تذکرہ اسلاف (7 )
جمع و ترتیب : عبدالرحمن ثاقب
محدث دیار سندھ شیخ العرب والعجم علامہ سید ابو محمد بدیع الدین شاھ راشدی رحمة الله عليه
محدث ديار سنده شيخ العرب والعجم علامه سيد بديع الدين شاه راشدى رحمة الله عليه سید احسان اللہ شاہ راشدی کے گھر 10 جولائی 1924 بمطابق 18 ذی الحجہ 1443ھ کو گوٹھ فضل اللہ شاہ ( سابق آزاد پیر جھنڈا) نزد نیو سعید آباد تحصیل ھالا ضلع حیدرآباد ( حال ضلع مٹیاری) سندہ میں پیدا ہوئے.
نسب نامہ :
علامہ سید بدیع الدین شاہ راشدی بن سید احسان اللہ شاہ راشدی بن سید ابوتراب رشداللہ شاہ بن پیر رشید الدین شاہ بن پیر محمد یاسین شاہ پیر جھنڈا اول بن پیر محمد راشد شاہ الراشدی الحسینی السندھی رحمہ اللہ
تعلیم :
سید بدیع الدین شاہ راشدی نے اپنے خاندانی مدرسہ موسوم بہ " دارالرشاد " میں تعلیم مکمل کی. آپ کے والد گرامی سید احسان اللہ شاہ راشدی نے آپ کی تربیت پر خصوصی توجہ دی. آپ اپنی خود نوشت ( عربی) میں لکھتے ہیں کہ : سب سے پہلے میں نے قرآن مجید پڑھا پھر نصاب کے مطابق پڑھائی شروع کی اور حدیث میں سب سے پہلے امام نووی کی اربعین پڑھی اور والد کو سنائی, والد صاحب نے خوش ہو کر مجھے بلوغ المرام پڑھنے کا حکم دیا ابھی اس کے نصف تک ہی پہنچا تھا خدائے برتر کا داعی آگیا اور آپ نے لبیک کہہ دیا اور اس وقت میری عمر تقریباً تیرہ سال تھی. آپ نے اپنے والد محترم کے علاوہ درج ذیل اساتذہ سے علم حاصل کیا.
شیخ محمد اسماعیل بن عبدالخالق سندھی, شیخ ولی محمد بن محمد عامر کیریو, شیخ محمد سلطان کوریجو ( ھالا) شیخ شفیع محمد (سکرنڈ) شیخ محمد نور عیسی خیل (پنجاب) شیخ عبدالرحمن رامپوری, شیخ قطب الدین ھالیجوی, حافظ محمد امین متوہ, شیخ بہاؤالدین جلال آبادی ( افغانستان) شیخ محمد ایوب ( افغانستان) شیخ محمد احمد لدھیانوی, شیخ محمد مدنی, شیخ عبداللہ بن عمر بن عبدالغنی کھڈہری ( نواب شاہ) شیخ محمد خلیل بن محمد سلیم لدھیانوی ( خیرپور سندہ) وغیرہ
اجازت حدیث :
علامہ سید بدیع الدین شاہ راشدی نے مدرسہ کا نصاب مکمل کرنے کے بعد درج ذیل علماء سے اجازت حدیث حاصل کی.
1* شیخ الاسلام علامہ ثناءاللہ امرتسری
2* الشیخ محدث حافظ عبداللہ روپڑی
3* الشیخ محدث ابوسعید شرف الدین الدہلوی تلمیذ الشیخ بشیر الدین الشہسوانی
4* الشیخ محدث نیک محمد ابواسحاق
5* الشیخ ابو محمد عبدالحق بہاولپوری مہاجر مکی رحمت اللہ علیہم
قوت حافظہ :
اللہ تعالی نے محدث دیار سندہ علامہ سید بدیع الدین شاہ راشدی کو بہت اعلی قوت حافظہ سے نوازا تھا اور آپ نے صرف تین ماہ کے قلیل عرصہ میں قرآن مجید حفظ کیا تھا. آپ کے حافظے کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ تفسیر یا دوسری کتاب لکھواتے ہوئے فرماتے تھے کہ فلاں کتاب لاؤ اور اس کا صفحہ نمبر فلاں کھولو. الغرض جوانی کی عمر میں پڑھی ہوئی کتب کے حوالہ جات بھی صفحہ نمبر اور جلد کے ساتھ یاد ہوتے تھے.
مطالعہ کتب :
آپ کا مطالعہ بہت وسیع تھا آپ تفسیر, علوم القرآن, حدیث و علوم الحدیث, تراجم رجال, شروح الحدیث, اصول فقہ, کتب فقہ المذاہب الاربعہ, خلافیات المذاہب, ادب, تاریخ, لغت, عقائد, منطق, معانی و بلاغت, شعر وغیرہ کی کتب پر مطالعہ بہت گہرا تھا. اللہ تعالی نے آپ کو سریع الفہم بنایا تھا اور ہر علم پر آپ کو دسترس حاصل تھی اور خاص طور پر تفسیر, علوم القرآن, حدیث و علوم حدیث, رجال, اعتقاد سلف صالحین اور مذاہب باطلہ و فرق ضالہ پر رد کے ساتھ آپ کو خاص شغف تھا.
تدریس اللہ تعالی نے سید بدیع الدین شاہ راشدی کو تدریس میں بھی بڑا ملکہ عطاء کیا تھا جامع اور مختصر الفاظ میں اپنے مافی الضمیر کو بیان کرنا آپ کا خاصہ تھا آپ جامع المنقولات والمعقولات تھے آپ سے جو بھی طالب علم آکر جو کتاب پڑھنا چاہتا آپ بغیر پیشگی مطالعہ کے اس کو پڑھا دیتے تھے آپ نے اپنے طالب علمی دور میں بھی بعض طلبہ کو نحو و صرف کی ابتدائی کتب اور حدیث کی بعض کتب مثلا شمائل ترمذی وغیرہ پڑھائیں. آپ نے جب نیو سعید آباد سے متصل اپنا گاؤں آزاد پیر جھنڈا قائم کیا تو وہاں پر المدرسۃ المحمدیہ کے نام سے ایک درس گاہ قائم کی اور وہاں پر آپ پڑھاتے بھی رہے.
آپ 25 دسمبر 1975 کو پاکستان سے ہجرت کرکے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے اور 14 جنوری 1979 کو واپس تشریف لائے. اس دوران روزانہ حرم مکی میں تفسیر ابن کثیر اور صحیح بخاری پڑھاتے تھے شاہ صاحب کا یہ تدریس کا ایک سنہری دور تھا اس دوران دنیا کے طول و عرض سے ہزارون تشنگان علم نے آپ سے استفادہ کیا عرب ممالک سے بےشمار خاص طور پر آپ سے استفادہ کرنے کے لیے مکہ مکرمہ آتے اور آپ کے دروس ریکارڈ کرتے اس طرح سے آپ کی شہرت دنیا کے اکثر اسلامی ممالک میں پہنچی اسی لیے آپ کو شیخ العرب والعجم کے لقب سے پکارا جاتا ہے.
شاہ صاحب نے اس دور کے مجلس القضاء الاعلی کے رئیس اور ممتاز عالم دین الشیخ عبداللہ بن حمید رحمہ اللہ کی درخواست پر معھد الحرام المکی مین دو سال تک پڑھایا اس سے قبل مکہ مکرمہ کی معروف درس گاہ دارالحدیث الخیریہ میں ایک سال تک پڑھایا. اس دوران آپ نے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں شیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ کی دعوت پر دو مرتبہ محاضرہ ( لیکچر) دیا پہلی مرتبہ " اتباع الکتاب والسنہ اور صوفیت کے رد " پر لیکچر دیا اور تصوف کا زبردست رد کیا کیونکہ اس وقت وہاں کے شیخ عطیہ سالم تصوف کے حامی تھے اور ان کے ساتھ دوسرے کچھ اساتذہ بھی تھے شاہ صاحب کے اس لیکچر کے بعد ان اساتذہ کو یونیورسٹی سے خارج کردیا گیا. دوسری مرتبہ آپ نے " خدمات المحدثین فی جمع الحدیث و نشرہ مع الصبر علی ما اصابھم فی سبیل اللہ " کے موضوع پر لیکچر دیا. پاکستان آنے کے بعد آپ نے مستقل کہیں نہیں پڑھایا جبکہ ملک اور بیرون ملک سے بےشمار طلبہ آئے اور انہوں نے آپ سے مختلف کتب پڑھیں
تلامذہ :
سید بدیع الدین شاہ راشدی کے تلامذہ کا احصاء تو ممکن نہیں کیونکہ ان کا تعلق کئی بلاد و امصار سے ہے جنہون نے آپ کے خرمن علم کی خوشہ چینی کی البتہ نمایان نام ذکر کردیے جاتے ہیں.
* شیخ علی عامر یمنی
* شیخ عمر بن محمد بن سبیل( امام کعبہ)
*شیخ عبدالقادر حبیب اللہ سندھی
* شیخ حافظ محمد فتحی
* شیخ عبدالرب بن فیض اللہ مکہ مکرمہ
* شیخ حمدی عبدالمجید السلفی عراقی
* شیخ بشار عواد ( عراق)
* شیخ محمد شکور بن حاجی امریہ سوری
* شیخ مقبل بن ھادی الواد علی یمن
* شیخ محمد ابو سعید الیربوزی الترکی بیلجیم
* شیخ عاصم عبداللہ القریوتی الاردنی
* شیخ ابوالحارث علی بن حسن الیافی الاردنی
* شیخ وصی اللہ ندوی
* شیخ یعقوب بن موسی الہوسانی
* شیخ محمد موسی الافریقی
* شیخ سعیدی بن مہدی الہاشمی البغدادی
* شیخ عبداللہ بن محمد الحربی
* شیخ الحسن القماری السعودی
* شیخ ابوالحسن علی بن حسن الاردنی
* شیخ اسلام بن محمد الاردنی
*شیخ سیف الرحمن بن مصطفی المکی
* شیخ نوراللہ بن شہباز الہندی
* شیخ محمد بن بشار عواد بغداد
*شیخ ربیع بن الہادی السعودی
* شیخ عبدالعزیز النورستانی
* شیخ محمد صالح گوپانگ
*مولانا عبدالعزیز بن محمد صالح گوپانگ
* مولانا محمد عالم گوپانگ
* مولانا محمد قاسم خاصخیلی
* مولانا محمد اسحاق خاصخیلی
* مولانا محمد عبداللہ سومرو
* مولانا حکیم عبدالعزیز بگھیو
* مولانا عبداللہ ریگستانی
* مولانا عبدالغنی
* مولانا محمد ریگستانی
* مولانا فیض اللہ خارانی
* مولانا محمد حیات لاشاری
* مولانا عبدالرزاق سیال
* شیخ محمد ابراہیم نورستانی
* شیخ محمد موسی مدرس افریقہ
* مولانا محمد عیسی بن مولانا محمد عبداللہ
* مولانا عبدالرحمن میمن مٹیاری
* مولانا محمد خان محمدی لغاری
* مولانا افتخار احمد ازھری
* مولانا محمد جمیل عاجز
شاہ صاحب کے بیٹے
مولانا سید محمد شاہ
* مولانا نوراللہ شاہ
* مولانا رشداللہ شاہ
تصنیف و تالیف :
اللہ تعالی نے شاہ صاحب کو لکھنے کا بھی بڑا ملکہ عطاء فرمایا تھا آپ بہت اچھے مصنف تھے آپ عربی, اردو اور سندھی بولتے اور لکھتے تھے آپ نے ان زبانون مین لکھا اور خوب لکھا. ان تینوں زبانوں میں آپ کی تصنیفات موجود ہیں. جن کی فہرست درج ذیل ہے.
عربی تصنیفات :
السمط الابريز حاشية مسند عمر بن عبدالعزيز
* اظهار البرأة عن حديث من كان له امام فقراة الامام له قرأة
* المعقبات المرضية للتعقبات الغير المرضية
* تهذيب الاقوال فيمن له ترجمة في اظهار البراة من الرجال
* التجويب للتعقيب التهذيب
* القنديل المشعول في تحقيق حديث اقتلوا الفاعل و المفعول
* زحاجة القنديل
* التذييل القنديل
* خير المشرب في سنية الركعتين قبل المغرب
* عين الشين بترك رفع اليدين
* العجوز لهداية العجوز
* تحقيق الدعا برفع اليدين وما قيل في اسلام الأبوين
* وصول الالهام لاصول الاسلام ( غير منقوط)
* المعانى المصطلحة لما فى اصول الالهام من الفاظ المشكلة
* زيادة الخشوع بوضع اليدين في القيام بعد الركوع
* التحقيق المقطوع في اثبات وضع اليدين علي الشمال بعد الركوع
* منجد المستجيز لرواية السنة والكتاب العزيز
* جزء منظوم في اسماء المدلسين
* التحقيق المنصور علي فتح الغفور في تحقيق وضع اليدين علي الصدور
* جلاء العينين بتخريج روايات البخاري في جزء رفع اليدين
* توفيق الباري في ترتيب جزء رفع اليدين للبخارى
* غاية المرام في تخريج جزء القرأة خلف الامام
* كحل العينين لمن يريد تحقيق مناظرة الامام ابى حنيفة مع الاوزاعي فى رفع اليدين
* منية الإشارات في جلسات الصلوات
* القول اللطيف في الاحتياج بالحديث الضعيف
* رفع الارتياب عن حكم الأصحاب
* ازهار الحدائق في تذكار من جمع احاديث خير الخلائق
* صريح المهمد في وصل تعليقات مؤطا امام محمد
* الاجابة مع الاصابة في ترتيب احاديث البيهقي علي مسانيد الصحابة
* التبويب لاحاديث تاريخ الخطيب
* السمح في ايام الذبح
*التعليقات الراشدية على شرخ اربعين النووية لمحمد حيات السندي
* الجواب الوقيع عن تعقيب المنيح
*اللمعة في ان مدركا للركوع ليس مدركا للركعة
* تحفة الاحباب في تخريج احاديث قول الترمذي وفي الباب
* البرق السماوي على السارق الدنياوى
* ايفاء اللحى على اعفااللحى
* كشف المحو شرح هداية النحو
* انماءالزكن في تنقيد انهاءالسكن
*شيوخ الامام البيهقي
*الاربعينيات فى الدينيات
* حاشية انتقاض الاعتراض لابن حجر
* احسن الجواب عما كتب بعض الأحباب في مسئلة ام الكتاب
*الجواب الدلات عن اسئلة الثلاث
* شهادة الاحناف في مسألة علم الغيب على سبيل الانصاف
* كشف الاختلاف في رد الاحناف
* تحصيل الجواز و الصلات في نقض دعوي عدم الجهر بالبسملة فى الصلوة
* شرح كتاب التوحيد ( صغير) لابن خزيمه
* فهرسة احاديث تاريخ مدينة السلام على تبويب المسائل و ترتيب الأحكام
* تفسير القرآن الكريم المسمي باالاستنباط العجيب في اثبات التوحيد من جميع أيات الكتاب النجيب
* الذيل على رفع الارتياب عن حكم الأصحاب
* الخبر الصفا في النهي عن حلق القضا
* خير المناسك في احكام المناسك
* النصيحة البديعة لاخيه
* سيف الملك الدبان على رأس مفتى سليمان
* رفع الستر عن احكام الوتر
* العلوم المرعشة في بيان تحريفات اهل الرأى المدهشة
* سندھی کتب *
ضرب اليدين علي منكر رفع اليدين
*ضرب الفأس على رأس بعض الخناس
* رکوع کے بعد ہاتھ باندھنا
* نماز کی مسنون دعائیں
* نماز نبوی
* الوسیق فی جواب الوثیق
* قادیانی و جھنڈائی خاندان بینھما برزخ لایبغیان
* حجۃ الوداع
* تقریر لاجواب
* مقدمہ بدیع التفاسیر
* بیان بینظیر قرآن کی تفسیر
التقیید المضبوط فی تسوید تحریر الملبوط
* قال اقول فی تسوید تحریر المجھول
* الأجوبة الفاضلة للاسئلة العشرة الكاملة
* سینہ پر ہاتھ باندھنا
* سنت قبل المغرب
* تمییز الطیب من الخبیث بجواب رسالہ تحفۃ الحدیث ( راقم نے اس کتاب کا اردو میں ترجمہ کیا ہے)
* ترجمۃ کتاب الرد علی ابی حنیفۃ للامام ابن ابی شیبۃ
* التفصیل الجلیل فی ابطال التأویل العلیل + المبسوط المضبوظ فی جواب المخطوط المھبوط ( راقم نے ان دونوں کتب کا بھی اردو ترجمہ کیا ہے جع کہ مروجہ فقہ کی حقیقت کے نام سے شایع ہوا ہے.)
* مولوی اللہ ڈنہ جمارانی کی کتاب پر تبصرہ
* مولوی عبداللہ اور مولوی خوشی محمد کی تحریروں پر فیصلہ ( بابت تراویح)
* توحید ربانی یعنی سچی مسلمانی حصہ اول و دوم
* الاربعین فی الجھر باالتامین
* خطبہ صدارت ( نیو سعید آباد کانفرنس)
* تقریر دلپذیر بنام برأۃ اہل حدیث
* اردو کتب *
* زیادۃ الخشوع بوضع الیدین علی الشمال بعد الرکوع
* الدلیل التام علی ان سنۃ المصلی الوضع کلما قام
* الاعلام بجواب رفع الابھام
* اسکات الجزوع فی جواب ما بعد الرکوع
* توحید خالص
* اتباع سنت
* تنقید سدید بر رسالہ اجتھاد و تقلید
* نشاط العبد بجھر ربنا ولک الحمد
* تاریخ اہل حدیث
* رکوع کی رکعت
* الضرب الشدید علی القول السدید گی اثبات التقلید
* رفع الاختلاف
*شرعی طلاق
* صحیح بخاری کی ایک حدیث اور مسئلہ وضع الیدین فی القیام بعد الرکوع
* الاہی عتاب بر سیاہ خضاب
* امام صحیح العقیدہ ہونا چاہئے
* مسلک اہل حدیث اور تقلید
* تواتر عملی یا حیلہ جدلی
* القنوط والیاس لاھل الارسال من نیل الامانی و حصول الآمال
*الفتاوی البدیعیہ
تنظیمی سفر :
علامہ سید ابو محمد بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ نے 1957 میں جب آپ کی عمر 33 برس تھی اس وقت جمعیت اہل حدیث حیدرآباد کی داغ بیل ڈالی. جن رفقاء کرام کو آپ نے کام کرنے کے لیے منتخب کیا انہوں نے آپ کو " جمعیت اہل حدیث حیدرآباد " کاپہلا امیر چنا. شاہ صاحب نے جماعتی نظم و نسق کو بہتر انداز میں چلانے کےلیے معروف عالم دین اور علاقہ تھر میں علم کے موتی بکھیرنے والے مشکوۃ المصابیح کا سندھی میں ترجمہ اور تشریح لکھنے والے مولانا محمد عمر جونیجو رحمہ اللہ کو نائب امیر مقرر کیا.
مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کی وفات کے بعد مرکزی جمعیت اہل حدیث انتشار کا شکار ہوگئی بالآخر جماعت دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئی ایک دھڑے کے امیر مولانا معین الدین لکھوی اور ناظم اعلی میاں فضل حق مرحوم بنے جبکہ دوسرے گروپ نے 10 جون 1973 کو علامہ سید بدیع الدین شاہ راشدی کو امیر اور پروفیسر ساجد میر صاحب کو ناظم اعلی منتخب کرلیا شاہ صاحب چونکہ پڑھنے پڑھانے اور قلم و قرطاس سے تعلق رکھنے والے تھے لہذا آپ نے پہلے دن ہی یہ بات واضح کردی تھی کہ جونہی صلح و اتحاد کی بات چلے گی میں امارت سے مستعفی ہوجاوں گا.
فیصل آباد شبان اہل حدیث کے سرکردہ مولانا محمد شریف اشرف, مولانا محمد یوسف انور, پروفیسر محمد شریف, مولانا طیب معاذ اور ان کے رفقاء نے کچھ بزرگوں کے ساتھ مل کر اتحاد کے لیے مؤثر کردار ادا کیا جونہی اتحاد کے فارمولے پر اتفاق ہوا تو شاہ صاحب نے حسب وعدہ و اعلان امارت سے استعفی دے دیا اس طرح سے آپ نے اپنی بات کی پاسداری کی اور اس پر من و عن عمل کرکے دکھایا.
شاہ صاحب نے مسلک اہل حدیث اور دعوت اہل حدیث کو سندہ بھر میں پھیلانے کا عزم مصمم کیا اور اس عظیم مقصد کے لیے آپ نے اپنی خاندانی اور علمی اعتبار سے ساری توانایاں صرف کرڈالیں اور جمعیت اہل حدیث سندہ کی بنیاد رکھی. 1988 میں آپ نے باقاعدہ ہر ضلع کی تنظیم سازی کی اور فضیلت الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی صاحب حفظہ اللہ ( موجودہ امیر) کو ناظم اعلی اور قاضی عبدالحق انصاری رحمہ اللہ کو نائب امیر مقرر کیا. آپ نے کراچی سے لیکر کشمور تک اور تھر کے ریگستانوں سے لے کر کوہستان تک اس جماعت کو منظم کیا اور قریہ قریہ, بستی بستی قرآن و سنت کی دعوت لے پہنچے.
خطبہ و خطاب
اللہ تعالی نے علامہ سید بدیع الدین شاہ راشدی کو فن خطابت کا بھی شہسوار بنایا تھا آپ خطاب فرماتے تو مجمع پر سکوت طاری ہوجاتا اور سامعین ہمہ تن گوش ہو کر آپ کا خطاب سنتے. تقسیم ہند سے قبل بٹالہ ضلع گورداسپور میں اہل حدیث کانفرنس کی صدارت آپ نے محض 20 سال کی عمر میں کی. حالانکہ اس وقت وہاں پر کبار علماء کرام موجود تھے. اس وقت آپ نے جو خطبہ صدارت پڑھا تھا وہ آپ کے علمی مقام کا بڑا ثبوت ہے. آپ حج بیت اللہ کےلیے تشریف لے جاتے تو موسم حج میں حرمین شریفین میں روزانہ عربی اور اردو زبان آپ کے دروس ہوتے.
مولانا محمد اسماعیل سلفی ( امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان) کی وفات کے بعد کی بات ہے راولپنڈی میں 1968 میں آل پاکستان اہل حدیث کانفرنس حضرت العلام حافظ محمد گوندلوی صاحب کی صدارت میں ہوئی خطبہ جمعہ کےلیے سب کی نظر محدث دیار سندھ علامہ سید بدیع الدین شاہ راشدی پر ٹہری اور موضوع بھی آپ کو مسلک اہل حدیث اور فاتحہ خلف الامام دیا گیا دارالخلافہ اور مناظرانہ حالات میں بڑے بڑے علماء محسوس کررہے تھے کہ شاید شاہ صاحب سندھی ہونے کی وجہ سے اردو میں خطبہ کا حق ادا نہ کرسکیں اور پھر موضوع بھی ایسا جو کہ خالص علمی تھا اور جمعہ کے اجتماع میں احناف نے بھی بڑی تعداد میں شرکت کی لیکن جونہی شاہ صاحب نے خطبہ مسنونہ کے بعد اپنے خطاب کا آغاز کیا تو ہر لمحہ اس طرح سے عوام پر چھاتے چلے گئے کہ جیسے لوگوں کے دل و دماغ پر قبضہ کرلیا ہو. شاہ صاحب نے فاتحہ خلف الامام پر علمی اور عوامی انداز میں وہ دلائل دیے کہ لوگ عش عش کر اٹھے اس کے بعد شاہ صاحب کا پورے ملک میں طوطی بولنے لگا.
اسفار :
سید بدیع الدین شاہ راشدی نے تبلیغ دین کےلیے جہاں ملک عزیز کے طول و عرض میں سفر کیے وہاں پر آپ نے بیرون ملک دعوت و تبلیغ کے لیے سفر کیے. آپ نے عمان, کویت, متحدہ عرب امارات, بحرین, قطر, بنگلادیش, امریکہ, ڈنمارک کینیڈا, بھارت افغانستان, مصر اور شام وغیرہ کے سفر کیے.
میدان دعوت و تبلیغ اور مصائب کا سامنا :
حضرت شاہ صاحب نے اپنی دعوت کا آغاز توحید و سنت کی اشاعت اور شرک و بدعت کی تردید سے کیا اس وجہ سے مخالفت ہونا لازمی امر تھا کیونکہ سندہ میں پیری مریدی کا دور دورہ تھا جگہ جگہ پیروں کی گدیاں اور آستانے آباد تھے. لوگوں پر تقلید و جمود کی گرفت مضبوط تھی ان حالات میں ہمارے ممدوح سید بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ نے توحید و سنت کا آوازہ بلند کیا اور پورے زور شور سے شرک و بدعت کی تردید کی. تو آپ کی مخالفت میں طوفان اٹھ کھڑا ہوا اور آپ پر گمراہ اور کفر کے فتوے جاری کردیے گئے آخر کار آپ کو اپنا گاؤں چھوڑنا پڑا اور نیو سعید آباد کے قریب نیا گاؤں آباد کرنا پڑا آپ کو اس نو آباد کردہ گاؤں سے بھی نکالنے کی کوشش کی گئی اور مختلف حربے استعمال کیے گئے. بالآخر اللہ تعالی نے آپ کو شاندار کام یابیاں عطاء فرمائیں.
ایک دفعہ آپ میہڑ ضلع دادو کے ایک اہل حدیث ساتھی کی دعوت پر تشریف لے گئے رات کو آپ نے توحید خالص اور رد وسیلہ کے موضوع پر ایک گھنٹہ ہی خطاب کیا تھا کہ شہر کا چیئرمین دانت پیستا ہوا سیدھا شاہ صاحب کے پاس آیا اور لاؤڈ اسپیکر بند کرکے مزید پروگرام جاری رکھنے سے منع کردیا شاہ صاحب اور آپ کے ساتھی صبر اور خاموشی کے سوا کچھ نہ کرسکے. اللہ تعالی کی نصرت اور مدد کے منتظر تھے کہ چند دنوں کے بعد وہ ایک گھناونے مقدمے میں گرفتار ہوگیا اور کافی عرصہ جیل میں قید رہا وہ اپنے ملاقاتیوں سے اعتراف کرکے کہتا تھا کہ میں نے شاہ صاحب کو جو تقریر سے روکا تھا جس میں وہ صرف قرآن پڑھ رہا تھا مجھے اس کی سزا ملی ہے اسی طرح سے اپنے گاؤں سے تقریباً سات میل دور جمالی بلوچوں کا گاؤں ہے وہاں کچھ اہل حدیث ساتھی رہتے تھے آپ ان احباب کی خواہش پر وہاں تقریر کرنے پہنچے گاوں کی مسجد میں پروگرام تھا لیکن اہل بدعت کی اکثریت نے آپ کو مسجد میں تقریر کرنے سے منع کردیا جب اہل حدیث حضرات نے اصرار کیا تو وہ لڑنے کےلیے تیار ہوگئے اور لاٹھیاں کلہاڑیاں لے کر مسجد میں پہنچ گئے اہل حدیث ساتھی کہہ رہے تھے کہ ہم لڑیں گے اور تقریر ضرور کروائیں گے آج قربانی کا دن ہے لیکن شاہ صاحب نے اپنے ساتھیوں کو منع کردیا اور صبر کی تلقین کی اور انہیں سمجھایا کہ ہمارا کام دعوت دینا ہے لڑائی کرنے سے ہمارے مشن کو نقصان پہنچے گا پھر ایک ساتھی کا گھر خالی کرواکر آپ کی تقریر کروائی گئی جس سے مخالفین کی آنکھیں کھل گئیں اور مخالفت کا زور ٹوٹ گیا پھر اس کے بعد کئی دفعہ آپ نے وہاں خطاب فرمایا.
آپ نے کئی میلوں پر جاکر وعظ کیے اور شرک کے اڈوں کو بھی ختم کیا. ضلع سانگھڑ میں ایک پیر صاحب نے زیارت کروائی تو مریدوں نے اس جگہ کو باڑ لگا کر محفوظ کرلیا اور وہاں جاکر نوافل ادا کرنے لگے اور اس جگہ کو قبولیت کی جگہ سمجھنے لگے. شاہ صاحب کا ساتھیوں سمیت وہاں سے گذر ہوا تو حقیقت حال معلوم ہونے پر آپ نے اس باڑ کو جلانے کا حکم دیا جب اسے جلادیا گیا تو وہ پیر صاحب اور ان کے مرید بہت بگڑے لیکن اللہ کا کرنا ایسا یوا کہ اس پیر صاحب کو اور ان کے مریدوں کو حضرت شاہ صاحب سے تعاون لینا پڑ گیا اور اس طرح سے یہ مخالفت ختم ہوگئی.
اولاد :
اللہ تعالی نے شاہ صاحب کو تین بیٹیاں اور چار بیٹے عطاء کیے تھے. محمد شاہ, نوراللہ شاہ, رشداللہ شاہ اور ابراہیم خلیل اللہ شاہ.
وفات :
یہ عظیم محدث 8 جنوری 1996 کو کراچی کے علاقے موسی لین میں اپنے رب سے جا ملا اور پیچھے لاکھوں محبت کرنے والوں کو سوگوار چھوڑ گیا رات ہی کو آپ کی نعش نیو سعید آباد لائی گئی. اگلے دن فضیلت الشیخ محدث العصر علامہ عبداللہ ناصر رحمانی صاحب نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور آپ کو اپنے آبائی قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا.
اناللہ وانا الیہ راجعون
آپ کی وفات سے بزم تحقیق ہی سونی نہیں ہوئی بلکہ دعوت و تبلیغ کی رزمگاہیں بھی اجڑ گئیں. افتاء و تدریس کی مسند ہی اپنے صدر نشین سے محروم نہیں ہوئی بلکہ وعظ و خطابت کو گرمانے والا بھی چلا گیا. علمی محفلوں کو آباد کرنے والا ہی راہی ملک عدم نہیں ہوا بلکہ مساجد و مدارس کو اجتماعات بھی بےرونق ہوگئے
وما کان قیس ھلک ھلک واحد
ولکنہ بنیان قوم تھدما
ایسی نابغہ روزگار شخصیتیں روز پیدا نہیں ہوتیں ماہ و سال کی ہزاروں گردشوں کے بعد ہی پردہ عدم سے نکل کر سامنے آتی ہیں. آپ یقیناً اس شعر کے مصداق تھے
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتاہے چمن میں دیدہ ور پیدا