• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تراویح اور امام ابن تیمیہ رحہ

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
كَمَا أَنَّ نَفْسَ قِيَامِ رَمَضَانَ لَمْ يُوَقِّتْ النَّبِيُّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فِيهِ عَدَدًا مُعَيَّنًا؛ بَلْ كَانَ هُوَ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - لَا يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلَا غَيْرِهِ عَلَى ثَلَاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً، لَكِنْ كَانَ يُطِيلُ الرَّكَعَاتِ،
ترجمہ :
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام رمضان ( تراویح ) کی رکعات کا کوئی معین عدد ۔۔حتمی طور پر مقرر نہیں فرمایا۔۔
خود جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں تیرہ ۱۳ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے ؛ لیکن آپ ﷺ کی رکعات طویل ہوتی تھیں (یعنی ہر رکعت میں زیادہ قراءت کرتے تھے )
ملاحظہ فرمائیں عکس: صفحه 119 جلد 02 - الفتاوى الكبرى لابن تيمية - دار الكتب العلمية

ملاحظہ فرمائیں عکس: صفحه 112 – 113 جلد 23 - مجموع فتاوى شيخ الإسلام ابن تيمية - مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف
ملاحظہ فرمائیں عکس: صفحه 68 جلد 23 - مجموع فتاوى شيخ الإسلام ابن تيمية - دار الوفاء
دلیل اور حوالہ بمع اسکین پیش کر دیا ہے علیحدہ سے نقل کر دیا ہے۔
 
Last edited:

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
142
کس چیز کی دلیل ؟
کس بات کا حوالہ ؟
اسکا جلد نمبر اور صفہ نمبر بتائیں

ترجمہ :
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام رمضان ( تراویح ) کی رکعات کا کوئی معین عدد ۔۔حتمی طور پر مقرر نہیں فرمایا۔۔
خود جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں تیرہ ۱۳ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے ؛ لیکن آپ ﷺ کی رکعات طویل ہوتی تھیں (یعنی ہر رکعت میں زیادہ قراءت کرتے تھے ) اور بعد میں جب جناب عمر ؓنے سیدنا ابی بن کعب کی امامت میں ایک جماعت پر سب کو جمع کیا تو وہ ان کو بیس رکعت اور تین وتر پڑھاتے ،اور رکعات کے زیادہ ہونے کی وجہ قراءت ہلکی ،تھوڑی ہوتی ، جو مقتدیوں کیلئے طویل رکعات کی نسبت آسان ااور ہلکی ہوتی؛
اور پھر بعد میں سلف کا ایک طائفہ وہ بھی تھا جو چالیس تراویح اور تین رکعت وتر پڑھتے تھے ؛
اور کچھ لوگ چھتیس رکعت تراویح اور تین رکعت وتر پڑھتے تھے؛ اور یہ سب صورتیں جائز تھیں یا جاری تھیں
اسلیئے ان میں جو صورت بھی اپنالی جائے ،وہ اچھی ہے؛


اور اسکا بھی جلد اور صفہ نمبر


علامہ ابن تیمیہ ؒ کے ہم عصر مشہور حنفی عالم علامہ الزیلعی ( أبو محمد عبد الله بن يوسف بن محمد الزيلعي (المتوفى: 762هـ)) کا کہنا ہے :
وَعِنْدَ ابْنِ حِبَّانَ فِي "صَحِيحِهِ" عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّهُ عليه السلام قَامَ بِهِمْ فِي رَمَضَانَ، فَصَلَّى ثَمَانِ رَكَعَاتٍ، وَأَوْتَرَ،
نصب الراية لأحاديث الهداية ) کہ صحیح ابن حبان میں سیدنا جابر ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام کو رمضان میں آٹھ رکعت تراویح اورپھر وتر پڑھائے‘‘
اور علامہ ابن تیمیہ ؒ کے ہم عصر ’’ ابن الملقن سراج الدين أبو حفص عمر بن علي بن أحمد الشافعي المصري (المتوفى: 804هـ)
اپنی مایہ ناز تحقیقی کتاب ’’ البدر المنیر ‘‘ میں لکھتے ہیں :
ورُوِيَ عَن يزِيد بن رُومَان قَالَ: «كَانَ النَّاس يقومُونَ فِي زمن عمر بن الْخطاب بِثَلَاث وَعشْرين رَكْعَة» .
رَوَاهُ مَالك فِي «الْمُوَطَّأ» (وَالْبَيْهَقِيّ) لكنه مُرْسل؛ فَإِن يزِيد بن رُومَان لم يدْرك عمر.
کہ یزید بن رومان نے سیدنا عمر ؓ کے دور میں تیئیس ۲۳ رکعات تراویح پڑھنے کی جو روایت بیان کی ہے وہ مرسل ہے کیونکہ یزید بن رومان نے جناب عمر ؓ کا دور پایا
ہی نہیں ‘‘
 

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
142
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
كَمَا أَنَّ نَفْسَ قِيَامِ رَمَضَانَ لَمْ يُوَقِّتْ النَّبِيُّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فِيهِ عَدَدًا مُعَيَّنًا؛ بَلْ كَانَ هُوَ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - لَا يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلَا غَيْرِهِ عَلَى ثَلَاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً، لَكِنْ كَانَ يُطِيلُ الرَّكَعَاتِ،

ملاحظہ فرمائیں عکس: صفحه 119 جلد 02 - الفتاوى الكبرى لابن تيمية - دار الكتب العلمية

ملاحظہ فرمائیں عکس: صفحه 112 – 113 جلد 23 - مجموع فتاوى شيخ الإسلام ابن تيمية - مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف
ملاحظہ فرمائیں عکس: صفحه 112 – 113 جلد 23 - مجموع فتاوى شيخ الإسلام ابن تيمية - دار الوفاء
دلیل اور حوالہ بمع اسکین پیش کر دیا ہے علیحدہ سے نقل کر دیا ہے۔

جزاک اللہ خیر بھائ جان اللہ آ پ کے علم میں مزید اضافہ کرے آ مین
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
علامہ ابن تیمیہ ؒ کے ہم عصر مشہور حنفی عالم علامہ الزیلعی ( أبو محمد عبد الله بن يوسف بن محمد الزيلعي (المتوفى: 762هـ) کا کہنا ہے :
وَعِنْدَ ابْنِ حِبَّانَ فِي "صَحِيحِهِ" عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّهُ عليه السلام قَامَ بِهِمْ فِي رَمَضَانَ، فَصَلَّى ثَمَانِ رَكَعَاتٍ، وَأَوْتَرَ،
کہ صحیح ابن حبان میں سیدنا جابر ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام کو رمضان میں آٹھ رکعت تراویح اورپھر وتر پڑھائے‘‘
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 152 جلد 02 نصب الراية لأحاديث الهداية - عبد الله الزيلعي الحنفي -وزارة الأوقاف السعودية
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 152 جلد 02 نصب الراية لأحاديث الهداية - عبد الله الزيلعي الحنفي -دار القبلة للثقافة الإسلامية - مؤسسة الريان - المكتبة المكية

اور علامہ ابن تیمیہ ؒ کے ہم عصر ’’ ابن الملقن سراج الدين أبو حفص عمر بن علي بن أحمد الشافعي المصري (المتوفى: 804هـ)
اپنی مایہ ناز تحقیقی کتاب ’’ البدر المنیر ‘‘ میں لکھتے ہیں :
ورُوِيَ عَن يزِيد بن رُومَان قَالَ: «كَانَ النَّاس يقومُونَ فِي زمن عمر بن الْخطاب بِثَلَاث وَعشْرين رَكْعَة» .
رَوَاهُ مَالك فِي «الْمُوَطَّأ» (وَالْبَيْهَقِيّ) لكنه مُرْسل؛ فَإِن يزِيد بن رُومَان لم يدْرك عمر.

کہ یزید بن رومان نے سیدنا عمر ؓ کے دور میں تیئیس ۲۳ رکعات تراویح پڑھنے کی جو روایت بیان کی ہے وہ مرسل ہے کیونکہ یزید بن رومان نے جناب عمر ؓ کا دور پایا
ہی نہیں ‘‘
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 351 جلد 04 البدر المنير في تخريج الأحاديث والأثار الواقعة في الشرح الكبير - ابن الملقن سراج الدين أبو حفص الشافعي -دار الهجرة للنشر والتوزيع – الرياض
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 351 جلد 04 البدر المنير في تخريج الأحاديث والأثار الواقعة في الشرح الكبير - ابن الملقن سراج الدين أبو حفص الشافعي -دار العاصمة للنشر والتوزيع


یزید بن رومان والی راوایت کو تو ہمارے دیوبندی بھائیوں نے خود تسلیلم کیا ہے کہ یہ منقطع ہے، یزید بن رومان نے عمر رضی اللہ کا زمانہ نہیں پایا!
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
وَيُشْبِهُ ذَلِكَ مِنْ بَعْضِ الْوُجُوهِ تَنَازُعُ الْعُلَمَاءِ فِي مِقْدَارِ الْقِيَامِ فِي رَمَضَانَ فَإِنَّهُ قَدْ ثَبَتَ أَنَّ أبي بْنَ كَعْبٍ كَانَ يَقُومُ بِالنَّاسِ عِشْرِينَ رَكْعَةً فِي قِيَامِ رَمَضَانَ وَيُوتِرُ بِثَلَاثِ. فَرَأَى كَثِيرٌ مِنْ الْعُلَمَاءِ أَنَّ ذَلِكَ هُوَ السُّنَّةُ؛ لِأَنَّهُ أَقَامَهُ بَيْن الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَلَمْ يُنْكِرْهُ مُنْكِرٌ. وَاسْتَحَبَّ آخَرُونَ: تِسْعَةً وَثَلَاثِينَ رَكْعَةً؛ بِنَاءً عَلَى أَنَّهُ عَمَلُ أَهْلِ الْمَدِينَةِ الْقَدِيمِ
اس تحریر کا خلاصہ کلام یہ ہے کہ ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ مہاجرین و انصار کی جماعت کو بیس تراویح اور تین رکعات وتر پڑھاتے تھے۔ اکثر علماء نے اس کو سنت کہا کہ اس پر کسی مہاجر یا انصاری نے انکار نہیں کیا (بلکہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بھی انکار نہیں کیا)۔

وَقَالَ طَائِفَةٌ: قَدْ ثَبَتَ فِي الصَّحِيحِ عَنْ عَائِشَةَ {أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَكُنْ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلَا غَيْرِهِ عَلَى ثَلَاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً}
یہ مذکورہ حدیث تراویح سے متعلق ہے ہی نہیں۔ تراویح ہمیشہ عشاء کی نماز کے بعد پڑھنا ثابت ہے۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کابھی اور صحابہ کرام کابھی عمل ہے۔ جبکہ تہجد کا آخری عمل جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام سے ثابت ہے وہ آخر رات میں پڑھنے کا ہے۔ تہجدرات کے ہر حصہ میں پڑھی گئی ہے اور جائز ہے مگر تہجد آخر رات میں پڑھنا افضل ہے۔

وَاضْطَرَبَ قَوْمٌ فِي هَذَا الْأَصْلِ لَمَّا ظَنُّوهُ مِنْ مُعَارَضَةِ الْحَدِيثِ الصَّحِيحِ لِمَا ثَبَتَ مِنْ سُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ وَعَمَلِ الْمُسْلِمِينَ
خلفاء راشدین سے جو ثابت ہے وہ بیس رکعات تراویح ہے اور مسلمانوں کا اسی پر عمل ہے۔

قَدْ نَصَّ عَلَى ذَلِكَ الْإِمَامُ أَحْمَد رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَأَنَّهُ لَا يتوقت فِي قِيَامِ رَمَضَانَ عَدَدٌ فَإِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يُوَقِّتْ فِيهَا عَدَدًا
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ تراویح کی تعداد کا تعین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں۔
یہاں یہ بات بڑی اہم ہے کہ عائشہ صدیقہ والی حدیث جسے تراویح کی تعداد کے تعین کے لئے پیش کیا جاتا ہے وہ صحیح نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تراویح کی رکعات سے متعلق کوئی بھی روایت صحیح نہیں۔

وأبي بْنُ كَعْبٍ لَمَّا قَامَ بِهِمْ وَهُمْ جَمَاعَةٌ وَاحِدَةٌ لَمْ يُمْكِنْ أَنْ يُطِيلَ بِهِمْ الْقِيَامَ فَكَثَّرَ الرَّكَعَاتِ لِيَكُونَ ذَلِكَ عِوَضًا عَنْ طُولِ الْقِيَامِ وَجَعَلُوا ذَلِكَ ضِعْفَ عَدَدِ رَكَعَاتِهِ فَإِنَّهُ كَانَ يَقُومُ بِاللَّيْلِ إحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً أَوْ ثَلَاثَ عَشْرَةً ثُمَّ بَعْدَ ذَلِكَ كَانَ النَّاسُ بِالْمَدِينَةِ ضَعُفُوا عَنْ طُولِ الْقِيَامِ فَكَثَّرُوا الرَّكَعَاتِ حَتَّى بَلَغَتْ تِسْعًا وَثَلَاثِينَ.
یہ صرف موصوف کا اپنا فہم ہے اس کی کوئی دلیل نہیں۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
مجموع الفتاویٰ اور الفتاویٰ الکبریٰ کی تحریر میں کا فی فرق ہے۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام رمضان ( تراویح ) کی رکعات کا کوئی معین عدد ۔۔حتمی طور پر مقرر نہیں فرمایا۔۔
جناب عمر ؓنے سیدنا ابی بن کعب کی امامت میں ایک جماعت پر سب کو جمع کیا تو وہ ان کو بیس رکعت اور تین وتر پڑھاتے
علامہ ابن تیمیہ ؒ کی اس عبارت سے بظاہرمعلوم ہوتا ہے کہ انکے نزدیک تعداد رکعات تراویح میں توسع ہے ۔یعنی جائز ہے جو جتنی پڑھ لے ،
لیکن تحقیقی بات یہ ہے کہ ایسا نہیں ،بلکہ خود انہیں اقرار ہے کہ نبی اکرم ﷺ تیرہ رکعت سے زائد نہیں پڑھتے تھے ، تو ثابت ہوا کہ سنت عدد تو یہی ہے ،
محترم! معذرت کے ساتھ یہ کہنے کی جرءت کر رہاہوں کہ کیا امام ابن تیمیہ نے بغیر تحقیق کے یہ کہہ دیا جب کہ اس مذکورہ حدیث کا ان کو بھی علم تھا۔ تھا کہ نہیں؟

اور رہی بات سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے حکم کی تو صحیح بات ہے کہ جناب امام مالک نے حد درجہ صحیح سند سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا حکم نقل فرمایا ہے کہ :
’’
مَالِكٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، أَنَّهُ قَالَ: أَمَرَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ وَتَمِيمًا الدَّارِيَّ أَنْ يَقُومَا لِلنَّاسِ بِإِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً ‘‘
کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ابی بن کعب اور جناب تمیم داری رضی اللہ عنہما کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو (وتروں سمیت ) گیارہ رکعت پڑھائیں ‘‘
یہ روایت موطا جیسی عظیم اور مشہور کتاب اور دیگر کئی کتب حدیث میں بسند صحیح موجود ہے ؛ اور پیغمبر اکرم ﷺ کے عمل مبارک کے موافق بھی ہے
محترم! یہ حدیث صحیح بخاری میں مذکور حدیث کے خلاف ہے۔ ان دونوں میں یا تو تطبیق فرمادیں یا وجہ ترجیح بیان فرمادیں۔
 
شمولیت
مئی 30، 2017
پیغامات
93
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
52
السلام علیکم محترم اسحاق سلفی

اس حوالے سے شیخ ابن باز کا کیا موقف ھے ؟؟؟؟
 
Top