"ایک تو گھنٹےسے انہیں کہہ رہی ہوں۔۔مجال ہے جو سنیں۔۔جلدی ختم کرو کھانا۔بیگ؟؟بیگ کہاں ہیں؟؟سب پھیلا دیے ہیں۔۔توبہ۔۔اتنا ستاتے ہیں یہ ٹیوشن سنٹر جاتے ہوئے۔۔اللہ میری پناہ!!"وہ بچوں کو ڈپٹتی گھرکتی بیگ پہنا رہی تھیں۔"آئے ہائے!!ٹیوشن والی کے پاس بھی جانا تھا۔۔آج کل بالکل محنت نہیں کروا رہی۔سارا کام بچوں کو گھر آ کر کرنا پڑتا ہے۔کل تو صہیب رات گیارہ بجے سویا ہے۔"بچوں کو بھیج کر وہ میرے ساتھ باتیں کرنے لگیں۔
"اتنے مسائل ہیں تو آپ بچوں کو خود گھر میں کیوں نہیں پڑھا لیتیں؟؟"ایسے ہی میرے دل میں آیا تو پوچھ لیا۔
"اب آپ کو تو پتا ہے کہ کتنے کام ہوتے ہیں۔۔سارا گھر۔۔روز مشین لگاؤ،یونیفارم دھوؤ۔برتن دھوؤ،کھانا پکاؤ۔۔اتنے ڈھیر کام کون کرے؟؟میرے کون سا سسرال،میکہ یہاں ہے کہ ساتھ ہاتھ بٹا دیں گے۔بچوں کے آنے پر تھکاوٹ سے چور ہو جاتی ہوں۔۔بھلا انہیں کیسے پڑھاؤں؟"وہ روٹین بتانے لگیں۔
"واقعی!!یہ کام اہم ہو گئے ہیں بچوں سے۔۔کل ان کاموں نے ہی تو صدقہ جاریہ بننا ہے!!"میں نے طنزا دل میں سوچا اور ساتھ ہی اپنی اس سوچ کا بھی بر وقت جنازہ نکالا کہ کام والی کسی طور نہیں رکھنی چاہیے۔
تین ہزار پر کام والی رکھنا مناسب ہے بجائے تین ہزار ایک بچے کی ٹیوشن فیس دینے کی!!