• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تدریس سبق نمبر 2 (گرائمر ابتدائیہ 2)

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
بسمہ اللہ الرحمن الرحیم
دوسرا سبق
پہلے سبق میں ہم نے یہ جانا ہے کہ عربی گرائمر کے لئے علم النحو اور علم الصرف پڑھنا پڑے گا اب باقاعدہ ان دونوں علوم کو شروع کرنے سے پہلے ان میں استعمال ہونے والی کچھ بنیادی اصطلاحات کو سمجھتے ہیں
بنیادی اصطلاحات کا پہلے سے سمجھانا انتہائی ضروری ہوتا ہے کیونکہ انہوں نے آگے بار بار استعمال ہونا ہوتا ہے اور جب کوئی بحث چل رہی ہوتی ہے تو وہاں پر ان میں سے کوئی اصطلاح آتی ہے تو اس جاری بحث میں انکو سمجھانے لگ جانا انسان کی توجہ کو خراب کر دیتا ہے پس ہر جگہ پہلے انکو پڑھا دیا جاتا ہے حتی کہ آپ نے دیکھا ہو گا کہ ہر ایکٹ (قانون) کے شروع میں بھی تعریفیں یا اصطلاحیں دی ہوتی ہیں


کلمہ
ہر لفظ جو مفرد معنی کے لئے وضع کیا گیا ہو مثلا قَتَلَ داودُ جالوتَ میں تین کلمات ہیں ہر ایک مفرد معنی کے لئے بنایا گیا ہے
1-ہم جو بھی منہ سے بولتے(پھینکتے) ہیں اسکو لفظ کہتے ہیں
2-کچھ الفاظ با معنی ہوتے ہیں انکو موضوع یا کلمہ کہتے ہیں
3-کچھ بے معنی ہوتے ہیں انکو مہمل کہتے ہیں
4-گرائمر میں ہمارا تعلق صرف با معنی الفاظ سے ہوتا ہے
5-ان بامعنی الفاظ یعنی کلمات کو بھی آگے دو طرح تقسیم کر سکتے ہیں ایک مفرد یعنی ہر ایک لفظ اکیلا اکیلا ہو اور دوسرا مرکب
6-ہم نے پیچھے یہ بھی پڑھا ہے کہ صرف میں اکیلے (مفرد) کلمہ پر ہی بحث ہوتی ہے اور جب ان کو آپس میں ملایا جاتا ہے تو پھر نحو کا علم شروع ہوتا ہے

کلمہ کی اقسام ( PARTS OF SPEACH)
ہر زبان میں کلموں کی خصوصیات کو دیکھتے ہوئے انکو مختلف گروپوں میں تقسیم کر دیا جاتا ہے اسکی وجہ یہ ہوتی ہے کہ چونکہ ایک جیسے خصوصیات والے کلمات پر ایک جیسے قواعد اپلائی ہونے ہوتے ہیں تو اسی مناسبت سے اکے گروپ بنا دیئے جاتے ہیں تاکہ قواعد بتلانے میں اور یاد کرنے میں آسانی ہو- پھر ہر گروپ کے اندر بھی مختلف سب گروپ بنا لیے جاتے ہیں تاکہ فرعی قواعد کا اطلاق مزید آسان ہو جائے
اوپر کلمہ کو سمجھنے کے بعد یہاں یہ بتایا گیا ہے کہ ہر زبان والوں نے مختلف کلمات کے استعمال کے لحاظ سے انکے مختلف گروپس بنا کر قواعد وضع کر دئے ہیں یعنی ہر گروپ کے کچھ اپنے خاص قواعد ہیں تو انہیں قواعد کے لحاظ سے انکے گروپس بنائے ہیں


انگلش گرائمر والوں نے اپنے قواعد کی مناسبت سے کلمہ کو ۸ یا ۹ قسموں میں تقسیم کیا ہے جو مندرجہ ذیل ہیں
Noun, Pronoun, Adjective, Verb, Adverb, Conjunction, Preposition, interjection, articles

لیکن عربی میں انکو شروع میں صرف تین بنیادی قسموں میں تقسیم کیا جاتا ہے البتہ ہر ایک کے اندر مزید سب گروپس بنائے جاتے ہیں
تین بنیادی قسمیں اسم، فعل اور حرف ہیں اور اوپر کے انگلش کی تقریبا ساری قسمیں انہیں تینوں میں سما جاتی ہیں مثلا Noun, Pronoun, Adjective, Adverb عموما عربی کے اسم میں آ جاتے ہیں Preposition, Articles عموما حرف میں آ جاتے ہیں Verb فعل میں آتا ہے اور باقی عموما اسم یا حرف میں مشترک آتے ہیں
یہاں عربی اور انگلش میں کلمہ کو مختلف حصوں میں تقسیم کرنے کے فرق کو واضح کیا گیا ہے اس فرق کی وجہ انکے قواعد کا فرق ہے


اسم فعل اور حرف کی پہچان
سب سے پہلے حرف کی پہچان کرتے ہیں
حرف کی پہچان
اسکے لئے ہم کلمات کو دو گروپس میں تقسیم کرتے ہیں
1-ان الفاظ کا گروپ جو اکیلا لکھا ہو تو پھر بھی معنی دے
2-وہ جو اکیلا لکھا ہو تو معنی سمجھ میں نہ آٓئے جب تک کوئی اور کلمہ نہ ملایا جائے

پہلے گروپ میں اسم اور فعل آتے ہیں جبکہ دوسرے گروپ میں حرف آتا ہے
مثلا ضَرَبَ زید بالعصا اس میں چار کلمات ہیں پہلا ضرب دوسرا زیدتیسرا ب اور چوتھاالعصا

اب اگر ضَرَبَ(مارا) اکیلا لفظ بولا جائے تو فورا آپکے ذہن میں مارکی شبیہ یعنی تصور آ جائے گا (کیونکہ آٓپ نے مار کھائی ہو گی-ابتسامہ)

اسی طرح زید یا العصا (چھڑی) اکیلا بولا جائے تو آپ کے ذہن میں انکی شبیہ آ جائے گی

مگر "ب" بولا جائے جس کا معنی "سے" ہے تو آپ پر اسکی شبیہ اس وقت تک ذہن میں واضح نہیں ہو گی جب تک اسکے ساتھ کچھ اور نہ لگا ہو
پس "ب" حرف ہے اور باقی فعل یا اسم ہو سکتے ہیں
یعنی حرف کا اپنا اکیلا معنی نہیں ہوتا لیکن اسم اور فعل اپنا اکیلا معنی دیتے ہیں مثلا اردو میں جب میں اکیلا زید کہوں گا تو سب کے سامنے زید کی ایک شبیہ آ جائے گی اسی طرح جب میں اکیلا چھڑی کہوں گا تو بھی چھڑی کا تصور ذہن میں آ جائے گا اسی طرح جب میں مارا کہوں گا تو مار کا تصور بھی ذہن میں آ جائے گا لیکن جب میں اکیلا سے کہوں گا تو جب تک اسکے ساتھ کوئی لفظ نہیں ملاؤں گا (مثلا لاہور سے) تو سے کا کوئی تصور ذہن میں نہیں آئے گا
پس ثابت ہوا کہ سے تو حرف ہے اور باقی حرف نہیں ہیں
باقی پھر کیا ہیں انکی تفریق آگے پڑھتے ہیں

اسم اور فعل کی تفریق
اب اسم اور فعل میں فرق کرنے کے لئے مزید علامت یہ ہے کہ جس میں زمانہ بھی ہو وہ فعل اور جس میں نہ ہو وہ اسم

پس زید اور العصا(چھڑی) میں چونکہ زمانہ نہیں تو وہ دونوں اسم ہیں اور ضرب میں ماضی کا زمانہ ہے تو وہ فعل ہے
یعنی حرف کے علاوہ باقی الفاظ کی پھر مزید دو قسمیں ہو سکتی ہیں یا تو زمانہ موجود ہو یا پھر زمانہ موجود نہ ہو


اسم
جو فی نفسہ اپنے معنی پر دلالت تو کرے (یعنی اس سلسلے میں دوسرے کلمہ کا محتاج نہ ہو ) مگر اس میں زمانہ (بلحاظ ھیۃ یعنی سانچہ یا صیغہ) نہ پایا جائے

فعل
جو فی نفسہ اپنے معنی پر دلالت بھی کرے اور اس میں زمانہ بھی (بلحاظ ھیۃ) پایا جائے

حرف
جو فی نفسہ اپنے معنی پر دلالت نہ کرے
یہ تعریفیں اب اوپر وضاحت کے مطابق کی گئی ہیں البتہ ایک زاید بات جو فعل کی تعریف میں کہی گئی ہے وہ یہ کہ فعل میں زمانہ بلحاظ ھیت (یعنی صیغہ یا سانچہ) ہوتا ہے
اسکی تفصیل تو ہم آگے پڑھیں گے ابھی آپ نے ذہن پر اتنا زور نہیں دینا البتہ تھوڑی وضاحت یہاں کر دیتا ہوں کہ اسکی ضرورت میرے خیال میں اس لئے تھی کہ انگلش میں ایک لفظ yesterday بولا جاتا ہے جسکو عربی میں امس اور اردو میں کل کہتے ہیں اب اگر دیکھا جائے تو اس میں ماضی کا زمانہ موجود ہے مگر یہ انگلش یا اردو یا عربی میں فعل تصور نہیں کیا جاتا کیونکہ ان میں زمانے کا معنی اسکے سانچے کی وجہ سے نہیں- لیکن ضَرَبَ میں ماضی کا زمانہ اسکے سانچہ یا صیغہ کی وجہ سے ہے (تفصلی آگے صرف میں)

نحو اور صرف کے حوالے سے کلمات
صرف میں چونکہ الفاظ کے صیغوں (سانچوں) میں پھیرنے کو پڑھا جاتا ہے اور حرف میں پھرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی البتہ فعل اور اسم میں یہ صلاحیت ہوتی ہے پس صرف میں ہم فقط اسم اور فعل کو پڑھیں گے
نحو میں چونکہ کلمات کو ملانے کے قواعد پڑھے جاتے ہیں اور اسم فعل اور حرف تینوں آپس میں مل سکتے ہیں پس نحو میں تینوں کلمات کے متعلق قواعد پڑھیں گے
یہ بھی یاد رہے کہ صرف میں بھی سارے اسم نہیں پھرتے اسکی تفصیل بھی آگے آئے گی
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
جیسا کہ اوپر ہم نے پڑھا کہ اگرچہ عربی میں بنیادی طور پر کلمات کو تین قسموں میں تقسیم کیا گیا ہے مگر آگے پھر ہر قسم کے اندر مزید ایک جیسی خصوصیات رکھنے والے الفاظ کے مزید سب گروپس (انواع) بنا دیئے گئے ہیں یہ سب گروپس (انواع) اسم، فعل اور حرف تینوں میں بنائے گئے ہیں
پس باقاعدہ علم النحو اور علم الصرف شروع کرنے سے پہلے ہم اسم اور فعل کی انہیں انواع سے متعلق کچھ ایسی اصطلاحات پڑھتے ہیں جو نحو اور صرف دونوں میں استعمال ہوتی ہیں تاکہ بعد میں دونوں جگہ دہرانا نہ پڑے البتہ یہاں صرف انکا بنیادی تعارف کروایا جائے گا تفصیل اپنے سیکشن میں بعد میں بیان کی جائے گی (حرف کا تعلق چونکہ صرف نحو سے ہوتا ہے پس اسکے سب گروپس یعنی انواع کو آگے علم النحو کے اسباق میں بیان کیا جائے گا)
وضآحت اوپر ہو چکی ہے
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
اسم کی انواع یا سب گروپس
اسم کو ہم مختلف لحاظ سے سب گروپس بنا کر تقسیم کر سکتے ہیں
جب بھی کسی مجموعہ کو تقسیم کرنا ہوتا ہے تو یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ ہم اسکو کس لحاظ سے تقسیم کرنا چاہتے ہیں
مثلا اگر میں آپ سے پوچھوں کہ بتائیں اس گرائمر کلاس کے ارکان کے کتنی قسم کے ہیں تو آپ مجھ سے پوچھیں گے کہ کس لحاظ سے آپ پوچھ رہیں ہیں اگر جنس کے لحاظ سے پوچھ رہے ہیں تو وہ دو قسم کے ہیں یعنی مرد اور عورت- اگر شادی کے لحاظ سے پوچھ رہے ہیں تو وہ بھی دو قسم کے ہیں یعنی شادی شدہ اور غیر شادی شدہ- اسی طرح اگر صوبے کے لحاظ سے پوچھ رہے ہیں تو وہ چار ہو سکتے ہیں کوئی پنجابی ہے کوئی سندھی وغیرہ- یہاں یہ بات یاد رہے کہ جب ایک لحاظ سے تقسیم کی جاتی ہے تو باقی اس میں مکس ہوئی ہوتی ہیں یعنی جب آپ عورت اور مرد کے لحاظ سے دیکھ رہے ہیں تو عورت شادی شدہ، غیر شادی شدہ، سندھی، پنجابی کچھ بھی ہو سکتی ہے

اسی طرح اسم یا فعل یا حرف کو جب تقسیم کیا جاتا ہے تو وہ بھی مختلف لحاظ سے کیا جاتا ہے چنانچہ ہم یہاں ہر لحاظ سے انکی تقسیم کو علیحدہ علیحدہ پڑھیں گے


1-بلحاظ جنس
اس لحاظ سے اسم کی دو قسمیں (انواع) ہیں یعنی مذکر و مونث
اس لحاظ سے اردو میں بھی یہی دو قسمیں ہوتی ہیں انگلش میں انکو Masculine اور Feminine کہتے ہیں

2-بلحاظ عدد
اس لحاظ سے تین اقسام ہیں یعنی واحد، تثنیہ و جمع (انگلش یا اردو میں تثنیہ علیحدہ قسم نہیں ہوتی بلکہ جمع ہی میں شمار کی جاتی ہے کیونکہ اسکے قواعد جمع کے تحت ہی آتے ہیں)
انگلش میں singular اور plural کے نام سے جانے جاتے ہیں
یہاں اردو اور انگلش سے ہٹ کر ایک تیسری قسم بھی آتی ہے جسکو تثنیہ کہتے ہیں اسکی وجہ وہی ہے جو اوپر میں نے لکھی تھی کہ گروپس بنائے کیوں جاتے ہیں ایک جیسے قواعد والے الفاظ کو ایک گروپ میں رکھنا ہوتا ہے اب انگلش اور اردو میں تثنیہ (دو) کے لئے بھی وہی قواعد ہیں جو تین یا چار --- کے لئے ہیں مگر عربی میں تثنیہ (دو) کے قواعد باقی جمع (تین چار ---- سے مختلف ہوتے ہیں اس لئے قواعد کو سمجھنے کے لئے انکو تین گروپس میں تقسیم کیا گیا ہے


3-بلحاظ اظہار
اس لحاظ سے دو اقسام ہیں یعنی اسم ظاہر اور اسم ضمیر- جب اصل اسم کا صراحۃ ذکر کیا گیا ہو تو وہ اسم ظاہر کہلاتا ہے اور جب اس اسم کو چھپا کر (متکلم، مخاطب اور غائب کی مناسبت سے) کوئی لفظ کنایۃ اسم ظاہر کی نیابت کے لئے لایا جائے تو وہ اسم ضمیر کہلاتا ہے جس کے لئے کچھ الفاظ معین کر دیئے گئے ہیں اسم ضمیر کو انگلش میں Pronoun کہتے ہیں
یہ انگلش اور اردو میں بھی اسی طرح استعمال ہوتا ہے یعنی کبھی وہ اسم خود لایا جاتا ہے اور کبھی اسکو دہرانے کی بجائے اسکی جگہ کوئی اور لفظ لے آتے ہیں جیسے اسلم میرا دوست ہے وہ صبح اٹھتا ہے وہ نماز پڑھتا ہے- اب یہاں شروع میں تو اصل اسم یعنی اسلم کو لایا گیا مگر بعد میں اسکو دہرانے کی بجائے اسکی جگہ کنایۃ وہ کا لفظ استعمال کیا گیا (تفصیل علم النحو میں)

یہاں پر اسم ضمیر کی مزید تقسیم کے بارے کچھ بتا دوں کہ اسم ضمیر کو دلالت کرنے کے لحاظ سے مزید تین قسموں میں تقسیم کیا جاتا ہے
1-متکلم
یعنی کلام کرنے والا- انگلش میں اسکو First person کہتے ہیں کیونکہ اپنے آپ کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے

2-مخاطب یا حاضر
یعنی جس کے ساتھ آپ بات کر رہے ہیں انگلش میں اسکو Second person کہا جاتا ہے کیونکہ اپنے بعد سامنے والے کو اہمیت دی جاتی ہے

3-غائب (Third person)
یعنی جو گفتگو میں شریک نہیں ہے وہ سب کچھ غائب ہے انگلش میں اسکو Third person کہتے ہیں

4-بلحاظ صیغہ
اس لحاظ سے تین اقسام ہیں جامد (جو نہ پھرے)، مصدر(جس کو پھیر کر باقی بنائے جائیں) اور مشتق (جو مصدر سے پھیر کر بنائے گئے ہوں)
یعنی جو صرف میں استعمال ہونے والے سانچوں میں نہ پھرے وہ جامد ہے اور جو پھرتے ہیں ان میں سے (بصریوں کے ہاں) جو اصل ہے وہ مصدر ہے اور باقی اس سے آگے نکلے ہیں اردو گرائمر میں بھی یہ پڑھا ہو گا اور انگلش میں بھی اسی طرح کی تقسیم کی جا سکتی ہے مگر قواعد اس طرح بنائے گئے ہیں کہ اسکی ضرورت کبھی نہیں پڑی

5-بلحاظ جنس الحروف
اس میں اسم کو حروف کی جنس کے لحاظ سے تقسیم کیا جاتا ہے یعنی اسم میں استعمال ہونے والے حروف حروف علت میں سے ہیں (معتل) یا کوئی حرف ہمزہ ہے (مہموز) یا دو ایک جیسے حروف شامل ہیں (مضاعف) یا انکے علاوہ ہے
اس لحاظ سے تقسیم چونکہ صرف اور نحو میں مختلف ہوتی ہے پس مزید تفصیل ہم متعلقہ سیکشن (نحو یا صرف) میں پڑھیں گے
ساری تفصیل آگے آئے گی


6-بلحاظ تعداد الحروف
یعنی جن حروف سے اسم بنا ہے انکی تعدار کتنی ہے (اصل کتنے ہیں اور زائد کتنے ہیں وغیرہ) اسکی تفصیل صرف کے سیکشن میں پڑھیں گے
اسکی بھی تفصیل آگے پڑھیں گے
7-بلحاظ عموم خصوص
یعنی وہ اسم معرفہ ہے یا نکرہ-اسکی تفصیل نحو کے سیکشن میں پڑھیں گے
یہ اردو میں بھی ایسے استعمال ہوتا ہے مگر قواعد کی بناوٹ کے لحاظ سے اسکی ضرورت کم پڑتی ہے انگلش میں انکو common اور proper noun کے نام سے جانا جاتا ہے عربی میں انکا خاصا دخل ہوتا ہے پس انکو آگے تفصیل سے پڑھیں گے


8-بلحاظ اعراب
اس لحاظ سے اسم کو دو بنیادی قسموں میں تقسیم کیا جاتا ہے ینعی معرب اور مبنی- جنکی تفصیل اگرچہ نحو میں پڑھیں گے مگر کچھ بنیادی اور ضروری تعارف یہاں کروا دیا جاتا ہے جو آگے استعمال ہونا ہے
معرب اور مبنی کی بحث کو ہم انگلش اور اردو میں ضمیر یعنی Pronoun کے استعمال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں

A-انگلش میں
انگلش میں Pronoun (اسم ضمیر) کو تین حالتوں میں استعمال کیا جاتا ہے

6636 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
جس طرح اوپر ٹیبل میں ایک ہی ضمیر (میں یا I) کی تین مختلف حالتیں ہمیں نظر آ رہی ہین اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم نے لفظ"میں" کی انگلش کرتے وقت I, Me, My میں سے کون سا لفظ استعمال کرنا ہے
پس اسکے لئے ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ وہ ضمیر فاعل بن رہی ہے یا مفعول بن رہی ہے یا اسکی طرف کسی دوسری چیز کی اضافت ہو رہی ہے اسی مناسبت سے اسکی بالترتیب Subjective, Objective or Possessive form استعمال کرنا ہو گی یعنی
I beat Aslam​
Aslam beats me
This is my book
اوپر تینوں مثالوں کو دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ پہلی مثال میں لفظ "میں" چونکہ فاعل کے طور پر استعمال ہوا ہے تو اسکی فاعلی حالت یعنی I استعمال ہوئی ہے دوسری مثال میں یہی لفظ مفعول کے طور پر استعمال ہوا ہے تو اسکی مفعولی حالت یعنیmeاستعمال ہوئی ہے اسی طرح تیسری مثال میں چونکہ اس لفظ کی طرف اضافت کی گئی ہے تو اضافی حالت یعنی my کا استعمال کیا گیا ہے (یہاں یہ بھی یاد رکھیں کہ کچھ ضمیریں ایسی بھی ہیں جو فاعلی اور مفعولی حالت میں ایک ہی آتی ہیں جیسے You فاعل اور مفعول میں ایک ہی طرح استعمال ہوتا ہے یعنی بدلتا نہیں

B-اردو میں
اردو کو لیں تو بھی ہم دیکھتے ہیں کہ "میں" کی ضمیر کے لئے تین لفظ استعمال ہوتے ہیں یعنی "میں" اور "مجھے" اور "میری"

پس جب فاعل کے لئے استعمال کریں گے تو ہم کہیں گے کہ
میں نے اسلم کو مارا

جب مفعول کے طور پر استعمال کریں گے تو کہیں گے
اسلم نے مجھے مارا

اور جب ملکیت ظاہر کرنی ہو گی تو کہیں گے
یہ میری کتاب ہے

C-عربی میں
بالکل اسی طرح عربی میں بھی اسم ضمیر کی مختلف حالتیں ہوتی ہیں جو ہم تفصیل سے علم النحو میں پڑھیں گے
اگرچہ باقی زبانوں میں ایسا زیادہ تر ضمیر کے ساتھ ہی ہوتا ہے مگر عربی میں مختلف مواقع کے لئے ہر اسم کی مختلف حالتیں استعمال ہوتی ہیں یعنی ایک اسم چونکہ مختلف جگہوں پر استعمال ہونا ہوتا ہے یعنی کبھی فاعل بنتا ہے اور کبھی مفعول اور کبھی کچھ اور- تو ہر اسم کے لئے تین مختلف حالتیں استعمال ہوتی ہیں جنکو رفعی حالت (اوپر فاعلی حالت کی طرح)، نصبی حالت (اوپر مفعولی حالت کی طرح) اور جری حالت (اوپر اضافی حالت کی طرح) کہتے ہیں ایسے اسم کو معرب کہتے ہیں البتہ کچھ اسماء ایسے بھی ہوتے ہیں جو اوپر You کی طرح ایک جیسے رہتے ہیں انکو آپ مبنی کہیں گے (تفصیل آگے علم النحو میں)
اس میں ابھی مزید ذہن پر زور دینے کی ضرورت نہیں اوپر اگر کچھ سمجھ نہ آیا ہو تو وضاحت پوچھی جا سکتی ہے
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
فعل کی انواع یا سب گروپس
اسم کی طرح فعل کو بھی ہم مختلف لحاظ سے سب گروپس بنا کر تقسیم کر سکتے ہیں

بلحاظ زمانہ
اس لحاظ سے عموما تین بنیادی اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے یعنیماضی،مضارعاور امر-
یہ بھی یاد رہے کہ اردو اور انگلش میں حال اور مستقبل کا استعمال چونکہ علیحدہ علیحدہ قواعد کے تحت ہوتا ہے پس انگلش اور اردو میں ان کی علیحدہ علیحدہ قسمیں بنا دی گئیں مگر عربی میں حال اور مستقبل کا استعمال ایک جیسے قواعد کے تحت ہونے کی وجہ سے ان دونوں کو ایک ہی بنیادی قسم یعنی مضارع میں رکھا گیا ہے البتہ حال اور مستقبل میں تفریق کے لئے بعد میں کچھ اضافی قواعد بیان کیے جاتے ہیں جو آگے پڑھیں گے
انگلش میں اس لحاظ سے Present, Past & Future میں تقسیم کیا جاتا ہے

بلحاظ طلب
ہر فعل کو کھڑا ہونے (قائم رہنے) کے لئے ایک سہارے کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ اسکے بغیر وہ کھڑا نہیں ہو سکتا جیسے ٹیک (دیوار ، سٹینڈ وغیرہ) کے بغیر بلیک بورڈ کھڑا نہیں ہو سکتا
اسی وجہ سے فعل کو مُسند (منسوب کی جانے والی چیز) کہتے ہیں جس کی نسبت کسی اسم کی طرف کی جاتی ہے جسکو مُسند الیہ (جسکی طرف نسبت کی گئی ہو) کہتے ہیں اب ظاہر ہے کہ اگر ایک چیز کی نسبت ہم کسی دوسری چیز کی طرف کرتے ہیں تو وہ پہلی چیز دوسری کی محتاج ہو جاتی ہے اور اسکے بغیر وہ کھڑی نہیں ہو سکتی مثلا حنفی کی نسبت ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی طرف ہے پس اگر کوئی ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو ہی نہیں جانتا تو وہ حنفی (ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی طرف نسبت) سے کیا سمجھے گا پس یہ ثابت ہوا کہ ہر فعل کسی سہارے کا شدت سے طلبگار ہوتا ہے اور وہ سہارا فاعل ہوتا ہے
اب فعل کی یہ طلب اگر صرف فعل تک محدود رہے تو اس فعل کوفعل لازم کہتے ہیں یعنی اسکی طلب یہاں تک رک گئی ہے لیکن اگر فعل فاعل کے بعد کسی اور چیز کا بھی مطالبہ کر دے تو اس فعل کو فعل متعدی کہتے ہیں یعنی اسکی طلب ابھی رکی نہیں بلکہ آگے منتقل ہو گئی جیسے متعدی بیماری آگے منتقل ہوتی ہے (البتہ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ پہلی یعنی فاعل کی طلب تو وجوب کے حکم میں ہوتی ہے یعنی اسکے بغیر فعل بالکل راضی نہیں ہوتا البتہ دوسری طلب جواز کے حکم میں ہوتی ہے یعنی مل جائے تو فعل خوش ہو جاتا ہے اور اگر نہ ملے تو گزارہ کر لیتا ہے
پس طلب کے لحاظ سے فعل کی دو قسمیں بنتی ہیں یعنی فعل لازم اور فعل متعدی- انگلش میں فعل لازم کو Intransitive verb اور فعل متعدی کو Transitive verb کہتے ہیں اگرچہ اسکا صرف میں بھی ایک جگہ استعمال ہوتا ہے مگراسکی زیادہ تفصیل ہم نحو میں پڑھیں گے
فعل لازم کی مثالیں

1-جَلَسَ یعنی وہ بیٹھا ( He Sat)
2-ذَھَبَ یعنی وہ گیا (He went)
3-دَخَلَ یعنی وہ داخل ہوا (He entered)
ان تمام مثالوں میں آپ دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ مفعول یعنی Object نہیں آ سکتا
پس جس فعل میں مفعول نہیں آ سکتا وہ لازم ہوتا ہے

فعل متعدی کی مثالیں
1-ضَرَبَ یعنی اسنے مارا (He beat)
2-قَتَلَ یعنی اسنے قتل کیا (He killed)
3-نَصَرَ یعنی اسنے مدد کی (He helped)
ان تمام مثالوں میں آپ دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ مفعول Object آیا تو نہیں مگر آ سکتا ہے یعنی آپ کہ سکتے ہیں کہ
1-اسنے زید کو مارا
2-اسنے زید کو قتل کیا
3-اسنے زید کی مدد کی
پس جس فعل میں مفعول آیا ہو یا آ سکتا ہو وہ متعدی ہوتا ہے

لازم اور متعدی کی آسان پہچان
آپ نے یہ غور کیا کہ لازم میں مفعول کیوں نہیں آ سکتا یعنی مفعول کے نہ آنے کی وجہ کیا ہے آپ پہلے اس پر غور کریں اور جواب دیں اسکا جو جواب ہو گا اسی سے آپ کو لازم اور متعدی میں فرق کرنا آ جائے گا


بلحاظ وجودِ فاعل
اس لحاظ سے فعل کی دو قسمیں ہوتی ہیں یعنی فعل معروف(جس میں فاعل موجود ہو) اور فعل مجہول (جس میں فاعل موجود نہ ہو)
جیسا کہ اوپر بلحاظ طلب میں پڑھا ہے کہ ہر فعل ایک فاعل کا لازمی مطالبہ کرتا ہے اب کبھی ایسے بھی ہوتا ہے کہ فعل کا فاعل مجہول ہوتا ہے یعنی اسکا علم نہیں ہوتا اس صورت میں پھر فعل لازمی طلب والا کام مفعول سے لینے کی کوشش کرتا ہے اور فاعل کی بجائے مفعول کا سہارا لے لیتا ہے اس فعل کو فعل مجہول کہیں گے یعنی اسکا فاعل مجہول ہے
انگلش میں فعل معروف کو Active voice کہتے ہیں اور فعل مجہول کو Passive voice کہتے ہیں
آپ نے مجہول کا لفظ حدیث کے راویوں کے بارے بھی سنا ہو گا کہ فلاں راوی مجہول ہے یعنی اسکے بارے واضح معلومات نہیں ہیں اسی طرح جب کسی فعل کا فاعل مجہول ہو جائے تو اسکو فعل مجہول کہتے ہیں ورنہ وہ فعل معروف ہو گا
مثلا مندرجہ ذیل مثالیں دیکھتے ہیں
1-اسنے مارا یعنی ضَرَبَ
2-اسکو مارا گیا یعنی ضُرِبَ

اب اوپر پہلی مثال میں آپ کو فاعل کا پتا ہے کہ مارنے والا "اس" ہے تو یہ جملہ معروف ہو گا جس کا فاعل معروف ہے یعنی آپ اسکو پہچانتے ہیں
دوسری مثال میں "اس" کو مارا جا رہا ہے مگر مارنے والا کون ہے اسکا نہیں پتا یعنی مارنے کے فعل کا فاعل مجہول ہے پس یہ فعل مجہول کہلائے گا


بلحاظ تصرف
یعنی تینوں زمانوں میں پھرنے (تصرف) کے لحاظ سے اسکی دو اقسام ہوتی ہیںجامد اور متصرف (تفصیل آگے پڑھیں گے)


بلحاظ عمل
یعنی اسکا عمل مکمل فعل والا ہوتا ہے یا ناقص فعل والا- اسکی تفصیل ہم نحو میں پڑھیں گے
دونوں کی تفصیل کی ابھی ضرورت نہیں ہے


بلحاظ اعراب
اوپر اسم کی طرح اس کو بھی مختلف قسموں (اعرابی حالتوں) میں تقسیم کیا جا سکتا ہے جسکی تفصیل ہم نحو میں پڑھیں گے
اسکے لئے وہی وضاحت ہے جو اوپر اسم میں معرب اور مبنی کی بحث میں پڑھی ہے
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
جزاک اللہ خیرا۔ سبق دو تین مرتبہ دہرانے سے سمجھ آیا ہے۔ غالباً سبق کا مقصد فقط معلومات مہیا کرنا ہے، انہیں یاد کرنے کی ضرورت تو نہیں ہوگی نا؟ کیونکہ آئندہ ہم انہی اقسام پر قواعد پڑھیں گے اور اس کی مشق کیا کریں گے؟
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
جزاک اللہ خیرا۔ سبق دو تین مرتبہ دہرانے سے سمجھ آیا ہے۔ غالباً سبق کا مقصد فقط معلومات مہیا کرنا ہے، انہیں یاد کرنے کی ضرورت تو نہیں ہوگی نا؟ کیونکہ آئندہ ہم انہی اقسام پر قواعد پڑھیں گے اور اس کی مشق کیا کریں گے؟

جزاک اللہ خیرا سبق سمجھ آگیا اچھی طرح سے ۔۔

پوسٹ نمبر 4 میں کیا گیا سوال
لازم اور متعدی کی آسان پہچان
آپ نے یہ غور کیا کہ لازم میں مفعول کیوں نہیں آ سکتا یعنی مفعول کے نہ آنے کی وجہ کیا ہے آپ پہلے اس پر غور کریں اور جواب دیں اسکا جو جواب ہو گا اسی سے آپ کو لازم اور متعدی میں فرق کرنا آ جائے گا
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
اگر جنس کے لحاظ سے پوچھ رہے ہیں تو وہ دو قسم کے ہیں یعنی مرد اور عورت- اگر شادی کے لحاظ سے پوچھ رہے ہیں تو وہ بھی دو قسم کے ہیں یعنی شادی شدہ اور غیر شادی شدہ-
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

شیخ محترم شادی کے لحاظ سے دو نہیں تین قسمیں ہوتی ہیں یعنی شادی شدہ، غیرشادی شدہ اور طلاق یافتہ۔ کیا خیال ہے؟
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
فعل لازم کی مثالیں

1-جَلَسَ یعنی وہ بیٹھا ( He Sat)
2-ذَھَبَ یعنی وہ گیا (He went)
3-دَخَلَ یعنی وہ داخل ہوا (He entered)
ان تمام مثالوں میں آپ دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ مفعول یعنی Object نہیں آ سکتا
پس جس فعل میں مفعول نہیں آ سکتا وہ لازم ہوتا ہے
آپ نے فعل لازم کے بارے میں فرمایا ہے کہ اس میں مفعول نہیں آسکتا۔ جبکہ میری معلومات اور عقل کے مطابق تو آسکتا ہے۔جیسے
وہ بیٹھا۔
اگر اس میں مفعول کو داخل کردیں تو یہ یوں ہوجائے گا۔
وہ کرسی پر بیٹھا۔
صحیح کہا یا غلط؟
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
بلحاظ زمانہ
اس لحاظ سے عموما تین بنیادی اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے یعنی ماضی،مضارع اور امر-
آپ نے مضارع کے بارے میں وضاحت فرمادی ہے کہ یہ حال اور مستقبل کے لئے استعمال ہوتا ہے اور ماضی ماضی کے لئے لیکن امر کی وضاحت نہیں فرمائی کہ یہ لفظ کس زمانے کی نمائندگی کرتا ہے؟
 
Top