- شمولیت
- مارچ 08، 2011
- پیغامات
- 2,521
- ری ایکشن اسکور
- 11,554
- پوائنٹ
- 641
خلاصہ ٔکلام
شیخ قرضاوی کے فتاویٰ' کتب اور دینی خدمات کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ بلاشبہ اپنے علم وفضل کی وجہ سے مجتہد کے درجہ پر فائز ہیں' اگرچہ اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ ان کے ساتھ کسی مسئلے میں اختلاف نہیں کیا جا سکتا یا وہ تنقید سے بالاتر ہستی ہیں۔ اہل علم نے ان کے بعض فتاویٰ پر نقد کی ہے اور ہمارے خیال میں یہ نقد ایسی ہی ہے جیسا کہ امام شافعی' امام ابوحنیفہ پر اور امام محمد' امام مالک رحمہم اللہ پر کرتے ہیں۔ اسی طرح امام ابن حزم' اہل تقلید اور اہل تقلید ظاہریہ پر یا محدثین' اہل الرائے پر اور اہل الرائے' محدثین پر کرتے ہیں۔ ایسی نقد میں اگر گروہی عصبیت' مذہبی تنافر' شخصی تذلیل نہ ہو اور یہ باہمی افہام وتفہیم کے لیے ہو تو یہ شریعت کا مطلوب و مقصود ہے۔ کسی ایک عالم دین پر دوسرے عالم دین کی نقد کا یہ لازمی مطلب نہیں ہوتا کہ وہ عالم دین کوئی متنازع شخصیت بن گیا ہے۔ اگر کسی عالم دین پر کسی دوسرے عالم دین کی نقد ہونے کو اس کے متنازع ہونے کی دلیل بنا لیا جائے تو عالم اسلام میں چودہ صدیوں میں کوئی ایک بھی ایسا عالم دین نہ گزرا ہو گا جو متنازع نہ ہو یا جس کی آراء سے دوسرے اہل علم کو اختلاف نہ رہا ہو۔
ہم شیخ قرضاوی کی علمی' فقہی' دعوتی' تحریکی او ر تدریسی خدمات کی قدر اور تحسین کرتے ہیں اور ان کی شاذ آراء میں مثبت علمی مکالمے اور مباحثے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ ہمارے خیال میں شیخ قرضاوی کو بعض فتاویٰ کے اجراء میں تساہل یا تشدد کی وجہ سے ان پر متجدد یا بنیاد پرست کا لیبل لگانادرست نہیں ہے' بلکہ وہ ہر مسئلے میں اعتدال کی تلاش کے خواہش مند رہتے ہیں۔ اب یہ ایک علیحدہ مسئلہ ہے کہ کسی مسئلے میں وہ اعتدال پر قائم رہتے ہیں یا نہیں ۔
فتاویٰ کے اجرا میں قرضاوی آسان رائے کو ترجیح دیتے ہیں اور اپنے اس منہج کا دفاع بھی کرتے ہیں ۔ اگر تو یہ منہج نصوص کی حد تک ہو یعنی نصوص سے ثابت شدہ مختلف آراء میں آسان رائے کے مطابق فتویٰ جاری کر دیاجائے تو یہ شرعی مطلوب و مقصود ہے' جیسا کہ اللہ کے رسول ۖ سے صحیح روایت میں یہ بات ثابت ہے کہ جب آپ کو دو چیزو ں میں اختیار دیا جاتا' تو آپ آسان کو اختیار کرتے تھے جبکہ دونوں چیزیں جائز ہوتی تھیں۔ اور اگر یہ آسانی فقہاء کی مختلف آراء میں تلاش کی جائے تو مذموم ہے' یعنی کسی بھی شخص کے لیے یہ درست نہیں کہ فقہاء کی مختلف آراء میں سے آسان رائے کو صرف اس کے آسان ہونے کی وجہ سے اختیار کر لے سوائے اس کے کہ کوئی عالم دین ان مختلف فقہی آراء کا تقابلی مطالعہ کرتے ہوئے قرآن وسنت کے دلائل کی بنیاد پر کسی رائے کو ترجیح دے اور وہ آسان رائے ہو تو یہ عمل جائز ہے۔ اگر یہ عمل کسی ایک ہی فقہ میں مروی مختلف آراء میں ترجیح دینے کی صورت میں ہو تو فقہائے حنفیہ اسے 'اجتہاد فی المذہب' کا نام دیتے ہیں اور اگر ایک سے زائد مذاہب کی آراء میں ہو تو اسے 'اجتہاد فی المذاہب الاسلامیة ' کا نام دیا جا سکتا ہے۔ شیخ یوسف قرضاوی اسے اجتہاد انتفائی کا نام دیتے ہیں۔ شیخ قرضاوی کے بعض فتاویٰ میں یہ بات بھی دیکھنے کو ملتی ہے کہ وہ نصوص کے علاوہ بعض اوقات فقہاء کے مختلف اقوال میں بھی سہولت کے پہلو کو ترجیح دینا شروع کر دیتے ہیں اور اس ترجیح کی بنیاد کسی نص یا شرعی دلیل پر نہیں رکھتے ہیں۔ شیخ قرضاوی کا یہ منہج درست نہیں ہے اگرچہ ایسا انہوں نے چند ایک مقامات پر ہی کیا ہے۔
اجنبی عورت کے ساتھ مصافحہ' موسیقی کا جواز' خواتین کے ستر و حجاب اور مرد وزن کے اختلاط کے بارے میں شیخ قرضاوی کی آراء درست نہیں ہیں' ان میں نکتہ رسی تو ہے لیکن نصوص کا احصاء نہیں ہے۔ شیخ قرضاوی نے بہت سی نصوص کو نظر انداز کرتے ہوئے یہ فتاوی جاری کیے ہیں۔ فتاویٰ کے اجراء میں شیخ قرضاوی میں یہ بھی ایک کوتاہی ہے کہ ان میں فقہیات اور نکتہ رسی تو خوب ہے لیکن سعودی علماء کی طرح نصوص کا احصاء نہیں کرتے اور بعض اوقات اپنے فتویٰ کی بنیاد بہت سی نصوص کو نظر انداز کرتے ہوئے چند ایک نصوص پر رکھتے ہیں۔
مصادر ومراجع
١۔ القرضاوی فی المیزان' سلیمان بن صالح الخراشی' دار الجواب' الریاض
2-www.qaradawi.net/
3-http://en.wikipedia.org
4-http://ar.wikipedia.org
شیخ قرضاوی کے فتاویٰ' کتب اور دینی خدمات کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ بلاشبہ اپنے علم وفضل کی وجہ سے مجتہد کے درجہ پر فائز ہیں' اگرچہ اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ ان کے ساتھ کسی مسئلے میں اختلاف نہیں کیا جا سکتا یا وہ تنقید سے بالاتر ہستی ہیں۔ اہل علم نے ان کے بعض فتاویٰ پر نقد کی ہے اور ہمارے خیال میں یہ نقد ایسی ہی ہے جیسا کہ امام شافعی' امام ابوحنیفہ پر اور امام محمد' امام مالک رحمہم اللہ پر کرتے ہیں۔ اسی طرح امام ابن حزم' اہل تقلید اور اہل تقلید ظاہریہ پر یا محدثین' اہل الرائے پر اور اہل الرائے' محدثین پر کرتے ہیں۔ ایسی نقد میں اگر گروہی عصبیت' مذہبی تنافر' شخصی تذلیل نہ ہو اور یہ باہمی افہام وتفہیم کے لیے ہو تو یہ شریعت کا مطلوب و مقصود ہے۔ کسی ایک عالم دین پر دوسرے عالم دین کی نقد کا یہ لازمی مطلب نہیں ہوتا کہ وہ عالم دین کوئی متنازع شخصیت بن گیا ہے۔ اگر کسی عالم دین پر کسی دوسرے عالم دین کی نقد ہونے کو اس کے متنازع ہونے کی دلیل بنا لیا جائے تو عالم اسلام میں چودہ صدیوں میں کوئی ایک بھی ایسا عالم دین نہ گزرا ہو گا جو متنازع نہ ہو یا جس کی آراء سے دوسرے اہل علم کو اختلاف نہ رہا ہو۔
ہم شیخ قرضاوی کی علمی' فقہی' دعوتی' تحریکی او ر تدریسی خدمات کی قدر اور تحسین کرتے ہیں اور ان کی شاذ آراء میں مثبت علمی مکالمے اور مباحثے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ ہمارے خیال میں شیخ قرضاوی کو بعض فتاویٰ کے اجراء میں تساہل یا تشدد کی وجہ سے ان پر متجدد یا بنیاد پرست کا لیبل لگانادرست نہیں ہے' بلکہ وہ ہر مسئلے میں اعتدال کی تلاش کے خواہش مند رہتے ہیں۔ اب یہ ایک علیحدہ مسئلہ ہے کہ کسی مسئلے میں وہ اعتدال پر قائم رہتے ہیں یا نہیں ۔
فتاویٰ کے اجرا میں قرضاوی آسان رائے کو ترجیح دیتے ہیں اور اپنے اس منہج کا دفاع بھی کرتے ہیں ۔ اگر تو یہ منہج نصوص کی حد تک ہو یعنی نصوص سے ثابت شدہ مختلف آراء میں آسان رائے کے مطابق فتویٰ جاری کر دیاجائے تو یہ شرعی مطلوب و مقصود ہے' جیسا کہ اللہ کے رسول ۖ سے صحیح روایت میں یہ بات ثابت ہے کہ جب آپ کو دو چیزو ں میں اختیار دیا جاتا' تو آپ آسان کو اختیار کرتے تھے جبکہ دونوں چیزیں جائز ہوتی تھیں۔ اور اگر یہ آسانی فقہاء کی مختلف آراء میں تلاش کی جائے تو مذموم ہے' یعنی کسی بھی شخص کے لیے یہ درست نہیں کہ فقہاء کی مختلف آراء میں سے آسان رائے کو صرف اس کے آسان ہونے کی وجہ سے اختیار کر لے سوائے اس کے کہ کوئی عالم دین ان مختلف فقہی آراء کا تقابلی مطالعہ کرتے ہوئے قرآن وسنت کے دلائل کی بنیاد پر کسی رائے کو ترجیح دے اور وہ آسان رائے ہو تو یہ عمل جائز ہے۔ اگر یہ عمل کسی ایک ہی فقہ میں مروی مختلف آراء میں ترجیح دینے کی صورت میں ہو تو فقہائے حنفیہ اسے 'اجتہاد فی المذہب' کا نام دیتے ہیں اور اگر ایک سے زائد مذاہب کی آراء میں ہو تو اسے 'اجتہاد فی المذاہب الاسلامیة ' کا نام دیا جا سکتا ہے۔ شیخ یوسف قرضاوی اسے اجتہاد انتفائی کا نام دیتے ہیں۔ شیخ قرضاوی کے بعض فتاویٰ میں یہ بات بھی دیکھنے کو ملتی ہے کہ وہ نصوص کے علاوہ بعض اوقات فقہاء کے مختلف اقوال میں بھی سہولت کے پہلو کو ترجیح دینا شروع کر دیتے ہیں اور اس ترجیح کی بنیاد کسی نص یا شرعی دلیل پر نہیں رکھتے ہیں۔ شیخ قرضاوی کا یہ منہج درست نہیں ہے اگرچہ ایسا انہوں نے چند ایک مقامات پر ہی کیا ہے۔
اجنبی عورت کے ساتھ مصافحہ' موسیقی کا جواز' خواتین کے ستر و حجاب اور مرد وزن کے اختلاط کے بارے میں شیخ قرضاوی کی آراء درست نہیں ہیں' ان میں نکتہ رسی تو ہے لیکن نصوص کا احصاء نہیں ہے۔ شیخ قرضاوی نے بہت سی نصوص کو نظر انداز کرتے ہوئے یہ فتاوی جاری کیے ہیں۔ فتاویٰ کے اجراء میں شیخ قرضاوی میں یہ بھی ایک کوتاہی ہے کہ ان میں فقہیات اور نکتہ رسی تو خوب ہے لیکن سعودی علماء کی طرح نصوص کا احصاء نہیں کرتے اور بعض اوقات اپنے فتویٰ کی بنیاد بہت سی نصوص کو نظر انداز کرتے ہوئے چند ایک نصوص پر رکھتے ہیں۔
مصادر ومراجع
١۔ القرضاوی فی المیزان' سلیمان بن صالح الخراشی' دار الجواب' الریاض
2-www.qaradawi.net/
3-http://en.wikipedia.org
4-http://ar.wikipedia.org