رانا ابوبکر
تکنیکی ناظم
- شمولیت
- مارچ 24، 2011
- پیغامات
- 2,075
- ری ایکشن اسکور
- 3,040
- پوائنٹ
- 432
ڈاکٹر حافظ محمد زبیر صاحب [١]
قرآن مجید کے سیکھنے اور سکھانے اور اس کی درس وتدریس کے لیے جمع ہونے کی فضیلت کے بیان میں کئی ایک احادیث مروی ہیں۔ حضرت ابوہریرۃ سے روایت ہےکہ: ''جب بھی کوئی قوم اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں جمع ہو کر کتاب اللہ کی تلاوت اور اس کی درس وتدریس کی کوشش کرتی ہے توان پر سکینت نازل ہوتی ہے، اللہ کی رحمت انہیں ڈھانپ لیتی ہے، اور فرشتے انہیں گھیرے میں لے لیتے ہیں،اور اللہ تعالیٰ ان لوگوں کا ذکر ان فرشتوں کی مجلس میں کرتے ہیں جو اللہ کے پاس ہوتے ہیں۔''
اس حدیث میں چار باتیں بیان کی گئیں ہیں:
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید کے سیکھنے کو مستحب قرار دیا ہے اور حضرت عقبہ بن عامر کی روایت میں اس کی ترغیب موجو دہے۔ وہ فرماتے ہیں:
'' اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن گھر سے نکلے اور ہم صحابہ کی ایک جماعت صفہ کے چبوترے پر تھے۔ آپ نے فرمایا: تم میں سے کون ایسا ہے جسے یہ پسند ہے کہ وہ بطحان یا عقیق کے بازار صبح کے وقت جائے اور دو موٹی تازی اونٹنیاں لے آئے۔ اور اس طرح لائے کہ نہ تو کسی گناہ میں ملوث ہو اور نہ ہی کسی قسم کی قطع رحمی کرے۔ ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ہمیں یہ پسند ہے۔ آپ نے فرمایا: تم سے کوئی ایک جب مسجد میں صبح کے وقت داخل ہو اور قرآن مجید کی دو آیات تلاوت کرے یا ان کا علم حاصل کرے تو یہ اس کے لیے دو اونٹنیوں سے بہتر ہے ، اور تین آیات تین اونٹنیوں جبکہ چار آیات چار اونٹنیوں سے بہتر ہیں۔ ''
قرآن مجید کی درس وتدریس کے بارے میں جامع ترین حدیث حضرت عثمان کی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جو قرآن مجید سیکھیں اور سکھائیں۔ '' ایک اور روایت کے الفاظ ہیں: تم میں سے افضل ترین وہ ہیں جو قرآن مجید سیکھیں اور سکھائیں۔''
یہ بات واضح رہے کہ یہ فضیلت یا شرف ان کے لیے نہیں ہے جو الفاظ وحروف کو ان کے معانی وحدود کے بغیر سیکھتے ہیں جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے۔بلکہ اس میں الفاظ کاسیکھنا، انہیں یاد کرنا، اس کی تجوید، اس کے اعراب،اس کی تفسیر،اس کے احکام اوران کی حکمتوں کی معرفت حاصل کرنااور اس کے حلال وحرام کا سیکھنا بھی شامل ہے۔ ابو عبد الرحمن السلمی کی روایت میں ہے کہ انہوں نے کہا: '' ہمیں ان لوگوں نے بیان کیا ہے جو ہمیں قرآن مجید پڑھاتے تھے کہ وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن مجید پڑھا کرتے تھے ۔ پس جب وہ دس آیات سیکھ لیتے تھے تو اس سے آگے اس وقت تک نہ بڑھتے تھے جب تک انہیں اپنے عمل میں نہ لے آتے تھے۔ پس انہوں نے قرآن مجید اور اس پر عمل دونوں کو ساتھ ساتھ سیکھا۔''
امام ابن کثیر نے کہا ہے:
''اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ہے کہ تم میں سے بہترین وہ ہیں جو قرآن مجید سیکھیں اور سکھائیں اور یہ مومنین کی اور رسولوں کے متبعین کی صفت ہے جو اپنی ذات میں مکمل ہوتے ہیں اوردوسروں کو مکمل کرتے ہیں۔ اور اس عمل میں پایا جانے والا فائدہ لازم اور متعدی ہے۔ اس کے برعکس سرکش کفار کا معاملہ یہ ہے کہ نہ تو اپنی ذات کو کوئی فائدہ پہنچاتے ہیں اور نہ ہی اپنی امکان بھرطاقت کے بل بوتے پر کسی کو فائدہ اٹھانے دیتے ہیں۔جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ جن لوگوں نے کفر کیا اور اللہ کے رستے سے رک گئے یا روک دیاتوہم انہیں عذاب پر عذاب میں بڑھائیں گے۔ اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد باری تعالی ہے کہ وہ کفار اس قرآن مجید سے دوسروں کو بھی روکتے ہیں اور خود بھی اس سے رک جاتے ہیں ۔ مفسرین کے صحیح ترین قول کے مطابق اس آیت سے مراد قرآن مجید کی اتباع سےرک جانا اور منع کرنا ہے۔ پس ان کفار نے جھٹلانے کے علاوہ قرآن مجید پر عمل نہ کرنے کو بھی اپنے کفر میں شامل کر لیا جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ اس سے بڑا ظالم کون ہے جس نے اللہ کی آیات کو جھٹلا دیا اور ان سے اعراض کیا۔ پس یہ شریر کفار کا معاملہ ہے جبکہ اللہ کے چنیدہ بندوں کا معاملہ اس کے برعکس یہ ہے کہ وہ اپنی ذات کی تکمیل کے علاوہ دوسروں کو بھی مکمل کرنے کی کوشش کریں جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے بہترین (مکمل ترین) وہ ہیں جو قرآن مجید سیکھیں اور سکھائیں۔ اور جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے : اور اس سے بہترین بات کس کی ہو سکتی ہے جو لوگوں کو اللہ کی طرف بلائے اور نیک عمل کرے اور یہ کہے کہ میں مسلمانوں میں سے ہوں۔ پس اللہ کی طرف دعوت دینا چاہے اذان کی صورت میں ہو یا کسی اور صورت میں تو وہ اس میں شامل ہے مثلا قرآن مجید ، حدیث اور فقہ وغیرہ کی تعلیم جب اللہ کی رضا کے لیے دے گا تو یہ بھی دعوت الی اللہ کی صورتوں میں سے ایک صورت ہے۔ اس کے ساتھ اگروہ صالح اعمال بھی کرے یا بعض نے کہا کہ اس کی باتیں صالح ہوں تو کوئی بھی اس سے بہتر نہیں ہو سکتا۔''
یہ بات بھی واضح ہے کہ تعلیم کے مراحل میں سے بہترین مرحلہ بچپن کی تعلیم کا ہے کیونکہ جو اس میں سیکھا ہوتا ہے اس کے مطابق پرورش ہوتی ہے۔ امام سیوطی نے کہاہے :
''بچوں کو قرآن مجید کی تعلیم دینا اصول اسلام میں سے ہے کیونکہ بچوں کی پرورش فطرت سلیمہ پر ہوتی ہے لہٰذا ان کے دل خواہشات کی آماجگاہ بننے اور معصیت وگمراہی کی سیاہی سے پہلے حکمت کے انوار سے پُر ہوتے ہیں ۔ پس چھوٹے بچوں اور بچیوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ بچپن ہی سے انہیں قرآن مجید کی تعلیم پر ڈال دیا جائے تا کہ ان کا یہ پختہ عقیدہ قائم ہو کہ اللہ سبحانہ وتعالی ان کا رب ہے اور قرآن مجید اس کا کلام ہے۔ ااور یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس سے ان کے دلوں میں قرآن مجید کی محبت راسخ ہو گی اور ان کے اذہان، افکار، صلاحیتیں اور حواس اس کے نور سے روشن ہوں گے۔ اس طرح ہم بچپن میں ہی قرآنی عقائد سیکھ لیں گے اور ہماری پرورش قرآنی اخلاق کی روشنی میں ہو گی۔ ہم اس کے احکامات پر عمل اور اس کے نواہی سے اجتناب کریں گے۔ اور یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ بچپن کا حفظ پختہ ہوتا ہے اور دیر تک یاد رہتا ہے اور دل میں گھس جاتا ہے اور نفس پر اس کا اثر بہت زیادہ ہوتا ہے۔ ''
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] لیکچرار کامسٹ یونیورسٹی لاہور
(جاری ہے۔۔۔۔۔)
قرآنیات
تدریس ِ قرآن اور اس کے متعلقہ احکام و مسائل
قرآن مجید کی درس وتدریس کی فضیلتزیرنظر مضمون درحقیقت ایک کتاب کا ترجمہ ہے جسے معروف قلم کار پروفیسرحافظ ڈاکٹر زبیر صاحب اردو قالب میں ڈھالنے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں۔ کتاب میں قرآن مجید کے متعلقہ احکام ومسائل کے حوالے بہت مفید بحثیں کی گئی ہیں۔جنہیں سلسلہ وار چند شمارہ رشد کے ذریعے ہدیہء قاریئن کیا جائے گا۔جبکہ آج کی نشست میں ہم اس حوالے سے تین اہم ترین مسائل یعنی قرآن مجید کی درس و تدریس کی فضیلت،قرآن مجید کی درس و تدریس پر اجرت لینے کا حکم اور حفظ قرآن پر انعامات دینے کا حکم زیر بحث لائیں گے۔
قرآن مجید کے سیکھنے اور سکھانے اور اس کی درس وتدریس کے لیے جمع ہونے کی فضیلت کے بیان میں کئی ایک احادیث مروی ہیں۔ حضرت ابوہریرۃ سے روایت ہےکہ: ''جب بھی کوئی قوم اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں جمع ہو کر کتاب اللہ کی تلاوت اور اس کی درس وتدریس کی کوشش کرتی ہے توان پر سکینت نازل ہوتی ہے، اللہ کی رحمت انہیں ڈھانپ لیتی ہے، اور فرشتے انہیں گھیرے میں لے لیتے ہیں،اور اللہ تعالیٰ ان لوگوں کا ذکر ان فرشتوں کی مجلس میں کرتے ہیں جو اللہ کے پاس ہوتے ہیں۔''
اس حدیث میں چار باتیں بیان کی گئیں ہیں:
- ان پر سکینت نازل ہوتی ہے۔
- رحمت انہیں ڈھانپ لیتی ہے۔
- فرشتے انہیں گھیرے میں لے لیتے ہیں۔
- اللہ تعالیٰ ان کا ذکر اپنے پاس موجود فرشتوں کی مجلس میں کرتے ہیں۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید کے سیکھنے کو مستحب قرار دیا ہے اور حضرت عقبہ بن عامر کی روایت میں اس کی ترغیب موجو دہے۔ وہ فرماتے ہیں:
'' اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن گھر سے نکلے اور ہم صحابہ کی ایک جماعت صفہ کے چبوترے پر تھے۔ آپ نے فرمایا: تم میں سے کون ایسا ہے جسے یہ پسند ہے کہ وہ بطحان یا عقیق کے بازار صبح کے وقت جائے اور دو موٹی تازی اونٹنیاں لے آئے۔ اور اس طرح لائے کہ نہ تو کسی گناہ میں ملوث ہو اور نہ ہی کسی قسم کی قطع رحمی کرے۔ ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ہمیں یہ پسند ہے۔ آپ نے فرمایا: تم سے کوئی ایک جب مسجد میں صبح کے وقت داخل ہو اور قرآن مجید کی دو آیات تلاوت کرے یا ان کا علم حاصل کرے تو یہ اس کے لیے دو اونٹنیوں سے بہتر ہے ، اور تین آیات تین اونٹنیوں جبکہ چار آیات چار اونٹنیوں سے بہتر ہیں۔ ''
قرآن مجید کی درس وتدریس کے بارے میں جامع ترین حدیث حضرت عثمان کی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جو قرآن مجید سیکھیں اور سکھائیں۔ '' ایک اور روایت کے الفاظ ہیں: تم میں سے افضل ترین وہ ہیں جو قرآن مجید سیکھیں اور سکھائیں۔''
یہ بات واضح رہے کہ یہ فضیلت یا شرف ان کے لیے نہیں ہے جو الفاظ وحروف کو ان کے معانی وحدود کے بغیر سیکھتے ہیں جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے۔بلکہ اس میں الفاظ کاسیکھنا، انہیں یاد کرنا، اس کی تجوید، اس کے اعراب،اس کی تفسیر،اس کے احکام اوران کی حکمتوں کی معرفت حاصل کرنااور اس کے حلال وحرام کا سیکھنا بھی شامل ہے۔ ابو عبد الرحمن السلمی کی روایت میں ہے کہ انہوں نے کہا: '' ہمیں ان لوگوں نے بیان کیا ہے جو ہمیں قرآن مجید پڑھاتے تھے کہ وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن مجید پڑھا کرتے تھے ۔ پس جب وہ دس آیات سیکھ لیتے تھے تو اس سے آگے اس وقت تک نہ بڑھتے تھے جب تک انہیں اپنے عمل میں نہ لے آتے تھے۔ پس انہوں نے قرآن مجید اور اس پر عمل دونوں کو ساتھ ساتھ سیکھا۔''
جہاں اس قرآن مجید کی تدریس کا معاملہ ہے تو اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ افضل ترین اور اللہ کا تقرب حاصل کرنے والے اعمال میں سے ہے۔ حضرت سفیان ثوری سے جہاد اور قرآن مجید پڑھانے کے بارے سوال ہوا تو انہوں نے قرآن مجید کی تعلیم دینے کو افضل قرار دیا اور دلیل میں حضرت عثمان کی حدیث بیان کی۔ یہ واضح رہے کہ یہ فضیلت صرف اسی کے لیے ہے جس نے قرآن مجید کا علم اور عمل ایک ساتھ حاصل کیا۔ اسی لیے ابن حجر نے کہاہے:'' اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ قرآن مجید سیکھنا اور سکھانا اپنی ذات اور دوسروں کی ذات کو مکمل کرنے والا ہے اور اس میں ایسا فائدہ ہے جو لازم ومتعدی ہے اور اسی وجہ سے اسے افضل ترین عمل قرار دیا گیا ہے۔''قرآن مجید کی درس وتدریس کا یہی صحیح منہج اور بہترین طریق کار ہے۔ بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ قرآن مجید کے الفاظ سیکھنے سے پہلے اس کے معانی کا جاننا ضروری ہے۔ ابن حجر کا قول ہے :''اگر یہ کہا جائے کہ اس روایت کے ان الفاظ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ قاری قرآن ، فقیہ سے افضل ہے ۔ تو ہم جواب میں یہ کہیں گے کہ یہ بات درست نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے اول مخاطبین فقہاء بھی تھے کیونکہ وہ اہل زبان ہونے کی وجہ سے جس کلام کے الفاظ سیکھ رہے تھے ، اس کے معانی ان لوگوں سے بہتر طور جانتے تھے کہ جو ان کے بعد آنے والے تھے اور انہیں ان معانی کے جاننے کے لیے کافی محنت بھی کرنی پڑتی تھی۔ تفقہ ان کے مزاج کا حصہ تھا۔ تو جو ان صحابہ جیسا ہو گا تو وہ اس روایت کے مفہوم میں شامل ہے، محض یہ وجہ اس فضیلت کو پانے کے لیے کافی نہیں ہے کہ وہ قاری یا مقری ہے اور اسے کچھ سمجھ نہیں کہ کیا پڑھ رہا ہے یا پڑھا رہا ہے۔''
امام ابن کثیر نے کہا ہے:
''اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ہے کہ تم میں سے بہترین وہ ہیں جو قرآن مجید سیکھیں اور سکھائیں اور یہ مومنین کی اور رسولوں کے متبعین کی صفت ہے جو اپنی ذات میں مکمل ہوتے ہیں اوردوسروں کو مکمل کرتے ہیں۔ اور اس عمل میں پایا جانے والا فائدہ لازم اور متعدی ہے۔ اس کے برعکس سرکش کفار کا معاملہ یہ ہے کہ نہ تو اپنی ذات کو کوئی فائدہ پہنچاتے ہیں اور نہ ہی اپنی امکان بھرطاقت کے بل بوتے پر کسی کو فائدہ اٹھانے دیتے ہیں۔جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ جن لوگوں نے کفر کیا اور اللہ کے رستے سے رک گئے یا روک دیاتوہم انہیں عذاب پر عذاب میں بڑھائیں گے۔ اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد باری تعالی ہے کہ وہ کفار اس قرآن مجید سے دوسروں کو بھی روکتے ہیں اور خود بھی اس سے رک جاتے ہیں ۔ مفسرین کے صحیح ترین قول کے مطابق اس آیت سے مراد قرآن مجید کی اتباع سےرک جانا اور منع کرنا ہے۔ پس ان کفار نے جھٹلانے کے علاوہ قرآن مجید پر عمل نہ کرنے کو بھی اپنے کفر میں شامل کر لیا جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ اس سے بڑا ظالم کون ہے جس نے اللہ کی آیات کو جھٹلا دیا اور ان سے اعراض کیا۔ پس یہ شریر کفار کا معاملہ ہے جبکہ اللہ کے چنیدہ بندوں کا معاملہ اس کے برعکس یہ ہے کہ وہ اپنی ذات کی تکمیل کے علاوہ دوسروں کو بھی مکمل کرنے کی کوشش کریں جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے بہترین (مکمل ترین) وہ ہیں جو قرآن مجید سیکھیں اور سکھائیں۔ اور جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے : اور اس سے بہترین بات کس کی ہو سکتی ہے جو لوگوں کو اللہ کی طرف بلائے اور نیک عمل کرے اور یہ کہے کہ میں مسلمانوں میں سے ہوں۔ پس اللہ کی طرف دعوت دینا چاہے اذان کی صورت میں ہو یا کسی اور صورت میں تو وہ اس میں شامل ہے مثلا قرآن مجید ، حدیث اور فقہ وغیرہ کی تعلیم جب اللہ کی رضا کے لیے دے گا تو یہ بھی دعوت الی اللہ کی صورتوں میں سے ایک صورت ہے۔ اس کے ساتھ اگروہ صالح اعمال بھی کرے یا بعض نے کہا کہ اس کی باتیں صالح ہوں تو کوئی بھی اس سے بہتر نہیں ہو سکتا۔''
یہ بات بھی واضح ہے کہ تعلیم کے مراحل میں سے بہترین مرحلہ بچپن کی تعلیم کا ہے کیونکہ جو اس میں سیکھا ہوتا ہے اس کے مطابق پرورش ہوتی ہے۔ امام سیوطی نے کہاہے :
''بچوں کو قرآن مجید کی تعلیم دینا اصول اسلام میں سے ہے کیونکہ بچوں کی پرورش فطرت سلیمہ پر ہوتی ہے لہٰذا ان کے دل خواہشات کی آماجگاہ بننے اور معصیت وگمراہی کی سیاہی سے پہلے حکمت کے انوار سے پُر ہوتے ہیں ۔ پس چھوٹے بچوں اور بچیوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ بچپن ہی سے انہیں قرآن مجید کی تعلیم پر ڈال دیا جائے تا کہ ان کا یہ پختہ عقیدہ قائم ہو کہ اللہ سبحانہ وتعالی ان کا رب ہے اور قرآن مجید اس کا کلام ہے۔ ااور یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس سے ان کے دلوں میں قرآن مجید کی محبت راسخ ہو گی اور ان کے اذہان، افکار، صلاحیتیں اور حواس اس کے نور سے روشن ہوں گے۔ اس طرح ہم بچپن میں ہی قرآنی عقائد سیکھ لیں گے اور ہماری پرورش قرآنی اخلاق کی روشنی میں ہو گی۔ ہم اس کے احکامات پر عمل اور اس کے نواہی سے اجتناب کریں گے۔ اور یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ بچپن کا حفظ پختہ ہوتا ہے اور دیر تک یاد رہتا ہے اور دل میں گھس جاتا ہے اور نفس پر اس کا اثر بہت زیادہ ہوتا ہے۔ ''
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] لیکچرار کامسٹ یونیورسٹی لاہور
(جاری ہے۔۔۔۔۔)