شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ کے ہم عصر اسماء الرجال کے نامور امام أبو الحجاج، جمال الدين يوسف بن عبد الرحمن المزي (المتوفى: 742ھ) نے اسماء الرجال میں عظیم کتاب "تہذیب الکمال فی اسماء الرجال " لکھی ،جو ہمارے دور میں پینتیس 35 جلدوں میں بیروت سے شائع ہے ،
اس عظیم کتاب کااختصار آٹھویں صدی کے نامور عظیم محدث حافظ ابن حجر عسقلانیؒ (المتوفی 852ھ) نے کیا ،اور اس کا نام "تہذیب التہذیب " رکھا ،جو آٹھ جلدوں میں شائع ہے ،
پھر حافظ صاحبؒ نے اپنی اس کتاب کا خود اختصار کیا جو ’’تقریب التہذیب ‘‘ کے نام سے مشہور ہے ، یہ پس منظر ہے تقریب التہذیب کا ۔
کتابوں کی آپس میں یہ رشتہ داریاں بہت دلچسپ ہیں۔
تہذیب الکمال گو ایک مستقل تصنیف بن گئی، لیکن اس کی بھی اصل جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے، الکمال فی أسماء الرجال از عبد الغنی المقدسی ہے۔
تہذیب الکمال کو اسماء الرجال میں بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ حافظ ابن حجر سے پہلے دو بڑے محدثین حافظ مغلطای(اکمال تہذیب الکمال) اور حافظ ذہبی(تذہیب تہذیب الکمال) اس کی خدمت کرچکے تھے۔ حافظ ابن حجر نے تہذیب التہذیب میں ان تین کتابوں کا خلاصہ اور اختصار پیش کیا ہے۔
تہذیب التہذیب اور اسکے اختصار تقریب التہذیب کے زیادہ شہرت انہیں دو کتابوں کو ملی،اور علماء انہیں ہی استعمال کرتے رہے۔ بالخصوص تقریب میں حافظ ابن حجر کے ’حکم علی الراوی‘ کا پس منظر معلوم ہوجاتا ہے، اس لیے اس پر استدراک یا اس سے اتفاق و اختلاف کرنا آسان ہوجاتا ہے۔
ویسے بھی حافظ مزی صرف ناقل ہیں، جبکہ حافظ ابن حجر ساتھ بحث و تمحیص اور نقد بھی کرتے ہیں۔
اس لیے لوگ مزی کی بجائے حافظ ابن حجر کی طرف متوجہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔
ماضی قریب سے پھر تہذیب الکمال کا رواج عام ہوگیا، اور تہذیب التہذیب تھوڑا پیچھے چلے گئی، جس کی دو وجوہات سامنے آتی ہیں:
1۔ تہذیب الکمال کا محقق اور بیروتی نسخہ منظر عام پر آگیا۔ جبکہ تہذیب التہذیب ابھی تک اس شکل میں نہیں آسکی۔(
کلیۃ الحدیث میں اس کی تفصیلی تحقیق و خدمت ہوچکی، لیکن ابھی طبع نہیں ہوئی)
2- تہذیب الکمال کے محقق بشار عواد صاحب نے تہذیب المزی کے حاشیے میں تہذیب ابن حجر کے اضافہ جات نقل کردیے تھے۔