• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تحریک طالبان (ظالمان) پاکستان سے ایک حدیث کی روشنی میں سوال !!!!

شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65
یہ رہا جواب بزبان تحریک طالبان پاکستان
تحریک طالبان پاکستان کا جاری حالات وواقعات کی بابت کیا موقف ہے؟ وہ پاکستان سمیت خطے میں رونما ہونے والے حالات کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ ان کی سوچ کیا ہے؟ جہادِ پاکستان کے اہداف ومقاصد کیا ہیں؟
ناپاک فوج اور میڈیا نمائندوں کی طرف سے ٹی ٹی پی پر مساجد اور بازاروں پر حملے کرنے کے لگائے جانے والے جھوٹے الزامات کی حقیقت کیا ہے؟
تحریک طالبان پاکستان انڈیا کیخلاف ہونے والے جہاد اور کشمیری عوام، پولیو، صحافیوں، ڈرون حملوں، اہل تشیع، قیدیوں کو چھڑانے، پاکستانی سیاسی تنظیموں سمیت ہمسائے ملکوں کے معاملات کی بابت کیا موقف اور پالیسی رکھتی ہے؟
ان سب سوالات کے جوابات دینے کے لیے عمر میڈیا نے ایک ویڈیو جاری کی ہے جس میں ٹی ٹی پی کے مرکزی ترجمان احسان اللہ احسان کے میڈیا کو دیئے گئے مختلف ویڈیو انٹرویو سے اقتباسات کو اکٹھا کرکے نشر کیا گیا ہے ۔
انصار اللہ اردو اس ویڈیو انٹرویو کا مکمل تحریری مسودہ پیش کرتا ہے تاکہ تحریک طالبان پاکستان کا اصل چہرہ اور صحیح امیج منظر عام پر آسکے، جسے میڈیا یلغار میں جھوٹے پروپیگنڈے کرکے دشمنان اسلام نے خراب کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔
صحافی:
ناظرین ! السلام وعلیکم ! سن ۲۰۰۱ میں امریکہ نے افغانستان پر حملے کی ٹھانی تو پاکستان نے امریکہ کا اتحادی بننے کا فیصلہ کیا ۲۰۰۱ سے لے کر ۲۰۱۳ تک پاکستان میں جو صورتحال پیدا ہوئی ہے اس سے ہم سب واقف ہیں۔ ملک ایک میدانِ جنگ میں بدل چکا ہے۔ اب امن مذاکرات کی بات ہورہی ہے بڑے فریق اس میں "تحریک طالبان پاکستان" اور "حکومت پاکستان" ہیں۔ معاملہ کس طرف جارہا ہے؟ اس پر بات کرنے کے لئے ہم اس وقت موجود ہیں جنوبی وزیرستان کے ایک نامعلوم مقام پر اور ہمارے ساتھ ہیں تحریک طالبان پاکستان کے مرکزی ترجمان احسان اللہ احسان
السلام علیکم !
وعلیکم السلام
سوال: احسان اللہ احسان صاحب اس سے پہلے کہ ہم تحریک طالبان، مذاکرات اور دیگر امور پر بات کریں، احسان اللہ احسان پر نظر ڈال لیتے ہیں، بہت سے لوگ بلکہ بعض لوگ آپ کے وجود کو ہی نہیں مانتے، بعض لوگوں کا ماننا ہے شاید آپ اسلام آباد میں کسی غیر ملکی سفارتخانے میں رہتے ہیں، اپنا تعارف ذرا کرادیجئے۔
جواب: نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم امّا بعد!
فاعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
قال اللہ تعالٰی: ان الحکم الا للہ۔ صدق اللہ العظیم
حسن صاحب! میرا تعلق مہمند ایجنسی کے تحصیل صافی سے ہے۔۔ اور میں ایک متوسط طبقے کے گھرانے میں پیدا ہوا۔۔ میں نے اپنی ابتدائی تعلیم مہمند ایجنسی، باجوڑ ایجنسی اور پھر اعلی تعلیم کے لئے میں سوات تشریف لے گیا وہاں سے میں نے تعلیم حاصل کی۔۔ اور میرا کیرئیر کچھ یوں ہے کہ میں کالج کے دور میں کسی سیاسی پارٹی سے منسلک نہیں رہا۔۔ ہاں البتہ کچھ فلاحی اور سماجی تنظیمیں ہوتی ہیں اس میں خدمت کی ہے۔۔ پشتو ادب سے بھی میرا قریبی تعلق رہا ہے۔۔ اور جب ۲۰۰۷ میں تحریک طالبان پاکستان معرض وجود میں آیا تو میں نے مہمند ایجنسی کے مقامی امیر "امیر محترم عمر فاروق خراسانی" صاحب کے ہاتھ پر بیعت کی اور اس کے ساتھ ہی میں تحریک میں شامل ہوگیا ۔۔ میں نے تحریک کے دوسرے شعبوں کے مسئول کی حیثیت سے بھی ذمہ داریاں سنبھالی ہیں ۔۔ اور مہمند ایجنسی کا ترجمان بھی رہا ہوں اور آج کل تحریک طالبان پاکستان مرکزی ترجمان کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہا ہوں ۔۔ اور میری جو پسندیدہ اور آئیڈیل شخصیت ہے وہ میرا امیر ہی ہے یعنی جس کے ہاتھ پر میں نے بیعت کی ہے۔
سوال: تحریک طالبان پاکستان کے بنیادی مقاصد کیا ہیں؟
جواب: تحریک طالبان پاکستان ۔۔ کے بنیادی مقاصد اللہ تعالیٰ کی زمین پر اللہ تعالیٰ کا نظام نافذ کرنا ہے یہ ہمارا بنیادی اور واضح مقصد ہے۔۔ اس کے لئے ہم جدو جہد کرتے ہیں ہماری کوششیں اس کے لئے ہیں۔۔ باقی اس نظام کے تحت جو دوسرے Issues آتے ہیں وہ اسی انظام سے ہی Related ہیں یعنی ہمارے جو دوسرے مطالبات ہیں۔۔ لیکن ہمارا پہلا، آخری اور واضح مقصد اس ملک میں اسلامی نظام کا نفاذ ہے۔
سوال: کیا یہ درست نہیں کے آپ ﷺ نے اسلام کے نفاذ کے لئے ذہن سازی اور اصلاح کا طریقہ اپنایا تھا؟
جواب: بالکل درست آپ ﷺ نے اصلاح اور ذہن سازی کے ذریعہ بہت سے لوگوں کو سیدھے راستے پر لگایا ہے۔۔ لیکن اگر آپ ادھر دیکھیں گے کہ یہاں کیا ہورہا ہے۔۔ تو یہاں جنگ کی ابتداء ہم نے نہیں کی، جنگ کی ابتداء حکومتِ پاکستان کی طرف سے، اس کے Establishment کی طرف سے ہوا ہے اور امریکہ کی ایما پر ہوا ہے۔۔ تو ہم مظلوم ہیں۔۔ ہم دفاعی پوزیشن میں ہیں۔۔ ہم اپنا دفاع کررہے ہیں۔۔ اسلام میں جو بھی مظلوم ہوتا ہے اس کو اپنا دفاع کرنے کا حق ہوتا ہے۔۔ ہم پر مظالم ڈھائے گئے۔۔ وانا میں، جنوبی وزیرستان میں، سوات میں، باجوڑ میں، مدارس کو شہید کردیا گیا، وہاں بچوں کو شہید کردیا گیا۔۔ تو ہم مظلوم ہیں۔۔ اور مظلوم کی یعنی کوئی حیثیت نہیں ہوتی کہ وہ اگر اپنا دفاع کرے تو آپ اس کو کسی ظلم یا جبر سے تو تصور نہیں کرسکتے۔
سوال: اچھا صحافیوں کا آپ نے ذکر کیا بعض صحافیوں کا یہ کہنا ہے کہ ان کو آپ کی طرف سے دھمکی بھی موصول ہوئی ہے اور آپ کیوں ناراض ہیں وجہ کیا ہے ان دھمکیوں کی ؟
جواب: ہم صحافیوں کو دھمکیاں نہیں دیتے۔۔ لیکن بعض لوگ ایسی ہوتے ہیں۔۔ میڈیا میں کچھ عناصر ایسی شامل ہیں کہ۔۔ اس کو میں صحافی نہیں کہہ سکتا۔۔ وہ صحافی کہلانے کے حق دار نہیں۔۔ کیوں کہ وہ کسی مخصوص گروہ، ریاست یا کسی مخصوص فرد کے لئے کام کرتا ہے۔۔ اور کسی مخصوص فرد کے لئے یا ریاست کے لئے کام کرنا، یہ میڈیا میں جو صحافت کے اصول ہیں اس کے بالکل منافی ہے۔۔ یعنی آپ ایک فریق کا دفاع کریں گے اور دوسرے فریق کو ظالم ثابت کریں گے۔۔ تو یہ کسی خاص فرد کے لئے کام کرنا ہے۔۔ یعنی وہ مغرب زدہ ہیں۔۔ اور اس پر سیکولرزم کا اثر ہے۔۔ صحیح ۔۔ تو ہم میں سے ہر ایک کو چاہئے کہ وہ حق کا ساتھ دے اور باطل کا ساتھ نہ دے۔۔ تو اگر کوئی باطل کا ساتھ دیتا ہے۔۔ تو وہ بھی باطل ہوجاتا ہے۔۔ تو واضح ہے۔۔ ہم تو حق کے ساتھی ہیں۔۔ تو باطل کے ساتھ ہماری کوئی محبت نہیں ہے۔۔ ہمارا کوئی معاملہ نہیں چل سکتا۔
سوال: انتخابات بھی سر پر ہیں، ان کی بہت بات ہورہی ہے آپ کا انتخابات پر کیا نقطہ نظر ہے ؟
جواب: میں زیادہ تو نہیں کہوں گا۔۔ البتہ انتخابات جمہوریت کا حصہ ہے اور جمہوریت "سیکورلزم" کا حصہ ہے اور ہم سیکولرزم کے مخالف ہیں۔۔ ہم اس ملک میں اسلامی نظریے کی پرچار، اسلامی ایجنڈا نافذ اور اسلامی ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں۔۔ تو میں زیادہ سے زیادہ کہوں گا کہ اس ملک میں ہم اسلامی نظام چاہتے ہیں اور "سیکولرزم" کے ہم مخالف ہیں۔۔ جمہوریت اس کی بنیادی اکائی ہے۔۔ تو ہم اس کے حق میں نہیں۔
سوال: افغانستان سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی انخلا کی بھی اب بات ہورہی ہے ۲۰۱۴ کے بعد تحریک طالبان پاکستان کا کیا منصوبے ہونگے کیا اس کے Objectives ہوں گے؟
جواب: ۲۰۱۴ میں ہم حالات اور واقعات کو دیکھیں گے۔۔ تو حالات و واقعات کے مطابق ہم اپنی حکمت عملی مرتب کریں گے۔۔ ہاں یہ بات میں واضح کردوں کہ افغانستان طالبان جن کو امیر مانتے ہیں "امیر المومنین ملا محمد عمر مجاہد حفظ اللہ" وہ ہمارے بھی امیر ہیں۔۔ ہمارے امیر صاحب نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی ہے۔۔ ہم اپنے امیر صاحب کے مامورین ہیں۔۔ ہم نے انکے ہاتھ پر بیعت کی ہے۔۔ تو ہم ان کے مامور ہیں۔۔ ۲۰۱۴ کے بعد حالات و واقعات دیکھ کر ہی کوئی پولیسی بنائے گے۔
بہت شکریہ آپ کا احسان اللہ احسان صاحب! تحریک طالبان پاکستان کے مرکزی ترجمان !!
بہت شکریہ آپ کا بھی۔۔ آپ تشریف لائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک بار پھر ہم پاکستان کے قبائلی علاقے کے ایک نامعلوم مقام پر تحریک طالبان پاکستان کے مرکزی ترجمان احسان اللہ احسان صاحب کے ساتھ انٹرویو لینے جارہے ہیں۔
سوال: احسان اللہ احسان صاحب سے سب سے پہلے سوال یہ کریں گے کہ چھ سال گزرے تحریک طالبان کی جو ابتداء ہوئی تھی بیت اللہ محسود امیر نے کی تھی اس کے بعد اب تحریک کا کیا پوزیشن ہے، کیا پایا ابھی تک چھ سال کے اندر؟؟؟
جواب: بسم اللہ الرحمن الرحیم
پہلے تو آپ کے آنے کا شکریہ! آپ نے کہا کہ تحریک نے ان چھ سالوں میں کیا پایا۔۔ تو عموماً جتنی بھی تحریکیں ہوتی ہیں، ابتدائی مراحل میں تحریک کی حیثیت منوانا ہی بڑی بات ہوتی ہے۔۔ تو ابتدائی طور پر۔۔ ہم نے اپنی حیثیت پوری دنیا پر منوائی ہے ۔۔ کہ ہم ایک حیثیت ہے۔۔ ہم ایک قوت ہیں۔۔ اور دوسرے یہ کہ ہمارے جو مطالبات تھے۔۔ وہ دنیا کے سامنے لائیں ہیں کہ ہمارے مطالبات یہ ہیں۔۔ یعنی ہم اس ملک میں ایک نظام کے لئے کوشش اور جدوجہد کررہے ہیں۔۔ تو ابتدائی طور پر ہم نے اپنے آپ کو اپنی حیثیت کو منوایا ہے۔۔ ہم نے تنظیمِ نو کی ہے۔۔ ہم نے اپنے مطالبات لوگوں کے سامنے رکھیں ہیں۔۔ یعنی ہمارا جو تجربہ تھا وہ ابتدائی طور پر ہمارے کام آگیا۔ ۔ باقی عسکری لحاظ سے بھی الحمد اللہ ہم نے کامیابیاں حاصل کی ہیں۔۔ ہم ایک ملک کے۔۔ یعنی دنیا کے چھٹے ساتویں نمبر پر بڑی قوت کے جی ایچ کیو میں پہنچ سکتے ہیں۔۔ ہم اس کے پشاور بیس میں پہنچ سکتے ہیں، الحمرا بیس میں پہنچ سکتے ہیں۔۔ مہران بیس میں پہنچ سکتے ہیں۔۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ عسکری لحاظ سے بھی ہم نے اپنے آپ کو منوایا ہے۔۔ اگر آپ کا مطلب یہ ہے۔۔ تو ہم نے الحمد اللہ عسکری لحاظ سے بھی۔۔ اور سیاسی لحاظ سے بھی۔۔ دونوں لحاظوں سے اپنے آپ کو منوایا ہے۔۔ حتی کہ ہم اس ملک کے سابق وزیراعظم تک پہنچ سکے۔۔ ہم انٹیریر منسٹر تک پہنچے۔۔ یعنی بہت سے لوگوں تک ہم پہنچے۔۔ ہماری کاروائیاں وہاں تک پہنچیں۔۔ میرے خیال میں یہ ہمارے لئے بڑی کامیابیاں ہیں۔۔ اور اس کا اعتراف پوری دنیا کرتی ہے۔
سوال: جی بالکل اسی سوال کے ساتھ جڑا ہوا سوال اگر ہم کرنا چاہیں، آپ نے کہا تحریک طالبان ہر جگہ پہنچ سکتی ہے حملہ کرکے واپس لوٹ سکتی ہے۔۔ تو اسی طرح مساجد میں بھی حملے ہوتے رہتے ہیں۔۔ کیا تحریک طالبان مساجد میں بھی گھس کر حملے کرتے ہیں اور اس میں بھی وہ اپنی کامیابیاں سمجھتے ہیں۔۔ فخر کرتے ہیں؟؟
جواب: نہیں، ایسا بالکل نہیں ہے۔۔ تحریک طالبان پاکستان ایک اسلامی عسکری تنظیم ہے۔۔ اور ہم کبھی بھی غیر اسلامی، غیر شرعی کام نہیں کرتے۔۔ تو مساجد میں جو حملے ہوتے ہیں۔۔ پہلے تو ہم اسکی تردید کرتے ہیں۔۔ اسکی مذمت کرتے ہیں اور ہم اپنا تردیدی بیان جاری کردیتے ہیں۔۔ لیکن بعض اوقات میڈیا ہمارے ساتھ ایسا رویہ رکھتے ہیں کہ ہماری بات عوام تک نہیں پہنچاتے۔۔ تو جتنے بھی حملے ہوتے ہیں۔۔ بازاروں میں حملے ہوئے۔۔ مساجد میں حملے ہوئے۔۔ ہم نے اس سے براءت کا اعلان کیا۔۔ ہم نے اسکی تردید کی۔۔ اور ہم نے واضح کردیا کہ اس میں ہم ملوث نہیں ہیں۔۔ لیکن میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ ہماری آواز کو لوگوں تک پہنچائے۔۔ تو ہم آج بھی مساجد میں اور بازاروں میں حملے کے مخالف ہیں۔۔ اور کل بھی مخالف تھے اور رہیں گے۔۔ ہم ہر غیر شرعی کام کے مخالف ہیں اور اسکی مخالفت کرتے ہیں۔۔ اور ہم کوئی کام غیرقانونی نہیں کرتے۔۔ اسلام ایک مکمل، ایک جامع نظام حیات ہے۔۔ تو اسلام کے اندر جتنی بھی باتیں ہیں، ہم اس پر عمل پیرا ہیں، اور ہر کام اسلامی حدود کے اندر اور اس کے مطابق کرتے ہیں۔
سوال: بار بار کہا جارہا ہے پاکستان کی سطح پر مسلح کاروائیاں کم ہوتی جارہی ہیں ۔۔۔ تحریک طالبان کی کمر ٹوٹ چکی ہے، کیا کہیں گے؟
جواب: کاروائیاں تو کم نہیں ہوئیں۔۔ البتہ جنگ کا طریقہ کار بدلتا رہتا ہے۔۔ اور کسی عسکری بندے کے لئے ایک طریقے سے لڑنا ۔۔ یہ میرے خیال میں اگر دشمن یا میڈیا یہ کہے۔۔ کہ ہم ایک طریقے سے لڑیں۔۔ پہلے کی طرح کارروائیاں نہ کریں۔۔ اس وجہ اس کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ کمر ٹوٹ گئی تو بالکل نہیں ہے۔۔ ہماری کارروائیاں الحمد اللہ ہر جگہ جاری ہیں۔۔ اور ہم کرتے ہیں کامیابی کے ساتھ ۔۔ ہم ہر جگہ پہنچ سکتے ہیں ۔۔ اور آنے والے دنوں میں ان شاءاللہ اس کا عملی مظاہرہ آپ دیکھیں گے۔
سوال: دوسری تنظیمیں جیسے القائدہ کے ساتھ ساتھ تحریک طالبان بھی ڈرون سے کس حد تک خوف زدہ ہے؟ کہاں کہاں تک چھپتے ہیں ان سے اور اس سے بچاؤ کا کوئی طریقے کار اپنایا ہے تحریک طالبان نے ؟؟
جواب: اصل میں یہ کہ ڈرون حملے جو ہمارے اوپر کر رہے ہیں، وہ ہمارے نظریاتی دشمن ہیں۔ دشمن کے کسی عمل سے ایک نڈر مسلمان، بے باک مسلمان کے لئے اس سے ڈرنا۔۔ میرے خیال میں مناسب نہیں ہوگا۔۔ میں ایسا کوئی لفظ استعمال کرنا نہیں چاہوں گا۔۔ ہم اس سے نہیں ڈرتے۔۔ اور الحمد اللہ ہمارے ساتھی کہتے ہیں۔۔ ساتھیوں کے درمیان یہ جذبہ ہوتا ہے کہ جب انسان ڈرون سے شہید ہوجاتا ہے۔۔ تو آسانی سے شہید ہوجاتا ہے۔۔ اللہ تعالیٰ کے پاس جلدی جاتا ہے۔۔ تو ہم فخر محسوس کرتے ہیں کہ نظریاتی دشمن کے ہاتھوں ہمیں شہادت ملتی ہے۔۔ یہ تو اس کا نظریاتی پہلو ہے۔۔ دوسرا آپ نے اس سے بچاؤ کا طریقے کار کے بارے میں سوال کیا۔۔ تو جو عسکری تنظیم ہوتی ہے۔۔ جو ہماری حفاظت کے طریقے ہوتے ہیں۔۔ وہ میں آپ کو میڈیا پر آکر نہیں بتا سکتا۔۔ یہ ہماری سیکیورٹی کے اصول کے منافی ہے۔
سوال: بہر حال مقصد یوں لیا جائے کہ بچاؤ کے طریقے آپ لوگوں کے پاس موجود ہیں اور آپ لوگ کافی حد تک اس سے بچنے میں کامیاب ہیں ؟؟
جواب: بالکل، یعنی جنگوں میں ایسا ہوتا ہے۔۔ کہ آپ کے خلاف۔۔ آپ کا مخالف فریق کوئی منصوبہ بنائے، تو دوسرے فریق کو بھی سوچنا پڑتا ہے۔۔ تو ہم بھی الحمد اللہ عسکری لوگ ہیں۔۔ اور ہم سمجھ دار ہیں۔۔ سمجھتے ہیں کہ جنگ کس طرح لڑی جاتی ہے۔
سوال: غیر ملکی افراد کتنی تعداد میں تحریک طالبان کے پاس موجود ہیں ؟ کیا ان کے نام بتانا پسند کریں گے؟
جواب: اصل میں ایک عسکری تنظیم ہونے کے ناتے، نہ میں آپ کو تعداد بتا سکتا ہوں، نہ میں آپ کو نام بتا سکتا ہوں، لیکن آپ کو اتنا بتا سکتا ہوں کہ ہمارے پاس نظریہ کی بنیاد پر عقیدے کی بنیاد پر پوری دنیا سے لوگ موجود ہیں۔۔ اور ہم ایک دوسرے کے لئے احترام رکھتے ہیں۔۔ اور یقیناً لوگ ہیں اور ہمارے ساتھ کام کر رہے ہیں۔
سوال: تحریک طالبان صحافیوں کو کیوں تنگ کرتے ہیں؟
جواب: ہم صحافیوں کو تنگ نہیں کرتے۔۔ بلکہ صحافی ہمیں تنگ کرتے ہیں۔۔ تو صحافی حضرات جتنے بھی ہیں۔۔ پاکستان میں جو سیکولر لابی ہے۔۔ اس کی طرف زیادہ مائل ہیں۔۔ اور جو اسلامی صحافی ہیں۔۔ یعنی نظریہ کی بنیاد پر صحافت کرتے ہیں۔۔ ہم اس کا احترام کرتے ہیں۔۔ ان کی قدر کرتے ہیں۔۔ لیکن میں یہ بتادوں۔۔ کہ ہم صحافت کے خلاف نہیں۔۔ ہم ان افراد کے خلاف ہیں کہ، میڈیا میں چند افراد ہیں، جو ایک خاص نظریے، ایک خاص گروہ، ایک خاص فریق اس کے لئے کام کرتے ہیں۔۔ میرے خیال میں کسی خاص بندے کے لئے کام کرنا، کسی خاص گروہ کے لئے کام کرنا، خاص فریق کے لئے کام کرنا، ایک فریق کی بات سننا اور دوسرے کی بات نہیں سننا۔۔ یہ صحافت کے اصولوں کے منافی ہے۔۔ ہم آزاد صحافت کے قائل ہیں۔۔ اور ہم چاہتے ہیں کہ صحافت ایسی ہو۔۔ جس میں ہر کسی کو۔۔ ظالم کو، مظلوم کو، ہر کسی کو اپنا حق ملے۔۔ تو میڈیا آجکل پروپیگنڈے کا حصہ بنی ہوئی ہے۔۔ جو جنگ کا حصہ بنی ہوئی ہے۔۔ تو میڈیا ہمیں تنگ کررہی ہے۔۔ ہم نے میڈیا کو کبھی تنگ نہیں کیا۔
سوال: ایم کیو ایم اور اے این پی کے حوالے سے تحریک طالبان کا مؤقف اب کس پوزیشن میں ہے ؟
جواب: بالکل وہی مؤقف ہے جو پرانا تھا۔۔ اور ہم اسی مؤقف پر قائم ہیں۔۔ ایم کیو ایم ایک سیکولر، بے دین، ظالم جابر، کراچی پر قبضہ کیے ہوئے، علماء کے قاتل، بے گناہ عام مسلمان کے قاتل ہیں۔۔ تو ہم کسی قاتل کا ساتھ کبھی بھی نہیں دے سکتے۔۔ ان کے لئے ہم احترام نہیں رکھتے۔۔ اور میں یہ بھی بتادوں کہ ہم ہمیشہ عام مسلمانوں کے حق میں ہیں۔۔ صحیح۔۔ یہ جو علماء کو مارتا ہے۔۔ جو عام مسلمانوں کو مارتا ہے۔۔ ہم اس کے شدید مخالف ہیں۔۔ اور ہم ان شاء اللہ۔۔ ہر مسلمان کے خون کے ایک ایک قطرے کا بدلہ لیں گے۔۔ ہم اس کے لئے تیاری کر رہے ہیں اور تیاری کی ہوئی ہے اور اس کی ابتداء ہم نے کی بھی ہے۔
سوال: ٹھیک، اے این پی کے حوالے سے آپ نے اپنا موقف نہیں دیا ؟
جواب: عوامی نیشنل پارٹی تو ۔۔ پہلے سے۔۔ آپ کو پتہ ہے۔۔ ہم نے اس کے سینئر رہنماؤں کو بھی مارا ۔۔ تو جس طرح ایم کیو ایم کے لئے ہے۔۔ اس طرح عوامی نیشنل پارٹی اور پیپلز پارٹی کے لئے بھی ہے۔
سوال: ٹھیک، تحریک طالبان پاکستان، افغانستان میں جہادی سرگرمیوں میں ملوث ہیں، کیا آپ افغانستان میں بھی لڑتے ہیں یا صرف پاکستان کے اندر جہاد جاری ہے ؟
جواب: تحریک طالبان پاکستان، امارتِ اسلامیہ افغانستان کا ایک جز ہے۔۔ ایک حصہ ہے اور امیر المومنین کے امر اور بیعت تلے جہاد کر رہے ہیں۔۔ یعنی ہم افغانی طالبان سے الگ نہیں ہیں۔۔ اس کو ہم اپنے وجود کا حصہ سمجھتے ہیں۔۔ باقی وہاں جہاد کرنا، وہاں لڑنے کی بات کرنا۔۔ تو نظم کے حوالے سے۔۔ تنظیم کے حوالے سے۔۔ ہماری جدوجہد پاکستان میں ہے، اس لئے ہم پاکستان پر زیادہ فوکس کرتے ہیں، ہاں جب افغانستان میں ہماری ضرورت پڑی ہے تو وہاں کے مجاہدین نے ہم کو آفر کی ہے۔۔ تو ہم وہاں گئے ہیں۔۔ اور ہم نے کاروائیاں کی ہیں۔۔ اور ہم نے وہاں جنگوں میں حصہ لیا ہے ۔۔ اور لیتے رہیں گے ان شاء اللہ۔
سوال: پاکستان بھر میں اہلِ تشیع کے خلاف حملے ہوتے رہتے ہیں، کہا جاتا ہے لشکر جھنگوی اور تحریک طالبان اس میں ملوث ہیں؟ کیا کہیں گے تحریک طالبان کہاں پر اس میں ملوث ہے؟
جواب: جو بھی کاروائیاں ہم کرتے ہیں۔۔ اس کی ذمہ داری ہم قبول کرلیتے ہیں۔۔ جو بھی کاروائیاں لشکرِ جھنگوی کرتے ہیں لشکر جہنگوی اس کی ذمہ داری قبول کرلیتے ہیں۔۔ تو ہمارا آپس میں تعلق کے بارے میں جو سوال ہے۔۔ تو ہم ہر مسلمان مجاہد کو اپنا بھائی سمجھتے ہیں۔۔ اسلام کے لئے۔۔ اسلامی نظام کے لئے جو لڑتا ہے ۔۔ ہم اس کو اپنے وجود کا حصہ سمجھتے ہیں۔۔ ہمارے دل میں ان کے لئے ہمدردی ہے اور لشکر جہنگوی کی جو جدوجہد ہے ۔۔ میرے خیال میں وہ اسلامی جدوجہد ہے۔۔ اور ہم اس کو سراہتے ہیں۔
سوال: چند ہفتوں پہلے کشمیر کے اندر حملہ ہوا ہے ایر فورسس کی کیمپ پر ۔۔ کیا تحریک طالبان کا اس سے ملحقہ تنظیم کا اس میں ملوث ہونے کا کوئی چانس ہے ؟
جواب: تحریک طالبان پاکستان نے افضل گروہ اور اجمل قصاب کی شہادت کے بعد اعلان کیا تھا کے ہم انتقام لیں گے۔۔ لیکن انتظامی طور پر یہ کاروائیاں ہماری نہیں ہیں۔۔ ہم نے نہیں کیا۔۔ دوسری تنظیم کا میں کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ میں تحریک طالبان پاکستان کا ترجمان ہوں۔۔ اور جہاں تک انڈیا کا تعلق ہے۔۔ تو اس امر کو سراہتا ہوں۔۔ جس نے بھی کیا نیک امر ہے اچھا کام ہے میں اس کو شاباش دیتا ہوں۔۔ اور اس کو اس امر پر سلام کرتا ہوں۔۔ کیوں کہ انڈیا ایک غاصب حکومت ہے۔۔ ہمیشہ کشمیریوں کی حقوق کی حق تلفی کی ہے۔۔ ہمیشہ کشمیریوں پر مظالم ڈھائے ہیں۔۔ ہم کشمیری عوام کے ساتھ ہیں۔۔ اور ہماری دل کی جو طلب ہے، ہماری جو محبت ہے، وہ کشمیری عوام کے ساتھ ہے۔۔ اور ہم ان شاء اللہ عنقریب کشمیری عوام کے ساتھ ہمدردی کے لئے اپنا ایک مہم لانچ کرنے والے ہیں۔۔ ہم کوشش کریں گے وہ کشمیر کے جہاد سے Related ہو۔۔ ہم کوشش کرتے رہیں گے اور کشمیری عوام کی آزادی تک ہماری جدوجہد جاری رہے گی اور میرے خیال میں یہ خطہ۔۔ اسلامی نظریہ کی بنیاد پر پاکستان بھی حاصل کیا گیا تھا اور کشمیر بھی۔۔ تو میں چاہتا ہوں۔۔ ہماری تنظیم بھی چاہتی ہے کہ ہم اس خطے کو حاصل کریں اور اس پر اسلامی نظام کا نافذ کریں۔
سوال: ابھی حال ہی میں اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ آئی ہے، پاکستان کے اندر ڈرون حملوں کو پاکستان کی خودمختاری اور عام شہری کی ہلاکت پر تنقید کی گئی ہے اس بارے میں تحریک طالبان کا کیا موقف ہے ؟
جواب: اقوام متحدہ ۔۔ میرے خیال میں۔۔ انہوں نے امریکہ اور اسرائیل اور دوسرے غاصب اور سیکولر، بے دین اور ہمارے نظریاتی دشمن ممالک کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے کہ وہ مسلمانوں کا خون جب بھی بہانا چاہیں بہا سکتے ہیں۔۔ اقوام متحدہ کو میں ایک دشمن کی نظر سے دیکھتا ہوں۔۔ کیوں کہ انہوں نے ہمیشہ۔۔ افغانستان میں۔۔ دوسرے ممالک میں۔۔ اسلامی ممالک میں۔۔ عراق میں مسلمان کا خون بہایا ہے۔۔ تو ان کا صرف تشویش کا اظہار کرنا۔۔ اور یہ کہنا کہ ابھی پتہ تو چل گیا ہے کہ بے گناہ لوگ مارے گئے ۔۔ تو عملی اقدامات انہوں نے کتنے کیے ہیں۔۔ پتہ تو سب کو ہے کہ بے گناہ لوگ اس ڈرون حملوں میں مارے جارہے ہیں۔۔ تو ان کے عملی اقدامات سے پتہ چلے گا کہ وہ کتنا غیر جانبدار بننے کی کوشش کررہے ہیں۔۔ لیکن میرے خیال میں ایسا ہوگا نہیں۔۔ ہم اس خوش فہمی میں کبھی بھی مبتلا نہیں ہونا چاہتے۔۔ کہ اقوام متحدہ کچھ کرے گی۔
سوال: اس کے ساتھ ایک ملحقہ سوال ہے کہ جب بھی ڈرون حملہ ہوتا ہے اس میں بے گناہ لوگ مارے جاتے ہیں تو کیا وہی بے گناہ لوگ طالبان بن کر یا اشتعال میں آکر حکومت کے خلاف یا امریکہ کے خلاف لڑنے کے لئے پھر یک بستہ ہوتے ہیں ؟
جواب: اشتعال میں نہیں آتے۔۔ البتہ نظریاتی پہلو۔۔ لوگ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ ڈرون حملے ہم پر کیوں ہورہے ہیں، تو جب لوگ اس بات پر سوچ لیتے ہیں تو اس کا نظریاتی پہلو سامنے آجاتا ہے۔۔ کہ ایک خاص نظریہ کی بنیاد پر ہمیں مارا جارہا ہے۔۔ تو جب نظریاتی پہلو سامنے آجاتا ہے تو لوگ بہت شدید ردعمل کا اظہار بھی کرلیتے ہیں۔۔ اور ہماری جو نئی نسل ہمارے ساتھ ملتی ہے تو ہمارے لئے اس میں بھی بڑی آسانی ہوتی ہے۔۔ اور لوگ آتے ہیں۔۔ حتی کے لوگ فدائی بھی کرتے ہیں۔۔ اور جاتے ہیں۔۔ حملے کرتے ہیں۔۔ یعنی نظریاتی طور پر، سیاسی طور پر ڈرون حملوں کا ہمیں کوئی نقصان نہیں ہے۔
سوال: ٹھیک ڈرون حملوں کے نتیجے میں جو عام لوگ مارے جاتے ہیں، کیا ان کے رشتے دار بھائی اسی طرح ان کے بیٹے کیا تحریک طالبان میں شمولیت اختیار کرتے ہیں یا خود جاکر فدائی خود کش حملے کرنے کے لئے تیار ہوتے ہیں؟
جواب: بالکل، جب بھی کوئی ڈرون حملہ ہوتا ہے تو اکثر ۔۔ میں اکثر کا لفظ استعمال کروں گا۔۔ اکثر لوگ اس کے ری ایکشن میں آجاتے ہیں۔۔ طالبان کے ساتھ۔۔ اور جہادی تنظیموں کے ساتھ مل جاتے ہیں۔۔ مختلف مقامات پر کارروائیاں کرتے ہیں۔۔ یعنی ہمارے لئے لوگوں کو Capture کرنا، لوگوں کو اپنے ساتھ ملانا۔۔ ڈرون حملے اس میں ہمارے لئے آسانی پیدا کردیتے ہیں۔۔ اور ہمیں کم محنت کرنی پڑتی ہے۔۔ یعنی ڈرون حملے کسی علاقے میں ہوتا ہےتو ہم آسانی کے ساتھ لوگوں کو اٹھا سکتے ہیں۔۔ آسانی سے۔۔ نظریاتی پہلو اور اس میں جو ان کا اپنا رد عمل ہوتا ہے۔۔ اس کے ساتھ وہ ہمارے ساتھ مل جاتے ہیں۔
سوال: یعنی آپ کا مقصد یہ ہے ڈرون حملے جب بھی کیئے جاتے ہیں تو طالبان کی تعداد میں اضافہ بھی ہوتا ہے اور آپ کے لئے کوئی مشکل بھی پیش نہیں، کیوں کے پھر وہی لوگ انتقامی کاروائی کے طور پرفدائی یا خود کش حملے کے لئے تیار ۔۔۔؟
جواب: بالکل یعنی اس کا مطلب یہ ہے وہ ہمیں ڈرون سے ختم کرنا چاہتے ہیں۔۔ تو یہ ان کی خام خیالی ہے۔۔ کیوں کے ڈرون حملوں کے ری ایکشن میں اگر وہ ہمارے تین افراد کو کو ماردیتے ہیں۔۔ ہمارے تین ساتھیوں کو ماردیتے ہیں شہید کردیتے ہیں۔۔ اس کے بدلے میں ہمارے ساتھ تیس اور آجاتے ہیں۔۔ تو ہماری تعداد میں اضافہ ہوتا ہے نہ کہ ہماری تعداد میں کمی ہوتی ہے۔
سوال: اچھا جی ڈرون حملوں کی وجہ سے تعداد میں اضافہ ہوتا ہے کمی نہیں ہوتی ؟
جواب: بالکل۔
سوال: ہم تو یہ سمجھتے ہیں تحریک طالبان حکومت حمایت یافتہ نہیں لیکن جو حکومت حمایت یافتہ ہے انہوں نے پولیو پر پابندی لگائی ہے اب تک تحریک طالبان اس حوالے سے پیچھے ہیں، کیا وہ بچوں کے بارے میں سوچتے ہیں کیا اس کو صحیح مانتے ہیں، کیا چکر ہے ؟
جواب: میں تو اس بحث میں نہیں پڑوں گا کہ یہ صحیح ہے شرعی ہے، غیر شرعی ہے یہ الگ موضوع ہے۔۔ لیکن تحریک طالبان پاکستان نے ابھی تک پولیو پر پابندی نہیں لگائی ہے۔۔ اور عنقریب ہم اپنا ان شاء اللہ تعلیمی پالیسی اور صحت کے حوالے سے پالیسی ہے وہ دے دیں گے۔۔ بہت جلد ہی۔۔ لیکن یہ ہماری پالیسی میں شامل نہیں ہے کسی صحت کے یا تعلیم کے کسی بھی Process پر پابندی لگائیں۔
سوال: مطلب یہ کہ تعلیم اور صحت کے حوالے سے کچھ میٹھی باتیں ہوں گی کہ قوم مطمئن ہوجائے؟
جواب: جب باتیں آئیں گی تو آپ محسوس کریں گے کہ میٹھی ہیں یا کڑوی۔
سوال: مستقبل میں تحریک طالبان سیاسی Setup کا حصہ بنے گی؟
جواب: تحریک طالبان صحت مند اسلامی سیاست کی قائل ہے ۔۔ ہم اسلامی سیاست کرتے ہیں۔۔ آج بھی کررہے ہیں۔۔ اور کل بھی اس کے قائل ہیں۔۔ لیکن اب اگر سیاست سے یہ مطلب آپ کا اس جمہوری نظام کے تحت آگے اس نظام کا حصہ بننا ہے۔۔ تو یہ قطعی طور پر نہیں ہوگا۔۔ ہم اسلامی لوگ ہیں۔۔ ہم مسلمان ہیں ۔۔ ہم عسکری تنظیم ہیں ۔۔ ہم ملک میں اسلامی نظام چاہتے ہیں ۔۔ اور اسلام کے مطابق جو سیاست ہے ۔۔ ہم اس کے قائل ہیں ۔۔ لیکن اگر آپ کی مراد اس جمہوری، سیکولر، بے دین سیاست سے ہے ۔۔ تو ہم اس کا کبھی بھی حصہ نہیں بن سکتے۔
سوال: قاری حسین جو فدائی اور خودکش حملوں کا ماسٹر مائنڈ سمجھا جاتا ہے۔۔ تحریک طالبان کا اہم کمانڈر تھا۔۔ انہوں نے ایک مرتبہ فیصل شہزاد کے حوالے سے ویڈیو پیغام بھی دیا۔۔ اور ذمہ داری بھی لی کہ ہمارا بندہ ہے، اس کا تحریک طالبان سے تعلق ہے، بعد میں باقاعدہ ویڈیو بھی منظر عام پر آئیں۔۔ اس کی رہائی کے حوالے سے تحریک طالبان نے کبھی کوئی کاروائی کا سوچ لیا یا کبھی اس کی پلاننگ میں ہے ؟
جواب: ہم اپنے قیدی ساتھیوں کو کبھی بھولتے نہیں ہیں۔۔ ہم نے ہر ساتھی کے چھڑانے کے لئے بندوبست کیا ہوا ہے۔۔ اس کے لئے Struggle، کوشش محنت کرتے ہیں۔۔ اس کے مثال بنوں جیل پر حملوں سے واضح ہوتی ہے۔۔ تو جتنے بھی ہمارے ساتھی ہیں، خواہ فیصل شہزاد ہوں یا دوسرے ساتھی ہوں۔۔ وہ ہمارے دلوں میں ہیں ۔۔ وہ ہمیں یاد ہیں ۔۔ اور ان شاء اللہ وقت آنے پر جب بھی ہمیں موقع ملے گا ۔۔ ہم ان کی رہائی کے لئے جدوجہد کریں گے اور ہم اپنی جانوں کے نزرانے دے کر بھی ان شاء اللہ ان کو رہائی دلائیں گے۔
سوال: احسان اللہ احسان کے بارے میں بھی کہا جارہا ہے، اس کو ختم کرنے جارہے ہیں، اس کی جگہ دوسرے بندے کی تعیناتی ہورہی ہے ؟
جواب: انتظامی امور ہماری شوریٰ طے کرتی ہے، ہماری جو تحریک شوریٰ ہے۔۔ وہ طے کرتی ہے، فیصلے کرتی ہے، اور پہلے باقاعدہ امیر صاحب کے پاس جاتی ہے، امیر صاحب اس فیصلے پر دستخط کردیتے ہیں تو پھر یہ منظور ہوجاتی ہے، تو ہماری شوریٰ جو فیصلہ کرے گی۔۔ خواہ وہ کسی کو بھی ترجمان مقرر کردے۔۔ کسی کو بھی امیر مقرر کردے ۔۔ کسی کو بھی عسکری کماندان مقرر کردے ۔۔ ہم کرسیوں کے پیچھے، عہدوں کے پیچھے نہیں بھاگتے ۔۔ جو بھی ہوگا ان شاء اللہ، جو بھی مناسب بندہ ہوگا، آئے گا کرسی پر بیٹھے گا، ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔۔ لیکن ابھی تک میرے خیال میں اس بارے میں کوئی فیصلہ یا کچھ سوچا نہیں ہے ۔۔ جب بھی فیصلہ ہوگا، تو ان شاء اللہ ہم خود آپ کو آگاہ کردیں گے۔
بڑی مہربانی تحریک طالبان کے مرکزی ترجمان احسان اللہ احسان صاحب۔
آپ کا بھی شکریہ ۔۔
 
شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65
یہ’’کونج‘‘کیا ہے؟؟؟؟؟
کونج ایک پرندہ ہے شاید آسمان پر ایک لائن یا قطار میں اڑتے ہیں۔ہم نے متعدد بار اس کی قطار والی اڑان کو دیکھا ہے۔
 

مون لائیٹ آفریدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 30، 2011
پیغامات
640
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
127
'تحریک ظالمان' رحمان ملک کی اصطلاح ہے - رحمان ملک کے ایمان کا پتا تو اسی وقت لگ گیا تھا جب ایک اجلاس کے دوران باوجود بار بار کوشش کے ان کے مونھ سے سوره الخلاس نا نلکل سکی تھی-
اس موقع پر یہ کہا جاسکتا ہے ۔
کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہ اترے گا
 
شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65
اس موقع پر یہ کہا جاسکتا ہے ۔
کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہ اترے گا
ہاں میرے بھائی یہ حقیقت ہے کہ خوارج قرآن پڑھیں گے لیکن ان کے حلق سے نیچے نہ اترے گا۔اور ایسا ہی ہوا کہ ہم نے دیکھا کہ رحمان ملک نے قرآن پڑھنا چاہا لیکن وہ پڑھ نہ سکا۔ایک ایسی سورت نہ پڑھ سکا جو کہ عقیدہ تو حید پر مبنی ہے۔ظاہر اس مجرم کو اللہ نے دہری سزا دی نہ تو یہ قرآنی الفاظ اپنی ناپاک زبان سے ادا کرسکا اور نہ ہی اس مجرم کا ان قرآنی آیات پر عمل ہے ۔ ایسا کیوں ہوا؟ اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اعلان کررکھا ہے کہ جس نے میرے اولیا (دوستوں) سے دشمنی کی اس نے مجھ سے دشمنی کی ۔ ظاہر ہے اللہ اپنے اور اپنے دوستوں کے دشمنوں کو دنیا ہی میں ذلت ورسوائی میں مبتلا مبتلا کردیتا ہے۔اور آخرت کا عذاب تو بڑا ہے ہی۔ دوسری طرف مشاہدہ کریں اولیاء کس قدر روانی سے قرآن مجید پڑھتے ہیں اور اس پر عمل بھی کرتے ہیں ۔ کس طرح سے ان مجاہدین کے مونہوں سے قرآن مجید کی تلاوت اور خوشبو نکلتی ہے جس کا اندازہ آپ جہادی ویڈیوز کو دیکھ کر ہی لگاسکتے ہیں ۔ ان مجرموں نے طالبان کو ظالمان کا لقب دیا اللہ تعالیٰ نے اس منہ کو اپنی مقدس آیات کی تلاوت کرنے سے روک دیا ۔ کیا آپ نے دیکھا کہ کبھی طالبان کے امیر حکیم اللہ محسود نے قرآن پڑھا ہو اور اس کی خوشبو سے فضا معطر نہ ہوئی ہو۔
 

متلاشی

رکن
شمولیت
جون 22، 2012
پیغامات
336
ری ایکشن اسکور
412
پوائنٹ
92
اس موقع پر یہ کہا جاسکتا ہے ۔
کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہ اترے گا
یہ آپ کن لوگوں کو بتا رہے ہیں وہ قرآن پڑھنے والوں بھی بھی قتل کرنا شروع کردیں گے۔ اور جب کہا جائے گا کہ یہ تم نے ظلم کیا تو آرام سے بول دیں گے کہ حدیث ہے۔
 

مون لائیٹ آفریدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 30، 2011
پیغامات
640
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
127
ان مجرموں نے طالبان کو ظالمان کا لقب دیا
ہمارے نبی علیہ السلام کے دور جب کوئی مسلمان ہوجاتا تو کہا جاتا تھا کہ بھئ یہ صابی ہوچکا ہے ۔
اور قرآن میں کہا گیا ہے کہ زمین میں فساد نہ کرو تو وہ کہتے کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں ۔ جس طرح آج امریکہ اور اس کے معاونین یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم تو دہشت گردی ختم کر رہے ہیں ۔ تو کیا ہم مسلمان اس حد تک مجبور ہے جس چیزکے بارے میں وہ کوئی اصطلاح قائم کرے خواہ وہ صحیح نہ بھی ہو تو ہم وہ بلا چوں وچراں مان لے ۔
خرد کا نام جنوں رکھ دیا، جنوں کا خرد ... جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
 
شمولیت
اگست 30، 2012
پیغامات
348
ری ایکشن اسکور
970
پوائنٹ
91
اس موقع پر یہ کہا جاسکتا ہے ۔
کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہ اترے گا
میرے بھائی یہ حدیث ایسے لوگوں کے بارے نہیں ہے۔خوامخواہ ٹوچ مت لگاتے پھرا کریں،اہل علم کی رہنمائی لے لیا کریں۔
یہ حدیث خوارج کے بارے ہے،اور ابو زینب صاحب آپ سے دو ہاتھ آگے نکلے اور حکمرانوں کو خوارج قرار دینے پر تل پڑے۔۔۔ابتسامہ۔۔
ارے بھائی خوارج ہوتے ہی وہ ہیں جو حکمرانوں کے خلاف نکلتے ہیں،پھر حکمران خوارج کیسے ہوئے؟
کچھ تو خدا کا خوف کرو یار۔کیوں دین کا مذاق بنا رہے ہو؟جو منہ میں آتا ہے بن دیکھے لکھے جاتے ہو۔
 
شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65
میرے بھائی یہ حدیث ایسے لوگوں کے بارے نہیں ہے۔خوامخواہ ٹوچ مت لگاتے پھرا کریں،اہل علم کی رہنمائی لے لیا کریں۔
یہ حدیث خوارج کے بارے ہے،اور ابو زینب صاحب آپ سے دو ہاتھ آگے نکلے اور حکمرانوں کو خوارج قرار دینے پر تل پڑے۔۔۔ابتسامہ۔۔
ارے بھائی خوارج ہوتے ہی وہ ہیں جو حکمرانوں کے خلاف نکلتے ہیں،پھر حکمران خوارج کیسے ہوئے؟
کچھ تو خدا کا خوف کرو یار۔کیوں دین کا مذاق بنا رہے ہو؟جو منہ میں آتا ہے بن دیکھے لکھے جاتے ہو۔
القول السدید اللہ کا شکرہے کہ اس نے اس فورم پر تمہارا چہرہ بے نقاب کردیا ہے۔کسی نے کیا خوب تمہارے جیسےنظریات کےحامل لوگوں کے متعلق فرمایا ہےکہ ایسے لوگ طاغوتی حکمرانوں کے لئے مرجئہ اور مجاہدین کے لئے خوارج ہیں۔موصوف لکھتے ہیں :
ارے بھائی خوارج ہوتے ہی وہ ہیں جو حکمرانوں کے خلاف نکلتے ہیں،پھر حکمران خوارج کیسے ہوئے؟
حیرت کی بات یہ ہے کہ القول السدید علم سے بالکل کورے لگتے ہیں ۔لگتا ہے کہ ان صاحب کو اسلامی تاریخ کے کسی پہلو کا بھی علم نہیں ہے۔جماعۃ الدعوۃ نے ان کو جو تاریخ پڑھائی ہے وہ پاکستان کے طاغوتی حکمرانوں کی تاریخ پڑھائی ہے اور یہ ٹارگٹ ان کے حوالے کیا ہے کہ اپنی ساری زندگی ان طاغوتی حکمرانوں کی حمایت ان کی نصرت میں کھپادینا کیونکہ اس طرح سے ہم ان حکمرانوں سے دنیا کی زندگی کا مال ومتاع حاصل کرتے ہیں جو کہ ہمارے لئے بہت ضروری ہے۔ چاہے اس کے بدلے میں یہ لوگ ایمان سے یکسر خالی ہوجائیں۔دیکھئے کس قدر دیدہ دلیری سے طاغوتی حکمرانوں کی حمایت اور توثیق میں امت کے صالح ترین افراد کو خارجی بنادیا گیا ہے جنہوں نے ظالم حکمرانوں کے خلاف خروج کیا ۔ کس قدر بے شرمی اور ڈھٹائی کے ساتھ علماء سلف پر خارجیت کی تہمت لگائی گئی ہے۔اور ان طاغوتی حکمرانوں کے بارے میں جماعۃ الدعوۃ اور ان کے کارکنان کس قدر مخلص ہیں کہ رات ودن سوشل میڈیا پر ان کی اطاعت کا دم بھرتے رہتے ہیں ۔ان کی حکمرانی کو شرعی ثابت کرنے پر تلے رہتے ہیں۔ان کی اطاعت کے واجب ہونے کے فتاوی انٹرنیٹ پر شائع کرتے رہتے ہیں۔مسلمانوں پر ان کی اطاعت کو واجب قرار دیتے ہیں۔خواہ یہ حکمران سودی نظام کو اس ملک میں رائج کریں شراب خانے کھولیں ،زنا کے اڈے قائم کریں ۔ٹی چینلوں کے ذریعے سے مسلمانوں کے اندر بے حیائی اور فحاشی اور عریانی کو فروغ دیں۔طاغوت عصرامریکہ کا ساتھ دیں اور مسلمانوں کو قتل کریں ۔شریعت کا مطالبہ کرنے والوں مسلمانوں کو بے رحمانہ طریقے پر شہید کریں ۔ان کی لاشوں کی بے حرمتی کریںان سب باتوں کے باوجود جماعۃ الدعوۃ کے کارکنان بے شرمی اور ڈھٹائی سے مجاہدین اور علماء حقہ کے خلاف تکفیری خارجی ہونے کے فتاوی ڈاغتے رہتے ہیں۔اب ہم قارئین کو بتاتے ہیں کہ القول السدید کے اس غلیظ قول کی زد میں اس امت کے کیسے کیسے عظیم لوگ آئے ہیں:
عبداللہ بن زبیر ۔محمد ۔حسن بن علی ودیگر مہاجروانصار صحابہ رضی اللہ عنہم کا قول ہے جو یوم الحرہ قائم رہے تھے ۔ان صحابہ کا بھی قول ہے جو حجاج کے مقابلہ پر تھے جیسے انس بن مالک اور دیگر جن صحابہ رضی اللہ عنہم کا ہم نے ذکر کیا اور تابعین جیسے عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ ۔سعید بن جبیر ۔ابن البختری الطائی ۔عطاء السلمی الازدی ،حسن بصری ۔مالک بن دینار۔مسلم بن بشار ۔ابوالھوراء۔شعبی ۔عبداللہ بن غالب۔عقبہ بن عبدالغافر ۔عقبہ بن صہبان۔ماھان۔مطرف بن المغیرہ بن شعبہ۔ابی المعد۔حنظلہ بن عبداللہ۔ابی سح الہنائی ۔۔طلق بن حبیب۔مطرف بن عبداللہ بن السخیر،نصر بن انس۔عطاء بن السائب۔ابراہیم بن یزیدالتیمی۔ابوالحوساء ۔جبلہ بن زحر وغیرہ ۔ان کے بعد تابعین میں سے جیسے :عبداللہ بن عبدالعزیز بن عبداللہ بن عمر۔عبداللہ بن عمر۔محمد بن عجلان۔اور محمد بن عبداللہ بن الحسن اور ہاشم بن بشیر۔مطرکے ساتھی اور ابراہیم بن عبداللہ کے ساتھی
یہ تو ایک مختصر سے ناموں کی فہرست ہے جو کہ ہم نے یہاں ذکر کی ہے۔ورنہ معرکہ جماجم میں شامل ہزاروں تابعین محدثین اور فقہاء کرام شامل تھے جو کہ ظالم حکمرانوں کے خلاف خروج تھا۔دیکھا آپ نے کہ کس قدر ڈھٹائی سے امت کے صالح ترین افراد کو خارجیوں کی لسٹ میں داخل کردیا گیا۔کیونکہ معاملہ اپنے طاغوتی حکمرانوں کو بچانے کا تھا۔
اب ہم القول السدید سے ایک سوال پوچھتے ہیں جسے امام ابن حزم رحمہ اللہ نے اپنے معاصر ان لوگوں سے پوچھاتھا جو کہ ظالم حکمرانوں کے خلاف خروج کےمخالفین میں سے تھے:
ابن حزم رحمہ اللہ کہتے ہیں :ہم ان سے سوال کرتے ہیں کہ تم اس حکمران کے بارے میں کیا کہوگے جس نے اپنے اختیارات نصاری کے حوالے کردیئے ہیں نصاری ہی اس کے ساتھی اور فوج ہیں اورمسلمانوں پر جزیہ لگادیا ہے مسلمان بچوں پر تلواریں نکال لی ہیں مسلم عورتوں سے زناکو جائز کردیا ہے ۔جو بھی مسلمان مرد،عورت اوربچہ انہیں نظر آتا ہے اس کو مارتے ہیں جبکہ یہ حکمران خاموش تماشائی ہے اس کے باوجود خود کو مسلمان کہتا ہے نماز پڑھتا ہے ؟اگر یہ کہتے ہیں کہ اس حکمران کے خلاف خروج پھر بھی جائز نہیں ہے تو ان سے کہا جائے گا کہ اس طرح تو یہ تمام مسلمانوں کو ختم کردے گا اوراکیلا ہی رہ جائے گا اور ا س کے ساتھی کافر رہ جائیں گے ؟اگر یہ لوگ اس صورت میں بھی صبر کو جائز کہتے ہیں تو یہ اسلام کی مخالفت کرتے ہیں اس سے خارج ہوتے ہیں اور اگر یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس حکمران کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا چاہیے تو ہم کہیں گے کہ اگر نوے فی صد مسلمان مارے جاتے ہیں ان کی عورتیں پکڑ لی جاتی ہیں ان کا مال لوٹا جاتا ہے تو؟اگر یہ خروج سے پھر بھی منع کرتے ہیں تو اپنی بات کی مخالفت کرتے ہیں اوراگر خروج کو واجب کرتے ہیں تو ہم ان سے مزید کم کے بارے میں سوال کریں گے یہاں تک کہ ہم ان سے پوچھیں گے کہ ایک مسلمان مارا جائے اور ایک مسلمان عورت پکڑلی جائے یا ایک آدمی کا مال زبردستی لیا جائے تو؟اگر یہ فرق کرتے ہیں تو ان کی بات میں تضاد ہے اور یہ بات ان کی بلادلیل ہے جو جائز نہیں اور اگر یہ خروج کو لازم قرار دیتے ہیں تو تب یہ حق کی طرف رجوع کرتے ہیں ۔ہم ان سے سوال کرتے ہیں کہ اگر ایک ظالم حکمران کسی شخص کی بیوی بیٹی اور بیٹے کو زبردستی اپنے قبضے میں لے کر ان سے غلط اور فسق کے کام کروانا چاہے توکیا ایسے آدمی کو صرف اپنی جان بچانی چاہیے تو یہ ایسی بات ہے جو کوئی مسلمان نہیں کرسکتا اور اگر یہ کہتے ہیں کہ بیوی بچوں کو بچانے کے لیے لڑنا چاہیے تو یہ ہے حق اور صحیح بات اس طرح دیگر مسلمانوں کے مال وجان کے تحفظ کے لیے بھی حکمرانوں کے مقابلے پر آناچاہیے ۔ابومحمدکہتے ہیں :اگر معمولی سابھی ظلم ہوتو امام سے اس بارے میں بات کرنا واجب ہے اور اسے روکنا چاہیے اگر وہ رک جاتا ہے اور حق کی طرف رجوع کرتا ہے اور زناچوری وغیرہ کے حدود کے تیار ہوتا ہے تو اس کی اطاعت سے نکلنا نہیں چاہیے اور اگر ان واجبات کے نفاذ سے انکار کرتا ہے تواس کو ہٹاکر کسی اور کو اس کی جگہ امام مقرر کرنا چاہیے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:اور تعاون کرو نیکی اور تقوی پر اورگناہ وزیادتی پر تعاون مت کرو۔شریعت کے واجبات میں سے کسی کوضائع نہیں کرنا چاہیے ۔(الملل والاھواء والنحل لابن حزم :۴/۱۳۲-۱۳۵)
القول السدید دیکھو کس طرح سے امام ابن حزم نے تمہارے باطل افکار اور خیالات کی دھجیاں بکھیرکر رکھ دی ہیں ۔کیا پاکستان کے ان طاغوتی حکمرانوں نے اپنے تمام اختیارات صلیبیوں کے حوالے نہیں کررکھے ہیں ۔ان صلیبیوں کی خدمت گزاری کے لئے مسلمانوں پر ٹیکس نہیں لگائے۔ان صلیبیوں کو جو تیل فراہم کیاجاتا ہے وہ کتنا سستا ہوتا ہے اس تیل کے مقابلے پر جو یہ ظالم طاغوتی حکمران مسلمانوں کو مہنگا فروخت کرتے ہیں۔کوئی جواب ہے تمہارے پاس امام ابن حزم رحمہ اللہ کے سوال کا ؟؟؟اب کیا تم امام ابن حزم رحمہ اللہ پر بھی خارجی ہونے کا فتویٰ داغوگے ؟؟؟؟ یہ جو حکمران ہمارے دور میں موجود ہیں یہ تو طاغوتی حکمران ہیں ۔یہ تو پہلے کے حکمرانوں کی طرح محض ظالم نہیں بلکہ ان طاغوتی صلیبی حکمرانوں نے تو حدود اللہ کا اس زمین سے ختم کرکے رکھ دیا ہے ۔ اللہ کی ایک حد کا بھی وجود ان کی حکمرانی میں نہیں پایا جاتا ہے۔ان طاغوتی حکمرانوں نے انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کو نافذ کررکھا ہے اور اللہ کی شریعت کو دور پرے پھینک دیا ہے۔ان کی پارلیمنٹ میں اللہ کی شریعت کا داخلہ ممنوع ہے۔دیکھو امت کے علماء ظالم حکمرانوں کے بارے میں کیا کہتے ہیں جبکہ اس کے مقابلے پر تمہارے حکمران جن کی تم حمایت میں ہر وقت رطب اللسان رہتے ہو یہ تو ارتداد کی تمام حدیں تک پھلانگ چکے ہیں۔ذرا موازنہ تو کرو کہ کس طرح تم ان علماء پر خارجی ہونے کی تہمت لگارہے ہو۔اور تم ایسا کیوں نہ کرو کیونکہ تم اہل حق کے مقابلے پر خارجی ہو ۔اور طاغوتی حکمرانوں کے لئے مرجئہ ہو:
امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :جب امام کا تقرر ہوجائے اور اس کے بعد وہ فسق کرے تو جمہور کہتے ہیں اس کی امامت فسخ ہوجائے گی اس کو ہٹاکر کسی اور کو امام بنایاجائے گا اگر اس نے فسق ظاہری اور معلوم کا ارتکاب کیا ہو۔اس لیے کہ یہ ثابت ہوچکا ہے کہ امام کا تقرر مقصد کے لیے ہوتا ہے حدود کا نفاذ اور حقوق کی ادائیگی وتحفظ یتامی کے مال کی حفاظت مجرموں پر نظر رکھنا وغیرہ مگر جب وہ خود فاسق ہوگا تو ان امور کی انجام دہی نہیں کرسکے گا ۔اگر ہم فاسق کے لیے امام برقرار رکھناجائز قرار دیدیں تو جس مقصد کے لیے امام بنایا جاتا ہے وہ مقصد باطل ہوجائے گا اسی لیے تو ابتدائً ہی فاسق کا امام کے لیے تقرر جائز نہیں ہے کہ مقصد امامت فوت ہوجاتا ہے۔کچھ لوگ کہتے ہیں جب تک امام کفر نہ کرے اسے ہٹایا نہیں جائے گا یا نماز ترک نہ کرے یا اور کوئی شریعت کاکام ترک کردے جیسا عبادہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے:الَّایہ کہ تم اما م میں واضح کفر دیکھ لو جس پر تمہارے پاس دلیل ہو۔دوسری حدیث میں ہے جب تک نماز قائم کرتا رہے ۔ام سلمہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے تم پر امیر مقرر کیے جائیں گے جن کی کچھ باتیں تمہیں پسند ہوں گی کچھ ناپسند ہوں گی جس نے ناپسند کیا وہ بری ہوا جس نے انکار کیا وہ محفوظ رہا جس نے تابعداری کی اور راضی ہوا ۔لوگوں نے کہا اللہ کے رسول ﷺکیا ہم ان سے قتال نہ کریں ؟آپ ﷺنے فرمایا :نہیں جب تک کہ نماز قائم کرتے رہیں ۔دل سے ناپسند کرنا مراد ہے ۔(قرطبی :۱/۲۸۶-۲۸۷)
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :میرا عہد ظالموں کو نہیں پہنچتا اس آیت کی تفسیر میں قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں :ابن خویزمنداد رحمہ اللہ نے کہا ہے جو بھی ظالم ہوتا ہے وہ نہ نبی بنتا ہے نہ خلیفہ نہ حاکم نہ مفتی نہ نماز کے امام نہ اس کی روایت قبول کی جاتی ہے نہ احکام میں اس کی گواہی قبول کی جاتی ہے ۔جب تک اپنے فسق کی وجہ سے معزول نہ کردیاجائے اہل حل وعقد اس کو معزول کردیں۔(قرطبی:۲/۱۱۵-۱۱۶)
اشعری کہتے ہیں ظالم حکمرانوں کے خلاف خروج بعض اہل سنت کا مذہب ہے جبکہ اہل سنت کی ایک جماعت اور خوارج ،معتزلہ زیدیہ اور بہت سے مرجئہ کہتے ہیں کہ فاسق امام کے خلاف خروج اور قوت کا استعمال واجب ہے۔(مقالات الاسلامیین:۱۴۵)
ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں :ابن التین نے داؤدی سے نقل کیا ہے کہ امراءِ ظلم کے بارے میں علماء کی رائے یہ ہے کہ اگر بغیر فتنہ اور ظلم کے اس کو ہٹانا ممکن ہوتو ضروری اور واجب ہے ورنہ صبر واجب ہے بعض نے کہا کہ فاسق کو حکومتی عہدہ دینا ہی جائز نہیں ہے اگر عہدہ حاصل کرنے کے بعد ظلم کیا تو اس کے ہٹانے میں اختلاف ہے صحیح بات یہ ہے کہ بغاوت منع ہے جب تک کہ اس سے واضح کفر صادر نہ ہو۔(فتح الباری:۱۳/۸)
امام ابوحنیفہ کا مذہب ہے کہ ظالم حکمرانوں کے خلاف بغاوت کرنی چاہیے جیسا کہ ابواسحاق الفزاری نے امام ابوحنیفہ سے کہا کہ آپ کو اللہ کا ڈر نہیں ہے کہ میرے بھائی کو ابراہیم (ابراہیم بن عبداللہ بن الحسن ہیں )کی معیت میں بغاوت پر اکسایا ،آمادہ کیا؟امام صاحب نے کہا کہ اگر وہ بدر میں مارا جاتا تو؟اللہ کی قسم میرے نزدیک یہ بدر صغری ہے۔(شذرات الذہب:۱/۴۴،تاریخ بغداد:۱۳/۳۸۴)
جصاص رحمہ اللہ فرماتے ہیں :امام ابوحنیفہ کا مذہب مشہور ہے کہ ظالم حکمرانوں کے خلاف قتال کرنا چاہیے ۔(احکام القرآن:۱/۸۶)
ظالم حکمرانوں کے خلاف خروج کرنےکے بارے میں علماء کے اقوال
ظالم حکمرانوں کے خلاف خروج وبغاوت تابعین کے بعد بھی ایک مذہب کی شکل میں باقی رہا جیسا کہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے احمد بن نصر الخزاعی شہیدرحمہ اللہ کے حالات زندگی میں لکھا ہے کہ احمد بن نصر رحمہ اللہ عالم تھا ،دیانتدار ،عمل صالح کرنے والا ، مجتہد تھاان ائمہ سنت میں سے تھا جو امربالمعروف ونہی عن المنکر کرتے قرآن کو مخلوق کہنے والے واثق باللہ کے خلاف خروج کیا ۔
ظالم حکمرانوں کے خلاف خروج کرنےکے بارے میں امام غزالی رحمہ اللہ کا قول۔
غزالی فرماتے ہیں :ظالم حکمران کو اختیارات کے استعمال سے روک لینا چاہیے وہ معزول کیے جانے کے لائق ہے حکمران بنائے جانے کے نہیں(احیاء العلوم:۲/۱۱۱) ۔ابوالوزیر رحمہ اللہ حسین رضی اللہ عنہ کے خروج کے بارے میں کہتے ہیں :(فقہاء کے کلام میں )اس بات کی تحسین ہے جو حسین رضی اللہ عنہ نے یزید کے ساتھ اور جو ابن الاشعت نے حجاج کے ساتھ کیا جمہور فقہ نے خروج کو مخصوص کردیا ہے یزید وحجاج کی طرح کے حکمرانوں کے ساتھ کہ ان جیسا ظالم وجابر ہو تو خروج ہوسکتا ہے (الروض الباسم عن سنۃ ابی القاسم:۲/۳۴)۔مزید فرماتے ہیں :ظالم حکمرانوں کے خلاف خروج جو ممنوع ہے اس منع سے وہ حکمران مستثنیٰ ہے جس کا ظلم اور فساد بہت بڑھ گیا ہو جیسے یزید بن معاویہ اور حجاج بن یوسف ایسے حالات میں کوئی بھی اس طرح کے اشخاص کی امامت کا قائل نہیں (ایضاً)۔
ظالم حکمرانوں کے خلاف خروج کرنےکے بارے میں ابن الوزیر رحمہ اللہ کا قول ۔
ابن الوزیر رحمہ اللہ نے لکھا ہے :کہ ابن حزم رحمہ اللہ نے ابوبکر بن مجاہد پر ردّ کیا ہے اس بات پر کہ اس نے ظالموں کے خلاف خروج کو حرام قرار دیا ہے ابن حزم aنے اس کو ردّ کیا ہے اور دلیل کے طور پر یزید کے خلاف حسین رضی اللہ عنہ کے خروج اور حجاج کے خلاف ابن الاشعت کے خروج کو دلیل بنایا ہے جبکہ ابن الاشعت کے ساتھ کبار تابعین بھی تھے ۔(الروض الباسم فی الذب عن سنۃ ابی القاسم لابن الوزیر:۲/۳۴)
ظالم حکمرانوں کے خلاف خروج کرنے والے کبار صحابہ وتابعین کے نام۔
۔عبداللہ بن زبیر ۔محمد ۔حسن بن علی ودیگر مہاجروانصار صحابہ رضی اللہ عنہم کا قول ہے جو یوم الحرہ قائم رہے تھے ۔ان صحابہ کا بھی قول ہے جو حجاج کے مقابلہ پر تھے جیسے انس بن مالک اور دیگر جن صحابہ رضی اللہ عنہم کا ہم نے ذکر کیا اور تابعین جیسے عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ ۔سعید بن جبیر ۔ابن البختری الطائی ۔عطاء السلمی الازدی ،حسن بصری ۔مالک بن دینار۔مسلم بن بشار ۔ابوالھوراء۔شعبی ۔عبداللہ بن غالب۔عقبہ بن عبدالغافر ۔عقبہ بن صہبان۔ماھان۔مطرف بن المغیرہ بن شعبہ۔ابی المعد۔حنظلہ بن عبداللہ۔ابی سح الہنائی ۔۔طلق بن حبیب۔مطرف بن عبداللہ بن السخیر،نصر بن انس۔عطاء بن السائب۔ابراہیم بن یزیدالتیمی۔ابوالحوساء ۔جبلہ بن زحر وغیرہ ۔ان کے بعد تابعین میں سے جیسے :عبداللہ بن عبدالعزیز بن عبداللہ بن عمر۔عبداللہ بن عمر۔محمد بن عجلان۔اور محمد بن عبداللہ بن الحسن اور ہاشم بن بشیر۔مطرکے ساتھی اور ابراہیم بن عبداللہ کے ساتھی
ظالم حکمرانوں کے خلاف خروج کرنے والے فقہاء کا قول ۔
فقہاء میں سے یہی قول ابوحنیفہ ،حسن بن حییٔ۔شریک ۔مالک۔شافعی۔داؤد وغیرہ ۔ہم نے قدیم وجدید افراد کی رائے نقل کی ہے ان میں سے کچھ ایسے ہیں جنہوں نے منکر کے خلاف فتوے دیئے اور کچھ ایسے ہیں جو باقاعدہ تلواریں لیکر منکر کے خلاف نکلے تھے ۔
ظالم حکمرانوں کے خلاف خروج کرنےکے بارے میں ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کا قول ۔
ابن التین نے داؤدی سے نقل کیا ہے ۔علماء کا مذہب یہ ہے کہ اگر ظالم حکمران کو بغیر ظلم وفتنہ کے ہٹایا جاسکتا ہو تو معزول کردینا واجب ہے ورنہ صبر کرنا واجب ہے۔(فتح الباری :۳/۸)
ظالم حکمرانوں کے خلاف خروج کرنےکے بارےابو محمد امام ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
بومحمد کہتے ہیں :مذکورہ گروہ نے پہلے احادیث سے استدلال کیا ہے کہ اللہ کے رسول کیا ہم ان سے جنگ کریں ؟آپ ﷺنے فرمایا:نہیں جب تک وہ نمازیں پڑھتے رہیں ۔یایہ کہ جب تک تم ظاہر اور صریح کفر نہ دیکھ لو،یا وہ حدیثیں جن میں صبر کو واجب کیا گیا ہے یا وہ کہ جس میں کہا گیا ہے مقتول بن جاؤ قاتل نہ بنو۔(طبرانی)اللہ کافرمان ہے کہ آدم کے دوبیٹوں کا واقعہ انہیں سنادو جب دونوں نے قربانی کی ایک کی قبول ہوئی دوسرے کی نہیں ہوئی ۔ابومحمد کہتے ہیں :ان سب دلائل میں ان کے کام کی کوئی چیز نہیں ہے ہم نے ان میں سے ایک ایک حدیث کی اچھی طرح تحقیق کی ہے اور اپنی کتاب الاتصال الی فہم معرفۃ الخصال میں اسے لکھا ہے یہاں اس کا خلاصہ پیش کررہے ہیں:
صبر کرنے اور پیٹھ پر مار کھانے کا جو حکم ہے یہ تب ہے جب امام برحق ہو یعنی امام بننے کی اہلیت وصلاحیت رکھتا ہو ایسے امام کے دور میں صبر کرنا واجب ہے اور اگر ایک شخص صبر نہیں کرے گا تو وہ فاسق اور اللہ کا نافرمان ہے ۔اور اگر امام برحق نہ ہو بلکہ باطل ہو تو رسول ﷺایسے امام کے لیے صبر کا حکم نہیں دے سکتے اس کی دلیل اللہ کا یہ فرمان ہے ۔نیکی اور تقوی پر ایک دوسرے سے تعاون کرو گناہ اور سرکشی پر تعاون مت کرو۔ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ رسول ﷺکا کلام اللہ کے کلام کے خلاف نہیں ہوسکتا اس لیے کہ اللہ فرماتا ہے اور (محمدﷺ)اپنی خواہش سے نہیں بولتے یہ صرف وحی ہے جو اس کی طرف کی گئی ہے ۔دوسری جگہ فرمان ہے:اگر یہ اللہ کے علاوہ کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت زیادہ اختلاف پاتے ۔ثابت ہوا کہ جو کچھ اللہ کے رسول ﷺکہتے ہیں :وہ اللہ کی طرف سے نازل شدہ وحی ہے لہٰذا اس میں تعارض وتناقض نہیں ہوسکتا ۔لہٰذا ثابت یہ ہوا کہ کسی بھی شخص کا مال ناحق طور پر لینا یاکسی کو ناحق مارنا پیٹنا گناہ اور زیادتی ہے حرام ہے ۔رسول ﷺنے فرمایاہے:تمہارا خون ،مال اور عزتیں تم پر حرام ہیں(بخاری۔مسلم۔ابوداؤد۔ترمذی۔احمد) ۔جب اس میں اختلاف اور شک نہیں کہ کسی مسلمان کا مال ناحق لینا اور اس کومارنا پیٹنا ظلم ہے اور وہ اس ظلم کو روکنے پر قادر ہو تو کسی بھی ممکن طریقے سے اس ظلم اور گناہ میں تعاون کرنا یہ قرآن کی رو سے حرام ہے ۔اس کے علاوہ دیگر احادیث اور ابنی آدم کا قصہ بھی دلیل نہیں بن سکتا اس لیے کہ قصہ ابنی آدم الگ شریعت تھی ہماری نہیں تھی اللہ کا فرمان ہے:تم میں سے ہر ایک کے لیے ہم نے شریعت اورطریقہ بنایاہےجبکہ صحیح احادیث میں ہے کہ جو تم میں سے منکر دیکھے اسے اپنے ہاتھ سے روکے اگر طاقت نہ ہو تو زبان سے ورنہ دل سے اور یہ کمزور ایمان ہے اس کے بعدایمان کاکوئی درجہ نہیں ہے ۔آپ eکا فرمان ہے :معصیت میں اطاعت نہیں ہے اطاعت میں اطاعت ہے ۔فرمان ہے:جو اپنے مال، دین اور عزت کی حفاظت میں قتل ہوجائے وہ شہید ہے(احمد۔طبرانی)۔فرمان ہے:تم ضرور معروف کاحکم کروگے منکرسے روکو گے ورنہ سب پر اللہ کاعذاب آئے گا ۔بظاہر احادیث (صبر اور امر بالمعروف وغیرہ )باہم معارض ہیں مگر صحیح بات یہ ہے کہ ان میں سے کچھ ناسخ اور کچھ منسوخ ہیں یعنی ایک حکم ناسخ دوسرا منسوخ ہے ۔ ناسخ کون سا ہے منسوخ کون سا تو معلوم ہوتا ہے کہ جن احادیث میں قتال کی نفی ہے وہ منسوخ ہیں اس لیے کہ یہ حکم شروع اسلام میں تھا اور ان کو ماننے سے شریعت میں اضافہ لازم آتاہے کہ شریعت میں قتال کا حکم ہے ۔لہٰذا منسوخ کو لینا اور ناسخ کو ترک کرنا۔شک کو لینا اور یقین کو چھوڑ دینا محال ہے ۔اگر کوئی یہ دعوی کرے کہ یہ احادیث یا حکم منسوخ ہوگیا تھا مگر اب پھر ناسخ بن گیا تویہ دعوی باطل ہے یہ کوئی بے علم ہی کرسکتا ہے اللہ پر لاعلمی میں بات کی ہے جو جائز نہیں ہے۔اگر ایسا ہوتا تو اللہ اس کو بغیر دلیل وبرہان کے نہ چھوڑتا اس لیے کہ قرآن تبیان لکل شییٔ ہے۔دوسری دلیل اللہ کا یہ فرمان ہے :اگر مومنوں میں سے دوگروہ باہم قتال کریں تو تم ان میں صلح کردیا کرو اگر ایک گروہ دوسرے پر زیادتی کرے تو اس کے ساتھ قتال کرو جب تک وہ باز نہ آئے ۔کسی مسلمان نے اس بات میں اختلاف نہیں کیا ہے کہ فرقہ باغیہ سے قتال کا حکم دینے والی یہ آیت محکم ہے منسوخ نہیں ہے یہ آیت مذکورہ احادیث کا فیصلہ کررہی ہے جو حدیثیں اس آیت کے موافق ہیں وہ ناسخ او رجو مخالف ہیں وہ منسوخ ہیں ۔بعض لوگوں نے کہا ہے کہ یہ آیت اور اس کے موافق مذکورہ احادیث چوروں کے بارے میں سلطان کے بارے میں نہیں ہیں ۔یہ بات بھی غلط اور باطل ہے اس لیے کہ بغیر دلیل کے کہی گئی ہے یہ دعوی کرنے والا یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ احادیث ایک گروہ کے بارے میں ہیں دوسرے کے بارے میں نہیں ہیں یا ایک دوسرے کے لیے ہیں دوسرے کے لیے نہیں ہے۔ایک شخص نے رسول ﷺسے پوچھا کہ ایک آدمی مجھ سے ناحق میرا مال مانگ رہا ہے ۔آپ ﷺنے فرمایا :اسے نہ دو ۔اس نے کہا اگر وہ مجھ سے لڑائی کرے ۔آپ ﷺ نے فرمایا :تم بھی اس سے لڑو ۔اس نے کہا اگر وہ میرے ہاتھوں مارا جائے ؟ آپ ﷺنے فرمایا :وہ جہنم میں جائے گا۔اس نے کہا اگر میں مارا گیا؟آپﷺنے فرمایا :تم جنت میں جاؤگے ۔(بخاری۔مسلم۔ترمذی۔الفاظ کچھ اور ہیں )ایک اورحدیث میں ہے مسلمان مسلمان کا بھائی ہے اس کا مال نہیں چھینتا اس پر ظلم نہیں کرتا۔ایک حدیث میں ہے جس نے (زکاۃ)صحیح طریقے سے مانگی اسے دیدو او رجو صحیح طریقے سے نہ مانگے اسے نہ دو۔(بخاری)۔یہ حدیث صحیح ہے ثقات سے ثابت ہے انس بن مالک رضی اللہ عنہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے وہ رسول اللہ ﷺسے روایت کرتے ہیں یہ احادیث ان لوگوں کی اس تاویل کوباطل ثابت کرتی ہیں کہ یہ صرف چوروں سے متعلق ہیں اس لیے کہ چور زکاۃ نہیں مانگتے یہ سلطان کا کام ہے اس لیے فرمایااگر غلط طریقے سے زکاۃ وصول کرے (ناحق وغیر شرعی)۔اگر اہل حق متفق ہوجائیں تو اہل باطل ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے ۔جو لوگ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا عمل پیش کرتے ہیں تو اس میں محاصرہ ہے قتل کا نہیں ۔دوسری بات یہ ہے کہ قتال امام عادل کے جائزنہیں ہے اس لیے عثمان رضی اللہ عنہ کی مثال نہیں دی جاسکتی ۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ خروج وبغاوت کریں گے توخون خرابہ ہوگا ۔عزتیں پامال ہوں گی انتشار پھیل جائے گا ۔یہ بات بھی غلط ہے اس لیے کہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کرنے والا کبھی عزتیں پامال نہیں کرتا نہ ہی کسی کامال ناحق لیتا ہے نہ اس شخص کو کچھ کہتا ہے جو اس کے ساتھ نہیں لڑتا اگر اس نے ایسا کچھ کیا تو اس کے خلاف بھی خروج وبغاوت اور حملہ ہوگا۔اگر مراد یہ ہے منکرات کرنے والے یہ کام کریں گے تو اس لیے تو ان کے خلاف کاروائی کرنی ہے ان خرابیوں کو ہی تو تبدیل کرنا ہے ۔اگر یہ باتیں بغاوت کی راہ میں رکاوٹ ہیں تو پھر یہ باتیں جہاد کی راہ میں بھی رکاوٹ ہوں گی؟حالانکہ کوئی مسلمان بھی ایسا نہیں کہتا اگر یہی سوچ لیں کہ جہاد کریں گے تو نصاری مسلمان عورتوں اوربچوں کوغلام بنالیں گے ان کا مال اور ان کی جانیں تلف کردیں گے ان کی عزتیں پامال کرلیں گے ۔اس کے باوجود مسلمان اس بات پر متفق ہیں کہ جہاد واجب ہے ۔ان دونوں باتوں میں کوئی فرق نہیں ہے دونوں جہاد ہیں اور قرآن وسنت کی طرف دعوت ہے ۔
القول السدید:کیا اب یہ سب کچھ پڑھنے کے بعد بھی کہوگے کہ ان حکمرانوں کے خلاف خروج کرنے والے خارجی ہیں۔
 
شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65
میرے بھائی یہ حدیث ایسے لوگوں کے بارے نہیں ہے۔خوامخواہ ٹوچ مت لگاتے پھرا کریں،اہل علم کی رہنمائی لے لیا کریں۔
یہ حدیث خوارج کے بارے ہے،اور ابو زینب صاحب آپ سے دو ہاتھ آگے نکلے اور حکمرانوں کو خوارج قرار دینے پر تل پڑے۔۔۔ابتسامہ۔۔
ارے بھائی خوارج ہوتے ہی وہ ہیں جو حکمرانوں کے خلاف نکلتے ہیں،پھر حکمران خوارج کیسے ہوئے؟
کچھ تو خدا کا خوف کرو یار۔کیوں دین کا مذاق بنا رہے ہو؟جو منہ میں آتا ہے بن دیکھے لکھے جاتے ہو۔
القول السدید اللہ کا شکرہے کہ اس نے اس فورم پر تمہارا چہرہ بے نقاب کردیا ہے۔کسی نے کیا خوب تمہارے جیسےنظریات کےحامل لوگوں کے متعلق فرمایا ہےکہ ایسے لوگ طاغوتی حکمرانوں کے لئے مرجئہ اور مجاہدین کے لئے خوارج ہیں۔موصوف لکھتے ہیں :
ارے بھائی خوارج ہوتے ہی وہ ہیں جو حکمرانوں کے خلاف نکلتے ہیں،پھر حکمران خوارج کیسے ہوئے؟
حیرت کی بات یہ ہے کہ القول السدید علم سے بالکل کورے لگتے ہیں ۔لگتا ہے کہ ان صاحب کو اسلامی تاریخ کے کسی پہلو کا بھی علم نہیں ہے۔جماعۃ الدعوۃ نے ان کو جو تاریخ پڑھائی ہے وہ پاکستان کے طاغوتی حکمرانوں کی تاریخ پڑھائی ہے اور یہ ٹارگٹ ان کے حوالے کیا ہے کہ اپنی ساری زندگی ان طاغوتی حکمرانوں کی حمایت ان کی نصرت میں کھپادینا کیونکہ اس طرح سے ہم ان حکمرانوں سے دنیا کی زندگی کا مال ومتاع حاصل کرتے ہیں جو کہ ہمارے لئے بہت ضروری ہے۔ چاہے اس کے بدلے میں یہ لوگ ایمان سے یکسر خالی ہوجائیں۔دیکھئے کس قدر دیدہ دلیری سے طاغوتی حکمرانوں کی حمایت اور توثیق میں امت کے صالح ترین افراد کو خارجی بنادیا گیا ہے جنہوں نے ظالم حکمرانوں کے خلاف خروج کیا ۔ کس قدر بے شرمی اور ڈھٹائی کے ساتھ علماء سلف پر خارجیت کی تہمت لگائی گئی ہے۔اور ان طاغوتی حکمرانوں کے بارے میں جماعۃ الدعوۃ اور ان کے کارکنان کس قدر مخلص ہیں کہ رات ودن سوشل میڈیا پر ان کی اطاعت کا دم بھرتے رہتے ہیں ۔ان کی حکمرانی کو شرعی ثابت کرنے پر تلے رہتے ہیں۔ان کی اطاعت کے واجب ہونے کے فتاوی انٹرنیٹ پر شائع کرتے رہتے ہیں۔مسلمانوں پر ان کی اطاعت کو واجب قرار دیتے ہیں۔خواہ یہ حکمران سودی نظام کو اس ملک میں رائج کریں شراب خانے کھولیں ،زنا کے اڈے قائم کریں ۔ٹی چینلوں کے ذریعے سے مسلمانوں کے اندر بے حیائی اور فحاشی اور عریانی کو فروغ دیں۔طاغوت عصرامریکہ کا ساتھ دیں اور مسلمانوں کو قتل کریں ۔شریعت کا مطالبہ کرنے والوں مسلمانوں کو بے رحمانہ طریقے پر شہید کریں ۔ان کی لاشوں کی بے حرمتی کریںان سب باتوں کے باوجود جماعۃ الدعوۃ کے کارکنان بے شرمی اور ڈھٹائی سے مجاہدین اور علماء حقہ کے خلاف تکفیری خارجی ہونے کے فتاوی ڈاغتے رہتے ہیں۔اب ہم قارئین کو بتاتے ہیں کہ القول السدید کے اس غلیظ قول کی زد میں اس امت کے کیسے کیسے عظیم لوگ آئے ہیں:
عبداللہ بن زبیر ۔محمد ۔حسن بن علی ودیگر مہاجروانصار صحابہ رضی اللہ عنہم کا قول ہے جو یوم الحرہ قائم رہے تھے ۔ان صحابہ کا بھی قول ہے جو حجاج کے مقابلہ پر تھے جیسے انس بن مالک اور دیگر جن صحابہ رضی اللہ عنہم کا ہم نے ذکر کیا اور تابعین جیسے عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ ۔سعید بن جبیر ۔ابن البختری الطائی ۔عطاء السلمی الازدی ،حسن بصری ۔مالک بن دینار۔مسلم بن بشار ۔ابوالھوراء۔شعبی ۔عبداللہ بن غالب۔عقبہ بن عبدالغافر ۔عقبہ بن صہبان۔ماھان۔مطرف بن المغیرہ بن شعبہ۔ابی المعد۔حنظلہ بن عبداللہ۔ابی سح الہنائی ۔۔طلق بن حبیب۔مطرف بن عبداللہ بن السخیر،نصر بن انس۔عطاء بن السائب۔ابراہیم بن یزیدالتیمی۔ابوالحوساء ۔جبلہ بن زحر وغیرہ ۔ان کے بعد تابعین میں سے جیسے :عبداللہ بن عبدالعزیز بن عبداللہ بن عمر۔عبداللہ بن عمر۔محمد بن عجلان۔اور محمد بن عبداللہ بن الحسن اور ہاشم بن بشیر۔مطرکے ساتھی اور ابراہیم بن عبداللہ کے ساتھی
یہ تو ایک مختصر سے ناموں کی فہرست ہے جو کہ ہم نے یہاں ذکر کی ہے۔ورنہ معرکہ جماجم میں شامل ہزاروں تابعین محدثین اور فقہاء کرام شامل تھے جو کہ ظالم حکمرانوں کے خلاف خروج تھا۔دیکھا آپ نے کہ کس قدر ڈھٹائی سے امت کے صالح ترین افراد کو خارجیوں کی لسٹ میں داخل کردیا گیا۔کیونکہ معاملہ اپنے طاغوتی حکمرانوں کو بچانے کا تھا۔
اب ہم القول السدید سے ایک سوال پوچھتے ہیں جسے امام ابن حزم رحمہ اللہ نے اپنے معاصر ان لوگوں سے پوچھاتھا جو کہ ظالم حکمرانوں کے خلاف خروج کےمخالفین میں سے تھے:
ابن حزم رحمہ اللہ کہتے ہیں :ہم ان سے سوال کرتے ہیں کہ تم اس حکمران کے بارے میں کیا کہوگے جس نے اپنے اختیارات نصاری کے حوالے کردیئے ہیں نصاری ہی اس کے ساتھی اور فوج ہیں اورمسلمانوں پر جزیہ لگادیا ہے مسلمان بچوں پر تلواریں نکال لی ہیں مسلم عورتوں سے زناکو جائز کردیا ہے ۔جو بھی مسلمان مرد،عورت اوربچہ انہیں نظر آتا ہے اس کو مارتے ہیں جبکہ یہ حکمران خاموش تماشائی ہے اس کے باوجود خود کو مسلمان کہتا ہے نماز پڑھتا ہے ؟اگر یہ کہتے ہیں کہ اس حکمران کے خلاف خروج پھر بھی جائز نہیں ہے تو ان سے کہا جائے گا کہ اس طرح تو یہ تمام مسلمانوں کو ختم کردے گا اوراکیلا ہی رہ جائے گا اور ا س کے ساتھی کافر رہ جائیں گے ؟اگر یہ لوگ اس صورت میں بھی صبر کو جائز کہتے ہیں تو یہ اسلام کی مخالفت کرتے ہیں اس سے خارج ہوتے ہیں اور اگر یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس حکمران کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا چاہیے تو ہم کہیں گے کہ اگر نوے فی صد مسلمان مارے جاتے ہیں ان کی عورتیں پکڑ لی جاتی ہیں ان کا مال لوٹا جاتا ہے تو؟اگر یہ خروج سے پھر بھی منع کرتے ہیں تو اپنی بات کی مخالفت کرتے ہیں اوراگر خروج کو واجب کرتے ہیں تو ہم ان سے مزید کم کے بارے میں سوال کریں گے یہاں تک کہ ہم ان سے پوچھیں گے کہ ایک مسلمان مارا جائے اور ایک مسلمان عورت پکڑلی جائے یا ایک آدمی کا مال زبردستی لیا جائے تو؟اگر یہ فرق کرتے ہیں تو ان کی بات میں تضاد ہے اور یہ بات ان کی بلادلیل ہے جو جائز نہیں اور اگر یہ خروج کو لازم قرار دیتے ہیں تو تب یہ حق کی طرف رجوع کرتے ہیں ۔ہم ان سے سوال کرتے ہیں کہ اگر ایک ظالم حکمران کسی شخص کی بیوی بیٹی اور بیٹے کو زبردستی اپنے قبضے میں لے کر ان سے غلط اور فسق کے کام کروانا چاہے توکیا ایسے آدمی کو صرف اپنی جان بچانی چاہیے تو یہ ایسی بات ہے جو کوئی مسلمان نہیں کرسکتا اور اگر یہ کہتے ہیں کہ بیوی بچوں کو بچانے کے لیے لڑنا چاہیے تو یہ ہے حق اور صحیح بات اس طرح دیگر مسلمانوں کے مال وجان کے تحفظ کے لیے بھی حکمرانوں کے مقابلے پر آناچاہیے ۔ابومحمدکہتے ہیں :اگر معمولی سابھی ظلم ہوتو امام سے اس بارے میں بات کرنا واجب ہے اور اسے روکنا چاہیے اگر وہ رک جاتا ہے اور حق کی طرف رجوع کرتا ہے اور زناچوری وغیرہ کے حدود کے تیار ہوتا ہے تو اس کی اطاعت سے نکلنا نہیں چاہیے اور اگر ان واجبات کے نفاذ سے انکار کرتا ہے تواس کو ہٹاکر کسی اور کو اس کی جگہ امام مقرر کرنا چاہیے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:اور تعاون کرو نیکی اور تقوی پر اورگناہ وزیادتی پر تعاون مت کرو۔شریعت کے واجبات میں سے کسی کوضائع نہیں کرنا چاہیے ۔(الملل والاھواء والنحل لابن حزم :۴/۱۳۲-۱۳۵)
القول السدید دیکھو کس طرح سے امام ابن حزم نے تمہارے باطل افکار اور خیالات کی دھجیاں بکھیرکر رکھ دی ہیں ۔کیا پاکستان کے ان طاغوتی حکمرانوں نے اپنے تمام اختیارات صلیبیوں کے حوالے نہیں کررکھے ہیں ۔ان صلیبیوں کی خدمت گزاری کے لئے مسلمانوں پر ٹیکس نہیں لگائے۔ان صلیبیوں کو جو تیل فراہم کیاجاتا ہے وہ کتنا سستا ہوتا ہے اس تیل کے مقابلے پر جو یہ ظالم طاغوتی حکمران مسلمانوں کو مہنگا فروخت کرتے ہیں۔کوئی جواب ہے تمہارے پاس امام ابن حزم رحمہ اللہ کے سوال کا ؟؟؟اب کیا تم امام ابن حزم رحمہ اللہ پر بھی خارجی ہونے کا فتویٰ داغوگے ؟؟؟؟ یہ جو حکمران ہمارے دور میں موجود ہیں یہ تو طاغوتی حکمران ہیں ۔یہ تو پہلے کے حکمرانوں کی طرح محض ظالم نہیں بلکہ ان طاغوتی صلیبی حکمرانوں نے تو حدود اللہ کا اس زمین سے ختم کرکے رکھ دیا ہے ۔ اللہ کی ایک حد کا بھی وجود ان کی حکمرانی میں نہیں پایا جاتا ہے۔ان طاغوتی حکمرانوں نے انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کو نافذ کررکھا ہے اور اللہ کی شریعت کو دور پرے پھینک دیا ہے۔ان کی پارلیمنٹ میں اللہ کی شریعت کا داخلہ ممنوع ہے۔دیکھو امت کے علماء ظالم حکمرانوں کے بارے میں کیا کہتے ہیں جبکہ اس کے مقابلے پر تمہارے حکمران جن کی تم حمایت میں ہر وقت رطب اللسان رہتے ہو یہ تو ارتداد کی تمام حدیں تک پھلانگ چکے ہیں۔ذرا موازنہ تو کرو کہ کس طرح تم ان علماء پر خارجی ہونے کی تہمت لگارہے ہو۔اور تم ایسا کیوں نہ کرو کیونکہ تم اہل حق کے مقابلے پر خارجی ہو ۔اور طاغوتی حکمرانوں کے لئے مرجئہ ہو:
امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :جب امام کا تقرر ہوجائے اور اس کے بعد وہ فسق کرے تو جمہور کہتے ہیں اس کی امامت فسخ ہوجائے گی اس کو ہٹاکر کسی اور کو امام بنایاجائے گا اگر اس نے فسق ظاہری اور معلوم کا ارتکاب کیا ہو۔اس لیے کہ یہ ثابت ہوچکا ہے کہ امام کا تقرر مقصد کے لیے ہوتا ہے حدود کا نفاذ اور حقوق کی ادائیگی وتحفظ یتامی کے مال کی حفاظت مجرموں پر نظر رکھنا وغیرہ مگر جب وہ خود فاسق ہوگا تو ان امور کی انجام دہی نہیں کرسکے گا ۔اگر ہم فاسق کے لیے امام برقرار رکھناجائز قرار دیدیں تو جس مقصد کے لیے امام بنایا جاتا ہے وہ مقصد باطل ہوجائے گا اسی لیے تو ابتدائً ہی فاسق کا امام کے لیے تقرر جائز نہیں ہے کہ مقصد امامت فوت ہوجاتا ہے۔کچھ لوگ کہتے ہیں جب تک امام کفر نہ کرے اسے ہٹایا نہیں جائے گا یا نماز ترک نہ کرے یا اور کوئی شریعت کاکام ترک کردے جیسا عبادہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے:الَّایہ کہ تم اما م میں واضح کفر دیکھ لو جس پر تمہارے پاس دلیل ہو۔دوسری حدیث میں ہے جب تک نماز قائم کرتا رہے ۔ام سلمہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے تم پر امیر مقرر کیے جائیں گے جن کی کچھ باتیں تمہیں پسند ہوں گی کچھ ناپسند ہوں گی جس نے ناپسند کیا وہ بری ہوا جس نے انکار کیا وہ محفوظ رہا جس نے تابعداری کی اور راضی ہوا ۔لوگوں نے کہا اللہ کے رسول ﷺکیا ہم ان سے قتال نہ کریں ؟آپ ﷺنے فرمایا :نہیں جب تک کہ نماز قائم کرتے رہیں ۔دل سے ناپسند کرنا مراد ہے ۔(قرطبی :۱/۲۸۶-۲۸۷)
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :میرا عہد ظالموں کو نہیں پہنچتا اس آیت کی تفسیر میں قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں :ابن خویزمنداد رحمہ اللہ نے کہا ہے جو بھی ظالم ہوتا ہے وہ نہ نبی بنتا ہے نہ خلیفہ نہ حاکم نہ مفتی نہ نماز کے امام نہ اس کی روایت قبول کی جاتی ہے نہ احکام میں اس کی گواہی قبول کی جاتی ہے ۔جب تک اپنے فسق کی وجہ سے معزول نہ کردیاجائے اہل حل وعقد اس کو معزول کردیں۔(قرطبی:۲/۱۱۵-۱۱۶)
اشعری کہتے ہیں ظالم حکمرانوں کے خلاف خروج بعض اہل سنت کا مذہب ہے جبکہ اہل سنت کی ایک جماعت اور خوارج ،معتزلہ زیدیہ اور بہت سے مرجئہ کہتے ہیں کہ فاسق امام کے خلاف خروج اور قوت کا استعمال واجب ہے۔(مقالات الاسلامیین:۱۴۵)
ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں :ابن التین نے داؤدی سے نقل کیا ہے کہ امراءِ ظلم کے بارے میں علماء کی رائے یہ ہے کہ اگر بغیر فتنہ اور ظلم کے اس کو ہٹانا ممکن ہوتو ضروری اور واجب ہے ورنہ صبر واجب ہے بعض نے کہا کہ فاسق کو حکومتی عہدہ دینا ہی جائز نہیں ہے اگر عہدہ حاصل کرنے کے بعد ظلم کیا تو اس کے ہٹانے میں اختلاف ہے صحیح بات یہ ہے کہ بغاوت منع ہے جب تک کہ اس سے واضح کفر صادر نہ ہو۔(فتح الباری:۱۳/۸)
امام ابوحنیفہ کا مذہب ہے کہ ظالم حکمرانوں کے خلاف بغاوت کرنی چاہیے جیسا کہ ابواسحاق الفزاری نے امام ابوحنیفہ سے کہا کہ آپ کو اللہ کا ڈر نہیں ہے کہ میرے بھائی کو ابراہیم (ابراہیم بن عبداللہ بن الحسن ہیں )کی معیت میں بغاوت پر اکسایا ،آمادہ کیا؟امام صاحب نے کہا کہ اگر وہ بدر میں مارا جاتا تو؟اللہ کی قسم میرے نزدیک یہ بدر صغری ہے۔(شذرات الذہب:۱/۴۴،تاریخ بغداد:۱۳/۳۸۴)
جصاص رحمہ اللہ فرماتے ہیں :امام ابوحنیفہ کا مذہب مشہور ہے کہ ظالم حکمرانوں کے خلاف قتال کرنا چاہیے ۔(احکام القرآن:۱/۸۶)
ظالم حکمرانوں کے خلاف خروج کرنےکے بارے میں علماء کے اقوال
ظالم حکمرانوں کے خلاف خروج وبغاوت تابعین کے بعد بھی ایک مذہب کی شکل میں باقی رہا جیسا کہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے احمد بن نصر الخزاعی شہیدرحمہ اللہ کے حالات زندگی میں لکھا ہے کہ احمد بن نصر رحمہ اللہ عالم تھا ،دیانتدار ،عمل صالح کرنے والا ، مجتہد تھاان ائمہ سنت میں سے تھا جو امربالمعروف ونہی عن المنکر کرتے قرآن کو مخلوق کہنے والے واثق باللہ کے خلاف خروج کیا ۔
ظالم حکمرانوں کے خلاف خروج کرنےکے بارے میں امام غزالی رحمہ اللہ کا قول۔
غزالی فرماتے ہیں :ظالم حکمران کو اختیارات کے استعمال سے روک لینا چاہیے وہ معزول کیے جانے کے لائق ہے حکمران بنائے جانے کے نہیں(احیاء العلوم:۲/۱۱۱) ۔ابوالوزیر رحمہ اللہ حسین رضی اللہ عنہ کے خروج کے بارے میں کہتے ہیں :(فقہاء کے کلام میں )اس بات کی تحسین ہے جو حسین رضی اللہ عنہ نے یزید کے ساتھ اور جو ابن الاشعت نے حجاج کے ساتھ کیا جمہور فقہ نے خروج کو مخصوص کردیا ہے یزید وحجاج کی طرح کے حکمرانوں کے ساتھ کہ ان جیسا ظالم وجابر ہو تو خروج ہوسکتا ہے (الروض الباسم عن سنۃ ابی القاسم:۲/۳۴)۔مزید فرماتے ہیں :ظالم حکمرانوں کے خلاف خروج جو ممنوع ہے اس منع سے وہ حکمران مستثنیٰ ہے جس کا ظلم اور فساد بہت بڑھ گیا ہو جیسے یزید بن معاویہ اور حجاج بن یوسف ایسے حالات میں کوئی بھی اس طرح کے اشخاص کی امامت کا قائل نہیں (ایضاً)۔
ظالم حکمرانوں کے خلاف خروج کرنےکے بارے میں ابن الوزیر رحمہ اللہ کا قول ۔
ابن الوزیر رحمہ اللہ نے لکھا ہے :کہ ابن حزم رحمہ اللہ نے ابوبکر بن مجاہد پر ردّ کیا ہے اس بات پر کہ اس نے ظالموں کے خلاف خروج کو حرام قرار دیا ہے ابن حزم aنے اس کو ردّ کیا ہے اور دلیل کے طور پر یزید کے خلاف حسین رضی اللہ عنہ کے خروج اور حجاج کے خلاف ابن الاشعت کے خروج کو دلیل بنایا ہے جبکہ ابن الاشعت کے ساتھ کبار تابعین بھی تھے ۔(الروض الباسم فی الذب عن سنۃ ابی القاسم لابن الوزیر:۲/۳۴)
ظالم حکمرانوں کے خلاف خروج کرنے والے کبار صحابہ وتابعین کے نام۔
۔عبداللہ بن زبیر ۔محمد ۔حسن بن علی ودیگر مہاجروانصار صحابہ رضی اللہ عنہم کا قول ہے جو یوم الحرہ قائم رہے تھے ۔ان صحابہ کا بھی قول ہے جو حجاج کے مقابلہ پر تھے جیسے انس بن مالک اور دیگر جن صحابہ رضی اللہ عنہم کا ہم نے ذکر کیا اور تابعین جیسے عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ ۔سعید بن جبیر ۔ابن البختری الطائی ۔عطاء السلمی الازدی ،حسن بصری ۔مالک بن دینار۔مسلم بن بشار ۔ابوالھوراء۔شعبی ۔عبداللہ بن غالب۔عقبہ بن عبدالغافر ۔عقبہ بن صہبان۔ماھان۔مطرف بن المغیرہ بن شعبہ۔ابی المعد۔حنظلہ بن عبداللہ۔ابی سح الہنائی ۔۔طلق بن حبیب۔مطرف بن عبداللہ بن السخیر،نصر بن انس۔عطاء بن السائب۔ابراہیم بن یزیدالتیمی۔ابوالحوساء ۔جبلہ بن زحر وغیرہ ۔ان کے بعد تابعین میں سے جیسے :عبداللہ بن عبدالعزیز بن عبداللہ بن عمر۔عبداللہ بن عمر۔محمد بن عجلان۔اور محمد بن عبداللہ بن الحسن اور ہاشم بن بشیر۔مطرکے ساتھی اور ابراہیم بن عبداللہ کے ساتھی
ظالم حکمرانوں کے خلاف خروج کرنے والے فقہاء کا قول ۔
فقہاء میں سے یہی قول ابوحنیفہ ،حسن بن حییٔ۔شریک ۔مالک۔شافعی۔داؤد وغیرہ ۔ہم نے قدیم وجدید افراد کی رائے نقل کی ہے ان میں سے کچھ ایسے ہیں جنہوں نے منکر کے خلاف فتوے دیئے اور کچھ ایسے ہیں جو باقاعدہ تلواریں لیکر منکر کے خلاف نکلے تھے ۔
ظالم حکمرانوں کے خلاف خروج کرنےکے بارے میں ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کا قول ۔
ابن التین نے داؤدی سے نقل کیا ہے ۔علماء کا مذہب یہ ہے کہ اگر ظالم حکمران کو بغیر ظلم وفتنہ کے ہٹایا جاسکتا ہو تو معزول کردینا واجب ہے ورنہ صبر کرنا واجب ہے۔(فتح الباری :۳/۸)
ظالم حکمرانوں کے خلاف خروج کرنےکے بارےابو محمد امام ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
بومحمد کہتے ہیں :مذکورہ گروہ نے پہلے احادیث سے استدلال کیا ہے کہ اللہ کے رسول کیا ہم ان سے جنگ کریں ؟آپ ﷺنے فرمایا:نہیں جب تک وہ نمازیں پڑھتے رہیں ۔یایہ کہ جب تک تم ظاہر اور صریح کفر نہ دیکھ لو،یا وہ حدیثیں جن میں صبر کو واجب کیا گیا ہے یا وہ کہ جس میں کہا گیا ہے مقتول بن جاؤ قاتل نہ بنو۔(طبرانی)اللہ کافرمان ہے کہ آدم کے دوبیٹوں کا واقعہ انہیں سنادو جب دونوں نے قربانی کی ایک کی قبول ہوئی دوسرے کی نہیں ہوئی ۔ابومحمد کہتے ہیں :ان سب دلائل میں ان کے کام کی کوئی چیز نہیں ہے ہم نے ان میں سے ایک ایک حدیث کی اچھی طرح تحقیق کی ہے اور اپنی کتاب الاتصال الی فہم معرفۃ الخصال میں اسے لکھا ہے یہاں اس کا خلاصہ پیش کررہے ہیں:
صبر کرنے اور پیٹھ پر مار کھانے کا جو حکم ہے یہ تب ہے جب امام برحق ہو یعنی امام بننے کی اہلیت وصلاحیت رکھتا ہو ایسے امام کے دور میں صبر کرنا واجب ہے اور اگر ایک شخص صبر نہیں کرے گا تو وہ فاسق اور اللہ کا نافرمان ہے ۔اور اگر امام برحق نہ ہو بلکہ باطل ہو تو رسول ﷺایسے امام کے لیے صبر کا حکم نہیں دے سکتے اس کی دلیل اللہ کا یہ فرمان ہے ۔نیکی اور تقوی پر ایک دوسرے سے تعاون کرو گناہ اور سرکشی پر تعاون مت کرو۔ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ رسول ﷺکا کلام اللہ کے کلام کے خلاف نہیں ہوسکتا اس لیے کہ اللہ فرماتا ہے اور (محمدﷺ)اپنی خواہش سے نہیں بولتے یہ صرف وحی ہے جو اس کی طرف کی گئی ہے ۔دوسری جگہ فرمان ہے:اگر یہ اللہ کے علاوہ کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت زیادہ اختلاف پاتے ۔ثابت ہوا کہ جو کچھ اللہ کے رسول ﷺکہتے ہیں :وہ اللہ کی طرف سے نازل شدہ وحی ہے لہٰذا اس میں تعارض وتناقض نہیں ہوسکتا ۔لہٰذا ثابت یہ ہوا کہ کسی بھی شخص کا مال ناحق طور پر لینا یاکسی کو ناحق مارنا پیٹنا گناہ اور زیادتی ہے حرام ہے ۔رسول ﷺنے فرمایاہے:تمہارا خون ،مال اور عزتیں تم پر حرام ہیں(بخاری۔مسلم۔ابوداؤد۔ترمذی۔احمد) ۔جب اس میں اختلاف اور شک نہیں کہ کسی مسلمان کا مال ناحق لینا اور اس کومارنا پیٹنا ظلم ہے اور وہ اس ظلم کو روکنے پر قادر ہو تو کسی بھی ممکن طریقے سے اس ظلم اور گناہ میں تعاون کرنا یہ قرآن کی رو سے حرام ہے ۔اس کے علاوہ دیگر احادیث اور ابنی آدم کا قصہ بھی دلیل نہیں بن سکتا اس لیے کہ قصہ ابنی آدم الگ شریعت تھی ہماری نہیں تھی اللہ کا فرمان ہے:تم میں سے ہر ایک کے لیے ہم نے شریعت اورطریقہ بنایاہےجبکہ صحیح احادیث میں ہے کہ جو تم میں سے منکر دیکھے اسے اپنے ہاتھ سے روکے اگر طاقت نہ ہو تو زبان سے ورنہ دل سے اور یہ کمزور ایمان ہے اس کے بعدایمان کاکوئی درجہ نہیں ہے ۔آپ eکا فرمان ہے :معصیت میں اطاعت نہیں ہے اطاعت میں اطاعت ہے ۔فرمان ہے:جو اپنے مال، دین اور عزت کی حفاظت میں قتل ہوجائے وہ شہید ہے(احمد۔طبرانی)۔فرمان ہے:تم ضرور معروف کاحکم کروگے منکرسے روکو گے ورنہ سب پر اللہ کاعذاب آئے گا ۔بظاہر احادیث (صبر اور امر بالمعروف وغیرہ )باہم معارض ہیں مگر صحیح بات یہ ہے کہ ان میں سے کچھ ناسخ اور کچھ منسوخ ہیں یعنی ایک حکم ناسخ دوسرا منسوخ ہے ۔ ناسخ کون سا ہے منسوخ کون سا تو معلوم ہوتا ہے کہ جن احادیث میں قتال کی نفی ہے وہ منسوخ ہیں اس لیے کہ یہ حکم شروع اسلام میں تھا اور ان کو ماننے سے شریعت میں اضافہ لازم آتاہے کہ شریعت میں قتال کا حکم ہے ۔لہٰذا منسوخ کو لینا اور ناسخ کو ترک کرنا۔شک کو لینا اور یقین کو چھوڑ دینا محال ہے ۔اگر کوئی یہ دعوی کرے کہ یہ احادیث یا حکم منسوخ ہوگیا تھا مگر اب پھر ناسخ بن گیا تویہ دعوی باطل ہے یہ کوئی بے علم ہی کرسکتا ہے اللہ پر لاعلمی میں بات کی ہے جو جائز نہیں ہے۔اگر ایسا ہوتا تو اللہ اس کو بغیر دلیل وبرہان کے نہ چھوڑتا اس لیے کہ قرآن تبیان لکل شییٔ ہے۔دوسری دلیل اللہ کا یہ فرمان ہے :اگر مومنوں میں سے دوگروہ باہم قتال کریں تو تم ان میں صلح کردیا کرو اگر ایک گروہ دوسرے پر زیادتی کرے تو اس کے ساتھ قتال کرو جب تک وہ باز نہ آئے ۔کسی مسلمان نے اس بات میں اختلاف نہیں کیا ہے کہ فرقہ باغیہ سے قتال کا حکم دینے والی یہ آیت محکم ہے منسوخ نہیں ہے یہ آیت مذکورہ احادیث کا فیصلہ کررہی ہے جو حدیثیں اس آیت کے موافق ہیں وہ ناسخ او رجو مخالف ہیں وہ منسوخ ہیں ۔بعض لوگوں نے کہا ہے کہ یہ آیت اور اس کے موافق مذکورہ احادیث چوروں کے بارے میں سلطان کے بارے میں نہیں ہیں ۔یہ بات بھی غلط اور باطل ہے اس لیے کہ بغیر دلیل کے کہی گئی ہے یہ دعوی کرنے والا یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ احادیث ایک گروہ کے بارے میں ہیں دوسرے کے بارے میں نہیں ہیں یا ایک دوسرے کے لیے ہیں دوسرے کے لیے نہیں ہے۔ایک شخص نے رسول ﷺسے پوچھا کہ ایک آدمی مجھ سے ناحق میرا مال مانگ رہا ہے ۔آپ ﷺنے فرمایا :اسے نہ دو ۔اس نے کہا اگر وہ مجھ سے لڑائی کرے ۔آپ ﷺ نے فرمایا :تم بھی اس سے لڑو ۔اس نے کہا اگر وہ میرے ہاتھوں مارا جائے ؟ آپ ﷺنے فرمایا :وہ جہنم میں جائے گا۔اس نے کہا اگر میں مارا گیا؟آپﷺنے فرمایا :تم جنت میں جاؤگے ۔(بخاری۔مسلم۔ترمذی۔الفاظ کچھ اور ہیں )ایک اورحدیث میں ہے مسلمان مسلمان کا بھائی ہے اس کا مال نہیں چھینتا اس پر ظلم نہیں کرتا۔ایک حدیث میں ہے جس نے (زکاۃ)صحیح طریقے سے مانگی اسے دیدو او رجو صحیح طریقے سے نہ مانگے اسے نہ دو۔(بخاری)۔یہ حدیث صحیح ہے ثقات سے ثابت ہے انس بن مالک رضی اللہ عنہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے وہ رسول اللہ ﷺسے روایت کرتے ہیں یہ احادیث ان لوگوں کی اس تاویل کوباطل ثابت کرتی ہیں کہ یہ صرف چوروں سے متعلق ہیں اس لیے کہ چور زکاۃ نہیں مانگتے یہ سلطان کا کام ہے اس لیے فرمایااگر غلط طریقے سے زکاۃ وصول کرے (ناحق وغیر شرعی)۔اگر اہل حق متفق ہوجائیں تو اہل باطل ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے ۔جو لوگ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا عمل پیش کرتے ہیں تو اس میں محاصرہ ہے قتل کا نہیں ۔دوسری بات یہ ہے کہ قتال امام عادل کے جائزنہیں ہے اس لیے عثمان رضی اللہ عنہ کی مثال نہیں دی جاسکتی ۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ خروج وبغاوت کریں گے توخون خرابہ ہوگا ۔عزتیں پامال ہوں گی انتشار پھیل جائے گا ۔یہ بات بھی غلط ہے اس لیے کہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کرنے والا کبھی عزتیں پامال نہیں کرتا نہ ہی کسی کامال ناحق لیتا ہے نہ اس شخص کو کچھ کہتا ہے جو اس کے ساتھ نہیں لڑتا اگر اس نے ایسا کچھ کیا تو اس کے خلاف بھی خروج وبغاوت اور حملہ ہوگا۔اگر مراد یہ ہے منکرات کرنے والے یہ کام کریں گے تو اس لیے تو ان کے خلاف کاروائی کرنی ہے ان خرابیوں کو ہی تو تبدیل کرنا ہے ۔اگر یہ باتیں بغاوت کی راہ میں رکاوٹ ہیں تو پھر یہ باتیں جہاد کی راہ میں بھی رکاوٹ ہوں گی؟حالانکہ کوئی مسلمان بھی ایسا نہیں کہتا اگر یہی سوچ لیں کہ جہاد کریں گے تو نصاری مسلمان عورتوں اوربچوں کوغلام بنالیں گے ان کا مال اور ان کی جانیں تلف کردیں گے ان کی عزتیں پامال کرلیں گے ۔اس کے باوجود مسلمان اس بات پر متفق ہیں کہ جہاد واجب ہے ۔ان دونوں باتوں میں کوئی فرق نہیں ہے دونوں جہاد ہیں اور قرآن وسنت کی طرف دعوت ہے ۔
القول السدید:کیا اب یہ سب کچھ پڑھنے کے بعد بھی کہوگے کہ ان حکمرانوں کے خلاف خروج کرنے والے خارجی ہیں۔
 

مون لائیٹ آفریدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 30، 2011
پیغامات
640
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
127
ارے بھائی خوارج ہوتے ہی وہ ہیں جو حکمرانوں کے خلاف نکلتے ہیں
کیسے حکمران ؟ اس کی وضاحت ضروری ہیں ۔۔
1۔۔۔۔ وہ جو شریعت کے نافذ کرنے والے ہیں یا
2۔۔۔وہ جو کہ لارڈمیکالے کے قوانین کو نافذ کرنے والے اوررکھوالے اور جوحربی کافرامریکہ وغیرہ کے اتحادی ہیں ۔
 
Top