- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,497
- پوائنٹ
- 964
بروز سوموار 03 رجب 1439هـ بمطابق 19 مارچ 2018ء
چند دن پہلے شیخ عبد الرزاق زاہد گھمن صاحب مدینہ منورہ موجود تھے، موصوف عمرہ کے لیے ساتھ اپنے صاحبزادے ’ ترحیب‘ کو بھی لائے تھے ، والدین کو بچوں سے بہت محبت اور پیار ہوتا ہے، ترحیب بیمار بھی تھا، اس لیے شیخ اپنی ساری ’ شیخوخت‘ ایک طرف رکھ کے اس کے صدقے واری جاتے تھے، کلیۃ الحدیث سے متخرج ہیں، کہنے لگے، جامعہ میں اساتذہ سے ملنا ہے، دو مرتبہ ہم کلیۃ الحدیث گئے ، بچے کو ساتھ اٹھائے رکھا، بلکہ اپنے مشایخ سے بھی بیٹے کے لیے دعائیں اور پیار لیتے رہے۔ ترحیب کو پوری یونیورسٹی کا تعارف یوں کرواتے رہے ، گویا کسی وجیہ کو یونیورسٹی وزٹ کروا رہے ہیں۔ماں باپ کے اس لاڈلے کی طبیعت یہیں پر کافی نازک صورت حال اختیار کر گئی، ہسپتال میں داخل ہوا، چند دن زندگی موت کی کشمکش میں مبتلا ہو کر شیخ کا ’ترحیب‘ انہیں ہمیشہ کے لیے ’ الوداع‘ کرگیا۔
مسجد نبوی میں جنازے اور بقیع الغرقد میں تدفین کے بعد ہم واپس لوٹ رہے تھے، کہ اچانک ایک طرف سے کسی نے بلایا، دیکھا تو وہ حافظ ارشد محمود صاحب تھے، جو کہ مجموعہ علمائے اہل حدیث کے ایڈمن ہیں۔ اپنے دو بیٹوں کے ساتھ قبرستان دیکھنے اور دعا مانگنے کے لیے آئے ہوئےتھے۔
آج کی مدنی محفل کے مہمان حافظ ارشد صاحب اور روح رواں تحریک دعوت توحید کے کنوینر میاں جمیل (ایم اے) صاحب ہیں۔
حافظ سعد مدنی بن علامہ محمد مدنی اور مجیب الرحمن ابن حیدر ( بدر الہدی، واہنڈو) حافظ عبد العلیم ( متعلم کلیۃ المسجد النبوی) کے علاوہ دیگر شرکا و مدعوین تقریبا وہی ہیں، جن کے نام متعدد مرتبہ درج ہوچکے ہیں۔
مسجد نبوی سے ایک روڈ میدان احد کی طرف جاتا ہے ، اس کا نام ’طریق شہداء أحد‘ ہے، اس میں پاکستانی و غیرپاکستانی ہوٹلز کی ایک لمبی چوڑی قطار ہے ، جن میں سے ایک ہوٹل لیالی طیبہ ہے۔
بیٹھنے کے لیے کافی بہترین اور کشادہ انتظام ہے۔ سب لوگ میاں صاحب کی صدارت ، حافظ ارشد صاحب کی نیابت ، حافظ قاسم صاحب کی میزبانی میں وہاں موجود تھے۔
ہمارے پہنچنے کے بعد میاں جمیل صاحب کو دعوت سخن دی گئی۔
انہوں نے اپنے معروف خطیبانہ لب و لہجہ میں تقریر کے تمام لوازمات کا خیال رکھتے ہوئے بات شروع کی، اور شروع سے لیکر اب تک تحریک دعوت توحید کی مختصر روئیداد بیان کردی، خطبا واسپیکرز ، شعرا و قصہ گو اور دانشور طبقے کے لیے جو کام سب سے مشکل ہیں، انہیں میں سے ایک ، کسی دوسرے کو سننا اور پڑھنا ہے۔
میاں جمیل صاحب نے تقریبا ایک گھنٹے کی تقریر فرمائی، باقیوں کا مجھے پتہ نہیں، لیکن میں نے یہ تقریر کافی دلچسپی سے سنی۔
آپ نے تحریک دعوت توحید کا پس منظربیان کرتے ہوئے تمہید میں چار نکتے بیان فرمائے:
1۔ انبیا کی بعثت سب سے گمراہ قوم میں ہوتی تھی۔
2۔ انبیا جسمانی و جوہری طور پر منفرد حیثیت رکھتے تھے۔
3۔ انبیا ورسل کی بعثت تب ہوتی تھی، جب قوم کے وڈیرے ، زعما اور لیڈرعوامی مسائل حل کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو جاتے تھے۔
4۔ ہر دورکے کچھ ’ ہنگامی مسائل‘ ہوتے ہیں، لیکن انبیا نے دعوت کا آغاز توحید سے ہی کیا، ہنگامی مسائل یعنی کرنٹ افیرزکی بنیاد پر تحریکیں کھڑی نہیں کیں۔
حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے گو سب مسائل کو حل کیا، لیکن اول و آخر نعرہ اور سلوگن’ دعوت توحید‘ ہی رہا۔ اس وقت جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ظلم و ستم ڈھائے جاتے تھے، مجالس میں بیٹھنے نہیں دیا جاتا تھا، لوگوں کو متنفر کیا جاتا تھا، اگر حضور چاہتے تو پہلے ہی ہلے میں توحید کی بات کرنے کی بجائے غلاموں کے حقوق یا عورتوں کے حقوق جیسا کوئی نعرہ بلند کرتے، اور معاشرے کی ایک کثیر تعداد پس و پیش کی بجائے آپ کی طرف امڈی آتی۔۔۔۔
گویا ان کے نزدیک’عورتوں کے حقوق، غلاموں کے حقوق، غریبوں کے حقوق‘ طرز کے جتنے نعرے ہیں، ان پر تحریکیں برپا کرنا یہ سب نبوی منہج نہیں ہے۔
میاں صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ توحید الوہیت سب سے مقدم اور اہم ہے جبکہ توحید حاکمیت سب سے آخری مرحلہ ہے۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ جیسے تیسے ایک مرتبہ حکومت اور کرسی حاصل کرلیں، پھر اسلام کے جھنڈے گاڑیں گے، اس سوچ کے خلاف شیخ نے یہ استدلال بھی پیش کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کفار مکہ نے دعوت توحید پر کمپرومائز کے بدلے میں جن چیزوں کی پیشکش کی تھی ، ان میں سے ایک سیادت و حکومت بھی تھی، لیکن حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ٹھکرا دیا تھا۔
اسی مناسبت سے انہوں نے قاضی حسین احمد مرحوم کے ساتھ اپنا ایک واقعہ ذکر کیا، کہ کسی شادی میں جمع تھے، قاضی صاحب نے پوچھا،آپ آج کل کیا کرتے ہیں ؟
میاں صاحب نے کہا: میں نے ’ قولوا لا إلہ إلا اللہ ...‘ تحریک شروع کی ہے۔
قاضی صاحب نے کہا، مردہ خداؤں کے ساتھ ساتھ زندہ خداؤں کی بھی نفی ہونی چاہیے، جس پر میاں صاحب نے جواب دیا ، دیکھیے : زندہ خداؤں کے خلاف بات کرنے والے بہادری کے تمغے وصولتے ہیں ، جبکہ مردہ خداؤں کی پرستش سے منع کرنے والوں کو گالیوں سے نوازا جاتا ہے ۔
میری نظر میں یہ قاضی صاحب کی بات کا جواب تو نہیں ہے، لیکن بہرصورت اسلام نظام کے نفاذ اور دعوت توحید دونوں میدانوں میں موازنہ کرتے ہوئے ، اس پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، بالکل اسی طرح کہ جیسے حاکمیت کی بات کرنے والے کئی لوگ پس دیوار زنداں ہیں، جبکہ توحیدالوہیت کی دعوت دینے والوں کے لیے عموما اس قسم کی مشکلات نہیں ہوتیں۔
میاں صاحب پہلے مرکزی جمیعت کی قیادت میں شامل تھے، علامہ شہید کے ساتھ مل کر کام کرتے رہے، بقول ان کے مرکزی جمیعت کے تحت ہی ’ تحریک دعوت توحید‘ شروع کی گئی، اور مجھے اس کا ذمہ دار بنایاگیا، لیکن میں نے جب اس تحریک کا لائحہ عمل اور اس کے مطابق عملی اقدامات کا مطالبہ کیا، تو ’تحریک دعوت توحید‘ جماعت کا حصہ نہ رہ سکی۔
میاں صاحب نے فرمایا ، جب میں نے آزاد حیثیت سے تحریک دعوت توحید شروع کی تو اپنے لیے تین اصول مقرر کرلیے:
1۔ دھڑا بازی نہیں کرنی، تنظیموں اور جماعتوں سے الجھنا نہیں۔
2۔ چندہ نہیں لینا، اس بات کی انہوں نے مزید وضاحت کی،کہ کوئی ہمیں چندہ دینے کی کوشش کرے ، تو ہم ان سے پیسے لینے کی بجائے، تحریک کی ضرورت ذکر کردیتے ہیں،کہ آپ اسے پورا کردیں۔
انہوں نے اس بات کو بہ تکرار دہرایا کہ میں ’ دعوت توحید‘ کے لیے چندہ لینے کو درست نہیں سمجھتا۔
3۔ مکی اسلوب رکھنا ہے ، مزاحمت نہیں کرنی۔
میاں صاحب کی باتیں میں شروع سے سن رہاتھا تو ذہن میں آیا کہ اب تک یہ زندہ کس طرح ہیں؟ اور ان کی تحریک باقی کیوں ہے؟ لیکن جب انہوں نے اپنا یہ اصول ذکر کیا، تو حیرت ختم ہوگئی۔
تحریک دعوت توحید کے سلسلے میں انہوں نے کئی ایک مشکلات کی طرف بھی اشارہ کیا، کہ اپنے بعض لوگوں کی طرف سے ’عدم تعاون‘ کا مظاہرہ کیا گیا، بلکہ جب تحریک کو جماعت سے الگ کردیا گیا، تو کئی لوگوں نے اس پر ’ مسجد ضرار‘ جیسی پھبتی بھی کسی، پھر جب تحریک کے کاموں کے لیے افراد کی ضرورت ہوتی ، تو ظاہر ہے خود تو کوئی دہڑا بندی کی نہیں تھی، جماعتوں کو جب اس مشترکہ کاز کے لیے گزارش کی جاتی تو ایک کہتی کہ ’ ہمارا نظم اس کی اجازت نہیں دیتا‘ دوسرے عذر کرتے کہ ’ یہ ہماری پالیسی کے مطابق نہیں‘۔
شیخ جب جماعتی زندگی کا حصہ رہے ہیں ، انہوں نے ’ نظم جماعت‘کے عنوان سے ایک کتاب بھی تصنیف کی ، لیکن جماعتوں کی ان مجبوریوں اور اعذار والی روش کا تذکرہ کرتے ہوئے وہ اس ’ نظم اور پالیسی‘ سے کافی برھم نظر آئے۔ بہر صورت اس روش کو نظم کہیں یا پالیسی کا نام دیں،اب ’ تقلید‘ کی طرح اس کےبھی جواز اور عدم جواز کی بحثیں ہونا چاہییں،
کہ اب کسی برے سے برے کام کے جواز کے لیے یااچھے سے اچھے کام سے احتراز کے لیے صرف ’ جماعتی نظم اور پالیسی‘ کا حوالہ دے دینا کافی سمجھ لیا جاتا ہے۔مسجد نبوی میں جنازے اور بقیع الغرقد میں تدفین کے بعد ہم واپس لوٹ رہے تھے، کہ اچانک ایک طرف سے کسی نے بلایا، دیکھا تو وہ حافظ ارشد محمود صاحب تھے، جو کہ مجموعہ علمائے اہل حدیث کے ایڈمن ہیں۔ اپنے دو بیٹوں کے ساتھ قبرستان دیکھنے اور دعا مانگنے کے لیے آئے ہوئےتھے۔
آج کی مدنی محفل کے مہمان حافظ ارشد صاحب اور روح رواں تحریک دعوت توحید کے کنوینر میاں جمیل (ایم اے) صاحب ہیں۔
حافظ سعد مدنی بن علامہ محمد مدنی اور مجیب الرحمن ابن حیدر ( بدر الہدی، واہنڈو) حافظ عبد العلیم ( متعلم کلیۃ المسجد النبوی) کے علاوہ دیگر شرکا و مدعوین تقریبا وہی ہیں، جن کے نام متعدد مرتبہ درج ہوچکے ہیں۔
مسجد نبوی سے ایک روڈ میدان احد کی طرف جاتا ہے ، اس کا نام ’طریق شہداء أحد‘ ہے، اس میں پاکستانی و غیرپاکستانی ہوٹلز کی ایک لمبی چوڑی قطار ہے ، جن میں سے ایک ہوٹل لیالی طیبہ ہے۔
بیٹھنے کے لیے کافی بہترین اور کشادہ انتظام ہے۔ سب لوگ میاں صاحب کی صدارت ، حافظ ارشد صاحب کی نیابت ، حافظ قاسم صاحب کی میزبانی میں وہاں موجود تھے۔
ہمارے پہنچنے کے بعد میاں جمیل صاحب کو دعوت سخن دی گئی۔
انہوں نے اپنے معروف خطیبانہ لب و لہجہ میں تقریر کے تمام لوازمات کا خیال رکھتے ہوئے بات شروع کی، اور شروع سے لیکر اب تک تحریک دعوت توحید کی مختصر روئیداد بیان کردی، خطبا واسپیکرز ، شعرا و قصہ گو اور دانشور طبقے کے لیے جو کام سب سے مشکل ہیں، انہیں میں سے ایک ، کسی دوسرے کو سننا اور پڑھنا ہے۔
میاں جمیل صاحب نے تقریبا ایک گھنٹے کی تقریر فرمائی، باقیوں کا مجھے پتہ نہیں، لیکن میں نے یہ تقریر کافی دلچسپی سے سنی۔
آپ نے تحریک دعوت توحید کا پس منظربیان کرتے ہوئے تمہید میں چار نکتے بیان فرمائے:
1۔ انبیا کی بعثت سب سے گمراہ قوم میں ہوتی تھی۔
2۔ انبیا جسمانی و جوہری طور پر منفرد حیثیت رکھتے تھے۔
3۔ انبیا ورسل کی بعثت تب ہوتی تھی، جب قوم کے وڈیرے ، زعما اور لیڈرعوامی مسائل حل کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو جاتے تھے۔
4۔ ہر دورکے کچھ ’ ہنگامی مسائل‘ ہوتے ہیں، لیکن انبیا نے دعوت کا آغاز توحید سے ہی کیا، ہنگامی مسائل یعنی کرنٹ افیرزکی بنیاد پر تحریکیں کھڑی نہیں کیں۔
حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے گو سب مسائل کو حل کیا، لیکن اول و آخر نعرہ اور سلوگن’ دعوت توحید‘ ہی رہا۔ اس وقت جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ظلم و ستم ڈھائے جاتے تھے، مجالس میں بیٹھنے نہیں دیا جاتا تھا، لوگوں کو متنفر کیا جاتا تھا، اگر حضور چاہتے تو پہلے ہی ہلے میں توحید کی بات کرنے کی بجائے غلاموں کے حقوق یا عورتوں کے حقوق جیسا کوئی نعرہ بلند کرتے، اور معاشرے کی ایک کثیر تعداد پس و پیش کی بجائے آپ کی طرف امڈی آتی۔۔۔۔
گویا ان کے نزدیک’عورتوں کے حقوق، غلاموں کے حقوق، غریبوں کے حقوق‘ طرز کے جتنے نعرے ہیں، ان پر تحریکیں برپا کرنا یہ سب نبوی منہج نہیں ہے۔
میاں صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ توحید الوہیت سب سے مقدم اور اہم ہے جبکہ توحید حاکمیت سب سے آخری مرحلہ ہے۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ جیسے تیسے ایک مرتبہ حکومت اور کرسی حاصل کرلیں، پھر اسلام کے جھنڈے گاڑیں گے، اس سوچ کے خلاف شیخ نے یہ استدلال بھی پیش کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کفار مکہ نے دعوت توحید پر کمپرومائز کے بدلے میں جن چیزوں کی پیشکش کی تھی ، ان میں سے ایک سیادت و حکومت بھی تھی، لیکن حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ٹھکرا دیا تھا۔
اسی مناسبت سے انہوں نے قاضی حسین احمد مرحوم کے ساتھ اپنا ایک واقعہ ذکر کیا، کہ کسی شادی میں جمع تھے، قاضی صاحب نے پوچھا،آپ آج کل کیا کرتے ہیں ؟
میاں صاحب نے کہا: میں نے ’ قولوا لا إلہ إلا اللہ ...‘ تحریک شروع کی ہے۔
قاضی صاحب نے کہا، مردہ خداؤں کے ساتھ ساتھ زندہ خداؤں کی بھی نفی ہونی چاہیے، جس پر میاں صاحب نے جواب دیا ، دیکھیے : زندہ خداؤں کے خلاف بات کرنے والے بہادری کے تمغے وصولتے ہیں ، جبکہ مردہ خداؤں کی پرستش سے منع کرنے والوں کو گالیوں سے نوازا جاتا ہے ۔
میری نظر میں یہ قاضی صاحب کی بات کا جواب تو نہیں ہے، لیکن بہرصورت اسلام نظام کے نفاذ اور دعوت توحید دونوں میدانوں میں موازنہ کرتے ہوئے ، اس پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، بالکل اسی طرح کہ جیسے حاکمیت کی بات کرنے والے کئی لوگ پس دیوار زنداں ہیں، جبکہ توحیدالوہیت کی دعوت دینے والوں کے لیے عموما اس قسم کی مشکلات نہیں ہوتیں۔
میاں صاحب پہلے مرکزی جمیعت کی قیادت میں شامل تھے، علامہ شہید کے ساتھ مل کر کام کرتے رہے، بقول ان کے مرکزی جمیعت کے تحت ہی ’ تحریک دعوت توحید‘ شروع کی گئی، اور مجھے اس کا ذمہ دار بنایاگیا، لیکن میں نے جب اس تحریک کا لائحہ عمل اور اس کے مطابق عملی اقدامات کا مطالبہ کیا، تو ’تحریک دعوت توحید‘ جماعت کا حصہ نہ رہ سکی۔
میاں صاحب نے فرمایا ، جب میں نے آزاد حیثیت سے تحریک دعوت توحید شروع کی تو اپنے لیے تین اصول مقرر کرلیے:
1۔ دھڑا بازی نہیں کرنی، تنظیموں اور جماعتوں سے الجھنا نہیں۔
2۔ چندہ نہیں لینا، اس بات کی انہوں نے مزید وضاحت کی،کہ کوئی ہمیں چندہ دینے کی کوشش کرے ، تو ہم ان سے پیسے لینے کی بجائے، تحریک کی ضرورت ذکر کردیتے ہیں،کہ آپ اسے پورا کردیں۔
انہوں نے اس بات کو بہ تکرار دہرایا کہ میں ’ دعوت توحید‘ کے لیے چندہ لینے کو درست نہیں سمجھتا۔
3۔ مکی اسلوب رکھنا ہے ، مزاحمت نہیں کرنی۔
میاں صاحب کی باتیں میں شروع سے سن رہاتھا تو ذہن میں آیا کہ اب تک یہ زندہ کس طرح ہیں؟ اور ان کی تحریک باقی کیوں ہے؟ لیکن جب انہوں نے اپنا یہ اصول ذکر کیا، تو حیرت ختم ہوگئی۔
تحریک دعوت توحید کے سلسلے میں انہوں نے کئی ایک مشکلات کی طرف بھی اشارہ کیا، کہ اپنے بعض لوگوں کی طرف سے ’عدم تعاون‘ کا مظاہرہ کیا گیا، بلکہ جب تحریک کو جماعت سے الگ کردیا گیا، تو کئی لوگوں نے اس پر ’ مسجد ضرار‘ جیسی پھبتی بھی کسی، پھر جب تحریک کے کاموں کے لیے افراد کی ضرورت ہوتی ، تو ظاہر ہے خود تو کوئی دہڑا بندی کی نہیں تھی، جماعتوں کو جب اس مشترکہ کاز کے لیے گزارش کی جاتی تو ایک کہتی کہ ’ ہمارا نظم اس کی اجازت نہیں دیتا‘ دوسرے عذر کرتے کہ ’ یہ ہماری پالیسی کے مطابق نہیں‘۔
شیخ جب جماعتی زندگی کا حصہ رہے ہیں ، انہوں نے ’ نظم جماعت‘کے عنوان سے ایک کتاب بھی تصنیف کی ، لیکن جماعتوں کی ان مجبوریوں اور اعذار والی روش کا تذکرہ کرتے ہوئے وہ اس ’ نظم اور پالیسی‘ سے کافی برھم نظر آئے۔ بہر صورت اس روش کو نظم کہیں یا پالیسی کا نام دیں،اب ’ تقلید‘ کی طرح اس کےبھی جواز اور عدم جواز کی بحثیں ہونا چاہییں،
شرک و بدعت کے دلدادہ لوگوں نے بھی اس تحریک کو روکنے کی بہت کوشش کی، پرچے کٹوائے،قتل کی پلاننگ کی، مد مقابل تحریک کھڑی کرنے کی کوشش کی۔
لیکن چونکہ تحریک سچائی اور حقیقت پر مبنی تھی اس لیے کافی مشکلات کے باوجود آہستہ آہستہ آگے بڑھتی رہی۔
شرک کی مذمت اور دعوت توحید کو عام کرنے کے لیے اس تحریک کے تحت جو عملی اقدامات کیے گئے ، وہ درج ذیل ہیں:
1۔ لٹریچرکی دستیابی ۔
پیام اسلام اقوام عالم کے نام ، عقیدہ اور عقیدت میں فرق، مکی دور کے مشرکین کے حیلے بہانے اور ان کا جواب: وغیرہ عناوین سے پمفلٹ تیار کرکے ، لاکھوں کی تعداد میں تقسیم کیے گئے۔
2۔وال چاکنگ کروائی گئی ۔
توحید و شرک کے تصورات واضح کرنے کے لیے تحریک نے کچھ ’ جملے‘ اور ’ سلوگن‘ تیار کیے، اور انہیں دیواروں پر عام کردیا گیا۔
قبرون کا احترام ، مگر ان کو سجدہ حرام
حاجت روا مشکل کشا ، ایک خدا ایک خدا
میرے لیے اللہ ہی کافی ہے۔
زبان زد عام اس قسم کے جملے اسی تحریک کی محنت و کاوش کا نتیجہ ہیں۔
3۔ ریلیاں اور مظاہرے کیے گئے۔
آج کل ریلیاں اور مظاہرے کسی حد تک بدنام ہوچکے ہیں، لیکن اُس وقت تصور توحید عام اور رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے اس قسم کی ریلیوں کا کافی فائدہ ہوا۔
4۔ اجتماعی خطبات جمعہ کا انعقاد
اس سے مراد یہ ہے کہ مختلف مساجد کے ائمہ اور خطبا سے رابطہ کیا جاتا، اور انہیں ’ توحید‘ کے موضوع بر خطبات جمعہ بر راضی کیا جاتا، اور پھر ان سب کے نام پر مشتمل ایک اشتہار چھاپا جاتا، کہ فلاں تاریخ کو فلاں فلاں مساجد اور علاقوں میں توحید کے موضوع پر خطبات ہوں گے۔
اس حوالے سے انہوں نے ایک واقعہ ذکر کیا، لاہور علی ہجویری صاحب کا عرس تھا ، جہاں عرس کے اشتہارات تھے ، وہیں دوسری طرف پورے لاہور میں ’ خطبات توحید اور شرک کی مذمت‘ کے اشتہارات کی بھرمار کردی گئی۔ جو یقینا بہت سارے لوگوں کے لیے ہدایت کا ذریعہ بنے۔
اسی طرح کئی جگہون پر میلوں اور عرس پر جاکر بھی دعوتی لٹریچر تقسیم کیا گیا، نتیجتا سختیاں اور مشکلات بھی آئیں ، لیکن اس کا فائدہ اتنا ہوا کہ شرکیات و بدعات میں ملوث لوگ کسی حد تک دفاعئی پوزیشن میں آگئے۔ بریلویوں کے معروف عالم دین اشرف آصف جلالی کا ’ توحید سیمینار‘ اسی رویے کا ایک اظہار ہے۔ پہلے شرکیات پر مشتمل نعروں سے دیواریں اٹی ہوتی تھیں، کوئی روکنے والا نہیں تھا ، لیکن جب تحریک دعوت توحید کی طرف سے وال چاکنگ شروع ہوئی، تومجبورا حکومت کو دونوں اطراف کو خاموش کروانا پڑا، میاں صاحب کے بقول اب دیواروں پر اس قسم کی چیزیں نظر نہیں آئیں گی۔
کسی نے سوال کیا، میاں صاحب آپ یہ کام سوشل میڈیا کے ذریعےشروع کیوں نہیں کرتے ؟
جواب میں فرمایا، ایک تو اس بر خرچہ بہت آتا ہے، دوسرا دعوت کے اس میڈیائی انداز پر ابھی تک ہمیں شرح صدر نہیں ہے ۔ اس لیے اس طرف توجہ نہیں کرسکے۔
دوران گفتگو یہ بات بھی کئی بار دہرائی کہ توحید کی دعوت کو ہمارے اسلاف نے جس طرح عام کیا، اس سے متعلق تصورات کو جیسے واضح کیا، ہم ان کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ، لیکن ہمیں اس دعوت کو لے کر آگے بڑھنا چاہیے، جب ہم لوگوں کا ذہن تبدیل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے، ان میں تصور توحید پختہ ہوجائے گا، تو دیگر مسائل کے حل میں بہت آسانی ہوجائے گی۔
حقیقت ہے کہ تقریر کی ابتدا میں مجھے ان کا موقف عجیب و غریب محسوس ہوا، لیکن مجلس کے آخر تک پہنچے تو ان کی سوچ و فکر کافی حد تک میرے لیے واضح ہوگئی، اوریہ محسوس کیا کہ توحید کو جس طرح وہ کتابوں، مسجدوں اور مخصوص طرز کے جلسے اور کانفرنسوں سے آگے بڑھا کر عامۃ الناس میں پھیلانا چاہتے ہیں، اس کی بہت ضرورت ہے ، اور ہم یہ کام کماحقہ نہیں کرسکے۔
میاں جمیل صاحب نے اس دور میں ایم ایے کیا تھا، جب ایم اے لوگ کم ہوتے تھے ، اس لیے بطور شناخت ان کے نام کے ساتھ ’ ایم اے‘ لگتا ہے ، جبکہ اب وہ اس لاحقے کو پسند نہیں کرتے۔
میاں صاحب نے دینی تعلیم جامعہ اسلامیہ گوجرانوالہ سے حاصل کی، اور مولانا اسماعیل سلفی صاحب سے فیض یاب ہونے کا بھی موقعہ ملا۔
میاں صاحب کی تقریر کے بعد کافی دیر تک سوال و جواب اور انفرادی گفتگو کا بھی سلسلہ جاری رہا، یاد آیا ہمارے جامعہ رحمانیہ کے کلاس فیلو اور جامعہ اسلامیہ مدینہ سے خریج، فضیلۃ الشیخ نوید قصوری صاحب بھی شریک تھے، کافی دیر ان سے بھی خوش گپیاں ہوتی رہیں، دعوت کا جذبہ اور ہم و غم اللہ نے انہیں ودیعت کیا، وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ اللہ مزید برکت عطا فرمائے ۔ مجلس کے آخر میں مولانا یحیی عارفی صاحب کی کتاب ’ کفار سے تعاون کی شرعی حیثیت اور فتنہ تکفیر‘ کے کچھ نسخے تھے ، جو حاضرین میں تقسیم کردیے گئے، اس کتاب کا مطالعہ کر رہا ہوں، شاید بعد میں اس کے متعلق ایک مستقل تحریر قلمبند کروں ۔ علمی و فکری گفتگو ، اور لذیذ کھانوں سے محظوظ ہونے کے بعد سب ایک دوسرے سے اجازت لے دے کر اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوئے۔
آخر میں گزارش کروں گا کہ میاں جمیل صاحب نے جو فکر پیش کی ہے، اسے مزید زیر بحث لانے اوراس تحریک کو سوشل میڈیا پر بالکل اسی انداز میں پھیلانے کی ضرورت ہے، جس طرح میاں صاحب نے اسے گلی گلی کوچہ کوچہ عام کیا۔
و لقد بعثنا فی کل أمۃ رسولا أن اعبدوا اللہ و اجتنبوا الطاغوت ۔
بلا شبہ اللہ کا کلام برحق ہے۔
نوٹ: یہ مدنی محفل کافی دیر بعد آئی، درمیانی عرصہ میں شیخ ابن بشیر ، شیخ خبیب اثری اور اسی طرح استاذ الاساتذہ شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد صاحب سے شرف ملاقات حاصل ہوا، لیکن افسوس یہ مجالس میں قلمبند نہیں کرپایا۔امید ہے اللہ جلد اس کوتاہی کی تلافی کے لیے موقعہ عطا فرمائے گا۔
لیکن چونکہ تحریک سچائی اور حقیقت پر مبنی تھی اس لیے کافی مشکلات کے باوجود آہستہ آہستہ آگے بڑھتی رہی۔
شرک کی مذمت اور دعوت توحید کو عام کرنے کے لیے اس تحریک کے تحت جو عملی اقدامات کیے گئے ، وہ درج ذیل ہیں:
1۔ لٹریچرکی دستیابی ۔
پیام اسلام اقوام عالم کے نام ، عقیدہ اور عقیدت میں فرق، مکی دور کے مشرکین کے حیلے بہانے اور ان کا جواب: وغیرہ عناوین سے پمفلٹ تیار کرکے ، لاکھوں کی تعداد میں تقسیم کیے گئے۔
2۔وال چاکنگ کروائی گئی ۔
توحید و شرک کے تصورات واضح کرنے کے لیے تحریک نے کچھ ’ جملے‘ اور ’ سلوگن‘ تیار کیے، اور انہیں دیواروں پر عام کردیا گیا۔
قبرون کا احترام ، مگر ان کو سجدہ حرام
حاجت روا مشکل کشا ، ایک خدا ایک خدا
میرے لیے اللہ ہی کافی ہے۔
زبان زد عام اس قسم کے جملے اسی تحریک کی محنت و کاوش کا نتیجہ ہیں۔
3۔ ریلیاں اور مظاہرے کیے گئے۔
آج کل ریلیاں اور مظاہرے کسی حد تک بدنام ہوچکے ہیں، لیکن اُس وقت تصور توحید عام اور رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے اس قسم کی ریلیوں کا کافی فائدہ ہوا۔
4۔ اجتماعی خطبات جمعہ کا انعقاد
اس سے مراد یہ ہے کہ مختلف مساجد کے ائمہ اور خطبا سے رابطہ کیا جاتا، اور انہیں ’ توحید‘ کے موضوع بر خطبات جمعہ بر راضی کیا جاتا، اور پھر ان سب کے نام پر مشتمل ایک اشتہار چھاپا جاتا، کہ فلاں تاریخ کو فلاں فلاں مساجد اور علاقوں میں توحید کے موضوع پر خطبات ہوں گے۔
اس حوالے سے انہوں نے ایک واقعہ ذکر کیا، لاہور علی ہجویری صاحب کا عرس تھا ، جہاں عرس کے اشتہارات تھے ، وہیں دوسری طرف پورے لاہور میں ’ خطبات توحید اور شرک کی مذمت‘ کے اشتہارات کی بھرمار کردی گئی۔ جو یقینا بہت سارے لوگوں کے لیے ہدایت کا ذریعہ بنے۔
اسی طرح کئی جگہون پر میلوں اور عرس پر جاکر بھی دعوتی لٹریچر تقسیم کیا گیا، نتیجتا سختیاں اور مشکلات بھی آئیں ، لیکن اس کا فائدہ اتنا ہوا کہ شرکیات و بدعات میں ملوث لوگ کسی حد تک دفاعئی پوزیشن میں آگئے۔ بریلویوں کے معروف عالم دین اشرف آصف جلالی کا ’ توحید سیمینار‘ اسی رویے کا ایک اظہار ہے۔ پہلے شرکیات پر مشتمل نعروں سے دیواریں اٹی ہوتی تھیں، کوئی روکنے والا نہیں تھا ، لیکن جب تحریک دعوت توحید کی طرف سے وال چاکنگ شروع ہوئی، تومجبورا حکومت کو دونوں اطراف کو خاموش کروانا پڑا، میاں صاحب کے بقول اب دیواروں پر اس قسم کی چیزیں نظر نہیں آئیں گی۔
کسی نے سوال کیا، میاں صاحب آپ یہ کام سوشل میڈیا کے ذریعےشروع کیوں نہیں کرتے ؟
جواب میں فرمایا، ایک تو اس بر خرچہ بہت آتا ہے، دوسرا دعوت کے اس میڈیائی انداز پر ابھی تک ہمیں شرح صدر نہیں ہے ۔ اس لیے اس طرف توجہ نہیں کرسکے۔
دوران گفتگو یہ بات بھی کئی بار دہرائی کہ توحید کی دعوت کو ہمارے اسلاف نے جس طرح عام کیا، اس سے متعلق تصورات کو جیسے واضح کیا، ہم ان کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ، لیکن ہمیں اس دعوت کو لے کر آگے بڑھنا چاہیے، جب ہم لوگوں کا ذہن تبدیل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے، ان میں تصور توحید پختہ ہوجائے گا، تو دیگر مسائل کے حل میں بہت آسانی ہوجائے گی۔
حقیقت ہے کہ تقریر کی ابتدا میں مجھے ان کا موقف عجیب و غریب محسوس ہوا، لیکن مجلس کے آخر تک پہنچے تو ان کی سوچ و فکر کافی حد تک میرے لیے واضح ہوگئی، اوریہ محسوس کیا کہ توحید کو جس طرح وہ کتابوں، مسجدوں اور مخصوص طرز کے جلسے اور کانفرنسوں سے آگے بڑھا کر عامۃ الناس میں پھیلانا چاہتے ہیں، اس کی بہت ضرورت ہے ، اور ہم یہ کام کماحقہ نہیں کرسکے۔
میاں جمیل صاحب نے اس دور میں ایم ایے کیا تھا، جب ایم اے لوگ کم ہوتے تھے ، اس لیے بطور شناخت ان کے نام کے ساتھ ’ ایم اے‘ لگتا ہے ، جبکہ اب وہ اس لاحقے کو پسند نہیں کرتے۔
میاں صاحب نے دینی تعلیم جامعہ اسلامیہ گوجرانوالہ سے حاصل کی، اور مولانا اسماعیل سلفی صاحب سے فیض یاب ہونے کا بھی موقعہ ملا۔
میاں صاحب کی تقریر کے بعد کافی دیر تک سوال و جواب اور انفرادی گفتگو کا بھی سلسلہ جاری رہا، یاد آیا ہمارے جامعہ رحمانیہ کے کلاس فیلو اور جامعہ اسلامیہ مدینہ سے خریج، فضیلۃ الشیخ نوید قصوری صاحب بھی شریک تھے، کافی دیر ان سے بھی خوش گپیاں ہوتی رہیں، دعوت کا جذبہ اور ہم و غم اللہ نے انہیں ودیعت کیا، وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ اللہ مزید برکت عطا فرمائے ۔ مجلس کے آخر میں مولانا یحیی عارفی صاحب کی کتاب ’ کفار سے تعاون کی شرعی حیثیت اور فتنہ تکفیر‘ کے کچھ نسخے تھے ، جو حاضرین میں تقسیم کردیے گئے، اس کتاب کا مطالعہ کر رہا ہوں، شاید بعد میں اس کے متعلق ایک مستقل تحریر قلمبند کروں ۔ علمی و فکری گفتگو ، اور لذیذ کھانوں سے محظوظ ہونے کے بعد سب ایک دوسرے سے اجازت لے دے کر اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوئے۔
آخر میں گزارش کروں گا کہ میاں جمیل صاحب نے جو فکر پیش کی ہے، اسے مزید زیر بحث لانے اوراس تحریک کو سوشل میڈیا پر بالکل اسی انداز میں پھیلانے کی ضرورت ہے، جس طرح میاں صاحب نے اسے گلی گلی کوچہ کوچہ عام کیا۔
و لقد بعثنا فی کل أمۃ رسولا أن اعبدوا اللہ و اجتنبوا الطاغوت ۔
بلا شبہ اللہ کا کلام برحق ہے۔
نوٹ: یہ مدنی محفل کافی دیر بعد آئی، درمیانی عرصہ میں شیخ ابن بشیر ، شیخ خبیب اثری اور اسی طرح استاذ الاساتذہ شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد صاحب سے شرف ملاقات حاصل ہوا، لیکن افسوس یہ مجالس میں قلمبند نہیں کرپایا۔امید ہے اللہ جلد اس کوتاہی کی تلافی کے لیے موقعہ عطا فرمائے گا۔
Last edited: