ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
بات تو حقیقت پسند ہونے اور دلائل و حقائق کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کی ہے ورنہ تو یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہم تب تک نہیں مانیں گے جب تک فرشتے آکر یہ گواہی نہ دیں کہ قراء ات متنوع واقعی قرآن ہیں۔اور امر واقعہ یہ ہے کہ ایسا معجز ہ تو اپنی رسالت منوانے کے لئے آپﷺبھی دکھانے سے عاجز و قاصررہے تھے جب کفار نے یہ مطالبہ کیا کہ’’وَقَالُوا لَنْ نُؤمِنَ لَکَ حَتّٰی تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْاَرْضِ یَنبُوعًا ٭ أَوْ تَکُونَ لَکَ جَنَّۃٌ مِّن نَّخِیلٍ وَعِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الْاَنْہٰرَ خِلٰلَہَا تَفْجِیرًا ٭ اَو تُسْقِطَ السَّمَآئَ کَمَا زَعَمْتَ عَلَیْنَا کِسَفًا اَوْ تَاْتِیَ بِاللّٰہِ وَالْمَلٰٓئِکَۃِ قَبِیلًا ‘‘
’’اور کہنے لگے ہم آپ پر ایمان نہ لائیں گے جب تک آپ ہمارے لیے زمین سے چشمہ نہ جاری کر دیں۔یا آپ کا کھجوروں اور انگوروں کا باغ ہو تو آپ اس میں جا بجا نہریں بہا دیں ۔یا آپ آسمان کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے ہم پر گرا دیں جیسے آپ کا دعویٰ ہے یا اللہ اور فرشتوں کوسامنے لے آئیں‘‘ (الاسراء :۹۰،۹۲)
تو ایسی صورت میں ہم بھي معذور ہیں کہ دلیل و براہان سے سمجھانے کی کو شش کریں اور ویسے بھی اس موضوع پر اتنی ضخیم اور دلائل وبراہین سے مزین دو اشاعتوں کے باوجود اگر کوئی میں نہ مانوں کی ضد پر قائم رہے تو پھر ہم دل سے سمجھتے ہیں کہ اس سے بڑا ’محقق کوئی نہیں ہے۔ایسی صورت کا سامنا ہمیں حالیہ دنوں میں اس وقت کرنا پڑا جب آزاد کشمیر سے ایسے ہی ایک ’محقق ‘سید سلیم شاہ صاحب سابق عمید کلیۃ الدعوۃ آزادکشمیر کی ’علمی ‘تحر یر ہمار ے سامنے آئی۔ موصوف نے بھر پور محنت سے رشد حصہ اوّل کو حرف بحرف پڑھا اور قارئین کو یہ نتائج دیئے کہ مذکورہ شمارہ تضادات کا مجموعہ ہے۔ نام کے ساتھ لگے لاحقے ،سابقے یہ تاثر دے رہے تھے کہ موصوف علمی دنیا کے بحربیکراں ہوں گے، لیکن انداز تحقیق اور اسلوب تحریر کی چالاکیوں سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جناب کے اپنے سابقے ، لاحقے بھی ہاتھ باندھے یوں عرض کناں ہیں کہ حضرت! اگر معیار تحقیق یہی ہے توخواہ مخواہ ہماری حرمت پامال کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟یہ کام تو صرف سلیم لکھنے سے بھی چل سکتا تھا۔حالانکہ یہ محقق بدقسمتی سے جنہیں رُشد کے تضادات بتلا رہے ہیں وہ اصلاً جناب کے ذہنی انتشار ، متعصب نگاہ اورعلم قراء ات سے لاعلمی کے دلائل اور نتائج ہیں۔ ہمارا یہ سوئے ظن بے سبب نہیں ہے۔ہم ایسا ہر گز نہ سوچتے اگرجناب نے اس شمارے میں موجود قراء ات متنوعہ پر اجماع امت کے دلائل، چاروں مکاتب فکر کے نمائندہ علماء کے فتاویٰ جات اور ثبوت قراء ات پربیسیوں صحیح احادیث پر ذرا سی بھی نظر دوڑائی ہوتی۔ کیا ایک حقیقی محقق کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ اساسی دلائل سے چشم پوشی کرتے ہوئے نتائج تحقیق عوام الناس کے سامنے لائے؟ اگریہی حقیقی معیار تحقیق ہے تو پھرتعصب کس جانور کا نام ہے جس کو لوگ نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اہل علم کے ہاں جسے گالی کا درجہ حاصل ہے؟
’’اور کہنے لگے ہم آپ پر ایمان نہ لائیں گے جب تک آپ ہمارے لیے زمین سے چشمہ نہ جاری کر دیں۔یا آپ کا کھجوروں اور انگوروں کا باغ ہو تو آپ اس میں جا بجا نہریں بہا دیں ۔یا آپ آسمان کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے ہم پر گرا دیں جیسے آپ کا دعویٰ ہے یا اللہ اور فرشتوں کوسامنے لے آئیں‘‘ (الاسراء :۹۰،۹۲)
تو ایسی صورت میں ہم بھي معذور ہیں کہ دلیل و براہان سے سمجھانے کی کو شش کریں اور ویسے بھی اس موضوع پر اتنی ضخیم اور دلائل وبراہین سے مزین دو اشاعتوں کے باوجود اگر کوئی میں نہ مانوں کی ضد پر قائم رہے تو پھر ہم دل سے سمجھتے ہیں کہ اس سے بڑا ’محقق کوئی نہیں ہے۔ایسی صورت کا سامنا ہمیں حالیہ دنوں میں اس وقت کرنا پڑا جب آزاد کشمیر سے ایسے ہی ایک ’محقق ‘سید سلیم شاہ صاحب سابق عمید کلیۃ الدعوۃ آزادکشمیر کی ’علمی ‘تحر یر ہمار ے سامنے آئی۔ موصوف نے بھر پور محنت سے رشد حصہ اوّل کو حرف بحرف پڑھا اور قارئین کو یہ نتائج دیئے کہ مذکورہ شمارہ تضادات کا مجموعہ ہے۔ نام کے ساتھ لگے لاحقے ،سابقے یہ تاثر دے رہے تھے کہ موصوف علمی دنیا کے بحربیکراں ہوں گے، لیکن انداز تحقیق اور اسلوب تحریر کی چالاکیوں سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جناب کے اپنے سابقے ، لاحقے بھی ہاتھ باندھے یوں عرض کناں ہیں کہ حضرت! اگر معیار تحقیق یہی ہے توخواہ مخواہ ہماری حرمت پامال کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟یہ کام تو صرف سلیم لکھنے سے بھی چل سکتا تھا۔حالانکہ یہ محقق بدقسمتی سے جنہیں رُشد کے تضادات بتلا رہے ہیں وہ اصلاً جناب کے ذہنی انتشار ، متعصب نگاہ اورعلم قراء ات سے لاعلمی کے دلائل اور نتائج ہیں۔ ہمارا یہ سوئے ظن بے سبب نہیں ہے۔ہم ایسا ہر گز نہ سوچتے اگرجناب نے اس شمارے میں موجود قراء ات متنوعہ پر اجماع امت کے دلائل، چاروں مکاتب فکر کے نمائندہ علماء کے فتاویٰ جات اور ثبوت قراء ات پربیسیوں صحیح احادیث پر ذرا سی بھی نظر دوڑائی ہوتی۔ کیا ایک حقیقی محقق کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ اساسی دلائل سے چشم پوشی کرتے ہوئے نتائج تحقیق عوام الناس کے سامنے لائے؟ اگریہی حقیقی معیار تحقیق ہے تو پھرتعصب کس جانور کا نام ہے جس کو لوگ نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اہل علم کے ہاں جسے گالی کا درجہ حاصل ہے؟