• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تذکرہ ایک مدنی محفل کا

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
بروز سوموار 03 رجب 1439هـ بمطابق 19 مارچ 2018ء
چند دن پہلے شیخ عبد الرزاق زاہد گھمن صاحب مدینہ منورہ موجود تھے، موصوف عمرہ کے لیے ساتھ اپنے صاحبزادے ’ ترحیب‘ کو بھی لائے تھے ، والدین کو بچوں سے بہت محبت اور پیار ہوتا ہے، ترحیب بیمار بھی تھا، اس لیے شیخ اپنی ساری ’ شیخوخت‘ ایک طرف رکھ کے اس کے صدقے واری جاتے تھے، کلیۃ الحدیث سے متخرج ہیں، کہنے لگے، جامعہ میں اساتذہ سے ملنا ہے، دو مرتبہ ہم کلیۃ الحدیث گئے ، بچے کو ساتھ اٹھائے رکھا، بلکہ اپنے مشایخ سے بھی بیٹے کے لیے دعائیں اور پیار لیتے رہے۔ ترحیب کو پوری یونیورسٹی کا تعارف یوں کرواتے رہے ، گویا کسی وجیہ کو یونیورسٹی وزٹ کروا رہے ہیں۔
ماں باپ کے اس لاڈلے کی طبیعت یہیں پر کافی نازک صورت حال اختیار کر گئی، ہسپتال میں داخل ہوا، چند دن زندگی موت کی کشمکش میں مبتلا ہو کر شیخ کا ’ترحیب‘ انہیں ہمیشہ کے لیے ’ الوداع‘ کرگیا۔
مسجد نبوی میں جنازے اور بقیع الغرقد میں تدفین کے بعد ہم واپس لوٹ رہے تھے، کہ اچانک ایک طرف سے کسی نے بلایا، دیکھا تو وہ حافظ ارشد محمود صاحب تھے، جو کہ مجموعہ علمائے اہل حدیث کے ایڈمن ہیں۔ اپنے دو بیٹوں کے ساتھ قبرستان دیکھنے اور دعا مانگنے کے لیے آئے ہوئےتھے۔
آج کی مدنی محفل کے مہمان حافظ ارشد صاحب اور روح رواں تحریک دعوت توحید کے کنوینر میاں جمیل (ایم اے) صاحب ہیں۔
حافظ سعد مدنی بن علامہ محمد مدنی اور مجیب الرحمن ابن حیدر ( بدر الہدی، واہنڈو) حافظ عبد العلیم ( متعلم کلیۃ المسجد النبوی) کے علاوہ دیگر شرکا و مدعوین تقریبا وہی ہیں، جن کے نام متعدد مرتبہ درج ہوچکے ہیں۔
مسجد نبوی سے ایک روڈ میدان احد کی طرف جاتا ہے ، اس کا نام ’طریق شہداء أحد‘ ہے، اس میں پاکستانی و غیرپاکستانی ہوٹلز کی ایک لمبی چوڑی قطار ہے ، جن میں سے ایک ہوٹل لیالی طیبہ ہے۔
بیٹھنے کے لیے کافی بہترین اور کشادہ انتظام ہے۔ سب لوگ میاں صاحب کی صدارت ، حافظ ارشد صاحب کی نیابت ، حافظ قاسم صاحب کی میزبانی میں وہاں موجود تھے۔
ہمارے پہنچنے کے بعد میاں جمیل صاحب کو دعوت سخن دی گئی۔
انہوں نے اپنے معروف خطیبانہ لب و لہجہ میں تقریر کے تمام لوازمات کا خیال رکھتے ہوئے بات شروع کی، اور شروع سے لیکر اب تک تحریک دعوت توحید کی مختصر روئیداد بیان کردی، خطبا واسپیکرز ، شعرا و قصہ گو اور دانشور طبقے کے لیے جو کام سب سے مشکل ہیں، انہیں میں سے ایک ، کسی دوسرے کو سننا اور پڑھنا ہے۔
میاں جمیل صاحب نے تقریبا ایک گھنٹے کی تقریر فرمائی، باقیوں کا مجھے پتہ نہیں، لیکن میں نے یہ تقریر کافی دلچسپی سے سنی۔
آپ نے تحریک دعوت توحید کا پس منظربیان کرتے ہوئے تمہید میں چار نکتے بیان فرمائے:
1۔ انبیا کی بعثت سب سے گمراہ قوم میں ہوتی تھی۔
2۔ انبیا جسمانی و جوہری طور پر منفرد حیثیت رکھتے تھے۔
3۔ انبیا ورسل کی بعثت تب ہوتی تھی، جب قوم کے وڈیرے ، زعما اور لیڈرعوامی مسائل حل کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو جاتے تھے۔
4۔ ہر دورکے کچھ ’ ہنگامی مسائل‘ ہوتے ہیں، لیکن انبیا نے دعوت کا آغاز توحید سے ہی کیا، ہنگامی مسائل یعنی کرنٹ افیرزکی بنیاد پر تحریکیں کھڑی نہیں کیں۔
حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے گو سب مسائل کو حل کیا، لیکن اول و آخر نعرہ اور سلوگن’ دعوت توحید‘ ہی رہا۔ اس وقت جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ظلم و ستم ڈھائے جاتے تھے، مجالس میں بیٹھنے نہیں دیا جاتا تھا، لوگوں کو متنفر کیا جاتا تھا، اگر حضور چاہتے تو پہلے ہی ہلے میں توحید کی بات کرنے کی بجائے غلاموں کے حقوق یا عورتوں کے حقوق جیسا کوئی نعرہ بلند کرتے، اور معاشرے کی ایک کثیر تعداد پس و پیش کی بجائے آپ کی طرف امڈی آتی۔۔۔۔
گویا ان کے نزدیک’عورتوں کے حقوق، غلاموں کے حقوق، غریبوں کے حقوق‘ طرز کے جتنے نعرے ہیں، ان پر تحریکیں برپا کرنا یہ سب نبوی منہج نہیں ہے۔
میاں صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ توحید الوہیت سب سے مقدم اور اہم ہے جبکہ توحید حاکمیت سب سے آخری مرحلہ ہے۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ جیسے تیسے ایک مرتبہ حکومت اور کرسی حاصل کرلیں، پھر اسلام کے جھنڈے گاڑیں گے، اس سوچ کے خلاف شیخ نے یہ استدلال بھی پیش کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کفار مکہ نے دعوت توحید پر کمپرومائز کے بدلے میں جن چیزوں کی پیشکش کی تھی ، ان میں سے ایک سیادت و حکومت بھی تھی، لیکن حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ٹھکرا دیا تھا۔
اسی مناسبت سے انہوں نے قاضی حسین احمد مرحوم کے ساتھ اپنا ایک واقعہ ذکر کیا، کہ کسی شادی میں جمع تھے، قاضی صاحب نے پوچھا،آپ آج کل کیا کرتے ہیں ؟
میاں صاحب نے کہا: میں نے ’ قولوا لا إلہ إلا اللہ ...‘ تحریک شروع کی ہے۔
قاضی صاحب نے کہا، مردہ خداؤں کے ساتھ ساتھ زندہ خداؤں کی بھی نفی ہونی چاہیے، جس پر میاں صاحب نے جواب دیا ، دیکھیے : زندہ خداؤں کے خلاف بات کرنے والے بہادری کے تمغے وصولتے ہیں ، جبکہ مردہ خداؤں کی پرستش سے منع کرنے والوں کو گالیوں سے نوازا جاتا ہے ۔
میری نظر میں یہ قاضی صاحب کی بات کا جواب تو نہیں ہے، لیکن بہرصورت اسلام نظام کے نفاذ اور دعوت توحید دونوں میدانوں میں موازنہ کرتے ہوئے ، اس پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، بالکل اسی طرح کہ جیسے حاکمیت کی بات کرنے والے کئی لوگ پس دیوار زنداں ہیں، جبکہ توحیدالوہیت کی دعوت دینے والوں کے لیے عموما اس قسم کی مشکلات نہیں ہوتیں۔
میاں صاحب پہلے مرکزی جمیعت کی قیادت میں شامل تھے، علامہ شہید کے ساتھ مل کر کام کرتے رہے، بقول ان کے مرکزی جمیعت کے تحت ہی ’ تحریک دعوت توحید‘ شروع کی گئی، اور مجھے اس کا ذمہ دار بنایاگیا، لیکن میں نے جب اس تحریک کا لائحہ عمل اور اس کے مطابق عملی اقدامات کا مطالبہ کیا، تو ’تحریک دعوت توحید‘ جماعت کا حصہ نہ رہ سکی۔
میاں صاحب نے فرمایا ، جب میں نے آزاد حیثیت سے تحریک دعوت توحید شروع کی تو اپنے لیے تین اصول مقرر کرلیے:
1۔ دھڑا بازی نہیں کرنی، تنظیموں اور جماعتوں سے الجھنا نہیں۔
2۔ چندہ نہیں لینا، اس بات کی انہوں نے مزید وضاحت کی،کہ کوئی ہمیں چندہ دینے کی کوشش کرے ، تو ہم ان سے پیسے لینے کی بجائے، تحریک کی ضرورت ذکر کردیتے ہیں،کہ آپ اسے پورا کردیں۔
انہوں نے اس بات کو بہ تکرار دہرایا کہ میں ’ دعوت توحید‘ کے لیے چندہ لینے کو درست نہیں سمجھتا۔
3۔ مکی اسلوب رکھنا ہے ، مزاحمت نہیں کرنی۔
میاں صاحب کی باتیں میں شروع سے سن رہاتھا تو ذہن میں آیا کہ اب تک یہ زندہ کس طرح ہیں؟ اور ان کی تحریک باقی کیوں ہے؟ لیکن جب انہوں نے اپنا یہ اصول ذکر کیا، تو حیرت ختم ہوگئی۔
تحریک دعوت توحید کے سلسلے میں انہوں نے کئی ایک مشکلات کی طرف بھی اشارہ کیا، کہ اپنے بعض لوگوں کی طرف سے ’عدم تعاون‘ کا مظاہرہ کیا گیا، بلکہ جب تحریک کو جماعت سے الگ کردیا گیا، تو کئی لوگوں نے اس پر ’ مسجد ضرار‘ جیسی پھبتی بھی کسی، پھر جب تحریک کے کاموں کے لیے افراد کی ضرورت ہوتی ، تو ظاہر ہے خود تو کوئی دہڑا بندی کی نہیں تھی، جماعتوں کو جب اس مشترکہ کاز کے لیے گزارش کی جاتی تو ایک کہتی کہ ’ ہمارا نظم اس کی اجازت نہیں دیتا‘ دوسرے عذر کرتے کہ ’ یہ ہماری پالیسی کے مطابق نہیں‘۔
شیخ جب جماعتی زندگی کا حصہ رہے ہیں ، انہوں نے ’ نظم جماعت‘کے عنوان سے ایک کتاب بھی تصنیف کی ، لیکن جماعتوں کی ان مجبوریوں اور اعذار والی روش کا تذکرہ کرتے ہوئے وہ اس ’ نظم اور پالیسی‘ سے کافی برھم نظر آئے۔ بہر صورت اس روش کو نظم کہیں یا پالیسی کا نام دیں،اب ’ تقلید‘ کی طرح اس کےبھی جواز اور عدم جواز کی بحثیں ہونا چاہییں،​
کہ اب کسی برے سے برے کام کے جواز کے لیے یااچھے سے اچھے کام سے احتراز کے لیے صرف ’ جماعتی نظم اور پالیسی‘ کا حوالہ دے دینا کافی سمجھ لیا جاتا ہے۔
شرک و بدعت کے دلدادہ لوگوں نے بھی اس تحریک کو روکنے کی بہت کوشش کی، پرچے کٹوائے،قتل کی پلاننگ کی، مد مقابل تحریک کھڑی کرنے کی کوشش کی۔
لیکن چونکہ تحریک سچائی اور حقیقت پر مبنی تھی اس لیے کافی مشکلات کے باوجود آہستہ آہستہ آگے بڑھتی رہی۔
شرک کی مذمت اور دعوت توحید کو عام کرنے کے لیے اس تحریک کے تحت جو عملی اقدامات کیے گئے ، وہ درج ذیل ہیں:
1۔ لٹریچرکی دستیابی ۔
پیام اسلام اقوام عالم کے نام ، عقیدہ اور عقیدت میں فرق، مکی دور کے مشرکین کے حیلے بہانے اور ان کا جواب: وغیرہ عناوین سے پمفلٹ تیار کرکے ، لاکھوں کی تعداد میں تقسیم کیے گئے۔
2۔وال چاکنگ کروائی گئی ۔
توحید و شرک کے تصورات واضح کرنے کے لیے تحریک نے کچھ ’ جملے‘ اور ’ سلوگن‘ تیار کیے، اور انہیں دیواروں پر عام کردیا گیا۔
قبرون کا احترام ، مگر ان کو سجدہ حرام
حاجت روا مشکل کشا ، ایک خدا ایک خدا
میرے لیے اللہ ہی کافی ہے۔
زبان زد عام اس قسم کے جملے اسی تحریک کی محنت و کاوش کا نتیجہ ہیں۔
3۔ ریلیاں اور مظاہرے کیے گئے۔
آج کل ریلیاں اور مظاہرے کسی حد تک بدنام ہوچکے ہیں، لیکن اُس وقت تصور توحید عام اور رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے اس قسم کی ریلیوں کا کافی فائدہ ہوا۔
4۔ اجتماعی خطبات جمعہ کا انعقاد
اس سے مراد یہ ہے کہ مختلف مساجد کے ائمہ اور خطبا سے رابطہ کیا جاتا، اور انہیں ’ توحید‘ کے موضوع بر خطبات جمعہ بر راضی کیا جاتا، اور پھر ان سب کے نام پر مشتمل ایک اشتہار چھاپا جاتا، کہ فلاں تاریخ کو فلاں فلاں مساجد اور علاقوں میں توحید کے موضوع پر خطبات ہوں گے۔
اس حوالے سے انہوں نے ایک واقعہ ذکر کیا، لاہور علی ہجویری صاحب کا عرس تھا ، جہاں عرس کے اشتہارات تھے ، وہیں دوسری طرف پورے لاہور میں ’ خطبات توحید اور شرک کی مذمت‘ کے اشتہارات کی بھرمار کردی گئی۔ جو یقینا بہت سارے لوگوں کے لیے ہدایت کا ذریعہ بنے۔
اسی طرح کئی جگہون پر میلوں اور عرس پر جاکر بھی دعوتی لٹریچر تقسیم کیا گیا، نتیجتا سختیاں اور مشکلات بھی آئیں ، لیکن اس کا فائدہ اتنا ہوا کہ شرکیات و بدعات میں ملوث لوگ کسی حد تک دفاعئی پوزیشن میں آگئے۔ بریلویوں کے معروف عالم دین اشرف آصف جلالی کا ’ توحید سیمینار‘ اسی رویے کا ایک اظہار ہے۔ پہلے شرکیات پر مشتمل نعروں سے دیواریں اٹی ہوتی تھیں، کوئی روکنے والا نہیں تھا ، لیکن جب تحریک دعوت توحید کی طرف سے وال چاکنگ شروع ہوئی، تومجبورا حکومت کو دونوں اطراف کو خاموش کروانا پڑا، میاں صاحب کے بقول اب دیواروں پر اس قسم کی چیزیں نظر نہیں آئیں گی۔
کسی نے سوال کیا، میاں صاحب آپ یہ کام سوشل میڈیا کے ذریعےشروع کیوں نہیں کرتے ؟
جواب میں فرمایا، ایک تو اس بر خرچہ بہت آتا ہے، دوسرا دعوت کے اس میڈیائی انداز پر ابھی تک ہمیں شرح صدر نہیں ہے ۔ اس لیے اس طرف توجہ نہیں کرسکے۔
دوران گفتگو یہ بات بھی کئی بار دہرائی کہ توحید کی دعوت کو ہمارے اسلاف نے جس طرح عام کیا، اس سے متعلق تصورات کو جیسے واضح کیا، ہم ان کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ، لیکن ہمیں اس دعوت کو لے کر آگے بڑھنا چاہیے، جب ہم لوگوں کا ذہن تبدیل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے، ان میں تصور توحید پختہ ہوجائے گا، تو دیگر مسائل کے حل میں بہت آسانی ہوجائے گی۔
حقیقت ہے کہ تقریر کی ابتدا میں مجھے ان کا موقف عجیب و غریب محسوس ہوا، لیکن مجلس کے آخر تک پہنچے تو ان کی سوچ و فکر کافی حد تک میرے لیے واضح ہوگئی، اوریہ محسوس کیا کہ توحید کو جس طرح وہ کتابوں، مسجدوں اور مخصوص طرز کے جلسے اور کانفرنسوں سے آگے بڑھا کر عامۃ الناس میں پھیلانا چاہتے ہیں، اس کی بہت ضرورت ہے ، اور ہم یہ کام کماحقہ نہیں کرسکے۔
میاں جمیل صاحب نے اس دور میں ایم ایے کیا تھا، جب ایم اے لوگ کم ہوتے تھے ، اس لیے بطور شناخت ان کے نام کے ساتھ ’ ایم اے‘ لگتا ہے ، جبکہ اب وہ اس لاحقے کو پسند نہیں کرتے۔
میاں صاحب نے دینی تعلیم جامعہ اسلامیہ گوجرانوالہ سے حاصل کی، اور مولانا اسماعیل سلفی صاحب سے فیض یاب ہونے کا بھی موقعہ ملا۔
میاں صاحب کی تقریر کے بعد کافی دیر تک سوال و جواب اور انفرادی گفتگو کا بھی سلسلہ جاری رہا، یاد آیا ہمارے جامعہ رحمانیہ کے کلاس فیلو اور جامعہ اسلامیہ مدینہ سے خریج، فضیلۃ الشیخ نوید قصوری صاحب بھی شریک تھے، کافی دیر ان سے بھی خوش گپیاں ہوتی رہیں، دعوت کا جذبہ اور ہم و غم اللہ نے انہیں ودیعت کیا، وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ اللہ مزید برکت عطا فرمائے ۔ مجلس کے آخر میں مولانا یحیی عارفی صاحب کی کتاب ’ کفار سے تعاون کی شرعی حیثیت اور فتنہ تکفیر‘ کے کچھ نسخے تھے ، جو حاضرین میں تقسیم کردیے گئے، اس کتاب کا مطالعہ کر رہا ہوں، شاید بعد میں اس کے متعلق ایک مستقل تحریر قلمبند کروں ۔ علمی و فکری گفتگو ، اور لذیذ کھانوں سے محظوظ ہونے کے بعد سب ایک دوسرے سے اجازت لے دے کر اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوئے۔
آخر میں گزارش کروں گا کہ میاں جمیل صاحب نے جو فکر پیش کی ہے، اسے مزید زیر بحث لانے اوراس تحریک کو سوشل میڈیا پر بالکل اسی انداز میں پھیلانے کی ضرورت ہے، جس طرح میاں صاحب نے اسے گلی گلی کوچہ کوچہ عام کیا۔
و لقد بعثنا فی کل أمۃ رسولا أن اعبدوا اللہ و اجتنبوا الطاغوت ۔
بلا شبہ اللہ کا کلام برحق ہے۔
نوٹ: یہ مدنی محفل کافی دیر بعد آئی، درمیانی عرصہ میں شیخ ابن بشیر ، شیخ خبیب اثری اور اسی طرح استاذ الاساتذہ شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد صاحب سے شرف ملاقات حاصل ہوا، لیکن افسوس یہ مجالس میں قلمبند نہیں کرپایا۔امید ہے اللہ جلد اس کوتاہی کی تلافی کے لیے موقعہ عطا فرمائے گا۔​
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
مدنی محفل (19)

ایک عرصہ ہوا مدنی محفل نہیں لکھ پایا۔
حج کے موقعہ پر علما کے ایک وفد سے شرف ملاقات حاصل ہوا، جو سعودی حکومت کی طرف سے حج پر مدعو تھے۔ جن میں حافظ شاہد محمود صاحب آف گوجرانوالہ سے، خواجہ عتیق صاحب ناظم البیت العتیق لاہور اور استاذ القراء قاری ابراہیم میر محمدی حفظہم اللہ جمیعا کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کا موقعہ ملا۔
محترم قاری صاحب دامت برکاتہم کے ساتھ مسجد قبا جانے کا بھی اتفاق ہوا، انہوں نے جامعہ اسلامیہ میں اپنے زمانہ طالبعلمی کی کافی باتیں سنائیں۔
1۔ قاری صاحب جامعہ اسلامیہ کلیۃ القرآن سے متخرج ہیں، اور ماجستیر بھی آپ نے یہی سے کیا تھا۔
2۔ مجمع ملک فہد کی طرف سے الجمع الصوتی للقرآن کا ایک پروجیکٹ شروع ہوا تھا، جس میں آپ نے غالبا روایت ورش میں قرآن کریم کے ابتدائی چند پارے بھی ریکارڈ کروائے۔ قاری صاحب نے بتایا کہ چونکہ وہ ریکارڈنگ مکمل نہیں ہوسکی تھی، اس لیے منظر عام پر نہیں آسکی۔ میں نے پوچھا کہ جتنی ریکارڈنگ ہوئی تھی، آپ کے پاس محفوظ ہے، فرمایا: وہ سب کچھ نامکمل حالت میں مجمع والوں کے پاس ہی رہ گیا تھا. اور شاید اب یہ ریکارڈنگ کہیں گم ہوگئی ہو۔ قاری صاحب نے یہ بھي بتایا کہ مجمع میں ریکارڈنگ کا کہنے کے لیے شیخ حذیفی صاحب خود ان کے گھر میں آئےتھے۔
3۔حافظ ثناء اللہ مدنی صاحب حفظہ اللہ کا ثبت الاسانید محترم قاری صاحب نے ہی مرتب کیا ہے، کیونکہ قاری صاحب محترم حافظ صاحب کے شاگرد رشید بھی ہیں۔ بلکہ بتایا کہ جامعہ سلفیہ فیصل آباد میں دوران طالبعلمی حافظ صاحب کے لیے کھانا لانے لے جانے کی ذمہ داری بھی آپ کی ہی تھی۔
4۔ محترم قاری صاحب ان دو یا تین شخصیات میں سے ایک ہیں، جن کی وجہ سے علم تجوید اور علم قراءات کا ذوق اہل حدیث کے ہاں عام ہوا۔
جامعہ رحمانیہ لاہور میں کلیۃ القرآن کو چلانے والے حضرت قاری صاحب ہی ہیں، جامعہ کی دیواروں کے اوپر کلیۃ القرآن کے تعارف اور اہداف و مقاصد کے طور پر لکھی ہوئی سطور میں سے ایک سطر کچھ یوں ہوا کرتی تھی کہ اس کے ذریعے سے قاری غیر عالم اور عالم غیر قاری کا تصور ختم کیا جائے گا۔ اور الحمدللہ اس کے نتائج اب سب کے سامنےہیں۔
5۔ قاری صاحب کے پیریڈز کلیۃ القرآن کی تیسری کلاس سے شروع ہوتے تھے، میں دو سال حفظ کرنے کے بعد ابھی غالبا پہلی کلاس میں ہی تھا کہ قاری صاحب جامعہ رحمانیہ سے کلیۃ القرآن والتربیۃ بھونگہ بلوچاں تشریف لے گئے۔ البتہ دوران حفظ ایک دفعہ قاری صاحب کو سبق سنایا تھا۔ اور پھر اس کے بعد عشرہ کبری کے کچھ اسباق سنانے کی سعادت حاصل ہوئی۔
6۔ قاری صاحب چاہتے ہیں کہ شاگردوں کی کثیر تعداد قراءات وعلوم قرآن میں متخصص ہو، جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ آنے والوں سے بھی ان کی امید یہی ہوتی ہے، لیکن اس امید پر پورا اترنے والے بہت کم ہیں۔
میں خود پاکستان میں کلیۃ القرآن سے پڑھا ہوا ہوں، لیکن مدینہ میں کلیۃ الحدیث اختیار کیا۔ میں نے ایک دفعہ کچھ نکات میں یہ بات لکھ دی کہ لڑکے کلیۃ القرآن میں کیوں نہیں جاتے؟ کسی نے بتایا کہ آپ نے جو توجیہ وفلسفہ بگھارنے کی کوشش کی ہے، اس پر بزرگ کافی ناراض ہوئے ہیں۔ اب کی بار موقعہ ملتے ہی میں نے اپنی صفائی پیش کرنے کی کوشش کی۔
ویسے مجھے دوران طالبعلمی قراءات، علوم حدیث، اور نحو وصرف سے کافی شغف رہا ہے، سمجھ بوجھ تو اللہ کی دین ہوتی ہے، اور یہ بھي نہیں کہا جاسکتا کہ ہم نے محنت کے ریکارڈ توڑ دیے، لیکن آس پاس کے لوگوں کو دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ ان چیزوں پر ہم نے نسبتا محنت زیادہ کی ہے۔
جب لوگ شاطبی پڑھنے سے کتراتے تھے، میں نے اس وقت شاطبی یاد کرنا شروع کی تھی، شاطبی کا مقدمہ کے بعد پہلا حصہ اصول پر مشتمل ہے، جس کے چار سو سے زائد اشعار ہیں، وہ سب زیانی یاد تھے، ساتھ ساتھ اس کی اردو شرح بھي مکمل نظر میں تھی، شرح ابن عقیل بھی جتنی نصاب کا حصہ تھی، الفیہ کے اتنے شعر نوک زبان پر تھے، اور منحۃ الجلیل کے مباحث بھی سب دیکھے بھالے ہوئےتھے۔ مصطلح الحدیث کو بھي اتنا رٹا لگایا تھا کہ پیپر مکمل عربی زبان میں حل کرلیا کرتا تھا۔ الحمدللہ۔
پھر آہستہ آہستہ یہ سلسلہ رک گیا، مجھے اچھی طرح یاد ہے، بعض دفعہ ہمارے کچھ سینئرز شاطبی وغیرہ کو حفظ کرتے ہوئے دیکھتے، تو انتہائی خلوص کے ساتھ مشورہ دیتے کہ چھوڑو اس کو رٹے مارنے کا کیا فائدہ؟ میں نے کہا ہوگا کہ مجھے یاد کرنے کا شوق ہے، کہنےلگے شاطبی کا رٹا نہیں چھوٹتا تو فی الوقت نسیم حجازی کے ناول پڑھ لیا کرو۔ اب یہ اہل فضل و کرم مشورے دینے میں مخلص ضرور ہوں گے، لیکن اس قسم کے فضول مشورے جو طالبعلم کی حوصلہ شکنی ہی نہیں، بلکہ لائن تبدیل کرنے کا ذریعہ بن جائیں، ایسے کچے ذہن کے دانشوروں سے طالبعلم کو دور رہنا چاہیے۔
اُس عمر میں بھی حفظ المتون نہیں کرنا تھا تو کب کرنا تھا؟
ہمارے ایک استاد محترم ہیں، ماشاءاللہ اب تو علوم تجوید و قراءات ان کی پہچان ہیں، لیکن اس وقت وہ ہمارے جیسے چھوٹے ذہن کے بچوں کو یہی سکھاتےتھے کہ قراءت اور علوم حدیث سے اہم تو فلاں فلاں علوم ہیں۔
میں سمجھتا ہوں یہ ایک منفی رویہ ہے ، جو چھوٹی عمر اور ذہن کے طالبعلموں کے ساتھ روا نہیں رکھنا چاہیے۔
ویسے آج ہمیں جو کچھ سمجھ بوجھ ہے، وہ انہیں سینئرز اور اساتذہ کرام کی صحبت و شاگردی سے ہی ہے، لیکن بہرصورت جو رویہ مجھے منفی محسوس ہوا، اسے ذکر کرنا بھي ضروری سمجھا کہ ابھی بھي مدارس میں ہمارے جیسے طلاب بہت ہیں، اور دوسری طرف کچے ذہن کے اساتذہ اور مربیان کی بھی کمی نہیں۔
خیر میں نے اس قسم کی باتیں کرکے اپنی صفائی پیش کی کہ کلیۃ القرآن سے اگر کہیں کوئی اعراض نظر آرہا ہے تو اس میں صرف طلاب کا ہی قصور نہیں، ان علوم سے منسلک دیگر لوگوں کے رویے بھی اس کی وجہ ہوسکتے ہیں۔
7۔محترم قاری صاحب نے خواہش کا اظہار کیا کہ وہ کلیۃ القرآن کے فضلاء سے ایک مجلس بھی رکھنا چاہتے ہیں، جس میں وہ اپنی سوچ اورامیدوں امنگوں کو دوسروں تک پہنچا سکیں۔ اللہ تعالی ان کی تمام نیک تمنائیں پوری فرمائے۔ مدینہ منورہ میں محترم قاری صاحب کے ساتھ گزرے چند لمحات کسی اعزاز سے کم نہیں۔​
مدنی محفل (20)(21)

حج کے آخری ایام میں شیخ ہشام الہی ظہیر صاحب سے بھی ملاقات ہوئی، کافی مہنگے حج پیکج پر آئے ہوئے تھے، خوش اس بات پر تھے کہ ساتھ جتنے بھی لوگ ہیں، انہیں درس و دروس بھی دیتے رہے، اور پر امید تھے کہ کئی ایک لوگ منہج کتاب وسنت کی طرف مائل ہوئے ہیں۔
میں نےکھانے کی دعوت دی، کہنے لگے، ہم نے پیسے بہت دیے ہوئے ہیں، کھانا پیکیج میں ہی شامل ہے، اس لیے بہتر ہے کہ تکلف نہ کریں، اس لیے ہم باہر نہ گئے، مسجد نبوی میں ہی باب بدر سے باہر نکل کر صحن میں تقریبا ایک گھنٹہ گفتگو ہوتی رہی۔ شیخ ابو ذکوان صاحب بھی وہیں آگئے۔
محترم ہشام صاحب ڈاکٹر ذاکر نائیک کے ادارے کی طرز پر سکول سسٹم شروع کرنا چاہتے ہیں. اللہ ان کے عزائم کی تکمیل فرمائے۔
ملکی سیاست اورجماعتی امور سے متعلق کئی ایک موضوعات بھی زیر بحث رہے، جن میں سے کچھ اتنے عام ہیں کہ انہیں ذکر کرنا تحصیل حاصل ہوگا، اور کچھ ایسی باتیں ہیں کہ انہیں ذکر کرنا ویسے ہی مناسب نہیں۔
بہرصورت علامہ شہید کے خاندان سے ہمیں کافی امیدیں ہیں، اللہ تعالی انہیں پورا فرمائے۔
چند دن پہلے ہمارے استاد محترم شیخ ادریس اثری صاحب بھی مدینہ منورہ موجود تھے، ایک عرصہ بعد آپ سے ملاقات کا موقعہ ملا۔ زیارتیں وغیرہ اکٹھی کیں. شیخ رہنمائی کے لیے مجھے ساتھ لے کر گئے، لیکن حقیقت میں رہنما خود آپ ہی تھے۔
کافی سال پہلے دیپالپور میں ایک جگہ میں نے رمضان میں تراویح پڑھائی تھیں، وہاں سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر ایک جگہ کا نام ہے ، مہنتانوالہ، وہاں ایک مدرسہ ہے، جس میں شیخ ادریس صاحب شیخ الحدیث کے فرائض سرانجام دیتے ہیں، ہر سال وہاں دورہ صرف و نحو ہوتا ہے، میں نے شیخ سے بات کی کہ میں بھی اس دورہ میں شریک ہونا چاہتا ہوں. شیخ صاحب نے بخوشی داخلہ دے دیا، بلکہ ہر روز صبح دیپالپور سے جاتے ہوئے ساتھ مجھے بھی لے جاتے تھے۔ اس دورے کے اختتام پر رمضان میں طاق رات کو خوب لمبی دعا بھی ہوتی ہے۔ گھنٹوں پر مشتمل شیخ صاحب کی یہ دعا کافی مشہور ہے۔
شیخ صاحب نے دیپالپور کے اس علاقے میں دعوت توحید کو بھی خوب عام کیا ہے، اس سلسلے میں آپ پر پرچے بھی ہوئے، مارنے کی دھمکیاں بھی ملیں، لالچ بھی دیے گئے، لیکن اللہ کی توفیق سے عزم وہمت کے پہاڑ بن کے ثابت رہے۔
دعوت میں اللہ نے اتنا اثر ڈالا کہ وہاں ایک دربار کے گدی نشین شیخ صاحب کے شاگرد بن گئے ہیں. اور شاگرد بھی ایسے کہ باقاعدہ دینی تعلیم آپ سے سیکھتے ہیں، اور نحوو صرف میں بھی کافی دلچسپی ہے۔
شیخ اپنی دعوت وتبلیغ کی داستاں سنا رہے تھے، جس میں بعض جگہ سنتے ہوئے آنکھیں پرنم بھی ہوئیں۔
مہنتانوالہ میں کروایا جانے والا دورہ نحو وصرف کافی مشہور ہے، شیخ بھی بتارہے تھے کہ الحمد للہ جہاں بھی جاتا ہوں، کوئی نہ کوئی شاگرد ضرور ہی مل جاتا ہے۔ آپ کے ساتھ کچھ اور بھی زائرین تھے، وہ بھی شیخ صاحب کے شاگردوں کو دیکھ کر کافی خوش تھے۔
شیخ صاحب نے اپنے دور طالبعلمی کا ایک واقعہ سنایا، کہ جامعہ سلفیہ میں پڑھائی کے دوران ایک مرتبہ ہم جماعۃ الدعوۃ کے جلسے میں چلے گئے، اور ایک دن کی پڑھائی چھوڑ دی، بطور سزا انتظامیہ نے پوری کی پوری کلاسیں ہی جامعہ سے فارغ کردیں، لیکن طالبعلموں نے حسن تدبیر کا مظاہرہ کیا، اور احتجاج وغیرہ نہیں کیا، اساتذہ کے خلاف یا انتظامیہ کے خلاف پراپیگنڈہ نہیں کیا، کچھ عرصہ بعد دوبارہ لڑکوں کو جامعہ میں بلا لیا گیا.
یہاں آپ نے حافظ سعید صاحب کے رویے کی بھی تعریف کی، کہ جب تک ہم مدرسہ سے باہر رہے، انہوں نے ہمیں کھانا وغیرہ تمام سہولیات دیں، لیکن ساتھ یہ کہا کہ تم نے پڑھنا ادھر ہی ہے، ہمارے مدرسے بہت ہیں، لیکن یہاں سے نکلوا کر وہاں لے جانا ہم مناسب نہیں سمجھتے۔​
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
مدنی محفل (22)
بروز سوموار 05 ربیع الاول 1440هـ بمطابق 13 نومبر 2018ء
جماعتوں کی مدح سرائی میں بدنام زمانہ نوجوانوں میں راقم عصی واثیم کا بھی شمار ہوتا ہے۔، واٹس ایپ پر اسی قسم کے کسی ’اثم وعصیان‘ میں مصروف تھے کہ مرکزی جمعیت کی ذیلی جماعت یوتھ فورس کے سربرارہ محترم فیصل افضل شیخ صاحب سے تعارف کا موقعہ ملا، پرسنل میں بات ہوئی، بتایا کچھ عرصہ بعد مدینہ منورہ آئیں گے، تو ملاقات ہوگی۔ ان دنوں مدینہ منورہ ہیں، جامعہ کے ایک فاضل حافظ قاسم رؤف صاحب نے ایک مجلس کا اہتمام کیا، جس میں تقریبا دس بارہ احباب سے ملاقات کا موقعہ ملا۔ حافظ قاسم صاحب چند دن سے ’ابو فراس‘ ہوگئے ہیں، فراس کے عقیقہ کی مناسبت سے بھی انہوں نے ایک پرتکلف دعوت کا اہتمام کیا تھا۔ جس میں تقریبا سو کے قریب لوگ شریک ہوئے ہوں گے۔
پاکستان سے مولانا اسعد بن محمود بن مولانا اسماعیل سلفی اور ان کے ساتھ مولانا عظیم حاصلپوری شریک ہوئے۔ آغاز میں تلاوت میں نے کی تھی، اور بعد میں تقریر مولانا اسعد محمود نے فرمائی، جسے میں سن نہیں سکا، کیونکہ میں سب شرکا کے ساتھ ہال میں بیٹھنے کی بجائے، الگ ایک کمرہ میں چلا گیا، جہاں دانشورانِ عصر اور مفکرینِ دھر ملک وملت کے مسائل پرتجزیے اور تبصرے فرمارہے تھے، ساتھ ساتھ مولوی کی جذباتیں باتیں بھی ہورہی تھیں، علم و حکمت اور جذبات کی لڑائی کواگر تحریر کی شکل دی جائے تو شاید بعض احباب کے لیے دلچسپ ہو، لیکن حقیقت یہ ہے کہ میں اب ایسی باتیں لکھ کر لکھ کر اکتا گیا ہوں۔ اس لیے اس کو چھوڑ کر فیصل افضل شیخ صاحب کی مجلس کی طرف آجاتا ہوں.
مطعم لیالی طیبہ کا نام آپ اس سے پہلے ایک مجلس میں سن چکے ہوں گے، حالیہ محفل بھی ادھر ہی سجی تھی۔ جب ہم یہاں پہنچے تو ایک محترم شیخ صاحب (حافظ اقبال راشد حفظہ اللہ) سعودی عرب میں اپنے دعوتی تجربات بتارہے تھے، میں نے ایک ساتھی سے ان کا نام معلوم کیا، پتہ چلا یہ جامعہ اسلامیہ کے قدیم متخرج ہیں، اور کافی عرصہ ریاض میں بطور داعی کے خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں، اور آج کل اسی سلسلے میں مدینہ منورہ ہوتے ہیں.
سعودی عرب میں دعوتی معاملات میں بھی کافی قانونی اور انتظامی پیچیدگیاں ہیں، اس حوالے سے یہاں دعوت کا کام کیسے ہوسکتاہے، اس پرانہوں نے کافی مفید تجربات بیان کیے۔
محترم فیصل افضل شیخ صاحب نے پاکستان میں ہونے والی جماعتی دعوتی سرگرمیوں کا ذکر کیا۔
جب سارے لوگ آگئے، تو انہوں نے پھر باقاعدہ اپنی گفتگو کا آغاز کیا، اورتقریبا ساری گفتگو میں، سامعین کی نظروں سےنظریں ملانے سے گریزاں ہی رہے۔
فرمانے لگے ہماری لیے خوشی کی بات ہے کہ اب ہماری جماعت میں جامعہ اسلامیہ کے فضلا اور اسی طرح دیگر پڑھے لکھے لوگ شریک ہورہے ہیں.
یہاں انہوں نے جامعہ اسلامیہ کے طالبعلموں کی یہ خصوصیت بیان کی کہ یہ ایک عالمی یونیورسٹی میں زیر تعلیم وتربیت رہ کر ان کا ذہنی افق کافی وسیع ہوجاتا ہے۔
کچھ عرصہ بعد وہ باقاعدہ ’رکنیت سازی‘ کی مہم بھی شروع کرنے والے ہیں، گلی گلی محلے محلے میں جماعتی سیٹ اپ پہنچانا چاہتے ہیں.
انہوں نے اپنی کئی کامیاب کانفرنسز کا بھی تذکرہ کیا.
ان کا فرمان تھا کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ اہل حدیث صرف وسطی پنجاب میں ہیں، حالانکہ وہاڑی بوریوالہ، سندھ اور حتی کہ تھر وغیرہ کے علاقے میں پھی اہل حدیث کی ٹھیک ٹھاک تعداد موجود ہے،لیکن ہم لوگ ان سے رابطہ کرنے میں سستی کرتے ہیں۔ اسی ضمن میں انہوں نے آزاد کشمیر کے ایک دور دراز علاقے کے دعوتی سفر کا بھی تذکرہ کیا، جہاں عام گاڑیوں، پھر جیپوں اور پھر پیدل سفرکرکے جانا پڑتا ہے۔
شیخ صاحب سے سوالات بھی ہوئے۔
عبید الرحمن شفیق صاحب نے سوال کیا کہ آپ تنظیم سازی کے لیے تگ ودو کر رہے ہیں تو اس کے لیے سب کام ’رضاکارانہ‘ ہی ہوں گے ، یا پھر معاونین کو مناسب وظائف بھي دیے جاتے ہیں؟
جواب یہی تھا کہ ابھی تک تو اکثر کام فی سبیل اللہ ہی ہے، البتہ بعض معاونین وعلماء کرام کو ان کے سفر وغیرہ کے اخراجات دیے جاتے ہیں، اور دفاتر وغیرہ کے ملازمین اور کچھ سوشل میڈیا نوجوان کو ملازمت دی ہوئی ہے۔
میرے ذہن میں بھي کئی ایک سوالات ابھر رہے تھے، سوچ رہا تھا کہ اس مجلس کے مطابق اور اس کی مہمان شخصیت کے مطابق مفید سےمفید ترسوال کرلوں، اسی کشمکش میں کافی دیر خاموش رہا، لیکن آخر عرض کیا کہ:
آئے روز سوشل میڈیا پر نیا سے نیا ایشو سامنے آجاتا ہے، ان مسائل میں اپنی رائے کا اظہار اور اس کے مطابق رائے عامہ ہموار کرنا بھی یوتھ فورس کے مقاصد میں ہے؟ پھر میں نے بھینسا وغیرہ کی طرف سے گستاخی، آسیہ مسیح کیس وغیرہ مثالیں دیں، کہ کیا ان مسائل میں ہم اپنی کسی مذہبی جماعت کے کسی اقدام کو بطور نمونہ پیش کرسکتے ہیں؟
جواب میں انہوں نے کچھ انفرادی کوششوں کا ذکر کیا. اور مزید اس طرف توجہ دینے کی بات کی، ان کے مطابق اسلام آباد میں ایک آئی ٹی دیپارٹمنٹ کی بنیاد رکھي جارہی ہے، جس کا ہدف یہی ہوگا۔
مجلس میں یہ شکوہ بھي کیا گیا کہ ہم بعض دفعہ جماعت کےمراکز ودفاتر میں جاتےہیں ، تو وہاں موجود لوگوں کا رویہ مناسب نہیں ہوتا، ایک بھائی نے یہاں تک کہا کہ ہم کچھ ساتھی ایک جماعت کے مرکزی دفتر گئے، وہاں ہمیں مرکز میں داخلے کی اجازت ہی نصیب نہیں ہوئی، جبکہ وہیں کھڑے کھڑے ایک اور جماعت سے رابطہ کیا گیا، تو ان کی طرف سے فورا گاڑی آگئی۔
جماعتوں کے تقابل کے تناظر میں یہ بات بھی ھوئی کہ جامعہ اسلامیہ کے طالبعلم یہاں سے پاکستان جاتے ہیں، کچھ تنظیمیں ان کے ساتھ مجالس اور سیر وتفریح کا اہتمام کرتی ہیں، جب کہ دوسری طرف کچھ بھي نہیں۔
فیصل افضل شیخ صاحب نے کہا کہ ہم بھی اس نوعیت کی کسی مجلس کا اہتمام کرنے کی کوشش کریں گے۔
ایک تجویز یہ بھي پیش کی گئی تھی کہ سوشل میڈیا پر لکھنے والے مشہور لکھاریوں کی حوصلہ افزائی کا کوئی سلسلہ شروع کیا جائے، ان کے ساتھ رابطہ استوار کیا جائے، تاکہ وہ دینی جماعتوں کے اہداف کو سمجھیں، اور ان کے حق میں لکھیں. عبید شفیق صاحب کا کہنا تھا ، ایک فیس بک لکھاری کے لیے اس کی پوسٹ کے لائکس اور شیئرز بڑی اہمیت رکھتے ہیں، اگر کسی جماعت یا ادارے کے لوگ ملکر کسی خاص لکھاری کو لائکس اور شیئرز دے دیں تو وہ ان کی سوچ کا اسیر نہ بن سکا، کم ازکم ان کے خلاف بھي نہیں لکھے گأ۔
فیصل افضل شیخ صاحب کی مکہ میں مولانا نجیب اللہ طارق صاحب سے ملاقات ہوئی تھی، انہوں نے ایک تجویز پیش کی تھی کہ ہماری جماعت کو علماء کی ایک کمیٹی تشکلیل دینی چاہیے، جو حالات حاضرہ پر کوئی متفقہ موقف پیش کرسکیں، اور اسے کسی بھي جگہ پر جماعتی موقف کے طور پر پیش کیا جائے، یہ تجویز بہت اچھی ہے، کہا گیا کہ اس کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی جائے گی. اللہ کرے ایسا ہوجائے،ورنہ ایسی درجنوں تجاویز بغیر جاموں کے ہی گھومتی پھرتی نظر آتی ہیں.
اگر کوئی بندہ چأہے تو عملی جاموں کی منتظر تجاویز کی ایک مستقل فہرست تیار کی جاسکتی ہے۔
کچھ سوالات بطور چسکا بھي کرلیے جاتے ہیں، ان میں سےایک یہ تھا کہ کثیر الاسماء والالقاب جماعت کے مسؤلین و ذمہ داران اپنی جماعت کی پالیسیوں پر فوری عمل کرتے ہیں، ہمدردیاں تبدیل کرنی ہوں، یا پھر حلال و حرام کا مسئلہ ہو، رات و رات تبدیلی آجاتی ہے. جبکہ مرکزی جمعیت یا یوتھ فورس میں ایسا کوئی مزاج نظر نہیں آتا. اس فرق کی اور بھی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں، لیکن بنیادی وجہ اپنے کارکنان کے ساتھ تعامل و تعاون اور ہمدردی ہے۔
ایک کارکن کو جماعت کی طرف سے ازواج واولاد کے حساب سے بھاری بھر کم سہولیات ملتی ہوں، تو وہ کہیں بھي جماعتی پالیسی سے اختلاف کرتے ہوئے کافی دفعہ سوچے گا کہ اس کا نتیجہ صرف میرے لیےہی نہیں، اہل وعیال کے روشن مستقبل کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے.
جبکہ دوسری طرف فی سبیل اللہ کام کرنے والے کو کیا خطرہ ہوگا کہ وہ کسی جماعت کی پالیسی سے ہٹ کر اپنا موقف بیان کرے؟ اور بالخصوص تب جب قائدین و ذمہ داران توجہ کے ساتھ مصافحہ کرنے کے بھی قائل و فاعل نہ ہوں.
ایک طرف کے علماء کے لیے سہولیات کی بھرمار ہے، وہ تندہی سے اپنے علمی و تحقیقی اور تدریسی کاموں میں مصروف ہیں، دوسری طرف علماء کے لیے اس قسم کی کوئی توجہ نہیں، تو عالم دین بھی مصالح و مفاسد کا مقارنہ کرنے کے بعد علم ودین کے وسیع تر مفاد میں خاموش رہنے میں ہی عافیت سمجھیں گے۔
مجلس میں انڈیا کے ایک بھائی بھی شامل تھے، انہوں نےخواہش کا اظہار کیا کہ ’یوتھ فورس‘ طرح کی کوئی تنظیم ہمارے ملک میں بھي ہونی چاہیے، جس کے لیے وہ چاہتے تھے، پاکستان کے قائدین انڈیا میں موجود قائدین تک یہ مشورہ پہنچائیں۔
فیصل افضل شیخ صاحب نے دو سال پہلے یوتھ فورس کی ذمہ داری سنبھالی ہے، جب ذاکر الرحمن صدیقی صاحب اس عہدے سے ہٹے یا ہٹائے گئے تھے، ان کی کئی باتوں سے محسوس ہوتا تھا کہ پہلے یوتھ فورس کے حالات درست نہیں تھے، لیکن اب بہتری آرہی ہے، اللہ تعالی ان کی کوششوں و کاوشوں کو شرف قبولیت سے نوازے، اور ان کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرے۔ انداز گفتگو سے پڑھے لکھے اور سلجھی ہوئی شخصیت محسوس ہوئے، غالبا خود طبقہ تاجراں سےتعلق رکھتے ہیں، اس لیے تاجروں کی نفسیات کو خوب جانتے ہیں. دو اڑھائی سال قبل جب شیخ رضوان رفیق رحمہ اللہ اور ان کے خاندان کا حادثہ فاجعہ ہوا تھا، اس وقت کسی نے خبر دی تھی، کہ فیصل افضل شیخ صاحب نے ان کے بچوں کے لیے لاکھ دو لاکھ روپیہ دینے کا اعلان کیا تھا، غائبانہ طور پر مجھے اس وقت سے ان کا نام یاد ہے، جبکہ بالمشافہ ملاقات پہلی دفعہ حالیہ مدنی محفل کے توسط سے ہوئی۔
فیصل افضل شیخ صاحب اور محفل کے میزبان ابو فراس حافظ قاسم رؤف صاحب کا شکریہ کہ وہ عرصے بعد ایک نئی مدنی محفل کے منظرعام پر آنے کا ذریعہ بنے.وشکرا للأخوۃ المشارکین جمیعا.​
 
Last edited:
Top