پر تبصرہ فرماتے ہیں مثلا کہتے ہیں کہ:
"قوم ہود بھی صراۃ مستقیم پر تھی- فرعون کامل ایمان تھا اور قوم نوح بھی- اللہ پاک نے قوم نوح کو اور فرعون کو ان کے نیک اعمال کا بدلہ دیتے ہوئے وحدت الوجود کے سمندر میں غرق کیا- اور قوم ہود کو عشق تعالی کی آگ میں داخل کیا تاکہ عیش و آرام حاصل ہو- حضرت ہارون علیہ السلام سے غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نی بنی اسرائیل کو بچھڑے کی عبادت سے منع کیا- حالانکہ بچھڑا بھی تو حدا تھا یا خدا کا عکس اور حضرت نوح علیہ السلام کی قوم نے بھی بہت اچھا کردار ادا کیا جو بت پرستی سے باز نہ آئے، کیونکہ یہ تمام بت خدا ہی کے مظاہر تھے- جہنم عذاب کی جگہ نہین، بلکہ اس میں حلاوت اور شیرینی موجود ہے- (وہ عذاب کو عذوبۃ سے مشتق قرار دیتا ہے) وغیرہ ذالک من الخرافات" [ امام ابن تیمیہ رح از کوکن عمری، ویر عنوان "صوفیہ پر تنقید" بحوالہ "شریعت و طریقت" ص:85]
یہ ہیں ابن عربی المعروف شیخ اکبر کے خیالات اور اس کی لکھی ہوئی دو کتابوں کے حالات- مولانا عبدالرحمن کیلانی رح شریعت و طریقت کے صفحہ:86 پر مزید لکھتے ہیں:
ابن عربی نے یہ مسئلہ تو حل کردیا کہ تمام بت پرست اقوام حق پر ہی تھیں اور یہ بھی حل فرمادیا کہ انہیں جو اس بت پرستی کے بدلہ میں عذاب ہوگا وہ دراصل عذاب نہیں بلکہ شیرینی اور حلاوت، اور ان کے اعمال کا اچھا بدلہ ہے- اب صرف یہ الچھن باقی رہ جاتی ہے کہ اللہ تعالی نے انبیاء کو پھر کس غرض کے لیے مبعوث فرمایا- کاش! وہ اس بات کا بھی تسلی بخش جواب دے کر دین طریقت کی حقانیت ثابت کردیتے-
ابن عربی اور کعبۃ اللہ:
ابن عربی ایک بہت بڑے عالم، ادیب، شاعر اور صوفی تھے- اپنی کتابوں میں اپنی بے شمار کرامات بھی ارشاد فرمائی ہیں جن کا اندازہ بلکل وہی ہے جو عام پیروں فقیروں کا ہوتا ہے- نمونہ ایک کرامت ملاحظہ فرمائیے- آپ کعبۃ اللہ اور اس کے طواف کے متعلق اپنا ایک واقعہ بیان فرمارہے ہیں:
" ایک مرتبہ کعبۃ اللہ ک ومجھ پر بڑا ہی طیش آگیا وہ اپنی بنیادوں سے بلند ہوکر ابر عربی پر گرجانا چاہتا تھا- ابن عربی نے حجر اسود کو ڈھال بنادیا- کعبۃ اللہ کو یہ کہتے ہوئے صاف سنا کہ ذرا نزدیک تو آؤ- یہ دیکھو میں تمہیں کیا کرتا ہوں- کب تک میری قدر گھٹاتے رہو گے اور عارفین کو مجھ پر فضیلت دیتے رہو گے- قسم ہے اس ذات کی جس کے لی ےعزت و بڑائی ہے، میں ہرگز ہرگز تمہیں اپنا طواف نہیں کرنے دوں گا- ابن عربی کہتے ہیں اس وقت میں نے سوچا کہ اللہ تعالی مجھ کو ادب سکھانا چاہاتا ہے- میں نے خدا کا شکر ادا کیا اور کعبہ کی تعریف شروع کردی- جوں جوں میں اس کی تعریف کرتا جارہا تھا اس کا غصہ بھی ٹھنڈا ہوتا جارہا تھا اور وہ اپنی بنیادوں پر جمتا جارہا تھا- اس نے میری طرف اشارہ کرکے کہا کہ میں طواف شروع کروں- جب میں حجر اسود کے پاس پہنچا تو میری زبان سے کلمہ شہادت نکلا، جو حجر اسود میں متمکن ہوگيا- میں نے کعبہ کی تعریف میں کئی رساائل لکھے ہیں جن کو تاج الرسائل کے نام سے مرتب کردیا ہے"- (فتوحات مکیہ، ج1، ص:700-701)
ابن عربی اور علماء حق:
ہم یہ تو بتلاچکے ہیں کہ یہ عقائد وحدت وحلول، دین طریقت یا تصوف کی جان ہیں، تو جب سے تصوف اسلام میں داخل ہوا یہ عقائد بھی شامل ہوتے گئے- پھر جس طرح حسین بن منصور حلاج نے کھل کر عقیدہ حلول کو پیش کرنے اور اپنے خدا ہونے کا دعوای کیا اور مقتول ہوا- بعینہ یہی صورت شیخ اکبر کی تھی- چونکہ عقیدہ وحدت الوجود قرآن کی تعلیم سے براہ راست متصام تھا اس لیے علماء دین مخالف ہوگئے- چنانچہ جب یہ مصر پہنچے تو علماء کرام نے ان کے کفر کا فتوای دیا اور سلطان مصر نے ان کے قتل کا حکم دے دیا- یہ بات ابن عربی کو بھی معلوم ہوگئی تو چپکے سے مصر سے راہ فرار اختیار کرکے دمشق پہنچ گئے- باقی عمر درس و تدریس میں گذار کر 638ھ کو راہی ملک عدم ہوئے"- (حقیقت وحمد الوجود، ص:9)
ابن عربی اور تبلغی جماعت۔۔۔۔!
اب دیکھیے کیا ابن عربی کے یہ کرتوت اور خیالات مولانا زکریا کی نظروں یا مطالعہ سے اوجھل تھے؟ اور ابن عربی کی تحریر کو پچھلے 60 سال سے کروڑوں تبلیغی جماعت سے وابستہ مسلمانوں اے دلوں میں خنجر کی طرح پیوست کیا جارہا ہے- عجیب بات یہ ہے کہ اکثر تبلیغی اس پھیکی زہر کے اثرات سے واقف ہی نہیں، ہمارے ایک دوست ڈاکٹر محی الدین ایک دفعہ چند ساتھیوں کے ہمراہ میرے گھر تبلیغ کے لیے تشریف لائے میں نے انہیں ابن عربی کی اسی تحریر کی طرف متوجہ کیا جو فضائل اعمال میں لکھی ہے تو کہنے لگے: اجی ڈاکٹر صاحب! چھوڑدیں ان چھوٹی چھوٹی باتوں کو اور بزرگ جو کہتے ہیں ہیں بس ان کو کرتے جائیے!
" ان نظریات نے اسلام کی اخلاق پر گہرا اثر ڈالا- نہ تو خیر و شر کی تمیز باقی رہی اور نہ حرام و حلال کی- اسی طرح شرعی احکام کی پابندی کی ضرورت بھی ختم ہوگئي- جزا و سزا اور جنت و دوزخ بے معنی چيزيں بن کر رہ گئي بھلا وہ کون خدا ہوگا جو اپنے ہی ایک حصے کو جہنم کی آگ میں جھونک دے- ابن عربی کہا کرتا تھا کہ جہنم کی آگ ٹھنڈی ہوکر لطف و لذت کا سامان مہیا کرے گی- کبھی یہ لوگ اپنے مکاشفات میں جہنم کو پھونکوں سے بھجادیتے ہیں تو کبھی جنت کو آگ لگادیتے ہیں- ابن عربی کے اس نظریہ نے اس قدر زور پکڑا کہ ساری دنیا میں اس کےحامی اور علمبردار پیدا ہوگئے۔۔۔۔
یہ عقیدہ عزت و ذلت، عروج و زوال، آزادی و محکومی بھی شان خداوندی کا ایک نشان ہے بھلا جہاں تربیت سے نفس کشی کی جاتی ہو وہاں عزت نفس ایک بے معنی سی چيز رہ جاتی ہے- لہذا جہاد و قتال اور سعی و عمل ان کے نزدیک بیکار چيزيں ہیں اور یہی بات قومی زندگی کے لیے زہر ہلاہل ہے"- (شریعت و طریقت،ص: 112-113)
منازل سلوک، وحدت الشہود اور تبلیغی جماعت:
نظریہ وحدت الوجود میں خود اللہ تعالی انسان کے جسم میں اترتے ہیں مگر نظریہ وحدت الشہود میں انسان روحانی ترقی کرتا ہوا اللہ تعالی کی ذات میں داخل یا مدغم ہوجاتا ہے جیسے سایہ مناسب وقت پر دھوپ یا نور میں گم ہوجاتا ہے- اسی طرح انسان بھی روحانی ترقی کے مدراج طے کرتا ہوا اللہ کی ذات میں گم ہوجاتا ہے-
صوفیاء نے اس روحانی ترقی کے سات مدارج مقرر کیے ہین جن کو منازل سلوک کا نام دیا ہے- یاد رہے کہ تبلیغی جماعت کے بانی مولانا الیاس نے بھی منازل سلوک بڑی تیزی سے طے کی تھیں- مولانا زکریا نے فضائل اعمال میں سلوک کی اصطلاح مندرجا ذیل اشاروں میں استعمال کی ہے:
1۔ ابتدائے سلوک یعنی ایک سانس میں 200 مرتبہ کلمہ طیبہ کا ورد
2۔ مشائخ سلوک- کروڑوں کی تعداد میں
3۔ سلوک الی اللہ یعنی مرتبہ احسان (فضائل ذکر، ص:84- فضائل قرآن ص:34)
مرتبہ احسان تو حدیث جبریل ء میں ماضع ہے مگر یہ سلوک الی اللہ اور منازل سلوک کیا ہیں؟ اس کے بارے میں فرماتے ہیں کہ وہ منازل یہ ہیں-
"1- طلب 2- عشق 3- معرفت 4- استغناء 5- توحید 6- حیرت -7 فقر و فنا یا منائے اتم"-
گویا ساتویں منزل یا سیر الی اللہ کی آخری منزل پر جاکر انسان یا سالک فنا فی اللہ یا واصل باللہ یا واصل بحق ہوجاتا ہے- صوفیاء منازل سلوک یو تین درجے میں تقسیم کرتے ہیں:
"1- فنا فی الشیخ 2- فنا فی الرسول 3- فنا فی اللہ"- (شریعت و طریقت ص:101-225)
فضائل ذکر میں ایک جگہ مولانا وکریا نے ذکر کے 100 فائدے لکھے ہین- فائدہ نمبر 10 میں لکھتے ہیں:
" ذکر سے مراقہ نصیب ہوتا ہے جو مرتبہ احسان تک پہنچادیتا ہے یہی مرتبا ہے جس میں اللہ تعالی کی عبادت ایسی نصیب ہوتی ہے گویا اللہ جل شانہ کو دیکھ رہا ہے- یہی مرتبہ صوفیاء کا منتہائے مقصد ہوتا ہے-"
یہاں کچھ الفاظ سے قطع نظر مذکورہ عبارت کا مفہوم شریعت کے دائرے میں ہی جچ رہا ہے اگر بات یہاں تک ہوتی تو اعتراض والی نہ ہوتی مگر صوفیاء طریقت کا پیوند لگائے بغیر کیسے رہ سکتے ہیں- ملاحظہ ہو ذکر کے فائدہ نمبر 37 کے تحت فرماتے ہیں:
" ذکر، تصوف کا اصل اصول ہے اور صوفیہ کے سب طریقوں میں رائج ہے جس شخص کے لیے ذکر کا دروازہ کھل گیا ہے اس کےلیے اللہ جل شانہ تک پہنچنے کا دروازہ کھل گیا- اور جو اللہ جل شانہ تک پہنچ گیا وہ جو چاہتا ہے پاتا ہےکہ اللہ جل شانہ کے پاس کسی چيز کی بھی کمی نہیں ہے"-
اللہ سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں ان کے صوفیانہ عقائد سے محفوظ رکھے اور انہیں ھدایت نصیب فرمائے۔ آمین
[/quote
اس سلسلے میں ایک اورکتاب جوکہ عربی میں ہے جس کانام ہے:الدعوۃ الی للہ فی اقطارمختلفۃ،جس کوشیخ محمدتقی الدین الہلالی المراکشی رحمہ اللہ نے تحریرکیاہے اس میں انہوں نے تبلیغی جماعت کے ساتھ اپنے لگائے ہوئے وقت کی روشنی میں اپنے”ناخوش گوار“ تجربات کوپیش کیاہے،یہ بھی لائقِ مطالعہ ہے،۔
 
شمولیت
دسمبر 22، 2013
پیغامات
146
ری ایکشن اسکور
115
پوائنٹ
49
اس سلسلے میں ایک اورکتاب جوکہ عربی میں ہے جس کانام ہے:الدعوۃ الی للہ فی اقطارمختلفۃ،جس کوشیخ محمدتقی الدین الہلالی المراکشی رحمہ اللہ نے تحریرکیاہے اس میں انہوں نے تبلیغی جماعت کے ساتھ اپنے لگائے ہوئے وقت کی روشنی میں اپنے"ناخوش گوار" تجربات کوپیش کیاہے،یہ بھی لائقِ مطالعہ ہے،۔
 
شمولیت
نومبر 10، 2012
پیغامات
112
ری ایکشن اسکور
237
پوائنٹ
49
میرے خیال میں صاحب مضمون نے وقت ہی ضیاع کیا ہے بھلا تبلیغی جماعت اور تصوف کا کیا تعلق ؟شیخ ابن عربی کو تو وہ جانتے بھی نہیں اور نہ اس وقت شیخ ابن عربی کی تعلیمات تصوف کا کسی درسگاہ سے تعلق ہے،فضول بحث؟؟؟
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
عنقریب میں شیخ توصیف الرحمن راشدی صاحب کی ویڈیو اپلوڈ کروں گا۔ ان شاءاللہ
"تبلیغی جماعت علماء عرب کی نظر میں"
اس میں آپ تبلیغی جماعت کا حقیقی آئینہ دیکھ لیجئے گا کہ یہ صوفیوں کی جماعت ہے، اس کا اسلامی تعلیمات سے کوئی لینا دینا نہیں۔یہ توحید الوہیت کی دعوت نہیں دیتے۔
 
Top