• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تذکرہ ایک مدنی محفل کا

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
بروز منگل ،بتاریخ 19 ربیع الثانی 1438 ، بمطابق 17 جنوری 2017ء
مسجد نبوی سے جو راستہ جبل احد کو آتا جاتا ہے ، اس کا نام ’ سید الشہداء روڈ ‘ ہے ۔
اس روڈ پر دونوں طرف بہت زیادہ ہوٹلز ( مطاعم ) ہیں ۔ انہیں میں سے ایک ’ فوڈ ماسٹر ‘ ہے ۔
اس وقت جس ’ مدنی محفل ‘ کے متعلق آپ پڑھ رہے ہیں ، وہ یہیں انعقاد پذیر ہوئی ۔
مرکزی جمعیت اہل حدیث ( پاکستان ) کے ’ امیر ‘ محترم ساجد میر صاحب اپنے کئی رفقاء کے ساتھ سعودی عرب تشریف لائے ہوئے تھے ، مدینہ آنا ہوا ، بعض احباب کی کوششوں سے جامعہ اسلامیہ کے کچھ پاکستانی طلبہ کے ساتھ مجلس طے ہوئی ۔
وقت عشاء کے بعد کا تھا ، مرکزی جمعیت ضلع رحیم یار خان کے ناظم شیخ اسلم حنیف صاحب بھی ان دنوں مدینہ میں تھے ، عشاء کے بعد انہیں مسجد نبوی سے لیکر جائے مجلس پہنچنا میری ذمہ داری تھی ۔
شیخ اسلم حنیف صاحب جامعہ اسلامیہ کے سے فاضل ہیں ، جونہی ان سے ملاقات ہوئی ، میرے ذہن میں چار سال پہلے کا ایک واقعہ تازہ ہوگیا ، جب شیخ کلیۃ حدیث میں تشریف لائے اور ہماری ان سے ایک مختصر سی ملاقات ہوئی ۔ شیخ آج سے تیس سال پہلے 1407 میں کلیۃ الحدیث سے متخرج ہوئے تھے ۔
استاذ القراء قاری ابراہیم میرمحمدی حفظہ اللہ بھی ان دنوں جامعہ میں زیر تعلیم تھے ، اور جمعیت طلبہ سلفیہ کے امیرتھے ۔
ہوٹل پہنچے ، سب سے پہلے تو نہیں ، لیکن اندازہ ہوا کہ بہت سارے لوگوں سے ہم پہلے پہنچ چکے ہیں ، کرسیاں اور ٹیبلز ایک مخصوص انداز میں ترتیب دیے گئے تھے ۔ میں کوشش کرکے ابتدا میں ہی بیٹھ گیا ، لیکن احتیاطا اتنی نشستیں چھوڑ دیں کہ بعد میں آنے والی کسی بڑی یا چھوٹی شخصیت کی وجہ سے اٹھنا نہ پڑے ۔
تھوڑی ہی دیر بعد محترم میر صاحب بمع رفقا تشریف لے آئے ، جن میں پروفیسر عبد الستار حامد صاحب ، محترم سلمان اعظم صاحب اور مدینہ میں رہائش پذیر ہمارے ایک ساتھی محترم حافظ قاسم صاحب وغیرہ تھے ۔
یہ بات کئی دفعہ سنی تھی کہ ساجد میر صاحب ’ مصافحہ ‘ کرنے میں بہت محتاط واقع ہوئے ہیں ، میں نے نوٹ کیا کہ جب وہ تشریف لائے ، تو تمام حاضرین سے باقاعدہ دھیان کے ساتھ ہاتھ ملایا تاکہ کوئی رہ نہ جائے ۔
حافظ جنید صاحب ( امیر جمعیت طلبہ سلفیہ ) نے مجلس کا باقاعدہ آغاز کرتے ہوئے میر صاحب سے گزارش کی کہ وہ اپنے خیالات عالیہ سے نوازیں ۔ اس پر انہوں نے پندرہ بیس منٹ کی ایک علمی و فکری تقریر فرمائی ، جس کا خلاصہ ان الفاظ میں بیان کردیا :
رضیت باللہ ربا و بمحمد رسولا و بالإسلام دینا
محترم ساجد میر صاحب نے عیسائیت پر ایک تفصیلی کتاب تحریر کی ہے ، جو مختلف زبانوں میں ایک عرصے سے شائع ہوچکی ہے ، ان کے اس ’ وقیع علمی بیان ‘ میں ان کا مطالعہ ’ علم ادیان ‘ بالکل نمایاں نظر آرہا تھا ۔
ایک بہت مفید نکتہ انہوں نے بیان کیا ، جسے میں اپنی سمجھ کے مطابق تحریر کرنے کی کوشش کرتا ہوں کہ : جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی دعوت کا آغاز کیا ، اس وقت انکار کرنے والوں میں ایسے ایسے لوگ تھے ، جو اپنے زمانے کے بڑے پڑھے لکھے ، عقلمند اور دانشور تصور کیے جاتے تھے ، زبان و بیان پر ان کی مہارت ضرب المثل سمجھی جاتی تھی ، لیکن یہ سب خوبیاں ان کی اسلام کی طرف ہدایت کا سبب تبھی بن سکیں ، جب اللہ تعالی نے ان پر کرم کیا ۔ بہت سارے اپنی حکمت و دانائی کے سبب ’ ابو الحکم ‘ کہلایا کرتے تھے ، لیکن حالت کفر میں ہی مرے اور آج تک ’ ابو جہل ‘ کے نام سے ذکر کیے جاتے ہیں ۔
گویا ایسی ’ حکمت و دانش ‘ جو ’ حق شناسی ‘ کا سبب نہ بن سکے ، وہ سوائے جہالت کے اور کچھ نہیں ۔
اور حق کیا ہے ؟ یہ صرف عقلی موشگافیوں یا خالی دانشورانہ مزاج سے طے نہیں ہوگا ، بلکہ اس کے لیے ’ دینی بیانیے ‘ کا پابند ہونا پڑے گا ۔
آج لوگوں کا مزاج بن گیا ہے ، جس طرح بچے ’ گلے‘ کو ہلا کر سکے نکال لیا کرتے تھے ، تھوڑی دیر دماغ جھٹک کر ’ نظریات ‘ بنالیتے ہیں ، قرآن ، سنت ، فہم سلف اور چودہ صدیوں کا تسلسل چاہے جو بھی ہو ، اس کی کوئی پرواہ نہیں ۔
میر صاحب کی تقریر کے اختتام پر حاضرین سے کہا گیا کہ اگر کسی کا کوئی سوال یا استفسار ہے تو پیش کرسکتا ہے ۔
محترم فردوس جمال صاحب نے اپنا تعارف کروانے کے بعد کہا کہ آئندہ حالات میں ایک نیا دعوتی محاذ کھل رہا ہے ، یعنی چائنہ کے لوگ یہاں آئیں گے ، اس کے لیے اہل تشِیع بہت سرگرم ہیں ، اور وہ چائنی زبان سیکھنے میں بہت زیادہ محنت کر رہے ہیں ، ہمیں بھی اس طرف توجہ دینی چاہیے ، اس سلسلے میں انہوں نے اپنے علاقے کے کچھ طالبعلموں کی ضروریات کا ذکر کیا کہ وہ لاہور اس مقصد کے لیے آنا چاہتے ہیں ، لیکن ان کے لیے رہائش وغیرہ سہولیات کی ضرورت ہے ، جس پر ساجد میر صاحب نے تو کچھ نہ کہا ، البتہ پروفیسر عبد الستار حامد صاحب نے اس پر تعاون کی یقین دہائی کروائی ۔
پھر محترم شفقت الرحمن مغل صاحب کھڑے ہوئے ، انہوں نے بھی سی پیک کے حوالے سے ہی ایک ’ دعوتی لائحہ عمل ‘ کا ذکر کیا کہ اس میں ہمیں اپنی دینی و قومی تہذیب و ثقافت کی حفاظت اور ترویج کے لیے کیا کرنا چاہیے ؟
اس پر انہوں نے اپنی آراء تحریری شکل میں ساجد میر صاحب تک بھی پہنچادیں ، اور مزید کچھ کاپیاں دیگر لوگوں کو بھی عنایت فرمادیں ۔ ( یہ مکمل تحریر براہ راست شفقت الرحمن مغل (@ابن مبارک ) صاحب سے رابطہ کرکے حاصل کی جا سکتی ہے )
اس کے بعد میں نے گزارش کی کہ : شیخ صاحب ! ہم یہاں جامعہ میں زیر تعلیم ہیں ، ہماری اپنے بزرگوں کے متعلق ایک رائے ہے ، یقینا بزرگ بھی ان طالبعلموں کے متعلق کوئی تاثر رکھتے ہوں گے ؟ ہم آپ کی اپنے متعلق یہ سوچ جاننا چاہتے ہیں ۔
محترم میر صاحب نے جو کچھ فرمایا ، اس کا خلاصہ یہ تھا کہ : سعودیہ میں کئی لوگ آکر یہاں رائج موقف کے قائل ہوجاتے ہیں ، اور سختی سے اس پر کاربند ہوتے ہیں ۔ اس پر انہوں نے کئی ایک مثالیں بھی ذکر کیں ۔
میر صاحب کے الفاظ یہ تھے کہ : یہاں طالبعلموں میں تشدد آجاتا ہے ۔
تشدد کی جو توجیہ میرے ذہن میں آئی ، وہ اوپر میں نے اپنے الفاظ میں بیان کردی ، شاید اس معنی میں انہوں نے تشدد مراد لیا ہو ۔
ورنہ اگر عام اور معروف معنوں میں تشدد لیا جائے ، تو پھر ان کی رائے کئی ایک علماء کے خلاف ہوگی ، جو کہتے ہیں کہ سعودیہ جاکر کئی ایک اہل حدیث طلبہ تساہل پسند ہوجائے ہیں ، ان کے اندر تمسک بالنصوص والا جذبہ ذرا ماند پڑ جاتا ہے ، کیونکہ یہاں تقلید و اجتہاد والی بحثیں وہ پس منظر نہیں رکھتیں ، جس نظر سے انہیں پاک و ہند میں دیکھا جاتا ہے ۔
محترم میرصاحب نے ابھی اپنی بات مکمل کی ہی تھی کہ پروفیسر عبد الستار حامد صاحب نے میری تصحیح کرتے ہوئے فرمایا : ان کا سوال یہ ہونا چاہیے تھا کہ پاکستان میں ان سے ( یعنی جامعہ اسلامیہ والوں سے ) کیا توقعات وابستہ ہیں ؟
مجھے نہیں یاد کہ محترم میر صاحب نے اس حوالے سے کچھ خاص کہا ہو ۔
البتہ انہوں نے ایک عمومی بات کی تھی کہ بعض طالبعلم اور علماء کرام صرف جماعت سے توقعات وابستہ رکھتے ہیں کہ جماعت ہمارے لیے یہ کرے ، وہ کرے ، یہ کیوں نہ کیا ؟ وہ کیوں نہ کیا ؟ البتہ خود انہوں نے جماعت کے لیے کیا کیا ؟ یا کیا کریں گے ؟ اس طرف وہ توجہ نہیں دیتے ۔
شیخین طالب الرحمن و توصیف الرحمن صاحب کے متعلق بھی انہوں نے مختصرا ذکر کیا کہ جماعت نے ان کے لیے وہاں پاکستان سے بھی خط و کتابت کی تھی ، اور یہاں ریاض میں آکر بھی کئی ایک بڑی شخصیات سے صرف اسی کام کے لیے ملے ہیں ، اور امید ہے کہ بہت جلد غلط فہمیاں دور ہو جائیں گی ، اور وہ رہا ہو کر واپس آجائیں گے ۔
جماعت نے اب تک کیا کیا ہے ؟
یہ سوال زبان زد عام ہے ، ہر کوئی یہ سوال کرتا ہے ، یہ سوال یہاں اس مجلس میں تو زیر بحث نہیں آیا ، لیکن ایک بات مزید ذہن میں پختہ ہوئی کہ ’ جماعت بہت سارے کام ایسے کرتی ہے ، جن کا ڈھنڈورا نہیں پیٹا جاسکتا ‘ ۔
مجلس ختم ہوئی ، جامعہ اسلامیہ کی طرف سے پاکستانی طلبہ کے لیے مقرر کردہ ’ مندوب ‘ محترم وقارچنا صاحب نے ، سندی روایات کے مطابق محترم امیر صاحب کو ایک عدد مخصوص رنگدار کپڑا (اجرک) ہدیہ کرتے ہوئے ، ان کے گلے میں ہار کی طرح ڈال دیا ۔ تھوڑی ہی دیر میں ڈرائیور ایک بہترین گاڑی لے کر آگیا ، اور امیر صاحب اپنے رفقاء سمیت اس میں سوار ہوگئے ، شیخ اسلم حنیف صاحب کو وہیں موجود دیکھ کر مجھے انداز ہوا کہ وہ ’ پروٹوکول ‘ میں شامل نہیں ، جس کا مطلب تھا کہ ان کو واپس پہنچانے کی سعادت بھی میرے ذمہ ہی ہے ۔
واپسی مسجد بلال کے پاس شیخ کی رہائش تک پہنچتے ہوئے کئی ایک اہم باتیں زیر بحث آئیں ، شیخ نے کھل کر اپنے مافی الضمیر کا اظہار کیا ، ان باتوں کو اس تحریر میں ذکر کرنے کی بجائے ، کبھی کسی مستقل مدنی محفل میں درج کردیا جائے گا ۔ إن شاءاللہ ۔​
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
بروز ہفتہ ،بتاریخ 27 جمادی الآخرۃ 1438 ، بمطابق 25 مارچ 2017ء
فضیلۃ الشیخ حافظ محمد شریف صاحب حفظہ اللہ و رعاہ کا آبائی مسکن وہی ہے ، جو میرا ہے ۔ ہماری برادری بھی وہی جن سے وہ تعلق رکھتے ہیں ۔
حافظ صاحب کو اللہ تعالی نے دینی تعلیم کے لیے اختیار کرلیا ، پھروہ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں پڑھنے لگے ، یہاں سے فارغ ہو کر جامعہ ابی بکر کراچی میں استاد رہے ، بعد میں فیصل آباد میں مرکز التربیۃ الإسلامیۃ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا ، اور اب تک وہیں علم و فضل کے موتی بکھیر رہے ہیں ، سیکڑوں طالبعلم اب تک اس منفرد ادارے سے تعلیم و تربیت پاکر ملک کے اہم دینی مدراس ، مکاتب تحقیق و تالیف اور کالجز میں فرائض سر انجام دے رہے ہیں ۔
ہم بالکل چھوٹے چھوٹے ہوتے تھے ، حافظ صاحب کا جب بھی گاؤں آنا ہوتا ، سمجھیے مسجد میں ایک عید کا سما ہوتا ، پہلے سے ہی مسجد رحمانیہ اہل حدیث کے اسپیکروں سے بلند ہوتی صدائیں فضاؤں میں گونجنے لگتیں کہ ’ فضیلۃ الشیخ حافظ محمد شریف حفظہ اللہ ‘ تشریف لارہے ہیں ، فلاں دن کا خطبہ جمعہ یا جلسہ میں وہ بھی تقریر فرمائیں گے ۔ ( یہ اعلان گاؤں کی ایک ہر دلعزیز شخصیت اشفاق تبسم صاحب اپنے مخصوص انداز میں کیا کرتے تھے، جن کی آنکھوں میں مسئلہ ہونے کے سبب لوگ انہیں پیار و محبت سے ’ حافظ ‘ کے نام سے پکارا کرتے تھے ، اس دور میں وہ ’ من تعلق قلبہ بالمساجد ‘ کی منہ بولتی تصویر تھے ، آج کل کس حالت میں ہیں ، اللہ بہتر جانتا ہے ۔)
جمعہ کے لیے لوگ دور دور سے حاضر ہوتے ، بلکہ مجھے ابھی تک مناظر یاد ہیں کہ جمعہ کے بعد عصر یا اس کے بعد تک بھی سوال و جواب کی نشست جاری رہتی ، اور دیگر مسالک کے لوگ بھی آکر حافظ صاحب سے سوالات کے جوابات دریافت کیا کرتے تھے ۔
سید شریف گھڑیالوی رحمہ اللہ کے خاندان کے چشم و چراغ سید سعید احمد شاہ صاحب گاؤں کے بے تاج بادشاہ تھے ، بلا تفریق مسلک ، سب ان کا عزت و احترام کیا کرتے تھے ۔ میں بہت چھوٹا ہی تھا کہ شاہ صاحب داغ مفارقت دے گئے ۔ لیکن ماضی کے دریچوں سے ان کی یادیں ذہن میں آتی ہیں تو اندازہ ہوتا ہے ، وہ ایک جی دار ، وسیع الظرف اور مربی شخصیت کے مالک تھے ۔ میں نے یہی سنا ہے کہ حضرت شاہ صاحب اور حضرت حافظ صاحب کے آپس میں بہت اچھے تعلقات تھے ، حافظ صاحب اپنے ’ سید صاحب ‘ کی بہت عزت کیا کرتے ، اور شاہ جی اپنے حافظ صاحب کو ایک ثقہ اور فاضل عالم دین کے طور پر بہت احترام دیا کرتے تھے ۔
ان دونوں بزرگوں نے مل کر اہل گاؤں کی تعلیم و تربیت کا شانداز انتظام کیا ۔ بدعات و خرافات سے مبرا خالص دینی تعلیمات نے لوگوں کو بہت متاثر کیا ، گاؤں میں اہل حدیث کی مسجد جو گاؤں کے اعتبار سے نسبتا مناسب تھی ، تنگ پڑتی محسوس ہوئی تو حافظ صاحب نے اپنے روابط استعمال کرکے ایک شاندار مسجد کی تعمیر بھی کروائی ۔
جب تک معاملات حضرت سید سعید احمد شاہ صاحب کے ہاتھ میں تھے ، بہترین پیش قدمی جاری رہی ۔ توحید و سنت کے پھریرے لہرانے لگے ۔ لیکن نئی تعمیر ہونے والی مسجد ابھی نصف تک بھی نہ پہنچی کہ اس مسجد کے منبر و محراب کے وارث حضرت شاہ صاحب داعی اجل کو لبیک کہہ گئے ۔
مجھے یہ نہیں پتہ کہ اس حادثہ فاجعہ پر حافظ صاحب کی کیا کیفیت تھی ، لیکن اتنا یاد ہے کہ شاہ صاحب کی وفات کے بعد بھی مسجد کا کام تندہی سے جاری رہا ، تآنکہ مسجد مکمل ہوگئی ، جس عربی ادارے کے تعاون سے مسجد بنی تھی ، وہاں سے کچھ علماء تشریف لائے انہوں نے خطبہ دیا ، ساتھ حافظ صاحب نے اردو ترجمہ بھی کیا ، پھر کئی ایک بار یہ بھی پتہ چلا کہ عرب کی طرف سے خاص اس گاؤں کی جماعت کے لیے کھجوروں کا تحفہ بھی آیا ہے ۔ میں یہ ساری چیزیں اس لیے ذکر کر رہا ہوں کہ حافظ صاحب کی توجہ کے سبب گاؤں میں ماحول بہت اچھا تھا ، اور حافظ صاحب اس میں بہت دلچسپی بھی لیا کرتے تھے ۔
شاہ جی کی وفات کے پہلے ہی سال حافظ صاحب نے اپنے ایک لائق شاگرد محترم قاری نعمان صاحب ( جو میرے استاد ہیں ) کو بھیجا کہ رمضان میں تراویح بھی پڑھائیں اور دروس بھی دیں ، جنہوں نے خوب دل جمی کے ساتھ یہ فریضہ سر انجا دیا ، اسی سال قاری صاحب کی توجہ سے میں حفظ کے لیے لاہور چلا گیا ، اور دینی تعلیم کا یہ سلسلہ اب تک جاری ہے ۔
شاہ صاحب پہلے ہی رخصت ہوچکے تھے ،
لیکن جسے میں سنہری دور کہوں گا وہ پتہ نہیں کب گزر گیا ؟
حضرت حافظ صاحب کا گاؤں میں آنا آہستہ آہستہ کم ہوتا گیا ۔ وہی مجالس جو حضرت شاہ صاحب یا ان کی وفات کے متصل بعد قائم ہوئیں ، انہیں کے ہلکے یا گہرے نقوش ابھی تک ذہن پر نقش ہیں ، اس کے بعد کبھی حافظ صاحب آئے ہوں گے تو میں مدرسہ میں تھا ، جب میں گاؤں آیا تو حافظ صاحب کے آنے کی کوئی سبیل پیدا نہ ہوئی ۔ ایک بار مرکز تربیہ میں داخلہ لینے کی غرض سے حافظ صاحب کے پاس حاضری دی ، حافظ صاحب نے حوصلہ افزائی کی ، لیکن میں خود ہی کسی وجہ سے وہاں نہ جاپایا ، اگلے ہی سال میں مادر علمی جامعہ رحمانیہ کی طرف سے عمرے پر آیا ، اس سے اگلے سال جامعہ اسلامیہ میں داخلہ ہوگیا ۔
اب مجھے یہاں ساتواں سال ہے، حافظ صاحب ان سالوں میں شاید ایک بار مدینہ منورہ آئے جب ہم چھٹیاں گزارنے پاکستان گئے ہوئے تھے ۔
ابھی چند دن پہلے دوبارہ پھر تشریف لائے ، چند دن قیام کیا ، علماء و مشایخ سے خوب خوب ملاقاتیں کیں ، ان کی خدمت کا سارا ثواب شیخ ارشاد الحسن ابرار صاحب نے کمالیا ، جامعہ میں زیر تعلیم ان کے شاگردوں نے بھی ان کے ساتھ خاص مجلس رکھی ، اسی طرح شیخ عبد الباسط فہیم صاحب نے بھی اپنے برادر اصغر کی بیٹی کے عقیقہ کی دعوت میں انہیں مدعو کیا ، ہم بھی کچھ ساتھی مل کر ایک خصوصی دعوت رکھنا چاہتے تھے ، لیکن حافظ صاحب کی مصروفیت کےسبب ممکن نہ ہوسکا ، حافظ صاحب کے ایک شاگرد شیخ عبد الوکیل فہیم صاحب ہفتہ والے دن ظہرانہ کے لیے وقت لینے پر کامیاب ہوئے ، مجھے پتہ چلا ، رابطہ کرنے پر انہوں نے شفقت کی ، اور یوں میں بھی اس مجلس کے شرکاء میں سے ہوا ۔ آج کی مدنی محفل میں اسی مجلس کے احوال ملاحظہ کیجیے :
شرکاء محفل میں سب سے پہلے میں حاضر ہوا ، پھر شیخ عبد الباسط فہیم صاحب ، اس کے بعد حافظ صاحب شیخ ارشاد الحسن ابرار صاحب کے ساتھ تشریف لائے ، آخر میں شیخ عبد اللہ عارف جو کہ شیخ عارف جاوید محمدی حفظہ اللہ کے فرزند ارجمند ہیں ، شریک محفل ہوئے ، جبکہ شیخ عبد الوکیل صاحب اور محمود بن حافظ عبد الرشید اظہر بھائی پہلے سے وہاں موجود تھے ۔
حافظ صاحب سب سے پرتباک انداز میں گلے ملے ، جو بعد میں آیا ، اسے بھی اٹھ کر گلے لگایا ، چھوٹے بچوں کے ساتھ پیار و محبت کا اظہار کیا ، کچھ ابتدائی باتوں کے بعد جو گفتگو ہوئی ، ترتیب کا خیال رکھے بغیر ، تحریر کرنے کی کوشش کرتا ہوں ۔
شیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ و رعاہ سے حافظ صاحب کی ملاقات ہوئی ، حافظ صاحب نے شیخ ربیع صاحب کی اس دور کی کچھ باتیں بتائیں ، جب حافظ صاحب جامعہ اسلامیہ میں زیر تعلیم تھے ، کہ کس طرح انہوں نے اتباع سنت ، اور اخماد بدعت کے لیے نمایاں کاوشیں سرانجام دیں ۔
البتہ اب شیخ ربیع بڑھاپے اور عوارض کے باعث کافی کمزور ہیں ، حافظ صاحب سے مل کر بہت خوش ہوئے ، دوبارہ پھر ملنے کو کہا ، حافظ صاحب دوبارہ بھی گئے ، ہم نے اس حوالے سے حافظ صاحب سے اور ان کے ساتھ جانے والے کچھ مشایخ سے پوچھا کہ شیخ ربیع کی مجلس کا کیا ماحول ہے ؟
حافظ صاحب نے شیخ ربیع صاحب کی تو مدح و توصیف کی ، البتہ باتوں سے لگ رہا تھا کہ شیخ کے کچھ حاشیہ نشیں ان کی بزرگی و ضعف کا غلط استعمال کر رہے ہیں ۔ شیخ صاحب سے ملاقات کی چاہت لے کر جانے والے کئی ایک مشایخ و طلاب علم ان کے اس رویے سے نالاں ہیں ۔
کوئی ڈاکٹر مرتضی بخش ہیں ، ان کے حوالے سے معروف ہے کہ وہ شیخ ربیع کے معتقدین میں سے ہیں ، اور ان کے منہج پر ہیں ، انہوں نے علم و فضل میں اپنے سے کئی درجے بڑے علماء و مشایخ پر’ حکم ‘ لگایا ہوا ہے کہ ان سے علم نہیں لینا چاہیے ۔ جبکہ دوسری طرف شیخ عبد الباسط صاحب کے ایک سوال پر حافظ شریف صاحب کا کہنا تھا کہ خود شیخ ربیع حفظہ اللہ نےشیخ ’ عبد اللہ ناصر رحمانی ‘ صاحب کو پاکستان میں قابل اعتماد اہل علم میں سے قرار دیا ہے ۔
اب شیخ ربیع صاحب کا وہ موقف درست مانا جائے جو فضیلۃ الشیخ حافظ محمد شریف صاحب نے نقل کیا ہے ؟ یا پھر وہ کہ جو کسی غیر معروف ڈاکٹر صاحب کی سوچ ہے ؟
شیخ عبد الباسط فہیم صاحب نے سوال کیا : کہ مولوی اسحاق جھال صاحب والے کے متعلق لوگ پوچھتے ہیں ، کیا لوگوں کو ان کی تقاریر سے منع کرنا چاہیے کہ نہیں ؟
حافظ صاحب نے ارشاد فرمایا : وہ ایک گمراہ شخص تھا ، عامۃ الناس کو اس کی تقریریں سننے سے منع کرنا چاہیے ۔
ایک بہت معروف سوال ہے کہ علماء نے اسحاق جھالوی صاحب کے فتنہ کے سد باب کے لیے کیا کیا ؟
اس پر حافظ صاحب نے بتایا کہ کسی نے(حافظ صاحب نے نام ذکر کیا تھا) ان کی ساری تقاریر سن کر ان میں موجود گمراہیوں اور صحابہ کی گستاخیوں کو نکات کی شکل میں مرتب کردیا ، یہ فہرست حافظ صاحب کے پاس موجود تھی ، ایک مرتبہ مرکز التربیۃ کے دار الضیافۃ میں حافظ صاحب ، حافظ مسعود عالم صاحب ، شیخ ارشاد الحق اثری صاحب کی موجودگی میں مولوی اسحاق جھالوی صاحب کے ساتھ مجلس ہوئی ، حافظ صاحب کہتے ہیں ، میں نے وہ سب باتیں مولوی اسحاق صاحب کو سنائیں ، انہوں نے سب باتوں کا اقرار کیا کہ یہی میرا موقف ہے ، صرف ایک جگہ پر انہوں نے اعتراض کیا ، جس پر حافظ صاحب نے قلم پھیر دیا ، باقی سب تحریر پر مولوی اسحاق صاحب کے دستخط لے لیے کہ یہ میرا ہی موقف ہے ، اور میں ان باتوں کا اقرار کرتا ہوں ۔
مولوی اسحاق صاحب کی عادت تھی کہ چیلنج بہت کیا کرتے تھے ، حافظ صاحب نے کہا کہ جن باتوں پر آپ نے دستخط کیے ہیں ، ان پر ہمارے ساتھ مجلس کرلیں ، آپ ان باتوں کو دلائل و براہین سے بیان کردیں ، ہم ان کا اسی انداز سے رد کریں گے ، جو کچھ ہوگا سب کے سامنے آجائے گا ۔ لیکن بقول حافظ صاحب کے باوجود بہت کوشش کے مولوی صاحب اس مجلس کے لیے تیار نہیں ہوئے ، کبھی کہا کہ اس مجلس کے کنٹرول کی ذمہ داری کون لے گا ؟ کبھی کہا اس میں حافظ شریف صاحب شرکت نہ کریں ، صرف اثری صاحب اور مسعود عالم صاحب ہونے چاہییں ، حافظ صاحب نے ان سب باتوں کو تسلیم کیا ـ لیکن مولوی صاحب جو ہر تقریر میں چیلنج دیتے تھے ، علماء کے سامنے بیٹھ کر بات کرنے کو تیار نہ ہوسکے ۔
یوں فیصل آباد اور گردو نواح کے سرکردہ علماء کرام و عمائدین کو بلایا گیا ، مولوی اسحاق صاحب کی گمراہی واضح کی گئی ، کچھ لوگوں نے تحفظات کا اظہار کیا ، لیکن جب انہیں مولوی صاحب کے دستخط والا ورقہ دکھایا گیا تو وہ بھی خاموش ہوگئے ، اور سب علماء کرام نے متفقہ فتوی یا فیصلہ جاری کیا کہ جو شخص صحابہ کرام اور مقدس ہستیوں کے متعلق اس طرح کے عقائد رکھتا ہے ، اس کا اہل حدیث کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے ۔ یہ فیصلہ تمام علماء کرام کے دستخطوں کے ساتھ جماعت کے کئی ایک جرائد میں بھی چھپا ۔ اس کے بعد بھی مولوی اسحاق صاحب اپنی وفات تک کبھی بھی علماء کے ساتھ مجلس کے لیے تیار نہیں ہوئے ۔ اللہ تعالی سے انہوں نے توبہ کی ہو تو الگ معاملہ ، ورنہ دستیاب معلومات کے مطابق وہ آخر تک صحابہ کرام کے متعلق فاسد و مذموم نظریات لے کر ہی رخصت ہوئے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے جنازے میں فیصل آباد کے مشایخ ثلاثہ : حافظ شریف صاحب ، حافظ مسعود عالم اور شیخ ارشاد الحق اثری وغیرہم نے شرکت نہیں کی تھی ۔ بعض مشایخ نے شرکت کی کوشش کی ، لیکن جب انہیں متفقہ فتوی جس میں وہ خود بھی دستخط کرچکے تھے ، یاد دلایا گیا تو وہ بھی نہ گئے ۔
جامعہ اسلامیہ کے نظام تعلیم میں کچھ تبدیلی کی وجہ سے کئی ایک طالبعلموں کی زبان سے سختی کا شکوہ سننے پر حافظ صاحب کا کہنا تھا کہ : طالبعلموں کا یہ رویہ درست نہیں ، وہ پاکستان سے یہاں پڑھنے کے لیے آئے ہیں ، پڑھائی کے حوالے سے ان پر جس قدر بھی سختی ہو ، انہیں اپنے سے وابستہ امیدوں ، اور ان کی تعلیم پر صرف ہونے والے وسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے ، مکمل محنت و کوشش سے پڑھنا چاہیے ۔ کہنے لگے : جب پاکستان سے علماء کرام تزکیہ لکھ کر دیتے ہیں ، تو اس میں دو چیزیں نمایاں ہوتی ہیں :
1۔ طالب علم کسی گمراہ نظریے کا حامل نہیں ۔
2۔ یہ محنتی، ذہین اور جفاکش طالبعلم ہے ۔ اس کا یہ حق بنتا ہے کہ اسے اس عالمی یونیورسٹی میں داخلہ دیا جائے ۔
اگر طالبعلم یہاں آکر پڑھائی سے ہی کنی کترائیں ، اور تعلیم و تربیت کی پابندی کو بے جا سختی سمجھنے لگیں تو گویا یہ لیے گئے تزکیے کو جھٹلا رہے ہوتے ہیں ۔
حافظ صاحب نے یہ بات بھی بالخصوص فرمائی کہ ، پاکستان اور سعودیہ کے نظام حکومت میں بنیادی فرق ہے ، اس لیے ان چیزوں کو مد نظر رکھنا چاہیے ، اور جو فتاوی اور احکام ماحول اور نظام کی تبدیلی سے بدل جاتے ہیں ، انہیں ہر دو جگہ پر لاگو کرنے کی بجائے ، صرف متعلقہ جگہ پر ہی منحصر رکھنا چاہیے ۔ بطور مثال انہوں نے ’ احتجاجی مظاہرات ‘ کا ذکر کیا کہ پاکستان کے جمہوری نظام میں یہ ایک جائز چیز ہے ۔ لیکن سعودیہ میں اس کا حکم مختلف ہے ۔
ساتھ اس طرف بھی توجہ دلائی کہ پوری دنیا میں سعودیہ وہ واحد ملک ہے ، جو حکومتی سطح پر ’ منہج سلفیت ‘ کی پشت پناہی کر رہا ہے ، لہذا یہاں جو بھی خرابیاں ہیں ، اس کے مقابلے میں یہ خوبی بھی بہت بڑی ہے ، جس کی قدر اور اللہ کی اس نعمت کا شکریہ ادا کرنا چاہیے ۔
حافظ صاحب کا کہنا تھا ، برصغیر کے سلفی مدارس کے نصاب میں بھی علم الکلام کی کتب کے ذریعے عقیدہ پڑھایا جاتا تھا ، حتی کہ خود انہوں نے بھی عقائد نسفیہ اور خیالی وغیرہ کا ہی درس لیا ، پھر بعد میں آکر اس میں سلفی عقائد والی کتب شامل نصاب ہوئیں ۔
حافظ شریف صاحب نے حضرت العلام حافظ محمد گوندلوی رحمہ اللہ کو ’ بڑے حافظ صاحب ‘ کے نام سے یاد کیا ، اور فرمایا : کہ کبار مشایخ میں ابن تیمیہ و ابن قیم کی کتب کا سب سے زیادہ مطالعہ رکھنے والی شخصیت وہی تھے ۔
حافظ عبد الرشید اظہر صاحب کے متعلق ان کے فرزند سے بالخصوص پوچھا ، اور یہ بھی کہ حافظ صاحب کی علمی نگارشات کو منظر عام پر لانے کے لیے کوئی کام ہورہا ہے کہ نہیں ؟ محمود اظہر صاحب کا کہنا تھا کہ اس پر کوئی طالبعلم کام کر رہے ہیں ۔ ( اللہ کرے یہ کام جلد مکمل ہو )
حضرت حافظ صاحب نے جامعہ ابی بکر میں تدریس کے دوران پی ایچ ڈی کا مقالہ بھی لکھ رہا ہے ، گو وہ مصروفیات کی وجہ سے بروقت پیش نہیں کیا جاسکا ، البتہ وہ اپنے موضوع پر ایک اہم کاوش ہے ، جس میں صحیح بخاری کو مد نظر رکھتے ہوئے ، فقہ اہل حدیث کے اصولوں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔
اس رسالے کی خبر میں نے حافظ صاحب کے کئی ایک شاگردوں سے پہلے سنی تھی ، اب حافظ صاحب نے بھی اس کی تصدیق کی ۔ اللہ سے دعا ہے کہ حافظ صاحب جس طرح ’ تصنیف رجال ‘ اور دعوتی میدان میں کام کر رہے ہیں ، اپنی قلمی کاوشوں سے بھی طالبان علم کی سیرابی کا باعث بنیں ۔
جتنی دیر محفل رہی ، ہماری کوشش رہی کہ حافظ صاحب سے زیادہ سے زیادہ سن لیں ، حتی کہ میزبان کو کہنا پڑا کہ ذرا سوال کم کریں ، اور حافظ صاحب کو کھانے کے دو لقمے لگانے کی بھی فرصت دیں ۔ خیر کئی ایک طالبعلم اور شاگرد اس حوالے سے اکثر گستاخ ہی واقع ہوتے ہیں ، لہذا ایک لمحہ کے لیے یہ سلسلہ رکا ، اور اگلے ہی لحظہ میں رکتے رکتے بھی ایک نیا سوال کردیا گیا ۔ اور یوں یہ مجلس جو ایک ’ ظہرانہ ‘ کی حیثیت سے منعقد ہوئی تھی ، حسب سابق ایک خوبصورت علمی ، تربیتی و معلوماتی محفل میں ڈھل گئی ۔
نماز عصر کا وقت ہوا چاہتا تھا ، شیخ عبد الباسط فہیم صاحب نے مسجد نبوی میں درس کے لیے جانا تھا ، جبکہ راقم الحروف نے بھی مسجد نبوی کے ہی ایک طرف ’ اسماء حسنی نمائش ‘ میں پہنچنا تھا ۔ عمدہ و لذیذ کھانے کے آخر میں ’ ختامہ مسک ‘ کے طور پر ’ میٹھی ڈش ‘ ابھی باقی تھی ، لیکن دیگر ساتھیوں پر اعتماد کرتے ہوئے ، دل پر ہاتھ رکھ کر ہم نے میزبان سے اجازت لی ، حافظ صاحب سے الوداعی معانقہ کیا ، اوراس ’ مدنی محفل ‘ کو ترتیب دینے کی سوچوں میں گم ’ سوئے حرم ‘ چل دیے ۔
ایک اہم وضاحت : ویسے تو میں نہ کوئی ادیب ہوں ، نہ مجھے لفظوں کے ساتھ کھیلنے کا شوق ہے ، اس لیے لفظی تصنع و بناوٹ میرے لیے کبھی بھی الجھن نہیں رہی ، البتہ چونکہ مجلس میں شریک ہونے والے کبار علماء ہوتے ہیں ، زیر بحث آنے والے مسائل بعض دفعہ انتہائی اہم نوعیت کے ہوتے ہیں ، اس لیے ذرا سی بے احتیاطی ایک پختہ عالم دین کی خبر یا رائے کا حلیہ بگاڑنے کا سبب بن سکتی ہے ، کسی طالبعلم کی گمراہی یا خود اس عالم دین کے لیے پریشانی کا باعث بن سکتی ہے ، وہ چیز جسے لوگ کسی عالم دین کی بات سمجھ رہے ہوتے ہیں ، وہ در اصل لکھاری یا ناقل کی پسند نا پسند کی چھلنی سے گزر کر اپنا اصل معنی و مفہوم کھو چکی ہوتی ہے ۔ میں ان باتوں کا حتی الامکان خیال رکھنے کی کوشش کرتا ہوں ، لیکن پھر بھی یہ کہہ دینا ضروری سمجھتا ہوں ، کہ ’ مدنی محفل ‘ میں جو کچھ بیان ہو ، اسے راقم کا ’ نتیجہ سوچ و فکر ‘ سمجھیں ، جس کے غلط یا درست ہونے کا برابر امکان ہو سکتا ہے ، اور اگر آپ کسی بات کی تصدیق کرنا چاہتے ہیں تو براہ راست متعلقہ شخصیت سے رابطہ کریں ۔​
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
بروزبدھ ،بتاریخ 2 رجب 1438 ، بمطابق 29 مارچ 2017ء
جب سے میں جامعہ اسلامیہ میں زیر تعلیم ہوں ، تقریبا ہر سال ہی شیخ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ عمرہ کی سعادت سے بہرہ مند ہوتے ہیں ۔ مجھے سات سال ہوئے ، جانے اس سے پہلے کب سے شیخ کا یہ معمول ہے ۔
ان دنوں بھی شیخ مدینہ منورہ میں موجود ہیں ، حسب سابق شیخ سے وقت لے کر ایک خصوصی مجلس رکھی گئی ۔ جس میں دس بارہ لوگ شریک ہونے تھے ، لیکن پھر بعض بھائیوں کے اصرار پر تعداد بڑھا کر تقریبا تیس تک چلی گئی ۔
مدنی محافل میں جتنے سینئرز کے نام مذکور ہیں ، تقریبا سب ہی اس میں شریک تھے البتہ اس محفل کی خصوصیت یہ تھی کہ پنجاب سے ہٹ کر دیگر صوبوں سے بھی نمائندگان شامل تھے ۔
اس مجلس کے لیے کافی اہتمام کیا گیا تھا ، خلاف عادت پہلے سے ہی شیخ کے لیے سوالات تیار کر لیے گئے تھے ۔
کھانا تناول کرنے کے بعد تلاوت قرآن ، ابتدائی رسمی کلمات اور پھر شیخ ارشاد الحسن ابرار صاحب نے سوالات کرنے شروع کیے ۔
ایک سوال تھا :آپ اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن رہے ، یہ تجربہ کیسا رہا ؟ کیا وہاں کھل کر بات کرنے کا موقعہ دیا جاتا ہے ؟
شیخ بیسویں صدی کے آخری تین سال اس ادارے سے منسلک رہے ، ان کی گفتگو سے اندازہ ہوا کہ ہونے والی علمی مشاورتوں اور مباحثوں میں خوب حصہ لیا کرتے تھے ، بلکہ مفقود الخبر ، عورت کا بغیر محرم سفر حج وغیرہ جیسے کئی ایک مسائل میں انہوں نے اتباع کتاب وسنت والے مسلک کو منوایا بھی ۔
شیخ کے بقول نظریاتی کونسل کا ماحول عالمانہ اور در حقیقت مشاورت والا ہی تھا ، کوئی بھی صاحب علم اپنے دلائل کھل کر پیش کر سکتا تھا ۔ البتہ حال ہی میں نظریاتی کونسل میں کتاب وسنت کے خلاف ہونے والے فیصلوں پر بعض علماء کے ان پر دستخط کے حوالے سے شیخ نے افسوس کا اظہار کیا ۔
نظریاتی کونسل جو رائے اور موقف طے کرتی ، کیا اس پر عمل درآمد بھی ہوا کہ نہیں ؟
اس پر انہوں فرمایا : کونسل کے ان دنوں کے مدیر ایس ایم زمان صاحب نے تمام مجالس اور ان میں طے پانے والے متفقہ فیصلوں کو ایک جگہ جمع کیا ، اوراس کا ایک ایک نسخہ ہر ایم این اے کے دفتر میں بھجوا دیا ، تاکہ ارکان پارلیمنٹ اس پر عملدرآمد کرنا چاہیں تو انہیں کسی قسم کی کوئی مشکل نہ ہو ، گویا اہل دین کی طرف سے یہ ایک اتمام حجت کی شکل تھی ۔
لیکن بقول مولانا زاہد الراشدی حفظہ اللہ ، ایک بار انہوں نے ایک ایم این اے کے پاس یہ کتاب گرد میں اٹی ہوئی دیکھی ، انہوں نے مزید چیک کرنے کے لیے پوچھا : کیا میں یہ کتاب لے سکتا ہوں ؟ جواب آیا ، لے جائیں ، فارغ ہی پڑی ہوتی ہے ۔
شیخ اثری صاحب یہ بات سنارہے تھے ، کسی ساتھی نے پوچھا : شیخ ہم اس کتاب کا نسخہ کیسے حاصل کرسکتے ہیں ؟
کسی نے برجستہ کہا : کسی ایم این اے کے پاس چلے جائیں ۔ اس پرمحفل کشت زعفراں بن گئی ۔
شیخ سے مستشرقین کے متعلق پوچھا گیا ، فرمانے لگے : یہ حقیقت ہے کہ قرآن وسنت کو ہم اس قدر نہیں پڑھ سکے ، جتنا زیادہ ان لوگوں نے پڑھا ہے ، شیخ کا اشارہ غالبا المعجم المفہرس وغیرہ فہارس احادیث کی طرف تھا ، جو کمپیوٹر آنے سے پہلے احادیث کی تلاش کے لیے نہایت ہی ممد و معاون ثابت ہوا کرتی تھیں ۔
شیخ کا یہ بھی فرمانا تھا کسی کے اعتراضات سے گھبرانا نہیں چاہیے ، اگر کوئی محنت کرکے ہماری کتابوں سے ہم پر ہی اعتراض تلاش کرلیتا ہے ، تو ہمیں بھی چاہیے کہ اس سے زیادہ محنت کرکے ، ان چیزوں کو کو صحیح رخ دیں ، وہ غلط فہمیاں ، اور مغالطے دور کریں ، جن کی وجہ سے بالکل صحیح باتیں ’ اعتراضات ‘ بنادی جاتی ہیں ۔
مولانا حبیب الرحمن کاندھلوی نے ایک کتاب لکھی ہے ’ مذہبی داستانیں ‘ جس میں انہوں نے منکرین حدیث کی ڈگر پر چلتے ہوئے ، بخاری و مسلم کی روایات میں تشکیک پیدا کرنے کی کوشش کی ہے ، شیخ نے اس کتاب کا بہترین جواب لکھا ہے ، جس کا عنوان ہے ، احادیث بخاری و مسلم کو مذہبی داستانیں بنانے کی ناکام کوشش
اس حوالے سے شیخ نے ذکر کیا ، کراچی کے ہمارے ایک شاگرد نے بتایا کہ ہمارے گھر میں کاندھلوی صاحب کی کتاب تھی ، جس سے پورا گھر متاثر ہوگیا ، لیکن جب شیخ اثری صاحب کی کتاب آئی ، تو الحمد للہ انکار حدیث کی سوچ گھر سے رخصت ہوئی اور احادیث رسول کی عظمت و ہیبت دوبارہ لوٹ آئی ۔ والحمد للہ علی ذلک ۔
شیخ نے مقام صحابہ اور مشاجرات صحابہ میں سلف کا عنوان سے کتب بھی تحریر کی ہیں ، جن میں کسی کا نام تو نہیں لیا گیا ، لیکن یہ فیصل آباد کے ایک گمراہ بزرگ اسحاق جھالوی صاحب کے افکار و نظریات کی تردید کے لیے منظر عام پر لائی گئیں ۔
کسی نے پوچھا : بعض لوگ کہتے ہیں ، ائمہ اربعہ کی تقلید پر تمام لوگوں کا اجماع ہے ، شیخ نے فرمایا : یہ بات درست نہیں ، تقلید کی تشہیر کے ابتدائی دور میں ہی ابن حزم جیسے علماء کرام نے ببانگ دہل اس طرز کی مخالفت کی تھی ، اور تقلید سےہٹ کر اتباع کتاب و سنت کے منہج پر گامزن رہتے ہوئے ، انہوں نے المحلی وغیرہ لکھی ہے ، لوگوں نے جو مرضی کہا یا کہتے رہیں لیکن المحلی آج تک اہم ترین مصادر میں شمار کی جاتی ہے ۔
شیخ حفظہ اللہ کا اسلوب بہت دلنشیں ہے ، اس دفعہ کی مجلس ذرا اور طرز پر چلی گئی ، ورنہ جب بھی شیخ کے ساتھ بیٹھیں ، تو گویا معلومات و نکات کا سیل رواں چل نکلتا ہے ۔ شیخ کی مجالس سوچ کر اکثر ہی یہ شعر ذہن میں آجاتا ہے :
میر دریا ہے سنے شعر زبانی اس کی
اللہ اللہ رے طبیعت کی روانی اس کی
مظاہرات کے متعلق ، جمہوری حکمرانوں کی اطاعت ، اسی طرح احادیث میں اطاعت امیر سے متعلق جو نصوص وارد ہوئی ہیں ، کیا جمہوری حکمران اس میں داخل ہیں کہ نہیں ؟ اس تعلق سے بھی سوالات کیے گئے ، جن پر شیخ نے اپنی عالمانہ و مدبرانہ محتاط رائے کا اظہار کیا ۔
مخالفین کے ساتھ کیا اسلوب ہونا چاہیے ؟ اس حوالے سے یہ بات بہت ہی لائق توجہ رہی کہ شیخ نے جب بھی کسی دوسرے مسلک و مشرب کے کسی عالم دین کا تذکرہ کیا ، تو انتہائی ادب و احترام اور پیار محبت کے ساتھ ، بلکہ ساتھ ’ رحمہ اللہ ‘ بھی کہا ، شیخ کا فرمانا تھا : رد میں اسلوب اچھا ہونا چاہیے ، طعن و تشنیع سے گریز کرنا چاہیے ، ہاں البتہ اگر آپ کسی کو جاہل و لا علم سمجھتے ہیں ، ادب و احترام کے لائق نہیں سمجھتے ، تو اس کی تردید میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے ۔
اہل بدعت پر رد کے حوالے سے میں نے کافی کرید کر پوچھنا چاہا ، شیخ کا جواب ایک ہی رہا کہ علمی رد مضبوط ہونا چاہیے ، اور اخلاقیات کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے ۔
میں نے شیخ سے عرض کیا : آپ اور اسماعیل سلفی رحمہ اللہ جدال بالأحسن کے لیے بطور مثال پیش کیے جاتے ہیں ، حالانکہ آپ بزرگوں کی تحریروں میں بھی سختی و تشدد تو نکالا جاسکتا ہے ، جس پر شیخ خاموش رہے ۔
مجلس کی ابتدا میں ، میں نے شیخ سے پوچھا کہ آپ نے ظفر احمد عثمانی صاحب کی کتاب ’ اعلاء السنن ‘ کا تفصیلی رد کیا ہے ، آپ نے اس دوران ان کی شخصیت کو کیسا پایا ؟ کیا علمی مسائل میں وہ دیانت و امانت کی پاسداری کرتے تھے ؟ شیخ کا جواب نفی میں ہی تھا ۔
میں نے شیخ سے عرض کیا کہ ماجستیرمیں بطور مقالہ امام سیوطی کی الدرالمنثور کی تحقیق میں شرکت کی ہے ، سیوطی کس سے نقل کرتے ہیں ، اور ان سے کس نے حرف بہ حرف نقل کیا ، شیخ نے اس کے متعلق ارتجالا ایسی مفید معلومات دیں ، کہ جو میرے لیے اس مقالہ کی کتابت میں مشعل راہ رہیں گی ۔
شیخ کی درجنوں کتب ، علم و تحقیق میں عرق ریزی ، جانفشانی کےعلاوہ ان کے اعلی ادبی ذوق کی بھی شاہد ہیں ۔
الله تعالی شیخ محترم کو صحت و عافیت والی لمبی عمر عطا کرے ، اور ان سے تحقیق و تصنیف اور ارشادِ خلقِ خدا کے لیے زیادہ سے زیادہ کام لیتا رہے ۔ اور ہم طالبعلموں کو ان بزرگوں پر خالی فخر کرنے کی بجائے ، ان کے نقش قدم پر اور ان کے علمی مشن اور منہج کو سمجھنے ، سیکھنے اور سنبھالنے کی توفیق ارزاں کرے ۔​
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
بروزجمعرات ،بتاریخ 1 شعبان 1438 ، بمطابق 27 اپریل 2017ء
’ میں نے تو پورے سال کے لیے واٹس ایپ مجموعات کو ’ سائلنٹ ‘ کیا ہوا ہے ۔ ‘
’میں نے تو مکمل طور پر واٹس ایپ کو ہی ’ سائلنٹ ‘ مارا ہوا ہے ۔ ‘
’ واقعتا شیخ ! واٹس ایپ پر میسیجز بہت آتے ہیں ، شاید سارا دن واٹس ایپ پر ہی بیٹھے رہتے ہیں ‘
یہ اس مجلس کی ابتدائی باتیں ہیں ، جو ’ مجموعہ علماءاہل حدیث ‘ کے مدیر محترم حافظ ارشد صاحب کے اعزاز میں حافظ قاسم صاحب کی طرف سے ان کے ’ عیش کدے ‘ پر رکھی گئی تھی ، حافظ صاحب پچھلے سال بھی عمرہ کے لیے آئے ، مجلس تو اس وقت بھی بہترین ہوئی ، لیکن ’ مدنی محفل ‘ تحریر کرنے کا خیال اس کے بعد آیا ، اس وقت قصیم سے حافظ صاحب کے میزبان علماء کرام بھی تشریف لائے ہوئے تھے ، یہیں پہلی مرتبہ صحیح نماز نبوی کے مصنف شیخ عبد الرحمن عزیز صاحب سے ملاقات ہوئی ، خوب علمی گفتگو ہوئی لیکن بہر صورت وہ قیمتی مجلس قلمبند ہونے سے رہ گئی ، اب کی بار شرکاء میں شیخ ارشاد الحسن ابرار ، شیخ عثمان عبد الرحمن صاحب شیخ عبد الباسط فہیم صاحب ، شیخ فراز الحسن صاحب ، شیخ شفقت الرحمن صاحب ، حافظ جنید صاحب ، عمیر عبد الرحمن صاحب ، شیخ زید حارث صاحب ، شیخ أبو ذکوان صاحب ، عبید الرحمن شفیق صاحب ، شیخ عبد الرشید اسلم صاحب اور شیخ عمیر صاحب تھے ۔
عرض کیا کہ مجموعہ جات میں روزانہ کی بنیاد پر جتنی تعداد میں میسیجز آتے ہیں ، اگر اسے مجموعہ میں شریک لوکوں کی تعداد پر تقسیم کیا جائے تو فی بندہ دو چار مسیجز سے زیادہ نہ ہوں گے ۔
ہاں البتہ ایک طرح کے افراد پر مشتمل گروپس میں ایک ہی طرح کے مسیجز کرنے سے جو تکرار پیدا ہوتا ہے ، وہ درست نہیں ۔
جو بندہ یہ چاہت رکھتا ہے کہ اس کے میسیجز پڑھے جائیں ، اس کے لیے کوئی صحت مند رویہ نہیں کہ دوسروں کی باتوں کو نظر انداز کرنے پر فخر کرے ۔
مجموعہ جات میں ہونے والی بحوث کو منظم و مرتب کرنے والا مرغوب و مکرر موضوع شروع ہوا ، حافظ ارشد صاحب نے فرمایا کہ ہم نے اس کے لیے باقاعدہ ایک کمیٹی ترتیب دی ہوئی ہے ، فی الوقت حرمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے کام ہورہا ہے ، بعد میں دیگر موضوعات بھی زیر بحث آئیں گے ۔
شیخ فراز صاحب کا کہنا تھا کہ اگر بحوث مرتب کرنی ہیں ، تو مشایخ کو پہلے علم ہونا چاہیے ، تاکہ سب تیاری اور ذمہ داری کے ساتھ گفتگو کریں ۔
شیخ زید صاحب نے ’ لجنۃ علمیۃ ‘ نام کے مجموعہ کی مثال دی کہ ان کے مدیران نے دو موضوعات پر بہترین کتابچے شائع کیے ہیں ، جن میں تمام اراکین مجموعہ کی آراء کو شامل کیا گیا ہے ۔
میری گزارش یہ تھی کہ واٹس ایپ مجموعات میں جو کچھ ہورہا ہے ، جیسے ہورہا ہے ، اسے اسی انداز سے مرتب و مہذب کرکے منظر عام پر لے آنا چاہیے ، کیونکہ علماء و اہل علم کی آراء فائدہ سے خالی نہیں ہوتیں ۔ باقی اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی بھی موضوع پر تقریر کا انداز اور ، تحریر اور طرح کی ، پھر تحریر و تقریر بھی ’ عمومی ‘ اور ’ خصوصی ‘ میں تقسیم ہوجاتی ہے ، اور ہر ایک کا اپنا فائدہ ہوتا ہے ، لہذا علماء کے مباحثوں و مناقشوں پر تحقیق و تدقیق کی پابندیاں عائد کرنے کی بجائے ، جو کچھ ہے ، جیسا ہے ، انہیں افادہ عام کے لیے پیش کرنا چاہیے ۔
لجنۃ علمیہ سے جو کتابچے شائع ہوئے ، بعض احباب کا کہنا تھا کہ اس میں تکرار بہت زیادہ ہے ، تحقیقی نوعیت کا کام نہیں ، وغیرہ ۔ وہیں پر کسی نے کہہ دیا کہ وہ جس غرض سے ترتیب دیے گئے ہیں ، وہ فائدہ ان سے بدرجہ اتم حاصل ہوگا کہ زیر بحث مسئلہ میں علماء و طلبا کی آراء ان کے اپنے الفاظ میں کیا ہیں ؟ یہ بات معلوم کرنے کے لیے اس طرح کے کتابچے بہتریں مصدر ثابت ہوسکتے ہیں ۔
حافظ ارشد صاحب ذرا الگ نوعیت کا کام کرنا چاہتے ہیں ، حرمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر وہ کسی عالم دین سے فتوی مرتب کروا رہے ہیں ، مرتب ہونے کے بعد تمام علماء کے پاس جاکر ان کے دستخط وغیرہ لیں گے ، تاکہ بلا تکرارِ عبارات موضوع پر ایک تحقیقی و مستند دستاویز بن جائے ۔
مجموعہ جات میں ہونے والی بحوث کو مرتب کرنے کے حوالے سے استاد محترم ڈاکٹر حسن مدنی صاحب کی ایک پیشقدمی کا بھی تذکرہ ہوا کہ انہوں نے جامعہ لاہور اسلامیہ کے بعض آخری کلاسوں کے طلبہ کو ایک استاد کی نگرانی میں یہ کام سونپا تھا ، اس بات کی مجموعہ جات میں اطلاع تو دی گئی تھی ، لیکن اس حوالے سے کیا پیش رفت ہوئی ، ہنوز کوئی خبر نہیں ۔
لب و لہجے اور اسلوب والا بدنام زمانہ موضوع بھی شروع ہونا تھا سو ہوا ، اور انہیں دنوں بعض مجموعات میں اس تعلق سے ہونے والے مباحثے اور مناقشے بھی زیر بحث آئے ، شیخ فراز صاحب کا کہنا تھا کہ اس طرح کے مباحثوں کا سبب جو چیزیں بنتی ہیں ، وہ ’ منہجی ‘ قسم کی ہیں ، مثلا ایک جاہل کو کسی نے خط لکھا تھا ، اس میں ’ انداز تخاطب ‘ محل اختلاف بن گیا ، اس کی بنیاد ایک منہجی مسئلہ ہے کہ ’ اہل بدعت کے ساتھ نرمی و سختی کی کیا حدود ہیں ؟ ‘
اصل میں مجموعہ علماء اہل حدیث میں کسی نے کہا کہ ’ سفہاء الأحلام حدثاء الأسنان ‘ قسم کے لوگ ’ صاحب و جناب ‘ جیسے عزت و تکریم کے الفاظ کی بجائے ’ لونڈے ‘ کہلائے جانے کے زیادہ مستحق ہیں ۔
ہماری اس مجلس میں بھی اس لفظ ’ لونڈا ‘ کی سرجری شروع ہوگئی ، بعض مشایخ کا کہنا تھا کہ یہ ایک مہذب لفظ ہے ، بعض کا یہ خیال تھا کہ نہیں ہمارے ماحول میں اس لفظ کو مناسب نہیں سمجھا جاتا ۔ اسی مناسبت سے شیخ عبد الباسط فہیم صاحب نے ایک مثال پیش کی کہ لفظ ’ بکواس ‘ ہمارے ہاں جو سختی لیے ہوئے ہے ، انڈیا والے ساتھی جب اس کو استعمال کرنے ہیں تو ان کے پیش نظر یہ بات نہیں ہوتی ، اسی لیے وہ بعض دفعہ ’ غلط ‘ کہنے کی بجائے ’ بکواس ‘ کی تعبیر بھی استعمال کرلیتے ہیں ، شیخ ابو ذکوان صاحب نے بھی ایک مثال اس حوالے سے پیش کہ غالبا نیپال یا بنگلہ دیش کے ایک محترم شیخ سے انہوں نے ایسی تعبیر سنی جو ہمارے ہاں کسی عام آدمی کے منہ سے بھی بہت بری محسوس کی جاتی ہے ۔
حافظ ارشد صاحب نے مجموعہ کے حوالے سے یہ بھی کہا کہ میری کوشش یہی ہوتی ہے کہ کسی بھی علمی مسئلہ میں زیادہ سے زیادہ اہل علم شرکت کریں ، اور اس سلسلے میں وہ حسب حال ’ عرضیاں ‘ بھی پیش کرتے رہتے ہیں ، لیکن اس کے باوجود کئی ایک علمی سوالات و مباحث تشنہ رہ جاتے ہیں ۔
مدینہ منورہ سے مجموعہ علماء اہل حدیث میں کئی ایک اراکین ہیں ، سب نے ایک بار پھر متفقہ طور پر کہا کہ سب سے زیادہ قوی اور مسلسل شرکت شیخ فراز صاحب کی طرف سے ہی ہوتی ہے ، گویا مجموعہ میں شریک اہل مدینہ کی نیابت کا خوب حق ادا کرتے ہیں ، فجزاہ اللہ خیرا۔
عبید الرحمن شفیق صاحب کا کہنا تھا کہ ’ فلانے ‘ کا علمی رد ہونا چاہیے ، مجھ سے ضبط نہیں ہوسکا ، فورا کہہ دیا اس جاہل کا علمی رد یہی ہے کہ اس کا کوئی رد نہ ہو ۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ جیسے جبل شامخ کی عالمانہ و مجددانہ حیثیت کو زیر بحث لاتے ہوئے ، ہم کہیں کہ فلاں نے چاند کی طرف منہ کرکے تھوکا تھا ، جو اسی کے منہ پر آگرا ، بھلا ایک جلیل القدر موضوع میں اس طرح کے کسی غبی و شقی کا ذکر کیوں کیا جائے ؟
’ علمی رد ‘ والوں سے مجھ جاہل کو کچھ زیادہ ہی چڑ ہے ، اس لیے میں نے عرض کردیا کہ جس نے علمی رد کرنا ہے ، وہ مشوروں کی بجائے ، کرکے دکھائے ، اسی سلسلے میں ’ علمی رد ‘ کے مشورے دینے والے کچھ احباب اور ان کے ’ علمی ردود ‘ کا ذکر بھی آگیا ، جس پر عبید صاحب شکوہ کناں ہوئے کہ : خضر بھائی ! آپ فورا دوسرے کو اپنا فریق بناکر مد مقابل کھڑا کرلیتے ہیں ، بات ان کی درست تھی کہ دشمن اور معارضین زیادہ کرنے کی بجائے ، اتفاق کرنا چاہیے ، نقد و تنقید سے سیکھنا چاہیے ، لیکن بہر صورت جو کام کرنے والوں کی ٹانگیں کھینچتے ہیں ، ان کے لیے اس سے زیادہ مسکت جواب اور کوئی نہیں ، کہ ’ غلطیاں ‘ نکالنے کی بجائے خود کرکے دکھائیں ، ورنہ جو ہورہا ہے اسے برداشت فرمائیں ۔
پاکستان سے عمرے کے لیے تشریف لائے ہوئے مجموعہ کے ایک اور رکن محترم عبد الرشید اسلم صاحب مکمل مجلس میں خاموش ہی رہے ، ان کے علاوہ شیخ عبد الرحمن صاحب کے فرزند ارجمند اور شیخ عبید الرحمن صاحب کے بھتیجیے عمیر بھائی بھی صمت و سکوت سے لپٹے رہے ، عبد الرشید صاحب نے سکوت توڑنے کی کوشش کی ، تو میرے سمیت سب کو احساس ہوا کہ انہیں بات کرنے کا موقعہ ہی نہیں ملا ، خیر انہوں نے ایک اچھی بات کی طرف توجہ دلائی ، ان کا کہنا تھا کہ باکستان میں دینی مدارس سے ’ فارغ ‘ کیے گئے اساتذہ کرام کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے ، ایک عالم دین یا استاد ساری عمر اپنی زندگی کسی مدرسے کی در و دیوار کے سائے تلے ، تقوی و للہیت کی صدائیں سنتا گزار دیتا ہے ، کسی حادثہ ، یا پیرانہ سالی کے سبب جب اس کی ہمت جواب دینے لگتی ہے ، تو اس سے پہلے مدرسے کی انتظامیہ نے ’ جواب ‘ تیار کرکے رکھا ہوتا ہے ۔ جو بعض دفعہ ان کے کسی بھی ’ سوال ‘ یا ’ مطالبہ ‘ کے بغیر انہیں تھما دیا جاتا ہے ، کہ یہ آپ کی دینی خدمات کا صلہ ہے ، ساری عمر زکاۃ کی روٹیاں توڑی ہیں ، اب ذرا ’ الکاسب حبیب اللہ ‘ والی سنت پر بھی عمل کرلو ۔ شاید یہ سمجھتے ہوئے کہ طلبہ کو سبق دینے کے لیے ہمیں کسی ’ ضعیف ‘ کے ’ نخرے ‘ اٹھانے کی ضرورت نہیں ، اور بہت سارے نئے نوجوان علماء تیار ہیں ، جو آئندہ کئی سال تک کے لیے ’ زہد و ورع ‘ کی جادوئی طاقت سے چل سکتے ہیں ۔
خیر یہ ’جذبات کا ریلا ‘ مجھے کسی اور طرف لے گیا ، عبد الرشید صاحب نے اساتذہ مدارس کے حقوق کی طرف بڑے نپے تلے انداز میں توجہ دلائی ، کہ اس بر مل جل کر کچھ کرنا چاہیے ۔
جس بر حافظ ارشد صاحب نے کہا کہ ہم نے یہ کام شروع کیا تھا ، لیکن اسے برقرار نہ رکھ سکے ۔ شفقت الرحمن صاحب نے اس حوالے سے حسب عادت سلجھا ہوا مشورہ دیا ، مشورہ کیا تھا ؟ اس پر عمل ہوگا کہ نہیں ؟ اللہ اعلم ، ویسے علماء و مولیان کے صبر کی یہ اعلی و جاوید مثال ہے کہ وہ مدرسے کا استاد ہو یا کسی مسجد میں امام و خطیب ، باوجود حق تلفیوں اور زیادتیوں کے آج تک اس نے کسی وکیل یا ڈاکٹر کی طرح ’ احتجاج ‘ یا ’ ہڑتال ‘ نہیں کی ۔
اسی مجلس میں شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ ، شیخ ربیع مدخلی حفظہ اللہ اور ان کے حلقہ احباب و حاشیہ نشینوں کے متعلق بھی کئی ایک معلوماتی و تنقیدی باتیں ہوئیں ، میری خواہش تو یہی تھی کہ انہیں رقم کردیتا ، لیکن اکثر مشارکین کی شاید یہی رائے ہے کہ یہ باتیں صرف خاص مجالس میں ’ بولنے ‘ کی ہیں ، سب کے سامنے ’لکھنے ‘ کی نہیں ۔
مجھے اس سوچ سے اتفاق نہیں ، لیکن پھر بھی جس مجلس میں بیٹھیں ، بالخصوص جب اہل علم و فضل کی ہو تو ان کی خواہشات کا احترام بھی ادب کا تقاضا ہے ، کبھی موقعہ ملا تو اس حوالے سے مستقل تحریر میں عرض کرنے کی کوشش کروں گا کہ ’ عقابوں کا نشیمن ‘ اگر ’ زاغوں کے تصرف ‘ میں چلا جائے تو پوری دنیا کی امامت کا درجہ اور صلاحیت رکھنے والے علماء ایک ’ دھڑے ‘ کی خواہشات میں پابند سلاسل کردیے جاتے ہیں ۔
مسک ختام کے طور پر وہ تجاویز ملاحظہ کیجیے ، جو شیخ شفقت الرحمن صاحب نے مجموعہ علماء اہل حدیث کے آئندہ اجلاس کے لیے اس مجلس میں پیش کیں ، ان کا مطمح نظر یہ تھا کہ اس طرح کے اجلاس میں عشوائی تقریروں کی بجائے ، پہلے سے تیار شدہ مقالے پڑھنے چاہیں ، اس حوالے سے ان کی تجاویز ملاحظہ کیجیے :
’’1. اجلاس کی تاریخ سے کم از کم ایک ماہ پہلے مقالہ جات کے عنوانات تقسیم کئے جائیں.
2. مقالہ تحریر کرنے کے لیے معروف قواعد و ضوابط ملحوظ خاطر ہوں.
3. تحریر کیلیے نوجوانوں کو ذمہ داری سونپی جائے.
4. کبار مشایخ کی نگرانی میں تحریر مرتب ہو.
5. ہر شیخ کی نگرانی میں زیادہ سے زیادہ 2 مقالہ نگار کام کریں.
6. مقالہ نگار اپنا مختصر تعارف اور بحث کا خلاصہ 5 تا 7 منٹ میں پیش کرے.
7. حاضرین کی تعداد کے مطابق مقالے کی کاپیاں (سافٹ / ہارڈ) مہیا کی جائیں.
8. مقالہ کمپیوٹر کے ذریعے تحریر شدہ ہو.
9. مقالہ پیش کرنے کیلیے نگران شیخ کی منظوری لازمی ہو، تا کہ بحث کا معیار قائم رہے.
10. منتخب یا سب مقالہ جات سلفی جرائد اور رسالوں میں نشر کئے جائیں. ‘‘
شفقت صاحب کی ان تجاویز کو سننے کے بعد شیخ فراز صاحب نے کچھ کہا ، انہوں نے کیا کہا ، یہ یاد نہیں ، البتہ ان کی مسکراہٹ یاد ہے ، جس کا سہارا لیتے ہوئے ، میں نے بھی عرض کردیا کہ شیخ صاحب یہ کام اس نوعیت کے ایک اجلاس کے لیے زیادہ مشقت ہے ، یہ انداز ’ بحوث اکادیمیۃ ‘ کے لیے ہی مناسب ہے ، ہاں البتہ سال دو سال بعد اگر کسی موضوع یا شخصیت پر کوئی سیمینار ہو تو اس کے لیے یہ انداز بہترین ہے ۔
تقریبا اڑھائی تین گھنٹے پر مشتمل یہ خوشگوار ، علمی اور لذیذ محفل اختتام کو پہنچی ، شرکاء نے میزبان کا شکریہ ادا کیا اور ان کے حسن ذوق اور اہل خانہ کی محنت کی داد دی اور سب لوگ اپنی اپنی گاڑیوں پر جانب منزل و مسکن رواں ہوئے ۔​
سبحانك اللهم و بحمدك أشهد أن لا إله إلا أنت أستغفرك و أتوب إليك
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
بروز منگل ،بتاریخ 13 شعبان 1438 ، بمطابق 9 مئی 2017ء
جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں ’ صحابہ و اہل بیت و امہات المؤمنین کے حقوق ‘ کے متعلق ایک کانفرنس ہوئی ، جس میں ملکی و غیر ملکی علماء کرام نے اپنے علمی مقالہ جات پیش کیے ۔ پاکستان سے ڈاکٹر طاہر محمود مدنی صاحب بھی بحیثیت مقالہ نگار شریک تھے ، ڈاکٹر صاحب جامعہ اسلامیہ نورہ سے فارغ التحصیل ہیں ، کلیۃ ، ماسٹر اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں انہوں نے یہیں سے حاصل کیں ۔ اس سے پہلے بھی جامعہ میں ہونے والے سیمینارز وغیرہ میں شرکت کرتے رہے ہیں ، اب کی بار تمام شرکاء محفل کی نیابت کرتے ہوئے اعزازی خطاب ان کے سپرد کیا گیا ، جب آپ خطاب کر رہے تھے ، تو جامعہ کے ٹویٹر اکاؤنٹ پر تصویر آئی ، جسے کسی نے پاکستانی طلبہ کے کے ایک واٹس ایپ گروپ ’ جمعیۃ الطلبۃ السلفیہ ‘ میں بھیجا ، تصویر دیکھ کر ’ مدنی محفل ‘ کا خیال ذہن میں آیا لیکن کوئی عملی صورت ذہن میں نہ آسکی۔
ڈیوٹی میں مصروف تھا کہ عشاء سے ذرا پہلے شیخ فراز صاحب کی طرف سے فون آیا کہ ڈاکٹر صاحب سے مسجد نبوی کے جوار میں ہی دار الہجرۃ ہوٹل میں ایک مختصر ملاقات ہے ، ایک شیخ صاحب کے توجہ دلانے پر آپ کو بھی شرکت کی دعوت ہے ، میں نےدونوں مشایخ کا شکریہ ادا کیا ، اور عشاء کے فورا بعد مطلوبہ جگہ پر پہنچنے کا وعدہ کیا ۔
عشاء کے بعد ڈیوٹی مختصر کرکے تیز قدموں سے ’ اسماء حسنی نمائش ‘ جو کہ مسجد نبوی کے گیٹ نمبر 13 پر ہے ، سے باب ملک فہد ( گیٹ نمبر غالبا 22 ہے ) کی جانب روانہ ہوا۔
شیخ فراز صاحب کے علاوہ شیخ ارشاد الحسن ابرار اور شیخ عمیر صاحب باب فہد سے باہر نکل کر گھڑی کے پاس کھڑے شاید میرا ہی انتظار کر رہے تھے ۔ وہاں سے ہم ڈاکٹر صاحب کے ہوٹل پر پہنچ گئے ، کچھ دیر بعد ڈاکٹر صاحب اپنے فرزند ارجمند حسن مدنی جو کہ جامعہ اسلامیہ میں زیر تعلیم ہیں ، کے ساتھ تشریف لے آئے ، پرتپاک انداز میں نے مصافحہ کیا اور بغل گیر ہوئے ۔
یہ ہوٹل کے پہلے دور پر ہی ایک برآمدے جیسی جگہ تھی ، جو شاید اسی قسم کی مجالس کے لیے بنائی گئی تھی ، سلیقے سے صوفے اور ان کے سامنے چھوٹے چھوٹے میز سجھائے ہوئے تھے ۔ بالکل سامنے والے صوفے پر تین لوگ بیٹھ سکتے تھے ، درمیان سے سیٹ خالی چھوڑ کر ایک طرف ڈاکٹر صاحب اور دوسری طرف شیخ فراز صاحب تشریف فرما ہوئے ۔ اس بڑے صوفے کے بائیں طرف اگلی جانب ایک چھوٹے صوفے پر شیخ ارشاد الحسن براجمان ہوئے ، جبکہ دائیں طرف اسی ترتیب سے شیخ عمیر صاحب اور ان کے بعد راقم الحروف ، جبکہ شیخ کے صاحبزادے حسن صاحب میرے دائیں طرف بیٹھ گئے ۔ کچھ دیر بعد جامعہ کے ایک اور طالبعلم شامل مجلس ہوئے ، انہوں نے شیخ صاحب سے بغل گیر ہونے کے بعد ایک کتاب ان کی خدمت میں پیش کی ، جو غالبا ان کے لیے بطور تحفہ لائی گئی تھی ، اس بھائی کا نام بعد میں دوران تعارف معلوم ہوا کہ جلال ذو الفقار ہے ۔
شیخ کی آمد سے پہلے پاکستان میں بعض دینی مدارس کے متعلق گفتگو چل رہی تھی ، بر سبیل تذکرہ ہمارے مشایخ و محسنین پر مشتمل ’ مدنی خاندان ‘ کا ذکر آگیا ، جس پر شیخ ارشاد صاحب کا کہنا تھا کہ یہ مبارک گھرانہ پاکستان کے گنے چنے گھرانوں میں سے ایک ہوگا ، کہ جس کے تمام افراد بلا استثناء تندہی کے ساتھ دین کی خدمت میں مصروف عمل ہیں ، شیخ عبد الرحمن مدنی صاحب کی ساری اولاد حفاظ قرآن اور اب پی ایچ ڈی ڈاکٹرز ہیں ، اور سب کے سب دینی فیلڈ میں موجود ہیں ، ورنہ بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ علماء کرام کے اخلاف کسی اور طرف نکل جاتے ہیں ۔
بعض مدارس کا تذکرہ ہوا کہ ان کے پاس وسائل اور شاندار بلڈنگیں ہیں ، لیکن مستفید ہونے والوں کی تعداد نسبتا کم ہے ۔
شیخ صاحب کی آمد کے بعد میرا اور ارشاد صاحب کا تعارف ہوا ، جبکہ شیخ فراز اور شیخ عمیر صاحب کو وہ پہلے سے ہی جانتے تھے ۔
شیخ نے سب سے ان کے ماجستیر اور دکتوراہ کے موضوعات کے متعلق پوچھا۔
شیخ ارشاد صاحب نے نواب صاحب کی خبیئۃ الأکوان کی تحقیق کی تھی ، ڈاکٹر صاحب نے اس کی طباعت کے متعلق پوچھا ، جس پر شیخ ارشاد صاحب نے اس کے نہ چھپنے کی کچھ وجوہات کا قدرے تفصیل سے ذکر کیا ۔
شیخ فراز صاحب نے ماجستیر میں حافظ ابن حجر کی تہذیب التہذیب کی تحقیق میں شرکت کی تھی ، اب پی ایچ ڈی میں وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ ملکر حافظ ابن حجر کی ایک اور مایہ ناز کتاب فتح الباری کی تحقیق کر رہے ہیں ، اس حوالے سے انہوں نے اپنے علم ، تجربہ کی روشنی میں بہت ساری قیمتی معلومات سے آگاہ کیا ، مثلا تہذیب کے جس نسخے کی بنا پر انہوں نے تحقیق کی ہے ، وہ حافظ ابن حجر کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے ، حافظ ابن حجر کا ردی الخط ہونا مشہور ہے ، شیخ فراز صاحب کا کہنا تھا اس طرح کے علما کے خط کی رداءت کی ایک بنیادی وجہ ان کا تیزی سے لکھنا ہے ، تاکہ کم وقت میں زیادہ سے زیادہ کام نپٹ جائے ، حافظ ابن حجر نے جب مکمل نسخہ لکھا تواس میں خط قدرے بہتر ہے ، لیکن چونکہ آخری عمر تک اس میں اضافہ جات کرتے رہے ، اس لیے آخری عمر کے اس پر جو حاشیے ہیں ، انہیں پڑھنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ، لیکن اس کے باوجود ان کے مشرف ( جو ہمارے بھی قابل قدر شیخ ہیں ) شیخ ابراہیم نور سیف صاحب نے باوجود بڑھاپے کہ اس حوالے سے ان کے ساتھ مکمل تعاون کیا ، اور مخطوط کو بہتر سے بہتر پڑھنے کی انتھک محنت اور کوشش میں ان کا مکمل ساتھ دیا ۔
فتح الباری کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ اس تحقیق میں وہ ساٹھ کے قریب نسخوں پر اعتماد کر رہے ہیں ، اور انہیں بہت سارے نسخے ایسے ملے ہیں ، جو پہلی طبعات میں محققین کے زیر نظر نہیں رہے ۔ اب کی بار ان کے مشرف محدث مدینہ شیخ حماد الانصاری رحمہ اللہ کے صاحبزادے دکتور عبدالباری الانصاری حفظہ اللہ ہیں ۔
مقالہ جات کے نگران اور طالبعلم کے درمیان تعاون کی مناسبت سے شیخ عمیر صاحب اور شیخ ارشاد صاحب نے اپنے کچھ مشاہدات اور تجربات شریک محفل کیے ، جن کا خلاصہ یہی تھا کہ ہر نگران طالبعلم کے ساتھ تعاون کرنے میں زیادہ ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کرتا ، ڈاکٹر طاہر صاحب نے بھی فرمایا : نوے فیصد محنت طالبعلم کی ذاتی ہوتی ہے ۔
شیخ ارشاد صاحب کا پی ایچ ڈی میں موضوع ہے ’ مدت و زمانہ سے متعلق مختلف فیہ عقدی مسائل ‘ وہ بتانے سے پہلے ہی اسے عجیب کہہ رہے تھے ، لیکن جب انہوں نے کچھ مثالیں پیش کیں ، تو ایک بہترین اور مفید موضوع محسوس ہوا. مثلا حضرت عیسی جب نزول فرمائیں گے تو کتنی دیر رہیں گے ؟ امام مہدی کتنی دیر رہیں گے ؟ بین النفختین مدت کتنی ہوگی . وغیرہ ( شوق رکھنے والے احباب موضوع کا صحیح تعارف انہیں سے کرسکتے ہیں) ۔
شیخ عمیر صاحب کا موضوع ہے مشہور جلیل القدر تابعی سعید بن جبیر رحمہ اللہ کے عقیدہ سے متعلق اقوال و آثار کو جمع کرنا اور ان کی تشریح و وضاحت ، جو کہ آخری مراحل میں ہے ۔
ڈاکٹر صاحب نے استفسار کرنے پر بتایا کہ وہ جامعہ اسلامیہ میں 1987ء سے لیکر 2002ء تک رہے ، کلیۃ الحدیث میں پڑھے ، پھر ماجستیر اور پی ایچ ڈی تفسیر میں کی ، ماجستیر میں انہوں نے تفسیرالکشاف پر لکھے گئے ایک حاشیۃ ’ فتوح الغیب ‘ کی تحقیق میں شرکت کی ، جبکہ پی ایچ ڈی میں ان کا علمی مقالہ اسباب الخطاء فی التفسیر دار ابن الجوزی کی طرف سے مطبوع ہے ۔
ڈاکٹر صاحب نے یہ بھی بتایا کہ میں جامعہ سلفیہ فیصل آباد میں زیر تعلیم تھا کہ وہاں علامہ احسان الہی ظہیر صاحب تشریف لائے ، انہوں نے ان سے تزکیہ کی گزارش کی ، اور اسی طرح جامعہ اسلامیہ میں داخلے کے لیے کاغذات بھی دیے ، علامہ صاحب نے یہاں آکر رئیس الجامعۃ سے زور دے کر داخلہ کی سفارش کی ، یوں ان کا داخلہ ہوگیا ۔ علامہ صاحب ڈاکٹر صاحب کو نہین جانتے تھے ، لیکن شیخ ارشاد الحق اثری اور مولانا طیب معاذ صاحب کی توجہ پر انہوں نے اس ہونہار طالبعلم پر یوں شفقت کا اظہار کیا ۔
اس کے کچھ عرصہ بعد ہی علامہ صاحب اپنے رفقاء سمیت حادثے کا شکار ہوگئے ۔ رحمہم اللہ رحمۃ واسعۃ ۔
میں نےڈاکٹر صاحب سے یہ بھی پوچھا کہ آپ ماشاءاللہ کئی ایک بار یہاں کانفرنسز میں شرکت کے لیے تشریف لا چکے ہیں ، حالانکہ ہمارے اہل حدیث مشایخ میں یہ رجحان کم پایا جاتا ہے ، جس پر انہوں نے فرمایا : اس طرح کے سیمینارز اور کانفرنسز کا کافی عرصہ پہلے اعلان کردیا جاتا ہے ، کہ فلاں جگہ ان کا انعقاد ہوگا ، موضوع یہ ہے ، تفصیلات یوں ہیں ، جو حضرات شرکت کے خواہشمند ہیں ، مقالہ لکھ کر جمع کروائیں ، کہنے لگے ، میں اس طرف توجہ کرلیتا ہوں ، کچھ نہ کچھ لکھ کر ارسال کردیتا ہوں ، قبول ہوجائے تو شرکت کے لیے بلا لیتے ہیں ، پہلے مقالے کا خلاصہ دیکھتے ہیں ، اگر قابل شرکت ہو تو تفصیلی مقالہ طلب کرتے ہیں ، بعض دفعہ خلاصہ ہی ری جیکٹ ہوجاتا ہے ، جبکہ بعض دفعہ خلاصہ کے بعد تفصیلی مقالہ ناقابل شرکت قرار پاتا ہے ، لیکن جب مقالہ واقعتا مفید اور علمی و تحقیقی ہو تو شرکت کے لیے اگلے اجراءات شروع ہوجاتے ہیں ۔
شیخ جامعہ عالمیہ اسلام آباد میں دعوۃ اکیڈمی کے چیئر پرسن بھی ہیں ، اسی ادارے کی زیر نگرانی وہ ایک سہ لسانی مجلہ ’ بصائر ‘ کا بھی اجراء کر رہے ہیں ،جو کہ HEC سے منظور شدہ ہوگا۔ جس کے عربی ، اردو اور انگلش تینوں زبانوں پر مشتمل مختصر تعارف کی ایک ایک کاپی ہمیں عنایت کی ، اور مشایخ سے کہا کہ اس میں تحریریں بھیجیں ۔ مجلے کے اہداف چھ نکات میں بیان کیے گئے ہیں جن میں سے دعوتی ذمہ داری کی ادائیگی ، فکر اسلامی کا احیاء ، اسلام کے خلاف شکوک و شبہات کا ازالہ اور اساتذہ و طلاب جامعات کے درمیان علمی و تحقیقی روح کو پروان چڑھانا ہے ۔
عربی مجلہ کا تذکرہ ہوا تو شیخ فراز صاحب نے پاکستان کے دو تین دیوبندی جامعات کا ذکر کیا ، جن کا ہر ایک اپنا مستقل عربی مجلہ نشر ہوتا ہے ، البتہ ہمارے اہل حدیث جامعات میں اس طرف ذرا توجہ کم ہے ۔
شیخ عمیر صاحب نے اپنے موضوع کے حوالے سے دو سوالات کیے ، پہلا سوال تھا کہ آثار سلف صالحین کے متعلق اسانید اور صحت و ضعف کا کیا معیار ہونا چاہیے ؟ دوسرا سعید بن جبیر اور امام شعبی وغیرہ علماء سے حاکم وقت کے خلاف خروج کرنا منقول ہے ؟ اس کی کیا توجیہ ہوسکتی ہے ؟
اس کے جواب میں ڈاکٹر صاحب نے کسی کی اس بات کو سراہا کہ خروج کے جواز کا ان کا ذاتی موقف ہوگا ، جو لازمی نہیں کہ درست ہو ۔
شیخ ارشاد صاحب نے اسی مناسبت سے خوراج کی مختلف اقسام ذکر کیں ، شیخ عمیر صاحب نے اپنے ایک شیخ کے حوالے سے ذکر کیا ، ظاہر بات یہی محسوس ہوتی ہے کہ یہ بزرگ خروج کی خطورت و کراہت سے لا علم ہوں گے ۔
ڈاکٹر صاحب نے اگلے دن کانفرنس میں شرکت کرنا تھی ، جبکہ شیخ فراز صاحب کو بھی کسی کا بار بار فون آرہا تھا ، اس لیے تقریبا ایک ڈیڑھ گھنٹہ پر مشتمل یہ ’ مدنی محفل ‘ اپنے اختتام کو پہنچی ۔​
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
بروز جمعرات ،بتاریخ 22 شعبان 1438 ، بمطابق 18 مئی 2017ء
آج سے کوئی تقریبا تین ساڑھے تین ماہ قبل میں اسماء حسنی نمائش سے چھٹی کے بعد مسجد نبوی سے باہر نکل رہا تھا ، کہ محترم قاری یعقوب شیخ صاحب سے ملاقات ہوئی ، پتہ چلا آج ہی پہنچے ہیں اور ابھی چند دن مدینہ منورہ موجود رہیں گے ، حسب معمول شیخ زید حارث صاحب سے ملکر ’ مدنی محفل ‘ کا پروگرام بنایا گیا ، جگہ اور وقت وغیرہ طےہوا ، عشا کےبعد پروگرام تھا ، انہیں دنوں جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں ’ معرض الکتاب ‘ بھی چل رہی تھی ، عصر کے بعد پتہ چلا محترم حافظ عابد الہی صاحب ( براد اصغر علامہ احسان الہی ظہیر ) بھی ریاض سے مدینہ منورہ آئے ہوئے ہیں ، اور انہوں نے محترم شیخ فراز الحق صاحب کو حکم دیا ہے ، کہ جامعہ میں پڑھنے والے ’کٹر اہل حدیث ‘ طلبہ کو میری طرف سے عشائیہ کی دعوت دیں ، چونکہ شیخ یعقوب صاحب والا پروگرام پہلے سے طے تھا ، لہذا یہ دونوں پروگرام ایک ہی میں ضم ہوگئے ، اور حافظ عابد صاحب نے پہلے سے مقرر دعوت میں شرکت کی حامی بھر لی ۔
قبل اس کے آگے بڑھیں ، ایک دو حاشیے ملاحظہ کرلیں ، میں نے حافظ عابد صاحب کے لیے ’ ظہیر ‘ کا لفظ استعمال نہیں کیا ، جو کہ عام لوگ علامہ صاحب کی نسبت سے کرتے ہیں ، کیونکہ خود حافظ صاحب نے کئی دفعہ صراحت کی ہے کہ علامہ صاحب سے بے پایاں محبت کے باوجود یہ ’ ظہیر ‘ کا لاحقہ آل احسان کے ساتھ ہی خاص ہے ، علامہ صاحب کے اخوان و بردران یہ لاحقہ استعمال نہیں کرتے ۔
دوسری بات ، میں نے معزز مہمانوں کے لیے مدینہ منورہ ’ تشریف لانے ‘ کی ترکیب استعمال نہیں کی ، کیونکہ مجھے ابھی تک یہ سمجھ آئی ہے کہ حرمین یا اس طرح کی معظم و مقدس جگہوں میں آنے کو ’ تشریف آوری ‘ کی بجائے ’ حاضری ‘ سے تعبیر کرنا زیادہ مناسب ہے ، گو اس میں تاویل کی گنجائش بہر صورت باقی ہے ، خادم حرمین شریفین وغیرہ شخصیات کے لیے بھی ’ تشریف آوری ‘ کی اصطلاحات استعمال ہوتی ہیں ، جو میری نظر میں غلط ہیں ۔ بہر صورت اگر مذکورہ شخصیت قابل تعظیم و تبجیل بھی ہو تو ’ تشریف ‘ اور ’ حاضری ‘ دونوں الفاظ کے استعمال سے اجتناب بہتر ہے ۔
اب آجائیں محفل کی روداد کی طرف ، مدینہ منورہ کی جو حدود قدرے احد پہاڑ کی طرف ہیں ، اور جس طرف تبوک کو راستہ نکلتا ہے ، اسی طرف ڈھلوان میں واقع علاقے کا نام ’ جرف ‘ ہے ، پھر جرف بھی دو ہیں ، غربی اور شرقی ۔ شرقی حدود حرم کے اندر ہے ، جبکہ غربی حدود حرم سے باہر ہے ، سابقہ ایک مدنی محفل جرف شرقی میں ، جبکہ زیر تحریر جرف غربی میں منعقد ہوئی ۔ میزبان شیخ زید حارث تھے ، جن کا تذکرہ کئی ایک سابقہ محفلوں میں بھی ہوچکا ہے ۔
محفل کے پہلے روح رواں محترم قاری یعقوب شیخ صاحب ایک جاذب نظر ، اور خوش خصال و خوش گفتار شخصیت کے مالک ہیں ، جماعۃ الدعوۃ کے مرکزی رہنما ہونے کے ساتھ دفاع پاکستان کونسل اور مجلس ملی شرعی وغیرہ کے سیکرٹری اطلاعات بھی ہیں ۔
معروف محدث علامہ عبد الحق ہاشمی رحمہ اللہ کے خاندان سے آپ کے خاندان کے خصوصی تعلقات ہیں ۔
حضرت قاری صاحب نے ایک عالم دین ، داعی اور ذمہ دار کی حیثیت سے اپنے کئی ایک تجربات کا تذکرہ کیا ، آپ کا فرمانا تھا ، کہ ایک داعی کے لیے حق کی بات کہنے میں رکاوٹ اس وقت بھی بنتی ہے ، جب وہ لوگوں کا محتاج ہوجاتا ہے ، مسجد کی طرف سے رہائش حاصل کرکے ، یا پھر تقریر کرنے کے بعد انتظامیہ سے ’ فارغ ہونے ‘ کی امید لیکر مقرر یا خطیب بعض دفعہ بہت ساری باتیں کہنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتا ہے ۔
بعض دفعہ دین سے منسلک لوگ کس طرح مسائل سمجھانے میں کوتاہی کرتے ہیں ،اس حوالے سے انہوں نے لاہور کے نواح میں رہنے والے ایک زمیندار کا ذکر کیا ، جس کی ہر سال سیکڑوں من گندم ہوا کرتی تھی ، لیکن مولوی صاحب اس کے پاس آکر اپنی ضرورت کی چند بوریاں لے جاتے ، لیکن یہ نہیں بتایا کہ جناب آپ کی اتنی گندم کی اتنی زکاۃ ہے ، جو نکالنا ضروری ہے ۔
قاری صاحب نے یہ بھی بتایا کہ آپ سے جو بھی کاروبار وغیرہ یا عمومی دعا کا کہے ، اس سے پہلے دو چیزوں کے متعلق پوچھ لیں :
1۔ اس کا کاروبار سود سے پاک ہے ۔؟
2۔ رزق میں حلال و حرام کی ملاوٹ تو نہیں ؟
کیونکہ عام طور پر خالی دعا پر گزارہ کرنے کروانے والے لوگ ان دو بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں ۔
علماء کے ساتھ انتظامیہ کے غلط رویے کا تذکرہ کرتے ہوئے ، انہوں نے اپنے ایک واقعہ سنایا ، جب وہ نئے نئے سعودی عرب سے پڑھ کر آئے تھے ، کہنے لگے ، میں اسلام آباد ایک مسجد میں جمعہ پڑھانے گیا ، اتفاق سے انہیں امام اور خطیب کی ضرورت تھی ، انہوں نے سمجھ لیا شاید یہی خطیب صاحب ٹرائی دینے آئے ہیں ، انہوں نے خطبہ کے بعد قاری صاحب سے سیٹھوں کے مخصوص لہجےمیں ٹرائی لینا شروع کردی ، قاری صاحب کہنے لگے ، مجھے جب یقین ہوگیا کہ یہ کسی غلط فہمی میں مبتلا ہیں ، تو میں نے فورا ان سے اسلام کے بنیادی مسائل سے متعلق چند سوالات کیے ، اور تلخ لہجے میں کہا کہ تمہاری اوقات یہ ہے ، اور تم علماء کرام کی ٹرائیاں لیتے ہو ۔
قاری صاحب نے ایک اور واقعہ ذکر کیا کہ لوگ سود کے اندر کس طرح لتھڑے ہوئے ہیں ، اس حوالے سے انہوں نے ایک بزنس مین کا تذکرہ کیا ، کراچی میں ایک خطاب کے بعد وہ ان کے پاس آیا ، اس نے ذکر کیا کہ چند سال پہلے میں اتنا لمبا چوڑا کاروبار تھا ، اتنا بنک بیلنس تھا ، اتنے پلاٹ تھے ، پھر ایک مرتبہ مجھے کاروبار مزید وسیع کرنے کا شوق چڑھا ، تھوڑے سے پیسے کم پڑھتے تھے ، کہتا ہے ، میں نے وہ بنک سے سود لے لیا ، اس کے بعد حالات اس طرح پیدا ہوئے ہیں کہ میرا گراف نیچے ہی آرہا ہے ، بنک کو ڈبل ٹرپل ادا کرچکا ہوں ، لیکن قرض ابھی تک وہیں کھڑا ہوا ہے ۔ مجھے اس پریشانی سے نکلنے کا کوئی حل بتائیں ، قاری صاحب نے سیدھا اور صاف کلیہ بتایا ، اپنی سب جائیداد اور پراپرٹی کا حساب کریں ، ایک دفعہ کاروبار کی وسعت اور بڑوہتری کو دل سے نکال کر پلاٹ وغیرہ جو کچھ بھی ممکن ہو ، اس کو بیچ کر سود والی اس لعنت سے جان چھڑائیں ، ورنہ آپ مزید اس سے نیچے جاتے جائیں گے ۔ یمحق اللہ الربی و یربی الصدقات ۔
یہ باتیں چل رہی تھیں اور ساتھ حافظ عابد صاحب سے مسلسل رابطہ بھی تھا کہ کب پہنچ رہے ہیں ، آخر بتایاگیا کہ حافظ صاحب تشریف لے آئے ہیں ، نیچے جاکر انہیں لے آئیں ، تھوری دیر بعد ایک قدرے میانے قد اور میانی داڑھی والے ایک صاحب کمرے میں داخل ہوئے ، سب اٹھ کھڑے ہوئے ، وہ چہرے سے جوان اور پاؤں سے ادھیڑ عمر محسوس ہوتے تھے ، میری طرح بہت سارے لوگوں نے محسوس کیا ہوگا کہ یہ حافظ عابد صاحب ہیں ، کیونکہ سب ان کی طرف ایک مخصوص نظر سے دیکھ رہے تھے ، میں بھی حیران تھا مہمان کی آواز واٹس ایپ والی آواز سے مل نہیں رہی ، یہ بات ممکن ہے شیخ یعقوب صاحب نے بھی محسوس کی ، لہذا انہوں نے ان صاحب کو اپنے پاس بٹھاتے ہوئے ، سامنے اشارہ کرتے ہوئے بھائیوں سے کہا ، یہ جگہ خالی کردیں ، حافظ صاحب کی ٹانگ کو کوئی مسئلہ ہے ، وہ نیچے بیٹھنے کی بجائے اس صوفے پر بیٹھ جائیں گے ۔ وہی ہوا ، چند لمحے بعد حافظ عابد صاحب اپنے صاحبزادے میمون کے ساتھ کمرہ میں داخل ہوئے ، اور سب سے پرتپاک انداز میں مل کر ان کے لیے مخصوص جگہ پر براجمان ہوئے ، ان کے صاحبزادے بھائی میمون دوسری طرف پہلے والے مہمان کے پہلو میں بیٹھ گئے ۔ دوسرے مہمان حافظ عابد صاحب کے دوست میاں عبدالرزاق صاحب تھے ، جو بقول حافظ صاحب کے ’ کٹر اہل حدیث ‘ صاحب ثروت اور بزنس مین تھے ۔
حافظ صاحب کے آتے ہی محفل کا رخ تبدیل ہوا ، گویا ایک کیسٹ کی طرح انہوں نے مدینہ منورہ آنے اور جس مقصد کے لیے آئے تھے ، سب واقعات تسلسل کےساتھ بیان کردیے ۔ ان کا کوئی ذاتی مسئلہ تھا ، جس میں ان کے ساتھ شیخ فراز صاحب نے خصوصی تعاون کیا ، جس پر حافظ صاحب نے شیخ فراز صاحب کی کھل کر تعریف فرمائی ، پھر کہنے لگے ، لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید ہم لوگ علامہ صاحب کےنام کا کتنا فائدہ اٹھاتے ہیں ، حالانکہ ہم نے اپنی ذات کے لیے اگر اس طرح کے روابط بحال کیے ہوتے ، تو آج میں اس معاملہ میں اپنے اس بیٹے ( شیخ فراز الحق ) کو فون کرنے کی بجائے ، کسی عربی شیخ کو فون کرتا ۔
ان دنوں رمضان کی آمد آمد تھی ، اس حوالے سے حافظ صاحب کی یہ بھی خصوصیت سامنے آگئی کہ وہ ہر سال قرآن مجید تراویح میں پڑھاتے ہیں ، بلکہ اس سال ان کا اپنے صاحبزادے میمون سمیت قرآن کریم مکمل کرنے کا ارادہ تھا ۔ حافظ صاحب کی ایک خصوصیت یہ بھی دیکھی کہ گفتگو میں قرآنی آیات اور احادیث سے بکثرت استشہاد و استدلال کرتے ہیں ، اور اسی طرح ’ کٹر اہل حدیث ‘ کا لفظ بھی اس محفل میں بکثرت دہرایا گیا ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بین المسالک ہم آہنگی ، اتحاد و اتفاق جیسے نعروں میں بہت سارے اہل حدیث ’ کلمۃ سواء ‘ سے آگے بڑھ کر مداہنت کی حددود میں داخل ہوجاتے ہیں ، جبکہ دوسری طرف علامہ شہید ، اور ان کے خاندان کا مسلک اہل حدیث کےساتھ جو تعلق ہے ، اس میں کوئی دو رائے نہیں ، نہ علامہ شہید کے ہاں کوئی مداہنت تھی ، نہ ان کے اخلاف میں ایسی کوئی بات کبھی دیکھنے میں ملی ، ایسی صورت حال میں اگر ایسے اہل حدیث ’ کٹر ‘ کے ’ حصر ‘ کا اضافہ کریں ، تو مطلوب و مقصود سمجھنا بالکل آسان ہے ۔ اسی لفظ کٹر سے مجھے علامہ شمس الحق افغانی مرحوم یاد آگئے ، انہوں نے غالبا اپنی کتاب جہود علماء الحنفیۃ فی إبطال عقائد القبوریۃ میں سلفیوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے ، اور سلفیوں کی ایک قسم کو ’ ٹھنڈے سلفی ‘ کہا ہے ۔ میرا تجربہ یہ ہے کہ سلفی اور اہل حدیث اپنی تمام انواع و اقسام سمیت باعث خیر و برکت ہیں ۔ إن شاءاللہ ۔ یہ اختلافات جن کی بنیاد پر اقسام ، اور دھڑے بن جاتے ہیں ، یہ اصل میں مناہج یا مستقل آراء نہیں ہوتیں ، بلکہ ’ صحبت ، طبیعت اور مستوی ہائے ادراک و شعور ‘ کا اختلاف ہوتا ہے ، جو سلفی یا اہل حدیث کیا ، ہر مسلک و طبقہ کے لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وللحدیث بقیۃ ۔
ایک بار پھر آئیے مدینہ منورہ ، جرف غربی میں جاری ’ مدنی محفل ‘ کی طرف ۔
علامہ شہید کی بات شروع ہوگئی ، علامہ صاحب ایک دبنگ اور بے باک شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے رفقا ، زملا اور کارکنان کے لیے بہت شفیق و مہربان تھے ، حافظ عابد الہی صاحب نے ذکر کیا کہ ایک بار کسی وجہ سے کوئی جماعتی ساتھی ناراض ہوگئے ، علامہ صاحب کو علم ہوا ، اہتمام کرکے ان کے گاؤں پہنچ کر ، ان سے معذرت کی ، اور انہیں راضی کیا ، وہ صاحب کون تھے ، کہاں کے رہنے والے تھے ، یہ ساری تفصیلات حافظ عابد صاحب نے بتائی تھیں ، بلکہ خود تصدیق کے لیے بعد میں ان سے مل کر بھی آئے تھے ۔
علامہ صاحب کی شفقت کا ایک اور واقعہ قاری یعقوب شیخ صاحب نے سنایا ، یہ اس وقت کی بات ہے ، جب یعقوب صاحب دھرم پورہ ایک مدرسہ میں حفظ قرآن کے طالبعلم تھے ، اخبارات میں خبر آئی کہ کل لارنس روڈ علامہ احسان الہی ظہیر پریس کانفرس کا انعقاد کریں گے ، پریس کانفرنس کیا ہوتی ہے ؟ اور علامہ صاحب اس میں کیا کریں گے ؟ ایک ننھے منھے طالبعلم کو یہ تڑپ دھرم پورہ سے لارنس روڈ لے آئی ، وقت ہوا ، کرسیاں سجائی گئیں ، میڈیا والے دو چار افراد آگئے ، ظاہر ہے کوئی جلسہ عام تو تھا نہیں لہذا ان چند افراد میں ایک بچے کی موجودگی نے علامہ صاحب کو اپنی طرف متوجہ کرلیا ، اسے بھی دیگر لوگوں کی طرح اپنے ساتھ کرسی پر بٹھایا ، چائے اور دیگر لوازمات پیش کیے ، پوچھا ، بیٹا کون ؟ اور کس لیے آئے ؟ گویا ہوئے : اس غرض سے فلاں جگہ سے آیا ہوں ، اور بطور تعارف یہ بھی ذکر کیا کہ پروفیسر اسرائیل فاروقی ( بن شیخ عبدالرزاق بن محدث عبد الحق ہاشمی ) صاحب ، میرے بھانجے ہیں ، علامہ صاحب اتنے چھوٹے بچے کے اتنے بڑے بھانجے کا سن کر مسکرا دیے ، یعقوب صاحب کے بقول علامہ صاحب نے مجھے مکمل پیار محبت اور شفقت کےساتھ بٹھایا اور پریس کانفرس کیا ہوتی ہے ، اس کا معنی و مقصد بھی سمجھایا ۔
حافظ عابد صاحب نے اپنے والد محترم شیخ ظہور الہی کے حوالے سے کئی ایک واقعات ذکر کیے ، وہ علماء سے بہت زیادہ محبت کرنے والے ، اور ان کی خدمت کیا کرتے تھے ، نامی گرامی علما کا ان کے ہاں آنا جانا ایک معمول کی بات تھی ، مسلکی جذبہ اور دینی غیرت اس قدر تھی ، ایک دفعہ حافظ عبد اللہ بہاولپوری صاحب کو کہنے لگے حافظ صاحب آپ نے اپنے موقف پر ڈٹے رہنا ہے ، تنخواہ کی پرواہ نہ کریں ، اس کی ذمہ داری میں اٹھاتا ہوں ۔
حافظ عابد الہی صاحب کو گوجرانوالہ میں کئی ایک غیر اہل حدیث مساجد میں بھی بھیجا کرتے تھے ، تاکہ ان کی آراء بھی سنیں ، اور پھر جو قابل اعتراض و اشکال باتیں ہوں ، ان کو اپنےعلماء کے پاس بیٹھ کر حل کریں ۔
جب سے واٹس ایپ وغیرہ مجموعات فعال ہوئے ہیں ، محبتوں و مودتوں کے ساتھ ساتھ تلخیاں ، ناگواریاں بھی اسی قدر فعال ہوگئی ہیں ، جن دنوں یہ مدنی محفل ہوئی تھی ، ان دنوں بھی تازہ تازہ ایک واقعہ ہوا تھا ، اس بات کو محفل کے اندر قاری یعقوب شیخ صاحب نے قدرے زور دار انداز میں پیش کیا اور کہا کہ ’ ان رویوں پر بہت دل کڑھتا ہے ‘ ، حافظ عابد صاحب نے علامہ صاحب کی ایک بات نقل کی :
’ ہم نے انہیں تقلید سے روکا تھا ، انہوں نے تنظیم اور ادب و آداب بھی بھلا دیے ‘
یہاں مکرر عرض کروں گا کہ یہ چیزیں لائق افسوس اور قابل اصلاح تو ہیں ، لیکن یہ سب مسائل شخصی قسم کے ہیں ، انہیں کسی مسلک ، جماعت یا خاص قسم کےافراد سے جوڑنا اس خامی کی تشخیص میں غلطی ہے ۔ آئے دن دیکھتا ہوں ، کس طرح ایک ہی منہج اور سوچ رکھنے والے لوگ مختلف واقعات اور مسائل میں مختلف رویوں کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں ، اگر میرے مخالف کی بات میں تشدد کا عنصر نکالا جاسکتا ہے ، تو میں اسے اعتدال کا درس شروع کردوں گا ، اگر وہ مجھ سے چھوٹا ہے ، تو بڑوں کی تعظیم کی نصیحت کرکے اپنے موقف مضبوط کروں گا ، لیکن اگرجگہ تبدیل ہوگئی ، مسئلہ مختلف ہوگیا ، تو پھر وہی اعتدال میرے نزدیک ’ عدول ‘ اور اسی ’ تعظیم بزرگاں ‘ کو میں ’ بزرگ پرستی ‘ ثابت کرنے میں قطعا دیر نہیں کروں گا۔ و ہلم جرا۔
ایک پکے اور کٹر اہل حدیث عالم دین داڑھی منڈوانے اور مٹھی بھر کے جواز والے موقف کو شدید مذمتی الفاظ میں بیان کر رہے تھے ، اسی مجلس میں اسی منہج کے ایک اور بزرگ آئے ، جنہوں نے داڑھی کو ’ مشت ‘ میں قید کیا ہوا تھا ۔ اب ظاہر ہے اس داڑھی والے مسئلے میں اختلاف کی بنیاد پر اگر کسی کو مسلک میں داخل خارج کیا جائے ، تو جتنے افراد اور جتنے مسائلِ مختلف فیہ ہوں گے ، اتنے ہی مسالک و مذاہب وجود میں آجائیں گے۔
آگے بڑھیے ، اشتہاروں پر قاری یعقوب شیخ صاحب کے نام کے ساتھ آپ نے پڑھا ہوگا ، بعض دفعہ لکھا ہوتا تھا ’ گولڈ میڈلسٹ جامعہ امام ‘ اس کی کہانی یہ ہے کہ انہیں جامعہ امام میں عربی ڈپلومہ میں نمایاں پوزیشن حاصل کرنے پر یہ تمغہ دیا گیا تھا ، اسی مناسبت سے معروف اہل حدیث تاجر و ناشر مولانا عبد المالک مجاہد صاحب نے آپ کے اعزاز میں عصرانہ بھی رکھا تھا۔
واٹس ایپ پر ایک مجموعہ بنام ’ اللجنۃ العلمیۃ من علماء الدعوۃ السلفیۃ ‘ ہے جو شیخ خالد مرجالوی صاحب کے فرزندگان کی طرف سے قائم کیا گیا ہے ، ان دنوں اس کا تازہ تازہ اجلاس بھی ہوا تھا ، اسی مناسبت سے شیخ مرجالوی صاحب کا تذکرہ ہوا ، شیخ یعقوب صاحب نے ان کے متعلق اظہار کیا کہ مجھے ان کے ساتھ ہاسٹل میں رہنے کا اتفاق ہوا ہے ، میں نے آج تک جوانی کی عمر میں اس قدر نیک اور پرہیزگار شخصیت نہیں دیکھی ۔
قاری صاحب ایک متحرک شخصیت ہیں ، اس بات کا اس واقعہ سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے ، جامعہ امام میں ان کے ایک شیخ ڈاکٹر عبد الرحمن فوزان صاحب نے شیخ صفی الرحمن کا تذکرہ کیا ، ان دنوں الرحیق المختوم کا سیرت نگاری میں اول آنے والے واقعہ تازہ تازہ تھا ، قاری صاحب نے عرض کیا ، میں انہیں جانتا ہوں ،اگر آپ ملنا چاہتے ہیں ، کوئی مجلس رکھیں ، میں ملوانے کا انتظام کروا سکتاہوں ، یوں یونیورسٹی کے ستر پروفیسرز مولانا صفی الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ سے ملنے کے لیے مجلس میں شریک ہوئے ۔
قاری صاحب کی گفتگو سے معلوما ہوا کہ آپ کا شیخ صفی رحمہ اللہ سے اچھا میل جول اور تعلقات تھے ۔
بر سبیل تذکرہ یہ بات بھی آگئی کہ مسجد حرام میں باب بلال اور مسجد نبوی باب رحمت پر اہل حدیث حضرات جمع ہوا کرتے تھے ، قارئین کے لیے اطلاعا عرض ہے کہ یہ بات اُس دور کی ہے ، جب سے موبائل اور انٹرنیٹ کی نت نئی سہولیات آئی ہیں ، یہ ساری مجالس ختم ہوچکی ہیں ۔
حافظ صاحب کی خصوصیت یہ ہے کہ بہت پیار محبت اور ناصحانہ انداز میں گفتگو کرتے ہیں ، قاری یعقوب شیخ کے متعلق یہ احساس ہوا کہ بین المسالک اتحاد و اتفاق کے حوالے کئی ایک سرگرمیوں میں شریک رہنے کے باوجود ان میں حق سے مداہنت اور لچک نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی ۔
حقیقت یہ ہے ، شخصیات اور مضمون ہر دو اعتبار سے اس ’ مدنی محفل ‘ کو ایک کی بجائے ’ دو محفلیں ‘ ہونا چاہیے تھا ، لیکن
لیس کل ما یتمنی المرء یدرکہ
تجری الریاح بما لا تشتہی السفن
تین مہینے بعد میرے ذہن سے بھی بہت ساری باتیں محو ہوچکی ہیں ، اسی طرح شرکائے محفل بھی بار بار توجہ دلاتے رہے کہ ’ ہربات منظر عام پر لانے کی نہیں ہوتی ‘
لہذا بہت ساری باتوں کو مختصر کرکے یہی کہوں گا کہ اپنی نوعیت کی یہ ایک منفرد اور دلچسپ مدنی محفل تھی ، اگر کسی بات کی تصدیق یا دونوں مشایخ کی باتوں کا حقیقی لطف لینا چاہتے ہیں ، تو ان کے ساتھ ملاقات کریں ، فلیس الخبر کالمعاینۃ ۔
یہ مجلس شعبان میں ہوئی تھی ، اس کے بعد شوال میں حافظ عبد الغفار مدنی صاحب سے ایک مختصر مجلس ہوئی ، حافظ صاحب سے اس سے پہلے بھی ایک تفصیلی مجلس جامعہ اسلامیہ وحدہ نمبر 14 کمرہ نمبر 202 میں ہوچکی ہے ، بہت ہی دلچسپ اور اہم باتیں تھیں ، افسوس کہ یہ دونوں مجالس احاطہ تحریر میں نہیں آسکیں ، آئندہ جب بھی موقعہ ملا ، ان باتوں کا تفصیل سے تذکرہ کروں گا ۔
اسی طرح چند ماہ پہلے اپنے دو معزز و مکرم مشایخ شیخ الحدیث مولانا رمضان سلفی ، اور قاری ابراہیم میر محمدی حفظہما اللہ سے بھی ایک ملاقات ہوئی ، لیکن افسوس کہ انتظامی غلطی کے سبب یہ مجلس ایسی جگہ رکھی گئی ، جہاں میں ان مشایخ کی باتیں براہ راست سن نہیں پایا ۔ اللہ نے توفیق دی تو اس کمی کا بھی ازالہ کرنے کی کوشش کروں گا ۔ إن شاءاللہ ۔
یہ مدنی محفل بھی خلاف توقع بہت زیادہ لیٹ ہوگئی ، اور شاید مزید ہوتی ہوتی ہو ہی جاتی ، لیکن آج ہی استاد محترم قاری عارف بشیر صاحب سے ملاقات ہوئی ، موقعہ ملا کہ ان کے متعلق فیس بک پر کچھ نہ کچھ لکھ دیا ، اور بعد میں اللہ تعالی نے اس تحریر کی توفیق دے دی ، ورنہ یہ چیزیں باقاعدہ بوجھ بن جاتی ہیں ، اور اپنے آپ میں ملامت کا ایک سلسلہ شروع ہوجاتا ہے کہ ہماری محافل صرف نشست و برخاست اور لذت کام و دہن تک ہی کیوں محدود رہ جاتی ہیں ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
بروز ہفتہ ،بتاریخ 11 ذو الحجہ 1438 ، بمطابق 03 ستمبر 2017ء
عید کے دوسرے دن صبح نو بجے ، جب سعودیہ میں لوگ سورہے ہوتے ہیں ، یا سوچکے ہوتے ہیں ، اس وقت کوئی فکر مند تھا ، تیاری میں مصروف تھا ، کہ آج شام کی ’ عید ملن پارٹی ‘ بہتر سے بہتر انداز میں ہوسکے ، پھر شام ہوئی ، مغرب سے کچھ پہلے ’ حدیقۃ ملک فہد ‘ میں شرکاء مجلس اکٹھا ہونا شروع ہوئے ، وہاں بھی سخت گرمی کے موسم میں جنہوں نے آگ سینکی ، خود کام کی ذمہ داری لیکر دوستوں کو گپ شپ ، علمی تبادلہ خیال کا موقعہ دیا ، آج کی مدنی محفل انہیں زندہ دل لوگوں کے نام ، میری مراد شیخ زید حارث، شیخ عطاء الرحمن صاحب اور ان کے رفقاء ، حقیقت یہ ہے کہ ہر محفل ، مجلس اور اجتماع میں ایسے کردار موجود ہوتے ہیں ، چاہے ان کا ذکر آئے یا نہ آئے ۔
حدیقہ ملک فہد مسجد قبا کی طرف ایک وسیع و عریض پارک ہے ، جس میں صرف فیملیز کو داخل ہونے کی اجازت ہے ، وہاں بڑی مہارت سے پودوں کی مدد سے چھوٹے چھوٹے احاطے بنادیے گئے ہیں ، تاکہ خواتین کا پردہ متاثر نہ ہو ۔
ہمیشہ کی طرح مرد ایک طرف تھے ، جبکہ خواتین ایک الگ احاطے میں بچوں سمیت بیٹھ گئیں ۔
محفل کا باقاعدہ آغاز مغرب کی نماز کے بعد ہوا ، مغرب کی نماز وہاں قریب ہی ایک جگہ ادا کی گئی ، جہاں صفوں کا انتظام تھا ، عام طور پر ایسی جائے نماز کویہاں’ المصلی المتنقل ‘ کہا جاتا ہے یعنی ’ موبائل جائے نماز ‘۔
نماز ہم نے ایک شخص کی اقتدا میں ادا کی ، جو پہلے سے وہاں نماز پڑرہا تھا ، ہم وہاں پہنچے ، شیخ عبد الباسط صاحب نے اس نمازی کو مخاطب کرکے کہا :
’ آواز اونچی کرلیں ، ہم آپ کے پیچھے نماز ادا کریں گے ‘ اور یوں ہم سب نے پیچھے اُس امام کے اللہ اکبر کہہ دی ۔
مغرب کے بعد ساتھ ہی عشاء پڑھنے کی بات ہوئی ، اور مشہور حدیث ’ من غیر خوف و لا سفر و لامطر ‘ والا حوالہ بھی آیا ،اور وہیں علمی مباحثہ شروع ہوا ۔ البتہ نماز عشا بعد میں تقریبا 11 بجے ادا کی گئی ۔
شرکاء مجلس میں مدنی محفل کے معروف شرکا کے علاوہ ، معروف واٹس ایپ مفتی اقبال سلفی صاحب کے برادر اصغر زبیر صاحب تھے ، قاری عطاء اللہ صاحب ( ماجستیر ) ، عرفان صفدر صاحب ( ماجستیر ) ، شیخ عارف جاوید محمدی صاحب کے بیٹے عبد اللہ عارف صاحب اور فرزند گوجرانوالہ محترم عثمان احمد صاحب تھے ۔
اس مجلس میں کئی ایک علمی ، معاشرتی اور سیاسی مسائل زیر بحث آئے ۔
خانہ کعبہ کو غسل دینا ، پھر اسے ریشم اور سونے کے غلاف سے لپیٹنا ، اس بات کو لے کر بہت سارے لوگ اعتراض کرتے ہیں ، اس حوالے سے شیخ فراز صاحب نے ایک ویڈیو دکھائی ، جس میں مولوی اسحاق جھالوی صاحب اس مسئلے کو یزید کے ساتھ جوڑ کر اسے ملعون اور بدعتی ثابت کر رہے تھے ، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ خانہ کعبہ کی توقیر و تعظیم کا یہ انداز دور جاہلیت سے ہی موجود تھا ، اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے باقی رکھا ، کئی ایک احادیث میں اس بات کی صراحت ملتی ہے کہ عہد نبوی میں خانہ کعبہ پر غلاف موجود تھا ، بلکہ " سترتم بيوتكم كما تستر الكعبة " والی حدیث میں خانہ کعبہ کی اس حوالے سے خصوصیت بھی مترشح ہورہی ہے ۔
پھر یہ سوال آجاتا ہے ، کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ریشم ، اور سونا چاندی اس کام کے لیے خرچ کیا کرتے تھے ؟ اس کی وضاحت بعض مشایخ کے حوالے سے پیش کی گئی کہ کعبہ کی تعظیم و توقیر ایک مسلم امر ہے ، لیکن جس طرح انسانی لباس اور رہن سہن میں تبدیلی آئی ہے ، غلاف کعبہ کی بناوٹ میں فطری تبدیلی آئی ہے ۔ ورنہ اگر لباس کی کوالٹی کو عہد نبوی کے پیمانوں سے دیکھا جائے تو ہمارے ہاں کاردی سے ردی کپڑا بھی اس وقت کے شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ سے بہتر ہوگا ۔ یہ تو نہیں ہوسکتا کہ ہم انسانی ضروریات میں تواس ترقی کو درست تصور کریں، لیکن خانہ کعبہ کے متعلق وہی مطالبہ کہ اسے چودہ سو سال پہلے والےانداز سے غلاف چڑھایا جائے ۔
جس دور میں ایک بندہ پچاس ہزار کا موبائل ، پچاس لاکھ کی گاڑی ، اور پچاس کروڑ کی کوٹھی میں رہتا ہے ، وہاں عالم اسلام کے مرکز و محور خانہ کعبہ کے غلاف وغیرہ کے لیے اگر کچھ ملین خرچ ہوتے ہیں ، تو اسے اسراف اور فضول خرچی کہنا درست نہیں ، بلکہ یہ مسلمانوں کی بیت اللہ سے محبت اور عقیدت کی ایک واضح دلیل ہے ۔ ( غسل و غلاف خانہ کعبہ کی شرعی حیثیت پر حافظ ثناء اللہ مدنی وغیرہ بزرگوں کے تفصیلی فتاوی جات بھی ہیں )
اس محفل میں میری کوشش تھی کہ پاکستانی مشایخ کا تذکرہ خیر ہوجائے ، جس کے لیے میرا ارادہ تھا ، تمام شرکاء محفل سے فردا فردا یہ سوال کیا جائے کہ :
’ آپ کی نظر میں پاکستان کے کبار مشایخ کون کون ہیں ؟ ‘
لیکن یہ سوال باقاعدہ منظم شکل میں سب سے نہ پوچھا جاسکا ، البتہ اس سلسلے میں کچھ مشایخ کا تذکرہ خیر ہوا ، مولانا ارشاد الحق اثری صاحب ، حافظ مسعود عالم صاحب ، حافظ محمد شریف صاحب ، مولانا عبد اللہ ناصر رحمانی صاحب ، مولانا مبشر احمد ربانی صاحب ۔
شیخ عبد الباسط فہیم صاحب کا کہنا تھا شیخ ربانی صاحب کی وسعت مطالعہ قابل رشک ہے ، مسئلہ بتاتے ہوئے ، ساتھ فریق مخالف کی کتب سے حوالے پیش کرنا جیسے مناظرانہ زبان میں ’ الزامی جواب ‘ کہتے ہیں ، یہ خصوصیت شیخ میں بدرجہ اتم موجود ہے ۔
ایک اور شیخ کا کہنا تھا کہ بزرگ علما میں کچھ ایسے مشایخ ہیں ، جن کا علم ابھی بھی جوان ہے ، جیساکہ شیخ ارشاد الحق اثری صاحب وغیرہ ، یہ بات اس تناظر میں کہی گئی کہ سب مشایخ کی بصیرت ، فقاہت وغیرہ سب چیزیں اپنی جگہ ، لیکن جو مشایخ تحقیق و تصنیف سے منسلک ہیں ، ان کی گفتگو سے محسوس ہوتا ہے کہ ان کا علم ہر دم تروتازہ رہتا ہے ۔
جامعہ ابی بکر کراچی جب شروع ہوا ، تو حافظ شریف صاحب ، حافظ مسعود عالم صاحب ، عبد الغفار اعوان صاحب وغیرہ اس کے ابتدائی اساتذہ میں تھے ، اور اس وقت جامعہ میں بیرونی طلبہ بھی کثیر تعداد میں تھے ، پڑھائی کی زبان عربی ہی تھی ، البتہ بعد میں آہستہ آہستہ بیرونی طلبہ کم ہوتے گئے ، شیخ فراز صاحب نے اپنے دور طالبعلمی کا ایک واقعہ سنایا ، ایک دفعہ حافظ مسعود عالم صاحب وہاں تشریف لائے ، پتہ چلا ، غیر ملکی طلبہ بھی موجود ہیں ، لہذا انہوں نے مقامی زبان اردو کی بجائے عالمی زبان عربی میں بہترین فصیح و بلیغ تقریر ارشاد فرمائی ۔
میرے پوچھنے پر انہوں نے کہا کہ مولانا عبد اللہ ناصر رحمانی بھی عربی زبان میں بہترین تقریر کرتے ہیں ۔
علما دین کی اولاد کی دین کی طرف رغبت کی طرف بات بڑھی ، تو اس حوالے سے دو مختلف مشایخ کا تذکرہ ہوا ، جو وقت کے جلیل القدر علما میں شمار ہوتے ہیں ، البتہ ان کی اولاد اس طرف نہیں آئی ، ایک شیخ سے کسی نے اس حوالے سے پوچھا ، تو جوابا شیخ کی آنکھوں میں آنسو امڈ آئے ، کہنے لگے ، میری بہت کوشش ہے ، کچھ بچوں کو مدارس میں بھیجا ، بعض کے لیے گھر میں تعلیم کا بندوبست بھی کیا ، تاکہ میرے بعد میرے علمی منہج کو کوئی سنبھالنے والا ہو ۔
ایک اور شیخ صاحب سے ان کے ایک بے تکلف شاگرد نے یہی سوال کیا ، انہوں نے برجستہ کہا ، کہ تم بھی تو ہماری روحانی اولاد ہو ، پھر فرمانے لگے : ہمیں اپنے شاگردوں سے محبت ہے کہ نہیں ؟ ہم تمہاری ہر انداز سے مدد کرتے ہیں کہ نہیں ؟ ہمارا جی چاہتا ہے کہ ہماری اولاد بھی اسی طرح دین کی تعلیم حاصل کرے ، لیکن ہوتا وہی ہے جو اللہ کو منظور ہے ، اور یہ سب سے بڑی دلیل ہے کہ علم کسی کی وراثت نہیں کہ وہ اپنی اولاد میں تقسیم کردے ، بلکہ اس نعمت سے وہی مالا مال ہوگا جو اس کی اہلیت رکھتا ہوگا ، چاہے کوئی صلبی رشتہ ہو یا نہ ہو ۔
حافظ شریف صاحب طلبہ کرام سے بہت محبت اور تعاون کرتے ہیں ، ان کے شاگرد یہ بات بخوبی جانتے ہوں گے ، شیخ ارشاد صاحب نے اپنے ایک ساتھی کا واقعہ سنایا ، کہ وہ جامعہ سلفیہ سے فراغت کے بعد تنگی حالات کے سبب فیصل آباد کے ایک کتب خانے میں نوکری کرنے لگے ، ایک بار حافظ صاحب کا وہاں گزر ہوا ، پوچھا ! اسحاق ! تم یہاں کیا کرتے ہو ؟ صورت حال معلوم کرنے کے بعد ، فورا مکتبہ کے مالک سے بات کی ، اور کہا کہ اس بچے کے ساتھ آپ کا جو حساب کتاب ہے ، کلیئر کریں ، میں اس کو ساتھ لے جارہا ہوں ، یہ اسحاق طاہر صاحب ہیں ، جو ہمارے استاد محترم ہیں ، میں نے خود بھی ان سے سنا ہے کہ یہ حافظ صاحب کے پاس ’ مرکز التربیہ ‘ میں تعلیم بھی حاصل کرتے تھے ، اور حافظ صاحب نے مدیر المرکز ہونے کی نسبت سے انہیں لائبریری کی کچھ ہلکی پھلکی ذمہ داری بھی دی تھی ، اور اس پر مناسب مشاہرہ بھی دیا کرتے تھے ۔
مرکز التربیہ سے ہی اسحاق صاحب کا جامعہ اسلامیہ داخلہ ہوا ، آج کل آپ ہماری مادر علمی جامعہ رحمانیہ میں بطور استاذ فرائض سر انجام دے رہے ہیں ۔
نوجوان اہل علم میں ، حافظ خبیب احمد صاحب کا تذکرہ یوں ہوا کہ زمانہ طالبعلمی میں بہت لائق فائق نہیں تھے ، لیکن مولانا ارشاد الحق اثری صاحب کی صحبت اور ان کی محنت اور جستجو کا یہ نتیجہ ہے کہ فن حدیث اور جرح و تعدیل میں مہارت رکھتے ہیں ، اور اس سلسلے میں اپنے کئی ایک اقران پر فائق ہیں ۔
محترم ابراہیم المعروف ابن بشیر حسینوی صاحب کی محنت اور علمی ذوق و شوق کا ذکر ہوا ، کہ اپنی سادہ مزاجی کے باوصف ہمہ جہت شخصیت ثابت ہوئے ہیں ، تصنیف ، تحقیق اور نشر و اشاعت جیسے کئی ایک اہم کام سر انجام دے رہے ہیں ۔
ہم سب مدنیوں کے محبوب و مکرم محترم ہاشم یزمانی صاحب بھی کٹہرے میں آگئے ، ایک طرف تو سب نے ان کی صلاحتیوں اور فاضل شخصیت کو خراج تحسین پیش کیا ، اور ساتھ ہی ان کی فیس بک پر خالص جمہوری اور سیاسی سرگرمیوں پر اظہار افسوس کیا ، کہ یہ چیزیں ان کی شخصیت ، علم و فضل سے میل نہیں کھاتیں ۔ ویسے ان کے متعلق یہ اظہار ان کے کئی ایک ہم جماعت اور ہم سبق پہلے بھی کرچکے ہیں ، بلکہ ایک دفعہ ان کے استاد محترم حافظ محمد شریف صاحب نے بھی ان کی قابلیت و صلاحیت کی تعریف کرتے ہوئے ، انہیں اس طرح کی سرگرمیوں سے باز رہنے کا حکم دیا تھا ۔
زبیر صاحب نے ایک سوال کیا کہ جس طرح فقہی مختلف فیہ مسائل میں کتابیں لکھی ہوئی ہیں ، کیا اصول حدیث اور جرح و تعدیل کے متعلق بھی اس نوعیت کی کتابیں موجود ہیں ؟
اس حوالے سے دو تین باتیں سامنے آتی ہیں :
1۔ علم حدیث و جرح و تعدیل کا تعلق احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے ، کسی بھی مسلک یا جماعت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ، اس علم کی طبیعت بھی ایسی ہے کہ یہ شخصیات اور دھڑے بازیوں میں تقسیم نہیں ہوا ، آپ دیکھیں اس فن میں آپ کو بڑے بڑے ائمہ محدثین اور ماہرین رجال تو نظر آئیں گے ، لیکن کہیں پھی احمد بن حنبل کے اصول حدیث ، ابن معین کے اصول حدیث ، یا امام بخاری کے اصول جرح و تعدیل والا بٹوارہ نظر نہیں آئے گا ۔
2۔ فقہی مذاہب کے وجود میں آنے کے بعد ایک کشا کشی شروع ہوئی ہے ، تیرے اصول اور میرے اصول کی بات اس میں ہوئی ، لیکن چونکہ فن حدیث اور جرح و تعدیل کے اصول فقہی مذاہب کے باقاعدہ وجود سے بہت پہلے طے پا چکے تھے ، لہذا تقلید ان تحقیقی اصولوں پر اس طرح اثر انداز نہیں ہوسکی کہ ہر فقہی مذہب و مسلک کے الگ سے کوئی اصول بنانے کی ضرورت پیش آئی ہو ۔
3۔ بڑے بڑے محدثین اور ماہرین رجال بعد والے دور میں فقہی مذاہب سے منتسب نظر آئے ، لیکن بہر صورت یہ بات کہیں دیکھنے میں نہیں آئی کہ انہوں نے اپنے اپنے امام یا مذہب کی نصرت و تائید کے لیے اصول حدیث، اصول تفسیر وغیرہ فنون کےساتھ ناجائز طبع آزمائی کی ہو ۔
پچھلی صدی میں بعض احناف محققین کی طرف سے یہ بات کہی گئی کہ احناف اور محدثین کے اصول ایک ساتھ نہیں چل سکتے ، یہ دعوی بہت بڑا بھی ہے ، اور غلط بھی ہے ، خیر یہ جیسا بھی ہے ، اسی بنیاد پر اعلاء السنن جیسی کتابیں معرض وجود میں آئیں ، ہدف چونکہ احادیث رسول کے قواعد بیان کرنا نہیں ، ایک خاص مذہب کی نصرت و تائید تھا ، اس لیے اس میں ’اصول حدیث ‘ کو بھی حنفی بنانے کی مکمل تگ و دو کی گئی ، جس پر کئی ایک اہل علم و فن نے نقد کیا ، گزرے زمانوں میں امام بیہقی کی تالیفات اور الجوہر النقی وغیرہ میں آپ کو حنفیہ شافعیہ کے مناقشات تو نظر آئیں گے ، لیکن باقاعدہ حنفی اصول اور محدثین کے اصول والی تقسیم کا سہرا یہ ہمارے پاک و ہند یا اس ذہنیت کے محققین کے سر باندھا جائے گا ۔
ظفر تھانوی صاحب کی کتاب قواعد فی علوم الحدیث اور اس کے رد میں بدیع الدین راشدی صاحب کی کتاب نقض قواعد فی علوم الحدیث میں آپ کو یہی رنگ نظر آئے گا ۔
4۔ یہاں یہ بات بھی مد نظر رہے ، ائمہ علل میں کئی ایک نے جرح و تعدیل سے متعلق اپنی کتابوں کو فقہی ابواب پر مرتب کیا ہے ، اور اسی طرح اصول حدیث میں کئی ایک مسائل میں محدثین کا آپس میں اختلاف بھی ہے ۔
جیسا کہ ابتدا میں مذکور ہے کہ یہ مجلس کافی دنوں پہلے منعقد ہوچکی تھی ، لیکن اسے تحریر کرنے میں تاخیر کا عذر بھی اسی دن سے لاحق ہے ، اسی مجلس کے آخر میں اچانک میری طبیعت خراب ہوگئی ، اور ایسی خراب ہے کہ بیس دن گزر جانے کے بعد بھی وہی حالت ہے ، اس دوران دو اہم مجالس اور ہوئیں ، جنہیں ضرور تحریر کروں گا .. إن شاء اللہ .
البتہ رات اسی نوعیت کی ایک تیسری مجلس ہوئی تھی ، جس میں جامعہ کے دو ساتھی شیخ محمد علی صاحب ، شیخ طارق صاحب کو الوداعیہ دیا گیا ، اس کا بھی مختصر تذکرہ یہیں کردیتا ہوں ، تاکہ بوجھ ذرا ہلکا ہوجائے ۔
یہ مجلس تین چار اہم حصوں پر مشتمل تھی ، مہمانوں میزبانوں نے الوداعی رسمی و غیر رسمی کلمات کہے ،پوچھا گیا ، پاکستان جا کر کیا کرنا ہے ؟ دونوں کا جواب یہی تھا کہ کسی دینی ادارے سے ہی منسلک ہوں گے ، إن شاءاللہ ۔
ہمارے ایک ساتھی کا کہنا تھا کہ جس ادارے میں بھی جائیں ، جانے سے پہلے ہی ان کے ساتھ کام کی نوعیت اور تنخواہ وغیرہ کے حوالے سے مکمل معاملات طے کرلیں ، جس پر کئی ایک ساتھیوں کا کہنا تھا کہ دین کے کام میں اس طرح کی سودے بازی کرنا بہت مشکل ہے ۔
یہ بھی کہا گیا کہ علماء کو دین کے ساتھ دینا کے لیے بھی کوئی کار و بار وغیرہ ضرور کرنا چاہیے ، لیکن اس میں بھی دو رائے تھیں ، خلاصہ یہ نکالا جاسکتا ہے کہ اگر دین کا کام متاثر نہ ہو ، تو دنیا میں بھی پنجہ آزمائی کرنے میں حرج نہیں ، لیکن اگر تدریسی و دعوتی سرگرمیاں متاثر ہوں ، تو اس سے گریز بہتر ہے ، فریقین نے اپنے اپنے موقف کے حق میں کچھ عملی مثالیں بھی پیش کیں ۔
کچھ عرصہ پہلے ہمارے ایک ساتھی حادثاتی طور پر وفات پاگئے ، ان کے حوالے سے کچھ باتیں نا چاہتے بھی زیر بحث آگئیں ، ساری تفصیلات اگر موقعہ ملا تو پھر کبھی سہی ، لیکن مختصرا یہ عرض کردینا چاہتا ہوں : کہ ’ مرحومین ‘ کے ورثا کے آپسی اختلافات اور ناچاکیوں نے یہ جواز فراہم کیا ہے کہ وفات شدہ لوگوں کی وراثت وارثین تک پہنچنے کی بجائے ، ایسے لوگوں کے ہاتھ ہے ، جو شریعت یا قانون کسی بھی اعتبار سے ان کے متروکہ مال میں تصرف کا کوئی حق نہیں رکھتے ۔
جب یہ حادثہ پیش آیا تھا ، تو فورا ہی جامعہ اسلامیہ میں پڑھنے والےجس طالبعلم سے جو ہوسکا ، اسے نے دل و جان سے اس میں تعاون کیا ، لیکن پھر چند ہی دنوں بعد معاملات دو چار لوگوں میں محدود ہو کر رہ گئے ، اور اب تک یہ انہیں کے پاس ہیں ، اور اس میں جو کچھ غلط یا صحیح ہورہا ہے ، وہ اب انہیں دو چار مشایخ کی سوچ و فکر کا نتیجہ ہے ، اللہ سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں ان آزمائشوں سے محفوظ رکھے ، ہم سب بچوں والے ہیں ، ہم میں سے کوئی بھی لاوارث نہیں ، کل کو کسی کےساتھ بھی کوئی حادثہ ہوسکتا ہے ، یقینا ہم میں سے کوئی بھی نہیں چاہے گا کہ ہمارے وارثوں کو اپنے جھوٹے سچے احسانات جتلا کر کوئی ہمارے گھریلو معاملات پر قاضی اور حاکم بن کر بیٹھ جائے ۔​
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
بروز بدھ ،بتاریخ 15 ذو الحجہ 1438ه ، بمطابق 06 ستمبر 2017ء
’ ضیوف خادم الحرمین الشریفین ‘ یعنی ’خادم حرمین شریفین کے مہمان ‘ یہ ایک ادارے کا نام ہے ، جو شاہ فہد مرحوم کے دور حکومت میں معرض وجود میں آیا ، کہنے کو اس کی نسبت ’ خادم حرمین ‘ کی طرف ہے ، لیکن اصل میں یہ ادارہ سعودیہ کی وزارت مذہبی امور کے تحت اپنی خدمات سر انجام دے رہا ہے ۔
اس کا مقصد پوری دنیا میں موجود مسلم مفکرین ، علماء و محققین اور اثر و رسوخ رکھنے والی شخصیات کو شاہی مہمان کی حیثیت سے حج یا عمرہ کا موقع فراہم کرنا ہے ۔ 1417تا 1431 تک اس کے تحت تقریبا سولہ ہزار سے زائد لوگ مستفید ہوچکے تھے ۔ اس کے بعد بھی اب تک یہ ادارہ مکمل تندہی سے اپنی مصروفیات جاری رکھے ہوئے ہے ، اگر آپ حج کی سعادت سے بہر ور ہوئے ہیں ، تو یقینا حرم کے قریب ہوٹلوں ، اور اہم مقامات سے گزرتی بسوں پر ’ ضیوف خادم الحرمین ‘ کے اشتہارات لگے ہوئے دیکھے ہوں گے ۔
یہ ایک مکمل ادارہ ہے ، جس میں اطراف و اکناف عالم سے مہمانوں کے اختیار ، سفری انتظامات ، عبادات کی ادائیگی ، ثقافتی پروگرامز ، سیر و سیاحت سے لیکر واپس گھر لوٹنے تک کے مکمل انتظامات کے لیے مختلف کمیٹیاں ترتیب دی گئی ہیں ، جو سعودی وزات خارجہ ، مختلف ممالک میں موجود ان کے سفارت خانوں کی مدد سے مہمان اختیار کرتے ہیں ، اور پھر سعودیہ میں وزارت حج ، اور مختلف دینی و تعلیمی اداروں سے ملکر مہمانوں کے لیے ہر ممکن سہولت و رہنمائی اور آسائش کا سامان بہم پہنچاتے ہیں۔
مدینہ منورہ میں موجود اس ادارے کی کمیٹی کے اہم رکن ڈاکٹر حبیب الرحمن حنیف صاحب ہیں ، جو جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کلیۃ الحدیث سے پی ایچ ڈی کے حصول کے بعد مدینہ منورہ کی ایک دوسری یونیورسٹی جامعہ طیبہ کی ایک شاخ میں استاذ مساعد(اسسٹنٹ پروفیسر) کے طور پر تدریسی فرائض سر انجام دے رہیں ۔ ڈاکٹر حبیب صاحب عرصہ سات سال سے اس ادارے سے منسلک ہیں ، حسب سابق اس دفعہ بھی پاکستان سے جو علماء کرام ’ شاہی مہمان ‘ بن کرآئے ، وہ انہیں کی میزبانی میں تھے ۔
زیر تحریر مدنی محفل انہیں شاہی مہمانوں سے ملاقات کی روداد پر مشتمل ہے ۔عام طور پر ایسی ملاقاتوں کے لیے ہم طالبعلم آپس میں ملکر پروگرام وغیرہ طے کرتے ہیں ، مہمانوں کی ضیافت کے اخراجات وغیرہ کے لیے بندو بست کیا جاتا ہے ، لیکن اس بار میزبانی کی سعادت مدینہ منورہ میں موجود ’ الفوزان ہوٹل ‘ کی انتظامیہ نے حاصل کی ۔ ویسے اب یہ ہوٹل مدینہ منورہ بھی آچکا ہے ، ورنہ تقریبا ایک سال پہلے ہوٹل کے مالک شیخ ابو محمد ارشاد صاحب بعض مہمانوں کے اعزاز میں مدینہ سے تقریبا چھ سو کلو میٹر دور قصیم سے کھانا تیار کروا کر لائے تھے ۔
چھ ستمبر کا ناشتہ بہت مشہور ہے ، نصف صدی پہلے عین اس وقت جب کسی نے لاہور میں ناشتہ کرنے کی ٹھانی تھی ، اسی دن اور وقت ہم نے مدینہ منورہ میں ناشتہ کا پروگرام بنایا ، انڈیا سے لاہور پہنچ کر ناشتہ کرنے والوں کی حسرت پوری نہ ہوسکی ، لیکن الحمد للہ ہم ہنیئا مریعا ناشتہ سے محظوظ ہوئے ، کہانی آپ بھی سن لیں ۔
ویسے قبل اس کے کہ ہم اصل بات کی طرف بڑھیں، ’ نمک حلال ‘ کرنے کے لیے اس ہوٹل الفوزان اور اس کے مالکان کا کچھ تعارف سن لیں ، یہ دو تین لوگوں نے ملکر بنایا ہے ، قصیم کے محترم ابو محمد ، مدینہ منورہ میں میمن برادری کے اقبال صاحب ، اور ایک اور ساتھی ابو عبد اللہ صاحب نے مل کر یہ کام شروع کیا ہے ، کاروبار تو ہے ہی ، یہ لوگ دعوت و ارشاد کے لیے بھی سرگرم رہتے ہیں ، جو اللہ کے دین کے لیے وقت نکالتا ہے ، اللہ اس کے لیے منزلیں آسان کردیتا ہے ، اقبال صاحب اصل میں کراچی سے ہیں ، تجارت کے سلسلہ میں پہلے کہیں دوبئی ہوا کرتے تھے ، بچوں کی تربیت کے لیے فکر مند ہوئے ، مدینہ منورہ آگئے ، یہاں آکر اللہ نے ان کے لیے رزق کے دروازے کھول دیے ، ان کے دو صاحبزادے ہمارے ساتھ دعوت میں شریک ہوئے ، دونوں نوجوانوں کی شکل و صورت بتارہی تھی کہ ان کے والد محترم اپنے ہدف میں کامیاب جارہے ہیں ، ایک بیٹا جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں تعلیم حاصل کر رہا ہے ۔
ابو عبد اللہ صاحب بطور ایک معمولی مزدور سعودیہ میں آئے ، لیکن آہستہ آہستہ اللہ ان کی منزلیں آسان کردیں ، اور مزدور سے ہوٹل کے مالک بن گئے ، ابو محمد ارشاد صاحب کے متعلق سنا ہے ، انتہائی نامساعد حالات سے گزرے ، لیکن اس وقت لگتا ہے اللہ نے ان کی ’ ربنا آتنا فی الدینا حسنۃ و فی الآخرۃ حسنۃ ‘ والی دعا قبول کرلی ہے ۔
ہمارے پہنچنے کے کچھ دیر بعد ہی ’ شاہی مہمان ‘ بھی آگئے ، تعارف کا سلسلہ شروع ہوا ، سب سے پہلے مولانا عبد الرحمن چیمہ صاحب نے اپنا تعارف کروایا جو لودھراں کسی مدرسے میں شیخ الحدیث کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں ، شیخ کا لباس پنجابی و عربی ثقافت کا حسین امتزاج تھا ، عربی جبہ اور سر پر ’ پگ ‘ ٹکائے ہوئے تھے ۔ آپ کو مولانا اسحاق چیمہ اور حافظ گوندلوی جیسے بزرگوں سے شرف تلمذ حاصل ہے ۔
سنا تھا مولانا عبد العزیز علوی صاحب بھی ہیں ، ہمارے ذہن میں تو جامعہ سلفیہ کے شیخ الحدیث تھے ، لیکن تعارف سنا تو پتہ چلا محترم بزرگ آزاد کشمیر سے تعلق رکھتے ہیں ، اور وہاں مذہبی جماعتوں کے مشترکہ امیر ہیں ۔
سکرود سے مفتی بلال صاحب بھی تھے ، جو وہاں کسی کالج میں پروفیسر ہیں ، مولانا عبد الغفار حسن صاحب کے شاگرد بھی تھے ، اپنی تعلیمی زندگی کے متعلق فرمانے لگے ، جامعہ اسلامیہ میں داخلہ کے لیے کوشش کی ، لیکن نہیں ہوسکا ، لیکن اللہ نے ان کی یہ خواہش اس طرح پوری کی کہ ان کے فرزند راجمند محترم خبیب صاحب اس وقت جامعہ اسلامیہ میں تاریخ میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں ۔ ان بزرگوں نے یہ بات بھی فرمائی کہ جامعہ سلفیہ (غالبا اسلام آباد والا) کے معادلہ میں ان کی کوشش بھی کارفرما ہے ۔
سید عتیق الرحمن شاہ صاحب نے بھی تعارف کروایا ، شاہ صاحب کا تعارف کافی طویل ہے ، یہ شاید انہیں بھی محسوس ہوا ، اس لیے انہوں نے جاتے وقت ہماری آسانی کے لیے اپنا تعریفی کارڈ عنایت کیا ، آپ واہ کینٹ میں اہل حدیث کی ایک مرکزی مسجد میں خطابت کے فرائض سر انجام دیتے ہیں ، مرکزی جمعیت اہل حدیث کے اہم عہدہ پر فائز ہیں ، اور اس کے علاوہ کئی ایک اداروں کی رکنیت ان کے تعارف میں مکتوب ہے ۔ آج کل راولپنڈی میں ایک بڑا مدرسہ بنانے کی تگ و دو کر رہے ہیں ، جگہ خریدی جاچکی ، البتہ تعمیر ابھی شروع نہیں ہوئی ، ان کے حوالے سے معروف ہے کہ وہ معروف دیوبندی عالم دین علامہ انور شاہ کشمیری کے پوتوں میں سے ہیں ، اس حوالے سے میں نے تصدیق چاہی تو فرمانے لگے ، کہ خاندان ایک ہی ہے ، البتہ صلبی اعتبار سے وہ ان کے داد ا نہیں بلکہ جد امجد کے بھائی ہیں ۔
پروفیسر عبد الستار حامد صاحب ، جن کا ذکر پہلے بھی ایک محفل میں آچکا ہے ، انہوں نے تعارف کروایا کہ مرکزی جمعیت پنجاب کے امیر ہیں ، وزیر آباد گورنمنٹ کالج میں پروفیسر ، اور کئی ایک کتابوں کے مصنف ہیں ۔ مولانا عبد المنان راسخ بن عبد الرحمن راسخ ان کے سگے بھتیجے ہیں ۔جن کے ساتھ ایک مستقل مدنی محفل ہوچکی ہے ۔
شاہی مہمانوں میں اس کے علاوہ مظفر آباد ایک مدرسہ ،زید بن حارثہ ، کے پرنسپل عبدالرشید محمود صاحب ، اسی طرح راولپنڈی سے ایک خطیب صاحب ، جن کی باتوں سے لگتا تھا کہ وہ مرکزی جمعیت کے سرگرم رکن ہیں ، اور اسلام آباد کے مولانا عبد العزیز حنیف صاحب کی مسجد کے دیرینہ مؤذن شامل تھے ۔
ڈاکٹر حبیب حنیف صاحب اور مفتی بلال صاحب کے صاحبزادے محترم خبیب صاحب ، کے علاوہ دیگر مشارکین وہی تھے ، جن کا ذکر کئی بار سابقہ تحریروں میں ہوچکا ہے ۔
اس بار کے شاہی مہمانوں میں یہ بات بالخصوص نوٹ کی گئی ، سوائے ایک دو شخصیات کے باقی سب چہرے نئے تھے ، اور یہ ایک اچھا اقدام ہے ، چند ایک لوگوں کی بار بار کی میزبانی سے بہتر ہے کہ زیادہ سے زیادہ شخصیات کو اس سہولت سے فائدہ اٹھانے کا موقعہ دیا جائے ۔
پچھلے دو سالوں سے مسجد نبوی کے نئے امام تراویح شیخ محمد خلیل القاری صاحب کے والد صاحب بھی آزاد کشمیر سے تعلق رکھتے ہیں ، عبد العزیز علوی صاحب کے ساتھ ان کے اچھے تعلقات ہیں ، انہوں نے بتایا کہ رات میں ان کے ہاں مہمان تھا ، اس مناسبت سے کسی نے پوچھا کہ وہ خلیل قاری صاحب کس مسلک سے تعلق رکھتے ہیں ، علوی صاحب کا جواب تھا کہ وہ ایک عرصہ سے مدینہ منورہ میں ہی مقیم ہیں ، گو وہ وہابی یا سلفی نہ سہی ، لیکن نیوٹرل ہیں ، اپنے گاؤں میں مسجد بنوا رہے ہیں ، اس کی ذمہ داری میری ہی ہے ، اور انہوں نے وہاں مسلکی اختلافات وغیرہ پنپنے سے مکمل منع کیا ہوا ہے ۔ بہر صورت یہ کہا جاسکتا ہے کہ محمد خلیل قاری صاحب معتدل دیوبندی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں ، مسجد نبوی میں امام ہیں ، تو یقینا ان کے عقائد وغیرہ میں ایسی کوئی خرابی نہ ہوگی ، جو سلفی منہج کے مطابق خرابی سمجھی جاتی ہے ۔
اس مجلس کی یہ بھی خصوصیت تھی کہ اس میں مرکزی جمعیت اور جماعۃ الدعوۃ دونوں سے منسلک یا کم از کم ذہنی میلان رکھنے والے لوگ موجود تھے ، جمہوریت اور عورت کوووٹ دینے والی بات آگئی ، ایک بزرگ نے کھل کر فرمایا کہ مرکزی جمعیت ن لیگ کی حلیف جماعت ہے ، لہذا بطور جماعت وہ انہیں ہی ووٹ دیں گے ۔
عورت کو ووٹ دینے کے لیے حوالے سے سید عتیق الرحمن شاہ صاحب کا یہ کہنا تھا کہ ہماری جماعت میں اختلاف رائے کا سب کو مکمل حق ہے ، ہم مرکزی جمعیت کے ہیں ، لیکن ہم عورت کو ووٹ دینا درست نہیں سمجھتے ، اس حوالے سے انہوں نے ایک واقعہ سنایا کہ اسی طرح کا واقعہ ایک دفعہ اسلام آباد میں ہوا تھا ، وہاں مولانا عبد العزیز حنیف مرحوم نے کہا تھا ، کہ اگر ن لیگ والے خاتون کھڑی کریں ، تو بیشک آپ ووٹ نہ دیں ۔
اگر یہ باتیں اسی طرح ہوں ، جیسا کہ بیان کی گئی ، تو مرکزی جمعیت اور جماعۃ الدعوۃ میں جس طرح اور بہت سارے فرق ہیں ، یہ بھی ایک بنیادی فرق ہوگا ، کہ مرکزی والے جماعت کی کسی بھی پالیسی سے مکمل اختلاف کرنے کا حق رکھتے ہیں ، جبکہ جماعۃ الدعوۃ کی طرف سے ’ کفر ‘ ، ’ اسلام ‘ کا فیصلہ تبدیل ہوگیا ہے ، لیکن دیکھیں ، کارکنان کی حالت ، جو رات کو اللہم باسمک أموت و احیا پڑہتے ہوئے جمہوریت کفر میں حصہ لینا حرام سمجھتے تھے ، صبح الحمد اللہ الذی احیانا ... پڑہتے ہوئے اس بات پر ایمان لے آئے کہ اب اس میں حصہ لینا ضروری ہوگیا ہے ۔ خیر یہ عمومی رویے کی بات ہے ، ورنہ ہمارے بعض مشایخ جو جماعۃ الدعوۃ سے نسبت رکھتے ہیں ، نے کھل کر ’ جمہوریت کفر ‘ کے موقف کا اظہار کیا ہے ، اور میری معلومات کے مطابق اور بھی بعض کبار و صغار اہل علم ایسے ہیں ، جو جماعۃ کی اس پالیسی سے بالکل متفق نہیں ۔
خیر جمہوریت کفر پر یوٹرن کی بات ہوئی ، تو وہی معروف باتیں ، کہ ہم نے کون سی جمہوریت کو کفر کہا تھا ؟ اور سیاست اور جمہوریت میں فرق ہے ، اور ایک جمہوریت کافر ملکوں میں رائج ہے ، ایک جمہوریت پاکستان میں ہے ، وغیرہ ، دونوں میں فرق کرنا چاہیے ۔ یہ باتیں جماعۃ الدعوۃ سوچ بطور ملی مسلم لیگ کے دفاع کے طور پر کر رہے تھے ۔
جس پر مرکزی کے ایک بزرگ نے فورا پکڑکی ، جس جمہوریت پر آپ نے کفر کے فتوی لگائے تھے ، وہ پاکستانی جمہوریت تھی کہ امریکی جمہوریت تھی ؟! بس پھر جواب ندارد ۔
ہمارے ایک محترم ساتھی نے کہا کہ جماعتوں کے کارکنان کی تربیت کی ضرورت ہے ، ایک دوسرے کو گالی گلوچ اور طعن و تشنیع تک اتر آتے ہیں ، پروفیسر عبد الستار صاحب نے فرمایا ، مرکزی جمعیت کی ذمہ داری میں لیتا ہوں ، دوسری طرف سے آپ یہ سلسلہ رکوائیں ۔ لیکن ظاہر جو ساتھی کہنے والے تھے ، وہ جماعۃ الدعوۃ کے کوئی ذمہ دار نہیں تھے ، اس لیے یہ ’ اتفاق ‘ نہ ہوسکا ۔
مولانا منظور صاحب کے خلاف ان کے بیٹے کی طرف سے ’ انکشاف حق ‘ کی بات ہوئی ، کسی نے شبہ ظاہر کیا کہ یہ مرکزی جمعیت کے کوئی اہم رکن کروا رہے ہیں ، پروفیسر عبد الستار صاحب نے کہا ، مجھے نام بتایا جائے ، میں اس معاملے کی مکمل تحقیق کروں گا ، اور اگر واقعتا یہ بات مرکزی جمعیت کی طرف سے ہوئی تو ہم ان عناصر کا سد باب کریں گے ، پھر انہوں نے بتایا کہ مولانا منظور صاحب کا یہ صاحبزادہ میرے پاس بھی ایک دفعہ شکایات لے کر آیا تھا ، جس پر میں نے اسے یہ حدیث سنائی تھی : ’ انت و مالک لأبیک ‘ ۔
ویسے یہ باتیں کئی ایک لوگوں کی طرف سے کہی گئی ہیں کہ مولانا منظور صاحب کے خلاف ریکارڈنگ مرکزی جمعیت لاہور کے دفتر میں ہوتی ہے ، اور اس کام میں دلچسپی رکھنے والے مرکزی کے ایک صاحب ہیں ، جن کا نام ’ بابر فاروق رحیمی ‘ بتایا جاتا ہے ۔ ایک ساتھی نے فیس بک سکرین شارٹ بھی بھیجا ، جس میں مولانا صاحب کے صاحبزادے چند لوگوں کےساتھ ہیں ، اور تصویر کے تعارف میں لکھا ہوا کہ ہم اس وقت 106 راوی روڈ میں بیٹھے ہوئے ہیں ۔ حقیقت حال اللہ بہتر جانتا ہے ، ممکن ہے یہ الزامات و اتہامات درست نہ ہوں ، لیکن بہر صورت جماعتوں ، حکومتوں ، اداروں کی طرف سے بلیک میلنگ اور کردار کشی کا یہ انداز کوئی بعید نہیں ۔ بلکہ بقول ایک بزرگ کے جماعتوں نے ایسے لوگ مخصوص وقتوں کے لیے سنبھال کے رکھے ہوتے ہیں ۔
بڑوں کے تعلقات آپس میں اچھے ہوتے ہیں ، اس حوالے سے پروفیسر عبد الستار حامد صاحب نے غالبا یہ بھی کہا کہ حافظ سعید صاحب میری مسجد میں جمعہ اور تقریر کے لیے بھی آیا کرتے تھے ، ساتھ یہ بھی بتایا کہ وزیر آباد میں میری مسجد پر کچھ لوگوں نے اپنے مخصوص انداز میں قبضہ کرنے کی کوشش شروع کی ، جس پر حافظ سعید صاحب نے انہیں منع کیا اور کہا کہ ہمارے آپس میں اس وقت کے تعلقات ہیں ، جب ہم دونوں کو ہی کوئی نہیں جانتا تھا ۔
بہرصورت اس طرح کی باتیں سن کر دل کو سکون محسوس ہوا ، اسی طرح اس بات پر بھی بڑی خوشگوار حیرت ہوئی کہ آزاد کشمیر میں مرکز مرکزی لڑائی نہیں ہے ، دونوں جماعتوں کے اراکین مل جل کر کام کرتے ہیں ۔ اللہ سے دعا ہے کہ اللہ سب کو اتحاد و اتفاق کی توفیق عطا فرمائے اور ’ میری تیری جماعت ‘ کی لعنت سے جان چھڑوائے ۔
کسی نے پوچھا کہ ہمیں کس جماعت کے ساتھ منسلک ہونا چا ہیے ؟
جواب ملا ، جو قدیم جماعت ہے ، اہل حدیثوں کی نمائندہ ہے ، اس کے ساتھ ۔ مراد ان کی مرکزی جمعیت اہل حدیث تھی ، ہمارے ایک شیخ صاحب نے کہا کہ ہمیں تو اہل حدیث کرنے والے ہی جماعۃ الدعوۃ کے لوگ ہیں ، اسی طرح ہم جماعۃ الدعوۃ کی طرف جائیں ، تو وہ ہمیں کسی بھی قیمت پر قبول کرتے ہیں ، جبکہ مرکزی جمعیت وسائل کی قلت اور عدم دستیابی کا شکار رہتی ہے ۔
ویسے اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مرکزی جمعیت اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود ایک نظریاتی جماعت ہے ، اسے کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے بہر صورت سوچنا پڑتا ہے کہ ’ اہل حدیث ‘ میرے نام کا حصہ ہے ۔ جبکہ دوسری طرف جماعۃ الدعوۃ میں اس قسم کی کوئی بات سرے سے موجود ہی نہیں ،
مرکزی جمعیت کی اپنی ایک مستقل تاریخ ہے ، جماعۃ الدعوۃ کی بنیاد اور تاریخ کے متعلق پوچھ لیں ، جواب : کش وی نئیں ۔ لیکن محنت ، تنظیم و ترتیب کے حوالے سے دیکھا جائے ، تو جماعۃ الدعوۃ کا مقابلہ کوئی جماعت نہیں کرسکتی ۔ میرے خیال میں اب دونوں جماعتوں کے درمیان اہداف کے لحاظ سے فرق کم ہورہا ہے ، تو ایک دوسرے کی خوبیاں اپنائیں ، اور خامیوں سے بچیں ۔
کفارہ مجلس کی دعا تو ہم مجلس کے اختتام پر پڑھ چکے تھے ، البتہ اس تحریر کے اختتام پر یہ دعا دہرا لیتے ہیں : اللہم ارنا الحق حقا و ارزقنا اتباعہ و أرنا الباطل باطلا و ارزقنا اجتنابہ ۔
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
بروز جمعہ 24 ذو الحجه 1438هـ بمطابق 15 ستمبر 2017ء
مسجد نبوی میں اردو زائرین کی رہنمائی کے لیے عصر کے بعد دو جگہ پر درس دیا جاتا ہے ، عصر کے بعد ریاض الجنۃ کی پچھلی جانب چھتریوں کے نیچے ، جبکہ مغرب کے بعد باب بدر سے داخل ہو کر ذرا اگلی جانب ۔
شیخ مبشر احمد ربانی صاحب مدینہ آئے ، فون پر بات ہوئی ، فرمانے لگے ، عصر کے بعد شیخ عبد الباسط صاحب کے درس میں بیٹھا ہوں گا ، وہیں ملاقات ہوگی ۔
درس ختم ہوا ، دونوں مشایخ نے سلام و معانقہ کیا ، ذرا ہٹ کر مسجد نبوی میں ہی بیٹھ گئے ، کئی ایک لوگ سوال جواب بھی کر رہے تھے ، منکرین حدیث کا ایک مشہور اعتراض ہے کہ محدثین کی اکثریت عجمی تھی ، اس حوالے سے انڈیا کے ایک شخص نے سوال کیا ، شیخ نے اس کا جواب پیش کرنے کے بعد فرمایا ، اس حوالے سے بہترین گفتگو مولانا صفی الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’ انکار حدیث حق یا باطل ؟ ‘ میں کی ہے ۔
شیخ کے ساتھ ان کے بڑے صاحبزادے حسن صاحب بھی تھے ، جو ماشاء اللہ شادی شدہ ہیں ، اور ہمارے ایک جامعہ فیلو ابو بکر صاحب کے بہنوئی ہیں ، وہ بھی ساتھ ہی تھے ۔
شیخ سے میں نے پوچھا کہ کچھ دنوں سے طبیعت ناساز ہے ، کوئی وجہ بھی سمجھ نہیں آرہی ، شیخ نے پوچھا مسنون اذکار کی پابندی کرتے ہوئے ؟ ساتھ ہی ابن قیم کا ایک مجرب وظیفہ بتایا کہ ’ آیات سکینت ‘ پڑھنے سے آرام و سکون ملتا ہے ، شیخ کے پاس جیبی سائز کا ایک کتابچہ بھی تھا ، جس میں یہ آیات لکھی ہوئی تھیں ، میں نے انہیں موبائل سے کاپی کرلیا ، تاکہ وقتا فوقتا پڑھتا رہوں ۔
شیخ کے فرزند ارجمند ’ حسین ربانی ‘ صاحب چند دن بعض واٹس ایپ گروپوں میں کافی نشیط نظر آئے ، میں نے شیخ سے ان کے متعلق پوچھا ، معلوم ہوا کہ شیخ ان کی علمی اٹھان سے کافی مطمئن ہیں ،اگراسی انداز سے علمی و تحقیقی دلچسپی برقرار رہی تو والد کی طرح نامور عالم دین بنیں گے . إن شاءاللہ ۔
حرمین شریفین میں ہونے والے دروس میں کافی محتاط و غیر متنازع اسلوب و انداز اپنانا ایک مجبوری ہے ۔ کیونکہ حرمین میں ہر قسم کے لوگ آتے ہیں ، گلی محلے کی ایک عام مسجد والا اسلوب مسجد حرام یا مسجد نبوی میں نہیں چل سکتا ، اس لیے جن کی وعظ و ارشاد کی ذمہ داری ہے ، وہ اس بات کا انتہائی خیال رکھتے ہیں ۔ یہ حرم میں ہونے والے عمومی دروس کا رویہ ہے ، ایک بات کا خیال زائرین کو بھی رکھنا چاہیے ، کہ آپ کو اگر کوئی عقیدہ و منہج ہضم نہیں ہوتا ، تو برداشت کریں ، لیکن کچھ لوگ یہاں ہونے والے دروس میں باقاعدہ پلاننگ سے شرارتیں کرتے ہیں ، شیخ ربانی صاحب مکہ مکرمہ میں شیخ وصی اللہ عباس صاحب کے درس میں بیٹھا کرتے تھے ، پتہ چلا وہاں کسی نے شرارت کرتے ہوئے رقعہ لکھا ، جس کے جواب میں شیخ نے خوب کھری کھری سنا دیں ، کہ جب تک اللہ نے ہمیں توفیق دی ہے ، ہم تو اپنی سوچ سمجھ کے مطابق قرآن وسنت بیان کرتے ہی رہیں گے ، یہ ہماری ذمہ داری بھی ہے اور لوگ بھی شوق سے سنتے ہیں ، البتہ جن لوگوں کو یہ باتیں ہضم نہیں ہوتیں ، انہیں کسی نے کسی خاص درس میں بیٹھنے پر مجبور نہیں کیا ، لہذا وہ یوں جل بھن کر پرچیاں لکھنے کی بجائے ، درس میں نہ بیٹھا کریں ۔ یاد رہے شیخ وصی اللہ عباس حفظہ اللہ ام القری یونیورسٹی میں پروفیسر بھی ہیں ، حرم میں مدرس بھی ، اور ساتھ سعودی نیشنل بھی ۔ لہذا انہیں بہت ساری انتظامی مشکلات نہیں ہیں ، جو ایک عام واعظ یا مدرس کویہاں ہوسکتی ہیں ۔
شیخ ربانی صاحب کے ساتھ مجلس جمعہ کے دن شیخ زید صاحب کے گھر طے ہوئی ، جس میں جامعہ کے دس پندرہ ساتھیوں نے شرکت کی ۔
کچھ شخصیات ، کچھ موضوعات ، آپس میں لازم و ملزوم ہوتے ہیں ، اس طرح کی کئی ایک باتیں اس مجلس میں ذکر ہوئیں ، شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ اور شیخ مبشر صاحب کی آپس میں بہت دوستی تھی ، شیخ بتاتے ہیں ، کہ شروع میں ان کے پاس کتابیں کم تھیں ، کئی بار وہ مضامین اور تحریریں لکھنے کے لیے شیخ زبیر صاحب کے پاس ان کی لائبریری سے استفادہ کرنے جایا کرتے تھے ، اور شیخ صاحب بھی لاہور تشریف لاتے تو ، مکتبہ ربانیہ میں ہی ٹھہرتے ۔
البتہ شیخ مرحوم کی طبیعت میں ذرا سختی اور مزاج میں نزاکت تھی ، لہذا ایسا بھی ہوا کہ شیخ زبیر بعض دفعہ لاہور آئے ، اور شیخ مبشر کے پاس نہ آئے ، اور شیخ مبشر بھی باوجود ضرورت و حاجت کے شیخ زبیر کے مکتبہ میں نہ گئے ، بلکہ آہستہ آہستہ انہوں نے اپنا ہی مکتبہ بڑھانا شروع کیا کہ اس میں ہی سب ضرورت کی کتابیں موجود ہوں ۔
شیخ زبیر صاحب نے سنن اربعہ پر جو کام کیا ہے ، اس کا ایک حصہ ہے ’ نیل المقصود فی التعلیق علے سنن ابی داود ‘ انہوں نے جب یہ کتاب مکمل کی تو شیخ مبشر صاحب کو نظر ثانی کے لیے بھیجی ، شیخ نے اس کا مطالعہ کرکے ، کئی ایک احادیث میں شیخ کے حکم سے اختلاف کیا ، اور ’ النقد الظاہر علی أبی طاہر ‘ کے عنوان سے ایک رسالہ لکھ کرشیخ کو ارسال کردیا ، شیخ زبیر صاحب اپنے محقق دوست سے یہ امید نہ رکھتے ہوں گے ، لہذا ’ تعاقب ‘ پر ناراض ہوگئے ، البتہ کچھ عرصے بعد شیخ صاحب کی خفگی دور ہوگئی ، شیخ مبشر صاحب کے بقول شیخ زبیر صاحب نے پھر سنن ابی داود کی لگ بھگ سو احادیث پر اپنے احکام میں تبدیلی کی ۔
شیخ زبیر رحمہ اللہ کی ایک خصلت یہ بھی بیان ہوئی کہ وہ موقف بنانے اور تبدیل کرنے کے حوالے سے ’ جلدی ‘ کرلیا کرتے تھے ۔
من ذاالذي ترضى سجاياه كلها
كفى بالمرء نبلا أن تعد معايبه
اُن دنوں لاہور کا حلقہ این اے 120 اور اس میں نیک و بد کی سیاست کے چرچے زبان زد عام تھے ، مسلک حق اہل حدیث کے نوجوان اپنی اپنی جماعتوں کا نمک حلال کرنے کے لیے ایک دوسرے سے سبقت لیے جارہے تھے ، جس پر شیخ مبشرصاحب نے تاسف کا اظہار کیا ، کہنے لگے نوجوانوں کا حال یہ ہوچکا ہے : میں نے ایک شخص کو سمجھایا کہ سیاسی ہار جیت کے لیے اس حد تک گرنا ہمیں زیب نہیں دیتا ، جواب میں اس نے مکمل اعتماد سے کہا : شیخ صاحب ! چار دن رہ گئے ہیں ، الیکشن مہم چلا لینے دیں ، بعد میں ہم توبہ کرلیں گے ۔
معروف اہل حدیث عالم شیخ عبد السلام رستمی رحمہ اللہ پہلے پنج پیری تھے ، ان کے اہل حدیث منہج کی طرف آنے کی داستاں یوں سنائی کہ کوئی شخص سعودیہ میں کچھ سال رہ کر گیا ، وہابی رنگ اس پر چڑ گیا ، گاؤں میں جاکر اس نے وہی باتیں کرنا شروع کردیں ، شیخ رستمی صاحب نے اسے سپیشل بلا کر لمبا چوڑا درس دیا کہ سیدھی راہ پر آجاؤ .... کہتے ہیں ، لمبی چوڑی گفتگو ہونے کے بعد ، اس شخص پر شیخ رستمی کی گفتگو کا اثر یہ ہوا ، بڑے ادب و احترام سے کہنے لگا : شیخ صاحب میں اللہ سے دعا کرتا ہوں ، کہ اللہ نے جو مجھے سمجھ دی ہے ، وہ آپ علماء کو بھی دے دے ‘
اس ’ چوٹ ‘ سے شیخ صاحب متاثر ہوئے ، پھر بعد میں پشاور یا غالبا کسی اور بڑے شہر میں پنج پیری علماء کی مجلس ہوئی ، شیخ رستمی نے اسی شخص کو بلالیا کہ اس میں آکر آپ نے وہی باتیں کرنی ہیں ، جنہیں آپ حق سمجھتے ہیں ـ اور یوں آہستہ آہستہ شیخ صاحب نے خود بھی حق کو قبول کرلیا ۔
شيخ رباني صاحب خود بھی پہلے دیوبندی تھے ، بعد میں اہل حدیث ہوئے ، اس حوالے سے انہوں نے اپنے گاؤں کے اولین استاذ گرامی کے کئی ایک واقعات سنائے ۔ شیخ صاحب جب اہل حدیث ہوئے ، تو ابتدا میں یہ استاذ گرامی بہت ناراض ہوئے ، لیکن جب شاگرد کو اللہ نے عزت و رفعت سے نوازا تو آہستہ آہستہ اچھے تعلقات استوار ہوگئے ۔ شیخ کی کتاب ’ کلمہ گو مشرک ‘ پر مقدمہ انہیں بزرگ کا لکھا ہوا ہے ۔
شیخ کی کتاب ’ ضربات ربانیہ بر فتنہ حقانیہ ‘ بھی ان کے گاؤں کے ہی ایک مقلد عالم کے رد میں لکھی گئی ہے ۔
شیخ ربانی صاحب گو کسی عرب ملک یا ادارے سے نہیں پڑھے ہوئے ، لیکن اس کے باوجود ان کا یہ خیال ہے کہ علمی رسوخ اور پختگی عرب علماء میں زیادہ ہے ۔ بلکہ عقائد کے حوالے سے جبکہ عرب علماء نے تمام بحثیں سورج کی طرح چمکا اور دن کی طرح نکھار دی ہیں ، ہمارے برصغیر کی یہ حالت ہے کہ ابھی بھی اہل حدیث کے کچھ مدارس میں علم الکلام پر مشتمل کتابیں شامل نصاب دیکھنے کو مل جاتی ہیں ۔
شیخ جامعہ اثریہ جہلم سے فارغ التحصیل ہیں ، بلکہ آپ نے جامعہ ٹاپ کیا تھا ۔ شیخ دوران تعلیم درزی کا کام بھی کیا کرتے تھے ، بلکہ اپنا لباس تو اب بھی خود ہی سلائی کرتے ہیں ، اسی نسبت سے نام کے ساتھ ’ الخیاط ‘ بھی لگاتے ہیں ۔
أبو الفضل فیض الرحمن ثوری رحمہ اللہ ، آپ کے جامعہ اثریہ کے ہی استاد ہیں ، شیخ بیان کرتے ہیں ، پہلی دفعہ شیخ فیض الرحمن ثوری صاحب کو دیکھا ، تو سادگی اور تواضع اس طرح عیاں تھی گویا کوئی کھیتی باڑی کرنے والے دیہاتی بزرگ ہیں ، لیکن جب پاس بیٹھے تو معلوم ہوا کہ دیہاتیوں والی شکل و شباہت رکھنے والا یہ شخص علم و فضل کی نعمت سے مالا مال تھا۔ شیخ بیان کرتے ہیں ، شیخ ثوری عربی لکھتے اچھی تھے ، البتہ تکلم و محادثہ نہیں کرتے تھے ، ایک دفعہ عراق کے مشہور عالم دین شیخ صبحی سامرائی جامعہ اثریہ آئے ، شیخ سے ملاقات ہوئی ، انہوں نے شیخ ثوری کی تحریر دیکھی تو بہت خوش ہوئے ، البتہ شیخ ثوری سے گفتگو انہوں نے شیخ ربانی صاحب کے توسط سے ہی کی ، اور حیرانی کا اظہار کیا کہ شیخ عربی اچھی لکھتے ہیں ، البتہ تکلم نہیں کر سکتے ۔
شیخ ثوری نے علامہ ابن الترکمانی کی الجوہر النقی کا مکمل رد لکھا ہے ، جسے انہوں نے ’ الرد التقی ‘ کا عنوان دیا تھا ، فقہ و حدیث اور خلافیات سے بھرپور اس کتاب کا رد ظاہر وہی کرسکتا ہے ، جسے اللہ نے علوم و فنون سے حظ وافر عطا کیا ہو ۔
یہ بھی ملاحظہ کرتے جائیے کہ الرد التقی کا مسودہ جامعہ اثریہ جہلم کے مدیر شیخ عبد الحمید صاحب کے پاس ہے ، دو سال پہلے مدینہ منورہ میں شیخ سے ملاقات ہوئی ، شیخ نے بتایا کہ اس کی ٹائپنگ مکمل ہوچکی ہے ، میں نے خود وہ فائل بھی دیکھی تھی ، لیکن وہ اسی حالت میں چھپنے کے قابل نہیں بلکہ اس کے دراسہ اور تحقیق دونوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔
شیخ ثوری نے رش السحاب علے ما ترک الشیخ من احادیث الباب کے عنوان سے ایک اور کتاب بھی تحریر کی ہے ، جو در اصل تحفۃ الاحوذی میں امام ترمذی کے ’ و فی الباب ‘ کی شیخ مبارکپوری نے جو تخریج کی ہے ، اس میں سے رہ جانے والی احادیث کی تخریج ہے ۔ ملتان سے چار جلدوں میں جو تحفۃ الاحوذی چھپی ہے ، شیخ ثوری کی رش السحاب بھی اس میں موجود ہے ۔
شیخ ثوری سے بھی تخریج میں کچھ احادیث رہ گئی تھی ، ان میں سے بعض کی تخریج حافظ عبد الحمید ازہر رحمہ اللہ نے کی تھی ۔
دونوں مشایخ نے جو کام کیا ، شیخ مبشر صاحب نے اس کی مقدار کا تعین باقاعدہ احادیث کی تعداد کے ساتھ کیا تھا ، جو مجھے یاد نہیں رہ سکا۔
سنت کے مطابق چار شادیاں کرنا ایک معاشرتی ضرورت بھی ہے ، اور یہ مسئلہ بعض دفعہ مجالس میں دلچسپ موضوع کے طور پر بھی زیر بحث آتا ہے ۔ میرے خیال میں چار کی مشروعیت میں تو شاید کسی کو اختلاف نہ ہو ، لیکن اس کی ہمت ، اور اس کے لیے حالات سازگار کیسے بنائے جائیں ، یہ موضوع بہت مختلف فیہ ہے ۔
ایک سے زائد شادی کی خواہش رکھنے والے لوگوں کو اس مجلس کے توسط سے یہ پیغام دیا گیا کہ بچوں پر خصوصی توجہ دیں ، جتنے بھی مصروف ہیں ، انہیں وقت ضرور دیں ، تاکہ بچے صرف ماں کی ہمدردی کی بجائے ، باپ کی ضروریات و خواہشات کا بھی احترام کریں ۔
ذریعہ معاش خاوند کا اپنا ہو ، بیوی کی نوکری ، جائیداد یا پیسوں پر نظر نہ ہو ، معاشی طور پر مستحکم خاوند ایک سے زیادہ بیویوں کو بسانے کی اہلیت زیادہ رکھتا ہے ۔
دل بہت بڑا ہونا چاہیے ، وہ خاوند جو ایک بیوی کے لیے تھا ، جب دو تین یا چار میں تقسیم ہوگا ، تو ظاہر ہے چپقلش بھی ہوگی ، لڑائی جھگڑے کی نوبت بھی آئے گی ، ایک حوصلہ مند شخص اس صورت حال کو اچھے طریقے سے سنبھال سکتا ہے ۔
شیخ مبشر صاحب ماشاء اللہ چار دفعہ شادی شدہ ہیں ، بلکہ انہوں نے بتایا کہ ان کی سب سے آخری یعنی چوتھی بیوی ، علمی کاموں میں ان کا ہاتھ بھی بٹاتی ہیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ شیخ ابو الحسن مبشر ربانی حفظہ اللہ و یرعاہ سے راقم کا تعلق کوئی ایک دو مجلسوں کا نہیں ، بلکہ میں نے کئی ایک مجالس کے علاوہ ان سے باقاعدہ سنن نسائی ، جرح وتعدیل اور ہدایہ کے اسباق پڑھے ہیں ، پھر اِنہیں دنوں کئی بار آپ کے مکتبہ پر حاضر ہونے کا بھی اتفاق ہوا ، ارادہ یہی تھا کہ شیخ کے متعلق قدرے تفصیل سے لکھوں ، لیکن انسان وہی کرسکتا ہے ، جس کی اللہ کی طرف سے توفیق ہو ، خالق و مالک سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے مشایخ و اساتذہ ، علماء و محققین کی ہر طرح سے قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
 
Top