• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تحریک ختم نبوت اور عظیم اہلحدیث مصنف

شمولیت
نومبر 21، 2013
پیغامات
105
ری ایکشن اسکور
35
پوائنٹ
56
از محمد رمضان یوسف
پہلی قسط

ڈاکٹر محمد بہاء الدین اور ان کی خدمات

ڈاکٹر محمد بہاء الدین حفظہ اللہ جماعت اہل حدیث کے اس گروہ با صفا سے تعلق رکھتے ہیں کہ جنہوں نے تصنیف وتالیف کے ذریعہ اپنی وجماعتی خدمات سرانجام دی ہیں ۔ ان کا شمار عصر رواں کے نامور قلم کاروں میں ہوتا ہے اور انہوں نے قلم وقرطاس کے ذریعہ تاریخ کے سینے پر ان مٹ نقوش ثبت کئے ہیں ، اب ان کا شمار برصغیر پاک وہند اور برطانیہ کی جماعت اہلحدیث کے چوٹی کے مصنفین میں ہونے لگاہے اور لوگ انہیں تحریک ختم نبوت اور تاریخ اہل حدیث کے محقق ومؤرخ کے طور پر جاننے لگے ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب برصغیر پاک وہند کی مذہبی وسیاسی تحریکوں کے بارے میں وسیع معلومات رکھتے ہیں اور ان سے متعلق موضوعات پر انہیں کامل دستگاہ حاصل ہے ۔ ان کا مطالعہ وسعت پذیر اور ذہن اخاذ ہے ۔
اللہ رب العزت نے ان کو علم وتحقیق کے جوہر سے خوب بہرہ مند فرمایا ہے ۔ مسلک اہل حدیث سے انہیں بے پناہ شیفتگی ہے اور آپ بابائے تبلیغ مولانا محمد عبد اللہ گورداسپوری حفظہ اللہ کے صاحبزادہ گرامی قدر ہیں ۔ اپنے عالی قدر باپ کی طرح علم وفضل میں صاحب کمال ہیں ۔ تقسیم ہند سے کچھ عرصہ قبل دھاریوال ضلع گرداسپور(ہند) میں پیدا ہوئے ان دنوں ان کے والد محترم ، و ولن ملز دھاریوال میں مسجد اہل حدیث کے خطیب وامام تھے انہوں نے اپنے عظیم المرتبت استاد مولانا عطاء اللہ (شہید) کے صاحبزادے حافظ محمد سلیمان (وفات ۲۹ اگست ۲۰۰۸ء) کی علمی استعداد اور ذہانت اور فطانت سے متاثر ہوکر اپنے بیٹے کا نام محمد سلیمان رکھا جس نے آگے چل کر محمد بہاء الدین کے قلمی نام سے شہرت دوام حاصل کی۔
تقسیم ہند کے بعد مولانا عبد اللہ افراد خاندان کے ساتھ پاکستان آ گئے اور رائے ونڈ ضلع لا ہور میں مقیم ہوئے اور کچھ عرصہ بعد ۱۹۴۹ء میں بورے والا ضلع ملتان (حال ضلع وہاڑ ی) میں سکونت اختیار کر کے وہاں کی جامع مسجد اہل حدیث میں فریضہ امامت وخطابت انجام دینے لگے ۔ محمد بہاء الدین نے بوریوالا ہی میں شعور کی آ۔نکھ کھولی اور تعلیم وتعلم کا سلسلہ شروع کیا ۔ قرآن پاک ، قاری خدا بخش مرحوم سہارنپوری سے مدرسہ محمدیہ میں پڑ ھا۔ ترجمۃ القرآن ، صرف ونحواور حدیث شریف کی ابتدائی کتابیں اپنے والد گرامی سے پڑ ھیں ۔ عربی کی تعلیم مقامی ہائی ا سکول میں مولانا محمد افضل فرید کوٹی سے حاصل کی جو مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کے شاگرد تھے ۔
ڈاکٹر صاحب نے دینی تعلیم کے ساتھ ا سکول وکالج میں عصری تعلیم بھی حاصل کی۔ بورے والا ڈگری کالج میں ۱۹۶۸ء میں اول آنے پر گولڈ میڈل سے نوازے گئے ۔ پھر پنجاب یونیورسٹی لا ہور میں دو سال زیر تعلیم رہ کر علوم اسلامیہ میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور پورے پنجاب کے طلباء میں امتحان میں اول پوزیشن حاصل کرنے پر یونیورسٹی گولڈ میڈل سے نوازے گئے ۔ (یادرہے کہ اس وقت پاکستان پنجاب میں ایک ہی یونیورسٹی ہوا کرتی تھی) اس کے بعد اسی یونیورسٹی میں ایک سال مزید زیر تعلیم رہ کر عربی میں ایم اے کیا۔
ایم اے عربی کی تعلیم کے دوران ہی انہیں جامعہ سلفیہ لائل پور(حال فیصل آباد) میں انگریزی زبان کے استاد کی حیثیت سے متعین کر دیا گیا اور یوں وہ لا ہور اور فیصل آباد کے درمیان تقسیم ہوگئے ۔ جامعہ سلفیہ میں بی اے کرنے کے خواہشمند طلباء کو انگریزی پڑ ھانے کے علاوہ جامعہ کی لائبریری کا انچارج بھی انہیں بنا دیا گیا اور ان کی کوشش سے یہ لائبریری مدارس اسلامیہ کی بڑ ی اور منظم لائبریریوں میں شمار ہونے لگی۔
کچھ عرصہ بعد انہوں نے سرکار کے محکمہ تعلیم سے منسلک ہوکر سیالکوٹ کے ایک کالج میں تدریسی فرائض انجام دئیے ۔ بعد ازاں لا ہور کے ایک مشہور کالج میں پڑ ھایا کچھ عرصہ بہاولپور یونیورسٹی میں تاریخ اسلام اور تقابل ادیان کے مضامین پڑ ھاتے رہے ۔ برطانیہ کی اڈنبرایونیورسٹی میں زیر تعلیم رہ کر ڈاکٹریٹ کی بعد میں چند سال اسی یونیورسٹی میں پوسٹ ڈاکٹورل فیلو کی حیثیت سے تحقیقی کاموں میں منہمک رہے ۔ ۱۹۹۰ء کے عشرے کے ابتدائی برسوں میں انہوں نے لیسٹر یونیورسٹی میں زیر تعلیم رہ کر سوشل ورک میں ایم اے کیا اس کے بعد بحالی مجرمین کے ایک محکمے میں کچھ عرصہ خدمات انجام دینے کے بعد خرابی صحت کی بنا پر ریٹائر ہوگئے ۔
ڈاکٹر صاحب نے زمانہ طالب علمی میں ہی قلم وقرطاس اور تحریر وتقریر سے ناطہ جوڑ لیا تھا ہائی ا سکول میں تعلیم کے دوران انہیں بہترین مقرر Best Orator کا سرٹیفیکیٹ عطا کیا گیا۔ بورے والا ڈگری کالج کے میگزین الفرید کے اڈیٹر رہے بہاولپور یونیورسٹی کے شعبہ علوم اسلامیہ کے مجلہ بصائر کے انچارج رہے ۔ علامہ احسان الہی ظہیر کے ترجمان الحدیث لا ہور کی مجلس ادارت میں کچھ عرصہ شامل رہے ۔
ڈاکٹر صاحب بہت اچھے مضمون نگار اور صاحب علم و محقق ہیں ان کے علمی وتحقیقی مضامین معروف رسائل وجرائد میں شائع ہوتے رہے ہیں ۔ ان معروف رسائل میں ہفت روزہ اہل حدیث لا ہور ، ہفت روزہ الاعتصام لا ہور۔ ماہنامہ معارف ادارہ ثقافت اسلامیہ لا ہور ، ماہنامہ محدث لا ہور، ماہنامہ ترجمان الحدیث لا ہور، ماہنامہ الحق اکوڑ ہ خٹک، ماہنامہ صراط مستقیم برمنگھم ، ماہنامہ سٹریٹ پاتھ برمنگھم ، دو ماہی اشاعۃ السنہ دہلی ، ماہنامہ محدث بنارس اور ماہنامہ البلاغ ممبئی ، جریدہ ترجمان دہلی شامل ہیں ۔
رسائل وجرائد میں شائع ہونے والے ڈاکٹر صاحب کے چند تحقیقی مضامین کے عنوان یہ ہیں :
شریف مکہ( ہفت روزہ اہل حدیث لا ہور ۷ جنوری ۱۹۷۱ء) سرگذشت یہود (کئی اقساط پر مشتمل سلسلہ مضامین) ، یہود کا مذہبی لٹریچر (کئی اقساط پر مشتمل سلسلہ مضامین۹، کنعان کنعانیوں کا ہے (کئی اقساط پر مشتمل مضمون ، ماہنامہ محدث لا ہور جلد ۸، ۱۳۹۸ھ)، تحریک ختم نبوت میں مولانا محمد حسین بٹالوی کی خدمات۔(ماہنامہ ترجمان الحدیث لا ہور) ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام انجیل کے آئینے میں (ماہنامہ ترجمان الحدیث لا ہور) ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام تاریخ کے آئینے میں ( ماہنامہ ترجمان الحدیث لا ہور) (عہد رسالت ﷺ کے ) قریش کی حربی صلاحیت(ماہنامہ الحق اکوڑ ہ خٹک) عبد المطلب اور بنو خزاعہ کا باہمی معاہدہ اور عہد رسالت میں اس کے اثرات (ماہنامہ الحق اکوڑ ہ خٹک) تحریک آزادی کی تاریخ مسخ کرنے کی کوشش (ماہنامہ الحق اکوڑ ہ خٹک) ، شاہ احمد رضا خان (الحق اکوڑ ہ خٹک میں تحریک آزادی پرشائع ہونے والے ان کے ایک طویل مضمون کو مولانا عطاء اللہ حنیف نے مختصر کتابچے کی صورت میں شائع کروایا ) ، خلیفہ بلافصل سیدنا ابو بکر صدیق ، کتب شیعہ کی روشنی میں (ماہنامہ الحق اکوڑ ہ خٹک) انیسویں صدی کی واحد سیاسی جماعت ، پیغمبر ﷺ کا وصی کون ( کتب شیعہ کی روشنی میں ۔ ماہنامہ الحق اکوڑ ہ خٹک ستمبر ۱۹۷۶ء) ، سیدہ ام کلثوم بنت محمد ﷺ ( ماہنامہ محدث لا ہور ) ، امام دار الجہرۃ(ہفت روزہ اہل حدیث لا ہور ، ( حضرت خضر علیہ السلام ( ہفت روزہ اہل حدیث لا ہور ، ۶۔ اپریل ۱۹۷۳ء) ، ذکر محبت ( ہفت روزہ اہلحدیث لا ہور ) ، برطانوی ہند میں جہاد کی بحث ( دو ماہی اشاعۃ السنہ دہلی ، ماہنامہ البلاغ ممبئی) ، اہل الرائے اور اہل الحدیث ( ہفت روزہ اہل حدیث لا ہور۱۲ مارچ، ۱۹ مارچ ۱۹۷۱ء) ، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حالات زندگی(ہفت روزہ اہل حدیث لا ہور ۲۳ ، ۳۰ مارچ ۱۹۷۳ء) قبل بدر مہمات کے شرکاء اور مقاصد ، سید احمد شہید کا سرکہاں دفن ہے ؟ (ہفت روزہ اہل حدیث لا ا ہور ) ، تحریک ختم نبوت کے ابتدائی دو سال ، تحریک ختم نبوت کے گمشدہ اوراق ( ماہنامہ ترجما ن الحدیث لا ہور) ۱۹۷۸ء کئی اقساط) ، تحریک ختم نبوت کا میرکارواں کون ۔ مہر علی گولڑ وی یا محمد حسین بٹالوی ؟ ( ہفت روزہ اہل حدیث لا ہور ۱۷اگست ۲۰۰۱ء) ، (تحریک ختم نبوت میں ) قصہ ایک کرسی کا ( ہفت روزہ الاعتصام لا ہور) ، (تحریک ختم نبوت کے دوران) جلسہ لا ہور ۱۹۰۰ء (ہفت روزہ الاعتصام لا ہور ۱۲ اکتوبر ۱۹۸۴ء) ، مباحثہ دیوبند ۱۸۸۵ء ( ہفت روزہ الاعتصام لا ہور) مدرسہ رحیمیہ دہلی ( ماہنامہ محدث لا ہور) کیا حضرت عمر رضی اللہ نے سزائے قطع ید منسوخ کر دی تھی؟ تحریک ختم نبوت کے بانی(ہفت روزہ الاعتصام لا ہور ۱۲ اکتوبر ۱۹۸۴ء) ، کوفیوں کے خطوط بنام حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کہاں گئے ؟ (ماہنامہ صراط مستقیم برمنگھم) جامع اموی دمشق (ماہنامہ صراط مستقیم برمنگھم) ، اصحاب ثلاثہ (حافظ محمد لکھوی، سید عبد اللہ غزنوی ، مولانا غلام رسول قلعوی ) کا سفر دہلی ( ماہنامہ صراط مستقیم برمنگھم ) الطاف حسین حالی کی ، حیات جاوید ، سے ایک اقتباس ( ماہنامہ صراط مستقیم برمنگھم) ، آیا تھا جب مزاج ترا امتحان پر ، شیخ الکل کا سفر حج اور مقلدین کا متحدہ محاذ ( ماہنامہ ترجما ن الحدیث لا ہور ) بالاکوٹ سے چمرقند ، آمادہ بقتل من آں شوخ ستم گارے ، شیخ الکل کی سیاسی زندگی ، فضل حق خیر آبادی (ماہنامہ الحق اکوڑ ہ خٹک) وغیرہ۔تحریک ختم نبوت پر ان کا لکھا جانے والا ساٹھ اقساط پر مشتمل مضمون کئی سال تک ماہنامہ صراط مستقیم برمنگھم میں شائع ہوتا رہا اور ہند وپاک کے چند جماعتی جرائد میں بھی اس کی جستہ جستہ اقساط شائع ہوتی رہیں ، ارو اس کے بعض حصوں کو ہند ی اورعربی میں ترجمہ کر کے بھی شائع کیا گیا۔ تقسیم ہند سے قبل اکمل البیان فی تائید تقویۃ الإیمان از مولانا عزیز الدین مراد آبادی کے بعد اہل حدیث کے صحافی تاریخ کا شائد یہ طویل ترین مضمون ہے ۔
ان عنوانات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ موضوع کس قدر اہمیت کے حامی ہیں اور محترم ڈاکٹر صاحب نے ان مضامین میں خوب داد تحقیق دی ہے اور اپنی وسعت معلومات سے تاریخی حقائق کھول کر بیان کئے ہیں ۔ کسی صاحب ذوق کو چاہیے کہ ان مقالات کو رسائل سے نکال کر ترتیب دے کر شائع کر دے ۔ یہ بہت بڑ ی دینی وعلمی خدمت ہو گی۔ میرا خیال ہے کہ ۱۹۷۰ء اور ۱۹۸۰ء کے عشروں میں شائع ہونے والے ڈاکٹر صاحب کے مضامین ہفت روزہ الاعتصام شیش محل روڈ لا ہور کی لائبریری سے مل سکتے ہیں کہ وہاں بہت سے رسائل وجرائد کی فائلیں موجود ہیں اور اس سلسلے میں ہمارے دوست جناب ضیاء اللہ کھوکھر، مدیر عبد المجید کھوکھر لائبریری ۸۳ بی ماڈل ٹاؤن گوجرنوالہ سے بھی رابطہ کیا جا سکتا ہے ۔ ان کے پاس بھی رسائل وجرائد کا وسیع ذخیرہ موجودہے ۔
ڈاکٹر بہاء الدین تصنیف وتالیف کا بڑ ا صاف ستھرا ذوق رکھتے ہیں ۔ ان کی کتابوں میں عقیدے کی پختگی ، فکر کی بلندی ، تاریخی حالات و واقعات کی صحت وثقاہت ، توحید وسنت کا احیاء اور مسلک اہل حدیث کی حقانیت کے پہلو نمایاں دکھائی دیتے ہیں ۔ قلم کی زبان نہایت شستہ وسلیس اور ندرت کا پہلو لئے ہوئے ہے ان کی تحریر میں علمی شان اور مؤرخانہ بصیرت واضح دکھائی دیتی ہے ۔ ڈاکٹر صاحب کے رواں اور پربہارقلم سے جو علمی تاریخی اور تحقیقی کتب معرض وجود میں آئی ہیں اس کی تفصیل یہ ہے-
٭ تحریک ختم نبوت۔ ڈاکٹر صاحب کی یہ نہایت بلند پایہ تاریخی کتاب ہے اس میں انہوں نے علماء اہل حدیث کی فتنہ مرزائیت کے خلاف خدمات کو تفصیل سے بیان کیا ہے ۔ ۱۸۹۱ء سے ۱۹۱۲ء تک کے دور کی تاریخ پر مشتمل اس کتاب کی چارہزار صفحات پر مشتمل ۸ جلدیں شائع ہو چکی ہیں ۔ دو جلدیں مزید تیار ہیں اور آگے یہ سلسلہ برابر جاری ہے ۔
یہ قاموسی انداز کا تاریخی نوعیت کاکام ہے جس میں تحریک ختم نبوت کے ابتدائی دور کے واقعات پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی اس ضمن میں انہوں نے مرزا قادیانی اور اس کے قریبی لوگوں کی کتابوں سے اس کے افکار ونظریات عقائد باطلہ ، ہفوات وکذبات اور اس کی پیش گوئیوں کو نقل کر کے اس کی سخت گرفت اور نکیر کی ہے اور زیر نظر دور میں ان موضوعات پر پیدا ہونے والے لٹریچر کے احیاء کی کوشش کی ہے ۔ اپنے موقف کی تائید میں سینکڑ وں حوالے دیئے ہیں اور اس کے علاوہ بعض جلدوں میں شخصیات کاعنوان دے کر اس دور کے مجاہدین ختم نبوت کے مساعی کا دل آویزتذکرہ کیا ہے اس کتاب میں علمائے اہل حدیث کی ردّ قادیانیت پر نادر ونایاب تحریریں بھی شامل کر دی گئی ہیں جوکہ مورد زمانہ کے سبب ناپید ہوتی دکھائی دیتی تھیں ۔
مرزا غلام احمد قادیانی کے خلاف جاری ہونے والے پہلے متفقہ فتوی تکفیر کو اس میں شامل کر دیا گیا ہے اور اس فتوی کے مرتب کرنے والے مولانا محمد حسین بٹالوی مرحوم کے ماہنامہ اشاعۃ السنہ کا ایک تہائی حصہ جو کہ ردّ قادیانیت پر تھا، ایڈٹ کر کے تلخیص واختصار کے ساتھ اس کتاب میں شامل کر دیا گیا ہے ۔(چند سو صفحات کا موادتاحال میسر نہیں ہو سکا۔ اگر اللہ تعالیٰ کی عنایات کے نتیجے میں وہ مواد میسر آ گیا تو اسے بھی کسی آئندہ جلد میں شامل کرنے کا ارادہ ہے ) اسی طرح شحنہ ہند میرٹھ کے ضمیمہ سے رد قادیانیت پر قیمتی مواد ، اور قاضی محمد سلیمان منصورپوری کی تائید الاسلام اور غایۃ المرام ، مولانا محمد اسماعیل علی گڈھی کی اعلاء الحق الصریح اور مولانا محمد بشیر سہسوانی کی الحق الصریح فی حیائۃ المسیح اور مولانا عبد المجید دہلوی کی بیان للناس ، مولانا عبد اللہ شاہجہاں پوری کی شفاء للناس، مولانا محمد حعفر تھانیسری کی تائید آسمانی ، شیخ غلام حیدر کی عشرہ کاملہ ، مولانا ثناء اللہ کی شاہ انگلستان اور مرزا، اور ان کی تفسیر ثنائی رد قادیانیت کے مضامین ، مولانا محمد ابراہیم میرسیالکوٹی الخبر الصحیح، اور شہادۃ القرآن ملخصاً ، اس کتاب میں شامل کر دی گئی ہیں ۔
شیخ الاسلام مولانا امر تسری رحمہ اللہ کے اخبار اہل حدیث سے بیسیوں واقعات اور حوالے جو مرزائیوں کے خلاف تھے اس کتاب میں دئیے گئے ہیں ۔ اس کتاب کو پڑ ھ کر قاری کو صحیح حقائق اور قادیانیت کے خلاف علمائے اہل حدیث کی مساعی سے کامل آگاہی ملتی ہے اور یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ لائق مصنف نے تاریخی حقائق بیان کرنے میں مسلکی تعصب سے کام نہیں لیا بلکہ وسعت ظرفی سے کام لیتے ہوئے اس دور میں بعض دوسرے مسالک کے بزرگوں کی خدمات کو بھی بیان کیا ہے جن میں مولانا غلام دستگیر قصوری ، مولانا رشید احمد گنگوہی ، مولانا محمد لدھیانوی، مولانا عبد العزیز لدھیانوی، مولانا محمود حسن دیوبندی ، مولانا خلیل احمد سہارن پوری ، مولانا کرم الدین بھیں ، مفتی کفایت اللہ دہلوی، مولانا انور شاہ کشمیری ، مولانا احمد رضا خان بریلوی وغیرہ شامل ہیں ۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,395
پوائنٹ
891
جزاکم اللہ خیرا۔
 
Top