امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالیٰ نے تراویح کے متعلق ایک ہی بات تین چار مقامات پر لکھی ہے ۔۔۔انکے الفاظ درج ذیل ہیں :
12776 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
ترجمہ :
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام رمضان ( تراویح ) کی رکعات کا
کوئی معین عدد ۔۔
حتمی طور پر مقرر نہیں فرمایا۔۔
خود جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں تیرہ ۱۳ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے ؛ لیکن آپ ﷺ کی رکعات طویل ہوتی تھیں (یعنی ہر رکعت میں زیادہ قراءت کرتے تھے ) اور بعد میں جب جناب عمر ؓنے سیدنا ابی بن کعب کی امامت میں ایک جماعت پر سب کو جمع کیا تو وہ ان کو بیس رکعت اور تین وتر پڑھاتے ،اور رکعات کے زیادہ ہونے کی وجہ قراءت ہلکی ،تھوڑی ہوتی ، جو مقتدیوں کیلئے طویل رکعات کی نسبت آسان ااور ہلکی ہوتی؛
اور پھر بعد میں سلف کا ایک طائفہ وہ بھی تھا جو چالیس تراویح اور تین رکعت وتر پڑھتے تھے ؛
اور کچھ لوگ چھتیس رکعت تراویح اور تین رکعت وتر پڑھتے تھے؛ اور یہ سب صورتیں جائز تھیں یا جاری تھیں
اسلیئے ان میں جو صورت بھی اپنالی جائے ،وہ اچھی ہے؛
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علامہ ابن تیمیہ ؒ کی اس عبارت سے بظاہرمعلوم ہوتا ہے کہ انکے نزدیک تعداد رکعات تراویح میں توسع ہے ۔یعنی جائز ہے جو جتنی پڑھ لے ،
لیکن تحقیقی بات یہ ہے کہ ایسا نہیں ،بلکہ خود انہیں اقرار ہے کہ نبی اکرم ﷺ تیرہ رکعت سے زائد نہیں پڑھتے تھے ، تو ثابت ہوا کہ سنت عدد تو یہی ہے ،
اور رہی بات سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے حکم کی تو صحیح بات ہے کہ جناب امام مالک نے حد درجہ صحیح سند سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا حکم نقل فرمایا ہے کہ :
’’
مَالِكٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، أَنَّهُ قَالَ: أَمَرَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ وَتَمِيمًا الدَّارِيَّ أَنْ يَقُومَا لِلنَّاسِ بِإِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً ‘‘
کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ابی بن کعب اور جناب تمیم داری رضی اللہ عنہما کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو (وتروں سمیت ) گیارہ رکعت پڑھائیں ‘‘
یہ روایت موطا جیسی عظیم اور مشہور کتاب اور دیگر کئی کتب حدیث میں بسند صحیح موجود ہے ؛ اور پیغمبر اکرم ﷺ کے عمل مبارک کے موافق بھی ہے
اسلئے یہ کہنا صحیح نہیں کہ جناب عمر نے لوگوں کو بیس رکعت تراویح پر جمع کیا ؛
علامہ ابن تیمیہ ؒ کے ہم عصر مشہور حنفی عالم علامہ الزیلعی ( أبو محمد عبد الله بن يوسف بن محمد الزيلعي (المتوفى: 762هـ)) کا کہنا ہے :
وَعِنْدَ ابْنِ حِبَّانَ فِي "صَحِيحِهِ" عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّهُ عليه السلام قَامَ بِهِمْ فِي رَمَضَانَ، فَصَلَّى ثَمَانِ رَكَعَاتٍ، وَأَوْتَرَ،
نصب الراية لأحاديث الهداية ) کہ صحیح ابن حبان میں سیدنا جابر ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام کو رمضان میں آٹھ رکعت تراویح اورپھر وتر پڑھائے‘‘
اور علامہ ابن تیمیہ ؒ کے ہم عصر ’’ ابن الملقن سراج الدين أبو حفص عمر بن علي بن أحمد الشافعي المصري (المتوفى: 804هـ)
اپنی مایہ ناز تحقیقی کتاب ’’ البدر المنیر ‘‘ میں لکھتے ہیں :
ورُوِيَ عَن يزِيد بن رُومَان قَالَ: «كَانَ النَّاس يقومُونَ فِي زمن عمر بن الْخطاب بِثَلَاث وَعشْرين رَكْعَة» .
رَوَاهُ مَالك فِي «الْمُوَطَّأ» (وَالْبَيْهَقِيّ) لكنه مُرْسل؛ فَإِن يزِيد بن رُومَان لم يدْرك عمر.
کہ یزید بن رومان نے سیدنا عمر ؓ کے دور میں تیئیس ۲۳ رکعات تراویح پڑھنے کی جو روایت بیان کی ہے وہ مرسل ہے کیونکہ یزید بن رومان نے جناب عمر ؓ کا دور پایا
ہی نہیں ‘‘
اور اصول حدیث کے مطابق ’’ مرسل ‘‘یا ’’ منقطع ‘‘ روایت ضعیف ہوتی ہے ،قابل استدلال نہیں ہوتی؛