السلام علیکم،
مقالے کا انتظار رہے گا۔ اصلاحی صاحب جو نظم قرآن، سورۃ کے عمود اور سورتوں کے گروپ کی بات کرتے ہیں اسے کس حد تک درست کہا جا سکتا ہے؟
قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی کلام ہے جو نظم سے خالی نہیں ہو سکتا۔ قرآن کریم کی تفسیر میں ربط ونظم اور مناسبت تلاش کرنے سے مفہوم سمجھنا آسان ہو جاتا ہے۔
لیکن!
یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ’فراہی مکتبۂ فکر‘ کے لوگ جو بھی نظم بیان کرتے ہیں وہ
اجتہادی ہے، علمی نکتے اور فوائد قسم کی شے ہے۔ اسے قطعی اللہ کی مراد قرار دے دینا اور
اس کی بناء پر آیات کریمہ کی مسلمہ (نبی کریمﷺ اور صحابہ کرام کی) تفاسیر کو یکسر ردّ کرنا بہت بڑی غلطی ہے۔
تفسیر بالماثور (نبی کریمﷺ اور صحابہ کرام وغیرہ سے منقول تفسیر) کی روشنی میں نظم تلاش کرنا بہت مبارک عمل ہے، جو آیات کو سمجھنے میں ممد ومعاون ثابت ہوتا ہے۔ لیکن اس کے
خلاف اپنے بیان کردہ اجتہادی نظم کو اصل اور قرآن کی واحد اور حتمی تفسیر قرار دینا در اصل تشریع سازی کے مترادف ہے، کیونکہ نبی کریمﷺ پر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم نازل اس لئے فرمایا تھا کہ وہ اس کی تبیین وتفسیر لوگوں کے سامنے واضح کریں۔
ان حضرات کا غلو یہ ہے کہ یہ اپنے بیان کیے گئے نظم کو قطعی اور تفسیر القرآن بالقرآن باور کراتے ہیں۔ اور ان کا نظریہ یہ بھی ہے کہ قرآن کریم
قطعی الدّلالہ ہے۔ یعنی ہر ہر آیت کا ایک ہی مفہوم ہے۔ اس طرح گویا آیات وسور قرآنی کا (اپنا) اجتہادی نظم بیان کرکے اسے حتمی اور واحد تفسیر قرار دیتے ہیں اور کئی مقامات پر اسی بناء پر نبی کریمﷺ، صحابہ کرام کی بیان کردہ تفاسیر کو پرکاہ کی حیثیت نہ دیتے ہوئے ردّ کر دیتے ہیں۔
اور
لطیفہ یہ ہے کہ مولانا فراہی، امین احسن اصلاحی اور جاوید غامدی کی نظم قرآنی کی بناء پر کی گئی تفسیروں میں آپس میں بہت اختلاف ہے۔ بلکہ مولانا فراہی جنہوں نے یہ نظریہ پیش کیا گیا انہوں نے قرآنی سورتوں کے
9 عمود بنائے تھے۔ امین احسن اصلاحی صاحب (جنہوں نے مولانا فراہی کے بیان کیے گئے تفسیر قرآن کے اصولوں پر تفسیر تدبر قرآن مرتب کی) نے ان عمود میں ہی اپنے استاد سے اختلاف کیا اور
7 عمود قرار دئیے۔