چند شاندارتاریخی مثالیں:
٭… کسی گورنر نے سیدناابوہریرہ ؓ کو بلا بھیجا اور کہا : وہ مجھے یا اہل دربار کواحادیث سنائیں۔پس پردہ اس نے کاتب کو اس طرح بٹھایا کہ اس کا علم سیدنا ابوہریرہ ؓکو نہ ہوسکا۔سیدنا ابوہریرہؓ نے احادیث سنادیں۔ کاتب نے انہیں لکھ لیا اور گورنر نے انہیں محفوظ کرلیا۔ سال بعد دوبارہ سیدنا ابو ہریرہؓ کو بلوا بھیجااور کہا: مجھے پچھلے سال والی احادیث دوبارہ سنائیں ۔ اس مرتبہ بھی اس نے کاتب کو یہ کہہ کر چھپا یا کہ اگر ہماری لکھی احادیث میں جونہی یہ غلطی کریں تو خبردار کرے۔ سیدنا ابوہریرہ ؓ نے دوبارہ بغیر کسی غلطی یا کمی و بیشی کے وہی احادیث سنا دیں۔(مستدرک: ۳؍ ۵۱۰) ۔گورنر کی چال ناکام رہی۔
٭… بعینہ یہی واقعہ امام زہری ؒ (۵۸۔۱۲۴ھ)کے ساتھ پیش آیا۔آپ بھی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی طرح مدینہ منورہ کے ایک ایک انصاری کے گھرجا کر مردوں حتی کہ پردہ نشین خواتین سے جناب رسالت مآب ﷺ کے اقوال وحالات پوچھتے۔ کسی خلیفہ نے ان سے درخواست کی : میرے بچے کو چند احادیث املاء کرادیں۔ خلیفہ نے کاتب کو بلوایا۔ امام محترم نے چار سو احادیث املاء کرا دیں۔عرصہ بعد خلیفہ نے امام زہریؒ سے کہا: وہ تحریر کہیں کھو گئی ہے آپ ذرا دوبارہ وہی احادیث لکھوادیں ۔ امام زہریؒ نے ان احادیث کو پھر املاء کرادیا۔ ان کے جانے کے بعد خلیفہ نے پہلی تحریر کو دوسری تحریر کے ساتھ ملا کر دیکھا تو حیرت میں ڈوب گیا کہ امام محترم نے ایک حرف میں بھی غلطی نہیں کی تھی۔( ترجمہ زہری تہذیب التہذیب)