- شمولیت
- جون 21، 2019
- پیغامات
- 97
- ری ایکشن اسکور
- 2
- پوائنٹ
- 41
[emoji421]محمد عبد الرحمن کاشفی
الجواب و باللہ التوفیق.
صحیح بخاری کی ایک روایت میں تراویح کے تعلق سے یہ کلمات موجود ہیں کہ:-
أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّهُ لَمْ يَخْفَ عَلَيَّ مَكَانُكُمْ لَكِنِّي خَشِيتُ أَنْ تُفْرَضَ عَلَيْكُمْ فَتَعْجِزُوا
مجھے تمہاری اس حاضری سے کوئی ڈر نہیں لیکن مجھے اس بات کا خوف ہے کہ کہیں یہ نماز تم پر فرض نہ کر دی جائے، پھر تم سے یہ ادا نہ ہو سکے-
في الصحيحين عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ إِنْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيَدَعُ الْعَمَلَ وَهُوَ يُحِبُّ أَنْ يَعْمَلَ بِهِ خَشْيَةَ أَنْ يَعْمَلَ بِهِ النَّاسُ فَيُفْرَضَ عَلَيْهِمْ ... رواه البخاري ( الجمعة/1060 ) ومسلم (صلاة المسافرين/1174)
صحیحین میں یہ بھی آتا ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہانے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک کام کو چھوڑ دیتے اور آپ کو اس کا کرنا پسند ہوتا۔ اس خیال سے ترک کردیتے کہ دوسرے صحابہ بھی اس پر ( آپ کو دیکھ کر ) عمل شروع کر دیں اور اس طرح وہ کام ان پر فرض ہوجائے۔
پس کسی عمل سے محبت کے باوجود محض اس لئے اسے ترک کر دینا کہ کہیں وہ عمل امت پر فرض نہ ہوجائے، اس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پر شفقت اور کامل محبت کے ساتھ ساتھ از خود اس عمل کی اہمیت بھی معلوم ہوتی ہے.
ایسی صورت میں قاعدہ یہ ہے کہ جب کسی عمل میں مداومت کو محض خشیتِ فرض کی بناء پر ترک کر دیا جائے تو صاحب وحی یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد دوبارہ وہ عمل سنیت کی طرف لوٹ آتا ہے-
پس جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے رخصت فرما گئے تو نماز تراویح کی فرضیت کا امکان بھی باقی نہیں رہا -
بعد ازاں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس عمل کی فضیلت کا ادراک کرتے ہوئے پورے رمضان میں باقاعدگی کے ساتھ اور پابندی سے نماز تراویح ادا کرتے رہے چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ ابی ابن کعب اور تمیم الداری رضی اللہ عنہما کو با جماعت تراویح قائم کرنے کا حکم بھی دیا-
مطلب یہ ہوا کہ جب علت زائل ہوگئی یعنی فرضیت کا خوف دور ہوگیا تو اس عمل کی اہمیت اور فضیلت برقرار رہنے کے ساتھ اس عمل کو انجام دینا باعث اجر و ثواب بھی کہلائےگا-
خلاصہ یہ ہے کہ اگر تراویح سنت مؤکدہ نہ ہوتی تو اس عمل کا اتنا زیادہ اہتمام قرون مفضلہ میں نہ کیا جاتا-
Sent from my BKL-L09 using Tapatalk
الجواب و باللہ التوفیق.
صحیح بخاری کی ایک روایت میں تراویح کے تعلق سے یہ کلمات موجود ہیں کہ:-
أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّهُ لَمْ يَخْفَ عَلَيَّ مَكَانُكُمْ لَكِنِّي خَشِيتُ أَنْ تُفْرَضَ عَلَيْكُمْ فَتَعْجِزُوا
مجھے تمہاری اس حاضری سے کوئی ڈر نہیں لیکن مجھے اس بات کا خوف ہے کہ کہیں یہ نماز تم پر فرض نہ کر دی جائے، پھر تم سے یہ ادا نہ ہو سکے-
في الصحيحين عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ إِنْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيَدَعُ الْعَمَلَ وَهُوَ يُحِبُّ أَنْ يَعْمَلَ بِهِ خَشْيَةَ أَنْ يَعْمَلَ بِهِ النَّاسُ فَيُفْرَضَ عَلَيْهِمْ ... رواه البخاري ( الجمعة/1060 ) ومسلم (صلاة المسافرين/1174)
صحیحین میں یہ بھی آتا ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہانے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک کام کو چھوڑ دیتے اور آپ کو اس کا کرنا پسند ہوتا۔ اس خیال سے ترک کردیتے کہ دوسرے صحابہ بھی اس پر ( آپ کو دیکھ کر ) عمل شروع کر دیں اور اس طرح وہ کام ان پر فرض ہوجائے۔
پس کسی عمل سے محبت کے باوجود محض اس لئے اسے ترک کر دینا کہ کہیں وہ عمل امت پر فرض نہ ہوجائے، اس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پر شفقت اور کامل محبت کے ساتھ ساتھ از خود اس عمل کی اہمیت بھی معلوم ہوتی ہے.
ایسی صورت میں قاعدہ یہ ہے کہ جب کسی عمل میں مداومت کو محض خشیتِ فرض کی بناء پر ترک کر دیا جائے تو صاحب وحی یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد دوبارہ وہ عمل سنیت کی طرف لوٹ آتا ہے-
پس جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے رخصت فرما گئے تو نماز تراویح کی فرضیت کا امکان بھی باقی نہیں رہا -
بعد ازاں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس عمل کی فضیلت کا ادراک کرتے ہوئے پورے رمضان میں باقاعدگی کے ساتھ اور پابندی سے نماز تراویح ادا کرتے رہے چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ ابی ابن کعب اور تمیم الداری رضی اللہ عنہما کو با جماعت تراویح قائم کرنے کا حکم بھی دیا-
مطلب یہ ہوا کہ جب علت زائل ہوگئی یعنی فرضیت کا خوف دور ہوگیا تو اس عمل کی اہمیت اور فضیلت برقرار رہنے کے ساتھ اس عمل کو انجام دینا باعث اجر و ثواب بھی کہلائےگا-
خلاصہ یہ ہے کہ اگر تراویح سنت مؤکدہ نہ ہوتی تو اس عمل کا اتنا زیادہ اہتمام قرون مفضلہ میں نہ کیا جاتا-
Sent from my BKL-L09 using Tapatalk